محدثِ زماں علامہ محمد ناصر الدین البانی کا سانحہ ٔ ارتحال
(کویت کی جماعت اہل حدیث کا اظہارِ افسوس)
اس صدی کے سب سے بڑے محدث علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی ہفتہ ۲؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اُردن کے دارالحکومت عمان میں وفات پاگئے، إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون! جیسے ہی شیخ البانی کی وفات کی خبر پھیلی، پورے عالم اسلام پر رنج و اَلم کی لہر چھا گئی، ابھی سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم شیخ عبد العزیز بن باز ؒ کی وفات کا صدمہ نہیںبھولا تھاکہ امت ِمسلمہ کو ایک اور گہرا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ شیخ البانی دنیا بھر کے علمی حلقوں میں معروف تھے، اور آپ کو اہل علم میں خاص امتیازی مقام حاصل تھا، یقینی طور پر وہ رواں صدی میں حدیث ِرسولﷺ کے سب سے بڑے عالم تھے،جس کی شہادت بڑے بڑے علمائِ دین نے دی ہے، چنانچہ شیخ ابن باز ؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے کرئہ ارض پر اس زمانے میں علامہ ناصر الدین البانی جیسا محدث نہیں دیکھا‘‘۔ اور برصغیر پاک و ہند کے مشہور عالم دین مولانا عبدالصمد شرف الدین ؒ کہتے ہیں: ’’شیخ البانی اس صدی کے سب سے بڑے محدث ہیں‘‘
شیخ البانی وفات کے وقت پچاسی سال کے تھے۔ آپ کی پیدائش ۱۹۱۴ء میں البانیہ کے دارالحکومت (اشقودرہ) میں ہوئی، آپ کی نشوونما ایک علمی گھرانے میں ہوئی، آپ کے والد جو خود عالم دین تھے، نے آپ کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا اور جب البانیہ میں الحاد اور لادینیت کی لہر چل نکلی تو آپ کے والد اپنے تمام اہل و عیال سمیت شام کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے، شام میں شیخ البانی نے وقت کے بڑے بڑے علماء سے استفادہ کیا اور ابتدائے تعلیم ہی سے آپ کو علومِ حدیث سے خاص شغف تھا۔ چنانچہ آپ کا بیشتر وقت دمشق کے سب سے بڑے کتب خانے المکتبۃ الظاہریۃ میں گزرتا تھا، جہاں مطبوعہ کتب کے علاوہ حدیث و رجال کے قلمی نسخوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ آپ قلمی نسخوں کو نقل کرتے رہتے اور حدیث ِرسولﷺ کی تحقیق میں مشغول رہتے۔ آپ کے والد چونکہ گھڑیوں کی اصلاح کا کام کرتے تھے۔ اس لئے شیخ البانی نے بھی اسی پیشے کواپنا ذریعہ معاش بنایا، کچھ وقت کماتے تھے اور بیشتر وقت مصروفِ تحقیق رہتے تھے، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے دمشق میںکئی علمی حَلَقاتشروع کر دئے جہاں آپ کے علمی و تحقیقی دروس ہوتے ۔ جیسے ہی آپ کا تحقیقی کام مارکیٹ میں آیا اور آپ کے دروس کی کیسٹیں پھیلنے لگیں، پڑوسی عرب ملکوں میں بھی آپ کے علمی رسوخ اور حدیث کی تحقیق کا چرچا ہونے لگا ۔ جب مدینہ منورہ میں اسلامی یونیورسٹی کھولی گئی تو شیخ ابن باز ؒ کی خصوصی پیشکش پر آپ کو اس میں علومِ حدیث کا پروفیسر مقرر کردیا گیا۔ جہاں آپ تین سال ۱۳۸۱ھ سے ۱۳۸۳ھ تک طالب علموں اور حتیٰ کہ مشائخ و علماء کو اپنے منفرد اسلوبِ تحقیق سے فیض یاب کرتے رہے، پھر ۱۳۹۵ھ میں اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ خالد نے آپ کو مدینہ یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیمی بورڈ کا رکن مقرر کردیا ۔ گذشتہ سال( ۱۴۱۹ھ میں) آپ کو خدمت ِ حدیث کے اعتراف کے طور پر سعودی حکومت کی طرف سے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
شیخ البانی سو سے زیادہ کتابوں کے مؤلف اور محقق ہیں۔ آپ موجودہ دور میںسلفی دعوت کے امام تھے۔ آپ کی دعوت کے دو اہم اصول یہ تھے: التصفیۃ و التربیۃ …پہلے اصول سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی توحید کو شرک سے پاک کیا جائے، رسولِ اکرمﷺ کی صحیح احادیث سے من گھڑت اور ضعیف احادیث کو الگ کردیا جائے اور جن بدعات کو سنت تصور کر لیا گیا ہے، انہیں کھل کر بیان کیا جائے اور دوسرے اصول سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کی صحیح اسلامی تربیت کی جائے اور ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا جائے، چنانچہ آپ نے پوری زندگی اپنے اسی مشن میں لگا دی، خاص طور پر من گھڑت اور ضعیف احادیث کے خطرے سے جس طرح آپ نے امت ِمسلمہ کو آگاہ کیا اور حدیث ِرسول ﷺ کا جس طرح آپ نے دفاع کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
آپ کی کتب سے ہر طبقے کے لوگوں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے اور کر رہے ہیں حتیٰ کہ معروف محققین بھی آپ کی تحقیقات سے استفادہ کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ بلکہ تصحیح و تضعیف ِاحادیث میں آپ اپنی زندگی میں مرجع خلائق تھے اور اپنی وفات کے وقت آپ نے اتنی تحقیقی کتابیں چھوڑی ہیں کہ رہتی دنیا تک اہل علم ان سے اپنی علمی پیاس بجھاتے رہیں گے ۔آپ کی عظمت اور رفعت ِشان کے لئے یہی بات کافی ہے کہ جب تک آپ کی کتب دنیا میں رہیں گی، آپ کا نام محقق اور محدث کے طور پر لیا جاتا رہے گا۔
شیخ البانی کی جہود کا جہاں دنیا بھر کے اہل علم نے اعتراف کیا اور ان سے استفادہ کیا، وہاں ان کے حاسدین نے بھی آپ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چنانچہ آپ کو ان کی وجہ سے دو مرتبہ جیل میں جانا پڑا، لیکن داد دیجئے شیخ کو کہ انہوں نے جیل میں رہ کر بھی تحقیقی کام نہیں روکا، اور یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ آپ نے مختصر صحیح مسلم جیل میں رہ کر تالیف کی۔ آپ کو حاسدین کے حسد کی وجہ سے شام سے اُردن، بیروت، امارت اور پھر دوبارہ اُردن کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور آخر کار اُردن ہی میں آپ کی وفات ہوئی، اللہ ربّ العزت آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔
شیخ البانی کی وفات کی خبر پر جماعت اہل حدیث کویت کے تمام ساتھیوں نے گہرے رنج و اَلم اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور آ پ کی قبر کو جنت کا باغ بنائے… آمین ثم آمین!