جولائی 1981ء

انتخاب حضرت علیؓ

(اقتباسات از روایات طبری ج ۴ از صفحہ ۴۲۷ تا ۴۳۵)

1. حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عَبْدِ اللَّه بْن سواد بْن نويرة، وَطَلْحَة بن الأعلم، وأبو حَارِثَةَ، وأبو عُثْمَان، قَالُوا: بقيت الْمَدِينَةُ بعد قتل عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خمسة أيام، وأميرها الْغَافِقِيّ بن حرب يلتمسون من يجيبهم إِلَى القيام بالأمر فلا يجدونه، يأتي الْمِصْرِيُّونَ عَلِيًّا فيختبئ مِنْهُمْ ويلوذ بحيطان الْمَدِينَةِ، فإذا لقوه باعدهم وتبرأ مِنْهُمْ ومن مقالتهم مرة بعد مرة، ويطلب الْكُوفِيُّونَ الزُّبَيْر فلا يجدونه، فأرسلوا اليه حيث هو رسلا، فباعدهم وتبرأ من مقالتهم، ويطلب الْبَصْرِيُّونَ طَلْحَةَ فإذا لقيهم باعدهم وتبرأ من مقالتهم مرة بعد مرة، وكانوا مجتمعين عَلَى قتل عُثْمَان مختلفين فيمن يهوون، فلما لم يجدوا ممالئا وَلا مجيبا جمعهم الشر عَلَى أول من أجابهم، وَقَالُوا: لا نولي أحدا من هَؤُلاءِ الثلاثة، فبعثوا إِلَى سعد بن أَبِي وَقَّاص وَقَالُوا: إنك من أهل الشورى فرأينا فيك مجتمع، فاقدم نبايعك، فبعث إِلَيْهِم: إني وابن عمر خرجنا منها فلا حاجة لي فِيهَا عَلَى حال، وتمثل:
لا تخلطن خبيثات بطيبة ... واخلع ثيابك منها وانج عريانا
ثُمَّ إِنَّهُمْ أتوا ابن عمر عَبْد اللَّهِ، فَقَالُوا: أنت ابن عمر فقم بهذا الأمر، فَقَالَ: إن لهذا الأمر انتقاما وَاللَّهِ لا أتعرض لَهُ، فالتمسوا غيري فبقوا حيارى لا يدرون مَا يصنعون والأمر أمرهم (ص ۲۳۴)

محمد بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن سوار بن نویرہ، طلحہ بن الاعلم، ابو حارثہ اور ابو عثمان سے روایت ہے۔ کہتے ہیں شہادتِ عثمان کے بعد پانچ دن تک غافقی بن حرب امارت کے فرائض سر انجام دیتا رہا۔ یہ لوگ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو امارت قبول کرے لیکن ناکام رہے۔ مصری لوگ حضرت علیؓ کے پاس آئے تو وہ ان سے غائب ہو گئے اور مدینہ کی ایک فصیل میں پناہ لی۔ جب یہ ان سے ملے تو حضرت علیؓ نے ان سے اور ان کے مطالبہ سے بار بار بیزاری کا اظہار کیا۔ اور کوفی لوگ حضرت زبیر کو امام بنانا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے حضرت زبیر کو کہیں نہ پایا۔ تو ان کی تلاش کے لئے آدمی بھیجے۔ حضرت زبیرؓ نے بھی ان سے اور ان کے مطالبہ سے بیزاری کا اظہار کیا۔ اور بصری لوگ حضرت طلحہؓ کو امیر بنانا چاہتے تھے۔ جب یہ ان سے ملے تو انہوں نے بھی ان سے اور ان کے مطالبہ سے بیزاری کا اظہار کیا۔ یہ شر پسند حضرت عثمان کو شہید کر دینے پر متفق تھے مگر نئے امام کے تقرر میں اختلاف رکھتے تھے۔ پھر جب ان لوگوں کو کوئی بھی ایسا آدمی نہ ملا جو ان کے مطالبہ کو قبول کرتا یا جھوٹے وعدہ سے ہی ان کو خوش کر دیتا۔ وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ جو امارت قبول کر لے اسے امیر بنا دیا جائے۔ اور کہنے لگے ہم ان تینوں میں سے کسی کو بھی امیر نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے حضرت سعد بن وقاص کے پاس بھیجا اور کہا۔ آپ اہل شوریٰ سے ہیں۔ ہم آپ کی امامت پر متفق ہیں۔ سو آگے آئیے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ حضرت سعدؓ نے جواب دیا۔ میں اور عبد اللہ بن عمر دونوں اس معاملہ سے باہر ہیں۔ مجھے اس امارت کی کوئی ضرورت نہیں۔

پھر یہ لوگ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس آئے اور کہا۔ آپ حضرت عمرؓ کے بیٹے ہیں۔ آپ خلافت کے لئے کھڑے ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا۔ یہ سب انتقامی کارروائی ہے۔ خدا کی قسم میں اس سے تعرض نہ کروں گا۔ میرے سوا کوئی اور آدمی ڈھونڈو۔ اب یہ لوگ سخت پریشان ہوئے اور نہیں جانتے تھے کہ اس معاملہ میں کیا کریں۔

2.عَنْ مُحَمَّدٍ وَطَلْحَةَ، قَالا: فَقَالُوا لَهُمْ: دُونَكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَقَدْ أَجَّلْنَاكُمْ يومين، فو الله لَئِنْ لَمْ تَفْرُغُوا لَنَقْتُلَنَّ غَدًا عَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَأُنَاسًا كَثِيرًا فَغَشَى النَّاسُ عَلِيًّا فَقَالُوا: نُبَايِعُكَ فَقَدْ تَرَى مَا نَزَلَ بِالإِسْلامِ، وَمَا ابْتُلِينَا بِهِ مِنْ ذَوِي الْقُرْبَى، [فَقَالَ عَلِيٌّ: دَعُونِي وَالْتَمِسُوا غَيْرِي(۴۳۴)

محمد اور طلحہ کہتے ہیں۔ اب ان لوگوں نے اہلِ مدینہ سے کہا کہ تمہیں دو دن کی مہلت ہے۔ اس دوران کوئی امیر مقرر کر لو۔ ورنہ اگلے دن ہم علیؓ، زبیرؓ اور طلحہؓ کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں کو قتل کر دیں گے۔ پس لوگ حضرت علیؓ کے گرد ہو گئے اور کہا ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ آپ پہلے اسلام لانے والوں سے ہیں اور ذوی القربیٰ سے ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ مجھے چھوڑ دو۔ کوئی دوسرا آدمی تلاش کرو۔

3. عَنِ الشَّعْبِيِّ، قال: لما قتل عثمان رضي الله عنه أَتَى النَّاسُ عَلِيًّا وَهُوَ فِي سُوقِ الْمَدِينَةِ، وَقَالُوا لَهُ: ابْسُطْ يَدَكَ نُبَايِعْكَ، [قَالَ: لا تَعْجَلُوا فَإِنَّ عُمَرَ كَانَ رَجُلا مُبَارَكًا، وَقَدْ أَوْصَى بِهَا شُورَى، فَأَمْهِلُوا يَجْتَمِعُ النَّاسُ وَيَتَشَاوَرُونَ] فَارْتَدَّ النَّاسُ عَنْ عَلِيٍّ، ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ رَجَعَ النَّاسُ إِلَى أَمْصَارِهِمْ بِقَتْلِ عُثْمَانَ وَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهُ قَائِمٌ بِهَذَا الأَمْرِ لَمْ نَأْمَنِ اخْتِلافَ النَّاسِ وَفَسَادَ الأُمَّةِ، فَعَادُوا إِلَى عَلِيٍّ، فَأَخَذَ الأَشْتَرُ بِيَدِهِ فَقَبَضَهَا عَلِيٌّ، فَقَالَ:
أَبَعْدَ ثَلاثَةٍ! أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ تَرَكْتَهَا لَتَقْصُرَنَّ عنيتك عَلَيْهَا حِينًا، فَبَايَعَتْهُ الْعَامَّةُ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَقُولُونَ: إِنَّ أَوَّلَ مَنْ بَايَعَهُ الأَشْتَرُ. (۴۳۳)

شعبی کہتے ہیں جب حضرت عثمان شہید ہو گئے تو لوگ حضرت علیؓ کے پاس آئے جبکہ وہ مدینہ کے بازار میں تھے۔ اور کہنے لگے ہاتھ بڑھائیے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ جلدی نہ کرو۔ حضرت عمرؓ بابرکت انسان تھے اور انہوں نے مشورہ کی تاکید فرمائی تھی۔ سو انتظار کرو تاکہ لوگ اکٹھے ہوں اور مشورہ کریں۔ سو لوگ حضرت علیؓ کے پاس سے چلے گئے۔ پھر بعض لوگوں (شر پسندوں) نے کہا۔ اگر ہم لوگ شہادتِ عثمانؓ کے بعد بغیر امیر کے تقرر کے اپنے شہروں کو چلے گئے تو ہماری خیر نہیں۔ اور امت میں فساد ہو گا۔ وہ دوبارہ حضرت علیؓ کے پاس آئے۔ اشتر (نخعی) نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں قابو کیا اور تین بار کہا: اے خائن! خدا کی قسم اگر تو نے اس امارت کو ترک کیا تو ابھی تمہاری آنکھیں نکال دی جائیں گی ۔

پھر عام لوگوں نے بیعت کی۔ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اشتر نے آپ کی بیعت کی۔

4. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى عَلِيٍّ، ذَهَبَ الأَشْتَرُ فَجَاءَ بِطَلْحَةَ، فَقَالَ لَهُ: دَعْنِي أَنْظُرُ مَا يَصْنَعُ النَّاسُ، فَلَمْ يَدَعْهُ وَجَاءَ بِهِ يتله تَلا عَنِيفًا، وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَبَايَعَ(۴۳۵)

عبد الرحمٰن بن جندب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ جب حضرت عثمانؓ شہید ہوئے اور لوگ حضرت علی کی خلافت پر متفق ہو گئے تو اشتر گیا اور طلحہؓ کو ساتھ لے آیا۔ حضرت طلحہ کہنے لگے۔ مجھے چھوڑ دو۔ میں دیکھوں گا لوگ اس معاملہ میں کیا کرتے ہیں۔ لیکن اس نے نہ چھوڑا اور سختی کے ساتھ کھینچ کر لے آیا۔ چنانچہ وہ منبر پر چڑھے اور بیعت کی۔

عَنِ الْحَارِثِ الْوَالِبِيِّ، قَالَ: جَاءَ حَكِيمُ بْنُ جَبَلَةَ بِالزُّبَيْرِ حَتَّى بَايَعَ، فَكَانَ الزُّبَيْرُ يَقُولُ: جَاءَنِي لِصٌّ مِنْ لُصُوصِ عَبْدِ الْقَيْسِ فَبَايَعْتُ وَاللُّجُّ عَلَى عُنُقِي.(۴۳۵)

حارث ابو البی کہتے ہیں۔ حکیم بن جبلہ حضرت زبیر کو لے کر آیا حتّٰی کہ انہوں نے بیعت کی۔ حضرت زبیر کہا کرتے تھے۔ عبد القیس کے چوروں میں سے ایک چور میرے پاس آیا اور میں نے بیعت کی جبکہ تلوار میری گردن پر تھی۔

6.عَنْ مُحَمَّدِ بن الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ:
كُنْتُ مَعَ أَبِي حِينَ قُتِلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَامَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، فأتاه اصحاب رسول الله ص، فقالوا: إن هذا الرجل قد قتل، ولا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ إِمَامٍ، وَلا نَجِدُ الْيَوْمَ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ، لا أَقْدَمَ سابقه، ولا اقرب من رسول الله ص [فَقَالَ: لا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي أَكُونُ وَزِيرًا خَيْرٌ من ان أَكُونُ أَمِيرًا، فَقَالُوا: لا، وَاللَّهِ مَا نَحْنُ بِفَاعِلِينَ حَتَّى نُبَايِعَكَ، قَالَ: فَفِي الْمَسْجِدِ، فَإِنَّ بَيْعَتِي لا تَكُونُ خَفِيًّا، وَلا تَكُونُ إِلا عَنْ رِضَا الْمُسْلِمِينَ] قَالَ سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَلَقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَأْتِيَ الْمَسْجِدَ مَخَافَةَ أَنْ يَشْغَبَ عَلَيْهِ، وَأَبَى هُوَ إِلا الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا دَخَلَ دَخَلَ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارِ فَبَايَعُوهُ، ثُمَّ بَايَعَهُ النَّاسُ.

محمد بن حنفیہ کہتے ہیں۔ جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو میں اپنے باپ (حضرت علیؓ) کے ساتھ تھا۔ آپ کھڑے ہوئے پھر ان کے گھر میں داخل ہوئے تو حضور اکرم ﷺ کے صحابی آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ حضرت عثمان تو شہید ہو گئے اور امام کے بغیر لوگوں کے لئے کوئی چارہ نہیں۔ اور ہم آج امارت کے لئے آپ سے زیادہ مناسب کوئی آدمی نہیں دیکھتے۔ مسابقت فی الاسلام کی وجہ سے بھی اور حضور ﷺ کے ساتھ قرابت کی وجہ سے بھی۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ ''ایسا نہ کرو۔ میں امیر بننے سے زیادہ وزیر بننا پسند کرتا ہوں۔'' لوگوں نے کہا۔ ''خدا کی قسم! ہم تو آپ ہی کی بیعت کریں گے۔'' حضرت علیؓ نے کہا۔ ''تو پھر یہ مسجد میں ہو گی۔ میری بیعت خفیہ طریقے سے یا مسلمانوں کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔'' سالم بن ابی جعد کہتے ہیں کہ عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ میں حضرت علیؓ کے مسجد میں جانے کو ناپسند کرتا تھا مبادا کوئی آفت نہ پڑ جائے۔ مگر علیؓ نے مسجد کے سوا کچھ تسلیم نہ کیا۔ جب وہ داخل ہوئی تو مہاجر اور انصار بھی داخل ہوئے۔ سو انہوں نے بیعت کی۔ پھر عام لوگوں نے بیعت کیا۔

7. عن عَبْد اللَّهِ بن الْحَسَن، قَالَ: لما قتل عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بايعت الأنصار عَلِيًّا إلا نفيرا يسيرا، مِنْهُمْ حسان بن ثَابِت، وكعب بن مالك، ومسلمة بن مخلد، وأبو سَعِيد الخدري، ومحمد بن مسلمة، والنعمان بن بشير، وزَيْد بن ثَابِت، ورافع بن خديج، وفضالة بن عبيد، وكعب بن عجره، كَانُوا عثمانية فَقَالَ رجل لعبد اللَّه بن حسن: كيف أبى هَؤُلاءِ بيعة علي! وكانوا عثمانية قَالَ: أما حسان فكان شاعرا لا يبالى ما يصنع، واما زيد ابن ثَابِت فولاه عُثْمَان الديوان وبيت المال، فلما حصر عُثْمَان، قَالَ:
يَا معشر الأنصار، كونوا أنصارا لِلَّهِ مرتين، فَقَالَ أَبُو أيوب: مَا تنصره إلا أنه أكثر لك من العضدان فأما كعب بن مَالِكٍ فاستعمله عَلَى صدقة مزينة وترك مَا أخذ مِنْهُمْ لَهُ.
قَالَ: وَحَدَّثَنِي من سمع الزُّهْرِيّ يقول: هرب قوم مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى الشام ولم يبايعوا عَلِيًّا، ولم يبايعه قدامة بن مظعون، وعبد اللَّه بن سلام، والمغيره ابن شُعْبَةَ وَقَالَ آخرون: إنما بايع طَلْحَة وَالزُّبَيْر عَلِيًّا كرها.
وَقَالَ بعضهم: لم يبايعه الزُّبَيْر. (۴۳۰)

عبد اللہ بن حسن کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ شہید ہو گئے تو انصار نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی سوائے چند اشخاص کے۔ حسان بن ثابت، کعب بن مالک۔ مسلمہ بن مخلد، ابو سعید خدری، محمد بن مسلمہ، نعمان بن بشیر، زید بن ثابت، رافع بن خدیج، فضّالہ بن عبید، کعب بن عُجرہ انہی میں سے تھے اور یہ سب حضرت عثمان کے حامی تھے۔

راوی کہتا ہے۔ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس نے زہری سے سنا کہ ایک قوم مدینہ سے شام کی طرف بھاگ گئی اور حضرت علیؓ کی بیعت نہ کی اور قدامہ بن مظعون عبد اللہ بن سلام، مغیرہ بن شعبہ نے بھی بیعت نہ کی۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ اور زبیر نے بھی جبری بیعت کی تھی۔

اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ نے بیعت نہیں کی تھی۔

حضرت علیؓ کی بیعت کا قصہ تاریخ کی دوسری مشہور کتب میں بھی مذکور ہے۔ اب ہم اس واقعہ کو تسلسل کے ساتھ بیان کریں گے اور جہاں ضرورت ہوئی تو دوسری کتب کا صرف اردو ترجمہ (بغیر متن) پیش کیا جائے گا۔ یا تائید کے طور پر ان کا حوالہ درج کر دیا جائے گا۔

شہادت عثمانؓ کے وقت باغی اور شورش پسند عنصر مدینہ پر چھایا ہواتھا۔ انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ بہت سے صحابہ تو حج پر تشریف لے جا چکے تھے باقی دل شکستہ اور سہمے ہوئے تھے۔ پورے شہر کا نظم و نسق باغیوں میں سے ہی ایک شخص غافقی بن حرب کے ہاتھ میں تھا۔ یہی شخص ۵ دن تک امامت کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔ شر پسندوں کا یہ گروہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دینے تک تو متفق تھا لیکن آئندہ خلیفہ بنانے میں ان میں آپس میں اختلاف تھا۔ مصری حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے پر مصر تھے، کوفی حضرت زبیرؓ اور بصری حضرت طلحہؓ کو۔ لیکن ان تینوں حضرات نے انکار کر دیا۔ پھر یہ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ اہل شوریٰ سے ہیں زمامِ خلافت آپ سنبھال لیجیے۔ پھر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس جا کر یہی کچھ کہا۔ لیکن ان دونوں حضرات نے بھی صاف انکار کر دیا۔ (البدایہ ج۷، ص ۲۲۶)

اس صورتِ حال سے ان شورشیوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر ہم اس معاملہ کو یونہی چھوڑ کر واپس چلے گئے تو ہماری خیر نہیں۔ یہ سوچ کر حضرت علیؓ کے پاس آئے اور اصرار کیا اور اس گروہ کے سرخیل اشتر نخعی نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کر لی۔ اس کے بعد دیگر افراد نے بھی بیعت کی۔ (البدایہ ج ۷ ص ۲۳۶)

طبری کی روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ سے زمام خلافت سنبھالنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا:۔

''میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہئے۔'' (طبری جلد ۴۔ ص ۴۲۷)

اور ابن قتیبہ کی روایت کے مطابق آپ نے اس کو یوں جواب دیا:۔

''یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے جسے وہ منتخب کریں۔ وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے۔ (ابن قتیبہ۔ الامامۃ والسیاسۃ ج ۱ ص ۴۱)

لیکن ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ کی خواہش کے مطابق اہل شوریٰ اور اہل بدر کے جمع ہونے کا موقع میسر نہ آسکا۔ اور اس کے بغیر ہی آپ خلیفہ چن لیے گئے۔ جیسا کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

حضرت علیؓ سے بیعت کرنے کے بعد اشتر نخعی اور اس کے ساتھی حضرت طلحہؓ کے پاس گئے اور کہا بیعت کیجیے۔ انہوں نے پوچھا: کس کی؟ کہنے لگے ''علیؓ کی۔'' طلحہؓ نے پوچھا کیا شوریٰ نے جمع ہو کر اس کا فیصلہ کیا ہے؟'' انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور کہنے لگے۔ ''بس چل کر بیعت کیجیے۔'' انہوں نے پھر انکار کیا لیکن وہ بجبر ان کو وہاں سے لے گئے۔ (الامۃ والسیاسۃ ج۱ ص ۴۲) اس واقعہ کی تائید میں طبری کی روایت بھی پیش کی جا چکی ہے۔

جیسا کہ حضرت علیؓ کے قول سے ظاہر ہے کہ انتخاب امیر اہلِ شوریٰ یا اہل بدر کا کام ہے جنہیں بالفاظ دیگر اہلِ حل و عقد یا اعیانِ ملّت بھی کہتے ہیں۔ چونکہ حضرت علیؓ کا انتخاب اہل شوریٰ کے بجائے عامیانہ دباؤ کے تحت ہوا تھا لہٰذا آپ کی خلافت کی آئینہ حیثیت بھی زیر بحث رہی۔ کئی مقامات پر بہت سے لوگ بیعتِ علیؓ سے کنارہ کش رہے۔ شام تو کلیۃً حضرت علیؓ کی بیعت سے کنارہ کش رہا۔ مدینے سے بھی بہت سے افراد بیعت علی سے بچنے کے لئے شام چلے گئے تھے۔ (طبری ج ۴ ص ۴۳۳۔ البدایہ ج ۷ ص ۲۳۶، الکامل ج ۴ ص ۱۹۲)

مصر، کوفہ اور بصرہ میں بھی ایک گروہ نے بیعتِ علی سے توقف کیا (ایضا)

خود مدینے میں بیسیوں لوگوں نے بیعت نہیں کی جن میں جلیل القدر اصحابِ رسول بھی تھے۔ علامہ ابن خلدون نے اپنے شہرٔ آفاق مقدمہ میں انتخابِ علی کی تفصیل یوں لکھی ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون۔ فصل ولایت عہد ص ۳۷۸۔۳۷۹ طبع بیروت ۱۹۶۱؁ء)

''شہادت عثمان کے وقت لوگ مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے تھے۔ سب حضرت علیؓ کی بیعت کے موقعہ پر حاضر نہ ہو سکے اور جو حاضر تھے ان میں سے بھی سب نے بیعت نہیں کی۔ بعض نے کی اور بعض نے اس وقت تک توقف کی روش اختیار کی جب تک لوگ ایک امام پر جمع نہ ہو جائیں (گویا) ان کی نظر میں خلافت علی خلفائے ثلاثہ کی طرح اجماعی نہ تھی۔ ان میں حضرت سعد، سعید، ابن عمر، اسامہ بن زید، مغیرہ بن شعبہ، عبد اللہ بن سلام، قدامہ بن مظعون، ابو سعید خدر، کعب بن مالک، نعمان بن بشیر، حسّان بن ثابت، زید بن ثابت، مسلمہ بن مخلّد، فضالہ بن عبید اور ان جیسے دیگر اکابر صحابہ ہیں جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ (البدایہ والنہایہ ج ۵ ص ۲۲۶)

جو لوگ مدینے سے باہر دوسرے شہروں میں تھے انہوں نے بھی بیعت کرنے سے اس وقت تک اعراض کیا جب تک خونِ عثمان کا مطالبہ پورا نہ ہو جائے اور جب تک مجلس شوریٰ خود کسی شخص کو خلیفہ منتخب نہ کرے۔ حضرت علیؓ کے متعلق یہ لوگ اگرچہ یہ خیال تو نہیں رکھتے تھے کہ وہ بھی خونِ عثمانؓ میں شریک ہیں تاہم قاتلین عثمان کے معاملہ میں ان کے سکوت کو انہوں نے ان کی کمزوری اور سستی پر محمول کیا۔ حضرت معاویہؓ بھی حضرت علیؓ کو جو کچھ کہتے تھے اس کی بنیاد بھی حضرت علیؓ کا یہی سکوت تھا۔

خلافت علیؓ جس طرح بھی منعقد ہوئی ہو گئی لیکن منعقد ہو جانے کے بعد بھی اتفاق کی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ اختلاف موجود رہا۔ حضرت علیؓ کا خیال تھا کہ ان کی بیعت منعقد ہو گئی ہے اور مدینہ جو شہر رسولؓ اور مسکنِ صحابہؓ ہے۔ وہاں کے باشندے ان پر مجتمع ہو چکے ہیں۔ اس لئے بیعت سے پیچھے رہنے والوں کے لئے اب بیعت ضروری ہو گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مطالبہ قصاص کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اسے اس وقت تک ملتوی رکھا جائے جب تک ایک کلمہ (خلافت) پر لوگوں کا اتفاق و اجتماع نہ ہو جائے کیونکہ اس کے بغیر وہ طاقت ممکن نہیں جو اس کام کے لئے ضروری ہے۔

دوسرے حضرات کا یہ خیال تھا کہ جو صحابہ اہل حل و عقد ہیں وہ بیعتِ علیؓ کے وقت مدینہ میں نہ تھے یا ان کی تعداد قلیل تھی، وہ اس وقت دیگر شہروں میں متفرق تھے۔ ان کے بغیر یا ان کی قلیل تعداد کے ساتھ بیعت منعقد نہیں ہو سکتی، اس لئے بیعت ہی سرے سے منعقد نہیں ہوئی۔ مسلمان لمحۂ انتشار میں ہیں۔ اس بنا پر ان کا کہنا یہ تھا کہ پہلے خون عثمان کا مطالبہ پورا کیا جائے۔ اجتماع علی الامام کا معاملہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس نقطۂ نظر کے لوگوں میں حضرت معاوہیؓ، عمرو بن العاصؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت زبیرؓ، ان کے صاحبزادے حضرت عبد اللہؓ اور حضرت طلحہؓ اور ان کے صاحبزادے محمدؓ، حضرت سعدؓ، حضرت سعیدؓ نعمان بن بشیرؓ، معاویہ بن خدیج اور ان کے علاوہ ان کے ہم رائے وہ اکابر صحابہ تھے جو مدینے میں بیعت علیؓ سے پیچھے رہے تھے۔''

حضرت علیؓ کی خلافت کی اس حیثیت کا احساس خود ان حضرات کو بھی تھا جو حضرت علیؓ کے قریب ترین رشتہ دار اور مصاحب تھے۔ جیسے حضرت عبد اللہ بن عباس، انہوں نے حضرت علیؓ کو جب یہ مشورہ دیا کہ فی الحال حضرت عثمانؓ کے مقرر کردہ عاملین کو معزول نہ کیا جائے۔ اس وقت انہوں نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ ''اگر ان کو اس وقت معزول کر دیا گیا تو ممکن ہے کہ وہ آپ کی خلافت ہی کو چیلنج کر دیں اور کہیں کہ یہ خلافت ہی شوریٰ کے بغیر حاصل ہوئی ہے۔'' (طبری ج ۴ ص ۴۳۹) (الکامل ج ۳ ص ۱۹۷)

جنگ صفین کے دوران جب وفد کے ذریعہ صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو حضرت معاویہؓ کے وفد نے اس وقت بھی اس بات کو حضرت علیؓ کے سامنے دہرایا تھا کہ آپ امر خلافت کو چھوڑ کر اسے شوریٰ کے حوالے کر دیں تاکہ لوگ اپنی مرضی سے جسے چاہیں خلیفہ منتخب کریں۔ (طبری جلد ۵ ص ۷۳۷، الکامل جلد ۳ ص ۳۹۱)

ما حصل:۔ حضرت علیؓ کو نہ تو اہلِ شوریٰ نے منتخب کیا۔ نہ مسلمانوں کی آزادانہ رائے کا اس سے کوئی تعلق تھا۔ یہ انتخاب ہنگامی حالات میں ہوا اور منتخب کرنے والا وہی باغی اور شورش پسند گروہ تھا جس کا دامن خونِ عثمان کے چھینٹوں سے داغ دار تھا۔ تاہم یہ خلافت منعقد ہو گئی اور اسی طرح برحق ہے جیسے پہلے تین خلفاء کی برحق ہے۔ اگر جملہ اہلِ شوریٰ کو آزادانہ ماحول میسر آتا تو بھی حضرت علیؓ کے انتخاب کا غالب امکان تھا۔ جیسا کہ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے تقرر کے واقعہ سے واضح ہوتا ہے۔


نوٹ

ان شر پسندوں اور غنڈوں کا طرز تخاطب ملاحظہ فرمائیے۔ نیز یہ بھی کہ کس صورت حال میں حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔

خود عبد اللہ بن سبا مصر سے بھیس بدل کر مدینہ آیا اور اپنے چیلوں کو تاکید کی خلیفہ کے تقرر کے بغیر اپنے علاقوں کو ہرگز واپس نہ جائیں۔