شیخ البانی ؒ کی وفات پر سعودی عرب کے علماء کے تاثرات

(1)    شیخ صالح بن عبدالعزیز آلِ شیخ (وزیر اوقاف و مذہبی اُمور، سعودی عرب)
’’اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر ہم راضی ہیں اور ’’إنا للہ وإنا إلیه راجعون‘‘کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی کی وفات ایک المناک واقعہ ہے، کیونکہ وہ امت کے ان علماء و محدثین میں سے تھے کہ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت فرمائی اور سنت ِرسول ؐ کی نشرواشاعت کی‘‘

(2)    شیخ عبداللہ صالح  العبید  (سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی)
’’شیخ محمد ناصر الدین البانی کی وفات امت ِمسلمہ کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے، کیونکہ آپ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے کتاب اللہ، سنت ِرسولؐ اور اسلامی دعوت کا جھنڈا بلند کیا، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب امت ِمسلمہ کو اس کی شدید ضرورت تھی‘‘

(3)    شیخ عبدالمحسن العباد
’’شیخ البانی رحمہ اللہ ان گرانقدر علماء میں سے تھے کہ جنہوں نے اپنی پوری عمر خدمت حدیث رسولؐ، نصرتِ عقیدئہ سلفیہ اور دفاعِ سنت کے لئے وقف کردی تھی، اور آپ کا شمار ممتاز علمائِ دین میں ہوتا ہے، جس کی گواہی ہر خاص و عام نے دی ہے، سو اس جیسے عالم دین کی موت مسلمانوں کے لئے بہت بڑا صدمہ ہے‘‘

(4)    الشیخ عبداللہ العبیلان
’’میں امام، علامہ، محقق، زاہد،شیخ محمد ناصر الدین البانی کی وفات کے موقع پر روئے زمین پربسنے والے تمام مسلمانوں کی تعزیت کرتا ہوں، اور حقیقت یہ ہے کہ اس شخص کے متعلق کچھ کہنے سے الفاظ عاجز ہیں، آپ کے مناقب و فضائل میں صرف اتنی بات کافی ہے کہ آپ کی نشوونما جس ملک میں ہوئی وہاں سلفیّت نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن اس کے باوجود بھی وہ سلفی دعوت کے سب سے بڑے داعی بن کر سامنے آئے‘‘

(5)    ڈاکٹر الحبیب  بلخوجۃ  (سیکرٹری جنرل  مجمع الفقہ الاسلامی)
’’ہم نے علامہ، شیخ البانی کو حدیث اور فنونِ حدیث کے ساتھ خصوصی شغف کی وجہ سے پہچانا، اور آپ کی موت پر ہم ایک ایسے شخص سے محروم ہوگئے ہیں جو عالم اسلام کی خدمت میںپیش پیش تھا، اور بڑے بڑے اساتذہ و مشائخ کے لئے ایک بہت بڑا مرجع تھا‘‘

شیخ البانی ؒ کی وفات پر ان کے دو نامور شاگردوں سے بات چیت

یوں تو شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، آپ کے شاگردوں میں علماء بھی ہیں، طالبانِ علم بھی اور مشائخ و محققین بھی ، لیکن ہم درج ذیل سطور میں آپ کے ان دو شاگردوں کا ذکر کرنے جارہے ہیں جن میں سے ایک نے آپ سے ۳۵ سال تک اور دوسرے نے ۲۲ سال تک استفادہ کیا اور آخری وقت تک آپ کے ساتھ رہے۔ آپ ان کے استاذ بھی ہیں، مربی بھی ہیں، ان میں سے پہلے شاگرد کا نام شیخ محمد ابراہیم شقرۃ اور دوسرے شاگرد کا نام شیخ علی بن حسن حلبی ہے، اپنے استاذ کی وفات کے متعلق انہوں نے کیا کہا، آئیے ملاحظہ فرمائیے:

شیخ محمد ابراہیم شقرۃ سے مجلہ ’’الفرقان‘‘ کویت نے شیخ البانی ؒ کی وفات کے بعد انٹرویو لیا، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

الفرقان: شیخ کب اور کس وقت فوت ہوئے اور انہیں کب دفن کیا گیا؟

شیخ شقرۃ: آپ ۲۲ ؍جمادی الآخرۃ ۱۴۲۰ھ مطابق ۲ـ ؍اکتوبر ۱۹۹۹ء بروز ہفتہ غروبِ شمس سے کچھ پہلے فوت ہوئے اور عشا ء کے بعد انہیں دفن کردیا گیا۔

الفرقان: شیخ کو اس قدر جلد کیوںدفن کیا گیا؟

شیخ شقرۃ:  پہلے تو اس لئے کہ خود شیخ کی وصیت تھی، اور دوسرا اس لئے کہ موسم کافی گرم تھا، اگر تاخیر کی جاتی تو بعض نقصانات کا اندیشہ تھا، اس لئے ہم نے انہیں جلدی دفن کردیا۔

الفرقان: آپ کے جنازے میں کتنے لوگ شریک ہوئے؟

شیخ شقرۃ: اللہ کی قسم ہزاروں تھے جنہیں ہم شمار نہیںکر پائے، حالانکہ ہم نے صرف آپ کے قریبی لوگوں کو اطلاع دی تھی تاکہ آپ کی تکفین و تدفین میں مدد مل سکے، لیکن ہمیں حیرت ہوئی کہ ہزاروں لوگ نمازِ جنازہ پڑھنے چلے آئے۔

الفرقان: کہا جاتا ہے کہ تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی؟

شیخ شقرۃ:   میرا بھی یہی خیال ہے، باوجودیکہ ہم نے آپ کی وفات کی خبر نشر نہیں کی تھی۔

الفرقان: آپ کی آخری مؤلفات کے بارے میں بتائیے، کیا آپ انہیں طبع کریں گے؟

شیخ شقرۃ: شیخ نے اپنے پورے کتب خانہ کے متعلق وصیت کی ہے کہ اسے مدینہ یونیورسٹی کے حوالے کردیا جائے، چنانچہ ہم بھی آپ کی جمیع کتب آپ کی وصیت کے مطابق مدینہ یونیورسٹی کے حوالہ کردیں گے۔

الفرقان: آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟ اور سب سے چھوٹے کی عمر کتنی ہے؟

الشیخ شقرۃ: آپ کی اولاد کی تعداد ۱۲ ہے، جن میں سات بیٹے ہیں، ان کے نام یہ ہیں: عبدالرحمن، عبداللطیف، عبدالرزاق، عبدالصبور، عبدالمہیمن، محمد، عبدالاعلی۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر ۵۵ اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ۲۷ سال ہے۔

الفرقان: شیخ نے کتنی شادیاں کیں؟

الشیخ شقرۃ: آپ نے چار بیویوں سے شادی کی، جن میں سے ایک حیات ہے اور ان کی کنیت امّ الفضل ہے

الفرقان: شیخ کے بعض شاگردوں کے متعلق بتائیے؟

الشیخ شقرۃ: اس وقت میرے ساتھ آپ کے شاگردوں کی ایک جماعت موجود ہے جن کے نام یہ ہیں: سلیم الہلالی، حسین العوایشۃ، مشھود حسن علی حلبی، محمد موسیٰ نصر…آپ کے باقی شاگردوں کو شمار کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔

الفرقان: شیخ البانی ؒ کی وفات کے متعلق آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟

الشیخ شقرۃ: ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں ’’إنا لله وإنا إلیه رجعون‘‘ اور رسولِ اکرمﷺ کی ایک حدیث پر عمل کرتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ہیں «اللهم أجرني في مصیبتي، واخلفني خیرا منها»…ایک مقولہ عام مشہور ہے کہ ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ (عالم کی وفات دنیا کی موت کے مترادف ہے)اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقولہ شیخ البانی ؒ کی وفات پر بالکل صادق آتا ہے، کیونکہ آپ اس صدی کے مجدد تھے اور آپ نے ساٹھ سال سنت ِنبویہ کی خدمت اور اس کے دفاع میں گزارے، اور میں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شیخ البانی ؒ، امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ جیسے محدثین کی صف میں کھڑے ہیں، آپ نے جو علمی ورثہ چھوڑا ہے وہی آپ کی عظمت کی دلیل ہے۔ آپ جب بستر مرگ پر تھے تو تب بھی طالب علموں سے ملتے رہے اور انہیں دعائیں دیتے رہے اور اس سے پہلے آپ روزانہ ۱۸ گھنٹے اپنے کتب خانہ میں گزارا کرتے تھے۔ آپ کے دروس اور لیکچرز کی تقریباً ۵ ہزار کیسٹیں ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں سے اب تک صرف ایک ہزار کیسٹ منظر عام پر آئی ہیں۔

شیخ علی بن حسن حلبی اور شیخ البانی ؒ کے آخری ایام

شیخ البانی ؒ کے دوسرے شاگرد شیخ علی بن حسن حلبی نے آپ کی وفا ت پر اپنے تاثرات یوں بیان کئے ہیں :’’اس سے پہلے کہ میں اپنے استاذ اور والد، اسد السنہ و فخر الامہ علامہ ابوعبدالرحمن محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے متعلق کچھ کہوں، مجھے دو اور جدائیاں یاد آرہی ہیں جن کا آپ سے گہرا تعلق ہے:

(1)۱۳۳۳ھ (۱۹۱۵ء)جس میں شیخ البانی ؒ پیدا ہوئے، اسی سال دیارِ شام کے علامہ اور امام جمال الدین القاسمی فوت ہوئے۔ ملک شام کے آسمان پر ایک ستارہ غروب ہوا تو دوسرا طلوع ہوگیا جس نے دنیا بھر کو روشن کردیا۔

(2)۱۴۲۰ھ جس میں شیخ البانی ؒ فوت ہوئے، اسی سال میں امت ِمسلمہ کے مشہور علامہ ابو عبد اللہ شیخ عبد العزیز بن عبدا للہ بن باز رحمہ اللہ بھی فوت ہوئے۔

جی ہاں! چند ماہ کے اندر اندر ہم ابوعبداللہ اور پھر ابو عبدالرحمن سے محروم ہوگئے، یہ دونوں ستارے جب تک رہے۔ دنیا بھر میں ان کی روشنی پھیلی رہی، اور شاید یہ ان نیک خوابوں کی تعبیر تھی جو بہت سارے اہل خیر نے دیکھے تھے کہ دو ستارے آسمانِ دنیا پر طلوع ہوئے اور انہوں نے دنیا بھر کو روشن کردیا، پھر ان میں سے ایک غروب ہوگیا، اور اس کے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا بھی غروب ہوگیا۔ اب یوں لگتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی وفات کے بعد دنیا پر اندھیرا چھا گیا ہے! واللہ المستعان

مجھ پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے استاذِ محترم ابو عبدالرحمن رحمہ اللہ کے ساتھ بائیس برس گزارنے کی توفق دی۔ اس دوران میں آپ سے استفادہ کرتا رہا، آپ کے گھر اور کتب خانہ میں مجھے علم بھی نصیب ہوا اور آپ کی محبت بھی، اور یہ آپ کی مجھ پر شفقت تھی کہ آپ نے مجھے اپنی علمی اور بابرکت زندگی میں اپنے ساتھ رکھا۔

علم حدیث کے ساتھ آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ زندگی کے آخری ایام میں بھی تالیف اور تخریج احادیث سے باز نہیں آئے۔آپ کے بیٹے او رپوتے آپ کا بھرپور تعاون کرتے تھے، اور جب آپ کا جسم کمزور پڑ گیا تب بھی آپ سلیم العقل تھے اور قوتِ حفظ بحال رہی، اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے اپنی وفات سے تقریباً تیس دن پہلے مجھے فون کیا اور تفسیر کی ایک کتاب کے متعلق مجھ سے پوچھا جس کے غلاف کا رنگ، اس کی بعض صفات اور مصنف کا اسلوب تک آپ کو یاد تھا۔

جب آپ کا ہاتھ لکھنے سے عاجز آگیا تو آپ اپنے بیٹوں اور پوتوں سے لکھوایا کرتے تھے، جن احادیث کی تخریج کرتے ان کے متعلق تمام علمی فوائد لکھوا دیا کرتے تھے، اور مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب آپ نے ایک ضعیف حدیث کی تخریج میں اپنے بیٹوں اور پوتوں کو ۱۸ صفحات لکھوا ڈالے اور بیسیوں کتب آپ کے میز پر بکھری ہوئی تھیں، آپ ان کی ورق گردانی کرتے اور حتی ٰ کہ مخطوط کتب کی بھی چھان بین کرتے اور بڑی ہی ترتیب کے ساتھ فوائد و تنبیہات نوٹ کرا دیتے۔

آپ نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں جس کتاب پر کام کیا وہ ہے ’’صحیح الجامع الصغیر‘‘ آپ اسے نئے سرے سے ترتیب دے رہے تھے، اور جن احادیث کی تخریج آپ نہیں کر پائے تھے، خاص طور پر ’’تاریخ دمشق‘‘ اور ’’المعجم الأوسط‘‘ اور ’’المعجم الکبیر‘‘ کی احادیث، تو ان کی تخریج اب آخری مہینوں میں کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی بعض تخریجات پر استدراک بھی کر رہے تھے، اور اس دوران سلسلہ صحیحہ اور سلسلہ ضعیفہ میں بھی مناسب اضافے کرتے جارہے تھے۔

شیخ البانی ؒ سے میری جو قربت تھی، اس سے مجھے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے، میں اسے اپنے لئے ایک ٹریننگ کورس تصور کرتا ہوں، کیونکہ اس دوران مجھے آپ کا طریقہ، آپ کی فن حدیث میں مہارت اور باریک بینی معلوم ہوئی اور سب سے اہم یہ کہ مجھے آپ کی مؤلفات اور تخریجات کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔ جس وقت آپ فوت ہوئے، آپ کی غیر مطبوعہ کتب کی تعداد تقریباً ۱۵۰ تھی، ان میں سے بعض چند ورقوں میں اور بعض متعدد جلدوں میں ہیں، بعض کامل ہیں اور بعض کو مکمل کرنے کی آپ کو مہلت نہ ملی۔اللہ ربّ العزت ہمارے استاذ پر رحمت فرمائے، اور ہمیں بھی اپنے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے۔آمین یا رب العٰلمین!