حجیت ِحدیث اور فتنۂ انکارِ حدیث
زمانۂ رسالتؐ اور عہد ِصحابہؓ و تابعینؒ سے جوں جوں دوری ہوتی جارہی ہے، رشدوہدایت میں کمی واقع ہوتی جارہی اور شروضلالت پنجے گاڑتی جارہی ہے۔ فتنے تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ان کا یہ طوفان و طغیان فطری اور لازمی ہے۔ جب تک دنیا میں خیر و اصلاح کا نام و نشان باقی ہے، دنیا بھی باقی ہے۔ جب دنیا فتنہ و فساد سے بھر جائے گی اور روئے زمین پر اللہ کا نام لینے والے باقی نہیں رہیں گے، تب قیامت آئے گی۔
جس طرح دریاؤں کا بہاؤ نشیب کی سمت فطری و قدرتی ہے، انہیں جانب ِفراز نہیں چلایا جاسکتا۔ اسی طرح فتنوں کا طوفان بھی فطرتی ہے، ان کے آگے بند تو باندھا جاسکتا ہے مگر ان کا سد ِباب نہیں کیا جاسکتا۔ ایک فتنہ ابھی فرو نہیں ہوپاتا کہ دوسرا برپا ہوجاتا ہے، انہی فتنوں میں سے ایک فتنہ 'انکار حدیث' کا ہے۔ یہ پڑھے لکھے جاہلوں اور کھاتے پیتے آسودہ حال،متمول لوگوں کا فتنہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس فتنہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا :
«ألا يوشك رجل شبعان علیٰ أريکته يقول: عليکم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه» '' خبردار! عنقریب ایک شکم سیر آدمی اپنے مزین و آراستہ پلنگ یا صوفے پر بیٹھ کر کہے گا کہ تم پر اس قرآن کا (اتباع) فرض ہے۔ اس میں جو حلال ہے تم اسے حلال جانو اورجو اس میں حرام ہے تم اسے حرام جانو۔'' (ابو داود: ۱۶۳؍ مشکوٰۃ المصابیح: باب الاعتصام بالکتاب والسنہ، ص۲۹)
اور امام ترمذیؒ نے ابو رافع ؒ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو، اس کے سامنے میرا حکم از قسم امرونہی پیش ہو اور وہ کہے:«لا أدري ما وجدنا في کتاب الله اتبعناه» (مشکوٰۃ :باب الاعتصام بالکتاب والسنہ) ''میں اسے نہیں جانتا ،ہم تو جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے، اسی پر عمل کریں گے۔''
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ منکرین حدیث پُرتکلف امیرانہ زندگی گزارتے ہوں گے اور خوب پیٹ بھر کر آراستہ و پیراستہ تختوں، مسندوں پر نرم و نازک تکیوں سے ٹیک لگا کر احادیث کا ردّ اور انکار کریں گے۔ سچے اللہ کے مخبر صادق ﷺ کی یہ پیشگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہو کر رہی اور آج بنگلوں میں ٹھاٹھ سے رہنے والے اور فراغت و خوشحالی و عیش و نشاط سے زندگی گزارنے والے لوگ حدیث کی حجیت کا انکار کرتے ہیں اور صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں۔
لسانِ رسالت سے اس فتنہ کی تردید
منکرین ِحدیث کے اس استدلال کا ردّ بھی آپؐ نے خود فرما دیا:
«ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه ... وإن ما حرم رسول الله کما حرم الله، ألا لا يحل لکم الحمار الأهلي » (مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
''خبردار رہو! بلا شبہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی دی گئی ہے ... اور بلا شبہ جو رسول اللہ ﷺ نے حرام کیا ہے، وہ اسی طرح حرام ہے جس طرح اللہ کا حرام کردہ ہے۔ خبردار رہو! پالتو گدھا تمہارے لئے حلال نہیں...!''
اسی طرح حضرت عرباض بن ساریہؓ کی روایت میں منکرین حدیث کے دعویٰ کی تردید کی گئی ہے جوکہتے ہیں کہ قرآن کی حرام کردہ چیز کے علاوہ اللہ نے کوئی چیز حرام نہیں کی۔ فرمایا:
«ألا وإني والله قد اَمرت ووَعظتُ ونَهيتُ عن أشياء إنها لمثل القرآن أو أکثر وإن الله لم يحل لکم أن تدخلوا بيوت أهل الکتاب إلا بإذن»
''خبردار رہو! میں نے اللہ کی قسم حکم دیا اور نصیحت کی اور کئی چیزوں سے منع کیا جو قرآن جتنی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہوجاؤ۔'' (مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)٭
ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی حرام کردہ چیزیں (جو کہ احادیث میں ہیں) وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح حرام ہیں۔ آپؐ نے کئی چیزوں کی حرمت کا ذکر فرمایا جن کی حرمت قرآن میں نہیں ہے مثلاً گدھے کا حرام ہونا یا اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے کی حرمت اور اہل کتاب کے گھروں میں داخلہ کی حرمت کو آپؐ نے اللہ کی طرف منسوب کیا ہے: «إن الله لم يحل لکم أن تدخلوا ...» حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن میں نہیں کیا بلکہ اسے رسول اللہؐ نے حرام کیا ہے اور آپ ؐنے اپنے حکم کو اللہ کے حکم سے تعبیر کیا ہے۔کیونکہ رسول اللہ کاحرام کرنا بھی اللہ کی وحی سے ہی ہوتا ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث ِرسولؐ قرآن کی طرح حجت ہے اور حدیث بھی قرآن کی طرح منزل من اللہ ہے۔
قرآنِ کریم سے اس کا ثبوت
رسول ا للہ ﷺ پر صرف قرآن نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن کے ساتھ حکمت بھی نازل ہوئی:
﴿وَما أَنزَلَ عَلَيكُم مِنَ الكِتـٰبِ وَالحِكمَةِ...٢٣١﴾... سورة البقرة ''اور جو اُتاری تم پر کتاب اور حکمت...''
﴿وَما أَنزَلَ عَلَيكُ الكِتـٰبِ وَالحِكمَةِ...١١٣﴾... سورة النساء ''اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔''
پھر نبی کریم ﷺ کتاب اللہ کی طرح اس الحکمۃ کی بھی تعلیم دیتے تھے:
﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ...١٢٩﴾... سورة البقرة ''آپؐ انکو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے''
حکمت کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر کتاب اللہ کے ساتھ جو حکمت نازل فرمائی ہے اس سے کیا مراد ہے؟ حضرت قتادہ کہتے ہیں والحکمة أي السنة ''حکمت یعنی سنت ِنبوی ہے۔''
امام شافعیؒ فرماتے ہیں : «والسنة، الحکمة التي في روعه عن الله عزوجل» (الرسالہ)
''اور حضورؐ کی سنت وہ حکمت ہے جو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔''
قرآن اور حدیث میں فرق
یہ بات تو واضح ہوگئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیث رسولؐ بھی منزل من اللہ اوروحی الٰہی ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآن وحی ِمتلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو۔قرآنِ کریم کا مضمون بھی ربانی ہے اور الفاظ بھی ربانی ہیں۔ جبریل امین الفاظِ قرآنی حضور ﷺ پرنازل کرتے ہیں۔
جبکہ حدیث ِنبوی کا مضمون تو ربانی ہے مگر الفاظ ربانی نہیں، اللہ تعالیٰ بلا واسطہ جبریل ؑ کے اس مضمون کو خود قلب ِرسولؐ پرالقا فرماتے ہیں اور آپؐ اس مضمون کومناسب الفاظ کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
مقامِ تعجب ہے کہ منکرین حدیث حضرت محمد ﷺ کو رسول اللہ ﷺ تو مانتے ہیں مگر آپ کے ارشادات کو وحی الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمدؐ بن عبداللہ کی ذاتی بات مانتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو دل سے آپؐ کو رسول اللہ ﷺ نہیں مانتے یا پھر رسولؐ کے معنی نہیں جانتے۔ رسول کے معنی ہیں: پیغام پہنچانے والا۔ پیغام پہنچانے والا دوسرے کا پیغام پہنچاتا ہے، اپنی نہیں سناتا۔ اگر وہ دوسرے کا پیغام پہنچانے کی بجائے اپنی بات شروع کردیتا ہے تو وہ امین نہیں، خائن ہے ۔(معاذ اللہ) اور رسول کی پہلی اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ 'امین' ہو۔ آپ ﷺ مسند ِرسالت پر فائز ہونے سے قبل ہی 'امین' مشہور تھے۔
'رسول' اس کو کہتے ہیں ہیں جو اپنی نہ کہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام حرف بحرف پہنچا دے۔ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کو حضورؐ کی ذاتی بات سمجھ کر ردّ کردیتے ہیں، وہ صرف منکرین حدیث ہی نہیں درحقیقت وہ منکر ِرسالت ہیں۔ اگر حضورؐ کی رسالت کے سچے دل سے قائل ہوتے تو آپؐ کی احادیث آیاتِ قرآنی کی طرح سرآنکھوں پر رکھتے۔
محمدؐ بن عبداللہ یا محمد رسول اللہ ﷺ
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنی تو وہ کہتا ہے جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے اور جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے ،وہ اپنے باپ کے نام سے متعارف ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے سوا،سب اپنے باپ کے نام سے پہنچانے اور پکارے جاتے ہیں۔ جیسے عثمان بن عفان، عمر بن خطاب ، ابوبکر بن ابی قحافہ وغیرہ رضی اللہ عنہم سب اپنے اپنے باپ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ مگر ایک محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جو اپنے باپ کے نام سے نہیں بلکہ محمدرسول اللہ ﷺ سے متعارف ہیں۔
کوئی کافر لاکھ محمدؐ بن عبداللہ کہے، وہ مسلمان نہیں ہوگا۔ ایک دفعہ لاإله إلا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کہہ دے تو تب مسلمان ہوجائے گا۔ قرآن ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، تشہد ہو، کلمہ ہو، ہر جگہ محمدرسول اللہ ﷺ ہیں، محمدؐ بن عبداللہ کسی جگہ پر بھی وارد نہیں۔ تو محمدؐ بن عبداللہ ، محمدؐ بن عبداللہ ہوکر بھی محمدؐ بن عبداللہ نہ رہے بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ ہوگئے تو اب آپ کی بات محمدؐ بن عبداللہ کی بات نہ رہی اب تو آپ کی ہر بات اللہ کی بات ہوگی۔ منصب ِرسالت کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپؐ کا ہر بول اللہ کا بول ہے بس زبان آپؐ کی ہے۔
گفتہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود!
﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤ ﴾... سورة النجم ''آپ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ آپ کا ارشاد وحی ہے۔''
تو حقیقت یہ ہے کہ دین کے دائرے کے اندر نبی کا ہر فرمان اللہ کا فرمان ہے۔ وحی خفی ہے اور منزل من اللہ ہے۔
صحابہؓ حکم رسول کو حکم الٰہی مانتے ہیں
اصحابِ رسول آپؐ کے اوامرو نواہی کو اللہ کا امرونہی ہی مانتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہر فرمان کو ہمیشہ اللہ کا فرمان سمجھا۔ حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایاکہ
''ان عورتوں پر اللہ نے لعنت کی ہے جو جسم کو گوندتی یا گوندواتی ہیں یا خوبصورتی کے لئے بال چنتی یا چنواتی ہیں اور دانتوں کو باریک کرتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ صورت میں تغیر و تبدل کرنا چاہتی ہیں۔''
ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ''جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے، میں ان پر کیوں لعنت نہ کروں اور وہ چیز کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔'' اس نے کہا کہ میں نے سا را قرآن پڑھا ہے، اس میں تو یہ بات مجھے نہیں ملی جو آپ فرماتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا:
''اگر تو قرآن کو سمجھ کر پڑھتی تو یہ بات ضرور اس میں پالیتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی : ﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا...٧ ﴾... سورة الحشر ''جو کچھ تمہیں رسولؐ دیں، اسے لے لو اور جس سے تمہیں منع کریں، اس سے رک جاؤ۔'' ... اس عورت نے کہا: ہاں، یہ تو پڑھا ہے۔ پھر عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: یقینا رسول اللہ ﷺ نے ان افعال کی ممانعت فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری: کتاب اللباس)
صحابہ کرامؓ احکامِ حدیث کو قرآنی حکم کی تعمیل میں تسلیم کرتے، گویا اس کو کتاب اللہ ہی سمجھتے بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے ہر حدیث کو قرآن کی طرح تسلیم کیا، اس لئے کہ حدیث کے ماننے کا حکم قرآن میں ہے۔ چنانچہ وہ خاتون ابن مسعودؓ کا جواب سن کر مطمئن ہوگئی۔قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں میں ایسا ہی طرز عمل پایا جاتا تھا۔
حدیث کتاب اللہ ہے!
حضرت ابوہریرہؓ اور زید بن خالد ؓ روایت کرتے ہیں کہ
''ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی اثنا میں ایک شخص کھڑا ہوا اور ا س نے کہا کہ میں آپ ﷺ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان 'کتاب اللہ' سے فیصلہ کردیجئے، پھر فریق ثانی کھڑا ہوا... وہ زیادہ سمجھ دار تھا... اس نے بھی کہا : «اقض بیننا بکتاب اللہ» اور پھر فیصلہ طلب واقعہ یوں سنایا کہ میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدور تھا ، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک خادم بطورِ فدیہ ادا کیا پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں ضرور تمہارا فیصلہ 'کتاب اللہ' سے کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کیا جائے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیاجائے۔'' (صحیح بخاری 'کتاب المحاربین' )
مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ احادیث کو بھی 'کتاب اللہ' کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جو سزا یہاں بیان کی گئی ہے، وہ حدیث ہی میں ہے، قرآن میں کہیں نہیں۔
صرف قرآن قرآن کا دعوی کرنے والوں کو اتنی سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن اور حدیث دونوں ہی وحی کے الفاظ ہیں، دونوں شانِ نبوت سے ادا ہوتے ہیں۔ ایک ہی نبی اور ملتے جلتے الفاظ۔ ان میں سے بعض کو ہم قرآن قرار دیتے ہیں او ربعض کو حدیث نبوی کیونکہ ہمیں ہمارے نبی نے بتایا کہ فلاں الفاظ بطور قرآن ہیں اور فلاں بطور حدیث۔ ا س سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ کے فرمان پر یقین نہیں ہے تو پھر بتایئے، قرآن بھی کس کے کہنے سے 'قرآن' بنتا ہے؟فرمان نبوی نے ہی بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ ہم سے نہ اللہ نے یہ فرمایا، نہ جبریل ؑ امین نے کہا کہ یہ قرآن ہے۔ کس قدر احسان ناشناس اور محسن کش ہیں یہ لوگ جو آج قرآن کی آڑ لے کر حدیث کے انکار پر تلے ہوئے ہیں جبکہ احادیث ہی نے انہیں قرآن سے روشناس کیا۔
اگر حدیث سے انکار ہے تو قرآن کا ثبوت کیسے ممکن ہے؟ اگر حدیث کا اعتبار نہیں تو قرآن کا کیا اعتبار؟ (معاذ اللہ) حدیث ہی نے ہم کو بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ منکرین حدیث کس منہ سے قرآن کو 'کتاب اللہ' کہتے ہیں۔ قرآن تو صرف انہی بانصیب کے لئے 'کتاب اللہ' ہے جن کا حدیث رسولؐ پر ایمان ہے اور جن کے لئے حدیث حجت ہے!!
٭٭٭٭٭