علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒاور ضعیف احادیث
۱۹۹۹ء کا یہ سال، عالم اسلام بالعموم اور سلفی حضرات کے لئے بالخصوص’عامِ حزن‘ ہے جس میں یکے بعد دیگرے نامور اسلامی شخصیات اس جہانِ فانی سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئیں اور عالم اسلام ان کے علم وفضل سے محروم ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!… اسی سال داغِ مفارقت دینے والے حضرات میں حضرت شیخ مصطفی زرقا، شیخ مناع قطان، شیخ عطیہ سالم، شیخ علی طنطاوی، مولانامحمد عبدہ الفلاح، شیخ محمد عمر فلاتہ، شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی، شیخ علامہ عبدالعزیز بن باز اور آخر میں محدث العصر حضرت علامہ شیخ الالبانی رحمہم اللہ سرفہرست ہیں۔ ان حضرات نے دین حنیف کی کس قدر خدمات سرانجام دیں، کتاب و سنت کی تعلیمات کو پھیلانے اور مردہ دلوں کو نورِ ایمان سے منور کرنے میں جو سعی ٔبلیغ کی اس کی داستان نہایت طویل ہے۔ ان میں بالخصوص شیخ ابن باز اور شیخ البانی کی خدمات کا دائرہ تو اتنا وسیع ہے کہ ع سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے!!
زیر نظر تحریرمیں ہم مؤ خر الذکر حضرت شیخ البانی ؒ کے منہج اور حدیث ِنبوی کے حوالہ سے ان کے ایک موقف کی وضاحت کریں گے۔ انہوں نے گو ایک سو سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں اور ہر کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے نادرتحقیقات پر مشتمل ہے مگر ان میں زیادہ مشہور کتب سلسلة الأحادیث الصحیحة، سلسلة الأحادیث الضعیفة، إرواء الغلیل، صفة صلاة النبي ﷺ، صحیح جامع الصغیر، ضعیف جامع الصغیر، تمام المنة، غایة المرام، أحکام الجنائز اور تحذیر الساجد وغیرہ ہیں۔
حدیث و سنت کے باب میں ان کی سب سے بڑی کاوش یہ ہے کہ انہوں نے اس رجحان کی آبیاری کی کہ اَحکام و مسائل میں صحیح اور حسن حدیث کا ہی اہتمام کیا جائے ، ضعیف پر قطعاً عمل نہ کیا جائے ۔ اسی طرح فضائل و مستحبات میں بھی ضعیف پر اعتماد نہ کیا جائے۔ اسی بنا پر انہوں نے ذخیرئہ احادیث میں سے صحیح اور ضعیف روایات کو چھانٹ کر رکھ دیا۔سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، صحیح جامع الصغیر، ضعیف جامع الصغیر کے علاوہ صحیح ابی داود، ضعیف ابی داود، صحیح الترمذی، ضعیف الترمذی، صحیح النسائی، ضعیف النسائی، صحیح ابن ماجۃ، ضعیف ابن ماجۃ، صحیح الترغیب و الترھیب، ضعیف الترغیب والترھیب، صحیح الأدب المفرد، ضعیف الأدب المفرد اور صحیح الکلم الطیب وغیرہ اسی سلسلۃ الذھب کی کڑیاں ہیں۔ ان کے صحت و ضعف کے حکم پر نقد و تبصرہ اہل علم کا حق ہے۔ کیونکہ شیخ البانی بھی انسان ہیں اور سہو و خطا سے کون انسان ہے جو محفوظ رہا ہو۔ خود راقم الحروف ناچیزبھی کئی مقامات پر شیخ مرحوم سے متفق نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ان کی چند ایسی خطائوں کی بنا پر ان کی خدمات ِجلیلہ کو ہدفِ تنقید بنالیا جائے اور محض معاصرانہ چشمک میں بات کا بتنگڑ بنا دیا جائے۔ مثلا ً یہی دیکھئے کہ شیخ ابوغدہ، شیخ ابو عوامۃ وغیرہ کو الصحیحۃ اور الضعیفۃ کی تقسیم و تفریق ہی نہیں بھاتی۔ جس کی تفصیل ’’أثر الحدیث الشریف في اختلاف الأئمة الفقھاء لأبي عوامة اور حواشی ظفر الأماني لأبي غدة میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ہم یہاں اس مسئلہ میں شیخ البانی کے موقف کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں اور بتلانا چاہتے ہیں کہ ان کا یہ موقف نیا نہیں۔ امام بخاری امام مسلم وغیرہ کا بھی یہی موقف تھا ،چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
’’أن الحدیث الضعیف لایعمل به مطلقاً لافي الفضائل والمستحبات ولافي غیرھما، ذلك لأن الحدیث الضعیف إنما یفید الظن المرجوح بلاخلاف أعرفه بین العلماء وإذا کان کذٰلك فکیف یقال بجواز العمل به واللہ عزوجل قد ذمّه في غیر ما آیة من کتابه فقال تعالیٰ ﴿اِنَّ الظَّنَّ لاَيُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ وقال:﴿إِنَّ يتَّبِعُوْنَ إِلاَّ الظَّنَّ﴾ وَقَالَ رسول اللہﷺ ’’إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث» أخرجه البخاری و مسلم‘‘ (مقدمہ ضعیف الجامع، ص۴۵)
’’ضعیف حدیث پرمطلقاً عمل نہ کیا جائے نہ فضائل و مستحبات میں اور نہ ان کے علاوہ کسی اور موقع پر کیونکہ ضعیف حدیث کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ظن مرجوح کا فائدہ دیتی ہے۔ لہٰذا جب اس کی یہ پوزیشن ہے تو اس پر عمل کیونکر جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی بہت سی آیات میں ظن کی مذمت بیان کی چنانچہ فرمایا ہے ’’بے شک جہاں یقین چاہئے، وہاں ظن کوئی کام نہیں آتا‘‘ نیز فرمایا ’’وہ تو محض ظن کی پیروی کرتے ہیں‘‘ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ظن سے بچو کیونکہ ظن بہت جھوٹی بات ہے‘‘
ضعیف حدیث پر عمل نہ کرنے کی جو دلیل اصولی طور پر علامہ البانی ؒنے پیش کی ہے۔ صحیح خبر واحد کو ظنی کہہ کر درخور اعتنا نہ سمجھنے والوں کے لئے باعث ِتامل ہے۔ ضعیف کی حیثیت تو ’’ظن مرجوح‘‘ کی ہے اور اس پر عمل بھی بقول حافظ ابن حجر ؒ اس شرط پر ممکن ہے کہ اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو تاکہ نبی کریمﷺ کی طرف ایسی چیز منسوب نہ ہوجائے جو آپ نے نہیں کہی۔ چنانچہ ضعیف حدیث پر عمل کے لئے شروطِ ثلاثہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ ؒتیسری شرط یہی بیان کرتے ہیں:
«أن لایعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ینسب إلی النبي ﷺ ما لم یقله»
’’اس پر عمل کے وقت اس کے ثبوت ہونے کا یقین نہ رکھا جائے تاکہ نبی اکرم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہوجائے جو آپ نے نہیں فرمائی‘‘ (القول البدیع: ص۲۵۸)
بلکہ خود حافظ ابن حجر ؒ کے الفاظ اس بارے میں انتہائی غور طلب ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ولکن اشتھر أن أھل العلم یتسمحون في إیراد الأحادیث في الفضائل وإن کان فیھا ضعف مالم تکن موضوعة، وینبغي مع ذلك اشتراط أن یعتقد العامل کون ذلك الحدیث ضعیفا وأن لایشھر ذلك لئلا یعمل المرأ بحدیث ضعیف فیشرع مالیس بشرع أویراہ بعض الجھال فیظن أنه سنة صحیحة وقد صرح بمعنی ذلك الاستاذ أبو محمد ابن عبدالسلام وغیرہ ولیحذر المرأ من دخوله تحت قوله ﷺ من حدث عني بحدیث یری أنه کذب فھو أحد الکذابین فکیف بمن عمل به ولا فرق في العمل بالحدیث في الأحکام أو في الفضائل إذا لکل شرع‘‘ (تبیین العجب: ص۸،۹)
’’یعنی شہر رجب کے بارے میں اس کے کسی مخصوص دن روزہ رکھنے یا کسی رات قیام کی فضیلت میں کوئی قابل استدلال روایت ثابت نہیں۔ لیکن مشہور ہے کہ اہل علم احادیث ِفضائل میں تساہل سے کام لیتے ہیں اگرچہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو اِلا یہ کہ وہ موضوع ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط بھی ضروریہے کہ اس پر عمل کرنے والا اسے ضعیف سمجھے اور اسے شہرت نہ دے تاکہ کوئی شخص ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے اور ایسے عمل کو مشروع بنالے جو شریعت نہیں ہے یا بعض بے خبر لوگ اسے سنت ِصحیحہ نہ سمجھنے لگیں۔ اسی قسم کی تصریح استاد ابو محمد ابن عبدالسلام وغیرہ نے بھی کی ہے اور انسان کو آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کے تحت آجانے سے بچنا چاہئے کہ جو میری طرف سے حدیث بیان کرتا ہے جسے وہ جھوٹی سمجھتا ہے تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔ جب جھوٹی روایت بیان کرنے پر ایسی وعید ہے تو جو اس پر عمل کرے اس کا کیا حال ہوگا اور احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل میں کوئی فرق نہیں جب کہ ان سب کا تعلق شریعت سے ہے‘‘
حافظ ابن حجر ؒ کے الفاظ سے دو باتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں:
(1) دینی مسائل کا تعلق اَحکام سے ہو یا فضائل سے وہ بہرنوع دین ہیں۔
(2) ضعیف روایت پر عمل کو شہرت نہ دی جائے تاکہ دین سے بے خبر لوگ اس پر عمل کو سنت نہ سمجھنے لگیں یا اس پر عمل کو شریعت نہ بنا لیں۔
سوال یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر فضائل میں عمل کر لینے کے موقف کو اپنانے کے بعدعلمائِ امت نے ان شرائط کو ملحوظ رکھا؟ قطعاً نہیں بلکہ اس دائرہ کو اس قدر وسیع کر دیا کہ فضائل اعمال میں موضوع (بناوٹی) احادیث تک کو قبول کر لیا گیا۔ چنانچہ ایک حدیث جو یومِ عرفہ کی فضیلت میں ان الفاظ سے مروی ہے: «أفضل الأیام یوم عرفة إذا وافق یوم الجمعة فھو أفضل من سبعین حجة»
’’ یومِ عرفہ جمعہ کے روز ہو تو وہ سب دنوں سے افضل دن ہے اور اسی دن حج کرنا ستر حج سے افضل ہے‘‘ (اسے رزین نے روایت کیا ہے)
اسی روایت کے بارے میں علامہ ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں:
’’وأما ما ذکرہ بعض المحدثین في أسناد ھذا الحدیث أنه ضعیف فعلی تقدیر صحته لایضر المقصود، فإن الحدیث الضعیف معتبر في فضائل الأعمال‘‘ (الأجوبۃ الفاضلۃ، ص۳۷)
’’اور یہ جو بعض محدثین نے اس کی سند کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے تو اسے صحیح تسلیم کر لینے سے بھی مقصود پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہے۔ ‘‘
باعث ِتعجب ہے کہ علامہ لکھنوی ؒ نے بھی علامہ ملا علی قاری ؒ کی خاموش تائید ہی کی ہے۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ روایت صرف ضعیف نہیں بلکہ باطل محض ہے۔ علامہ ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:
’’وأما ما استفاض علی السنة العوام بأنھا تعدل ثنتین وسبعین حجة فباطل لا أصل له عن رسول اللہﷺ ولاعن أحد من الصحابة والتابعین‘‘
’’لوگوں کی زبان پر جو یہ مشہور ہے کہ جمعہ کے روز کا حج بہتر حج کرنے کے برابر ہے تو یہ باطل ہے ،اس کی کوئی سند رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں بلکہ کسی صحابی سے ،نہ ہی کسی تابعی سے اس کی کوئی بنیاد ثابت ہے۔ ‘‘ (زاد المعاد:ج۱ ص۶۵، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)
مگر ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ اس بے اصل روایت کو بھی فضائل اعمال کے معرو ف اصول کی بنا پر قبول کر لیا گیا۔ اس نوعیت کی روایات کو یہاں جمع کیا جائے تو یہ مختصرمضمون طویل ہوجائے گا۔ بلاشبہ علامہ ابن ہمام ؒ اور انہی کی پیروی میں بہت سے علماء نے کہا ہے کہ ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہوتا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ کیا استحباب احکامِ شرعیہ میں سے ہے یا نہیں؟ (علم اصولِ فقہ میں احکامِ خمسہ یوں ہیں:فرض، مستحب، جائز، مکروہ او رحرام )…مولانا عبدالحی لکھنوی ؒ نے علامہ ابن ہمامؒ کی رائے کے ساتھ ساتھ محقق جلال الدین الدوانی سے اس کے برعکس یہ بھی نقل کیا ہے کہ:
’’اتفقوا علی أن الحدیث الضعیف لا یثبت به الأحکام الخمسة الشرعیة‘‘ (الأجوابۃ الفاضلۃ، ص۵۶)
’’سب کا اتفاق ہے ضعیف حدیث سے شریعت کے احکامِ خمسہ ثابت نہیں ہوتے ‘‘
اور انہی احکام خمسہ میں ایک مستحب بھی ہے۔ لہٰذا جب استحباب کا درجہ بھی شریعت کے احکام میں شامل ہے تو اس کوضعیف حدیث سے ثابت کرلینا«شَرَعَ لَکُمْ مَّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأذَنْ بِه اللّٰه» (وہ تمہارے لئے ایسی چیزیں شریعت بنا دیتا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی )کے زمرہ میں نہیں آتا ہے؟ …اسی کے بارے میںحافظ ابن حجر ؒ نے ’’فیشرع مالیس بشرع‘‘ کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔ ضعیف حدیث پر عمل تو محض ظن مر جوح پر مبنی ہے، ظن غالب یا ظن صحیح اس کی بنیاد نہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ کسی چیز کے ثبوت یا عدمِ ثبوت میں اشتباہ ہو تو فقہاء ِکرام احتیاطاً عدمِ ثبوت کو ترجیح دیتے ہیں ۔سنت اور بدعت میں اشتباہ ہو تو وہاں بھی اس عمل کو چھوڑ دینا راجح قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح جہاں ظن مرجوح اور شریعت کی تشریح کا پہلو ہو تو احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ بالخصوص جبکہ اس اصول کی آڑ میں بہت سی بے اصل روایات کو بھی قابل اعتنا سمجھا گیا ہے اور بہت سی بدعات کو اس سے سہارا دیا گیا ہے۔شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ولا یجوز أن یعتمد في الشریعة علی الأحادیث الضعیفة التي لیست صحیحة ولا حسنة، ولکن أحمد بن حنبل وغیرہ من العلماء جوّزوا أن یُرویٰ في فضائل الأعمال مالم یعلم أنه ثابت، إذ لم یعلم أنه کذب و ذٰلك أن العمل إذا علم انه مشروع بدلیل شرعي و روي في فضله حدیث لا یعلم أنه کذب جاز أن یکون الثواب حقا ولم یقل أحد من الأئمة أنه یجوز أن یجعل الشيء واجباً أومستحباً بحدیث ضعیف ومن قال ھذا فقد خالف الإجماع‘‘ (القاعدۃ الجلیلۃ، ص۸۴)
’’یہ جائز نہیں کہ شریعت میں ضعیف احادیث پر اعتماد کیا جائے جو نہ صحیح ہیں اور نہ ہی حسن ہیں۔ لیکن امام احمد ؒ وغیرہ نے کہا ہے کہ جب کسی حدیث کا جھوٹا ہونا ثابت نہ ہو اور اس کا صحیح ثابت ہونا بھی معلوم نہ ہو توفضائل اعمال میں اسے بیان کرنا جائز ہے۔ یہ اس لئے کہ جب دلیل شرعی سے کسی عمل کا مشروع ہونا ثابت ہو اور اس کی فضیلت میں ایسی حدیث ہو جو جھوٹی نہ ہو تو اس کاحق ہونا جائز ہے اور یہ تو کسی امام نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے کسی چیز کو واجب اور مستحب قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس نے بھی یہ کہا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی ہے‘‘
شیخ الاسلام ؒ نے ایک دوسرے مقام پر بڑی تفصیل سے اس مسئلہ پر بحث کی ہے جو ان کے مجموعہ فتاویٰ کی جلد ۱۸ کے ص۶۵،۶۸ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ استحباب حکم شرعی ہے جو دلیل شرعی سے ہی ثابت ہوسکتا ہے اور جو بغیر دلیل شرعی کے خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں عمل محبوب ہے تو وہ دین میں ایسا طریقہ مشروع قرار دیتا ہے جس کی اجازت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نہیں دی۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے مقدمہ صحیح الترغیب و الترہیب (ص۲۸،۳۱) میں شیخ الاسلام کی اس عبارت کو مکمل نقل کیا ہے اور اس کے بعد علامہ ابواسحق شاطبی ؒکی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ ج۱ ص۲۴۹ سے اس کی مزید تائید تفصیلاً نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ بدعات کے رسیا ضعیف اور واہی احادیث سے اپنی بدعات کو اسی اصول سے سہارا دیتے ہیں کہ ’فضائل اَعمال میں ضعیف حدیث قابل قبول ہیں‘ نیز ضعیف حدیث سے استحباب ثابت نہیں ہوتا کیونکہ استحباب احکامِ شرعیہ خمسہ میں سے ایک حکم ہے اور وہ صحیح حدیث سے ہی ثابت ہوتے ہیں ضعیف سے نہیں۔ شریعت میں کوئی حکم ثابت ہو تو اس کی فضیلت میں ترغیب و ترہیب کے طور پر ضعیف روایت میں تساہل قابل برداشت ہے۔ یوں نہیں کہ شرعی حکم کی بنیاد ہی ترغیب و ترہیب پر رکھی جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اور علامہ شاطبی ؒ کے علاوہ امام یحییٰ بن معین ؒ، امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ، علامہ ابن العربی ؒ، علامہ ابن حزم رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے جیسا کہ علامہ جمال الدین قاسمی ؒ نے قواعد التحدیثص ۹۴ میں نقل کیا ہے اور یہی موقف علامہ البانی ؒ کا ہے۔ الباعث الحثیث ص ۱۰۱ کے حواشی میں علامہ احمد شاکر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اسی سلسلہ میں امام ابن حبان ؒ کا کلام ان کی کتاب المجروحین کے مقدمہ سے تمام المنۃ ص۳۳، ۳۴ میں اور امام مسلم ؒ کا کلام مقدمہ صحیح الترغیب و الترہیب ص۲۶ میں درج کیا ہے۔ امام ابوشامہ ؒ تو یہاں تک لکھتے ہیں:
’’لا یصح الآن لمسلم عالم أن یذکر إلا ما صح لئلا یشقی في الدارین لِما صحّ عن سید الثقلین أنه قال من حدّث عني بحدیث یریٰ أنه کذب فھو أحد الکاذبین‘‘ (کتاب الباعث علی إنکار البدع والحوادث، ص۲۳۷)
’’ اب کسی مسلمان عالم کے لئے درست نہیں کہ صحیح کے علاوہ ضعیف اور ناقابل اعتبار روایت ذکر کرے تاکہ کہیں وہ دونوں جہاں میں اس رسوائی اور بدبختی کا مصداق نہ ہوجائے جو سید الثقلین ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ جس نے بھی میری طرف سے ایسی حدیث بیان کی جسے وہ جھوٹی خیال کرتا ہے تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔‘‘
مولانا عبدالحی لکھنوی ؒ نے الأجوبۃ الفاضلۃ اور ظفر الأمانی میں اس موضوع پر تفصیلاً بحث کی ہے اور محقق جلال الدین الدوانی کا کلام ان کے رسالہ انموذج العلوم سے نقل کیا ہے۔جس سے ضعیف حدیث سے استحباب کے ثبوت کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے۔ جس میں خلاصہ کلام کے طور پر آخر میں لکھتے ہیں:
’’فلم یثبت شیٔ من الأحکام بالحدیث الضعیف بل أوقع الحدیث الضعیف شبھة الاستحباب فصار الاحتیاط أن یعمل به واستحباب الاحتیاط معلوم عن قواعد الشرع‘‘ انتھی (الأجوبۃ: ص۵۹ ؍ ظفر الامانی: ص۱۹۳)
’’ ضعیف حدیث سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا البتہ ضعیف حدیث نے استحباب کا شبہ پیدا کیا ہے لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ اس پر عمل کیا جائے کیونکہ احتیاطا ً استحباب پر عمل شریعت کے قواعد میں معلوم و معروف ہے۔‘‘
گویا ضعیف حدیث سے استحباب کا محض شبہ ہوتا ہے اور احتیاطاً اس پر عمل کو اختیار کیا گیا ہے مگر اس شبہ کا ازالہ علامہ البانی ؒ کے کلام میں پہلے گزر چکا کہ ضعیف پرعمل ظن مرجوح کی بنیاد پر ہے جس کی پیروی کا ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم ہی نہیں دیا اور یہاں شبہ استحباب پر احتیاطاً عمل کی بجائے دوسرا پہلو بھی برابر کا ہے کہ فی الحقیقت یہ فضیلت نہ ہو تو ایسی صورت میں یہ اپنی طرف سے ایک عمل شریعت بنا دینے کے مترادف ہو ۔ ان دونوں صورتوں میں احتیاط تو ترک میں ہے نہ کہ اس پر عمل کرنے میں جیسا کہ اس کی وضاحت ہم پہلے کرچکے ہیں۔
سخت حیرت کی بات ہے کہ یہ اصول بنانے والوں نے تو اس سلسلے میں ایک روایت ہی بنا ڈالی کہ چنانچہ علامہ ابن حجر ہیثمی ؒ اس دعویٰ کہ ’’فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل بالاتفاق جائز ہے‘‘ کے بعد فرماتے ہیں کہ ایک ضعیف حدیث میں ہے:
«مَنْ بَلَغَه عَنِّیْ ثَوَابُ عَمَلٍ فَعَمِلَه حَصَل له أجر وإن لم أکن قلته أو کما قال» (الاجوبۃ، ص۴۲)
’’جسے میری طرف سے کسی عمل پر ثواب ہونے کا علم ہو پھر وہ اس پر عمل کرے، اسے اس عمل کا اجروثواب ملے گا اگرچہ میں نے وہ بات نہ کہی ہو‘‘
لیجئے اس موقف پر بلکہ کہئے کہ فضیلت ِعمل میں ضعیف حدیث پر عمل کے لئے ضعیف حدیث بھی موجود لہٰذا اب اس کا انکار کیسے؟… حالانکہ ان الفاظ کے ساتھ ذخیرئہ احادیث میں کوئی حدیث منقول نہیں حتیٰ کہ کتب ِضعفاء و موضوعات میں بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ اس کے حاشیہ میں شیخ ابوغدہ ؒ نے وضاحت کردی ہے۔ مگر دیکھا آپ نے اسے ’ضعیف‘ کہہ کر فضائل اَعمال میں اسے بھی قبول کر لیا گیا اور بہت سی بدعات اور مخصوص نمازیں اسی قسم کی ’ضعیف‘ احادیث سے ہی رائج ہیں اور رائج رہی ہیں۔ جیسا کہ علامہ شاطبی ؒ وغیرہ نے کہا ہے بلاشبہ اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے مگر جس احتیاط کی بنیاد پر استحباباً عمل جائز قرار دیا گیا اس میں احتیاط کا تقاضا تو اس پر عمل نہ کرنے کو ہے، عمل کرنے کو نہیں۔ اسی بنا پر علامہ البانی ؒ نے اس موقف کو اختیار کیا اور الصحیحۃ اور الضعیفۃکی بنیاد پر احادیث کی حیثیت بیان کرنے اور اس کی صحت و ضعف کو واضح کرنے میں عمرعزیز صرف کردی۔اللہ تعالیٰ ان کی کوشش کو قبول فرمائے اور جو ئندگان راہِ حق کے لئے مشعل راہ بنائے خود ان کا اپنا بیان ہے:
’’إننا ننصح إخواننا المسلمین في مشارق الأرض و مغاربھا أن یَدَعوا العمل بالأحادیث الضعیفة مطلقاً وأن یوجھوا ھمَّتھم إلی العمل بما ثبت منھا عن النبيﷺ ففیھا ما یغني عن الضعیفة… الخ‘‘ (ضعیف الجامع، ج۱ ص۵۱)
’’یعنی ہم مشرق و مغرب میں بسنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ مطلقاً ضعیف احادیث پر عمل کرنا چھوڑ دیں اور اپنی ہمت ان احادیث پر عمل کرنے کے لئے مرتکز رکھیں جو نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔ وہ صحیح احادیث ہمیں ضعیف احادیث سے بے نیاز کر دیتی ہیں‘‘
اسی جذبہ صادقہ نے امام بخاری ؒ کوالجامع الصحیح لکھنے پر مجبور کیا۔ بعض دیگر محدثین نے بھی ان کی پیروی کی اور انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ نے الصحیحۃ اور الضعیفۃ کو الگ الگ جمع کرنے کی کوشش کی۔ الصحیحۃ میں صحیح، صحیح لغیرہ اور حسن، حسن لغیرہ کا اور الضعیفۃ میں ضعیف، ضعیف جداً، شاذ، منکر، باطل، موضوع، لا أصل لہ، لا یصح، لا أصل لہ مرفوعًا وغیرہ کا درجہ و مرتبہ بادلیل بیان کیا، ان کی اس تحقیق سے اختلاف ممکن ہے۔ لیکن ان کی اس صائب فکر اور قابل قدر کوشش کو تنقیص کی نظر سے دیکھنا کوئی خدمت اور مستحسن رویہ نہیں۔ بدعت کے اس دور میں سلامتی کی وہی راہ ہے جو علامہ البانی ؒ اور ان کے پیشرو حضرات نے اختیار کی ہے۔ سنت کی پیروی، بدعت میں اجتہاد سے بہرنوع بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح احادیث پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور بدعات و خرافات سے محفوظ رکھے۔ آمین!