ستمبر 2002ء

فتنۂ انکارِ حدیث

برصغیر میں انکارِ حدیث کا فتنہ چند صدیوں سے زوروں پر ہے۔ اس کی بعض صورتیں ایسے صریح انکارِ حدیث پر مبنی ہیں جس کے حامل کا مسلمان رہنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ جبکہ استخفاف حدیث جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اکثر وبیشتر پایا جاتا ہے۔ مرض ایک ہی ہے اگرچہ اس کی علامات مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہیں۔

اس فتنہ کے بنیادی اسباب میں دین سے لاعلمی، غیرمسلم تہذیب سے مرعوبیت اور سیاسی و فکری محکومی سرفہرست ہیں۔ یہ پڑھے لکھے تجدد پسندحضرات کا فتنہ ہے، جو علومِ اسلامیہ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اسلام اور اس کے اوامرو نواہی سے جذباتی عقیدت رکھتے ہیں، نہ ان کا جذبہ ایمانی کوئی قابل رشک ہوتا ہے۔ برصغیر میں مغرب کی فکری بالا دستی اس فتنہ کا بنیادی محرک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ۷،۸ سو سال اسلامی حکومت رہنے کے باوجود انکارِ حدیث کی ابتدا اس دور میں ہوئی جو انگریز کی غلامی کا دور ہے۔ برصغیر میں اس فتنہ کی ابتدا سرسیداحمد خان نے کی جو مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی محکومیت اور فکری مرعوبیت تسلیم کرانے والے پہلے نمایاں فرد تھے۔ چند دہائیاں قبل فتنہ انکارِ حدیث کا مرکزی کردار جس شخص نے ادا کیا، وہ غلام احمد پرویز تھا جو انگریزی حکومت کاملازم اور فکری طور پر ان کی علمی برتری کا قائل تھا۔موجود دور میں بھی انکارِ حدیث کی زمامِ کار جن کے ہاتھوں میں ہے، ان میں اکثر انگریزی علوم و فنون کے پروردہ ہیں، ان کی ذ ہنی ساخت میں یورپ کی علمی رِفعت رچی ہوئی ہے۔

عالم عرب میں بھی جہاں جہاں اسلام کو فکری سطح پر یورپ سے واسطہ پڑا، وہاں اس فتنہ نے پرپرزے نکالے۔ چنانچہ برصغیر کے بعد مصر اس فتنہ کا زیادہ شکار ہوا جہاںاس کی تردید کے لئے زبردست لٹریچر بھی وجود میں آیا، اسکے بعد شام و بیروت کے مفکرین میں انکارِ حدیث کے جراثیم نے نشوونما پائی۔ خلیجی ممالک ایسی علمی اور فکری کشمکش سے دوچار نہیں ہوئے، وہاں اس کا زہر بھی بہت زیادہ نہیں پھیلا۔

صدرِ اسلام میں یہ فتنہ معتزلہ میں شروع ہوا۔ اوراسوقت اس کی وجہ یونانی فلسفہ سے مرعوبیت تھی۔ محدثین کی زبردست کوششوں سے اس فتنہ کا استیصال ہوا۔ اس کے بعدتیرہویں صدی ہجری میں یورپ کی یلغارکے بعد انکارِ حدیث کے جراثیم نے دوبارہ جنم لیا۔اس سلسلہ میں مستشرقین کی کوششیں بھی شامل ہیں اور اکثر منکرین حدیث انہی کے افکار کے خوشہ چین ہیں۔ منکرین حدیث کے بعض مشترک افکار پر مختصر تبصرہ پیش خدمت ہے :

(1) عقل پرستی

یورپ کا موجودہ ارتقا، اُن کی نظر میں ان کی ذہانت، معروضیت اور عقل پسندی کا مرہونِ منت ہے۔ ریشنل ازم (Rationalism) مذہب کے بگڑے ہوئے تصور 'اندھے ایمان' (Blind Faith) کے ردّ عمل میں ایک باقاعدہ تحریک کے طور پر یورپ میں سرگرم ہوا اور اس کے قوی اثرات مسلسل چلے آرہے ہیں۔ انسان کو اپنی عقل اور توجیہ پسندی پر ہمیشہ سے بڑا اعتماد رہا ہے اور اس عقل کے استعمال سے اگر اسے کچھ کامیابی حاصل ہو جائے تو پھر وہ 'عقل پرستی' تک پہنچا دیتی ہے۔

انکارِ حدیث کا فتنہ بھی چونکہ مغرب کی علمی مرعوبیت کا شاخسانہ ہے، اسلئے یہاں بھی عقل پسندی کے گہرے رحجانات پائے جاتے ہیں۔ اکثر منکرین حدیث نے احادیث کو تسلیم کرنے میں عقلی حجت بازیاں کی ہیں اور حدیث کی صحت جانچنے کیلئے یہ اُصول متعارف کرایا ہے کہ وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عقل انسانی کو اپیل کرتی ہیں ۔

مغرب نے احیائِ علوم کی تحریک کے بعد جہاں علمی و فنی میدان میں پیش رفت کی ہے، وہاں فن استدلال کو بھی سائنسی خطوط پر استوار کیا ہے جس میں یہی عقل پرستی شدت سے کارفرما ہے۔ تحقیق کا سائنسی اُسلوب اسے قرار دیا جاتا ہے جو اعداد و شمار، عقل و منطق اور معروضیت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ اس اسلوبِ تحقیق میں اُمورِ غیبیہ، مذہب اور الہامی تصورات کو کوئی وزن نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وحی کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیق کو مغرب میں باضابطہ اور مستند تحقیق شمار نہیں کیا جاتا۔

اس لحاظ سے ایک مسلمان اور غیر مسلم کے زاویۂ فکر و نظر اور اسلوبِ استدلال میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ اسلام میں عقل کو استعمال کرنے، اس پر اعتماد کرنے اور اس کی نشوونما کرنے کی بڑی ترغیب ملتی ہے لیکن اس کی بعض کوتاہ حدود کا اعتراف بھی موجود ہے۔ ایک مسلمان عقل پر بے جا اعتماد کرنے کی بجائے اپنی عقل کو خالق کائنات کی رہنمائی میں چلانے کا پابند ہے اور وہ اپنی عقل کو اس حد تک آزاد نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے خالق اور اس کی ہدایات پربھی اعتراضات کرنا شروع کردے۔ کیونکہ بہت سے دائرے ایسے ہیں جہاں انسانی عقل بے بس ہوجاتی ہے اور سائنس ومنطق بھی قاصرنظر آتی ہے۔

وحی کی تشریح میں عقل وبصیرت کو استعمال کرنا اسلام کامطلوب ہے جبکہ وحی پر اعتراض کے میدان میںعقل کو کھڑا کرنا عقل کے ساتھ ظلم اور اپنے خالق کی ہدایات کے ساتھ ناانصافی ہے۔عقل سے وحی یعنی اسلام کوسمجھنے کی کوشش تو قابل تعریف ہے لیکن عقل سے اسلامی تعلیمات کو گھڑا نہیں جاسکتا۔

موجودہ دور کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ اُسلوبِ استدلال کی تبدیلی کا ہے۔ اسلام میں استدلال کا اسلوب تو یہ ہے کہ جہاں فرمانِ الٰہی یا حدیث ِنبوی آجائے تو اس کی استنادی حیثیت کی توثیق کرنے کے بعد اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ عقلی توجیہات، معروضی تک بندیاں اور منطقی صغرے کبرے مزید تائید کے لئے ہیں جو اطمینانِ قلبی کا موجب ہوتے ہیں، اسلام ان کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام میں کسوٹی بننے کا مقام بنیادی طور پر وحی الٰہی کو ہی حاصل ہے۔

جبکہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جدید علم الکلام کی رو سے استدلال کی بنیاد صرف عقلی توجیہات کو بناتے ہیں اور آخر میں تائید کی غرض سے حدیث ِنبوی یا آیت ِقرآنی بھی لے آتے ہیں۔ اس طرزِ استدلال کی نشاندہی علما اور دانشوروں کے اسلوبِ استدلال کے تقابلی مطالعہ سے بخوبی ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی جب سے جدید علم وفن نے اپنا سکہ جمایا ہے اور ذہنوں نے اہل مغرب کی فکری غلامی قبول کی ہے، تب سے نہ صرف ہمارا عام بلکہ مقبول دینی لٹریچربھی اسی کی مثال پیش کرتا ہے۔ پڑھے لکھے طبقوں میں قرآن و حدیث کی بجائے عقلی و منطقی معروضات زیادہ مقبول ہیں۔ اسی تعقل پسندی کا شاخسانہ انکارِ حدیث بھی ہے۔ اگر عقل انسانی پر بے جا اعتماد ہوجائے تو وہ حدیث ِنبوی کو بھی چیلنج کرنے لگتی ہے اور مغربی علوم و فنون کے ارتقا اور ان کی عقل پسندی کا نقصان دہ پہلوہے کہ ہمارے ہاں بھی ان کے خوشہ چین طبقے نے اس طرزِ فکر کو فروغ دیا ہے اور احادیث کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کردیا ہے۔ یورپ کو یہ عقل پسندی گوارا ہوسکتی تھی کہ انکے ہاں الہامی ہدایات نہ صرف تحریف شدہ ہیں بلکہ بنیادی طور پر بھی اس قابل نہیں کہ موجودہ دور میں قابل عمل ہوں چنانچہ محرف الہامی تعلیمات پر ایمان لانے کی بجائے وہ اپنی رائے وعقل پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اسلام نہ صرف ایک مکمل اورحتمی دین ہے بلکہ تحقیق وتدوین کے اعلیٰ معیاروں پر بھی محفوظ ہے۔اسلئے مسلمانوں کو عقلی برتری پر مبنی رجحانات زیب نہیں دیتے۔

(2) تدوین حدیث

منکرین حدیث میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو احادیث کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ وہ انسانی عقل کے مطابق ہوں۔ جبکہ بعض منکرین حدیث ایسے ہیں جو احادیث کی تدوین پر عدمِ اعتماد کی وجہ سے کلی طور پر احادیث ِنبوی کو قبول نہیں کرتے۔قرآن جو حدیث کی بنسبت اعلیٰ معیار پر محفوظ ہے، وہ دونوں کی استنادی تحقیق میں بنیادی فرق ملحوظ رکھے بغیر دونوں کے لئے یکساں اسلوب اور مساوی درجہ حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے الفاظ کی حفاظت کا اسلوب چاہتا ہے جبکہ حدیث مرادِ الٰہی ہونے کے ناطے مفہوم کی حفاظت کے اصولوں پر روایت وتدوین ہوتی ہے۔

اسی طرح منکرین حدیث موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہوئے صحیح تجزیہ کئے بغیر برسوں قبل کے حالات کو اپنے دور کے اندازوں کے مطابق پرکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی محدود عقل و فراست میں یہ صلاحیت بڑی نادر ہے کہ وہ حالات کے معروضی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہر دور کے تقاضوں اور اس کے مسلمات کو سمجھ سکے۔ جس طرح ہمارے مغرب گزیدہ مفکرین نے اسلام کے اسلوبِ استدلال کو ملحوظ نہ رکھ کر اور دونوں کے معروضی حالات کا فرق نہ کرکے جدید علم الکلام کو اپنایا اور اس کو ترقی یافتہ قرار دیا جو کہ دراصل جذبہ ایمان و ایقان کی کمزوری کا مظہر ہے، اسی طرح دورِ نبوت میں حفاظت کے تقاضوں کو آج کے دور کے حفاظت کے تقاضوں سے پرکھنا بھی ایسی ہی بڑی غلطی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کتابت کو حفاظت کا معتمد ذریعہ مانا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ سے کتابت ہی معتمد اور مستند ترین ذریعہ چلا آرہا ہو۔بلکہ شاید بہت جلد انفرمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اب کتابت وتدوین بھی اپنی موجودہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔

اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے، نبی آخرالزمان پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو ضروری تھا کہ قیامت تک ایک مکمل دین انسانوں کے لئے محفوظ ترین صورت میں موجود ہو۔ اسی طرح اسلام کے احکام اپنے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شے پہلے مخاطب صحابہ کرام کے لئے تو دین کا درجہ رکھتی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لئے اس کی کوئی دینی حیثیت نہ ہو۔ احادیث ِنبویہ کی تعمیل صحابہ کرام پر فرض تھی اور وہ اپنے نبی کے احکامات ماننے کے پابند تھے، ضروری ہے کہ ان پر لاگو شرعی احکام آگے بھی اسی حیثیت سے منتقل ہوں۔کیونکہ اسلام تب ہی اللہ کا بھیجا ہوا دائمی آخری دین ہوسکتا ہے جب وہ قیامت تک اپنی اصل شکل اور برابر حیثیت میں سب کے لئے موجود ہو۔ دین کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکے ذریعے اس طرح سادہ انداز میں پوری کرائی ہے جو ہر دور میں حفاظت کا آسان اور مروّ جہ انداز رہا ہے۔ اور اس پر عمل کرنا، اس کے تقاضے بجا لانا انسانوں کے لئے بآسانی ممکن رہا ہے۔چنانچہ ابتدا میں قرآن وحدیث کو بحفاظت آگے منتقل کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی طور پر حافظہ پر اعتماد کا طریقہ ہے، جس کو بعد میں کتابت او ردیگر ذرائع سے بھی تقویت دی گئی ہے۔

منکرین حدیث نے یہ فرض کرلیا ہے کہ قرآن تو گویا ہمیشہ سے تحریری شکل میں محفوظ چلا آتا ہے، جبکہ حدیث کی تدوین میں زیادہ اعتماد حافظہ پر رہا ہے ، اس لئے احادیث ناقابل اعتماد ہیں۔ جبکہ اگر معمولی غور وفکر سے بھی کام لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ قرآن کی حفاظت بھی تحریر کی بجائے حافظہ (تلاوت وادا) ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ذیل میں ہم حافظہ اور کتابت کے تقابلی مطالعہ کے علاوہ ان دلائل کو پیش کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی حفاظت میں بھی اصل اعتماد 'حافظہ'اور 'ادا' پر رہا ہے، اور اسی سے ملتی جلتی صورتحال روایت وتعامل کی شکل میں احادیث ِنبویہ کی ہے۔حافظہ پر اعتماد کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں :

1. حافظہ انسان کی فطری بنیادی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے، جب فن کتابت وجود میں بھی نہیں آیا تھا، انسان اپنی روز مرہ یادداشت کے لئے حافظہ پر ہی اعتماد کرتا تھا۔ عرب کا حافظہ بڑا مثالی تھا حتیٰ کہ تحریر کرنے کو عیب اور حافظہ کی کمزوری خیال کیا جاتا تھا۔

2. حافظہ کے لئے کسی آلہ یا کاغذ کی ضرورت نہیں بلکہ یہ صلاحیت ہر ذی شعور میںپائی جاتی ہے۔ دورِ نبوی میں کاغذ تو بالکل نادر، اور چمڑے وغیرہ بھی بہت کم موجود تھے۔

3. دورِ نبوی میں فن تحریر اس قدر سادہ تھا کہ آج کا حافظ ِ قرآن بھی اس دور کے لکھے قرآن کو نہیں پڑھ سکتا۔ اس میں نقاط اور حرکات جو عربی زبان میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں، کا استعمال بڑی دیر بعد شروع ہوا۔ چنانچہ دورِ نبوی کے فن کتابت میں وہ قوت نہیں تھی کہ وہ قرآن کی پوری طرح حفاظت کرسکے۔ صیغوں اور نقاط کا فرق بھی حافظے میں ہی محفوظ تھا۔تجوید (مخارج وصفات) کا لحاظ تو بالکلیہ تلاوت وادا پر ہی منحصر ہے، اسی طرح واقعات کی صحیح نشاندہی روایت کی استنادی حیثیت کی مرہونِ منت ہے۔

عالم عرب اور برصغیر دونوں میں رسم عثمانی میں ہی شائع ہونے والے قرآن کے رموز و علامات میں آج بھی اتنا فرق ہے کہ حفاظِ قرآن کے علاوہ دیگر پاکستانی مسلمان عربی رسم الخط میں چھپے قرآن کریم سے تلاوت میں مشکل محسوس کرتے ہیں کیونکہ دونوں میں علامات اور کلمات لکھنے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ قرآن کریم کا رسم الخط ایک باقاعدہ فن ہے جس میں بعض اُمور پر علما میں بھی اختلافات موجود ہیں۔1 یہ علم دینی مدارس بالخصوص مدارس تجوید و قراء ت میں بالتفصیل پڑھایا جاتا ہے۔ مزید برآں مختلف قراء ات میں شائع شدہ قرآنِ کریم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان مغاربہ اور مشارقہ کے طرزِ کتابت میں بھی بڑا اختلاف ہے مثلاً مغاربہ کے ہاں 'ن' میں نقطہ نہیں لکھا جاتا، 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہوتا ہے اور 'ف' بغیرنقطہ کے لکھی جاتی ہے، جبکہ اہل مشرق کا طرزِ کتابت اس سے مختلف ہے۔

4.  فن کتابت کے متحیرالعقل ارتقا کے باوجود آج بھی حافظہ زیادہ جامع ہے۔ اس کی مدد سے ایک شے کو یاد کرنا اور اسے ادا کرنا، دونوں زیادہ آسانی سے اور بہتر طور پر مکمل ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کے تلفظ اور ادائیگی کی تفصیلات کا 'فن کتابت' آج بھی احاطہ نہیںکرتا۔ گذشتہ برسوں میں خلیجی ممالک میں بعض ایسے مصاحف شائع ہوئے ہیں جن میں ادائیگی کے رموز مثلاً اِ خفاء و ادغام اور مد وقصر وغیرہ کو ۲۴ رنگوں سے نمایاں کیا گیا ہے۔ آج سے چند برس قبل تک اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ دیگر قراء اتِ قرآن بالخصوص روایت ِوَرش میں تحریر کئے جانے والے قرآنِ کریم میں ادائیگی کے رموز کے لئے رنگوں کا استعمال عرصہ سے متداول ہے۔ اس کے باوجود آج بھی فن کتابت میں قرآنِ کریم کی ادائیگی کی مکمل تفصیلات محفوظ نہیں ہوسکتیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت تلقی واداء کے ذریعے ہوئی ہے جبکہ حدیث کی حفاظت تحمل وروایت کے ذریعے !!

5.  دورِ نبوی میں آلاتِ کتابت اور کاغذ عام میسر نہ تھا۔ چنانچہ عہد ِنبوی میں قرآن اگر مکمل صورت میں موجود تھا تو وہ حفاظ ِقرآن کے سینوں میں تھا۔ کاغذ یا چمڑے پرتو قرآن متفرق اور بکھرا ہوا تھا۔ اسی لئے محققین کے نزدیک قرآنِ کریم کی آیات کی ترتیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ آیات کی ترتیب کے بغیر ایک مسلسل مضمون نہیں مل سکتا۔جبکہ سورتوں کی ترتیب میں علما متفق نہیں ہیں۔ جمہور محدثین کے ہاں ان ٹھیکریوں، چوڑی ہڈیوں اور کھجور کی چھالوں پر لکھے ہوئے قرآن کو پہلے تو حفاظِ قرآن نے ہی 'صحف' کی شکل عہد ِصدیقی میں دی۔پھر سورتوں کی مکمل ترتیب اور خاص رسم الخط میں حضرت عثمان نے مصحف کی صورت قرآن جمع کیا۔ لہٰذا 'جامع القرآن ' کا لقب آج تک انہی کے لئے خاص ہے۔

6.  قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی حفظ و ادا کی صورت ملا نہ کہ بصورتِ کتابت ، جبریل امین ؑ اور نبی رحمت ﷺ اس کو حافظے کی مدد سے صحابہ کرام کو پہنچایا کرتے۔

7.  اس امر کی شہادت بھی قرآن میں موجود ہے کہ قرآنِ کریم کی دنیا میں حفاظت کس طرح ہوئی:

﴿بَل هُوَ ءايـٰتٌ بَيِّنـٰتٌ فى صُدورِ‌ الَّذينَ أوتُوا العِلمَ ۚ وَما يَجحَدُ بِـٔايـٰتِنا إِلَّا الظّـٰلِمونَ ٤٩ ﴾... سورة العنكبوت ''بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینے میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اور ہماری آیات سے بے انصاف لوگوں کے سوا کوئی انکار نہیں کرتا۔''

8. قرآن کریم کی دورِ صدیقی میں تدوین کا واقعہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت اوّلا حافظہ کے ذریعے ہوئی۔ چنانچہ جب تک حفاظِ قرآن کی بڑی تعداد موجود رہی، صحابہ کرام حفاظت ِقرآن سے مطمئن رہے۔ جب جنگ ِیمامہ میں تقریباً۷۰۰ حفاظ قرآن صحابہ کی شہادت پر حضرت عمر ؓبن خطاب کو حفاظت ِقرآن کی فکر دامن گیر ہوئی توانہوں نے خلیفہ اوّل کو تدوین قرآن کا مشورہ دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل جلیل القدر صحابہ کرام حفاظِ قرآن کی کثرت کی و جہ سے مطمئن تھے اور وہ حفاظت سینوں میں تھی، کتابت میں نہیں۔

ہمارے ذہن میں کتابت والے یہ مغالطے اس لئے جنم لیتے ہیں کہ ہم اس دور کو اپنی موجودہ عادات پر قیاس کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں چونکہ معانی کے اوپر دلالت کرنے والے الفاظ کی زیادہ حفاظت مطلوب تھی، اس لئے اس کے باقاعدہ حفظ اور تلاوت کو تعبدی امر قرار دیا گیا۔ جبکہ حدیث میں اصل شے اُسوئہ رسو ل یعنی مرادِ ربانی ہے، جن کو سنت ِرسول کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔2 اسی لئے احادیث کی نسبت اور گنتی راوی صحابی کے اعتبار سے ہوتی ہے یعنی اُسوئہ رسول کی خبر دینے والا صحابی ہی ہوتا ہے۔

لہٰذا اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دورِ نبوی میں نہ صرف حدیث بلکہ قرآن بھی بین الدفتین تدوین نہ ہوا تھا بلکہ دونوں کو اوپر بیان کردہ وضاحت کی رو سے آنے والے ادوار میں احاطہ تحریر میں لایا گیا جو اس دور کے ایک سادہ، جامع اور معمول بہ طریقہ سے تھی۔منکرین حدیث کا قرآن وسنت کی تدوین پر عدمِ اعتماد والا اعتراض دراصل فن تحریر کے موجودہ ارتقا اور یورپی علوم کے طریقہ حفاظت سے مرعوب ہونے کا شاخسانہ ہے، جس میں زمانوں کے بدلتے ہوئے حالات کی رعایت نہیں رکھی گئی۔

(3) الحاد اور بے عملی

فقہائِ مذاہب کی فقہی تشریحات کو مختلف سیاسی و تمدنی وجوہات کی بنا پر پر بقول شاہ ولی اللہؒ چوتھی صدی ہجری کے بعد اس قدر قبولِ عام حاصل ہوا کہ ہر فرد کے لئے کسی فقہی مسلک کی مناسبت سے متعارف ہونا ضروری ٹھہرا۔ یہ تو ایک انتہاتھی جو صدیوں جاری رہی۔ ا س میں بھی اصلاح کی ضرورت تھی جس کی طرف شاہ ولی اللہ نے بطورِ خاص توجہ دی اور آزادیٔ فکر اور فقہی توسع کو برصغیر میں پھیلانے کے لئے سرگرمی سے کام کیا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ مروّ جہ تقلیدی جمود کی اس مبارک اصلاحی تحریک کے ردّ ِعمل میں انتہائی رویہ کے طور پرایک الحادی فکر نے بھی جنم لیا۔ یعنی تفریط کی صورت میں 'تقلید' اگر ائمہ کرام کی آرا کی غیر مشروط اطاعت کا تصور دیتی تھی تو اس الحادی تحریک نے مفرطانہ طور پر علماے اُمت کی تمام محققانہ خدمات پر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔

شاہ ولی اللہ کی تحریک کے حاملین یعنی تقلید میں اصلاح کے علم بردار تو ائمہ کی خدمات کے معترف اور ان کی علمی تحقیقات کے قدردان ہیں، صرف وہ ان کو نبی کی طرح معصوم قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر جذبہ اتباعِ سنت ائمہ کی تشریحات کے تسلسل کو ساتھ لے کر چلنے کا داعی ہے جبکہ اس دوسرے الحادی گروہ نے نہ صرف امام الانبیا ﷺ کی استنادی حیثیت کو بلکہ ان کی احادیث تک کو مشکوک بنایا اور ان علما کی خدمات سے بھی کھلا انحراف کیا۔علومِ اسلامیہ میں تدوین و ارتقا کے تمام مراحل بیک جنبش قلم انہوں نے ختم کرکے رکھ دیئے او رکہا کہ علما کو آج تک اسلام کی سمجھ نہیں آئی، تدوین حدیث ایک عجمی سازش تھی، اور آج اسلام کی ایسی تعبیر نو کرنے کی ضرورت ہے جو علما کی کاوشوں کی آلائشوں سے پاک ہو۔

اس اعتبار سے منکرین حدیث کی یہ الحادی سوچ ہے جس کے بعد اسلام کا حلیہ بالکل مسخ ہوجاتا ہے۔ اپنے پیشرو علما پراندھا دھند اعتراضات نے انہیں بالکل ایک نئے اسلام کا داعی بنا دیا جس میں کوئی بات بھی طے شدہ نہیں۔ پھر بات ائمہ تک نہیں رہی بلکہ صحابہ کرام تک اور پھر وہاں سے رسالت تک پہنچی اور عملاً سارا اسلام بازیچہ اطفال بن کر رہ گیا۔ اب منکرین حدیث کے جتنے گروہ ہیں، اتنے ہی فکری انتشار کا شکا رہیں اور قرآن کے نام پر وحدت کے یہ داعی اہل قرآن خود اتنے فکری مغالَطوں کا شکار ہیں کہ ان کی اس آزادیٔ فکر نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

منکرین حدیث کے فاسد اعتقادات اور گمراہ کن نظریات کی تردید چونکہ علمائِ اسلام نے ہی کی اور انہیں علمی و فکری طور پر ان حضرات سے واسطہ پڑا، چنانچہ منکرین حدیث کا ایک مشترکہ ہتھیار یہ بھی رہا کہ علما کو وہ علمائِ سوء قرار دیتے اور ان کے پیش کردہ اسلامی اعتقادات کو وہ مضحکہ خیز قرار دیتے رہتے ہیں۔

علما کی ناقدری اور ان کو نازیبا کلمات سے نوازنے میں بھی منکرین حدیث کی تربیت مغربی لٹریچر نے کی جس نے طویل عرصہ اپنے ہاں کی پاپائیت سے معرکہ آرا ہوکر دینی رہنمائوں کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کردیا تھا۔صیہونی اثرات کے زیر تسلط عالمی میڈیا اپنی بھرپور قوت سے علمائِ اسلام کے خلاف سامراجی اَدوار سے سرگرم رہا ہے اور اس کی بھرپور مہم کا نتیجہ ہے کہ 'مولوی' اور 'ملا' جو کبھی علما کے لئے صیغہ افتخار تھا، اب حرفِ ملامت بن گیا اور شہروں میں کوئی بھی ایسے القاب کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ منکرین حدیث کے لئے میدان ہموار کرنے میں بھی ان کے سرپرست مغرب نے پرزور معاونت کی اور عملاً ان کے ہاتھوں اصلاح کی بجائے الحادی تحریک اور فکری تحریف نے جنم لیا۔

انکارِ حدیث دیگر فروعی مسائل کی طرح ایک معمولی مسئلہ نہیں بلکہ اساسیاتِ دین سے متعلق ہے۔ انکارِ حدیث کے جراثیم اگر کسی میں پختہ ہوجائیں یا وہ استخفافِ حدیث کاارتکاب شروع کردے تو اس سے منصب ِرسالت پر حرف آتا ہے جبکہ رسالت پر غیر مشروط ایمان اسلام کا بنیادی ضروری تقاضاہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور حدیث پر متزلزل ایمان رکھنے والے کے عقائد و نظریات اور طرزِ زندگی میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔

حدیث ِنبوی کا انکار اکثر ایسے لوگ بھی کرتے ہیں جوصرف نام کے مسلمان رہنا چاہتے ہیں، عملاً اسلام کے کسی شعار سے یا کسی دینی فریضہ کی ادائیگی سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے انکارِ حدیث بدعملی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میںنماز، زکوٰۃ جیسی بنیادی عبادتوں کی تفصیلات بھی نہیں ملتیں، چنانچہ پڑھے لکھے لوگوں کے لئے یہ بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ کسی بہانے حدیث کا انکار کردیں تاکہ عمل کرنے سے ہی جان چھوٹ جائے۔مقامِ افسوس ہے کہ انکار حدیث کے یہ مسمو م اثرات ہمارے جدید تعلیمی نظام کے پڑھے لکھے لوگوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور وہ اپنی معمول کی گفتگو میں اس کا اظہار کسی نہ کسی طرح کرتے رہتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ادارئہ محدث نے یہ ضروری سمجھا کہ 'فتنہ انکارِ حدیث' پرایک خاص نمبر شائع کرے جس میں مختلف حوالوں سے نہ صرف منکرین حدیث کے خیالات واعتراضات کی وضاحت کی جائے بلکہ اس کے بنیادی اسباب اور تاریخی تجزیہ کو بھی قارئین کے سامنے لایا جائے۔

تعارف فتنہ انکارِ حدیث نمبر


جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ گذشتہ سال اگست کا شمارہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور ان کے اَخلاف کے استخفافِ حدیث پر مشتمل نظریات پر تبصروں کا حامل تھا۔ احادیث پر اسی نوعیت کے اعتراضات کے جوابات کیلئے ہم نے مزید ایک شمارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بعض معمول کے شماروں کے بعد شائع ہوگا، ان شاء اللہ جبکہ موجودہ اشاعت ِخاص میں پرویزیت اور فتنۂ انکارِ حدیث کے متعلق مضامین جمع کئے گئے ہیں۔

1. اس اشاعت ِخاص کے بنیادی طور پر چار حصے کئے گئے ہیں۔ پہلا حصہ بطورِ خاص پرویزی افکار کے بارے میں ہے۔ جس میں مولانا محمد رمضان سلفی (نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ) نے مسٹر غلام احمد پرویز کے عقائد کو ان کی کتب کی مدد سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ایمان کے بنیادی ارکان ، ایمان باللہ، ایمان بالرسول، ایمان بالملائکہ، ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالکتب (القرآن) پر پرویز کانظریہ اس کی اپنی کتب سے پیش کرکے گویا مولانا نے اُن فتاویٰ کے دلائل قارئین کے سامنے رکھے ہیں جن میں اسلامی عقائد سے انحراف کی بنا پر پرویز کو امام کعبہ اور عالمی مفتیانِ کرام نے دائرئہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔

اس حصہ کا دوسرا مضمون پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی کا ہے جس میں انہوں نے احادیث کو چھوڑنے کی بنا پر نام نہاد اہل قرآن کے باہمی اختلافات کی قلعی کھولی ہے۔ اپنے مقالہ میں دس مثالوں کی مدد سے انہوں نے اس امر کو بھی آشکارا کیا ہے کہ مسٹر پرویز حدیث ِرسول سے انکار کرکے ساری زندگی خود بھی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہے اور اپنی تردید آپ کرتے رہے۔ مقالہ نگار نے پرویز کے ماہنامہ 'طلوعِ اسلام' کی اکثر فائلوں کا بڑی محنت سے مطالعہ کرکے پرویزی تحریروں کے باہمی تضادات اور 'اپنی تردید آپ' کی نشاندہی کی ہے۔

اس حصہ کا تیسرا مضمون پرویز کے رسالہ 'اطاعت ِرسول' کے ناقدانہ تجزیہ پر مبنی ہے جس میں پروفیسر منظور احسن عباسی نے اطاعت ِرسول کے تصورِ پرویز اور اس کے نتائج کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس مقالہ کے مطالعہ سے بخوبی یہ علم ہوجاتا ہے کہ پرویز کا نظریۂ اطاعت ِرسول کتنا پرفریب اور الفاظ کا گورکھ دھندا ہے جس سے علماے امت کی معروف اصطلاح 'اطاعت ِرسول' کی بجائے مرکز ِملت کی اصطلاح گھڑی گئی ہے اور پھر اس کے ذریعے تحریف ِدین کی راہ ہموار کی گئی ہے۔

اس حصہ کے آخری مضمون میں مذکورہ بالاعقائد کی بنا پر گذشتہ چند سالوں میں اُمت ِاسلامیہ کی صاحب ِعلم و فضل شخصیات کی طرف سے 'پرویزیت' کے خارج از اسلام ہونے پر فتاویٰ جمع کئے گئے ہیں جس میں امامِ کعبہ، حالیہ مفتی اعظم سعودی عرب، حکومت ِکویت اور شیخ عبدالعزیز بن باز ؒکے فتاویٰ کے متن دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ ۴۰ برس قبل پرویزیت کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور ۱۰۲۴ پاکستانی علماء اور عالم عرب کی نامور شخصیات کے فتاویٰ کا مختصر تذکرہ بھی کیا گیا ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ ملت ِاسلامیہ کس طرح نصف صدی سے آج تک ان کے کفر پر متفق رہی ہے۔

2. محدث کی اس اشاعت ِخاص کا دوسرا حصہ فتنۂ انکار حدیث کے تجزیہ و تاریخ اور تدوین حدیث کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے پہلے مضمون میں 'انکارِ حدیث کے لٹریچر' پر پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسرڈاکٹر عبداللہ نے برصغیر کے معروف اہل علم کی تحریروں کی مدد سے فتنۂ انکار حدیث کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور معروف منکرین حدیث کا تعارف علماء کرام کی زبانی پیش کیا ہے۔ اس حصہ کے باقی تینوں مضامین تدوین ِحدیث کے حوالے سے ان اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہیں جو منکرین حدیث کی طرف سے اکثر کئے جاتے ہیں۔ پہلے مضمون میں عہد ِنبوی میں کتابت ِحدیث کے ثبوت پر دلائل جمع کئے گئے ہیں۔ دوسرا مضمون حفظ ِحدیث کے حوالے سے ہے، جس میں تدوین حدیث بذریعہ حفظ اور اس پر بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ اس حصہ کا آخری مضمون محترم مدیراعلیٰ کے ایک خطاب کی ترتیب ہے جس میں انہوں نے حفظ و کتابت کے ساتھ تعامل اُمت کو بھی حدیث کی حفاظت کا اہم ذریعہ قرار دیا ہے۔

3.  تیسرا حصہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے عمومی اعتراضات و شبہات کے جواب میں لکھے جانے والے مضامین پر مبنی ہے۔ پہلا مضمون محقق شہیر مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (سابق امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند) کا ہے جو انہوں نے اس اشاعت ِخاص کے لئے راقم کو ریاض میں ہونے والی ملاقات میں دیا۔ اس میں فاضل مکرم نے ۷،۸ بنیادی اعتراضات کی بڑے متوازن انداز میںوضاحت فرمائی ہے۔ یہ اعتراضات قریباً وہی ہیں جو پرویزیوں کی طرف سے احادیث کے بارے میں کئے جاتے ہیں۔دوسرا مضمون جماعت ِاسلامی کے مؤسس، نامور اسلامی مفکرسید ابو الاعلیٰ مودویؒ کا ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک جسٹس صاحب کے حدیث پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حجیت ِحدیث کی بحث بڑے خوبصورت اندازمیں کی ہے۔ یہ اعتراضات اکثر وہ ہیں جو دانشور حضرات کے ذہنوں میں حدیث ِنبوی کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔اس حصہ کا تیسرا مضمون مرکزی جمعیت اہل حدیث، کویت کے اہم رہنما مولانا عبد الخالق صاحب کا ہے جنہوں نے کویت میں بزمِ طلوعِ اسلام کی سرگرمیوں اور اس کی بیخ کنی کے لئے علماء حق کی کاوشوں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ منکرین حدیث کے بعض شبہات کی عالمانہ انداز میں وضاحت کی ہے۔ آخر میں ادارئہ طلوع اسلام کی کویت میں سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ کے علاوہ ان کے مقابل علماء کرام کی سرگرمیوں کاایک مختصر تذکرہ بھی موجود ہے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں کویت و سعودی عرب کی حکومتوں نے طلوعِ اسلام کے بانی غلام احمدپرویز کوخارج از اسلام قرار دیا ہے۔آخری مضمون قاری محمد موسیٰ صاحب کا ہے، جس میں نسبتاً عام فہم انداز میں مختصر الفاظ میں حجیت ِحدیث کے تصور کی وضاحت کی گئی ہے۔

4.  اس نمبر کا چوتھا حصہ اپنی نوعیت کی بالکل منفرد کاوشوں پر مبنی ہے۔ پہلے مضمون میں جناب ڈاکٹر خالد رندھاوا صاحب نے اس تمام کتابی لٹریچر کا اشاریہ تیار کیا ہے جو برصغیر میں انکارِ حدیث کے حوالے سے لکھا گیا۔ دوسرے مضمون میں عبد الرشید عراقی صاحب نے اس ضمن میں علمائے اہل حدیث کی خدمات کا ایک مختصر جائزہ اور ان کی تصنیفات کی فہرست پیش کی ہے۔ جبکہ اس حصہ کا آخری مضمون برصغیر کے جملہ دینی جرائد میں اس موضوع کے حوالے سے آج تک شائع ہونے والے مضامین کا موضوع وار اشاریہ ہے، جس کے آخر میں متعدد ذیلی اشاریے بھی بنائے گئے ہیں۔

یہ ہے مختصر الفاظ میں اس خصوصی اشاعت کا تعارف۔ ہماری محنت اور ۳ ماہ (اگست، ستمبر، اکتوبر) کی کاوش آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے: حدیث ِرسول اللہ کا دفاع اور اس کی استنادی حیثیت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کی حتیٰ المقدور وضاحت تاکہ جو دین نبی کریم اُمت ِمسلمہ کے حوالے کر گئے ہیں ، وہ قرآن اور احادیث ِنبویہ کی مدد سے مکمل اوراحسن صورت میں اُمت کے زیر عمل رہے۔ اس مقصد میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اور ہماری اس کاوش سے اس فتنہ کے سدباب میں کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے، اس کے لئے ہم اپنے ربّ کے حضور دست بدعا ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حدیث نبوی کی خدمت کرنے والوں میں شامل فرمائے اور ہماری اس حقیر کاوش کو قبول فرمائے ۔ آمین!


نوٹ

1.  ہمارے بعض کم علم لوگ اسے علم رسم الخط کے اختلافات سمجھنے کی بجائے قرآن میں تحریف بنانا شروع کردیتے ہیں۔ دوسال قبل ماہنامہ 'طلوعِ اسلام' میں ایسا ہی ایک مضمون شائع ہوا جس میں فلوریڈا کے ایک پرویزی قلمکارنے مدینہ منورہ کے کنگ فہد کمپلیکس سے شائع ہونے والے قرآن کریم کے لاکھوں نسخہ جات جو ہرسال حجاجِ کرام میں تقسیم کئے جاتے ہیں، کو تحریف ِقرآن کی ایک عظیم سازش قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے خلاف منظم ہونے کی دعوت دی ۔ لیکن یہ کم علمی او رجہالت کے سوا کچھ نہیں۔قرآن کریم کی کتابت کے اُصول آج بھی عربی زبان کی کتابت سے جابجامختلف ہیں اور ان اصولوں کو ملحوظ رکھے بغیر قرآن کو لکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ قرآنِ کریم کے لکھنے میں رسم عثمانی کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم عرب میں شائع ہونے والی کتب میں قرآنی آیات کی کمپوز نگ نہیں کی جاتی بلکہ اس کی کتابت ہی لگائی جاتی ہے۔یہی طریقہ زیادہ حفاظت والا اور قرآن کریم کے زیادہ لائق ہے۔ جب ان کے خیال میں قرآن کو وہی فن کتابت حفاظت مہیا کررہا ہے جو چند صدیوں بعد مدوّن ہوا تو پھر منکرین حدیث اس رسم الخط کا کیا کریں گے جو چند صدیوں بعد وجود میں آیا۔ آیا اس میں عجمی سازش کا امکان بھی وہ پید اکرلیں گے!!

2.  یعنی قرآن کو براہ راست نسبت تو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے لیکن اس کے پہلے راوی اور قاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طرح حدیث کی براہِ راست نسبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتی ہے لیکن اس کی خبر اور روایت چونکہ صحابہ کرام سے چلتی ہے، اس لئے تعامل رسول ہونے کے باوجود سوائے اَوراد ووظائف کے وہ کلام یا خبر صحابہ ہی کی و جہ سے 'حدیث' کہلاتی ہے۔