شیخ البانی کی رِحلت پر پاکستانی علماء کے تاثرات

محدث ِجلیل شیخ البانی کی وفات پر ادارئہ محدث نے معروف اہل علم سے اپنے تاثرات لکھنے کی درخواست کی ۔وقت کی قلت کی وجہ سے بہت سے علماء سے رابطہ نہیں ہوسکا اور بہت سے کم فرصت میں ارسال نہیں کرپائے۔ حاصل ہوجانیوالے تاثرات ہدیہ قارئین ہیں۔بعد میں موصول ہونے والے مضامین او رتاثرات آئندہ اشاعتوں میں ان شاء ا للہ شائع کئے جاتے رہیں گے۔ادارہ

(1)   مولانا حافظ ثنا ء اللہ مدنی ( مفتی ؍شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ، رحمانیہ)

علامہ البانی ؒسے ایک تعارف


محدث ُالعصر علامہ البانی ؒ کی حیاتِ طیبہ پر نگاہ ڈالنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے اس مردِ مجاہد کو صرف اور صرف حدیث کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ آج ساری دنیا میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ۔اس دور میں علم کے بڑے بڑے دعویدار اور البانی کے شدید ترین مخالفین بھی ا نہی کے خوشہ چین نظر آتے ہیں … ذلک فضل اللہّٰ یوتیہ من یشاء

آپ نے حدیث پر اپنی خدمات کو نئے سرے سے ایسے انداز میں پیش کیا کہ اوائل محدثین کی یاد تازہ کر کے بے حس قوم میں بیداری کی روح پھونک دی ـ۔کثرتِ تصانیف اور تلامذہ کا ایک وسیع عریض حلقہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے جو تاقیامت ان کے لیے صدقہ جاریہ کی صورت میں قائم ودائم رہے گا ـ۔ ان شاء اللہ… اللہ کے اس بندے نے دنیا بھر میں اپنی علمیت کا ایسا لوہا منوایا کہ موافق و مخالف سب طوعاً وکرہاً ان کی خدماتِ جلیلہ کے معترف نظر آتے ہیں۔ ـ قحط الرجال کے اس دور میں آج کون ذی علم ہے جو علامہ البانی کی شخصیت سے ناواقف ہو؟ سلف صالحین کے وضع کردہ قواعد وضوابط کے مطابق احادیث کو پرکھنے کا ایک ایسا معیار مقرر کر دیا جس سے مبتدی او رمنتہی یکساں مستفید ہو سکتے ہیں جزاہ اللہ أحسن الجزاء

موصوف سے میرے تعارف کا آغاز اس وقت ہوا جب ۱۹۶۲ء میں حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ؒ کی مساعی جمیلہ سے مجھے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ملا ۔وہاں کبا ر شیوخ اور اساطین العلم کے علمی ماحول میں طلبہ کو سب سے زیادہ عقیدت ومحبت علامہ مرحوم سے تھی۔ اس کی بنیادی وجہ ان کا ٹھوس علم اور خلق عظیم کاحامل ہوناتھا ـ۔فہم و تفہیم کے انداز میں گفتگو کرنا اور دوسرے کی بات کو نہایت متانت وسنجیدگی سے سننا ان کا طرئہ امتیاز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کلاسوں کے علاوہ درمیانی فسحۃ کبیرۃ (بڑا وقفہ) میں کھلے میدان میں ان کی علمی مجلس عموماًلگ جاتی جس سے طلبہ کے متعدد اِشکالات رفع ہو جاتے ـ۔ اس زمانے میں جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ کی طرف سے ہر جمعرات کو رحلہ علمیہ (علمی ٹرپ) کا بندوبست ہوتا تھاجس کے لیے ہر سہولت جامعہ کی طرف سے میسر کی جاتی تھی مثلاً بسوں کا انتظام ، کھانے پینے اور رہائش کے جملہ مسائل۔موصوف کی قیادت میںکسی تاریخی مقام کو منتخب کر کے وہاں ڈیرے ڈال دئیے جاتیـ۔ بیشتر وقت سوال وجواب کی صورت میں علمی گفتگو میں صرف ہوتا ـاور نمازِ تہجد کے علاوہ صبح کی نماز کے بعد قرآن کی تلاوت لازماً ہر ایک کو کرنا ہوتی تھی ۔ اسی طرحکچھ وقت جہادی تیاری کے لیے دیا جاتا پھر جمعہ کی شام کو مغرب او رعشاء کو جمع کر کے پڑھنے کے بعد واپسی ہوتی ۔

ایک دفعہ غالباً ذات السلاسل مقام پر بھر ی مجلس میں، میں نے آپ سے دریافت کیا کہ حضرت جوتا سامنے رکھ کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: جائز ہے۔ میں نے کہا کہ طبرانی صغیر کی روایت میں ممانعت وارد ہے، کہا :اس میں ایسی کوئی روایت نہیں میں نے بالتکرار کہا : کہ موجود ہے۔ احسان الٰہی ظہیرمرحوم جو ہمارے ساتھ تھے، بولے:اس بات کو چھوڑیئے، شیخ نے بیس مرتبہ اس کتاب کو پڑھا ہے اس میں روایت نہیں۔ اس زمانے میں بازار میںطبرانی صغیر دستیاب نہیں تھی، اس کا ایک پرانا نسخہ طبعہ ہند، مکتبہ عارف حکمت سے مجھے مل گیا تو وہاں سے وہ روایت نقل کر کے آ پ کو دی اس کا جواب جو آپ نے اپنے قلم سے دیا، اس کی فوٹو قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں:            (روایت کے الفاظ یوں ہیں)

«حدثنا محمد بن أحمد بن البراء البغدادي ثنا علی بن الجعد ثنا أبوسعید الشقري عن زیاد الجصاص عن عبد الرحمن بن أبی بکرة عن أبیه عن النبی ﷺ قال إذا خلع أحدکم نعلیه في الصلوة فلا یجعلهما بین ید فیأتم بهما ولا من خلفه فیأتم بهما أخوه المسلم ولکن لیجعلھما بین رجلیه لم یروه عن زیاد إلا سعید الشقري البصري تفرّد به علی بن الجعد ولا یروی عن أبی بکرة إلا بهذا الإسناد» (معجم صغیر للطبرانی ص ۱۶۵ ، مطبع أنصاری، دھلی)

’’اس کی سند شدید ضعیف ہے کیونکہ اس میں زیاد الجصاص اصل میں ابن ابی زیاد ہے جس کے بارے میں علامہ ذہبی نے میزان میں کہا کہ ’’ابن معین اور ابن المدینی کے بقول اس کی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔ اور ابوزرعہ نے کہا کہ ’’یہبے کار ہے‘‘ ۔جبکہ نسائی اور دار قطنی نے اسے ’متروک‘ قرار دیا ہے ۔ ابن حبان نے الثقات میں اس کے بارے میں وہمی ہونے کی علت ذکر کی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ ’’اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے‘‘

مزید کہتا ہوں کہ اس سے روایت کرنے والا راوی ابو سعید شقری جس کا نام مسیب بن شریک ہے وہ بھی اس کی طرح ضعیف بلکہ ضعف میں اس سے شدید تر ہے۔ اس کے بارے میں ابن معین نے لیس بشیٔ کہا ہے ۔او رامام احمد کے بقول لوگوں نے اس سے حدیثوں سنناترک کردیا ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں ائمہ فن خاموش ہیں۔ مسلم اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ متروک ہے۔ فلاس ؒکے مطابق متروک الحدیث ہے۔ اہل علم کا اس سے حدیث نہ لینے پر اتفاق ہے۔ الساجی کہتے ہیں کہ متروک الحدیث ہے اور منکرروایات بیان کیا کرتا ہے‘‘

پھر یہ نقد اور دیگر مسائل پر ان کے خیالات کے بارے میں ہم نے محدث روپڑیؒ کو لکھ بھیجا جس پر انہوں نے بزبانِ عربی کافی وافی اور تفصیلی تبصرہ کیا جن کا اردو ترجمہ ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور میں چھپ چکا ہے۔ ا س تبصر ہ کو پھر ہم نے علامہ موصوف کی خدمت میں پیش کیا تو جواباً فرمایا: لي أوہام وله أوہام ولا أطول البحث ’’اس بارے میں مجھے بھی کچھ مغالطے ہیں او رانہیں بھی ، میں اس بحث کو مزید طول نہیں دینا چاہتا‘‘

اس طرح ایک دفعہ مسئلہ فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر میں نے محدث روپڑی ؒکی عربی تصنیف الکتاب المستطابپیش کی، چند روز پڑھ کر خاموشی سے واپس کر دی، کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔

ہمارے استاذ شیخ ابن باز ؒ کی عادت تھی کہ جب مجلس میں شیخ البانی ہوتے تو سب مشاغل کو ترک کر کے علمی گفتگو میں مصروف ہوجاتے ۔اس منظر کا ایک دفعہ میں نے طائف میں بھی مشاہدہ کیا تھا۔

(یہ چند سطور میں ۲۱ ؍نومبر کو کراچی سے لاہور واپسی پر جہاز میں تحریر کرسکا ہوں، تفصیلی مضمون بعد میں لکھوں گا، ان شاء اللہ )

(2) مولانا محمد رمضان سلفی (نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ)

محدث ُالعصر شیخ محمد ناصرالدین البانی ؒ!


رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے :«إن الله عز وجل یبعث لهذا الأمة علی کل مائة سنة من یجدّد لها دینها» (سنن ابوواد )’’ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں ایسے شخص کو لاتے ہیں جو اس امت کی اصلاح کے لئے احیاءِ دین کا فریضہ سرانجام دیتا ہے ۔

صحابہ کرام اور تابعین عظام کے بعد ایسی شخصیا ت کی تعداد اگرچہ بے شمار ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کے لئے عدم سے وجود بخشا ‘لیکن ہم ایک ایسے مجدد ِدین وملت کا ذکر خیر کرنا چاہتے ہیں جن کا تعلق ماضی قریب سے ہے اور جنہیں اسلامی دنیا محدث ناصرالدین البانی ؒکے نام سے بخوبی جانتی ہے۔ راقم آثم کو شیخ موصوف سے لقاء یا سماعت کی سعادت تو حاصل نہیں ہوسکی لیکن ان سے گہری عقیدت کا باعث ان کی تالیفات ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ہر خاص و عام کے لئے یکساں مفید ہیں،یوں تو انہوں نے متعدد موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے ‘لیکن ان کا دل پسند موضوع تخریج الأحادیث ودراسة الأسانید تھا جس میں انہوں نے اپنی مہارت اور قابلیت کا لوہا منوایا ہے اور فن حدیث کی خدمت میں اس سے پورا فائدہ اٹھایا ہے ۔

سنن اربعہ نیز احادیث کے دیگر مجموعے جہاں بہت سی صحیح احادیث پر مشتمل تھے وہاں ان میں بعض ایسی روایات بھی موجود تھیں جو غیر ثابت شدہ اور ضعیف تھیں جن کی معرفت سے بعض اہل علم حضرات بھی نا آشنا تھے ‘شیخ محمد ناصرالدین البانی ؒکو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے تحقیق حدیث کے اس محنت طلب میدان میں قدم رکھا ۔اور دن بد ن اس علمی سفر میں ترقی کی مناز ل طے کرتے چلے گئے اور احادیث کی ان کتابوں کو دو قسموں میں تقسیم کردیا ۔ایک قسم وہ ہے جس میں انہوں نے صحیح ثابت احادیث کو جمع کردیا اور دوسری قسم وہ ہے جس میں ضعیف روایات کو درج کردیا ،جس کی وجہ سے طالب حدیث کے لئے ضعیف روایات کا پہنچاننا دشوار نہیں رہا ۔اور بایں طور انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کے لئے الگ راستہ ہموار کردیا ہے جس پر چل کر کوئی بھی شخص فن حدیث کی خدمت میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ۔شیخ موصوف کی اس کاوش میں ان کی کسی رائے سے دلیل کے ساتھ اختلاف کی گنجائش موجود ہے کیونکہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے وہ سہوو خطاسے محفوظ و مامون نہیں ہیں لیکن فنونِ حدیث میں محدث البانی ؒ کی مہارت وممارست سے انکار نہیں کیا جاسکتا ‘اللہ تعالی ان تصنیفات کو مؤلف کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ‘اور اہل علم اسلام کو ان سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین!

(3) ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات جامعہ پنجاب ، لاہور


شیخ محمدناصر الدین البانی ؒ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ٩ ﴾.... سورة الحجر

’’ ہم نے آپ پر یہ ذکر (نصیحت ) اُتاری اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں‘‘

علامہ ابن حزم او ردیگر علماء کے نزدیک ’ذکر ‘ سے مراد صرف قرآن نہیں ہے بلکہ ذکر سے مراد قرآن وحدیث دونوں ہیں۔علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں :

« ولاخلاف بین أحد من أهل اللغة والشریعة في أن کل وحی نزل من عند اللہ فهو ذِکر منزّل فالوحی کله محفوظ بحفظ اللہ تعالیٰ بیقین وکل ما تکفل اللہ بحفظه فمضمون أن لا یضیع منه وأن لایحرف منه شیٔ أبدا تحریفا لایأتي البیان ببطلانه» (تفصیل کیلئے :الإحکام فی اُصول الأحکام ج ۱ ص ۱۲۱،۱۲۲)

’’اہل لغت او رعلمائے شریعت کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی ہروحی ’ذِکر ‘ ہے۔پس تمام وحی اللہ تعالیٰ کی حفاظت کرنے کے ساتھ محفوظ ہے اور جس چیز کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہو ظاہر ہے کہ وہ ضائع نہ ہوگی اور اس میں سے کسی میں ایسی تحریف نہ ہوگی جسکے بطلان کو واضح کرنا ممکن نہ ہویعنی اہل علم اس تحریف کو پہچان لیں گے‘‘

اللہ تعالیٰ کا چونکہ وعدہ تھا کہ قرآن وسنت کی حفاظت ہو گی لہٰذا ہر زمانہ میںقرآن وسنت کے محافظ پیدا ہوتے رہے ۔دورِصحابہ ؓ ،دورِ تابعین اور دورِ ائمہ محدثین ،اس طرح آج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔

شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ بھی ان ہی محدثین میں شامل ہیں جنہو ں نے حفاظت ِحدیث کا بیڑا اٹھایا ۔ خدمت ِحدیث کے سلسلہ میں ان کی تصنیفات کی تعدادبھی بہت زیادہ ہے ۔ کتب ِحدیث کی تخریج وتحقیق پر بھی ان کا دقیق علمی کام بھی ہے ۔ ان کی فیض یافتگان کی تعداد بھی کثیرہے ۔البانی ؒ کی ذات کے بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ ’’رجل فی أمۃ وأمۃ فی رجل‘‘ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔

شیخ البانی ؒ جب مدینہ یونیورسٹی میں استاذ (پروفیسر)تھے اس وقت تدریس کے علاوہ باقی اوقات میں بھی تشنگانِ علم حدیث کو سیراب کرتے رہتے تھے ۔

مدینہ یو نیورسٹی میں راقم ۱۹۷۵ء سے ۱۹۸۰ ء تک تعلیم حاصل کرتا رہا ۔ اسی دوران شیخ البانی مدینہ منورہ تشریف لائے۔ ہم (طلباء )نے ان کے اعزاز میں ایک علمی محفل منعقد کی، اس میں ان سے بہت سے علمی مسائل کے بارے میں سوالات کیے۔ میں نے دیکھا کہ ان کو متن حدیث ،سند ِحدیث اورعلومِ حدیث پر کامل عبور حاصل تھا۔جہاں کوئی ادنیٰ طالب علم بھی دلیل کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرتا، اس کو بسروچشم قبول کرتے ۔جس بات کا علم نہ ہوتا بلا تکلف لا علمی کا اظہار کیا کرتے ۔ ہشاش بشاش طبیعت کے مالک تھے، خوش مزاج بھی تھے ، مزاح بھی کیاکرتے تھے ، سادگی کا ا ندازہ آپ اس طرح لگاسکتے ہیں کہ جب آپ کی مدینہ یونیورسٹی میںاستاذ کی حیثیت سے تقرری ہوئی تو آپ موٹر سائیکل پرسفر کرنے لگے ۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت !آپ کے لیے یہ مناسب سواری نہیں تو ہنس کر ٹال دیتے ۔ گویا ان کے اندر تکلف نام کانہیں تھا ۔

آپ ؒ عالم با عمل تھے ، آپ کی وضع قطع ،شکل وصورت سنت رسول کے عین مطابق ہواکرتی۔آپؒ بسطۃ فی الجسم والعلم کے مصداق تھے ۔آپ معتدل مزاج ،حلیم الطبع اور بااَخلاق تھے ۔مجھے یہ فخر ہے کہ آپ کے شاگرد ہونے کا مجھے اعزاز حاصل ہے!!

…   اللهم اغفرله وارحمه واَکرم نُزلهٗ

(4)   مولانا عبدالرشید راشد (اُستاذ ِحدیث، جامعہ لاہور الاسلامیہ)


جب میں ان کی زیارت سے مشرف ہوا !

گذشتہ دنوں عالم اسلام یکے بعد دیگرے جن شخصیات سے محروم ہوا، ان میں علامہ محمد ناصر الدین البانی تغمّدہ اللہ في رحمته کی رحلت امت ِمسلمہ کے لئے ایسا عظیم سانحہ ہے جس کی تلافی ناممکن نظر آرہی ہے۔ علومِ حدیث میں اگر آپ کو عصر حاضر کا امام بخاری ؒ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ علومِ حدیث اور تفقہ فی الدین میں بصیرتِ تامہ و ملکہ راسخہ کے باوصف آپ حاملین کتاب و سنت کے لئے بالخصوص مینارئہ نور تھے۔ آپ کی نورانی وجاہت اس حدیث ِمبارکہ کی مصداق تھی «نضَّر اللہ امرأ سمع منا حدیثا فحفظه حتی یبلغه غیره» آپ کی ہمہ جہت خدماتِ جلیلہ سے واقف حضرات یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ   ؎          ولیس علیٰ اللہ بمستنکر      أن یجمع العالم في واحد

’’اللہ پرمشکل نہیں کہ ایک شخص میں جہاں اکٹھا فرمادے‘‘

راقم کی زندگی میں یقینا وہ لمحات سب سے زیادہ خوشگوار اور یادگار ہیں جن میں موصوف سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں دورانِ تعلیم دو دفعہ طویل مجلس کا موقعہ ملا۔ پہلی مجلس میں، میں خود کو اس اعتبار سے زیادہ خوش نصیب سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستانی طلبہ میں سے اس وقت یہ سعادت صرف میرے ہی حصہ میں آئی جبکہ شیخ عرصہ دراز کے بعد دیارِ حرم تشریف لائے۔ دوسری مجلس، استاذِ محترم حافظ ثنا ء اللہ مدنی شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ اور حضرت حافظ عبدالرحمن مدنی مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ حفظہما اﷲ کی معیت میں تھی۔ ہر دو مجلس میں بہت سے علمی مباحث زیر بحث رہے اور ہمیں حضرت سے استفادہ کا پھرپور موقع ملا ۔ اوّل الذکر مجلس میں بالخصوص علامہ البانی کی حیاتِ طیبہ سے متعلق کئی پہلو بے نقاب ہوئے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی عظیم خدمات کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور ہمیں ان سے استفادہ کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!

«اللهم احشرني في زمرة أمثاله خادمي السنة النبویة علی صاحبها الصلاة والسلام»

شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی وصیت

میں اپنی بیوی، اولاد، اپنے دوستوں اور میرے ساتھ ہر محبت کرنے والے کو وصیت کرتا ہوں کہ جب میری وفات کی خبر پہنچے تو:

(1)       میرے لئے دعائے مغفرت کریں، ماتم اور نوحہ نہ کریں اور اونچی آواز سے نہ روئیں۔

(2)       مجھے جلدی دفن کردیں، اور میرے رشتہ داروں اور بھائیوں میں سے صرف اتنے لوگوں کو میری وفات کی خبر پہنچائیں کہ جن کے ذریعے تجہیز و تکفین اور تدفین کا واجب پورا ہوسکے، اور مجھے غسل دینے کا فریضہ میرے مخلص دوست اور پڑوسی ’’عزت خضر ابوعبداللہ ‘‘ سرانجام دے اور وہ جسے مناسب سمجھے اپنی مدد کے لئے منتخب کرسکتا ہے۔

(3)      مجھے قریب ترین قبرستان میں دفن کردیا جائے، تاکہ میرے جنازہ کو گاڑی میں نہ لے جانا پڑے، اور مجھے قدیم قبرستان میں دفن کیا جائے جس کے بارے میں غالب گمان یہ ہو کہ اسے ختم نہیں کیا جائے گا۔

(4)      اور میں جس شہر میں وفات پائوں، اس کے رہنے والوں پر لازم ہے کہ شہر سے باہر بسنے والی میری اولاد اور دوسرے لوگوں کو اس وقت تک خبر نہ دیں جب تک مجھے دفن نہ کردیں، تاکہ ان کے انتظار میں میرے جنازہ میں تاخیر نہ ہو۔

(5)      میں اپنے کتب خانہ، جس میں خواہ کوئی مطبوعہ کتاب ہے یا مصدر ، یا مخطوطہ ہے، میرے خط کے ساتھ ہے یا کسی اور کے خط کے ساتھ، کے متعلق وصیت کرتا ہوں کہ پورے کا پورا کتب خانہ اسلامی یونیورسٹی، مدینہ منورہ کی لائبریری کے حوالے کردیا جائے، کیونکہ میری اس سے بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں جب میں وہاں پڑھایاکرتا اور سلفی دعوت کو پھیلاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس یونیورسٹی کے منتظمین کے ذریعے نفع پہنچائے۔

اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ میری اس سے ملاقات ہو تو اس حالت میں ہو کہ اس نے میرے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں…   (مؤرخہ۲۷؍ جمادی الاولیٰ، ۱۴۱۰ھ)

﴿رَ‌بِّ أَوزِعنى أَن أَشكُرَ‌ نِعمَتَكَ الَّتى أَنعَمتَ عَلَىَّ وَعَلىٰ و‌ٰلِدَىَّ وَأَن أَعمَلَ صـٰلِحًا تَر‌ضىٰهُ وَأَصلِح لى فى ذُرِّ‌يَّتى ۖ إِنّى تُبتُ إِلَيكَ وَإِنّى مِنَ المُسلِمينَ ١٥﴾... سورة الاحقاف

’’اے میرے رب! مجھے اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اسن انعامات پر جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کئے ہیں۔ مجھے توفیق بخش کہ میں تجھے راضی کرنے والے نیک کام بجا لاسکوں، اورمیری اولاد میں بہتری عطا فرما، میں تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں ، او رمیں مطیع وفرمانبرداروں سے ہوں‘‘