شیخ البانی :ؒ مرض الموت کے ابتدائی عوارض او ران کے علاج کی تدبیریں
مدیر اعلیٰ محدث مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی او رشیخ محمد ناصر الدین البانی کی اُردن ( عمان) میں آخری ملاقاتوں کے دوران ایک نشست شیخ موصوف کی بیماری او راس کے علاج کے حوالہ سے بھی یاد گار ہے ۔مولانا مدنی کو طب ِنبو یؐ سے بھی خاص شغف ہے او روہ ایلوپیتھی طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ بطو رِغذا او رپرہیز اپنے عزیز واقار ب میں اس کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں اوراپنے بزرگوں او راحباب کی خدمت وعیادت اس طرح بھی انجام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ محدث العصر شیخ البانی جیسی شخصیت جس کا اوڑھنا بچھونا ہی ’’سنت وحدیث‘‘ ہے ، سے اس طریق علاج کا ذکر آیا، جو جڑی بوٹیوں سے کیا جاتا ہے او راسے اس مناسبت سے ’’طب ِنبویؐ ‘‘کہتے ہیں، تو شیخ موصوف نے اس میں خاص دلچسپی لی اور اس کا فوری اہتمام بھی شروع کردیا ۔ شیخ البانی کے جن اَمراض کا سطو رِذیل میں ذکرکیا جارہا وہ اصل امراض تھیں جبکہ بعد ازاں ایلوپیتھی علاج کی مجبوریوں کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے، ان میں شیخ کے گردے فیل ہوگئے او رجگر بھی شدید متاثر ہوگیاتھا۔ بالاخر اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی یہ نشانی واصل بحق ہوگئی ۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون!
ہم اس گفتگو کو کیسٹ ( عربی )سے اُردو مفہوم میں منتقل کرکے شامل اشاعت کررہے ہیں۔ادارہ
شرکائِ مجلس: شیخ محمد ناصر الدین البانی او رانکے بیٹے عبد الرحمن، شیخ محمد ابراہیم شقرۃ، شیخ خالد العلاونہ حافظ عبد الرحمن مدنی ،حافظ حسن مدنی، جناب عبد الکریم ثاقب، بیروت اور طرابلس کے بعض علماء
ابتدائی کلمات کے بعد !
حافظ عبدالرحمن مدنی: شیخ کے مرض کے بارے میں ہمیں تشویش ہے چونکہ طب ِنبویؐ سے مجھے بھی کچھ شناسائی ہے، اس لئے آپ کی تکلیف کے بارے میں، میں کچھ جاننا چاہوں گا؟
محمدبن ابراہیم شقرۃ: یا شیخ، ان کو اپنے مرض کے بارے میں کچھ بتلائیے، میں نے یہاں آنے سے قبل ان کو آپ کی صحت کے بارے میں کچھ بتایا تو ہمارے مہمان مولانا مدنی کہنے لگے کہ میں بعض سادہ چیزوں کے استعمال سے شیخ کی بحالی ٔصحت میں مدد لینا چاہتاہوں ۔ ان شاء اللہ نہ صرف ایسی چیزوں کے استعمال کا کوئی غلط ردّ عمل نہیں ہوگا بلکہ بعض اوقات بفضلہ تعالیٰ محیر العقول نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔اگر آپ انہیں اپنی تکلیف کے بارے میں بتائیں تو ممکن ہے ،اللہ مولانا مدنی کے علاج سے آپ کو شفا یاب کر دے!
شیخ البانی: (مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے) مجھے داہنے کان سے کچھ سنائی نہیں دیتا، ہمیشہ کان میں دبائو کی شکایت رہتی ہے، جبکہ بائیں کان سے بہت کم سنائی دیتا ہے، لیکن ا س میں دبائو قدرے کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان میںخارش کی بھی شکایت ہے۔مجھے اپنے اللہ سے کوئی شکوہ نہیں، تکلیف تو گناہوں کے سبب ہی ہوتی ہے!
شیخ شقرۃ: واللہ المستعان! آپ ٹھیک کہتے ہیں، لیکن آپ اپنے گناہوں کو بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں، لوگ تو آپ …!
شیخ البانی: (بات کاٹتے ہوئے) میں بہت گناہگار ہوں، اللہ سے مغفرت اور بخشش کی دعا کرتا ہوں!
مولانا مدنی: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کو آنتوں کی سوزِش بھی ہے؟
شیخ البانی: ’’ویأتیك الأنباء ما لم تُزوَّد‘‘ آپ کے علم میں بہت سی نئی چیزیں بھی آئیں گی… مجھے آنتوں میں شدید قبض او رسوزش کی شکایت ہے۔ چند قدم ہی چلتا ہوں تو ایسے چکر آتے ہیں کہ ابھی بے ہوش ہوکر گر جائوں گا ۔کمزوری اتنی زیادہ ہے کہ میں کسی کے سہارے کے بغیر چند قدم بھی نہیں چل سکتا۔ اس کے علاوہ مجھے تھوک اور بلغم کی شکایت ہے۔ جو دو طرح سے ہوتی ہے:
ایک شکایت تو مجھے کثرتِ بلغم کی ہے جو نہایت پکی ہوئی ہوتی ہے او رنہایت تکلیف دہ طریقے پر نکلتی ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ کبھی کبھار اس کے ساتھ چھلکے نکلتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ چھلکے چمڑے کی طرح اس قدر پکے ہوئے سخت ہوتے ہیں جیسے انہیں آگ پر پکایا گیا ہو۔ آپ اس کو شہد کے چھتے سے تشبیہ دے سکتے ہی۔ شہد کے چھتے میں آپ دیکھئے تو اس پر باریک سی جھلی اسے بند کئے ہوتی ہے، میری بلغم کی بھی دو حالتیں ہیں : ایک یہ کہ شفاف بلغم ہوتا ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ بلغم چھلکوں سے اَٹا ہوتاہے۔ بہر صورت اس بلغم کا نکالنا اتنا مشکل ہوتا ہے کہ کھانس کھانس کر میری حالت بری ہوجاتی ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی میری روح نکل جائے گی۔ اسی حالت میں بسا اوقات استفراغِ بطن ہوتا ہے … اللہ تعالیٰ شفا دینے والے ہیں او روہی گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں!!
مولانا مدنی: اس وضاحت سے بتانے پر میں آپ کا شکرگزار ہوں، میں چاہتا ہوں کہ آپ کا علاج عام گھریلو استعمال سے کیا جائے۔ شہد جس کے بارے میں﴿فيهِ شِفاءٌ لِلنّاسِ﴾ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، بقدرِ ضرورت لے کر اس میں پسی ہوئی کالی مرچ ملا لی جائے اور اس شہد کو روزانہ پانچ،چھ مرتبہ چاٹ لیا جائے۔ یہ آپ کو سکون بھی دے گا اور بلغم کو بھی آسانی سے خارج کردے گا، آپ اس سے اپنے سینہ کی تکلیف میں بہت جلد اِفاقہ محسوس کریں گے۔ کالی مرچ او رشہد کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ ان سے بڑی بڑی بیماریوں کے علاج کئے جاتے ہیں حتیٰ کہ یہ فالج کا علا ج بھی ہیں!
جہاں تک دوسری تکلیف کا تعلق ہے یعنی آپ کی کان کی تکلیف کا تو اس کے لئے آپ روغن بادام لے کر اس میں لہسن کا جوہر ملائیں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ چمچہ میں روغن بادام ڈال کر اس میں لہسن کی چھلی ہوئی ایک پوتھی رکھ دیں۔ اس چمچہ کو آگ پر اس قدر گرم کریں کہ لہسن سیاہ ہوجائے۔ اس سیاہ لہسن کو پھینک کر اس کا حاصل روغن بادام اس قدر ٹھنڈا کر لیا جائے کہ کان کا اندرونی نازک حصہ اس گرمی کو برداشت کر سکے ۔ اس تیل کے چند قطرے کان میں ڈالے جائیں۔
شیخ البانی: یہ تو کانوں کی تکلیف کا علاج ہوا، کانوں میں دبائو اور جمی ہوئی میل کا کیا کیا جائے؟ آیا یہ کان کی سب تکلیفوں کا علاج ہے…؟
مولانا مدنی: یہ کان کی سب تکلیفیں دور کردے گا،ان شاء اللہ۔ یہ چیز یوں تو بالکل بے ضرر اور عام سی ہے لیکن آپ ایک ہی رات میں اس کی تاثیر محسوس کر لیں گے، مناسب ہوگا اگر آپ اس تیل کو ڈالنے کے بعد انگلی اور انگوٹھے سے کان کو معمولی مساج بھی دیں تاکہ روغن اندر تک جذب ہو جائے۔ اس کے بعد کان میں روئی کا ٹکڑا رکھ لیں تاکہ تیل کا بقیہ حصہ فورا ً باہر نہ نکل جائے۔ اس کے ۱۵؍۲۰ منٹ بعد دوسرے کان پر ہوبہو یہی عمل کریں۔ پہلے اس کان میں جو کلی طور پر بند ہوچکا ہے، اس کا استعمال کریں۔ واضح رہے کہ لہسن انجائنا (دل کی رگوں کی بندش کے مرض) کا بھی علا ج ہے کیونکہ یہ رگوں کوکھول کر کشادہ کر دیتا ہے۔
شیخ البانی:میں سمجھ نہیں سکا کہ لہسن آپ کے بقول، کس مرض کا علاج ہے؟
شیخ شقرۃ: جس مرض کا مولانا مدنی ذکر کر رہے ہیں، یہ دل سے تعلق رکھتاہے۔ بلڈ پریشر میں، میں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ ہمارے عزیزوں میں ایک شخص روزانہ صبح لہسن کو کلونجی کے ساتھ استعمال کیا کرتا، عجب بات دیکھئے کہ میرے اس عزیز (جو میرے چچا کا بیٹا تھا) نے مجھے بتایا کہ میں اکثر اوقات بہت تھکا تھکا رہتا، میرا بلڈ پریشر بہت بلند رہتا، لیکن اس دوا کو استعمال کرتے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس پر پیاز کے مزید استعمال کرنے کے ساتھ میرا مرض جاتا رہا۔
شیخ البانی: حیرت ہے…ماشاء اللہ!
شیخ شقرۃ: یا شیخنا! لہسن علاج کے لئے نباتات میں سے سب سے مفید ہے، اور پیاز دوسرے درجے پر، لیکن بلڈپریشر کے لئے بالخصوص لہسن بہت مؤثر ہے۔
مولانا مدنی: اس طریقے سے روغن بادام میں لہسن کا اثر باقی رہ جائے گا اور لہسن کو پھینک کر اس روغن کو کان میں استعمال کیا جائے گا۔ آپ ایک رات میں اس کے استعمال سے تبدیلی محسوس کریں گے۔ ان شاء اللہ …یہ مفردات سے علاج کی ایک صورت ہے جس میں کان کی تکلیف کے علاج کے لئے ہم نے عام سی سادہ استعمال کی چیزوں سے کام لیا ہے۔
شیخ البانی:اگرچہ مجھے آپ پر اعتماد ہے اور ہر کام اصل میں تو اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے لیکن میں تجربے اورآزمائش کی بات کر رہا ہوں۔ اگر آپ محسوس نہ کریں تو کیا آپ نے اس علاج کا پہلے بھی تجربہ کیا ہے؟
شیخ مدنی: جی بالکل، اور اس علاج کے اثرات بہت اچھے رہے…
شیخ البانی :کیا اس سے سماعت بھی لوٹ آنے کا امکان ہے؟
مولانا مدنی:جی ہاں! اس کے اِمکانات ہیں، ان شاء اللہ۔ میں نے اس کا اکثر تجربہ کیا ہے، آپ بھی چند گھنٹوں میں اس کے اثرات محسوس کریں گے۔ یہ چیز ویسے بھی غیر مضر ہے۔ یعنی روغن بادام جو بہت پتلا (رقیق) ہوتا ہے، اس سے کان کی میل بہت آسانی سے خارج ہوجاتی ہے۔ رات کو اگر آپ اسے استعمال کریں تو صبح آپ دیکھیں گے کہ کان کی میل از خود آسانی سے نکل رہی ہے۔ یہ کان میں موجود خشکی کا خاتمہ بھی کردیتا ہے۔
عبدالکریم ثاقب: مولانا مدنی کی بات درست ہے۔ اگر ابتداء میں یہ علاج کر لیا جاتا تو یہ تکلیف نہ بڑھنے پاتی لیکن اب جبکہ یہ مزمن مرض کی شکل اختیار کرچکی ہے تو پوری سماعت لوٹنے کا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن بہرحال قدرے اِفاقہ ہوسکتا ہے۔ مولانا مدنی جیسا کہ کہہ رہے ہیں کی میں بھی تائید کرتا ہوں لیکن ابتدائے مرض سے اس علاج کو کرنے پرمکمل افاقہ کے اِمکانات کافی تھے۔
مولانا مدنی:میں لمبی بات تو نہیں کرتا لیکن ایک ایلو پیتھی ڈاکٹر کا واقعہ آپ کو سنائے دیتا ہوں:
میری اہلیہ کے بھائی معروف ڈاکٹر ہیں اور عرصہ ۲۵ سال سے اس پیشہ سے منسلک ہیں۔ ان کا اپنا حلق اس قدر متاثر ہوگیا کہ وہ آسانی سے بات بھی نہ کرسکتے۔ ان کا خیال ہوا کہ انہیں حلق کا سرطان ہوگیا ہے، انہوں نے اس کا بہت علاج کیا۔ تمام جتن کرنے کے باوجود ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! آخر مجبور ہوکر کسی دوسرے طریق علاج کا سہارا لینا پڑا۔باوجود اس کے کہ وہ انگریزی ڈاکٹر ہیں، انہیں اس علاج کے سوا کوئی علاج نہ مل سکا کہ انہوں نے کالی مرچ کے ساتھ شہد کا استعمال کیا، اس کو وہ چاٹ لیا کرتے بس اسی سے ان کا مرض جاتا رہا۔
اِتفاق دیکھئے کہ چند برس قبل یہی تکلیف میری اہلیہ کو بھی ہوگئی حالانکہ وہ بڑی لمبی تقریریں کیا کرتیں۔ وہ بڑی فکر مند رہا کرتیں کہ انہیں شاید سرطان کی شکایت ہے جس کے سبب وہ بات چیت سے بھی عاجز آگئی ہیں۔ انہوں نے بھی یہی علاج کیا اور شفایاب ہوگئیں۔
ہم شیخ البانی کی زندگی اور علم سے استفادہ چاہتے ہیں، شیخ البانی کی خدمت میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے اس علاج میں بھرپور احتیاط سے کام لیا ہے کیونکہ شیخ کی عمر اور صحت نازک مرحلے میں ہے، میں نہیں چاہتا کہ ایسی چیزوں کا یہاں تجربہ کروں جو میں نے پہلے نہ آزمائی ہوں۔
شیخ البانی:اللہ آپکو اچھی جزا دے اور آپکو بابرکت فرمائے۔ آپکو اس سے زیادہ عطا فرمائے جو اُس نے ہمیں عطا کیا!
مولانا مدنی : ہم شیخ البانی سے بہت کچھ سننا چاہتے تھے لیکن آپ کی صحت کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں آپ کی صحت وعافیت کے لئے دعا گو ہیں اور آپ سے اس قدر فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ سے دعاگو ہیں جس سے ہم سیر ہوجائیں ۔یوں تو یہ ایک ایسی پیاس ہے جو ہر ملاقات سے بڑھتی چلی جاتی ہے ،ہم شیخ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی اللہ کی جناب میں دعا کرتے ہیں ۔
شیخ البانی : میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری محبت اور اُخوت کو اس طرح قائم ودائم رکھے ۔
شیخ شقرہ : یا شیخ مدنی !ہمیں اس دواکے بارے میں پوری تفصیل سمجھادیجئے، بہتر ہوتا کہ آپ یہ طریقہ استعمال ہمیں لکھ دیتے ۔
مولانا مدنی :نہ صرف لکھ کر بلکہ میں اسی وقت یہ دوابناکر دکھائے دیتا ہوں اورممکن ہو تو اس وقت شیخ اس کی ایک خوراک استعمال بھی کرلیں۔اُمید ہے کہ وہ ان شاء اللہ صبح تک اس تکلیف سے کچھ آرام محسوس کریں گے۔ شیخ کے گھر میں پسی ہوئی سیاہ مرچ تو موجود ہوگی ،اور روغن بادام بھی …اگر نہیں تو میرے سفری سامان میں بھی موجود ہے ۔
شیخ البانی : کیا آپ خالص مرچ کی بات کررہے ہیں جس میں کچھ اور نہ ملاہو ۔
شیخ شقرہ :نہیں یا شیخنا! بلکہ کالی مرچ، غالباً جو مصالحے میں استعمال ہوتی ہے ۔
شیخ البانی کا بیٹا عبد الرحمن جواب دیتا ہے :جی ہاں، یہ مرچ موجود ہے اور اس کو ہم ابھی پیس لیتے ہیں ۔
شیخ شقرہ :ماشاء اللہ شیخ کی اہلیہ آپ کی صحت کا بہت خیال رکھتی ہیں ۔آپ کی تیمارداری میں کوئی کسر نہیں رکھتیں اور انہیں طب کی بھی کچھ سوجھ بوجھ ہے ۔
شیخ کا بیٹا :یہ لیں، لیکن ممکن ہے کہ یہ مرچ اس قدر خالص نہ ہو !
مولانا مدنی : کوئی بات نہیں، ہم اس کا تجربہ کرلیتے ہیں۔ اللہ کی مدد شامل حال رہی تو یہ دواہمارے لئے مفید ثابت ہوگی ۔ان شاء اللہ العزیز!
شیخ البانی : جزاک اللہ خیرا ،اَحسن اللہ الیک ،بارک اللہ فیک…اللہ آپ کو ہر بھلائی کی توفیق دے ، سنت کی پیروی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔اپنے ممالک اور بلادِ کفر میں آپ کو اس کی دعوت پھیلانے کی توفیق دے،اس نیک کام میں اللہ آپ کی مددکرے ۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
اس بات چیت کے بعد والد ِگرامی مولانا مدنی نے راقم الحروف کے ساتھ بعض اَدویہ کو تیار کیا اور شیخ البانی کی خدمت میں بجھوادیا ۔جب اُردن سے واپسی پر قطر میں شیخ کے شاگرد اور داماد شیخ علی خشان کے گھر ہم چند دنوں کے لئے قیام پذیر تھے تو وہاں شیخ البانی کا فون مولانا مدنی نے وصول کیا ۔جس میں شیخ البانی نے بڑی تفصیل سے اس دوا کے مختلف پیمانے اور طریقہ ہائے استعمال دریافت کئے آپ کی زبان سے سن کر ہمیں مسرت ہوئی کہ ان دوائوں سے شیخ کو فائدہ ہواہے ۔شیخ البانی کے تقاضے پر قطر میں والد محترم نے بڑی تفصیل سے ان ادویہ کا طریقہ ٔتیار ی اور اَوزان لکھ کر شیخ کو فیکس کردئیے ۔
بعد میں شیخ البانی سے رابطہ جاری رہتا ۔گذشتہ سال عید الفطر (۱۴۱۹ھ) کے بعد کی بات ہے کہ شیخ البانی نے اپنے ایک شاگرد شیخ خالد علاونہ کو اُردن سے پاکستان بھیجا ،جو دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ یہاں ان ادویہ کی تیاری اور بڑی تعداد میں اس طرح کی چیزیں لینے آئے تھے ۔
شیخ خالد کی میزبانی کے دوران بھی شیخ البانی کے تذکارِ خیر سننے کو خوب ملے ،ہم نے علم وفضل کے علاوہ عام معاملات ،برتاؤ اور اخلاق میں شیخ البانی کو ایک مثالی شخصیت پایا،حدیث ِنبوی میں آنے والے اخلاقِ کریمانہ کے آپ اچھے مصداق تھے ۔کمال درجہ تواضع اور لطف وکرم آپ کی مہربان شخصیت کا امتیازتھا ۔شیخ سے مؤرخہ ۳؍رجب ۱۴۱۹ھ کو آپ کی گھر پرآخری ملاقات کے دوران ،آخر میں مجھے شیخ البانی کے وہ کلمات نہیں بھولتے جو ان کے اعلیٰ ظرف اور متواضع انسان ہونے کی دلیل ہیں :
شیخ اپنی تفصیلی وصیت ؍نصیحت سے فارغ ہوئے تو دیگر زائرین کو جانے کا اشارہ کیا لیکن والد ِگرامی کو روک لیا ،میری خوش نصیبی کہ والد ِمحترم کے طفیل مجھے بھی تخلیہ میں اس ملاقات کی سعادت مل گئی ۔شیخ البانی گویا ہوئے کہ ’’یا شیخ مدنی !آپ بڑے صاحب ِعلم و فضل ہیں ،میں نے آپ کو نصیحت کی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ؟‘‘
والد محترم ا س عزت واحترام اور لطف و انعام پر ایک دم حیران رہ گئے اور زبان سے یہ الفاظ نکلے: یا شیخ کہاں میں اور کہاں آپ سا عظیم المرتبت محدث ،مجھے اس آزمائش سے دوچار نہ کریں !…اس کے بعد دیر تک دونوں بڑی رازدارانہ باتیں اور مشورے کرتے رہے ۔میں نے آپ ایسے عظیم المرتبت عالم میں یہ کریمانہ اخلاق دیکھا تو اس دین کی نعمت پر میری آنکھیں اشک بار ہوگئیں جو اللہ کی عبادت اور اَحکام کی فرمانبرداری کے علاوہ انسانی معاملات میں اس قدر اعلیٰ اَخلاق سکھاتا ہے ۔اچھا مسلمان نہ صرف رب کے حقوق میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا بلکہ اپنے جیسے بندوں سے بھی حسن سلوک ،شفقت و مہربانی سے کا م لینے اورجاہلوں سے سلام کرکے گزر جانے کا راستہ دکھاتا ہے ۔نبی اکرم ﷺکا مشن کس قدر بلند ہے :«إنمابعثت لأتمم مکارم الأخلاق»
’’میں تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ‘‘ (فرمانِ نبوی)
اللہ تعالیٰ شیخ البانی کے درجات بلند فرمائے ،آپ کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور آپ کو کشادہ جنات میں داخل فرمائے ‘روزِ قیامت ہمیں آپ ایسے نیکیوں کے ساتھ اٹھائے ،اورامت کو ان کی علمی خدمات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!