اردن سے مکتوب

بسم اللّٰه الرحمن الرحیم


من أبي عبد اللہ خالد بن أحمد العلاونة إلی أخیه الدکتور؍حافظ عبد الرحمٰن مدنی     حفظه الله ورعاه

                        السلام علیکم ورحمة اللّه وبرکاته ، أمابعد:

            فإننی أحمد اللہ إلیکم وأصلی وأسلم وأبارك علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه أجمعین وعلی من تبعهم بإحسان إلی یوم الدین۔

            الأخ الحبیب والأستاذ الفاضل… لقد کانت الشمس تغیب في کل یوم وکان غیابها بالنسبة لنا أمر طبیعي، ولکنها في یومنا هذا الثاني والعشرین من جمادي الآخرة من عام ألف وأربع مائة وعشرین لهجرة المصطفیٰ ﷺ وقبل غیابها بقلیل غاب نجم أنار الدنیا علمه وأنار القلوب فهمه وأضاء الدنیا بأسرها بصحیح سنة المصطفی ﷺ۔

            لقد غاب النجم الأکبر ولکنهٗ خلّف من بعده أقمارا کثیرة من أمثالکم أستاذنا الفاضل، لقد غاب عن الدنیا أستاذها الفاضل وعالمها الهمام وقمرها النیّر، لقد غاب ناصر السنة وقامع البدعة ومحي الأثر شیخنا وحبیبنا وأستاذنا الإمام الحجة الثبت القدوة عالم الأرض فی زمانه وزینة أهل السنة والأثر۔

لقد غاب محمد ناصر الدین الألبانی لیلقی ربه بعد أن قضی نحبه وبعد أن کان فی حیاته وطیلتها لا یغادر قلمه یده ذابّا عن سنة حبیبه المصطفی ﷺ حتی ورثه بکل معنی الإخلاص والجد والجهد والعمل۔ فإنا لله وإنا إلیه راجعون، وعزاؤنا أنه مات قبله سید الأنبیاء والمرسلین فلله ما أخذ ولله ما أعطی وکل شییٔ عنده بأجل وإن العین لتدمع وإن القلب لیحزن ولا نقول إلا ما یرضی ربنا تعالیٰ۔

            أخي الحبیب الأستاذ الدکتور حافظ عبد الرحمٰن مدني حفظه اللہ، في هذہ المناسبة لا بدّ لی أن أبشرك بأن شیخنا قد مات وهو راض عنک ولك في قلبه مکان کبیر، فقبل شهور قلیلة وعند ما کان شیخنا یجلس معي في سیارتی تذاکرت معه رحلتی إلی باکستان فسألني عنها وعن أحوالها وعند ما ذکرتك له قال لی:

’’إن طلاب العلم في القارة الهندیة من أحسن وآدب طلاب العلم في العالم الإسلامی وإن الدکتور

                        حافظ عبد الرحمن مدنی من أحسنهم أخلاقا وآدبهم۔‘‘

ویومها سألته سؤالا وقلت له: ربما یکون هذا السؤال غریبا۔فقلت: شیخنا! … لو أنک استقبلت من عمرک ما استدبرت- ماذا کنت فاعلا؟ فقال شیخنا، حفظه اللہ ورحمه، وقد قبض یده وهزّها وهی ترتجف ونظر إلیَّ نظرته المعهودة نظرة الصقر، قال: ’’ أمضي قُدُما في خدمة السنة۔‘‘

رحم اللہ شیخنا وأسکنه فسیح جنانه وجمعنا بکم وإیاه فی زمرة المصطفیﷺ وأصحابه الطاہرین تحت لواء الحمد وعلی الحوض الأکبر بفضله ومنّه وکرمه، وإنا لله وإنا إلیه راجعون وحسبنا اللہ ونعم الوکیل ولا حول ولا قوة إلا بالله العظیم، وسلامی إلی جمیع الإخوة عندکم الشیخ؍ حسن والأخ حسین والأخ یوسف وجمیع من بطرفکم من الإخوة۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید الأولین والأخرین نبینا محمد وعلی آله وصحبه الطاهرین۔ والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاته۔                                     وکتب أخوکم

                                                                                                أبو عبد اللہ خالد بن أحمد العلاونة ابن الدیار الشامیة المبارکة

                                                                                           بعد منتصف لیلة الأحد ۲۳؍جمادی الاخرة؍۱۴۲۰هـ

   ترجمہ :ابو عبداللہ خالد بن احمد العلاونہ کی طرف سے اپنے بھائی حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کی طرف!

            السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ         اللہ کی تعریف اور حمد وثنا کے بعد !

عزیز بھائی اورمحترم اُستاد !سورج روز ہی غروب ہوا کرتا ،اس کا غروب ہونا ہمارے لئے ایک معمول کی بات تھی، لیکن ۲۲؍جمادی الاخرۃ ۱۴۲۰ھ کے دن ،غروب ِشمس سے چند لمحے قبل وہ ستارہ بھی ڈوب گیا جس نے اپنے علم سے دنیا کو منوراور اپنے فہم و بصیرت سے دلوں کو روشن کررکھا تھا ۔جس نے دنیا بھر میں صحیح سنت ِمصطفی کی شمع فروزاں کررکھی تھی !! بڑا ستارہ تو غروب ہو گیا لیکن اپنے پیچھے آپ جیسے بہت سے قمر چھوڑ گیا !!

یااستاذِ محترم!دنیا سے اس کا عظیم معلم ،نامور عالم اور روشن ستارہ غائب ہو گیا ۔سنت کو زندہ کرنے اوربدعات کا قلع قمع کرنے والے احادیث کے مدد گار ہمارے محبوب ترین استاذ، امام ،حجت ،قدوہ ، اپنے دور کے ممتاز ترین عالم اور اہل سنت کی زینت دنیا سے رخصت ہوگئی ۔شیخ محمد ناصرالدین البانی اپنا مشن مکمل کرکے اللہ تعالیٰ سے جاملے …انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اس حیات ِسعید میں ان کے قلم نے حبیب ِمصطفی کی سنت سے ہر آلائش کو دور کرنے میں کبھی کمی نہیں کی اور ہرممکنہ خلوص ،محنت ومشقت اورمسلسل کام کے ذریعے آپ اس میں مگن رہے ۔ہمیں یہ بات کافی ہے کہ اس سے قبل سید الانبیاء والمرسلین نے بھی دنیا سے رحلت فرمائی…

’’اللہ کا ہی ہے جو اس نے عطا کیا ،اور ہر چیز اس کے ہاں ایک ایک وقت مقرر تک ہے ۔ بلاشبہ آنکھیں بہتی ہیں اوردل غمگین ہے لیکن زبان سے وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب ہم سے راضی رہے ‘‘

عزیز بھائی حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ !اسی مناسبت سے میں یہ خوشخبری آپ کو دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے شیخ نے اس طرح رحلت کی کہ وہ آپ سے راضی تھے او ران کے دل میں آپ کے لئے ایک بلند مقام تھا ۔ چند ماہ قبل جب ہمارے شیخ البانی میرے ساتھ میری گاڑی میں تھے ،میں نے ان سے اپنے لاہور کے سفرکا تذکرہ کیا تو آپ مجھ سے ان علاقوں اور ان کے حالات کے بارے میں پوچھتے رہے ، جب میں نے آپ کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگے : ’’دنیائے اسلام میں سب سے اچھے اور سب سے مؤدب طالبانِ علم برصغیر کے ہیں اور حافظ   عبد الرحمن مدنی ان میں اَخلاق وآداب کے لحاظ سے ممتاز ترین ہیں !!‘‘

ایک روزمجھے شیخ البانی سے بات چیت کا موقع ملا تو میں نے کہا : شیخنا! شاید کہ یہ سوال عجیب سا ہو لیکن پھر بھی بتائیے کہ وہ عمر جو آپ گزار چکے ہیں ،اگر دوبارہ آپ کو مل جائے تو آپ کیا کریں گے؟ ہمارے شیخ نے (اللہ ان پر رحم فرمائے )نے اپنے ہاتھ کو بند کیا ،اس کو ہلایا او روہ کانپ رہا تھا ،میری طرف عقاب سی تیز نظروں سے دیکھا او رکہنے لگے :         ’’میں سنت ِنبویہ کی خدمت میں ہی (اس زندگی کو )بھی گزاردوں گا ‘‘

اللہ تعالی ہمارے شیخ پر رحم فرمائے ،انہیں کشادہ باغات میں داخل فرمائے آپ کو اور ہمیں نبی اکرم اور صحابہ کرام کی جماعت ،ان کے جھنڈے تلے اور بڑے حوض پر اپنے فضل وکرم او راحسان کے ساتھ جمع فرمائے إنا للہ وإنا إلیه راجعون ، حسبنا اللہ ونعم الوکیل ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلي العظیم !

میری طرف سے حافظ حسن ،حافظ حسین او ربھائی یوسف (ناظم جامعہ )او راپنے سب اقارب کو سلام کہئے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین !     آپ کا بھائی:   ابو عبداللہ خالد بن احمد علاونہ (بلادِ شام کا باشندہ )

                                                   اتوار ۲۳؍جمادی الاخرۃ کو نصف رات کے بعد لکھا گیا

۳؍اکتوبر کو مدیر اعلیٰ کی طرف سے دنیا بھر میں پھیلے شیخ البانی کے چیدہ شاگردوں کو تعزیتی خطوط ارسال کئے گئے ۔ اِدارہ

دورِ حاضر کے مایہ ناز محدث اور شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ محقق شیخ البانی انتقال کر گئے!

محترم ومکرم شیخ البانی جس انداز سے مجھے شرفِ ملاقات دیتے او رخصوصی وصیتوں سے نوازتے رہے، وہ بالکل روحانی باپ کی کیفیت تھی۔ میں بھی ان سے بہت نجی ملاقات میں اسی طرح اپنی قلبی کیفیتوں کا ذکر کرکے رہنمائی لیا کرتا۔ اتفاق دیکھئے کہ ان کی وفات میرے والد حافظ محمد حسین ؒ کے پورے ۴۰ سال بعد ہوئی یعنی والد مرحوم ۲؍اکتوبر ۱۹۵۹ء بروز جمعہ قبل اذانِ فجر ( مطلع الفجر) فوت ہوئے او رشیخ مرحوم بروز اتوار غروبِ شمس سے ذرا قبل رِحلت فرما گئے۔إنا للہ وإنا إلیه راجعون ! (مدیر اعلیٰ)

نوٹ : گذشتہ ماہ شیخ البانی کے معروف شاگر د شیخ سلیم الہلالی اُردن سے لاہور پہنچے او ر۶؍نومبر ۹۹ء کی شام کوادارئہ محدث میں مدیر اعلیٰ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے …اسی طرح برطانیہ سے شیخ البانی کے شاگرد بھی آ پؒ کی وفات کے چند دنوں بعد ادارئہ محدث میں تشریف لائے اور مدیر اعلیٰ سے ملاقات کرنے کے ساتھ مجلس التحقیق الاسلامی اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مشترکہ اجلاس سیخطاب کیا او رشیخ البانی کے لئے اجتماعی دعا کروائی۔           (ادارہ)

دور حاضر کے مایہ ناز محدث اور شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ محقق شیخ البانی انتقال کر گئے!

عالم اسلام کے عظیم مفکر،دورِ حاضر کے مایہ ناز محدث اور شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ محقق شیخ محمد ناصر الدین البانی ۲؍اکتوبر کوشام ۶بجے ، اردن کے دار الحکومت عمان میں ۸۵ برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اس خبر کے ساتھ ہی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آپ کے ہزاروں شاگردوں اور لاکھوں عقیدتمندوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز شریعت وقضا کے ایک تعزیتی اجتماع میں حافظ عبد الرحمن مدنی (مینیجنگ ڈائریکٹر فلاح فائونڈیشن پاکستان ) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس زمانے میں ائمہ سلف کی نشانی اور علم وتحقیق کی آبرو تھے۔ بالخصوص فن حدیث میں آپ کی تحقیقی خدمات اس قدر عظیم ہیں کہ آپ دورِ حاضر میںسند اورحرفِ آخر کی حیثیت رکھتے تھے۔اسلام کے متنوع موضوعات پر گذشتہ نصف صدی کے عرصے میں شاذ ونادر ہی کوئی ایسی کتاب شائع ہوئی ہوگی جس میں آپ کی حدیث پر خدمات سے بھرپور استفادہ نہ کیا گیا ہو۔

شیخ محمد ناصر الدین البانی نے اپنے وطن مالوف البانیہ (یورپ) سے ہجرت کی اورملک شام میں تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد حرمین شریفین میں طویل عرصہ دینی خدمات انجام دیتے رہے ۔ آپ گذشتہ چند برسوں سے اُردن میں مقیم تھے۔ سنت ِنبوی پرآپ کا اس قدر عظیم الشان کام تھا کہ اس مقصد کے لئے مختص بیسیوں اداروں پر آپ کی تنہا خدمات زیادہ بھاری نظر آتی ہیں۔۷۰ کی دہائی میں مدینہ یونیورسٹی میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تدریس کے دوران آپ کے ارد گرد تشنگانِ علم کا ہجوم ائمہ محدثین کے دورکی جھلک دکھایا کرتا۔ آپ نے مختلف اسلامی علوم میں نہایت امتیازی تحقیقی کام کیااورتادمِ واپسیں اسی میں مصروف رہے۔

تقریباً ۴ ماہ قبل مفتی ٔاعظم سعودی عرب کی وفات کے بعد عالم عرب بالخصوص اور دیگر عالم اسلام میں بالعموم علمی حلقوں کے لئے یہ دوسرا شدید دھچکا ہے جس کے بعد طبقہ علماء ایک لحاظ سے یتیم نظر آتا ہے۔ سعودی عرب کے مرحوم مفتی اعظم آپ کی خدمات سے اس قدر متاثر تھے کہ ہمیشہ آپ کی شخصیت کو اپنے لئے نمونہ قرار دیتے۔آپ علماء کے اس مبارک گروہ کے سرتاج تھے جن کے نام سے طالبانِ حق کے دل دھڑکتے ہیں۔بڑے وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی علمی دنیا کا رواں صدی کا یہ سب سے بڑا سانحہ ہے آپ کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے شاید سینکڑوں اداروں کی مشترکہ خدمات بھی ناکافی ہوں گی۔

آپ نے پوری عمر بڑی محنت ومشقت میں گزاری اور وفات تک مسلسل علمی کاموں میں شب وروز مشغول رہے۔آپ کے دنیا بھر کے عقیدتمندان کی جمعیت آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب رہتی لیکن شیخ البانی اپنے وقت اور مصروفیات کو مفیدبنانے کی غرض سے بڑی شاذ ونادر ملاقات کا شرف بخشتے۔

شیخ البانی کی زندگی کھلی ہوئی علماء کے لئے اسوہ اور کھلی کتاب کی مانندتھی۔آپ اپنی دینی خدمات،بے نظیرتصنیفات،مقالات، تحقیقات تالیفات و تخریجاتِ احادیث ِنبویہ کی وجہ سے عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اہل علم کے درمیان خصوصیت سے معروف تھیـ۔آپ کو حدیث ِنبوی، رجال اور اسانید پر عبور حاصل تھا۔ جس انداز سے آپ نے دین اسلام کی بے لوث خدمت انجام دی ہے، وہ قابل شکر و امتنان اور لائق مبارکباد ہیـ۔ اس وقت علم حدیث میں آپ کا کوئی ہمسر اور ثانی نظر نہیں آتا ـ۔ محدث مرحوم سینکڑوں کتابوں کے مصنف و محقق، حسن اخلاق کے پیکر، بزرگ عالم دین اور شب ِزندہ دار انسان تھے۔ حق گوئی، راست بازی او ربے باکی آپ کا امتیازی وصف رہا۔ حکومت و اشخاص کی خوشامداور چاپلوسی سے آپ کو سخت نفرت اور چڑ تھی اور اسی وجہ سے آپ کو اپنے وطن مالوف اور بعض دوسری جگہوں کو احقاقِ حق کے لئے خیرباد کہنا پڑا۔

آپ کا وجود ملت ِاسلامیہ کے لئے بہت بڑی نعمت تھاـ۔ عرصہ دراز سے آپ زبان و قلم کے ذریعہ دین اسلام کی خدمت انجام دے رہے تھے۔ آپ نے لمبی عمر پائی لیکن عالم پیری میں بھی آپ کا قلم دورِ ِحاضر کے مفکروں او ردانشوروںسے زیادہ زور آور رہا ۔عالم اسلام کے تمام علماء کی مسلک و مذہب کے استثناء کے بغیر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ سنن اربعہ کی صحیح و سقیم روایتوں کو الگ کردیتے تاکہ اہل علم صحیح روایات سے استدلال کرتے۔ اس عظیم کام کا بار بھی آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا اور باحسن و خوبی انجام دیا۔ ہر ایک کتاب کی صحیح و ضعیف روایتوں کو الگ کرکے کتابی شکل دے کر طباعت کے حوالے کردیا جو چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ علم حدیث کا کوئی بھی طالب علم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا آپ کی علمی کاوشوںاور تحقیق و تخریج سے مستغنی نہیں ہوسکتاـ۔ اس لئے آپ کی شخصیت علمی مصدر و مرجع کی حیثیت رکھتی تھی۔

گذشتہ دنوں سالِ رواں (۱۴۱۹ھ مطابق ۱۹۹۹ء) کا عالمی شاہ فیصل ایوارڈ برائے ’’تحقیقاتِ اسلامی و خدماتِ حدیث‘‘ ملک شام کے محدثِ نبیل، فقیہ بے مثیل،بقیۃ السلف، یگانہ روزگار علامہ زماں شیخ محمد ناصر الدین البانی کو دیا گیا تھا ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ البانی کی علمی شخصیت اس ایوارڈ سے کہیں زیادہ بالاتر اور وقیع تھی ـ۔ یہ آپ کی خدمات کا ایک ادنیٰ اعتراف ہیــــ۔اس ایوارڈ سے آپ کی شخصیت کی علمی وجاہت میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس ایوارڈ کا اعزاز اور اعتماد دوچند ہوا ہے۔

کچھ عرصہ سے آپ سینہ او رآنتوں کی انفیکشن کا شکار تھے۔ بالاخر یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی ۔اللہ آپ کی تحقیقی خدمات کو قبول فرمائے، مسلمانوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے او رآپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ـ ۔ آمین!           ( پریس ریلیز)