ستمبر 2002ء

اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث

''اجی، چھوڑیئے، احادیث کو۔ ان میں اختلافات ہیں، لہٰذا وہ اسلامی آئین کے لئے بنیاد اور مسائل حیات کے لئے دلیل و سند کیوں کر ہوسکتی ہیں۔''

یہ ہیں وہ الفاظ، جو اکثر و بیشتر منکرین حدیث کی زبان پر جاری و ساری رہتے ہیں، لیکن جب اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا اختلاف تعبیر قرآن میں بھی ممکن ہے... تو یہ جواب ، ان کے لئے، سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ پیدا کردیتا ہے، جسے نہ ہی اُگلے بنے اور نہ ہی نگلے بنے۔ اُگلا جائے تب بھی مصیبت، اور نگلا جائے تب بھی کوفت۔ اسلم جیراجپوری صاحب نے تو بہرحال، جس طرح بھی بن پڑا، اسے اُگل کر یہ اعتراف کر لیا کہ واقعی قرآن میں اختلاف ہے، چنانچہ انہوں نے آیاتِ قرآنیہ میں ازالہ اختلاف اور رفع تضاد کے پیش نظر، اپنی کتاب 'نوادرات' میں 'وہم تعارض' کے زیر عنوان تقریباً بیس آیات میں تطبیق و توافق کی کوشش کی ہے۔ لیکن پرویز صاحب آخر تک تردّد اور تذبذب کے گردوغبار میں کھڑے ہو کر متضاد اور متناقض باتیں کرتے رہے ہیں، کبھی قرآن میں عدمِ اختلاف کا اعلان کیا اور کبھی 'بظاہر تعارض'کا اعتراف کرتے ہی بنی، نہ صرف اعتراف بلکہ 'رفع تعارض' کے لئے عملاً تطبیق کی کوشش بھی کی۔ ایک وقت تھا جب وہ کہا کرتے تھے کہ '' قرآن کی تعلیم بڑی واضح، بین اور تضاد و تعارض سے پاک ہے۔'' (مئی ۵۲، ص ۴۲)

''قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ ﴿وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ٨٢ ﴾... سورة النساء" یعنی اگر قرآن خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔ بالفاظِ دیگر، قرآن نے اپنے من جانب اللہ ہونے کی دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں، پھر اس نے یہ بھی کہا کہ میری تعلیم صاف اور واضح ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، ابہام نہیں، التباس نہیں، رَیب نہیں، تشکیک نہیں۔'' (اپریل ۵۹ئ، ص ۸)

بلکہ پرویز صاحب تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ قرآن کی کسی آیت سے متعدد تعبیروں کے نکلنے کا خیال ہی، قرآن کریم کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے : ''یہ سمجھنا کہ زندگی کے عملی مسائل سے متعلق جو کچھ قرآن میں آیاہے، ا سکی متعدد تعبیریں کی جاسکتی ہیں، قرآن کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے یا اس پر پردہ پوشی کی کوشش ہے۔'' (اپریل۵۹ئ: ص ۹)

پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ پرویز صاحب کو ماننا پڑا کہ قرآن میں اختلاف ہے :

''قرآنِ کریم کی تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے جس میں ا س نے انسانی زندگی کے لئے راہنمائی دی ہے( اور یہی حصہ اس کے بنیادی مقصد سے متعلق ہے)، انہیں اُصولِ حیات یا مستقل اقدار کہا جاتا ہے۔ یہ اصول و اقدار بالکل واضح اور متعین ہیں اور ان کے سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیںپیدا ہوسکتا، اُمورِ مملکت کا تعلق اسی گوشہ سے ہے... قرآنی تعلیم کا دوسرا گوشہ وہ ہے جس کا تعلق، حقائق کائنات اور مابعد الطّبعیاتی (Meta-Physics) مسائل سے ہے۔ ان حقائق کے سمجھنے کا مدار انفرادی فکر اوربہ ہیئت ِمجموعی انسانی علم کی سطح پر ہے۔ جوں جوں انسانی علم کی سطح بلند ہوتی جائے گی، یہ حقائق بے نقاب ہوتے جائیں گے اور کوئی شخص جس قدر زیادہ غور و فکر سے کام لے گا، وہ انہیں اسی قدر زیادہ عمدگی سے سمجھ سکے گا۔'' (مارچ ۸۵ئ: ص ۶)

''قرآنِ کریم میں جو مابعد الطّبیعاتی مسائل آئے ہیں، ان کے سمجھنے میں تو انسانی فکر میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جن اُمور کا تعلق انسانی راہنمائی سے ہے (یہی قرآن کا بنیادی مقصد ہے)، ان میں وہ بالکل واضح اور متعین تعلیم پیش کرتا ہے، جس کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں۔ بشرطیکہ قرآن کو خود اس کے اپنے تجویز فرمودہ طریق سے سمجھا جائے۔'' (اگست۷۳ئ:ص۳۵)

جواب طلب دو سوالات

یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں: اوّلاً یہ کہ قرآن کریم کی آیات میں، مابعد الطّبیعاتی مسائل سے متعلقہ آیات اور احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں جو تفریق کی گئی ہے اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر ایک حصہ میں اختلاف کا موجود ہونا اور دوسرے میں معدوم ہونا جو تسلیم کیا گیا ہے، آخر اس کی قرآنی دلیل کیا ہے؟... اگر ناسخ و منسوخ کی بحث میں، آپ کی طرف سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت ِناسخہ کے ناسخہ ہونے کی اور آیت ِمنسوخہ کے منسوخہ ہونے کی 'قرآنی دلیل 'کیا ہے تو یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنی متن میں دو حصے کرنا، اور پھر ایک حصے کا حکم، دوسرے سے الگ کرنے کی قرآنی دلیل کیا ہے؟ یا یہ تقسیم بھی ویسی ہی من گھڑت ہے، جیسی یہ تقسیم کہ 'قرآن کی بعض آیات 'عبوری دور' سے متعلق ہیں اور بعض انتہائی اورتکمیلی دور سے... حالانکہ قرآن میں یہ تقسیم بھی کہیں مذکور نہیں ہے۔

ثانیاً، یہ کہ مابعد الطّبیعاتی حصہ قرآن کی حد تک تو آپ نے قرآن میں وجودِ اختلاف کو تسلیم کر لیا، اس طرح آپ کا یہ نظریہ﴿لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ٨٢ ﴾... سورة النساء" والی آیت سے ٹکرا نہیں جاتا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

رہا 'منکرین ِقرآن'کا یہ فرمان کہ احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں اختلاف نہیںہے۔ تو یہ بھی محض ایک دعویٰ بلا دلیل ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کی آیات میں تعبیر اختلاف کی گنجائش ہے۔ قرآن میں جس اختلاف کی نفی کی گئی ہے، وہ مطلق اختلاف نہیں ہے بلکہ ایسا اختلاف ہے جو ناقابل توجیہ ہے۔ قابل توجیہ اختلاف تو پرویز صاحب کے مزعومہ، دونوں حصوں میں موجود ہے۔ احکام و قوانین سے متعلقہ حصہ میں تعبیرکا اختلاف تو ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے اور یہ اختلاف نیک نیتی کے باوجود بھی ہوسکتا ہے اور بدنیتی کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ البتہ پرویز صاحب جب بھی مسلمانوں میں اختلاف کا ذکرکرتے ہیں تو وہ اِن مختلف وجوہِ اختلاف کو فرقوں سے وابستہ افراد کی بدنیتی ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک اس اختلاف کی بہت سی وجوہ ہیں، جو درج ذیل اقتباسات سے واضح ہیں :

''آیاتِ قرآنی کی تعبیریں اس لئے مختلف ہوتی ہیں کہ ہر فرقہ، اس آیت کی تعبیر، اس روایت کی رُو سے کرتا ہے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور چونکہ ہر فرقہ کی روایات مختلف ہیں، اس لئے ان کی رو سے قرآنی آیات کی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے۔'' (فروری۶۲ئ: ص ۱۳)

''تعبیرات کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے معتقدات اور مسلک کو اوپر رکھتا ہے اور ان کے تابع قرآن کا مفہوم متعین کرتا ہے۔'' (اگست۶۲ئ: ص ۱۰)

''بات یہ ہے کہ مختلف فرقے، اپنے اپنے ہاں کے احکام کو محکم مانتے ہیں اور قرآن کو کھینچ تان کر ان کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ا س کا نام رکھتے ہیں 'قرآن کی تعبیرات' ...اگر قرآن کو محکم مان لیا جائے تو اس کے احکام کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں۔'' (دسمبر۶۲ئ: ص ۱۹)

جہاں کسی اللہ کے بندے نے قرآن کی تعبیرات میں اختلاف کا ذکر کیا۔ منکرین حدیث کی طرف سے فوراً اس پر یہ فتویٰ رسید کردیا گیا کہ ''تم قرآن کا اتباع کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اتباعِ قرآن سے گریز کے لئے، تعبیراتی اختلاف کو بطورِ بہانہ کے پیش کرتے ہو۔'' :

''عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے غلط اور صحیح کے پرکھنے میں، قرآنی معیار کے نتائج میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات، درحقیقت قرآن کو سند و حجت تسلیم نہ کرنے کے لئے گریز کی راہیںہیں۔'' (اگست۷۳ئ: ص ۳۵)

اور اگر کسی کی حق گوئی، اس پر غالب آگئی اور اس کی شامت نے اسے دھکا دے کر یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ... ''حضور! قرآن، جس اختلاف کی نفی کرتا ہے، وہ ناقابل توجیہ اختلاف ہے، ورنہ قابل توجیہ اختلاف تو فی الواقع قرآن میں موجود ہے اور علمائِ امت کا غوروفکر ایسے اختلاف کو رفع کرتا رہا ہے۔''... تو قائل کی بات کو اَن سنی کرتے ہوئے اور اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ

''قرآن کریم اپنے منجانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں۔ قرآن کے اس دعویٰ کے بعد یہ تسلیم کرنا کہ یہ مختلف فرقوں کو ایسے قوانین دیتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف اور باہم دِگر متضاد ہیں، قرآن کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کے مترادف ہے اور کھلا ہوا کفر۔'' (مارچ۷۸ئ: ص ۴۰)

ان بلند بانگ دعاویٰ کے بعد کہ وجہ ِاختلاف، قرآن نہیں بلکہ مختلف فرقوں کے اپنے مسالک وعقائد اور ان کی روایات؍ احادیث ہیں، رفع ِاختلاف کا انہوں نے یہ حل پیش کیا ہے : ''اگر خالص قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرلیا جائے تو کوئی اختلاف پیدا ہی نہیں ہوسکتا'' (اگست۸۴ئ: ص ۱۴)

لیکن بارگاہِ قرآن میں آنے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے جس کے بغیر قرآن سے استہداء (ہدایت پانا) ممکن نہیں ہے :

''قرآن سے صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر اس کی طرف آئے اور اس کے ہاں سے جو کچھ ملے، اسے من و عن قبول کرے، خواہ یہ اس کے ذاتی خیالات، رجحانات، معتقدات اور معمولات کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔'' (اگست۶۱ئ: ص ۷۴)

باقی مسلمانوں کو تو خیر چھوڑیئے، کم از کم 'اہل قرآن' کے جملہ طبقوں سے تویہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سب احزاب اہل قرآن کے تعبیری اختلافات سے خالی الذہن ہو کر بارگاہِ قرآن میں آئیں گے اور وہ نتیجتاً وحدتِ فکر و عمل میں یکتا ہوں گے لیکن -- اے بسا آرزو کہ خاک شد!

ایک طرف، پرویز صاحب اور ان کے متبعین اور دوسری طرف دیگر 'اہل قرآن' حضرات کو ہم دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ویسا ہی اختلاف و افتراق اور انتشار و شقاق نظر آتا ہے۔ چلو مان لیا کہ 'ملا' تو بیچارہ روایات میں اُ لجھ کر 'رستہ کھو بیٹھا' مگر حیرت ہے کہ یہ مسٹر لوگ بھی قرآن، قرآن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود باہم متحد اور متفق ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق میں ہی 'مصروفِ جہاد' ہیں۔ خود پرویز صاحب لکھتے ہیں:

''بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ فرقہ اہل قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص قرآن سے احکام متعین کرتے ہیں لیکن ان میں بھی باہمی اختلاف ہے۔ ایسا کہنے والوں کو دراصل اس کا علم نہیں کہ فرقہ اہل قرآن نے کون سی باتیں، قرآن سے متعین کر نے کی کوشش کی اور ان میں باہمی اختلاف ہوا؟ قرآن نے جن اُمور کو اصولی طور پر بیان کیا ہے، یہ فرقہ ان کی جزئیات کو بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گیا۔ اب ظاہر ہے کہ جو باتیں قرآن میں ہوں ہی نہ، اگر کوئی انہیں بھی قرآن سے متعین کرنے بیٹھ جائے تو ان میں اختلاف نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ جو لوگ یہ بھی قرآن سے متعین کرنا چاہیں کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں، ان میں ا ختلاف کے سوا اور کیا ہوگا؟ فرقہ اہل قرآن کی یہی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے وہ خود ناکام رہا اور اس کی وجہ سے قرآن بدنام ہوگیا۔'' (اپریل۶۷ئ: ص ۳۴)

آخر یہ لوگ، قرآن سے جزئیات کیوں متعین کرنا چاہتے تھے، ان کا دعویٰ اور دلیل کیا تھی، خود پرویز صاحب ہی لکھتے ہیں:

''دعویٰ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے تمام احکام کی جملہ تفصیلات و جزئیات خود قرآن میں موجود ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے سب سے پہلے نماز کی جزئیات کو لیا۔ میں کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی اس سعی ٔ نامشکور کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس فرقہ کے بانی تھے مولانا عبداللہ چکڑالوی (مرحوم) اور ان کے متبعین کا ایک گروہ لاہور میں مقیم ہے۔ ان دونوں نے نماز کی جزئیات اپنے دعوے کے مطابق قرآن کریم سے متعین کی ہیں اوران کی دریافت کردہ جزئیات کی کیفیت یہ ہے :

مولانا چکڑالوی             لاہوری فرقہ

1۔ پانچ وقت کی نماز                      1۔ تین وقت کی نماز

2۔ نماز میں دو تین چار رکعتیں    2۔نماز کی صرف دو رکعتیں

3۔ ہر رکعت میں صرف دو سجدے  3۔ ہر رکعت میں صرف ایک سجدہ

جہاں تک اذکارِ صلوۃ کا تعلق ہے، وہ بھی بالکل نرالے ہیں، اگرچہ وہ مشتمل ہیں قرآنی آیات ہی پر۔ اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جس قرآن کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نماز کی جزئیات تک میں اس قدر اختلا ف ہے تو اسے منزل من اللہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے تو سوچئے کہ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے؟ اور اگر یہ دونوں گروہ (مقتد ِی اور مقتدیٰ) آپس میں جھگڑنے لگ جائیں اور ایک دوسرے پر الزام دھریں کہ اس نے قرآن کو صحیح نہیں سمجھا تو اس سے ایک اور اعتراض وارد ہوگا جو پہلے اعتراض سے زیادہ نہیں تو کم سنگین بھی نہیں ہوگا۔ معترض کہے گا کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ کتابِ مبین (روشن کتاب) ہے اور اپنی ہر بات کونہایت وضاحت سے بیان کرتی ہے لیکن عملاً اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے حکم میں تعداد تک کو بھی غیر مبہم انداز میں بیان نہیں کرسکا، وہ جس انداز سے تعداد بتاتا ہے اس سے ایک شخص پانچ وقت سمجھتا ہے اور دوسرا تین وقت، کوئی دو تین چار رکعتیں سمجھتا ہے تو کوئی صرف دو رکعت، کوئی دو سجدے سمجھتا ہے تو کوئی ایک۔ بسیط حقائق (Abstract Realities) کے متعلق تو انسانوں کا فکری اختلاف، قابل فہم ہوتا ہے کیونکہ انہیں تشبیہی اندا زمیں بیان کیا جاتاہے، لیکن جس کتاب کا متعین احکام و قوانین کے متعلق یہ انداز ہو، اسے خداکی کتاب سمجھنا تو درکنار (معاذ اللہ) انسانی تصانیف میں بھی کوئی قابل قدر مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس سے قرآن کریم پر کتنی بڑی زَد پڑتی ہے۔ انتہائی صدمہ اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کا نام لے کر قرآن کے ساتھ کس قدر دشمنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے خصوصیت سے ان کے نظریہ اور مسلک کی تردید کرنی پڑی ہے۔'' (تفسیر مطالب الفرقان: جلد اوّل، ص۱۳۵ تا ۱۳۶)

یہ حال ہے ان لوگوں کی اختلاف جزئیات کا، جو سنت سے ہاتھ دھو کر محض قرآن پراکتفا کرنے کے دعویدار ہیں۔ جمعہ، جمعہ آٹھ دن، دورِ حاضر میں یہ سب گروہ کل کی پیداوار ہیں اور پرویزی فرقہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے جو قرآن کو نیزوں پر لٹکا کر منصہ شہود پر آیا ہے۔ نماز اور دیگر اُمور کی جزئیات کے اختلاف میں اس فرقہ نے نہ تو کوئی کمی کی ہے اور نہ ہی ان میں توفیق و تطبیق کے لئے کوئی حل پیش کیا ہے۔ بلکہ اپنے وجود سے اہل قرآن کے گروہوں میں ایک کا اور اضافہ کرد یا ہے۔ قرآن کی اساس پر طلوعِ اسلام کی لابی نے ازالہ اختلاف نہیں بلکہ امالہ اختلاف کیا ہے۔ یعنی ان جزئیات اور ان کے اختلاف کو کسی 'آنے والے' (مرکز ِملت) پر چھوڑ دیا ہے۔

غور فرمائیے کہ یہ سب لوگ، ابھی حریم قرآن میں داخل نہیںہوئے، وہ ابھی اس کی دہلیز پر ہی ہیں کہ اس سوال نے ان میں اختلاف و انتشار پیدا کردیا کہ ... ''قرآن نے صرف کلیات و اُصول ہی بیان کئے ہیں؟ یا ا س میں کلیات و جزئیات اور اصول و فروع سب کچھ مذکور ہیں'' ... حالانکہ ﴿تَفْصِيْلَ الْکِتَابِ اور تِبْيَانًا لِکُلِّ شَيْیٍٔ﴾ جیسے قرآنی الفاظ کی یہ سب خیر سے تلاوت کرنے والے ہیں۔

طلوعِ اسلام، اپنے سوا دیگر اہل قرآن گروہوں کی ضلالت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ

'' جب آج سے کچھ عرصہ پہلے فرقہ اہل قرآن کی اسی طرح مخالفت ہوئی ہے تو ہم نے سمجھا تھا کہ مخالفت، ان کی اس غلط روش کی بنا پر ہے جو فی الواقع غلط تھی۔ وہ اپنے غلو اور تشدد میں، رسول اللہﷺ کی صحیح حیثیت ہی کو بھلا بیٹھے اور انہوں نے حضور ؐ کا منصب صرف اس قدر سمجھا کہ آپ نے معاذ اللہ ایک چٹھی رساں کی طرح اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دیا یا آج کی اصطلاح میں یوں سمجھئے کہ ان کے نزدیک رسول ؐکی حیثیت معاذ اللہ ایک ریڈیو سیٹ (آلہ ابلاغ) کی سی ہے کہ محطۂ نشر الصوت(Broadcasting Station) میں جو کچھ نشر ہو، وہ آواز اس کے ذریعہ سننے والوں تک آپہنچی، یہ غلطی تھی۔'' (جنوری ۴۲ئ: ص۱۱)

ٹھیک آج یہی گمراہی وابستگانِ طلوعِ اسلام نے بھی اختیار کر رکھی ہے، کیونکہ انکارِ حدیث کا یہ لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ یہ لوگ بھی آج نبیؐ کو صرف اتنی حیثیت ہی دیتے ہیں کہ وہ ڈاکیا کی طرح محض قرآن پہنچا دینے کی حد تک ہی مامور من اللہ ہیں۔ ا س کام کے بعد، پیغمبرؐ نے جو کچھ بھی کیا یا کہا ہے۔ وہ بطورِ نبیؐ اور رسول ؐکے نہیں بلکہ بطور ایک فرد بشر کے کیا ہے۔ پیغمبر آخرالزمانﷺ نے وحی کی اساس پر جو معاشرہ تشکیل دیا تھا، اگرچہ اس میں آپؐ کے حسن ِتدبر اور سیرت و کردار کا مثالی نمونہ تھا مگر یہ سب کچھ کارنامہ رسول نہ تھا بلکہ محض فردِ بشر کی کارگزاری تھی۔ بزمِ طلوع اسلام کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب (پٹھہ چوہدری غلام احمد پرویز)نے ٹھیک یہی بات 'سنت کی دستوری اہمیت' پر مولانا مودودیؒ سے قلمی مناظرہ کے دوران کہی تھی : ''آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضورؐ نے تیئس سال پیغمبرانہ زندگی میں سرانجام دیئے، ان میں آنحضرتؐ کی پوزیشن کیا تھی؟ میرا(یعنی ڈاکٹر عبدالودود کا) جواب یہ ہے کہ حضورؐ نے جو کچھ کرکے دکھایا، وہ ایک بشر کی حیثیت سے لیکن 'ما اَنزل اللہ' کے مطابق کرکے دکھا یا۔'' (ترجمان القرآن، منصب ِرسالت نمبر : ستمبر ۱۹۶۱ئ، ص ۵۵)

خود پرویز کی تحریروں میں منصب ِنبوت کا یہ تصور موجود ہے، صر ف ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیے :

''رسول کا فریضہ، وحی خداوندی کو دوسروں تک پہنچا دینا ہی نہیں ہوتا، وہ اس پر خود عمل کرتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ متشکل کرتا ہے جس میں وحی کی یہ تعلیم ایک عملی نظام بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کے لئے اسے سخت ترین مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیسیوں لڑائیاں لڑنی پڑتی ہیں۔ پھر جب یہ نظام متشکل ہوجاتا ہے تو اُسے وہ تمام امور سرانجام دینے ہوتے ہیں جو ایک مملکت کے سربراہ کے فرائض کہلاتے ہیں۔ وہ یہ تمام اُمور ایک انسان کی حیثیت سے سرانجام دیتا ہے اور اس میں اپنے حسن تدبر اور سیرت و کردار کا ایسا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے جسے شرفِ انسانی کی معراجِ کبریٰ کہا جائے۔'' (ستمبر۷۸ئ: ص ۲۶)

حقیقت یہ ہے کہ 'اہل قرآن' کے جملہ گروہ بشمول پرویزی فرقہ، اگر قرآن کے ساتھ حامل قرآنؐ اور مہبطِوحی ﷺ کو بھی وہی حیثیت دیں جو خود قرآن نے انہیں دے رکھی ہے تو ان پر یہ امر واضح ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو شارع (Law Giver) کا مقام بھی دیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ

﴿يَأمُرُ‌هُم بِالمَعر‌وفِ وَيَنهىٰهُم عَنِ المُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَ‌هُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم...١٥٧ ﴾... سورة الاعراف

''وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے ہیں اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں۔''

منکرین حدیث اگر خود شارع بننے کی بجائے، نبی ہی کو شارع قرار دیتے اور اپنی تشریح کرنے کی بجائے نبی ہی کی تشریحات کو قبول کرتے تو وہ کبھی اس گمراہی میں نہ پڑتے، جس کا الزام طلوعِ اسلام نے دوسرے 'اہل قرآن' گروہوں پر عائد کیا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی آج اسی گمراہی میں مبتلا ہے۔

سورۃ النحل کی اس آیت کے حاشیہ میں صاحب ِتفہیم القرآن نے جو کچھ لکھا ہے، وہ غور سے پڑھنے کے قابل ہے :

'' یہ آیت جس طرح ان منکرین نبوت کی حجت کے لئے قاطع تھی جو خدا کا 'ذِکر' بشر کے ذریعہ آنے کو نہیں مانتے تھے، اسی طرح آج یہ ان منکرین حدیث کی حجت کے لئے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف 'ذکر' کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خود اس با ت کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی، صرف ذکر پیش کیا تھا یا اس بات کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے، نہ کہ نبی کی تشریح یا اس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لئے صرف 'ذکر' ہی کافی ہے،نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف 'ذکر' ہی قابل اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی، یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے قابل نہیں ہے۔ غرض ان چاروں باتوں میں سے، جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے'' ...

''وہ پہلی با ت کے قائل ہوں تو اس کا معنی یہ ہے کہ نبی نے اس منشا ہی کو فوت کردیا جس کی خاطر 'ذکر' کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کی بجائے، اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا۔''...

''اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے معاذ اللہ، یہ فضول حرکت کی ہے کہ اپنا 'ذکر' ایک نبی کے ذریعہ بھیجا کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف 'ذکر' کے مطبوعہ شکل میں نازل کرنے کا ہوسکتاتھا۔''

''اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدی، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد، اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صرف ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں، اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لئے نبی کی تشریح کو ناگزیر ٹھہرا رہا ہے او رنبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ 'ذکر' کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی تشریح وتوضیح دنیا میں باقی نہیں رہی تو اس کے دو کھلے ہوئے نتیجے ہیں، پہلا نتیجہ یہ کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی ختم ہوگئی اور اب ہمارا تعلق محمدﷺ کے ساتھ صرف اس طرح کا رہ گیا جیسا ہود،ؑ صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں، یہ چیز آپ سے آپ، نئی نبوت کی ضرورت ثابت کردیتی ہے۔ صرف ایک بیوقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ اکیلا قرآن، نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لئے ناکافی ہے۔ اس لئے قرآن کے ماننے والے، خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مدعی سست کی حمایت میں گواہان چست کی بات، ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت، آپ سے آپ، خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعہ دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔'' (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۴۳ تا ۵۴۵)

تنہا قرآن کا نعرہ بلند کرنے والے، آج پاکستان میں کچھ وہ لوگ ہیں جو حلقہ 'طلوعِ اسلام' میں ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ادارہ 'بلاغ القرآن' سے وابستہ ہیں۔ دونوں مخالف ِسنت اور ساتھ ساتھ ہی تمسک بالقرآن کے دعویدار ہیں اور دونوں اس امر کے مُعلن ہیں کہ تنہا قرآن کے ساتھ وابستگی ہی باہمی اختلافات کا ازالہ اور فرقوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ قرآن کے بغیر تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قرآن کی بنیاد پر 'طلوعِ اسلام'اور 'بلاغ القرآن' والے اکٹھے ہوچکے ہیں؟ اور کیا ان دونوں کے تعبیرات کے اختلافات دَم توڑ چکے ہیں؟ اور ان سے وابستہ افراد اپنے باہمی فروق و امتیازات کو ختم کرکے باہم دِ گر متحدو متفق ہوچکے ہیں۔

طلوعِ اسلام اور بلاغ القرآن کے تعبیری اختلافات

یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ تنہا قرآن کی بارگاہ میں آنے کا قصد کرتے ہی سب سے پہلے اس اختلاف سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ ''آیا قرآن، اصول و فروعات اور کلیات و جزئیات پر مشتمل ہے یا صرف اُصول و کلیات پر؟''... طلوعِ اسلام کے مخالفین پہلی بات کے قائل ہیں جیسا کہ چکڑالوی اور لاہوری فرقوں سے متعلقہ اقتباس میں ہم دیکھ چکے ہیں اور خود وابستگانِ طلوعِ اسلام دوسری بات کے قائل ہیں۔ اس اختلاف کی موجودگی میں ایک گروہ قرآن سے جزئیات و فروعات بھی اخذ کرے گا اور دوسرا گروہ کسی 'آنے والے' (مرکز ِملت) کی راہ دیکھے گا اور یہ ایسا شدید اختلاف ہے جس کے باعث ایک طرف دونوں گروہ مرتے دم تک متحد نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف؛ یہ اتنا سنگین اختلاف ہے کہ بقولِ پرویز

''اس سے قرآن بدنام ہوتا ہے اور ایسا کرنے والے ناکام و نامراد ٹھہرتے ہیں۔''

تاہم قرآن کے مشتمل برکلیات و جزئیات ہونے یا نہ ہونے کے اَمر کو نظر انداز کرتے ہوئے جب بارگاہِ قرآن میں داخل ہو کر تشریح و تفسیر کا موقع آتا ہے تو یہاں قدم قدم پر اختلاف واقع ہوتا ہے، حالانکہ دونوں گروہ، نیک نیتی سے تمسک بالقرآن کے دعویدار ہیں۔

آئیے! ہم چند اُمور میں یہ دیکھیں کہ بلاغ القرآن اور طلوعِ اسلام نے جب قرآن کو حَکَم بنایا تو کیا ان میں تعبیرات کا اختلاف ختم ہوگیا، یا باقی وبر قرار رہا؟

پہلی مثال

آیت البقرۃ:۱۷۳ میں ان اشیا کی فہرست دی گئی ہے جنہیں حرام کیا گیا ہے، ان اشیا میں لحم خنزیر بھی شامل ہے۔ جس کا مفہوم بلاغ القرآن کے ہاں سو ٔر کا گوشت نہیں بلکہ 'غدود کاگوشت' ہے۔اصل عبارت درج ذیل ہے :

﴿ إِنَّما حَرَّ‌مَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ‌ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ‌ اللَّهِ...١٧٣ ﴾... سورة البقرة ''سوائے اسکے اور کوئی بات نہیں کہ تمہارے لئے حلال جانوروں کا (بھیمۃ الانعام ۱؍۵) کا مردہ خون، غدود کا گوشت اور وہ جانور یا گوشت جو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے، حرام کیا گیا ہے۔''

اس آیت کی تفسیر میں 'لحم خنزیر'کی وضاحت بایں الفاظ کی گئی ہے :

''لحم خنزیر کا معنی لکھا گیا ہے 'غدود کا گوشت' حالانکہ تمام مترجمین نے اس کا معنی 'سور کا گوشت' لیا ہے۔ پہلے نمبر پر سور کا گوشت مراد لینا، اس لئے غلط ہے کہ آیت مجیدہ میں اِنّما کے حصر کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مردہ، خون، لحم خنزیر اور غیر اللہ کی طرف منسوب حرام ہیں۔ اس حصر کو قائم رکھتے ہوئے، جانوروں میں سے صرف سور ہی حرام ٹھہرتا ہے اور باقی سب جانور کتا، بلا،بجو، ریچھ وغیرہ حلال ٹھہرتے ہیں اور قرآن مجید میں نقیض پیدا ہوتی ہے کہ ایک طرف ۱؍۵ میں صرف بھیمۃ الانعامحلال ٹھہرائے جاتے ہیں اور دوسری طرف صرف سور کو حرام قرار دیا گیا ہے، گویا چارپایوں میں سے صرف سور حرام ہے۔'' (تفسیر القرآن بالقرآن: جلد اوّل ، ص ۱۳۶، ادارہ بلاغ القرآن، ۱۱؍ این سمن آباد، لاہور)

اسی آیت کا مفہوم، طلوعِ اسلام کے جناب پرویز ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :

''...اب سن لو! کہ خدا نے حرام کس کس چیز کو قرار دیا ہے: مردار، بہتا ہوا خون (۶؍۱۴۶) خنزیر کا گوشت اور ہر وہ شئے جسے اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کردیا جائے۔'' (مفہوم القرآن، ص ۶۲)

لغات القرآن میں خود پرویز نے 'خنزیر'کا معنی 'سو ٔر' ہی کیا ہے۔ ملاحظہ ہو لغات القرآن، ص۶۲۱۔

تعبیر کا یہ ا ختلاف ملاحظہ فرمائیے، کہ لحم خنزیر سے مراد، ایک کے ہاں 'غدود کا گوشت ' ہے اور دوسرے کے ہاں 'سؤر کا گوشت' اور دونوں خالی الذہن ہو کر سوئے قرآن آئے ہیں، مگر نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات !!

میں نے خنزیر بمعنی غدود کی تحقیق نہیں کی، ممکن ہے کہ بلاغ القرآن کے دعویٰ کے مطابق لغاتِ عربیہ میں کہیں سے اس کی تائید ہوجائے۔ لیکن اس سے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں اور قرآنی تشریح کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو قرآن بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا، کوئی کچھ معانی کرے گا اور کوئی کچھ، اور اختلافات کا سیلابِ عظیم ہوگا اور اُمت کا فرقوں میں بٹ جانا ناگزیر ہوگا، لیکن اگر اس بات کی طرف رجوع کیا جائے جس پر خود یہ قرآن نازل ہوا ہے تو پھر یہ ممکن ہے کہ اس خطرے کا سدباب ہوجائے، کیونکہ مہبط ِوحی ہونے کی وجہ سے وہی مرضاتِ الٰہیہ کا نمائندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمسک بالسنۃ کی وجہ سے چودہ صدیوں میں آج تک لحم خنزیر کا مفہوم متفق علیہ رہا ہے۔

دوسری مثال

قرآنِ کریم میں وضو اور غسل کے ضمن میں ﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّر‌واکے الفاظ آئے ہیں۔ جن کا ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ ''اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو( نہا کر) پاک ہوجائو۔'' ... حالت جنابت کیا ہے؟ اور جُنُبًا سے کون لوگ مراد ہیں؟ بلاغ القرآن والوں کے نزدیک جنب کے معنی ہیں 'بدخوابی' ۔ ملاحظہ ہو تفسیر القرآن بالقرآن، جلد سوم ص۲۷

جبکہ پرویز صاحب کے ہاں، اس کے معنی وہی ہیں جو علماء اُمت میں معروف و متداول ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

''سورئہ مائدہ میں ہے ﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا (۵؍۶) اس کے معنی حالت ِجنابت کے ہیں (ہم آغوشی کی رعایت سے)۔ ''(لغات القرآن: ص۴۴۲)

یہاں بھی تعبیر کا اختلاف واضح ہے اور دونوں گروہ الفاظِ قرآن پر متفق ہونے کے باوجود معنی ٔ قرآن پر باہم مختلف ہیں۔

تیسری مثال

قرآن کریم کی درج ذیل آیت ملاحظہ فرمائیے : ﴿وَالَّذينَ يُتَوَفَّونَ مِنكُم وَيَذَر‌ونَ أَزو‌ٰجًا وَصِيَّةً لِأَزو‌ٰجِهِم مَتـٰعًا إِلَى الحَولِ غَيرَ‌ إِخر‌اجٍ...٢٤٠ ﴾... سورة البقرة ''تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں او رپیچھے بیویاں چھوڑ جائیں، ان کو چاہئے کہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال بھر تک گھر سے نکالے بغیر ان کو خرچہ دیا جائے۔''

اس آیت کا ترجمہ 'بلاغ القرآن' والوں کے نزدیک یہ ہے :

''اور تم میں سے جو لوگ روک لئے جائیں (یعنی لاپتہ ہوجائیں) اور وہ بیویاں چھوڑ جائیں، ان کی بیویوں کے لئے حکم ہے کہ انہیں ایک سال تک ضروریاتِ زندگی مہیا کی جائیں اورانہیں ان کے گھروں سے نہ نکالا جائے۔''

ترجمہ کے بعد، اب آیت کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے :

''واضح رہے کہ لاپتہ شوہر کی بیوی، ایک سال تک شوہر کے مال سے نان و نفقہ حاصل کرے گی، لیکن اگر شوہر کا مال کوئی نہ ہو، تو شوہر کے ورثا ایک سال کا بوجھ اٹھائیں گے اور اگر وارث کوئی نہ ہو، یا وہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ ہوں تو اس ایک سال کا نان و نفقہ حکومت کے ذمہ ہوگا، غرض یہ کہ لاپتہ شوہر کی بیوی کے لئے ایک سال کا انتظار فرض ہے۔'' (تفسیر القرآن بالقرآن: جلد اوّل، ص۱۹۶ تا ۱۹۷)

طلوعِ اسلام والوں کے ہاں، آیت کا مفہوم یہ ہے :

''تم میں سے جو لوگ بیوہ عورتیں چھوڑ کر مر جائیں، انہیں چاہئے کہ اپنی بیویوں کے متعلق وصیت کر جائیں کہ سال بھر انہیں گھر سے نہ نکالا جائے اور انہیں سامانِ زندگی دیا جائے'' (مفہوم القرآن، ص۹۲)

اوّل الذکر گروہ کی تعبیر کے مطابق، آیت کا تعلق لاپتہ شوہر کی بیوی کے نان و نفقہ سے ہے اور مؤخر الذکر طائفے کے ہاں، تعبیر آیت یہ ہے کہ شوہر اپنی وفات کے وقت یہ وصیت کرجائیں کہ ایک سال تک اس کی بیوی کو گھر سے نکالے بغیر اسے خرچہ دیا جائے۔

یہ تینوں مثالیں اس امر کو واضح کردیتی ہیںکہ احادیث ِرسول کو نظر انداز کرکے کوئی شخص خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے دعووں کے ساتھ بارگاہِ قرآن میں آئے، وہ اختلاف تعبیرات سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ان تینوں آیات کا مفہوم احادیث ِرسولﷺ کی روشنی میں بعثت ِنبوی سے لے کر تاحال علمائِاُمت میں متفق علیہ رہا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سنت ِنبویہ کو نظر انداز کرکے تنہا قرآن کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوگا بلکہ چودہ صدیوں میں جن مسائل پر اتفاق پایا جاتا ہے، وہ بھی اختلاف و انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔

بلاغ القرآن والے ہوں یا طلوعِ اسلام والے، نیاز فتح پوری کے ہم مسلک ہوں یا عنایت اللہ مشرقی کے ہم مشرب، 'اُمت ِمسلمہ، امرتسر' کے وابستگان ہوںیا اسلم جیراجپوری کے متعلقین، ان سب کے ہاں قدرِ مشترک، صرف 'اسم قرآن' یا 'الفاظ قرآن' ہیں اور عملاً جو چیز درکا رہے وہ 'الفاظِ قرآن' نہیں، بلکہ 'مفہومِ قرآن' یا 'تعبیر قرآن' ہے؛ اور یہ 'اہل قرآن' کے ہر گروہ کی الگ الگ ہے، ان تمام احزاب کو 'اسم قرآن' پر جمع کر بھی دیا جائے۔ تو اپنی اپنی 'تعبیر قرآن' اس تضادات کے گٹھے کو تادیر بندھا نہیں رکھ سکتی۔ ان سب کو اکٹھا کرنا، تناقضات کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔

........................


'مفکر ِقرآن' کے تعبیری تضادات

لیکن یہ مختلف گروہ ہیں جو تعبیر قرآن میں باہم مختلف ہیں، کیا ان میں سے کوئی فرقہ بھی قرآن کی کسی ایک اور حتمی تعبیر پر برقرار رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ غلام احمد پرویز کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کا پورا لٹریچر تضادات سے اَٹا پڑا ہے۔ ہر گردشِ زمانہ کے ساتھ ان کی تعبیرات بدلتی رہی ہیں، لیکن بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ وہ نام، قرآن ہی کا لیتے رہے ہیں۔ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیے :

مثالِ اوّل

قرآن عائلی زندگی میں جو اَحکام و ہدایات دیتا ہے، ان میں آیت (۳۴؍۴) کا یہ حصہ بھی شامل ہے

﴿ وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُر‌وهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِ‌بوهُنَّ ۖ فَإِن أَطَعنَكُم فَلا تَبغوا عَلَيهِنَّ سَبيلًا...٣٤ ﴾... سورة النساء

''جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ مطیع فرماں ہوجائیں تو ان پر زیادتی کی راہ نہ تلاش کرو۔''

اس آیت میں بصورتِ نشوز عورتوں کی بابت تین احکام ہیں :

1۔ انہیں سمجھائو، نصیحت کرو       فَعِظُوْ هُنَّ

2۔ خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دو      وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ

3۔ انہیں مارو پیٹو      وَاضْرِبُوْ هُنَّ

سوال یہ ہے کہ ان تینوں احکام کے مخاطب کون ہیں؟ پرویز صاحب نے اس کے مختلف اوقات میں مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جنوری ۱۹۴۹ء میں، ان تینوں احکام کا مخاطب شوہروں کو قرار دیا گیا :

''سورۃ النساء میں﴿وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ ''جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو'' تو ان کے متعلق کیا کرو؟ یہ نہیں کہ محض اس اندیشہ کی بنا پر ( یا ان کی کسی حرکت سے غصہ میں آکر) فوری تعلقات منقطع کر لو بلکہ«فَعِظوهُنَّ» انہیں نرمی اور محبت سے سمجھائو، اگر وہ اس پر بھی سرکشی سے باز نہ آئیں تو﴿وَاهجُر‌وهُنَّ فِى المَضاجِعِخواب گاہوں میں ان سے الگ رہنے لگو۔''

ذرا غور کرو، سلیم! اگر عورت نیک سرشت اور شریف النفس ہوگی تو اس کے لئے یہ تنبیہ بہت کافی ہوگی۔ لیکن اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ اس پر بھی سرکشی سے نہ رکے، تو اس کی بھی اجازت ہے کہ ان پر سختی کی جائے۔ واضربوهن (تم انہیں مار بھی سکتے ہو)۔'' (جنوری ۴۹ئ: ص ۶۷)

قرآن کی یہ تعبیر جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ لیکن اسی سال اکتوبر میں قرآن کی یہی تعبیر محتاج ترمیم قرار پاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب شوہر، بیوی کو صر ف وعظ و نصیحت ہی کرسکتا ہے لہٰذا وہ صرف فَعِظُوْھُنَّ ہی کے حکم کا مخاطب ہے۔ رہے باقی دو احکام (بیویوں کو خوابگاہوں میں چھوڑ دینا او رانہیں مارنا پیٹنا) تو اب ان کا اختیار شوہر کو نہیں رہا، بلکہ وہ حکامِ عدالت کی طرف منتقل ہوگیا۔

﴿ وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُر‌وهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِ‌بوهُنَّ...٣٤ ﴾... سورة النساء '' جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا ڈر ہو، تو اس کے لئے تو سب سے پہلے باہمی افہام وتفہیم سے صلح صفائی کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر معاملہ اس سے نہ سلجھے تو پھربات حکام تک جائے گی، اب فیصلہ وہاں سے صادر ہوگا۔ عورت کا جرم ثابت ہوگیا تو ہلکی سزا تو یہ ہے کہ اسے ایک معینہ مدت کے لئے خاوند سے الگ کردیا جائے اور انتہائی صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے بدنی سزا دی جائے۔'' (اکتوبر ۴۹ئ: ص ۹۲)

۱۹۵۷ء میں اس آیت کی ایک ایسی جدید تعبیر سامنے آتی ہے، جس کے نتیجے میں ان تینوں احکام میں سے کسی ایک حکم کا مخاطب بھی شوہر نہیں رہتا اور تینوں اُمور کے کلی اختیارات 'معاشرہ' کوحاصل ہوجاتے ہیں اور یوں قرآن کی 'اسلامی تہذیب' اور مغرب کی مادّی مدنیت باہم گلے مل جاتی ہیں :

''آپ نے غور فرمایا کہ اس پہلے مرحلہ میں بھی قرآنِ کریم نے معاشرہ کے لئے تین مرحلے رکھے ہیں: اول انہیں چاہئے کہ وہ نصیحت اور سمجھا بجھا کر حالات کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر اس کے بعد بھی حالات درست نہ ہوں تو پھر شوہر کو وہ ہدایت کریں کہ وہ اپنی بیوی کو خواب گاہ میں تنہا چھوڑ دے اور اس سے الگ الگ رہے، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو پھر عدالت اگرضروری سمجھے تو بیوی کو جسمانی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اگراس کے بعد وہ راہ پر آجائیں تو پھر ان میں مزید کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے۔'' (فروری۵۷ئ:ص۴۳)

یہ ہیں طلوعِ اسلام کی قرآنی تعبیرات جو وقتاًفوقتاً مگر زندگی بھر بدلتی رہی ہیں۔ بہرحال پرویز صاحب تھے تو سوچنے والے شخص، فضائے د ماغ میں خیال کا ایک نیا جھونکا آیا تو 'قرآنی تعبیر' بھی مرغ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اس تغیر و تبدل کی رفتار کبھی سست ہوجاتی اور کبھی تیز، اتنی تیز کہ دو ٹکے کی جنتری تو سال بعد بدلتی ہے، مگر 'مفکر قرآن' کی تعبیر قرآن سال میں دو مرتبہ بھی تبدیل ہوجاتی۔

مثالِ ثانی

سورۃ العنکبوت کی درج ذیل آیت مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :

﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم...٥١ ﴾... سورة العنكبوت ''اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ کافی نہیںہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔'' اس آیت کی ایک تعبیر و تشریح، جناب پرویز صاحب نے ان الفاظ میں پیش کی ہے :

''کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے معجزے کیوں نہیں نازل ہوتے۔ کہہ دو کہ معجزے تو خدا کے پاس ہیں، میں تو صرف تمہیں تمہاری غلط روش سے کھلم کھلا آگاہ کرنے والا ہوں، کیا یہ قرآن بذاتِ خود معجزہ نہیں جو تم اور معجزے مانگتے ہو :﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم...٥١ ﴾... سورة العنكبوت ''کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ تم پر کتاب نازل کی گئی ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔'' (اگست۶۶ئ:ص۴۰)

اس تعبیر کے مطابق قرآن کے کافی ہونے کو بطورِ معجزہ اور نشانی کے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اگلے ہی سال پرویز صاحب ایک نئی تعبیر پیش کرتے ہیں جس کے مطابق قرآن کی کفایت بطورِ معجزہ اور نشانی ہونے کی بجائے بطورِ ضابطہ حیات اور سرچشمہ قانون ہونا قرار پاتی ہے اوریہ نئی تعبیر حدیث و سنت سے جان چھڑانے کے لئے گھڑی گئی۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ نئی تعبیر قطعی بے جوڑ ہے جبکہ پہلی تعبیر سیاق وسباق کے بالکل مطابق ہے :

''دنیا میں اسلامی حکومت وہی صاحب ِعزیمت قائم کرسکے گا جس میں یہ کہنے کی جرأت ہو کہ ''ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔'' یہی وہ جواب تھا جو خدا کی طرف سے اسلامی نظام کے مخالفین کو دیا گیا جب اس نے کہا تھا ﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم...٥١ ﴾... سورة العنكبوت''کیا یہ بات ان کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے (اے رسولؐ) تجھ پر کتاب نازل کی جسے ان پر پیش کیا جارہا ہے۔'' (جون۶۷ئ: ص۲۱)

ایک اور مقام پر اسی تعبیر کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے :

''اپریل ۱۹۴۳ء کا ذکر ہے کہ صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے قائداعظم سے ایک پیغام کے لئے درخواست کی۔ آپ نے جواب میں فرمایا: ''تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہیں پیغام دوں، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے، جو ہماری رہنمائی اور بصیرت افروزی کے لئے کافی ہے، وہ پیغام ہے خدا کی عظیم کتاب قرآنِ کریم (تقاریر، جلد اول، ص۵۱۶) ... یہ پیغام خود خدا نے حضور نبی ﷺکرم ا کی لسانِ مبارک سے دیا تھا جب کہا تھا کہ﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم...٥١ ﴾... سورة العنكبوت

''کیا یہ چیز ان کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو نازل کیا ہے جسے ان کے سامنے پیش کیاجارہا ہے۔'' (اپریل۷۷ئ:ص۱۶)

۱۹۶۷ء تک آیت کی تعبیر یہ تھی کہ وہ کفار کے مطالبہ معجزہ کے جواب میں انہیں یہ اعلان کر رہی تھی کہ ''کیا یہ کتاب جو تم پر پڑھ کر سنائی جارہی ہے، بطورِ معجزہ تمہارے لئے کافی نہیں ہے۔'' لیکن پھر اس کے بعد تعبیر آیت یہ ٹھہری کہ حدیث و سنت اور اُسوہ ٔ رسول کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہدایت و رہنمائی کے لئے یہی کتاب کافی ہے۔

یہ نت نئی بدلتی تعبیریں، اس قرآن سے پیش کی جاتی ہیں جسے بڑی بلند آہنگی کے ساتھ، رافع اختلاف اور مزیل انتشار قرار دیا جاتا ہے؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کے معاملہ میں ذہن ِپرویز مداری کی ایسی پٹاری ہے، جس سے جب جیسی اور جو چاہی تعبیر نکال کر پیش کردی۔

مثالِ ثالث

قرآنِ کریم نے حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق سورۃ العنکبوت کی آیت ۱۴ میں بیان کیا ہے کہ

﴿وَلَقَد أَر‌سَلنا نوحًا إِلىٰ قَومِهِ فَلَبِثَ فيهِم أَلفَ سَنَةٍ إِلّا خَمسينَ عامًا...١٤ ''ہم نے نوح ؑکو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس کم ایک ہزار سال رہا۔'' اس آیت کے متعلق پرویز صاحب عمر نوحؑ کے متعلق لکھتے ہیں:

''دورِ حاضر کے انسان کے لئے جو سو سوا سو سال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لئے آتا ہے اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے اس درازیٔ عمر کے راز دریافت کرتا ہے، اتنی لمبی عمر بمشکل باور کئے جانے کے قابل ہے (اس وجہ سے بعض حضرات عامًا 'سال' سے مراد 'مہینے' لینے پر مجبور ہو رہے ہیں)۔ لیکن حضرت نوح ؑ، آدم ؑ سے دسویں پشت میں آئے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں، آٹھ آٹھ ، نو نو سوسال کی لکھی ہیں۔

لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کی برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لئے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کئے گئے تھے، اتنی لمبی لمبی عمریں کچھ باعث ِتعجب نہیں ہوسکتیں۔'' (معارف القرآن: جلددوم، ص۳۷۶)

''چین کے مشہور مذہب (Taoism)''جس کا تفصیلی تعارف، دیگر مذاہب ِعالم کے سلسلہ میں جلد سوم، باب ظہر الفساد میں کیا جائے گا۔'' کا ایک بہت بڑا مبلغ اور رِشی (Kwang) (جس کی پیدائش چوتھی صدی ق م کی ہے) اپنی چوتھی کتاب میں سمجھاتا ہے کہ عمر بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ ''میں بارہ سو سال سے اسی طریق کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہوں اور اس پر بھی میرا جسم روبہ انحطاط نہیں۔'' (Sacred Books of the East, (Taoism) Translated by James Legge. (p.225) (معارف القرآن، جلد دوم، حاشیہ ص ۳۷۷)

لیکن جب معارف القرآ ن جلد دوم کو 'جوئے نور' میں تبدیل کیا گیا تو اس آیت کی تعبیر بھی بدل گئی، لغت کے اس قارون کی طول طویل لغوی موشگافیوں اور دور خیز سخن سازیوں کے نتیجہ میں 'عمر نوحؑ' بڑی مختصر ہوگئی... کیسے؟ ملاحظہ فرمائیے :

''عربی لغت میں سَنَة کا اطلاق 'فصل' پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کا ایک سال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے أَلْفَ سَنَةٍکے معنی ہوں گے کہ ، اڑھائی سو سال اور عَام پورے سال کو کہتے ہیں۔ اس لئے اگر خَمْسِیْنَ عَامًا کو اس میں سے منہاکردیا جائے تو باقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں۔'' (جوئے نور، ص۳۴)

غور فرمائیے، پرویز صاحب کی آج کی اور کل کی تعبیر میں کتنا فرق ہے۔ کل ان کے لئے ساڑھے نو سو سال کی عمر باعث ِتعجب نہ تھی، بلکہ وہ بارہ بارہ سو سال کی عمر کے لوگوں کے حوالے تلاش کرکے لوگوں کے حیرت و استعجاب کاازالہ کیا کرتے تھے، لیکن آج دماغ کا رنگ بدلا، تو ساتھ ہی 'تعبیر قرآن' بدل گئی۔ یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعہ پرویز صاحب کو ہر بات کا جواب قرآن سے مل جایا کرتا تھا، سچی بات ہے کہ

''جب کوئی قرآن کو مسخ کرنے پر اُترآئے تو اُسے اس سے اپنی کون سی مصلحت کی سند نہیں مل سکتی ...؟'' (اکتوبر۷۹ئ:ص۱۳ )

مثالِ رابع

قرآنِ کریم میں قومِ نوح کا انجام بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے

﴿ فَكَذَّبوهُ فَأَنجَينـٰهُ وَالَّذينَ مَعَهُ فِى الفُلكِ وَأَغرَ‌قنَا الَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايـٰتِنا ۚ إِنَّهُم كانوا قَومًا عَمينَ ٦٤ ﴾... سورة الاعراف

''پس انہوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے اسے اور جو کشتی میں اس کے ساتھ تھے، ان سب کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، انہیں ہم نے غرق کردیا۔ یہ تھے ہی اندھی قوم۔''

اب سوال پیدا ہوتا کہ قوم نوح کا یہ انجام ان کے تکذیب ِحق اور غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ تھا؟ یا محض طبعی حوادث کا؟ ... ۱۹۴۵ئ؁ کو ان کا موقف یہ تھا :

''قومِ نوح کی غرقابی کے واقعہ پر سرسری مؤرخانہ نگاہ صرف اتنا بتا سکے گی کہ پانی کا بلا انگیز طوفان آیا اور (سوائے ان لوگوں کے جو کشتی میں سوار تھے) سب غرق ہوگئے۔ ان کی بستیاں نذرِ سیلاب ہوگئیں۔ سارے علاقے میں کوئی متنفس باقی نہ رہا۔ جہاں اس شدت کا سیلاب آتا ہے ایساہی ہوتا ہے ... لیکن قرآنِ کریم زاویۂ فکرو نظر کو کسی اور طرف بدل دیتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ قومِ نوح نے دعوتِ حق و صداقت کی تکذیب کی اور ان کے جرائم کی پاداش میں ان کا استہلاک ہوا۔'' (معارف القرآن: جلد دوم، ص۳۷۰)

یہ 'تعبیر قرآن'قبل از قیامِ پاکستان تھی، قیام پاکستان کے بعد 'نئے تقاضوں' کے لئے ظاہر تھا کہ'نئی تعبیر' درکار تھی۔ چنانچہ آزاد فضائوں میں قومِ نوح کا انجام بھی اخلاقی عنصر سے آزاد ہوگیا :

''یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حوادث ان کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھے یا انہیں ان کی تباہی کا موجب بنا دیا گیا تھا؟ اس کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ آج بھی زلزلے آتے ہیں، آتش فشاں پہاڑ پھٹتے ہیں، سیلاب بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں، آندھیوں کے طوفان چلتی ہوئی ریل گاڑیوں کو اُٹھا کر دریائوں میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واقعہ ہے کہ یہ حوادث کسی قوم کی بدعملیوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔'' ( جوئے نور، ص۲۹)

''یہ حوادث، نہ تو کسی قوم کے غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے صرف بداعمال لوگ تباہ ہوتے ہیں۔'' (جوئے نور، ص۲۹)

اس نئی تعبیر کا ایک ایک لفظ قرآن کی بیان کردہ حقیقت سے ٹکراتا ہے۔ محولہ بالاآیت، اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ قومِ نوح کی غرقابی تکذیب ِحق کا نتیجہ تھی۔﴿وَأَغرَ‌قنَا الَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايـٰتِنا کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ عذابِ خداوندی کا نشانہ وہی لوگ بنے تھے جنہوں نے حق کی نشانیوں کو جھٹلا دیا تھا۔ اب رہے وہ لوگ جو قبولِ حق کرچکے تھے، تو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے بچا لیا : ﴿فَأَنجَينـٰهُ وَالَّذينَ مَعَهُ فِى الفُلكِ۔ یہاں چوہدری غلام احمد پرویز کو اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہوگیا ہے اور بے چارہ قاری حیران وپریشان کھڑ ا سوچ رہا ہے کہ وہ کس کی بات مانے؟ مُنَزِّلِ قرآن کی؟ یا مفکر ِقرآن کی؟

مثالِ خامس

قرآنِ کریم میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے تذکارِ جلیلہ میں یہ آیت بھی وارد ہوئی ہے :

﴿ وَوَرِ‌ثَ سُلَيمـٰنُ داوۥدَ ۖ وَقالَ يـٰأَيُّهَا النّاسُ عُلِّمنا مَنطِقَ الطَّيرِ‌...١٦ ﴾... سورة النمل

''حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث بنے اور کہا : ''اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔''

یہ ترجمہ بھی پرویز صاحب ہی کا دیا گیا ہے ، جو معارف القرآن جلد سوم ص۴۰۵ پر درج ہے۔ اس میں ﴿عُلِّمنا مَنطِقَ الطَّيرِ‌ کی تعبیر یہ کی گئی ہے کہ ''ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔''

انہی الفاظ کا ترجمہ، برقِ طور ص۲۵۳ پر بایں الفاظ کیا گیا ہے ... ''لوگو! ہمیں مَنطِقَ الطَّيرِ‌سکھایا گیا ہے۔'' آگے چل کر مَنْطِقَ الطَّیْرکی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ''مَنطِقَ الطَّيرِ‌ کے معنی 'پرندوں کی بولی' نہیں، جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں( یعنی 'برقِ طور' ہی میں... قاسمی) طَیر سے مراد گھوڑوں کا لشکر ہے (جو حضرت دائود ؑ اور سلیمان ؑ کے زمانہ میں بیشتر قبیلہ طیر کے افراد پر مشتمل تھا) اور مَنطق کے معنی اس قبیلہ کے قواعد و ضوابط ہیں۔ لہٰذا اس سے مطلب ہے: ''گھوڑوں کے رسالہ کے متعلق علم'' یہ اس زمانہ میں بہت بڑی چیز تھی۔'' (برقِ طور : ص۲۵۳ تا ۲۵۴)

معارف القرآن کی محولہ بالا عبارت میں مَنْطِقَ الطَّيْر کا معنی 'پرندوں کی بولی'ہے اور برق میں ٹھیک اسی معنی کی نفی کی گئی ہے اور جوجدید معنی پیش کیا گیا ہے، اس کا لغوی طور پر قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ا س سے اندازہ لگا لیجئے کہ طلوعِ اسلام کی ٹکسال میں مختلف اور متضاد معانی کے سکے وقتاً فوقتاً کس طرح ڈھالے گئے...!!

مثالِ سادس

سورۃ الاعراف کے آخری رکوع میں 'آدابِ تبلیغ' کے ضمن میں یہ الفاظ آئے ہیں :

﴿خُذِ العَفوَ وَأمُر‌ بِالعُر‌فِ وَأَعرِ‌ض عَنِ الجـٰهِلينَ ١٩٩ ﴾... سورة الاعراف"(اے نبیؐ!) درگزر کرتا رہ، معروف کی تلقین کئے جا اور جاہلوں سے نہ اُلجھ۔'' خُذِ العَفْوَ کا مفہوم کیاہے؟ ملاحظہ فرمائیے:

'' بہرحال، تم ان کی ان باتوں کی وجہ سے اپنے پروگرام میں رُکو نہیں) تم ان سے درگزر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جائو۔'' (مفہوم القرآن: ص ۳۹۰)

ا س کے بعد تفسیر مطالب الفرقان میں خُذِ العَفْوَ پر بحث کرتے ہوئے اس کی تعبیر کو یکسر بدل دیا اور اس بات کا قطعاً خیال نہ کیا کہ یہ مکی دور کی وحی ہے، جس میں اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی ہی نہ تھی اور اہل ایمان جو پہلے ہی زیادہ تر مفلس اور خستہ حال لوگوں پر مشتمل تھے، معاشی طور پر کفار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے، ایسے حالات میں یہ نئی تعبیر قطعاً موزوں نہیں بیٹھتی۔ لیکن 'مفکر قرآن' کو اس سے کیا، انہیں تو اپنے پندار علم کا مظاہرہ کرنا ہے، تاکہ یہ نت نئی تعبیرات،اندھے معتقدین کے قلوب واذہان پر ان کی 'تبحر علمی' کی دھاک بٹھا دیں۔ لکھتے ہیں:

''العفوکا لفظ آیت (۲۱۹؍۲) میں آیاہے جہاں بالبداہت 'زائد از ضرورت'معنی ہی موزوں ہیں۔ چنانچہ میں نے مفہوم القرآن میں یہی معانی لکھے اور مطالب الفرقان جلد سوم ص۳۲۶ پر بھی، اس کے مطابق وضاحت کی۔ ا س کے بعد یہ لفظ زیر نظر آیت (۱۹۹؍۷) میں آیا تو مجھے اپنی بصیرت کی رو سے، اس کا دوسرا مفہوم یعنی 'درگزر کرنا' موزوں دکھائی دیا۔ چنانچہ میں نے یہی ترجمہ مفہوم القرآن میں دے دیا (اس کا عام طور پر یہی ترجمہ کیا جاتا ہے)۔ اس کے بعد ایک بحث کے دوران میںنے محسوس کیا کہ یہ مفہوم مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔ بالخصوص لفظ خُذْ کے پیش نظر جس کے معنی 'وصول کرنے یا لینے' کے ہیں، اس سلسلہ میں سورئہ توبہ کی آیت ﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً اس کی مؤید تھی۔ اس غوروفکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آیت (۱۹۹؍۷) میں بھی العفو کا وہی مفہو م زیادہ موزوں ہے، جو آیت (۲۱۹؍۲) میں دیا گیا ہے یعنی 'زائد از ضرورت مال'۔ اس آیت میں اسلامی نظام (یا اس کے سربراہ حضور نبی اکرمﷺ) سے کہا گیا ہے کہ جماعت مؤمنین کا زائد از ضرورت مال اپنی تحویل میں لے لیا کرو تاکہ اس طرح اجتماعی طور پر قرآن کا معاشی نظام قائم رہے۔ مفہوم القرآن (آیت ۱۹۹؍۷) کے مفہوم میں ترمیم، اس کے نئے ایڈیشن میں کردی جائے گی ۔ البتہ اس دوران میں ، تبویب القرآن میں 'عفو' کے عنوان کے تابع یہ مفہوم دے دیا گیا ہے۔'' (تفسیرمطالب الفرقان: ج۶، ص۵۵)

عفو کا معنی 'زائد از ضرورت مال' صرف وہاں لینے کی گنجائش ہوتی ہے، جہاں اس کا مالی خرچ یا مال سے متعلق ہونے کا کوئی قرینہ موجو دہو، جیساکہ آیت (۲۱۹؍۲) میں لفظ يُنفقونمیں یہ قرینہ موجود ہے۔ لیکن آیت زیر بحث میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے لیکن مفکر ِقرآن کو ان اُمور سے کیا سروکار؟

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام     کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے!


مثالِ سابع

قرآن کی درجہ ذیل آیت مع ترجمہ از پرویز صاحب ملاحظہ فرمائیے:

﴿فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانحَر‌ ٢ ﴾... سورة الكوثر ''لہٰذا اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کرو اور قربانی کرو۔'' (معارف القرآن:۴؍۳۶۹)

لیکن جب پرویز صاحب کا ذہن قربانی سے متعلق معکوس ہوگیا تو اب وَانْحَرْکا مفہوم بھی کچھ اور ہی ہوگیا :

''اب تیرے لئے ضروری ہے کہ تو اس کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے، اس کے لئے تو اپنے پروگرام کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف رہ۔ خدا کے نظامِ ربوبیت کے قیام کے لئے اپنے فرائض منصبی کو پوری طرح ادا کر، ان پر علم و عقل اور تجربہ و مشاہدہ سے پوری طرح حاوی ہو، اور اس کے ساتھ ہی اپنی جماعت کے لوگوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کر۔'' (مفہوم القرآن، ص۱۴۸۸)

یاد رہے کہ خط کشیدہ الفاظ وَانْحــَرْ کے مفہوم کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ اسی صفحہ پر نیچے حاشیہ میں یہ عبارت بھی موجود ہے : ' نَــهــر اونٹ ذبح کرنے کو کہتے ہیں۔''

اب اس 'مفکر قرآن' کو کون سمجھائے کہ یہ لفظ نھر نہیں بلکہ نَحْر ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وقت کی آندھیوں نے 'مفکر قرآن' کا بوجھ کس جاہل کے سر پر لا پھینکا ہے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے﴿ مَثَلُ الَّذينَ حُمِّلُوا التَّور‌ىٰةَ ثُمَّ لَم يَحمِلوها كَمَثَلِ الحِمارِ‌ يَحمِلُ أَسفارً‌ا...٥ ﴾... سورة الجمعة

مثالِ ثامن

آیت ِقصاص بھی، ان آیات میں سے ایک ہے جن کی 'تعبیر' پرویز صاحب کے انقلابِ ذہن کے ساتھ ہی منقلب ہوگئی۔ اس آیت کی ایک تعبیر وہ ہے جو معارف القرآن جلد اوّل، ص ۱۴۰ پر موجود ہے۔ جس کے نتیجہ کے طور پر قصاص کا معنی 'قتل کا بدلہ قتل' نیز قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی اولیائِ مقتول کے ہاں برقرا ر رہتاہے۔ پرویز صاحب نے زیر عنوان 'شریعت میں خدا کی طرف سے آسانیاں' لکھاہے :

''پھر شریعت میں ایسی آسانیاں مل جانا جن سے قوانین ممکن العمل ہوجائیں، رحمت ِخداوندی ہے مثلاً قانونِ قصاص کی رو سے قتل کا بدلہ قتل ہے، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ ﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعر‌وفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسـٰنٍ ۗ ذ‌ٰلِكَ تَخفيفٌ مِن رَ‌بِّكُم وَرَ‌حمَةٌ...١٧٨ ﴾... سورة البقرة ''اگر (قاتل کو) اس کے بھائی (مدعی) کی طرف سے معافی مل جائے تو (اس کے لئے) معقول طریقہ پر خون بہا کا مطالبہ ہے اور (قاتل کے لئے) خوبی کے ساتھ اس کا ادا کرنا۔ یہ (قانون دیت وعفو) تمہارے پروردگار کی طرف سے سختیوں کا کم کردینا اور ترحم (خسروانہ) ہے...'' (معارف القرآن، جلد اوّل، ص۱۴۰)

لیکن جب تہذیب ِمغرب کی فکری یلغار نے ذہن ِپرویز کو مسخر کیا اور وہ مغرب کے تمدنی قوانین سے مرعوب ہوئے تو (1) قصاص کے معنی بھی بدل گئے اور (2) قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی، اولیائِ مقتول سے سلب ہوگیا، کیونکہ مغربی حکومتوں میں سے کسی میں بھی قتل عمد میں دیت و عفو کی رعایت نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآنی قانون میں وہ 'سقم' باقی رہ جاتا، جو دانشورانِ مغرب کی نگاہ میں اسلام کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ 'قرآنی حمیت' ، 'مفکر ِقرآن' پر غالب آئی تو انہوں نے پنی جدید تعبیر کی رو سے قرآنی قوانین سے اس 'عیب' کو دور کر ڈالا جو خود خدا کے اپنے الفاظ سے پیدا ہوگیا تھا (معاذ اللہ) ملاحظہ فرمائیے تعبیر جدید کو ...

''قصاص: اس کے معنی 'جرم کی سزا' دینا نہیں، اس کے معنی ہیں 'مجرم کا اس طرح پیچھا کرنا کہ وہ بلا گرفت نہ رہ جائے' یعنی قرآنی نظام میں کسی جرم کو Untraced نہیں رہنا چاہئے، وہ اس قسم کے محکم نظام تفتیش میں حیاتِ اجتماعیہ کا راز بتاتا ہے۔'' (اگست۶۵ئ:ص ۱۲)

﴿ وَلَكُم فِى القِصاصِ حَيو‌ٰةٌ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ...١٧٩ ﴾... سورة البقرة

اس کے بعد آیت ِ قصاص (البقرۃ:۱۷۸) کی تشریح کو الفاظ ِآیت تک محدود رکھنے کی بجائے، آیت ِقتل خطا کے ساتھ خلط ِمبحث کیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ کشید کیا جاتا ہے کہ قتل عمد میں عفو و دیت ہے ہی نہیں، اس میں اگر ایسا ذکر ہوا ہے تو وہ قتل خطا کے ساتھ متعلق ہے :

''جرمِ قتل: قرآن نے قتل عمد (بالارادہ) اور قتل خطا (سہواً) میں فرق کیا ہے۔ قتل خطا کی سزا (یا یوں کہئے کہ کفارہ یا جرمانہ) ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنا ہے۔ وہ اس خون بہا کو معاف کرسکتے ہیں۔(۴؍۹۲،۹۳) واضح رہے کہ 'غلام آزاد کرنا' اس زمانے کی بات ہے جب عربوں کے ہاں غلام چلے آرہے تھے، اسلام نے غلامی کا دروازہ بند کردیاہے ۔ لہٰذا یہ نظام معاشرہ تجویز کرے گا کہ اس کی جگہ کیا کفارہ ادا کیا جائے گا۔

قتل عمد کے لئے دیت (خون بہا) نہیں، اس کی سزا بڑی سخت ہے۔ ا س کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کی سزا جہنم ہے اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور بہت بڑی سزا (۹۳؍۴)۔ میںاس وقت ان مختلف سزائوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ واضح رہے کہ قتل عمد کی بھی مختلف نوعیتیں ہیں۔ایک قتل سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہوتا ہے اور ایک وقتی جوش میں آکر وقتی طور پر (وغیرہ وغیرہ) اس اعتبار سے جرم کی سزا میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ قرآن کے مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عدل کے تقاضے کی رو سے جرمِ قتل عمد کے لئے موت کی سزا بھی تجویز کرتا ہے۔ (مثلاً ۱۷۸؍۲، ۳۵؍۵، ۳۳؍۱۷) ''قتل نفس بالحق'' سے مراد قانونِ خداوندی کے مطابق کسی کی جان لینا۔'' (ماہنامہ طلوعِ اسلام: اگست۶۵ئ، ص۱۴)

سیدھی سی بات ہے کہ قرآن نے قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) کے علاوہ، دیت اور عفو کی رعایات بھی رکھی ہیں اور قتل خطا میں قصاص ہے ہی نہیں۔ اس میں کیا اُلجھن ہے؟ ؎

تری ہر اَدا میں بل ہے، تری ہر نگاہ میں       اُلجھن مری آرزو میں لیکن ، کوئی پیچ ہے نہ خم ہے!


لیکن پرویز صاحب نے قتل خطا اور قتل عمد کی آیات میں خلط ِمبحث سے جو نتیجہ برآمد کیاہے، اس میں قتل عمد میں صرف قصاص کی سزا باقی رہ جاتی ہے، تخفیفات ختم ہوجاتی ہیں اور قصاص کامفہوم بھی 'قتل کا بدلہ قتل' نہیں رہتا بلکہ صرف 'مجرم کا پیچھا کرنا' رہ جاتا ہے۔ اگر مجرم کراچی پہنچ کر سمندر پار کر جائے اور اس کی گرفتاری کیلئے اگر آپ نے کراچی تک 'اس کا پیچھا کر ڈالا' تو قصاص کا تقاضا پورا ہوگیا۔ اللہ اللہ خیر صلا!

اُمت ِمسلمہ پر 'مفکر ِقرآن' کا کس قدر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قتل عمد میں دیت اور عفو کے جو 'اِغلال واَصر' مسلمانوں پر ڈال رکھے تھے، انہوں نے اُتار پھینکے ہیں اور قرآنی قانون کو 'دور حاضر کے تقاضوں' سے ہم آہنگ کردیا۔

مثالِ تاسع

قرآن میں قانونِ غنیمت سے متعلقہ آیت، پرویز صاحب کے ترجمہ ہی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے :

﴿وَاعلَموا أَنَّما غَنِمتُم مِن شَىءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّ‌سولِ وَلِذِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَابنِ السَّبيلِ إِن كُنتُم ءامَنتُم بِاللَّهِ وَما أَنزَلنا عَلىٰ عَبدِنا يَومَ الفُر‌قانِ يَومَ التَقَى الجَمعانِ ۗ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ‌ ٤١﴾... سورة الانفال

''اور جان رکھو کہ جو تمہیں مالِ غنیمت میں ملے، اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول ؐ کے لئے، (رسول کے) قرابت داروں کے لئے، یتیموں کے لئے، مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے نکالنا چاہئے (اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے جاسکتے ہیں)، اگر تم اللہ اور اس (غیبی امداد) پر یقین رکھتے ہو، جو ہم نے فیصلہ کردینے والے دن، اپنے بندے پر نازل کی تھی، جبکہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے (تو چاہئے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو، اور یاد رکھو) اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔'' (معارف القرآن، جلد چہارم، ص۶۲۴)

''غنیمت اور فے ، دو اصطلاحات ہیں: مالِ غنیمت وہ جو مخالفین سے جنگ کے بعد حاصل ہو، اور مالِ فے ، وہ جسے مخالفین جنگ کئے بغیر چھوڑ جائیں۔ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ، بیت المال میں جمع ہوگا اور باقی چار حصے سپاہیوں کو تقسیم ہوں گے، مال فے پورے کا پورا بیت المال میں جمع ہوگا۔'' (معارف القرآن: جلد چہارم، حاشیہ ص ۶۲۴)

مالِ غنیمت کے متعلق یہی وہ اُصولی تعلیم ہے جو دورِ نزولِ قرآن سے لے کر آج تک علمائِ امت، فقہائِ ملت ،مفسرین و محدثین، اصحابِ سیر اور مؤرخین تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا پرویز صاحب کی زبان میں یہ 'عجمی اسلام' ہے جو ہزار برس سے چلا آرہا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ پرویز صاحب 'خالص عربی نژاد' ہو کر اس 'عجمی اسلام' پر برقرار رہتے۔ چنانچہ انہوں نے بعد میں جس 'عربی قانونِ غنیمت' کو قرآن کی اسی آیت میں سے نچوڑا ، اس کے مطابق اب'خمس' میںمسافروں، مسکینوں، یتیموں اور ذوی القربیٰ کا حصہ ختم ہوگیا اور خمس صرف 'خدا اور رسول' کیلئے مخصوص ہوگیا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اللہ اور رسولؐ کے الفاظ اگر قرآن میں اکٹھے آجائیں تو اس سے پرویزیوں کے نزدیک مراد 'مرکز ِملت' ہوتا ہے۔

توجہ فرمائیے؛ اگر مجرد 'اللہ' کا لفظ بولا جائے تو اس سے خالق کائنات ہی کی ذات مراد ہوگی او ر اگر صرف 'رسول'کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد وہ مامور من اللہ شخصیت ہوگی جو اہل ایمان کے لئے اُسوہ ٔ حسنہ ہے۔ لیکن جب 'اللہ اور رسول' کے الفاظ (معطوف اور معطوف علیہ کی صورت میں) اکٹھے بولے جائیں تو اب 'اللہ' ہی اپنی اُلوہیت سے اور 'رسول' اپنے منصب ِرسالت سے معزول ہوگیا۔ پھر جب اس طرح اللہ کی اُلوہیت اور نبی کی حیثیت ِنبوت (معاذ اللہ) ختم ہوگئی تو اس عدم سے 'مرکز ِملت' وجود میں آگیا۔ گویا یہ اُلوہیت اور نبوت کے مسائل نہ ہوئے بلکہ سائنس کی لیبارٹری کے مسائل ہوئے کہ آکسیجن او رہائیڈروجن کو جب ایک خاص ترکیب سے جمع کیا جاتا ہے تو جہاں آکسیجن کی تحریقی خاصیت ختم ہوجاتی ہے، وہاں ہائیڈروجن سے اس کی احتراق پذیری کی صفت منفک ہوجاتی ہے اور 'پانی' نام کی اسی طرح ایک نئی چیز معرضِ وجود میں آجاتی ہے؛ جس طرح ادارہ طلوعِ اسلام کی قرآنی لیبارٹری میں 'اللہ اور رسول ' کے مجموعے سے 'مرکز ِملت' معرض وجود میں آجاتا ہے ؎

یزداں کے تصور میں تراشا تھا جو پتھر     اس میں سے بھی ابلیس کا پیکر نکل آیا


بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو یونہی نوکِ قلم پر آگیا۔

پرویز صاحب کی تعبیر جدید کا دوسرا جزو یہ ہے کہ مالِ غنیمت میں سے ایک خمس کو 'مرکز ِملت' کے لئے الگ کر لینے کے بعد بقیہ چار اخماس، لڑنے والے مجاہدین کو نہیں، بلکہ ان کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں میں تقسیم کئے جائیں گے۔ اب 'عجمی اسلام' کی وہ تعبیر ختم ہوگئی جس کے تحت مالِ غنیمت کا ۴؍۵ حصہ مجاہدین میں تقسیم ہوا کرتا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے، کہ آیت ِغنیمت کے پہاڑ میں سے کس طرح مفکر قرآن نے 'تعبیر جدید' کا چوہا کھود نکالا۔ آیت کے تقریباً ۴۵؍ الفاظ ہیں اور اس کا تشریحی مفہوم تقریباً ۳۱۰ الفاظ پر مشتمل پیرا گراف میں بیان کیا گیاہے اور آیت بھی اسی قرآن مجید میں ہے جس کے متعلق یہ مسلسل ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ قرآن واضح ہے ، مبین ہے، نور ہے؛ جو اپنے مفہوم کی وضاحت کیلئے کسی کا محتاج نہیں۔ لیکن دسیوں الفاظِ قرآن کی تشریح، سینکڑوں الفاظ میں کی گئی ہے، ملاحظہ فرمائیے :

''جنگ کے سلسلہ میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھو کہ اس سے پہلے تمہارا دستور یہ تھا کہ جنگ میں جو کسی کے ہاتھ آجائے، وہ اسی کا ہوا۔ یہی لوٹ کا مال وہ بنیادی جذبہ تھا جس کے لئے تم میدانِ جنگ میں جایا کرتے تھے۔ لیکن اب جنگ ظلم کو روکنے یا نظامِ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ہوگی، ا س لئے اس میں جذبہ محرکہ لوٹ کا مال حاصل کرنا نہیں ہوگا۔ یاد رکھو، میدانِ جنگ میں جو مالِ غنیمت بھی ملے گا، اس میں سے پانچواں حصہ 'خدا و ررسول' یعنی مملکت کی انتظامی ضروریات کے لئے رکھ کر، باقی ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے میں صرف کیا جائے گا۔ مثلاً (میدانِ جنگ میں جانے اور کام آجانے والوں کے) اقربا کے لئے، یتیموں اور معاشرہ میں بے یارومددگار، تنہا رہ جانے والوں کے لئے، ان کے لئے جن کا چلتا ہوا کاروبار رُک گیا ہو یا جو کسی حادثے کی وجہ سے کام کاج کے قابل نہ رہے ہوں۔ نیز ان مسافروں کے لئے جو مدد کے محتاج ہوں۔

ہم جانتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ آنے والے مال سے یوں دست کش ہوجانا، کچھ آسان کام نہیں، لیکن اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور ان احکام پر جو ہم نے اپنے بندے پر، اس دن نازل کئے تھے جب دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل آئے تھے او رجب حق و باطل نکھر کر سامنے آگیا تھا (تو تمہارے لئے ایسا کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ مستقل اقدار پر ایمان، اس قسم کی تمام جاذبیتوں کو ٹھکرا سکتاہے)۔ اسے اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ نے ہر شے کے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں اور ان پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے (اس لئے اس کے قانون پر عمل پیرا ہونے سے تمہیں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا۔'' (مفہوم القرآن: ص۴۰۴ تا ۴۰۵)

الفاظ کے اس ہجوم پر بار بار نگاہ ڈالئے، شاید آپکے مقدر سیدھے ہوئے تو بات آپکے پلے پڑ جائے۔

مثالِ عاشر

اب آخر میں ،میں ایک ایسی مثال پیش کر رہا ہوں جس کے ضمن میں ایسی بہت سی آیات آپ کے سامنے آئیں گی جن کی تعبیر کو 'نظریۂ ضرورت' کے تحت بدلنا پڑا ہے اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پورا قرآن 'مفکر قرآن' کے مصلحتی محور کے گرد ہی گردش کرتا رہا۔

پرویز صاحب کے سابقہ معاشی تصورات: ایک زمانہ تھا، جب پرویز صاحب ابھی کارل مارکس کی ترتیب دی ہوئی معاشی فکر، سوشلزم یا کمیونزم کے اسیر ِزلف نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر قرآن پر غور بھی کرتے تھے تو ان کی آنکھوں پر بہرحال اشتراکیت کی عینک نہیں تھی۔ اس لئے وہ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان 'ذہنی تحفظات'کا خیال نہیں کیا کرتے تھے جو بعد میںاشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہونے کے بعد، اب ان کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگئے تھے اور جن کا لحاظ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔ نظامِ ربوبیت کا نقشہ، ذہن پرویز کی کارگاہ میں، بہت بعد میں تراشا گیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل پرویز صاحب کو اگر ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھاجائے تو وہ واضح طور پر مال و دولت اور زمین کی شخصی ملکیت کے قائل تھے۔ پھر ہر شخص کے معاشی حالات کے تنوع اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں میں تفاوت کی بنا پر وہ تفاضل فی الرزق کے بھی قائل تھے۔ بالاوپست معاشی طبقات میں وہ اہل ثروت پر اسلام کی طرف سے عائد ہونے والی ڈھائی فیصد زکوۃ کے بھی معترف بلکہ مُعلن تھے۔ صدقہ و خیرات اور قانونِ میراث کے متعلق بھی وہ اس با ت کے مقر تھے کہ یہ دائمی اور مستقل احکام ہیں نہ کہ عبوری دور کے احکام ہیں جو وقتی یا ہنگامی صورتحال میں دیئے گئے ہوں۔ قُلِ الْعَفْوَ کے دو الفاظ کی بنیاد پر آج اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگا کر جس 'نظام ربوبیت' کا کریملین تعمیر کیا گیا ہے، ان دنوں ان الفاظ کا مفہوم، آج کے مفہوم سے قطعی مختلف تھا، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :

اشتراکیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کبھی پرویز صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ

''اشتراکیت، ذاتی اور انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن اسلام ہر شخص کی کمائی کو اس کی ذاتی ملکیت قرار دیتا ہے۔ زمانۂ ظہورِ اسلام میں جائیداد و املاک عموماً مویشیوں کی شکل میں تھیں، ان کے متعلق فرمایا: ﴿أَوَلَم يَرَ‌وا أَنّا خَلَقنا لَهُم مِمّا عَمِلَت أَيدينا أَنعـٰمًا فَهُم لَها مـٰلِكونَ ٧١ ﴾... سورة يس ''کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے لئے دست ِقدرت سے مویشی پید ا کئے ہیں جن کے یہ لوگ مالک ہیں'' ... جب خدا کی بنائی ہوئی چیزیں، انسان کی ملکیت ہوسکتی ہیں تو انسان کی اپنی کمائی اور مصنوعات تو یقینا اس کی ملکیت ہوں گی، ارشاد ہے:﴿لِلرِّ‌جالِ نَصيبٌ مِمَّا اكتَسَبوا ۖ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمَّا اكتَسَبنَ...٣٢ ﴾... سورة النساء ''جو مرد کمائیں، وہ مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتیں کمائیں، وہ عورتوں کا حصہ ہے۔''

اشتراکیت کے اُصولِ نفی ملکیت سے اسلام کا معاشی، تمدنی اور عمرانی ہر قسم کا نظام منہدم ہوجاتاہے۔ قرآن میں ہے﴿وَءاتِ ذَا القُر‌بىٰ حَقَّهُ وَالمِسكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَلا تُبَذِّر‌ تَبذيرً‌ا ٢٦ ﴾... سورة الإسراء ''قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی، مال کو بے موقع نہ اڑانا۔''

ظاہر ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی، اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو اگر ہر چیز غیر کی ملکیت میں ہو اور کمانے والے کو صرف اس کی ضرورت کے مطابق حصہ ملے تو وہ دوسروں کے حقوق کیسے ادا کرسکتا ہے۔

یہی حال، ترکہ اور وراثت کے احکام کا ہے جس پر ذاتی ملکیت کی [غیر] موجودگی میں عمل ہو ہی نہیں سکتا، حکم ہے:﴿ وَلِكُلٍّ جَعَلنا مَو‌ٰلِىَ مِمّا تَرَ‌كَ الو‌ٰلِدانِ وَالأَقرَ‌بونَ ۚ وَالَّذينَ عَقَدَت أَيمـٰنُكُم فَـٔاتوهُم نَصيبَهُم...٣٣ '' ہر ایسے مال کے لئے جسے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں ہم نے وارث مقرر کردیئے ہیں او رجن لوگوں سے تمہارے عہد بندھے ہوئے ہیں، ان کو ان کا حصہ دو۔'' (ماہنامہ طلوع اسلام: جولائی ۳۹ئ، ص ۵۹تاـ۵۷ )

﴿أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم...٢٦٧ ﴾... سورة البقرة ''اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز کو خرچ کرو'' میں مَا کَسَبْتُمْ سے مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ تم کھاتے ہو، وہ تمہاری ملکیت ہے۔'' (جولائی ۳۹،ص ۶۰)

سورئہ توبہ میں ہے:﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةًاس آیت میں صدقہ سے کیا مرا دہے ؟ علما کے نزدیک مراد 'زکوٰۃ' ہے۔ آج 'مفکر ِقرآن' جناب پرویز صاحب، اس کی تردید کرتے ہیں، مگر ایک زمانہ تھاکہ وہ خود بھی اس سے زکوٰۃ ہی مراد لیا کرتے تھے :

''اشتراکیت کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی کا سرمایہ جائیداد، کمائی، وِرثہ سب کچھ حکومت لے لے، تو یہ انفاق کی وہ حد ہے جس سے بڑھ کر قربانی اور ایثار کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی،لیکن اسلامی انفاق، جو (تقویٰ پر مبنی ہے) اور اس قسم کے جبر میں بڑا فرق ہے، اسلام نے بھی ایک ٹیکس (زکوٰۃ) مقرر کیا ہے جو بہرحال وصول کیا جاتاہے: ﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم...١٠٣ ﴾... سورة التوبة ''ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے کہ اس سے یہ ظاہر و باطن میں پاک ہوجائیں گے اور پھر ان کے لئے دعا کیجئے۔'' (جولائی۳۹ئ:ص ۶۱)

اس زمانہ میں قُلِ الْعَفْوَ کے معنی وہ نہیں تھے جو آج بیان کئے جاتے ہیں۔ آج تو اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتاہے کہ ''زائد از ضرورت' سب مال کا انفاق کر ڈالو'' لیکن اُس زمانہ، سارا مال خرچ کرنا کیا معنی، انفاق کا سرے سے یہ معنی ہی نہ تھا جو آج کیا جاتا ہے، یعنی 'کھلا رکھنا'۔ دنیا میں ایسی ڈکشنری، اس وقت شائع ہی نہ ہوئی تھی، جو انفاق بمعنی 'کھلا رکھنا' واضح کرے :

''لیکن ساتھ ہی، اس نے خیرات کا حکم بھی دیا ہے جس میں جبر و اکراہ کو دخل نہیں: ﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ...٢١٩ ﴾... سورة البقرة ''آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔'' (جولائی۳۹ئ:ص ۶۱)

جمع شدہ یا بچی ہوئی رقم پر، ڈھائی فیصد زکوٰۃ جس کا آج پرویز صاحب مذاق اُڑاتے ہیں، کسی زمانے میں وہ خود نہ صرف یہ کہ اس کے معترف تھے، بلکہ جزیہ پر اعتراض کرنے والے غیر مسلموں کو وہ زکوٰۃ ہی کے حوالے سے جواب دیا کرتے تھے :

''سب سے بڑا الزام جزیہ کے متعلق عائد کیا جاتا ہے اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ غیر مسلم رعایا سے یہ 'جرمانہ' ان کے مسلمان نہ ہونے کے جرم کی بنا پر وصول کیا جاتا تھا حالانکہ اس کی حقیقت بالکل جداگانہ ہے۔ مسلمانوں کو اپنی آمدنی (آمدنی نہیں بلکہ بچت...قاسمی) کا چالیسیواں حصہ حکومت کوادا کرنا پڑتا تھا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی فوجی خدمت بھی ان کے ذمہ تھی۔ غیر مسلم رعایا جو ان کے زیر حکومت رہتی تھی، ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان حکومت پر لازم تھی، وہ فوجی خدمت سے مستثنیٰ تھے۔ اگر ان سے اس حفاظت کے اخراجات کی مد میں کچھ وصول کر لیا جائے جو مسلمانوں کی زکوٰۃ سے بھی کم تھا تو اس میں اندھیر کیا ہے؟ عورتیں، بچے، بوڑھے، اپاہج اور مذہبی رہنما اس سے مستثنیٰ تھے۔

اور پھر اس جزیہ کی مقدار کتنی تھی؟ معمولی حیثیت والے سے ۱۲ عہ سالانہ، متوسط درجے والے سے ۸عہ اور اس سے آگے خواہ کوئی کروڑ پتی ہو، زیادہ سے زیادہ ۱۲؍ روپے سالانہ ، حالانکہ ایک کروڑ پتی مسلمان سے کم از کم اڑھائی لاکھ روپے سالانہ بطورِ زکوۃ وصول کیا جائے گا۔ صدقات و خیرات اس کے علاوہ ہوں گے اور اس مالی قربانی کے ساتھ ساتھ جب ضرورت لاحق ہوگی تو یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں بھی شریک ہوگا اور ذِمی رعایا کے مال، جان، مذہب، معابد کی حفاظت کرے گا یعنی ایک ذِمی رئیس، بارہ روپیہ ادا کرکے نہایت اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا اور اسی حیثیت کا ایک مسلمان اڑھائی لاکھ روپیہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اسی ذِمی کے محافظ کی حیثیت سے میدانِ کارزار میں دشمن کی شمشیر و سناں کا مقابلہ بھی کرے گا۔ دشمن کی گولیاں ہوں گی او رمسلمانوں کا سینہ جو غیرمسلم رعایا کی حفاظت کے لئے سپر کا کام دے گا۔

مسلمانوں سے پیشتر ساسانیوں نے عیسائی رعایا پر جو ٹیکس لگا رکھا تھا، وہ ساسانی رعایا سے دگنا تھا اور اس کے جواز میں شاہ ساپردوم نے کہا تھا کہ لڑائی ہمیں لڑنی پڑتی ہے اور یہ مزے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ دُگنا کیوں نہ دیں۔'' (جون۳۹ئ:ص ۴۸)

ذاتی ملکیت کا اُصول، جب افرادِ معاشرہ کی متفاوت اکتسابی صلاحیتوں کے ساتھ مقرون ہوتا ہے تو تفاضل فی الرزق ایک لازمی نتیجہ کے طور پر واقع ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی، کسی زمانہ میں پرویز صاحب کو مسلم تھی، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :

''قرآن کی رو سے ایک دوسرے پر رِزق میں فضیلت جائز ہے:﴿وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعضَكُم عَلىٰ بَعضٍ فِى الرِّ‌زقِ...٧١ ﴾... سورة النحل''اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ رزق فضیلت دی ہے'' اور وہ غلام اورآزاد میں یہی فرق بتاتا ہے کہ آزاد اپنی محنت کے ماحصل کا مالک ہوتاہے، غلام کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا :﴿ضَرَ‌بَ اللَّهُ مَثَلًا عَبدًا مَملوكًا لا يَقدِرُ‌ عَلىٰ شَىءٍ وَمَن رَ‌زَقنـٰهُ مِنّا رِ‌زقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنهُ سِرًّ‌ا وَجَهرً‌ا...٧٥ ﴾... سورة النحل '' اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے، ایک غلام ہے، دوسرے کی ملک؛ وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا، اور ایک دوسرا آدمی ہے جسے ہم نے اپنے فضل سے نہایت عمدہ روزی دے رکھی ہے۔ وہ ظاہر پوشیدہ جس طرح چاہتا ہے، اسے خرچ کرتاہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟'' ... رِزق میں مختلف مدارج اسلئے ضروری ہیںکہ دنیا کا کاروبار چل ہی اس انداز سے سکتا ہے، تقسیم عمل کے لئے اختلافِ مدارج لاینفک ہے:﴿نَحنُ قَسَمنا بَينَهُم مَعيشَتَهُم فِى الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا ۚ وَرَ‌فَعنا بَعضَهُم فَوقَ بَعضٍ دَرَ‌جـٰتٍ لِيَتَّخِذَ بَعضُهُم بَعضًا سُخرِ‌يًّا...٣٢ ﴾... سورة الزخرف''دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم ہی تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔'' (معارف القرآن، جلد اول ،ص۱۲۱)

قرآنی تعلیمات کی اساس پر صحابہ کا جو اوّلین معاشرہ وجود میں آیا، خود اس معاشرے میں بھی افراد کے درمیان معاشی تفاوت موجود تھا، اس پر پرویز صاحب کی بہت سی تحریریں گواہ ہیں :

''مالی تفوق کے اعتبار سے خود دورِ صحابہ میں بھی مختلف طبقات موجود تھے۔ حضرت زبیر بن العوامؓ کے کاروبار میں ایک ہزار مزدور روزانہ کام کرتے تھے۔ حضرت طلحہؓ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینار تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی تجارتی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کا قافلہ مدینہ میں آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف اشیائِ خوردنی لد رہی تھیں، لیکن مسلمانوں میں ان ہستیوں کا نام اگر آج تک صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ ان کی دولت وثروت نہیں، بلکہ ان کا وہ ایمان، تقویٰ، اعمالِ صالحہ، ایثار و قربانی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے انہوں نے بطورِ نمونہ کے یادگار چھوڑا ہے۔ انہی متمول صحابہ کے ساتھ ساتھ اصحابِ صفہ جیسے مفلوک الحال حضرات کا نام بھی آج تک مسلمانوں کیلئے باعث ِافزائش ِایمان و عمل ہے۔ ''(جولائی ۳۹ئ:ص ۶۹)

غزوئہ تبوک کے موقع پر صحابہ کے جیش العُسرۃ کی تیاری میں، ان کے معاشی تفاوت و تفاضل کی کیفیت بالکل اُجاگر ہوجاتی ہے :

''یہ معرکہ، اخلاص و منافقت کی امتحان گاہ تھا چنانچہ ایک طرف صحابہ کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ کسی کے پاس تھا، لے کر حاضر ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓ نے نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے چالیس ہزار درہم دیئے۔ حضرت عمرؓ کئی ہزار روپے کا نقد و جنس لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓاپنے گھر میں اللہ اور رسولؐ کی محبت کے سوا کچھ بھی چھوڑ کر نہ آئے۔ حضرت ابوعقیل انصاریؓ نے دوسیر چھوہارے لاکر حاضر کردیئے اور عرض کیا کہ رات بھر کسی کے کھیت پر مزدوری کرکے چار سیر چھوہارے حاصل کئے تھے، دوسیر بال بچوں کو دے آیا ہوں اور دوسیر خدمت ِاقدس میں حاضر ہیں۔'' (معارف القرآن:جلد چہارم، ص۵۸۰)

ذہنی تغیر کا دورِ پرویز :ان سب اُمور کے اعتراف کے بعد پرویز صاحب پر ایک دوسرا دور بھی آیا جب وہ شاہراہِ اسلام پر سے پھسل کر اشتراکیت کے گڑھے میں گرتے ہیں، تو اس گندے کیڑے کی طرح جو غلاظت میں پلنے اور نشوونما پانے کے باعث، تعفن اور بدبو ہی کو اپنی فطری فضا سمجھ لیتا ہے، اب وہ اسی اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگاکر 'نظامِ ربوبیت' کے نام سے پیش کرتے ہیں جسے کبھی وہ اسلام کے منافی قرار دیا کرتے تھے۔ اب قرآن کی ہر آیت کا مفہوم بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر اصطلاحِ قرآن بلحاظِ مفہوم متغیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ الغرض اشتراکیت کی عینک جب 'مفکر ِقرآن' کے کانوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کی ناک پر سوار ہوجاتی ہے تو قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کی ہر چیز ایک دوسرے ہی رنگ میں نظر آتی ہے۔ اشتراکیت کے بچھڑے کی محبت، جب قلب و دماغ میں رَچ بس جاتی ہے تو محاورئہ عرب کے نام پر قرآنی مفردات میں کس طرح نئے مفاہیم ٹھونسے جاتے ہیں اور آیات اللہ میں کس طرح نئی تعبیرات گھسیٹری جاتی ہیں اور تاریخ کے مسلمہ واقعات کو کس طرح پایۂ حقارت سے ٹھکرایا جاتا ہے، اسے درج ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے :

''صحیح نظامِ زندگی یہ ہے کہ تم اکتسابِ رزق کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرو، اور اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لو اور باقی سب دوسروں کی پرورش کے لئے عام کردو۔''

﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ...٢١٩ ﴾... سورة البقرة ''تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر دوسروں کے لئے 'کھلا رکھیں'؟ ان سے کہہ دو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے، سب کا سب۔'' ( 'اسلام کیا ہے؟' ص ۱۴۵)

پرویز صاحب کے ذہنی پلٹائو کے ساتھ ہی دنیا میں پہلی ڈکشنری چھپ گئی جس میں، انفاق کا معنی 'خرچ کرنا' نہیں بلکہ 'کھلا رکھنا' بیان کیا گیا اور اسی طرح ''العفو'' کا مفہوم بھی ذہنی تغیر کے ساتھ ہی تبدیل ہوگیا۔ پرویز صاحب کے سابقہ دور میں مفہوم آیت کیا تھا؟ یہ بھی دیکھ لیجئے : ﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ...٢١٩ ﴾... سورة البقرة ''آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔'' (جولائی۳۹ئ:ص۶۱)

قُلِ الْعَفْوَ کے جدید مفہوم کی اساس پر نظامِ ربوبیت، جو اشتراکیت ہی کا 'قرآنی ایڈیشن' ہے، کی عمارت استوار کی گئی۔ اب 'زائد از ضرورت' مال و دولت کی موجودگی بھی خلافِ قرآن قرار پا گئی اور زمین کی شخصی ملکیت بھی، نہ صرف خلافِ قرآن ، بلکہ کفر وشرک قرار پاگئی :

''قرآنِ کریم کی رو سے زمین (وسائل پیداوار) پر ذاتی ملکیت کا تصور ہی باطل اور شرک کے مترادف ہے۔'' (مئی ۶۸ئ: ص ۱۷)

اب وہ آیات جو تفاضل فی ا لرزق پردلالت کرتی ہیں، ان کا مفہوم بھی بدل گیا۔ مثلاً آیت (۷۱؍۱۶) کے ابتدائی جملہ کا ترجمہ اب یہ قرار پایا :

﴿وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعضَكُم عَلىٰ بَعضٍ فِى الرِّ‌زقِ...٧١ ﴾... سورة النحل ''مختلف افراد میں، اکتسابی استعداد کا تفاوت، خدا کی طرف سے ہے (تمہارا اپنا پیدا کردہ نہیں)۔ '' (نظامِ ربوبیت: ص۱۳۲)

جبکہ سابقہ دورِ پرویز میں ان الفاظ کا ترجمہ یہ تھا... ''اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ روزی کے برتری دی ہے۔'' (معارف القرآن: جلد اول، ص۱۲۱)

رہا صحابہ کے درمیان، معاشی تفاوت اور تفاضل، تو اسے اب یہ کہہ کر ردّ کردیا گیا کہ جب قرآن، قُلِ الْعَفْوَ کے حکم کی بنا پر کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے ہی نہیں دیتا او راپنی 'زائد از ضرورت دولت' سے ہر ایک کو دست کش ہونا پڑتا ہے، تو پھر وہ تمام روایاتِ تاریخ جو صحابہ کے معاشی تفاضل و برتری کا ذکر کرتی ہیں، قرآن سے متصادم ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا

''جب بھی قرآن کے کسی بیان اورعہد ِمحمد رسول اللہﷺ والذین معہ کی تاریخ کے کسی واقعہ میں تضاد نظر آئے تو قرآن کے بیان کو صحیح اور تاریخ کے واقعہ کو غلط قرار دینا چاہئے۔'' (جولائی ۵۹ئ،ص ۱۲)

اور اسے اسی کثرت سے طلوعِ اسلام میں بتکرار دہرایا گیا کہ

تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا !!

اب سوال پیدا ہوا کہ کیا عہد ِنبوی میں زمین پر شخصی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا تھا؟ کیونکہ 'نظامِ ربوبیت' کے نفاذ کی راہ میں اس سوال سے سابقہ پیش آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے قرآن کی ورق گردانی شروع ہوئی۔ نگاہ مطلب جو، سورۃ الرعد اور سورۃ الانبیاء کی ان دو آیات پر ٹکی جن کے الفاظ ایک جیسے ہیں۔ اگرچہ ان سے زمین کی شخصی ملکیت کا خاتمہ تو ثابت نہ ہوسکا، البتہ خدع و فریب کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اوّل مرحلے پر 'زمینی ملکیتوںکی حد بندی' کشید کر ڈالی گئی۔ دونوں آیات مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :

﴿ أَوَلَم يَرَ‌وا أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها...٤١ ﴾... سورة الرعد'' کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان (ظالموں) پر ہر طرف سے زمین تنگ کرتے چلے آرہے ہیں۔''اور ﴿أَفَلا يَرَ‌ونَ أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها ۚ أَفَهُمُ الغـٰلِبونَ ٤٤ ﴾... سورة الأنبياء

''کیا یہ کفار نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تمام سمتوں سے ان پر تنگ کرتے چلے آرہے ہیں، کیا وہ غالب ہوں گے؟''

آپ یقینا حیران ہوں گے کہ آیت میں تو 'رقبہ ہائے اراضی کی حد بندی' کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہے، پھر آخر اس سے یہ مطلب کیسے نچوڑ لیا گیا؟ لیکن اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؛ مفکر ِقرآن، لغت ہائے حجازی کے قارون بھی ہیں، اس قارونی خزانے سے وہ خود فائدہ نہ اُٹھائیں تو اور کون اٹھائے گا۔ لغوی موشگافیوں کے نتیجہ میں آیت کا ترجمہ وہ نہیں رہ گیا جو اوپر درج ہے، بلکہ اس کا ترجمہ یوں قرار پایا :

''کیا یہ لوگ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم کس طرح زمین کے رقبوں کو جاگیرداروں کی ملکیت سے کم کرتے جاتے ہیں...'' (۴۱؍۱۴) (نظامِ ربوبیت: ص۴۰۰)

''سورۃ الانبیاء میں کہا ہے کہ انہیں اور ان کے آباء و اجداد کو زمین متاعِ حیات حاصل کرنے کے لئے ملی تھی۔ اس پر زمانہ گزر گیا تو انہوں نے اس پر قبضہ مخالفانہ جما لیا۔ اب ہم آہستہ آہستہ اسے ان کے ہاتھوں سے نکال رہے ہیں۔ ہمارے اس پروگرام کی تکمیل ہو کر رہے گی۔ یہ ہمیں مغلوب نہیں کرسکیں گے۔'' (شاہکارِ رسالت: ص ۳۴۵)

میں اگر پرویز صاحب کے اس تحریفی کارنامے کی قلعی کھولنے کے لئے لغوی اور صرفی و نحوی طور پر اغلاط پرویز کو واضح کروں تو اس کا فائدہ نہیں، کیونکہ 'مفکر ِقرآن' کو خوش نصیبی سے ایسے اندھے عقیدت مند میسر آئے ہیں جو ان کے ہر تحریفی کارنامے کو ایسا 'علمی نکتہ' قرار دیتے ہیں، جس پر 'ملا' نے اب تک پردے ڈال رکھے تھے۔ اس لئے میں بغیر کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے، ان ہی آیات کے وہ صحیح تراجم پیش کئے دیتا ہوں جو سابقہ دور میں خود انہوں نے کئے تھے :

﴿ أَوَلَم يَرَ‌وا أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها ۚ وَاللَّهُ يَحكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكمِهِ ۚ وَهُوَ سَر‌يعُ الحِسابِ ٤١ ﴾... سورة الرعد

''پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹا کر (ظالموں پر) اس کی وسعت تنگ کر رہے ہیں، اور جو فیصلہ اللہ کرتاہے کوئی نہیں جو اسے ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔'' (معارف القرآن: جلد اوّل، ص۴۷۴)

﴿ بَل مَتَّعنا هـٰؤُلاءِ وَءاباءَهُم حَتّىٰ طالَ عَلَيهِمُ العُمُرُ‌ ۗ أَفَلا يَرَ‌ونَ أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها ۚ أَفَهُمُ الغـٰلِبونَ ٤٤ ﴾... سورة الانبياء

''اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں او ران کے باپ دادوں کو (فوائد ِزندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقعے دیے۔یہاں تک کہ (خوش حالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں) غالب ہو رہے ہیں؟'' (معارف القرآن: جلد سوم، ص۶۶۳)

الغرض، پرویز صاحب کے تضادات و تناقضات کو کہاں تک بیان کیا جائے ع

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے !

........................

جس طرح قرآن کے عجائبات کی کوئی حد تک نہیں، اسی طرح جناب پرویز صاحب کے تضادات کی کوئی انتہا نہیں !!

'مفکر ِقرآن' کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ ہر وہ چیز، جو ان کے مزعومات کے خلاف ہو، وہ اسے خلافِ قرآن قرار دے کر، اپنے قاری کو تذبذب کے گرد و غبار میں ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کردیتے ہیں جہاں اسے 'قرآنی' یا 'غیر قرآنی' راستے میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ سوچ بھی سکے کہ جسے 'قرآنی راستہ' کہا جارہا ہے۔ وہ فی الواقعہ قرآنی راستہ ہے بھی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی 'شیطان' نے یونہی اس پر 'قرآنی راستہ' کا سائن بورڈ آویزاں کر دیا ہو تاکہ بندگانِ خدا کو اپنے جہنم میں لے جائے ؛ ٹھیک اس تکنیک پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، وہ پہلے یہ وعظ فرماتے ہیں:

''قرآن کا دعویٰ ہے کہ﴿وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ٨٢ ﴾... سورة النساء'' اگر قرآن، اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔'' بالفاظِ دیگر قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں... اس نے اپنے نزول کا مقصد یہ بتایا ہے کہ ﴿وَما أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ إِلّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِى اختَلَفوا فيهِ...٦٤ ﴾... سورة النحل ''اس کتاب کو نازل ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے ہیں، انہیں نمایاں طور پر واضح کیا جائے۔'' ...ا س نے مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ ﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ...١٠ ﴾... سورة الشورى ''جس بات میں بھی تم میں اختلاف ہوجائے، اس کا فیصلہ اللہ کی کتاب (کتاب نہیں بلکہ وحی...قاسمی) سے کرا لیا کرو۔'' (اگست۵۹ئ:ص۶)

پھر اس وعظ کی اگلی خوراک، بایں الفاظ دی جاتی ہے :

''اب ظاہر ہے کہ جس کتاب کا اپنے متعلق یہ دعویٰ ہو، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اختلافات مٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، دو میں سے ایک بات کو ثابت کردیتا ہے یعنی (۱) یا تو یہ کہ اس کتاب کا (معاذ اللہ) دعویٰ غلط ہے اور یا یہ کہ (۲) ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں۔''

پھر اس وعظ کی آخری خوراک کے ذریعہ، تلاشِ حق کے مسافر کے ذہن میں ، جو متذبذب کھڑا ہے یہ نتیجہ اِلقا کیا جاتاہے :

''پہلی بات تو کوئی مسلمان (ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے) کبھی تسلیم نہیں کرسکتا، لہٰذا بات دوسری ہی ہے یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق چلنے کے باوجود اختلافات نہیں مٹ سکتے، وہ جھوٹ بولتے ہیں اور قرآن پر بہتان باندھتے ہیں بلکہ اس کے منزل من اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں۔'' (اگست۵۹ئ:ص۶)

حالانکہ ان دو شقوں کے علاوہ ایک تیسری شق بھی ہے یعنی یہ کہ... ''قرآن کا جو مفہوم آپ نے بیان کیاہے، وہ غلط ہو؛ اور اختلاف اسی مفہوم کی وجہ سے لازم آتا ہو''... او راصل حقیقت بھی یہی ہے۔

تعبیراتِ قرآنیہ کے یہ وہ اختلافات ہیں، جو دوگروہوں کی طرف سے نہیں بلکہ اہل قرآن کے صرف ایک فرقہ کے قائد کی طرف سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی چند ایک بطورِ نمونہ مشتے از خروارے ہیں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر ان حقائق پر غور کرے گا، اسے یہ حقیقت پا لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ پرویز صاحب کی ساری زندگی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اگر ان کے جملہ تضادات کو یکجا کیا جائے تو اچھی خاصی ضخیم کتاب مرتب ہوجائے گی (اور فی الواقعہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں 'پرویز صاحب کا تضاد اتی اسلام' کے عنوان سے ایسا کر ہی دوں)۔ ان تضادات سے آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ان کا آج کا قرآن ، ۱۹۴۷ء سے قبل کے قرآن سے کس قدر مختلف ہے۔

قرآن تو جبرئیل ؑ لایا، مگر اس کی مراد و مقصود کو طے کرنے کا معاملہ درپیش ہوا تو شیطان نے اپنے کرتب دکھائے، اور دیکھنے والوں نے دیکھاکہ قرآن بازیچہ اطفال بنا، زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آئے، حرفِ شیریں کی تعبیر و تفسیر، پرویزی حیلوں کے ہتھّے چڑھ گئی۔ جبرئیل ؑ و ابلیس میں آنکھوں ہی آنکھوں میںکچھ اشارے ہو رہے تھے۔ زمین اس بدبختی پر روتی تھی، تقدیر ہنستی تھی، پرویزی ہتھکنڈوں نے کتاب اللہ کو تضادات کاایسا پلندہ بنا دیا کہ ہر بہرے کو یہ سنائی دینے لگا اور ہر اندھے کویہ دکھائی دینے لگا کہ پرویز کا آج کا قرآن کل کے قرآن سے کس قدر مختلف ہے اور پھر

جھوٹ بھی او رتحدی و تعلّی بھی !

کس قدر جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتاہے کہ

''میں نے جو کچھ ۱۹۳۸ء میں کہا تھا، ۱۹۸۰ء میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں کیونکہ یہ قرآنی حقائق پر مبنی ہے اور قرآنی حقائق ابدی اور غیر متبدل ہیں... قرآن کو حجت اور سند ماننے والے کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ آج کچھ کہہ دے اور کل کچھ اور ۔ قرآن کا متبع، نہ مداہنت کرسکتاہے، اور نہ کسی سے مفاہمت۔'' (دسمبر۸۰ئ:ص ۶۰)

اور پھر بڑے فخر سے اشعارِ اقبال کا خود کو مصداق بناکر پیش کیا جاتا ہے : ؎

کہتا ہوں وہی بات، سمجھتا ہوں جسے حق      نہ ابلہ ٔ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش    میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بیں و حق اندیش      خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دما دند

(ماہنامہ طلوعِ اسلام: دسمبر۸۰ء ص ۶۰)

پھر بات صرف اتنی ہی نہیں کہ 'مفکر ِقرآن' صاحب عمر بھر مختلف اور متضاد تعبیریں کرتے رہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں ( جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے بھی واضح ہے) کہ ان کی جملہ کتب میں کوئی تضاد و تناقض پایا ہی نہیں جاتا، گویا جس طرح قرآن اختلاف سے بالاتر ہے، اس طرح پرویزی تعبیرات بھی تضاد سے مبرا ہیں، کس قدر تحدی، تعلّی اور پندارِ نفس سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ

''طلوعِ اسلام ۱۹۳۸ء میں جاری ہوا، اور تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۸ء سے اب تک مسلسل اور متواتر پابندی ٔوقت کے ساتھ جاری رہا۔ قرآنی رہنمائی اور علم انسانی کی روشنی میں زمانے کے تقاضوں اور حالاتِ حاضرہ کاجائزہ لینا اس کا مشن ہے۔اس کی اشاعتوں کے انبار میں سے آپ کوئی سے دو پرچے اُٹھا لیجئے؛ جہاں تک قرآنی فکر کا تعلق ہے، آپ کو اس میں کوئی تضاد، کوئی تخالف نہیں ملے گا یہ اس لئے کہ قرآنِ کریم کی رو سے اس کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے جو کچھ قرآنی رہنمائی میں کہا جائے گا، اس میں بھی کوئی تضاد و تخالف نہ ہوگا۔'' (جولائی۸۴ئ: ص ۳۳)

سبحان اللہ! کیا کہنے، 'مفکر قرآن'کی تعبیرات کے! کس قدر، ان کی شان بلند ہے کہ قرآن ہی کی طرح، اختلاف سے بالاتر ہیں۔ احادیث ِرسول میں اختلافات ہیں مگر تعبیراتِ پرویز، مبرا از اختلافات ہیں۔ نبی ؐ تو اپنی تیئس(۲۳) سالہ پیغمبرانہ زندگی میں (معاذ اللہ) قرآن کی تشریح و تبیین کرتے ہوئے اختلافات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ مگر پرویز صاحب نے عمر بھر جو قرآنی تعبیرات پیش کی ہیں، ان میں نہ تضاد ہے نہ تخالف۔ رسولِ خداﷺ معصوم ہو کر بھی (معاذ اللہ) تبیین قرآن میں تضادات سے نہ بچ سکے مگر پرویز صاحب غیر معصوم ہو کر قرآنی تشریحات میں تضاد سے محفوظ رہے: ﴿يـٰلَيتَنى مِتُّ قَبلَ هـٰذا وَكُنتُ نَسيًا مَنسِيًّا ٢٣ ﴾... سورة مريم

دھڑکنا بند کر اے دل، نظر کے نور گم ہو جا     وہ بے غیرت ہے جو اس دور کے شام و سحر دیکھے !

علمائِ کرام کے خلاف تعلّیاتِ پرویز

آخر پرویز صاحب کے ان تضادات و تناقضات کا کوئی کہاں تک تعاقب کرے؟ علما کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی خدمت کی روش سے ہٹ کر پرویز صاحب کے تضادات کے خار زار میں آبلہ پائی کریں۔ لیکن علماء کرام کی یہ روش خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے ہو، اس سے شیطان کواس بات کا موقع مل گیا کہ 'مفکر ِقرآن'کی پیٹھ پر تھپکی دے کر اسے اس زعم باطل میں مبتلا کردے، کہ ''تمہارے 'دلائل' کا جواب،کسی سے بن پڑ ہی نہیں سکتا'' پھر ہمارے 'مفکر ِقرآن' پندار نفس، غرور، علم اور عزت الاثم کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے ، بتکرار یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ

''ملا کے پاس نہ علم ہوتا ہے، نہ بصیرت؛ نہ دلائل ہوتے ہیں نہ براہین'' (۵ فروری ۱۹۵۵ء ص۴)

''ان کے پاس طلوعِ اسلام کے دلائل کا کوئی جواب نہ تھا، ا س لئے انہوں نے اس سلسلہ میں وہی ٹیکنیک اختیار کی جو ہامانیت کا بنیادی خاصہ ہے یعنی انہوں نے پراپیگنڈہ شروع کردیا، کہ طلوعِ اسلام منکر ِسنت ہے، منکر ِشانِ رسالت ہے۔'' (مئی ۷۲ئ: ص ۲۸)

طلوعِ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹے کو جھوٹا، خائن کو خائن، منافق کو منافق اور 'منکر حدیث' کو 'منکر حدیث' نہ کہا جائے کہ یہ 'اخلاقاً' بری بات ہے اور 'خلافِ تہذیب' ہے۔ کیا خوب کہا تھا اکبر الٰہ آبادی نے کسی ایسے ہی موقع پر ؎

مغوی کو برا مت کہو ترغیب ہے یہ     میں کس سے کہوں نفس کی تخریب ہے یہ

شیطان کو رحیم کہہ دیا تھا اِک دن!   اک شور اٹھا خلافِ تہذیب ہے یہ

بہرحال یہ تو جملہ معترضہ ہے، تعلیاتِ پرویز کا سلسلہ جاری ہے، وہ لکھتے ہیں:

''مولوی صاحبان کے پاس ا س کا کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی تو 'طلوعِ اسلام' کو ' منکر ِسنت' قرار دے دیا جائے اور پرویز صاحب کے خلاف کفر کے فتوے لگا دیے۔'' (جون۷۳ئ: ص ۱۲)

''ا س کے (پرویز صاحب... قاسمی) اعتراضات کا ان کے (علما کے ...قاسمی) پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ اس کے لئے انہوں نے اپنا دیرینہ حربہ استعمال کیا یعنی اسے 'منکر ِحدیث' قرار دے کر اس کے خلاف کفر کے فتوے صادر کردیے۔'' (جولائی۸۴ئ:ص ۵۷)

پرویز نے اپنے خلاف علماء کے فتوے کو تو خوب اُچھالا ہے کہ انہوں نے اسے منکر ِسنت قرار دیا تھا۔ لیکن خود انہوں نے علماء کے خلاف... بلکہ اپنے گروہ کے سوا، باقی سب کے خلاف... منکر ِقرآن ہونے کا جو فتویٰ دیا تھا، اس کی کبھی ایسی تشہیر نہیں کی۔ چنانچہ کارل مارکس کی 'اشتراکیت' پر جب قرآن کا ٹھپہ لگا کر 'نظامِ ربوبیت' کے نام سے پیش کیا تو اس وقت فرمایا :

''لیکن اس آواز کی مخالفت، تمام منکرین قرآن کی طرف سے ہوگی۔'' (نومبر۵۲ئ: ص ۸)

''...ظاہر ہے کہ اس جواب کے بعد نہ قرآن ہی قابل یقین رہتا ہے نہ احادیث اور یہی منکرین قرآن کا مقصود تھا۔'' (نومبر۵۲ئ: ص ۶۶)

یتیم پوتے کی میراث کی بحث میں، مولانا مودودی پر خاص طور پر منکر ِقرآن کا فتویٰ لگاتے ہوئے، ان کا اقتباس پیش کرنے سے قبل، یہ لکھا کہ

''طلوعِ اسلام نے اپنی سابقہ اشاعت میں قرآنی دلائل سے ثابت کیا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی وراثت سے محروم نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں منکرین قرآن کی طرف سے جو جواب شائع ہوا وہ ملاحظہ فرمائیے...'' (اکتوبر۵۲ئ: ص ۵۸)

پرویز کی تعبیرات...احکامِ قرآن میں

حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآنی الفاظ و آیات میں اپنے طبع زاد مفاہیم و تصورات گھسیڑا کرتے تھے، اور پھر ان خود ساختہ قرآنی تعبیرات کو ردّ و قبول کا معیار قرار دیا کرتے تھے، حالانکہ آیات والفاظِ قرآن تو واقعی منزل من اللہ ہیں، لیکن انسانی تعبیراتِ قرآنیہ منزل من اللہ نہیں بلکہ بشری تشریح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ بات خود پرویز صاحب کو مسلم تھی :

''دین میں حجت، قرآنِ کریم کا متن ہے، نہ کہ کسی انسان کی تشریح، تفسیر یا تعبیر۔'' (اگست۶۸ئ:ص ۳۰)

اب ظاہر ہے کہ علما اگر پرویز صاحب کی تعبیر کا انکار کرتے ہیں تو وہ ایک انسان کی تعبیر قرآن کا انکار کرتے ہیں نہ کہ نفس قرآن کا۔ لیکن 'مفکر ِقرآن' اپنے آپ کو ایسے بلند مقام پر فائز سمجھتے تھے کہ اگر کوئی ان کی تعبیر کا انکار کرتا تو وہ اسے قرآن کا منکر اور مخالف قرار دیا کرتے تھے۔

''میں بلاتشبیہ اور بلا تمثیل عرض کرنے کی جرات کروں گا کہ یہ لوگ میری مخالفت نہیں کرتے، کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔'' (دسمبر۷۸ئ: ص ۵۲)

وہ اپنے جی سے مفہوم گھڑ کر منسوب الی القرآن کیا کرتے تھے اور پھر اسے 'قرآنی معیار' قرار دے کر یہ کہا کرتے تھے کہ

''ہمارا مقصد صرف قرآنی حقائق بیان کرنا ہے، ا س سے اگر کسی مروّجہ عقیدے یا کسی کے دعوے پرزَد پڑتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس باب میں مدعی قرآن ہے، ہمارا فریضہ قرآن کے دعاوی کو پیش کرنا ہے اور بس...'' (جنوری۸۵ئ: ص ۲۱)

اتباعِ پرویز اور تضاداتِ پرویز

پرویز صاحب کے ان تعبیری تضادات کو دیکھئے اور پھر داد دیجئے۔ پرویز صاحب کے اندھے مقلدین کو جو یہ شور مچایا کرتے تھے کہ

''پرویز صاحب کی تحریروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نہ کبھی پرانی ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں کہیں تضاد واقع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، قرآنِ کریم کی روشنی میں لکھتے ہیں اور قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے حقائق کبھی پرانے نہیں ہوتے، نہ ہی ان میں کسی قسم کا تضاد و تخالف ہے۔'' (فروری ۸۳ئ: ص ۲۶)

اس سے اندازہ کر لیجئے کہ پرویز صاحب کے واضح،صاف، بین اور چمکتے ہوئے تضادات کے وجود کا صریح انکار، مقلدین ِپرویز کی فکری صلاحیتوں کو کس قدر مفلوج کر چکا ہے۔ وہ پرویز صاحب کو قرآن میں ایسی اتھارٹی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی متضاد و متخالف تعبیرات میں سے جس تعبیر کو بھی مختلف اوقات میںپیش کیا، اس قومِ 'عمون' نے اسے من و عن قبول کر لیا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی متضاد اور متناقض تحریروں کی بنا پر کسی تحریر سے، انہوں نے اختلاف کیا ہو۔

پرویز صاحب نے کہاکہ ''اشتراکیت شخصی ملکیت کی قائل نہیں جبکہ اسلام اس کا قائل ہے۔'' سعادت مند مقلدین نے کہا: ''اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا'' پھر کہا کہ ''اسلام میں شخصی ملکیت کا کوئی وجود نہیں۔'' شاگردانِ نیک بخت نے کہا ''بالکل درست''... مفکر ِقرآن نے کہا کہ ''قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) دیت اور عفو کے تینوں پہلو موجود ہیں'' پیروکاروں نے کہا ''بجا ارشاد فرمایا'' پھر پینترا بدل کر کہاکہ ''قتل عمد کی سزا صرف قتل ہے، رہے عفو اور دیت کے پہلو، تو ان کا تعلق قتل عمد سے ہے ہی نہیں۔'' انہوں نے کہا ''درست فرمایا''... مفکر قرآن نے کہا کہ ''اسلام میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ امر واقعہ ہے'' یہ بولے ''أحسنت ومرحبا'' پھر ا س کے برعکس یہ کہا: ''یہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ تو عجمی اسلام کی سازش کے ذریعہ اُمت ِمسلمہ کے گلے مڑھ دی گئی ہے، بھلا اسلام کا اس سے کیا تعلق؟'' فکر و شعور سے عاری قوم نے کہا ''سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا'' ... الغرض، مفکر ِقرآن عمر بھر جس متناقض قول کوبھی پیش کرتے رہے، مفلوج الفکر مقلدین نے ہر مقام پر یہی کہا :

سرتسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے!

حرام اور قطعی حرام! ...جو یہ لوگ کبھی ایک مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ پرویز صاحب ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ:

''قرآن کو سند اور حجت ماننے والا تو ساری عمر میں دو متضاد باتیں بھی قرآن کی سند سے نہیں کہہ سکتا۔'' (اپریل۶۷ئ:ص ۵۸)

اور دوسری طرف وہ ساری عمر، قرآن کا نام لے کر تضادات کا خارزار ہی پیدا کرتے رہے، لیکن سوچے تو وہ جس کی فکر میں صحت اور سلامتی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو۔ یہ تو بس بھیڑوں کی قطار ہے جو برسوں سے اس رستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چل نکلی تھی:

﴿كَمَثَلِ الَّذى يَنعِقُ بِما لا يَسمَعُ إِلّا دُعاءً وَنِداءً...١٧١ ﴾... سورة البقرة

'مفکر ِقرآن' کی خوش قسمتی :کیسا خوش قسمت تھا وہ 'مفکر ِقرآن' جسے اس قسم کے پیروکار میسر آگئے جو لب و دہن اور گوش و بصر بند کرکے اس کے پیچھے، اس کی وفات کے بعد بھی اسی طرح چلتے جارہے ہیں جیسے شعرا کے پیچھے 'غاوون' کی ٹولی بھٹکا کرتی ہے۔

ایک نادر شاہی مطالبہ

گذشتہ بحث سے یہ واضح ہے کہ پرویز صاحب مختلف اوقات میں قرآن کی مختلف اور متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ پھر اس پر خود 'مفکر ِقرآن' کا یہ نادر شاہی مطالبہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ

''جہاں تک عہد ِرسالت اور خلافت ِراشدہ کے دور کا تعلق ہے، ہمیں چاہئے تھا کہ اس تاریخ کو قرآ نِ مجید کی کسوٹی پر پرکھتے۔ جو واقعات اس کے مطابق ہوتے انہیں قبول کر لیتے، جو اس کے خلاف جاتے، انہیں وضعی قرار دے کر مسترد کردیتے۔ یہ اس لئے کہ (خود قرآن مجید کی شہادت کی رو سے) ان حضرت کی زندگی، قرآن کے قالب میں ڈھلی ہوئی تھی، اور وہی ان کی سیرت کی تاریخ کا معیار قرار پاسکتاتھا؛ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔'' (نومبر۸۰ئ: ص ۶۰)

اب غور فرمائیے کہ پرویز خود تو ساری عمر، قرآن کی متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی کس تعبیر کو حتمی معیار قرار دے کر احادیث اور تاریخ کی روایات کو پرکھا جائے؟ فرض کیجئے کہ آج انہوں نے ایک تعبیر پیش کی، 'محققین'کا ایک بہت بڑا گروہ اس تعبیر کی اساس پر، روایات، احادیث و تاریخ کو کھنگالنے کا کام شروع کردیتا ہے، وہ ابھی اس 'کارِخیر' سے فارغ ہوا یا نہیں کہ 'مفکر ِقرآن' کی فضاء ِدماغی میں خیال کا نیا جھکڑ آیا، اور اس کے ساتھ ہی پہلی تعبیر بھی مرغِ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اب اس دوسری تعبیر کے مطابق، روایات کی چھان بین کا سلسلہ از سر نو پھر آغاز پذیرہوا۔ ابھی یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا کہ نہیں، مگر یہ خبر آگئی کہ 'مفکر ِقرآن'کی دوسری تعبیر بھی ترمیم کا نشانہ بن گئی۔ اب تیسری تعبیر کے مطابق، پھر نئے سرے سے، جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ شروع ہوگا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک 'مفکر قرآن' کے صحرائِ دماغی میں خیالات کی آندھیاں چلتی رہیں گی۔

یہ ہے وہ مقامِ عالی مرتبت جو 'مفکر ِقرآن' صاحب نے اپنے لئے اختیار کر رکھا تھا، کہ تاریخ اور احادیث کی روایات، دست بستہ، ان کے حضور کھڑی رہیں او رپرویز صاحب ہر بدلتی تعبیر کے مطابق ان کی صحت اور عدمِ صحت کا فیصلہ فرماتے رہیں اور ان کی تعبیر کے تغیر پر لازم ہے کہ ہر چیز بدل جائے۔

خلاصۂ بحث

ہماری یہ بحث اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ اگرچہ الفاظِ قرآن متفق علیہ ہیں مگر ان کی تعبیرات میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ احادیث کے اختلاف کی آڑ میں، ان سے جان چھڑا کر جو لوگ تنہا قرآن کا نعرہ لگا رہے ہیں، وہ خود بھی قرآن کی کسی ایک تعبیر پر متفق نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ خود 'مفکر ِقرآن' بھی مختلف اوقات میں متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ اب اگر قرآن تعبیراتی اختلاف کے باوجود سند و حجت بن سکتا ہے تو سنت ِنبویہ کیوں نہیں بن سکتی؟ منکرین ِحدیث، قرآن کے متن اور الفاظ کے متفق علیہ ہونے پر جو زور دیتے ہیں، تو یہ محض پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ عملی زندگی میں جو چیز مطلوب ہے وہ متن ِقرآن یالفاظِ قرآن نہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو متن یاالفاظ سے حاصل کیا جاتا ہے، اگر اس مفہوم میں ا ختلاف ہو تو خود سوچئے کہ الفاظِ قرآن کا متفق علیہ اور سند و حجت ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ لہٰذا منکرین ِسنت کا یہ موقف ہی غلط ہے کہ ''دستورِ حیات، صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اختلاف سے بالاتر ہو۔'' مولانا مودودیؒ نے ڈاکٹر عبدالودود سے قلمی مناظرہ کے دوران اسی بات کو بایں الفاظ بیان کیا تھا اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے پائے تھے :

'' ڈاکٹر صاحب خود فرما رہے ہیں کہ ''تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لئے حجت اور سند نہیں ہوسکتا۔'' ...اس صورت میں تو لامحالہ الفاظ ہی حجت اور سند رہ جاتے ہیں اور معنی میں اختلاف ہوجانے کے بعد ، ان کا حجت و سند ہونا لاحاصل ہوجاتا ہے۔کیونکہ عملاً جو چیز نافذ ہوتی ہے، وہ کتاب کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنہیںکسی شخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اس لئے میں نے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہ پہلے آپ اپنے اس نقطہ نظر کو بدلیں کہ ''آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہوسکے۔'' اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہوسکتی ہے کہ قرآنِ مجید بجائے خود اساسِ آئین ہو، اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے، وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کے نزدیک اَقرب الی الصواب قرار پائے۔ اسی طرح یہ بات بھی طے ہوسکتی ہے کہ سنت کو بجائے خود اساسِ آئین مانا جائے اورمعاملات میں عملاً وہ سنت نافذ ہو جو کسی بااختیارادارے کی تحقیق میں سنت ِثابتہ قرار پائے۔

جس طرح قرآن کے الفاظ کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظِ قرآن ہی کے حدود میںگھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جاسکے گا۔ اسی طرح سنت کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں اپنے عمل کے لئے، انہی ہدایات و تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو رسول اللہﷺسے ماثور ہیں او رہم کوئی آزادانہ قانون سازی، اس وقت تک نہ کرسکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں مسئلے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات ماننے میں آخر کیادِقت ہے؟'' (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۱ء 'منصب ِرسالت نمبر' ص ۱۵۷،ـ۱۵۸) وآخردعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭

لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ﴿٨٢