حفاظت ِ حدیث کے مختلف ذرائع

منکرین حدیث کی طرف سے اکثر وبیشتر اس سوال کا اعادہ و تکرار کیا جاتا ہے کہ'' احادیث چونکہ آنحضرت ﷺ کے دور میں لکھی نہ گئی تھیں، اس لئے یہ قابل حجت نہیں۔ کیونکہ جب کوئی چیز ضبط ِکتابت میں آجائے تو وہ محفوظ ہوجاتی ہے جبکہ ضبط ِکتابت سے محروم رہنے والی چیز آہستہ آہستہ محو ہوکر اپنا وجودکھوبیٹھتی ہے۔ لہٰذااحادیث کا باقاعدہ کوئی وجود نہیں اور دورِ حاضر میں جن کتابوں کو کتب ِاحادیث سے موسوم کیا جاتا ہے، یہ عجمی سازش کا نتیجہ ہیں۔'' زیر نظر مضمون میں اس اعتراض کا تسلی و تشفی بخش جواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی(سنت)کس طرح محفوظ ہوئی؟

﴿فَإِن ءامَنوا بِمِثلِ ما ءامَنتُم بِهِ فَقَدِ اهتَدَوا...١٣٧ ﴾... سورة البقرة''اگریہ (یہود و نصاریٰ) اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ ؓ) ایمان لائے ہو تو پھر یہ ہدایت پاجائیں گے۔''

صحابہ کرامؓ جب رسول کریم ﷺ کی زندگی کے شب و روز تابعین کے سامنے پیش کرتے تو چونکہ وہ آنحضرت ﷺ کی زندگی کے بارے میں خبر دیتے تھے، اس لئے ایک طرف تو ان کی یہ خبر (حدیث) دین کے لئے بنیاد متصور ہوگی اور دوسری طرف صحابہ کرامؓ کی بیان کردہ خبر ہی ہمارے لئے حجت ہوگی کیونکہ اللہ کے رسولؐ کی ساری زندگی انہی صحابہ کرامؓ کے درمیان بسر ہوئی ہے۔ لہٰذا صحابہ کرامؓ کا آنحضرت ﷺ کی زندگی کے بارے میں کوئی خبر دینا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

آنحضرت ﷺ کی زندگی کے دو پہلو ہیں :انفرادی اور اجتماعی۔ آپؐ کی زندگی کا اجتماعی پہلو صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر ہی واضح ہوسکتا ہے اور اسے آپؐ نے ''ما أنا علیہ وأصحابی'' کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔ اس اعتبار سے رسولِ کریم ﷺ کے دور کا معاشرہ آپؐ کی اجتماعی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے۔ اور جب رسولِ کریم ﷺ فوت ہوگئے تو فوری طور پر یہ معاشرہ اپنی حالت تبدیل نہیں کربیٹھا۔ اگرچہ تھوڑے بہت اختلافات بھی رونما ہوئے مگر یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس لئے مجموعی طور پر رسولِ کریم ﷺ کی زندگی کا عمومی اور اجتماعی پہلو آپؐ کی وفات کے بعد من و عن صحابہ کرامؓ میں موجود رہا۔

صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کے دور میں بھی تقریباً وہی حالات غالب رہے جو رسولِ کریم ﷺ کی زندگی میں تھے۔ پھر ان کے بعد تبع تابعین کے دور میں بھی یہی اجتماعی رنگ غالب تھا۔ اگر صحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور تبع تابعین کے اَدوار کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ ۲۲۰ھ تک چلتا رہا جب کہ یہ تبع تابعین کے دور کا تقریباً اختتام تھا اور تبع تابعین تک کے اَدوار ہی کو خیرالقرون (بہترین اَدوار) سے موسوم کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ جس طرح صحابہ کرامؓ زندگیاں گزارتے رہے، اسی طرح تابعین نے ان کی اتباع کی اور تابعین کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو دیکھتے ہوئے تبع تابعین نے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنے کی پوری کوشش کی۔ حتیٰ کہ اگر کبھی کوئی خرابی، بدعملی یا کوتاہی نظر آتی تو فوراً ٹوک کر کہہ دیا جاتا کہ رسولِ اکرم ﷺ کا عمل تو اس طرح تھا۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ابن مسعودؓ نے دیکھا کہ لوگ گٹھلیوں پر وِرد کررہے ہیں تو انہوں نے اس پر تعجب اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : «ويحکم يا أمة محمد ما أسرع هلکتکم، هؤلاء صحابة نبيکم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل واٰنيته لم تکسر ... أَو مفتتحوا باب ضلالة» (مسند دارمی، کتاب العلم (المقدمة) باب في کراهية أخذ الرأي، رقم ۲۱۵)

''اے امت ِمحمد! تم پر افسوس کہ تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف جارہے ہو حالانکہ ابھی تو تم میں صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اللہ کے نبیؐ کے کپڑے بھی ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپؐ کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں ... کیا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو؟''

گویا صحابہ کرامؓ نے رسولِ کریم ﷺ کی باتوں کا اتنا خیال رکھا کہ گٹھلیوں کے استعمال کو 'بدعت' کہہ کر اس سے روکا اور اس عمل کو ناپسند کیا۔ رسولِ کریم ﷺ کا معاشرہ تین نسلوں تک غالب رہا اور پھر اس معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں اور بگاڑ دَر آئے۔ اس لئے تبع تابعین کے بعد والے دور یا معاشرے کو معیاری دور یا معیاری معاشرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

حفاظت ِحدیث بذریعہ روایت و کتابت

رسولِ کریم ﷺ کی زندگی کے بیان و روایت کرنے کو 'حدیث' کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ، تابعین کو اور تابعین، تبع تابعین کو اللہ کے رسولؐ کی زندگی اور معمولات سے آگاہ کرنے کے لئے احادیث روایت کرتے رہے۔ اس دور میں لکھنے کا رواج اس قدر عام نہیں تھا۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ لکھنے کی بجائے زبانی روایت اور حفظ کو ترجیح دیتے تھے اور یہ ایک تجرباتی بات ہے کہ انسان جس چیز کو زیادہ استعمال کرتا ہے، وہی چیز زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔ اس طرح اس دور میںحافظہ انتہائی قوی ہوتاتھا لیکن اس کے باوجود ایسی چیزیں جن کا تعلق حساب و کتاب اور شماریات سے ہوتا، بعض صحابہ اسے لکھ لیا کرتے۔ نیز وہ صحابہ جنہیں یہ خدشہ ہوتا کہ آنحضرت کی بتائی ہوئی حدیثیں ہمیں بھول نہ جائیں، وہ بھی احادیث لکھ کر انہیں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ... :

1. حضرت علیؓ کو لوگوں کے جھگڑوں کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ:''أقضاکم علي'' (بخاری، کتاب التفسیر) ''علیؓ تم میں جھگڑوں کے فیصلے میں سب سے زیادہ ماہر ہیں''... چونکہ قضا میں ان کی خصوصی دلچسپی تھی، اس لئے انہوں نے قصاص و دیت وغیرہ کے حوالے سے بعض چیزیں لکھ کر اپنے پاس محفوظ کررکھی تھیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے :

''ابوجُحیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی کتاب ہے؟ انہوںنے جواب دیا : نہیں، ا لبتہ ہمارے پاس یہ اللہ کی کتاب (قرآن مجید ) ہے یا وہ فہم و فراست ہے جومسلمان آدمی کو عطا کی جاتی ہے یا پھر یہ صحیفہ ہے۔ میں نے کہا کہ اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس میں دِیت اور قیدیوں کو چھڑانے کے مسائل ہیں اور اس میں یہ (حدیث) بھی (تحریر) ہے کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔''

(بخاری: کتاب العلم، باب کتابة العلم، حدیث نمبر۱۱۱)

2. اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو اللہ کے رسولؐ کے فرمودات جمع کرنے کا بڑا شوق تھا اور وہ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ آنحضرت ﷺ کی زبانِ مبارک سے جب بھی کوئی بات نکلے میں فوراً اسے ضبط ِتحریر میں لے آؤں۔ حتیٰ کہ لوگوں نے ان پر اعتراض کرناشروع کردیا کہ اللہ کے رسولؐ کبھی غصے اور کبھی خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں اور تم اللہ کے رسولؐ کی ہر بات لکھ لیتے ہو؟ عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ پھر میں احادیث لکھنے سے رُک گیا اور میں نے رسولؐ اللہ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا:

«اکتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلاحق» (احمد:۲؍۱۶۲، ابوداود:۳۶۴۶)

(ہر حال میں)لکھا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا...

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی لکھی ہوئی چیزیں محفوظ رہیں اور وہ آگے اولاد دَر اولاد منتقل ہوتی گئیں۔

3. یادرہے کہ ان چیزوں میں زیادہ نمایاں وہ احادیث تھیں جن کا تعلق زکوٰۃ وغیرہ سے تھا۔ عرب معاشرے میں زکوٰۃ کا زیادہ تر تعلق چوپایوں سے تھا، اس لئے کہ وہ لوگ زیادہ تر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکریاں پالتے تھے اور انہیں زکوٰۃ کے لئے ان کے اَعدادوشمار کو مدنظر رکھنا پڑتا تھا۔ اس سلسلے میں یہ حدیث بڑی معروف ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عاملوں کے لئے زکوٰۃ کے وہ احکامات تحریری طور پرروانہ کئے جو آنحضرت ﷺ نے طے کردیئے تھے۔ (دیکھئے: بخاری: کتاب الزکوٰة، باب زکوٰة الإبل، باب زکوٰة الغنم، باب العرض في الزکوٰة)

حفاظت ِحدیث بذریعہ تعامل

اصحابِ صفہ کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ آنحضرت ﷺ کے اقوال و افعال کی روشنی میں دین حاصل کریں۔ اس وقت دینی تعلیم کے حصول کا کوئی باقاعدہ کتابی طریقہ مروّج نہیں تھا بلکہ صحابہ کرامؓ آنحضرت ﷺ کے افعال اور آپ ؐ کے فرمودات سے دین سیکھتے اور جو شخص جس قدر زیادہ آپؐ کی معیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا، وہ اسی قدر علم دین میں دوسروں کی بہ نسبت آگے ہوتا اور اس مقصد کے حصول کے لئے صحابہ کرامؓ نے آپس میں باریاں طے کررکھی تھیں کہ ایک دن ایک صحابی اللہ کے رسولؐ کے پاس آکر دین سیکھتا اور اس کا کام کاج کوئی دوسرا صحابی سنبھالتا پھر دوسرے دن یہ صحابی کام کرتا اور دوسرے کو موقع دیتا کہ آج وہ اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضری دے۔ آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی شریعت صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں عملی طور پر رَچ بس جانے کی وجہ سے محفوظ ہوتی چلی گئی۔ دوسرے الفاظ میں، آنحضرت ﷺ کی زندگی میں پائے جانے والے عمومی اعمال و افعال جب صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں منتقل ہوگئے تو گویا خود آنحضرت ﷺ کی زندگی عملی طور پر محفوظ ہوگئی اور اسے ہی 'تعامل' کہا جاتا ہے۔ یہی تعامل حضورؐ کی زندگی کو تسلسل کے ساتھ اگلے لوگوں میں نسل دَرنسل بڑھاتا رہا ہے۔ لیکن اس تعامل میں اگر کہیں کوئی غلطی، تبدیلی یا ا ختلاف پیدا ہوتا تو وہاں احادیث(روایات) ہی کو 'فیصلہ کن'بنایا جاتا اور احادیث کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاتا کہ تعامل میں کون سی چیز احادیث کے مطابق ہے اور کون سی مخالف؟ گویا رسولِ کریم ﷺ کی زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اصل اور بنیاد یہ تعامل ہی ہے لیکن اس تعامل میں بوقت ِاختلاف، روایات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رہے کہ تعامل کا یہ سلسلہ صحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور تبع تابعین تک معیاری اور قابل اعتبار تسلیم کیا جاتا ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کہ«خیر الناس قرني ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم»( بخاری:۳۶۵۱) ''لوگوں میں سے سب سے بہترین زمانہ میرا ہے پھر ان کا جو میرے بعد ہیں، پھر اُن کا جو اُن کے بعد ہیں۔'' کے مطابق یہ معیاری معاشرہ تبع تابعین کے دور کے اَواخر یعنی تقریباً ۲۲۰ھ تک کا ہے۔k پھر اس کے بعد کے تعامل کی وہ حیثیت نہیں جو اس (۲۲۰ھ) سے پہلے کے تعامل کی ہے۔ لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ خیر القرون کا ہر تعامل حجت ہے بلکہ اس دور کا تعامل آنحضرت ﷺ کی زندگی کو مثبت طور پر پیش کرنے میں بڑا کردار رکھتا ہے ۔ البتہ اگر کسی جگہ کوئی اختلاف یا تبدیلی نظر آئے تو وہاں فیصلہ کن حیثیت صحیح احادیث و روایات ہی کو حاصل ہوگی۔

یاد رہے کہ خیرالقرون کے تعامل کو تو ایک طرح سے بڑی اہمیت حاصل ہے مگر اس کے بعد چونکہ معاشرے معیاری نہ رہے، اس لئے بعد والے معاشروں کے تعامل کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لئے جن لوگوں نے خیر القرون کے بعد والے معاشروں کے تعامل کو بھی حجت قرار دینے کی کوشش کی ہے وہ غلطی پر ہیں۔ بلکہ بعض لوگوں نے بڑا عجیب فلسفہ پیش کیا ہے کہ جن چیزوں (مسائل) میں اختلا ف نہیں، وہ تعامل میں شامل کردی ہیں مثلاً نماز کے رکوع، سجود، تشہد، قیام وغیرہ میں اختلاف نہیں، اس لئے کہہ دیا کہ یہ چیزیں تعامل سے ثابت ہیں اور یہ تعامل آج تک باقی ہے اور جن چیزوں میں اختلاف ہے مثلاً رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا یا آمین جہری یا سری کہنا وغیرہ، ایسے مسائل کے بارے میں کہا کہ یہ تعامل سے ثابت نہیں، حالانکہ تعامل کے نام پر ایسی تقسیم خود ساختہ ہے۔

تعامل امت اور روایت ِسنت ساتھ ساتھ

اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت ہے کہ جس طرح خیر القرون (۲۲۰ھ تک) کا تعامل ایک اہمیت وحیثیت رکھتا ہے، اسی طرح خیرالقرون کے ختم ہونے تک احادیث کی باقاعدہ اور بنیادی کتابیں بھی تقریباً مدوّن ہوچکی تھیں مثلاً دنیا میںاس وقت حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہمام بن مُنبہ (معروف تابعی اور حضرت ابوہریرۃؓ کے شاگردِ رشید) کا وہ صحیفہ ہے جو اس وقت چھپ چکا ہے۔پہلے یہ مخطوطے کی شکل میں محفوظ تھا جسے ڈاکٹر حمیداللہ ؒ(پیرس) نے تگ و دَو کرکے شائع کروایا۔ اسی طرح امام مالکؒ جن کی تاریخ پیدائش ۹۵ھ (یا ۹۷ھ) اور تاریخ وفات ۱۷۹ ھ ہے، ان کی حدیث کی معروف کتاب الموطأ آج بھی موجود اور معروف ہے اور یہ کتاب بھی خیرالقرون کے اختتام سے پہلے باقاعدہ کتابی شکل میں منظرعام پر آگئی تھی۔ اسی طرح امام بخاری کی تاریخ پیدائش بھی ۲۲۰ھ سے پہلے کی ہے۔

اس طرح خیرالقرآن کے تعامل کے ساتھ ساتھ روایات کا کتابی صورت میں مدوّن ہوکر سامنے آنا نعم البدل قرار پاتا ہے۔ یعنی خیرالقرون کے بعد معاشرے غیر معیاری ہوتے چلے گئے لیکن تب تک کتابی صورت میں اللہ کے رسولؐ کی زندگی ایک متبادل کے طور پر محفوظ ہوکر سامنے آچکی تھی اور پھر ان روایات کو باقاعدہ اسناد کے ساتھ جمع کیا گیا۔ اگرچہ اسناد کا یہ سلسلہ چھٹی اور ساتویں ہجری تک بھی چلتا رہا لیکن تیسری صدی ہجری میں مدوّن ہونے والی کتب ِاحادیث ہی زیادہ تر مراجع و مصادر کی حیثیت اختیار کرگئیں۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ان کتابوں کے مؤلفین (محدثین) نے احادیث کو باسند روایت کیا ہے اور بعض محدثین نے اپنی کتابوں میں احادیث کی صحت کا خاص اہتمام بھی کیا ہے جبکہ دیگر محدثین نے مطلق طور پر رو ایات کو اسناد کے ساتھ پیش کردیا تاکہ بعد میں بھی اگر کوئی شخص کسی روایت کی تحقیق کرنا چاہے تو وہ اس روایت میں مذکور راویوں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اُصولِ حدیث کی مدد سے بآسانی یہ تحقیق کرلے گا کہ کون سی روایت صحیح ہے اور کون سی ضعیف...؟

احادیث کے حجت ہونے کیلئے کتابت کی شرط کی حیثیت

منکرین حدیث کے اس اعتراض کا جواب تقریباً واضح ہوچکا ہے لیکن اس اعتراض کی قلعی کھولنے کیلئے ایک جدید مثال پیش خدمت ہے،جس سے یہ واضح ہوگا کہ کسی چیز کے معیار و حجت اور آئین و دستور ہونے کیلئے 'کتابت' (یعنی اس چیز کا پہلے سے لکھا ہونا) کوئی ضروری نہیں...برطانوی معاشرے کا اصل دستور وہ رسوم و رو ایات ہیں جو ان کے ہاں شروع سے چلی آتی ہیں اور یہ رسوم و روایات باقاعدہ تحریری شکل میں موجود نہیں بلکہ برطانوی معاشرے کا تعامل ہی اس دستور کا محافظ ہے۔ اگر کہیں ان کے ہاں لوگوں میں کسی چیز میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کا فیصلہ کرنے کیلئے ان کی عدالتیں یہ دیکھتی ہیں کہ اس قضیہ میں برطانوی معاشرے کا رواج کیا کہتا ہے اور پھر اسی رواج کے مطابق عدالت فیصلہ کرتی ہے۔

یاد ر ہے کہ ہر معاشرہ اپنے معاملات میں اپنا ایک خاص معیار رکھتا ہے اور اس معاشرے کے لوگ اس معیار کو فطری طور پر قائم رکھتے ہیں لیکن جب کسی معاشرے میں بیرونی پیوند کاری یا دوسری قوموں اور علاقوں کے لوگوں کا اختلاط و امتزاج بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ معاشرہ اپنے معاملات کے لحاظ سے معیاری نہیں رہتا کیونکہ دوسری قوموں کی عادات و اطوار بھی اس میں شامل ہونے لگتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کے لئے اپنے معاشرے کو معیاری رکھنا ناممکن ہوجاتاہے۔ اسی طرح برطانیہ میں جب باہر کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد آکر آباد ہوگئی تو ان کے لئے معاشرتی رسوم و رو ایات کے معیار کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا اور اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اب انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا دستور تحریری طور پر مرتب کرنا شروع کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک برطانیہ کا بنیادی دستور غیر تحریری شکل میں ہے۔ اس غیر تحریری دستور کے حوالہ سے کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیںکیا کہ چونکہ یہ تحریر شدہ نہیں، لہٰذا قابل قبول نہیں۔ بلکہ غیر تحریری ہونے کے باوجود اسے دستور کی حیثیت حاصل رہی ہے!!

اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر بالفرض آنحضرت ﷺ یا صحابہ کے دور میں احادیث تحریر شدہ نہ تھیں تو اس کے باوجود وہ حجت و معتبر تھیں کیونکہ عملی طور پر وہ مسلمان معاشرے کا حصہ بن چکی تھیں اور یہ بات بھی یاد رہے کہ فی الواقع شروع شروع میں آنحضرت ﷺ کی مکمل زندگی تحریری صورت میں نہیں ملتی لیکن اللہ کے رسولؐ کی زندگی (سنت) کے جن حصوں (احکامات) کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا، وہ فوری طور پر حضورؐ کی موجودگی میں لکھ لی گئی تھیں اور پھر تبع تابعین کے دور کے اختتام تک اسے خیر القرون کے معاشرتی تعامل سے تحریری شکل میں بھی مدوّن کرکے محفوظ کرلیا گیا۔


نوٹ

 

j      اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کے حوالہ سے یہ روایت بڑی اہم ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
                 ’’میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی نے اللہ کے رسولؐ کے پاس (علم دین حاصل کرنے) جانے کے لئے باری مقرر کرلی کہ ایک دن میں اللہ کے رسول  کے پاس جایا کروں گا اور ایک دن وہ۔ جب میری باری ہوتی تو میں وحی سے متعلقہ معلومات لے کر آتا تو اپنے ساتھی کو ان سے آگاہ کرتا اور جب اس کی باری ہوتی تو وہ بھی اسی طرح اللہ کے رسولؐ کے پاس جاتا اور جو وحی نازل ہوتی اس سے مجھے آکر آگاہ کرتا۔‘‘ (بخاری:۸۹)     …  مرتب
kحافظ ابن حجرؒ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔     (فتح الباری:۷؍۶)

lاسی طرح عبدالرزاق بن ہمام صنعانی ؒ جن کی احادیث و آثار پر مشتمل ایک جامع کتاب مصنف عبدالرزاق کے نام سے معروف ہے، یہ بھی ۱۲۶ھ تا ۲۱۱ھ یعنی خیرالقرون کے دور کے محدث ہیں۔ اسی طرح ابوبکر بن ابی شیبہ کی مصنف بھی اسی دور میںلکھی جاچکی تھی۔ کیونکہ ابن ابی شیبہ کی تاریخ وفات ۲۳۵ھ ہے۔ اسی طرح امام شافعی (۱۵۰ھ تا ۲۰۴ھ) کی حدیث کی کتاب بھی اس وقت لکھی جاچکی تھی اور آج بھی مذکورہ بالا تینوں کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی محدثین نے احادیث کی کتابیں اس دور میں تیار کرلی تھیں جن میں سے چند ایک آج بھی کتب خانوں میںموجود ہیں۔  (مرتب)

m علاوہ ازیں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر یہ شرط لگا دی جائے کہ صرف وہی چیز حجت و معتبر ہوتی ہے جو لکھی ہوئی ہو تو پھر بذاتِ خود قرآنِ مجید بھی اس شرط پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لئے کہ قرآن مجید غیر مکتوب شکل میں وقفہ دَر وقفہ تیئس ۲۳؍ سالوں میں اللہ کے رسولؐ کے دِل پر نازل ہوتا رہا اور آپؐ اسے پڑھتے تو صحابہ کرامؓ آپؐ سے سن کر اسے یاد کرلیتے۔ لہٰذا قرآنِ مجید کی موجودہ کتابی صورت آنحضرت  کے دور میں ہرگز ایسی نہ تھی بلکہ اسے آپؐ کی وفات کے بعد سب سے پہلے ابوبکرؓ اور پھر حضرت عثمان ؓ نے کتابی صورت میں جمع کیا۔          (مرتب)