انکارِ حدیث ... حق یا باطل؟

[ایک منکر ِحدیث کے شبہات کے جوابات]


کیا قرآن میں سب کچھ ہے اور حدیث کی ضرورت نہیں؟

انکارِ حدیث کے لئے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ تلاش کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفصیل بیان کردی گئی ہے، اس لئے حدیث کی ضرورت نہیں ۔اس کے ثبوت میں قرآن مجید کے متعلق تبيانا لکل شيء اور تفصيلا لکل شيء والی آیات پیش کی جاتی ہیں۔ جن کا مطلب توڑ مروڑ کر اور غلط ملط بیان کرکے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ کی تفصیل موجود ہے۔

1. منکرین حدیث اب ہمارا سوال سنیں؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بهیمة الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بهیمة الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بهیمة الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام...!

2. دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازکی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ پھر کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوں یا لٹکا کر؟ ایک پاؤں پرکھڑے ہوں یا دونوں پر ؟

لغت میں 'رکوع' کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں ، یا دائیں جھکیں یابائیں جھکیں؟پھر جھکنے کی مقدار کیا ہو؟ ذرا سا سرنیچا کریں یا کمر کے برابر نیچا کریں یا اس سے بھی زیادہ نیچا کریں؟پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ گھٹنوں پر ٹیکیں؟ یا دونوں رانوں کے بیچ میں رکھ کر بازؤوں کو ران پر ٹیکیں؟ یا ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں؟

اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ یعنی زمین پر سر کا کون سا حصہ ٹیکیں، پیشانی کا ٹھیک پچھلا حصہ یا دایاں کنارہ یا بایاں کنارہ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ رانوں میںگھسا لیں؟ یا زمین پرٹیکیں؟ اور اگر زمین پر ٹیکیں تو صرف ہتھیلی زمین پر ٹیکیں یا پوری کہنی زمین پر ٹیکیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟ ان سوالات کا آپ جو بھی جواب دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں۔ ان مسائل کے بارے میں آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی اور اگر قرآن سے ان سوالات کاجواب نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔

3. تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میںزکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انہیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کب کب وصول کی جائے؟ یعنی زکوٰۃ روز روز دی جائے؟ یا سال بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا پانچ سال یا دس سال یا بیس سال میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے اور کتنی کتنی دی جائے ؟ یعنی غلہ کتنا ہو تو اس میں زکوٰۃ دی جائے؟ اور کتنے غلہ پر کتنی زکوٰۃ دی جائے؟ سونا چاندی کتنی ہو تو زکوٰۃ دی جائے؟ اور کس حساب سے دی جائے؟

یہ سارے مسئلے قرآن سے ثابت کیجئے۔ اگر آپ قرآن میں یہ مسائل نہ دکھلا سکیں (اور ہرگز نہیں دکھلا سکتے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث ہی میں آیا ہے۔

4. چوتھا سوال: قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، ا س کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یافرق کیا جائے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنا ہتھیار، گھوڑا، تیر، کمان، نیزہ، بھالا، زرہ، خود، سواری کا جانور اور کھانے کا سامان خود لے کر جاتے تھے اور بعض کو اسلامی حکومت کی طرف سے یہ سامان فراہم کیا جاتا تھا۔

اسی طرح بعض لوگ بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑتے تھے، بعض دبکے رہتے تھے، کچھ اگلی صف میں رہتے تھے، جن پر براہِ راست دشمن کا وار ہوتا تھا۔ کچھ پیچھے رہتے تھے جو خطرہ سے دور رہتے تھے۔ اب اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتائیے۔ اور اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں؟ ا س کی دلیل دیجئے۔ اگر قرآن میں ان مسئلوں کا کوئی حل نہیں ہے تو کیسے کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سارے مسئلے بیان کردیئے گئے ہیں...!!

5. پانچواں سوال: قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھراسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر قرآن سے اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے توکیسے کہتے ہیں کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان کردیا گیا ہے۔

6. چھٹا سوال: قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کا ثبوت قرآن سے دیجئے۔ ورنہ تسلیم کیجئے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔

صاف بات یہ ہے کہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو باتیں ہم نے پوچھی ہیں، ان باتوں میں اور اسی طرح زندگی کے بہت سارے مسئلے میں تنہا قرآن سے کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ طریقہ صرف حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک حدیث کو نہ مانیں، خود قرآن پر بھی عمل نہیں کرسکتے۔ فی الحال یہی سوال پیش کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں۔

انکارِ حدیث کے اُصولی دلائل

اس ایک اصولی دلیل کا حال جان لینے کے بعد آئیے اب مدھوپوری محقق صاحب٭ کی زبانی چند اور اُصولی دلیلیں سنئے۔ اس کے بعد ہمارا جواب ملاحظہ فرمائیے۔ موصوف نے خود ہی سوال قائم کیا ہے اور خود ہی جواب بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں:

''سوال:دین میں مصطلح 'حدیث' کا کیا مقام ہے؟ جواب:کچھ نہیں،کیونکہ...

(ا) دین حق ہے اور ا س کی بنا علم و یقین پر ہے ۔ جس کی شہادت خود اللہ اور اس کے سچے فرشتے دیتے ہیں: ﴿لـٰكِنِ اللَّهُ يَشهَدُ بِما أَنزَلَ إِلَيكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلمِهِ ۖ وَالمَلـٰئِكَةُ يَشهَدونَ ۚ وَكَفىٰ بِاللَّهِ شَهيدًا ١٦٦ ﴾... سورة النساء

(ب) دین عملاً محمد رسول اللہ ﷺ والذین معہ کے ذریعہ بطریق احسن مکمل ہوچکا:﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة

(ج) دین لوحِ قرآن پر لفظاً لفظاً اور حرفاً حرفاً بدرجہ اکمل محفوظ ہوگیا ہے:

﴿بَل هُوَ قُر‌ءانٌ مَجيدٌ ٢١ فى لَوحٍ مَحفوظٍ ٢٢ ﴾... سورة البروج

برعکس اس کے ہماری حدیثیں سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں۔ دین سے اس کا کیا تعلق؟:﴿إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ٢٨﴾... سورة النجم"یعنی حق کے مقابلے میں 'ظن' کا کوئی مقام نہیں ہے: ﴿إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَما تَهوَى الأَنفُسُ ۖ وَلَقَد جاءَهُم مِن رَ‌بِّهِمُ الهُدىٰ ٢٣ ﴾... سورة النجم یعنی ''یہ لوگ محض 'ظن' کے پیچھے دوڑتے ہیں، دراصل وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کو ہدایت پہنچ چکی ہے۔'' اور ایک مقام پر تو خاص کرمؤمنوں کو خطاب کرکے زیادہ ظن و گمان سے کوسوں دور رہنے کا حکم صادر کردیا گیا ہے۔ بلکہ یہاں تک متنبہ کردیا گیا ہے کہ بعض قیاس آرائیاں'صریح' گناہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہیں۔﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اجتَنِبوا كَثيرً‌ا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ...١٢﴾... سورة الحجرات

وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں (جنہیں اقوالِ رسولؐ و اصحابِ رسول سے منسوب کیا جاتا تھا) کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو 'صحیح حدیث'کا نام دے دیا اور بعد والوں نے بعض دینی اور سیاسی مصالح کی بنا پراس کو ( بزعم خویش) جزوِ دین سمجھ لیا، اور اس طرح تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلیا۔ اس سے قبل یہی روایتیں جب تک زید، عمرووبکر کی زبانوں پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہیں، ان کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی، لیکن قید ِکتابت میں آنے اور ان پر 'صحیح'کا لیبل چپکانے کے بعد انہیں 'فلاں نے فلاں سے کہا' اور 'فلاں نے فلاں سے سنا'...

روایتوں کوبدقسمتی سے دین کی اصل واساس سمجھ لیا گیا، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ مجموعہ ہائے روایات زیادہ سے زیادہ ایک طرح کے نیم تاریخی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں اور بس۔ نیم تاریخی ہم نے اس لئے کہا کہ اولاً یہ فن ِتاریخ کے معیار پرپورے نہیں اُترتے، اور دوسرے یہ کہ ان کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں ہیں۔ نیز ان جھوٹی روایات اور فرضی واقعات کا عوام میں خوب خوب پرچار کرنے کے ذمہ دار بھی یہی وعاظ و قصاص کا گروہ رہا ہے۔

ہماری'حدیث' کا ایک دوسرا تاریک پہلوبھی ہے جو پہلے سے زیادہ افسوس ناک ہے۔ اور جسے 'اسلامی تاریخ' کا 'المیہ' کہنا چاہئے۔ مثلاً حدیث کے مجموعوں میں ایسی روایتیں بھی بکثرت ملتی ہیں جو الزام تراشی، دروغ بافی اور فحش نگاری کا مرقع ہیں ۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان مخرب اخلاق اور حیا سوز 'حدیثوں' کو منسوب کیا جاتا ہے قرآن کی برگزیدہ شخصیتوں کی طرف (جیسے خود آنحضرت ﷺ آپ کی ازواجِ مطہراتؓ، خصو صاً حضرت عائشہ صدیقہ ؓاور حضرت حفصہؓ اور اصحابِ رسول علیٰ الخصوص حضرت ابوبکر ؓ، عمر ؓاور عثمانؓ)۔ یا پھر سب و شتم کے تیر چلائے جاتے ہیں تو اگلی آسمانی کتابوںکی مثالی ہستیوں پر جیسے حضرت ابراہیم ؑ، یوسف ؑ، داؤد ؑ، سلیمان ؑ، اور مریم ؑ وغیرہم۔ غرض صحف ِاولیٰ کی منتخب شخصیتیں ہوں یا صحیفہ آخر کی پسندیدہ ہستیاں، کسی کی بھی عزت و آبرو راویانِ حدیث کی مشق ستم کا نشانہ بننے سے نہ بچ سکی: ﴿وَيلٌ يَومَئِذٍ لِلمُكَذِّبينَ ١٩ ﴾... سورة المرسلات

واضح رہے کہ یہ روایتیں مسیلمہ کذاب یا ملا معین واعظ کاشفی جیسے مشہور دروغ گویوں کی نہیں ہیں بلکہ عام مسلمانوں کے 'مایہ ناز' اور 'فخر روزگار' اماموں کے 'ثقہ' راویوں کی ہیں جو آج تقریباً ہزار سال سے ان کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں جو 'اصح الکتب بعد کتاب اللہ' اور 'مثلہ معہ' سمجھی جاتی رہی ہیں... وائے گر درپس امروز بود فروائے !''

ان 'تحقیقاتِ عالیہ' اور 'فرموداتِ طیبہ' کے بعد مدھو پوری 'محقق' صاحب ایک 'ٹھوس حقیقت' کا عنوان لگا کر مزید ارشاد فرماتے ہیں:

''ہم مکلف ہیں ایمان لانے کے اللہ اور اس کے رسولؐ پر۔ اور اللہ و رسولؐ پر ایمان لانے کے معنی ہیں اللہ کو حق جاننا اور محمدؐ (رسول اللہ) پرنازل شدہ کتاب (قرآن) کو ماننا۔ بخلاف اس کے محض سنی سنائی باتیں جو صدہا سال تک ہر کہ ومہ کی زبان پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہی ہوں اور بالآخر انہیں محدثین نے بالکل غیر ذمہ دارانہ ذرائع سے معلوم کرکے اپنے بیاض میں نقل کیا ہو، ایسی غیر مستند اور غیر یقینی روایتوں کو اس صادق و مصدوق کی طرف منسوب کرکے انہیں 'سنت' کا نام دینا اور ان پر ایمان لانے کے لئے مسلمانوں کو مجبور کرنا سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے۔

مروّجہ انجیل کا نسخہ جسے خود حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں نے قلم بند کیا تھا (جو سفر و حضر ہر حال میں آپؑ کے رفیق وہم جلیس رہ چکے تھے) اگر محض اس لئے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کام حضرت مسیح کی موجودگی میں نہیں بلکہ واقعہ رفع کے چالیس سال بعد انجام پایا تھا تو یہ روایتیں جنہیںنہ خود حضورؐ نے قلمبند کروایا نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کسی نے اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ حضور کے سینکڑوں سال بعد بعض عجمیوں نے زید، عمروو بکر سے پوچھ پوچھ کر لکھ لیا ہو، انہیں منزل من اللہ ماننے اور جزوِ دین قرار دینے کے لئے وجہ جواز کیا ہوسکتی ہے؟ اور یہ تدوین و ترتیب کے دوران تقویٰ و طہارت کا اہتمام یعنی ایک ایک روایت کو قلم بند کرنے سے پہلے تازہ غسل و وضو اور دو رکعت نفل ادا کرنے کا شاخسانہ نفسیاتی اعتبار سے ذہنوں میں روایتوں کی تقدیس و تکریم کا جذبہ خواہ کتنا ہی پیدا کرے لیکن نفس روایات کا جہاں تک تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ اگر انہیں آبِ زمزم سے بھی غسل و وضو کرکے لکھا گیا ہوتا تو بھی اس عمل سے ان کی صحت و سقم میں کوئی فرق نہیں آتا۔''

قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کا یقین کرنے کے لئے ہمیں رسول ؐ کی رسالت پر ایمان لانا ہوگا، بغیر آپ پر ایمان لائے قرآن کے کلام اللہ ہونے پر ہمارا ایمان لانا کسی درجہ میں معتبر نہ ہوگا۔ بعینہٖ اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسولؐ ماننے کے لئے ایک ایک روایت کے راوی پر ایمان لانا ہمارے لئے ناگزیر ہوگا بلکہ ہر روایت کے ہر سلسلہ اسناد میں جتنے راوی ہوں گے ہرایک پر بلا استثنا ایمان لاناہوگا۔ کیا ہمیں اللہ و رسولؐ کی طرف سے اِن اَن گنت اصحابِ اسماء الرجال پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے۔ اناللہ ...''

جواب

مدھو پوری 'محقق' صاحب کا 'سرمایۂ تحقیقات' ختم ہوا۔ اب آئیے اس پر ہمارا تبصرہ اور جائزہ ملاحظہ فرمائیے۔ ہم نے اس کے جواب میں انہیں لکھا تھا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور اس دعویٰ کی آپ نے اپنے خیال میں دو دلیلیں لکھی ہیں۔ دوسری دلیل پر تو ہم آگے گفتگو کریں گے۔پہلی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کی بنا علم و یقین پر ہے، احادیث ظنی ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے وہ آیات نقل کی ہیں جن میں ظن کی مذمت کی گئی ہے۔ اور ظن سے بچنے کا حکم دیا گیاہے۔ آپ کی یہ حرکت دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ حضرات نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ اس کو سمجھنے کا سلیقہ ہی رکھتے ہیں!!

شریعت میں ظنّ اور ظنّیات کی حیثیت

جنابِ عالی! قرآنِ مجید میں صرف ظن کی مذمت ہی نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ اسے اختیار کرنے کا حکم بھی دیاگیا ہے اور اسے مدار نجات بھی قرار دیا گیا ہے۔ سنئے، فرمایا گیا ہے:

﴿لَولا إِذ سَمِعتُموهُ ظَنَّ المُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بِأَنفُسِهِم خَيرً‌ا وَقالوا هـٰذا إِفكٌ مُبينٌ ١٢ ﴾... سورة نور

''جب تم لوگوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام کے واقعہ کو سنا تو مؤمن مردوں اور مؤمنہ عورتوں نے اپنے نفسوں کے ساتھ اچھا ظن کیوں نہ قائم کیا؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ کھلی ہوئی جھوٹی تہمت ہے۔ ''

غور فرمائیے! اس میں صرف 'ظن'کو اختیار ہی کرنے کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر ایک معاملہ کے بارے میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کا بھی مطالبہ ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا:

﴿وَاستَعينوا بِالصَّبرِ‌ وَالصَّلو‌ٰةِ ۚ وَإِنَّها لَكَبيرَ‌ةٌ إِلّا عَلَى الخـٰشِعينَ ٤٥ الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلـٰقوا رَ‌بِّهِم وَأَنَّهُم إِلَيهِ ر‌ٰ‌جِعونَ ٤٦ ﴾... سورة البقرة

''صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو اور بے شک یہ بھاری ہے مگر ان ڈرنے والوں پرجو یہ 'ظن' رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے ربّ سے ملنا ہے اور یہ کہ وہ اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے۔''

گویا قیامت کے وقوع اور اللہ سے ملاقات کا 'ظن' رکھنا ایمان کی علامت ہے۔ ایک اور مقام پرارشاد ہے :

﴿أَلا يَظُنُّ أُولـٰئِكَ أَنَّهُم مَبعوثونَ ٤ لِيَومٍ عَظيمٍ ٥ ﴾... سورة المطففين

''کیا وہ لوگ ظن نہیں رکھتے کہ وہ ایک بڑے دن کے لئے اٹھائے جائیں گے؟''

گویا بعث کا ظن نہ رکھنا عدمِ ایمان کی علامت ہے اور ڈنڈی مارنے جیسی برائیوں کا سبب ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے:

﴿فَأَمّا مَن أوتِىَ كِتـٰبَهُ بِيَمينِهِ فَيَقولُ هاؤُمُ اقرَ‌ءوا كِتـٰبِيَه ١٩ إِنّى ظَنَنتُ أَنّى مُلـٰقٍ حِسابِيَه ٢٠ فَهُوَ فى عيشَةٍ ر‌اضِيَةٍ ٢١ فى جَنَّةٍ عالِيَةٍ ٢٢ ﴾.. سورة الحاقة

'' قیامت کے دن جس شخص کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ کہے گا: آؤ میری کتاب پڑھو۔ میںظن رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب سے ملوں گا۔ پھر وہ پسندیدہ زندگی یعنی بلند وبالاجنت میں ہوگا۔''

لیجئے جناب! یہاں ایک 'ظنی' عقیدے پرجنت مل رہی ہے اور آپ ظن اور ظنیات کو جہنم میں دھکیلنے پرتلے بیٹھے ہیں۔ حضرت داوٗد علیہ السلام نے ظن کی بنیادپر توبہ و استغفار کیا تو ان کے اس عمل کو مدح وتعریف کے سیاق میں ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے:

﴿وَظَنَّ داوۥدُ أَنَّما فَتَنّـٰهُ فَاستَغفَرَ‌ رَ‌بَّهُ وَخَرَّ‌ ر‌اكِعًا وَأَنابَ ٢٤﴾... سورة ص

''داؤد نے یہ ظن کیا کہ ہم نے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے پس انہوں نے اپنے ربّ سے مغفرت مانگی اور رکوع کرتے ہوئے گر پڑے اور اللہ کی طرف جھک گئے۔''

آپ ظنی چیزکا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتے اور قرآن ظن پر دین کے ایک حکم کادارو مدار رکھتا ہے، ارشاد ہے: ﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَر‌اجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ...٢٣٠ ﴾... سورة البقرة

یعنی ''مطلقہ ثلاثہ کا دوسرا شوہر اگر طلاق دے دے تو (پہلے شوہر اور اس کی مطلقہ) ان دونوں پر کوئی حرج نہیںکہ آپس میں تراجع کرلیں (یعنی پھر بذریعہ نکاح اکٹھے ہوجائیں) اگر یہ ظن کریں کہ وہ دونوں اللہ کے حدود قائم کرسکیں گے۔''

غزوئہ تبوک میں جو تین مؤمنین خالصین بلا عذر شریک نہ ہوئے تھے، ان کی توبہ بھی جس مرحلے کے بعد قبول کی گئی، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے:

﴿وَعَلَى الثَّلـٰثَةِ الَّذينَ خُلِّفوا حَتّىٰ إِذا ضاقَت عَلَيهِمُ الأَر‌ضُ بِما رَ‌حُبَت وَضاقَت عَلَيهِم أَنفُسُهُم وَظَنّوا أَن لا مَلجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلّا إِلَيهِ ثُمَّ تابَ عَلَيهِم لِيَتوبوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوّابُ الرَّ‌حيمُ ١١٨ ﴾... سورة التوبة

''اور اللہ نے ان تین افراد کی توبہ بھی قبول کی جنہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا یہاںتک کہ جب ان پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی اور ان کی جان پر بن آئی اور انہوں نے یہ ظن قائم کرلیا کہ اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع کیا تاکہ وہ توبہ کریں۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔''

لیجئے جناب! کتنی صاف بات ہے کہ جب ان پیچھے رہ جانے والوں نے حالات کی سختی کا مزا چکھ لیا اور یہ 'ظن' قائم کرلیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ نے ان کی توجہ قبول کرلی۔ یعنی انہیں اللہ کی رحمت و مغفرت ان کے اسی ظن کے نتیجہ میں حاصل ہوئی۔

یہ تو یہ؛ اسلام نے اسلامی عدالت کے تمام فیصلوں کی بنیاد صرف دو عادل گواہوں پر رکھی ہے، اس سے صرف زنا کا کیس مستثنیٰ ہے۔ لیکن ان دو عادل گواہوں کی عدالت و ثقاہت کس درجہ کی ہوگی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ نماز کے بعد اللہ کی قسم اور اپنے ا خلاص کا واسطہ دے کر گواہی دے رہے ہوں، تب بھی قرآن نے ان کے بارے میں اس احتمال کو قبول کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لے سکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ : ۱۰۶ تا ۱۰۸

بلکہ گواہی کے سلسلے میں مزید ایک قانونی شق یہ رکھی ہے کہ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہوگی ( البقرۃ:۲۸۳) ...اور خو د ہی یہ بھی بتلا دیا ہے کہ عورتوں کی تعداد ایک کے بجائے دو اس لئے رکھی جارہی ہے کہ﴿أَن تَضِلَّ إِحدىٰهُما فَتُذَكِّرَ‌ إِحدىٰهُمَا الأُخر‌ىٰ...٢٨٢ ﴾... سورة البقرة''اگر ایک عورت معاملہ کوبھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔'' یعنی ایسی گواہی بھی قبول کی جائے گی جو خود گواہی دینے والے کو یاد نہیں ہے۔ بلکہ گواہی دینے والا انسان دوسرے کی یاد دہانی کی بنیاد پر گواہی دے رہا ہے۔

کہئے جنابِ عالی! اس قسم کی گواہی 'یقینیات' کے کس درجہ سے تعلق رکھتی ہے؟ اور یہ ڈھیل تو رہی نظامِ عدالت کے سلسلے میں، باقی رہیں خبریں تو ان کے سلسلے میں اس سے بھی زیادہ وسعت اور گنجائش رکھی گئی ہے۔ حکم دیا گیا : ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا...٦ ﴾... سورة الحجرات ''اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلو... الخ'' اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب تقویٰ اور صالح آدمی خبر لائے تو تحقیق بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔

جنابِ محترم! جب قرآن میں نہ صرف ظن کی تعریف کی گئی ہو بلکہ اس پر دین کے بعض احکامات کا دارومدار رکھا گیا ہو، اسی پر پورے نظامِ عدالت کی بنیاد رکھی گئی ہو، اسی ظن کی بنیاد پر فیصلہ کن رائے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو، اسی ظن کے تحت توبہ و استغفار کرنے والوں کی بخشش کی گئی ہو حتیٰ کہ اسے آخرت میں نجات کا سبب قرار دیا گیا ہو تو آپ کو یہ بات کہاں تک زیب دیتی ہے کہ آپ احادیث پر 'ظنی' ہونے کی پھبتی چست کریں۔ آپ دوسروں کو تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن سے محروم قرار دیتے ہیں، دراں حالے کہ اس محرومی کے شکار درحقیقت آپ خود ہیں۔ محترم کہنا پڑتا ہے کہ ایاز قدر خود بشناش

شاید آپ اس موقع پر لغت کھول کر بیٹھ جائیں اور چیخنا چلانا شروع کردیں کہ دیکھو یہ شخص 'ظن' کے مختلف معانی کو ایک د وسرے کے ساتھ گڈ مڈ کررہا ہے۔اس لئے میں آپ کی اس چیخ پکار سے پہلے ہی یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ کارِخیر میں نہیں، آپ انجام دے رہے ہیں۔ آخر اس سے بڑھ کر دھاندلی اور زبردستی کیا ہوسکتی ہے کہ آپ قرآن کی ان تمام آیات اور اسلام کے اس سارے نظام کو پس پشت ڈال دیں جن میں 'ظن' کو دین اسلام کا جزوِلاینفک قرار دیا گیا ہے اور قرآن کی دو تین آیتوں کو پیش کرکے لفظ 'ظن' کے مفہوم کو غلط رنگ دیتے ہوئے یہ فیصلہ ٹھونک دیں کہ 'ظن' کے لئے دین میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے ذخیرۂ احادیث جو یکسر ظنی اور غیر یقینی ہے، اس کا دین میں کوئی مقام نہیں۔ بتائیے ! ہم نے جو آیات پیش کی ہیں،ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پراس کے سوا کیا کہا جائے کہ ؎

آں کس کہ نداندو بداند کہ بداند     درجہل مرکب ابدالدہر بماند


دین کے مکمل ہونے کا مطلب

حدیث کے بے حیثیت اور بے مقام ہونے کے سلسلے میں آپ کی دوسری دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ

دین عملاً محمد رسول اللہ والذین معه کے ذریعہ مکمل ہوچکا ہے۔ اور قولاً لوحِ قرآن میں محفوظ ہوگیا ہے۔

غالباً آپ کے اس 'فنکارانہ' استدلال کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ سے یہ سوال کردیا جائے کہ محمد رسول اللہ والذین معه کے ذریعہ عملاً جو دین مکمل ہوچکا ہے، اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہوں گی تو آپ جھٹ کہہ دیں گے کہ قرآن میں۔ ممکن ہے آپ نہ کہیں لیکن آپ کے دوسرے ہم خیال حضرات یہی کہتے ہیں۔اس لئے میں آپ کی توجہ اپنے ان سوالات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو اسی مضمون کے شروع میں درج ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ

٭ قرآن میں جن جانوروں کو حرام اور جن کو حلال قرا ردیا گیا ہے، انکے علاوہ بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟

٭ نماز کے متعلق قرآن میں جو چند چیزیں مذکور ہیں، ان کے علاوہ نماز کے بقیہ حصوں کی ترکیب کیا ہے؟

٭ زکوٰۃ کم از کم کتنے مال پر فرض ہے؟ کتنے فیصد فرض ہے؟ اور کب کب فرض ہے؟

٭ مال غنیمت کی تقسیم مجاہدین پر کس تناسب سے کی جائے؟

٭ چور کے دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک ؟

٭ جمعہ کی نماز کے لئے کب اور کن الفاظ میں پکارا جائے؟ اور وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟

ان سوالات کو ایک بار غور سے پڑھ لیجئے اور بتائیے کہ اس سلسلے میں 'رسول اللہ ﷺ والذین معہ' کا عمل کیا تھا؟ اور اس عمل کی تفصیلات کہاں سے ملیں گی؟ اگر قرآن میں ملیں گی تو کس سورہ، کس پارے، کس رکوع اور کن آیات میں؟ اور اگر قرآن میں یہ تفصیلات نہیں ہیں۔ اور یقینا نہیں ہیں تو قرآن کے بعد وہ کون سی کتابیں ہیں جو آپ کے 'معیار' پر صحیح ہیں اور ان میں یہ تفصیلات بھی درج ہیں؟

قرآن تو بڑے زور شور سے کہتا ہے کہ جو اللہ سے اُمید رکھتا ہے اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ کے نمونے پرچلے: ﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌...٢١ ﴾... سورة الاحزاب" اور یہاں یہ حال ہے کہ جو مسائل پیش آتے ہیں، ان میں رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ ملتا ہی نہیں۔ اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو آپ اسے 'ایرانی سازش' کے تحت گھڑا گھڑایا افسانہ قرار دیتے ہیں جن پر تقدس کا خول چڑھا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا گیا ہے، ورنہ دین میں ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی چاہنے والے بے چارے کریں تو کیا کریں؟

ع خداوندا ! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں...؟


اس سلسلے میں سوالات اس کثرت سے ہیں کہ انہیںدرج کرتے ہوئے آپ کے ملولِ خاطر کا اندیشہ ہے، اس لئے اتنے پر اکتفا کرتا ہوں ؎

اند کے باتو بگفتم و بدل تر سیدم    کہ آزردۂ دل نہ شوی ورنہ سخن بسیار است


میری ان گذارشات سے یہ حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجاتی ہے کہ یہ ساری دشواریاں اور پیچیدگیاں اس لئے پیش آرہی ہیں کہ سورئہ مائدہ کی آیت ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم﴾ اور سورئہ بروج کی آیت ﴿بَل هُوَ قُر‌ءانٌ مَجيدٌ ٢١ ﴾... سورة البروج" کا مفہوم سمجھنے میں آپکے تدبر فی القرآن اور تفقه في الدین کا طائر پندار حقائق کی دنیا سے بہت دور پرواز کرگیا ہے۔

روایت بالمعنی

اب آئیے! آپ کے چند اور 'فرموداتِ عالیہ' پر گفتگو ہوجائے، آپ نے حدیثوں کی بابت لکھا ہے کہ ''یہ سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں۔'' یہ معلوم ہی ہے کہ 'غیریقینی' کا لفظ 'ظنی' کی تفسیر ہے اور ظن کے سلسلے میں میں اپنی گذارشات پیش کرچکا ہوں۔ رہا 'روایت بالمعنی' کا معاملہ تو سن لیجئے کہ روایت بالمعنی اگر کوئی جرم ہے تو اس جرم کا سب سے بڑا مجرم (نعوذ باللہ) خود قرآن ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، ہود ؑاور ان کی قوم کا مکالمہ، صالح ؑ اور قومِ ثمود ؑ کا مکالمہ، ابراہیم اور لوط علیہما السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، حضرت شعیب ؑ اور اہل مدین و اصحاب الایکہ کا مکالمہ، حضرت موسیٰ کا فرعون سے، بلکہ جادوگروں سے اور بنی اسرائیل سے مکالمہ، اور حضرت عیسیٰ کے مواعظ و مکالمے، کیا یہ سب انہی الفاظ اور عبارتوں میں تھے، جن الفاظ اور عبارتوں کے ساتھ قرآن میں درج ہیں؟ کیا آپ اس تاریخی حقیقت کا انکار کرسکتے ہیں کہ ان پیغمبروں اور ان کی قوموں کی زبان عربی نہیں تھی...!!؟

قرآن میں ایک ہی بات کہیں کچھ الفاظ و عبارت میں ادا کی گئی ہے تو کہیں دوسرے الفاظ و عبارت میں۔ کہیں مختصر ہے کہیں مطو ل، بلکہ کہیں ایک جز مذکور ہے تو کہیں دوسرا جز۔ پس اگر ایک بات کے بیان کرنے میں الفاظ و عبارت، اجمال و تفصیل اور اجزائِ گفتگو کے ذکر و عدمِ ذکر کا اختلاف اور روایت بالمعنی کوئی عیب ہے تو سب سے پہلے قرآن مجید کو اس عیب سے (نعوذ باللہ) پاک کیجئے۔ اور اگر نہیں تو پھر حدیث کے روایت بالمعنی ہونے پر آپ کو اعتراض کیا ہے؟ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قرآن تو روایت بالمعنی سے بھرا ہوا ہے، پھر بھی یقینی کا یقینی اور احادیث کے متعلق جوں ہی آپ کے کان میں یہ آواز پہنچے کہ اس میں کچھ احادیث روایت بالمعنی بھی ہیں، بس آپ شور مچانے لگیں کہ ہٹاؤ ان احادیث کو، یہ روایت بالمعنی کی گئی ہیں۔ ان کا کیا اعتبار، اور دین سے ان کا کیا تعلق...؟

ایرانی سازش کا بدبودار افسانہ

قرآنی آیات کو آپ نے اپنی مزعومہ خرافات کے گرد طواف کرنے کے بعد اس بڑے بول کا اظہار کیا جسے منکرین حدیث کے گرگانِ باراں دیدہ اپنے سردو گرم چشیدہ یہودی صلیبی مستشرق اساتذہ کی تقلید میں بولتے آئے ہیں اور جس کے متعلق ہرصاحب ِبصیرت بے کھٹک کہہ سکتا ہے کہ ﴿كَبُرَ‌ت كَلِمَةً تَخرُ‌جُ مِن أَفو‌ٰهِهِم ۚ إِن يَقولونَ إِلّا كَذِبًا ٥﴾... سورة الكهف ''بڑا بول ہے جوان کے منہ سے نکل رہا ہے، وہ سراپا جھوٹ بک رہے ہیں۔'' اِن کے اِس بول کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ درحقیقت ایرانیوں کی سازش اور قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی من گھڑت حکایات کا مجموعہ ہے۔

آپ کے اس دعویٰ کا پردہ فاش کرنے سے پہلے میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ اس عجمی سازش اور داستان سراؤں کی گھڑنت کا پتہ آپ نے کس طرح لگایا؟ آپ کے ذرائع معلومات کیا ہیں؟ اور آپ کے پاس اس پر شور دعویٰ کی کیا دلیل ہے؟ کیونکہ دعویٰ بلا دلیل قبول خرد نہیں!

آپ لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ دعویٰ تو کرتے ہیں اس قدر زوروشور سے، اور ایسے اونچے آہنگ کے ساتھ اور دلیل کے نام پر ایک حرف نہیں۔ کیا اسی کا نام تدبر فی القرآن ہے؟ اور اسی کو تفقہ فی الدین کہتے ہیں...؟

آپ فرماتے ہیں کہ ''وفاتِ نبوی کے سینکڑوں برس بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی سنی سنائی اٹکل پچو باتوں کو جمع کرکے انہیں صحیح حدیث کا نام دے دیا۔'' ملخصاً

میں کہتا ہوں کہ آئیے، سب سے پہلے یہی دیکھ لیں کہ ان مجموعہ ہائے احادیث کو جمع کرنے والے ایرانی ہیں بھی یا نہیں؟ سن وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃِ حدیث میں سر فہرست ابن شہاب زہری، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ کے نامِ نامی آتے ہیں۔ یہ سب کے سب، سب سے معزز عربی خاندان قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور آخر الذکر تو اسلامی تاریخ کے پانچویں خلیفہ راشد کی حیثیت سے معلوم و معروف ہیں۔

اسی طرح دورِ اوّل کے مدوّنین ِحدیث میں سرفہرست امام مالکؒ ہیں۔ پھر امام شافعیؒ اور ان کے بعد امام احمد بن حنبلؒ، ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے احادیث پوری اُمت میںمتداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ امام مالکؒ قبیلہ ذی اَصبح سے، امام شافعی ؒقریش کی سب سے معزز شاخ بنوہاشم سے ، اور امام احمد ؒ قبیلہ شیبان سے۔

یہ بنو شیبان وہی ہیں جن کی شمشیر خاراشگاف نے خورشید ِاسلام کے طلوع ہونے سے پہلے ہی خسرو پرویز کی ایرانی فوج کو 'ذی فار' کی جنگ میں عبرتناک شکست دی تھی۔ اور جنہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں ایرانی سازش کے تحت برپا کئے گئے ہنگامہ ارتداد کے دوران نہ صرف ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا بلکہ مشرقی عرب سے اس فتنے کو کچلنے میں فیصلہ کن رول ادا کرکے عربی اسلامی خلافت کو نمایاں استحکام عطا کیا تھا۔ اور پھر جس کے شہپر و شہباز مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کی شمشیر خارا شگاف نے کاروانِ حجاز کے لئے فتح ِایران کا دورازہ کھول دیا تھا۔

آخر آپ بتلا سکتے ہیں کہ یہ کیسی ایرانی سازش تھی جس کی باگ دوڑ عربوں کے ہاتھ میںتھی؟ جس کا سرپرست عربی خلیفہ تھا اور جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی ایسی نمایاں ترین عربی شخصیتوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ جن میں سے بعض بعض افراد کے قبیلوں کی ایران دشمنی چار دانگ عالم میں معروف تھی؟ کیا کوئی انسان جس کا دماغی توازن صحیح ہو، ایک لمحہ کے لئے بھی ایسے بدبودار افسانہ کو ماننے کے لئے تیار ہوسکتا ہے؟

دو رِ اوّل کے بعدآئیے دورِ ثانی کے جامعین ِحدیث پر نگاہ ڈالیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری ہیں جن کا مسکن 'بخارا' تھا۔ بخارا ایران میں نہیں بلکہ ماوراء النہر (ترکستان) میں واقع ہے۔ دوسرے اور تیسرے بزرگ امام مسلم اور امام نسائی ہیں۔ان دونوں حضرات کا تعلق نیشا پور کے علاقے سے تھا اور نیشاپور ایران کا نہیں بلکہ خراسان کا جز تھا۔ اگر اس پر ایران کا اقتدار رہا بھی ہے تو اجنبی اقتدار کی حیثیت سے۔ چوتھے اور پانچویں بزرگ امام ابوداؤد اور امام ترمذی تھے۔ اول الذکر کا تعلق سجستان (خراسان) سے، ثانی الذکر کا تعلق ترمذ (ماوراء النہر، ترکستان) سے رہا ہے۔ چھٹے بزرگ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک طبقہ ابن ماجہ کی سنن کو صحاحِ ستہ میںشمار کرکے انہیں استناد کا یہ مقام دیتا ہے، دوسرا طبقہ سنن دارمی یا مؤطا امام مالک کو صحاحِ ستہ میں شمار کرتا ہے۔ امام ابن ماجہ یقینا ایرانی ہیں لیکن ان کی تصنیف سب سے نیچے درجے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ا کثر محدثین اسے لائق استناد ماننے کو تیا رنہیں۔ آخر الذکر دونوں حضرات عربی ہیں۔ امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی بھی عربی ہیں۔

کیا محدثین عجمی تھے؟

یہ حقیقت اچھی طرح یاد رہے کہ جن محدثین نے احادیث کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے، ان سب کو یا ان کی اکثریت کو عجمی قرار دینا محض فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج حدیث کی جو کتابیں اُمت میںرائج، مقبول اور متداول ہیں، چند ایک کے سوا، سب کے مصنّفین [مؤلفین] عرب تھے۔ ہم ذیل میں اس طرح کے عرب محدثین کی فہرست دے رہے ہیں تاکہ واقعی حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجائے :

عرب محدثین        قبیلہ

1۔ امام مالکؒ ۱۷۹ھ        ذی اصبح

2۔امام شافعیؒ ۲۰۴ھ      قریش

3۔امام حمیدیؒ ۲۱۹ھ       قریش

4۔ امام اسحق بن راہویہؒ۲۳۸ھ بنوتمیم

5۔ امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱ھ بنو شیبان

6۔ امام دارمیؒ ۲۵۵ھ بنو تمیم

7۔ امام مسلمؒ ۲۶۱ھ بنو قشیر

8۔ امام ابوداودؒ ۲۷۵ھ بنواَزد

9۔ امام ترمذیؒ ۲۷۹ھ بنوسلیم

10۔ حارث بن ابی اسامہؒ ۲۸۲ھ بنوتمیم

11۔ امام ابوبکر بزارؒ ۲۹۲ھ بنواَزد

12۔ امام نسائی ؒ ۳۰۳ھ ...

13۔امام ابویعلیؒ ۳۰۷ھ بنوتمیم

14۔ امام ابوجعفر طحاویؒ ۳۲۱ھ بنواَزد

15۔ امام ابن حبانؒ ۳۵۴ھ بنوتمیم

16۔ امام طبرانی ؒ ۳۶۰ھ لخم

17۔ امام دارقطنیؒ ۳۸۵ھ ...

18۔ امام حاکم ؒ ۴۰۵ھ بنوضبہ

اس فہرست سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن محدثین کی کتابیں رائج اور مقبول ہیں ان میں ۱۸ عرب اور صرف ۴ عجمی ہیں۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی رفیق دارالمصنّفین،اعظم گڑھ نے پہلی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے محدثین سے لے کر آٹھویں صدی کے آخر تک وفات پانے والے مشہور اور صاحب ِتصنیف محدثین کا تفصیلی ذکر 'تذکرۃ المحدثین' نامی کتاب کی دو جلدوں میں کیا ہے۔ ان محدثین کی کل تعداد ستر ہوتی ہے۔ جن میں سے صرف ۱۲ محدثین کے متعلق یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حدیث کو عجمی یا ایرانی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے اور یہ نعرہ کس قدر پرفریب ہے۔

اسی کے ساتھ اگر یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کتب ِاحادیث کے لکھنے والوں میں پیشرو اور سرفہرست عرب محدثین ہیں۔ عجمی محدثین ان کے بعد ہیں۔ پھر ان عجمی محدثین نے اپنی کتابوں میں جو حدیثیں جمع کی ہیں، وہ وہی حدیثیں ہیںجنہیں ان کے پیشرو اور ہم عصر عربوں نے اپنی کتابوں میں جمع کیا ہے تو مذکورہ بالا حقیقت مزید اچھی طرح بے نقاب ہوجاتی ہے۔

اب آپ بتائیے کہ آخر عربوں کے خلاف یہ کیسی سازش تھی جس کے دورِ اول کے تمام بڑے بڑے لیڈر عربی تھے اور عربوں کے بعد ترکستانی اور خراسانی تھے جو نسلاً عربی تھے۔ اور اگر عربی نہ بھی تسلیم کریں تو پھر ایرانیوں سے کدور قابت رکھتے تھے اور انہوں نے سازش کا سارا مواد اپنے پیشرو عرب لیڈروں سے حاصل کیا تھا۔ اگر بدقسمتی سے اس دور کے 'سازشی ٹولے' میں ایک آدھ ایرانی نے شریک ہوکر ان کی کفش برداری اور خوشہ چینی کی بھی تو اس کوکوئی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ یا تو اس کی تصنیف کو درجہ استناد ہی نہیں دیا گیا۔ یا دیا بھی گیا تو سب سے نچلے درجہ کا...؟

یہ بھی بتلا دیجئے کہ آخر یہ کیسی 'ایرانی سازش' تھی کہ 'سازشی ٹولے' اور ان کے سیاسی آقاؤں کے درمیان برابر ٹھنی رہتی تھی؟ کسی کو شہر بدر کیاجارہا ہے، کسی پر شہر کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، کسی کو حوالہ زنداں کیا جارہا ہے، کسی پر کوڑے برس رہے ہیں، کسی کی زخمی پیٹھ پر زہریلے پھائے لگائے جارہے ہیں،کسی پاؤں میں بیڑیاں پہنائی جارہی ہیں، کسی کے کندھے اُکھڑوا کر گدھے پر بٹھایا جارہا ہے اور شہر میں گشت کرایا جارہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور ہورہا ہے!!

پھر 'سازشی ٹولہ' بھی کیسا ہے کہ اپنے آقاؤں سے ذرا دبتا نہیں؟ ان کے مقابل میں اکڑا ہوا ہے۔ ان کے بچوں کے لئے سپیشل کلاس لگانے پر آمادہ نہیں۔ عام درس میں نمایاں اور مخصوص جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ان کے ہدایا اور تحائف کو پوری بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے اور ان کے دربار میں بھول کر بھی حاضر نہیں ہوتا۔ اگر کبھی حاضری کے لئے مجبور بھی کیا جاتا ہے تو وہ کھری کھری سناتا ہے کہ بلائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔کیا یہی 'لچھن' ہوتے ہیں سازشیوں کے...؟

آخر یہ کیسا نادان 'سازشی ٹولہ' تھا کہ جن سیاسی مصالح کے حصول کے لئے اس نے اتنی خطرناک سازش رَچائی تھی، انہی سیاسی مصالح کے خلاف برسرپیکار رہا اورا س رستے میں جو جو مصیبتیں جھیلنی پڑیں نہایت ہی استقلال کے ساتھ جھیلتا رہا۔

اس 'ایرانی سازش'کا ایک اور پہلو بھی خاصا دلچسپ ہے۔ اس سازشی ٹولے کی جمع کی ہوئی کتب احادیث میں ایسی احادیث بھی ہیں جن میں قبیلوں، قوموں اور ملکوں کے فضائل و مناقب یا خرابیاں اور کمزوریاں بھی بیان کی گئیں ہیں۔ اس قسم کی احادیث میں حجاز کو 'دین کی پناہ گاہ' کہا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ)۔ یمن کو 'ایمان و حکمت کا مرکز' قرار دیا گیا ہے (ایضاً)... شام کو اسلام کی چوٹی کی 'شخصیتوں کامرکز'،' اللہ کی منتخب کی ہوئی زمین' اور 'اسلام کامستحکم قلعہ' کہا گیا ہے اور اس کے لئے دعائیں کی گئی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابوداوٗد، ترمذی، مسنداحمد)

آپ کو معلوم ہے کہ مشرق کو عموماً اور ایرانیوں کے مرکز ِاقتدار (عراق) کو خصوصاً، احادیث میں کیامقام عطا ہوا ہے؟ اسے فتنہ و فساد کا مرکز اور اُجڈوں اور اَکھڑوں کامسکن قرار دیا گیا ہے۔اس پر قدرتی آفات اور تباہیوں کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور اسے ابلیس کی قضائے حاجت کا مقام بتلایا گیا ہے۔ (بخاری، طبرانی وغیرہ)۔ اگر ایک آدھ حدیث میں اہل ایران سے متعلق کوئی فضیلت آبھی گئی ہے تو صرف چند افراد کے لئے رجال من ھولاء

بتائیے! آخر یہ کیسے 'بدھو' قسم کے 'سازشی' لوگ تھے کہ سارے فضائل و کمالات تو عطا کردیے اپنے عرب دشمنوں کو؟ اور ساری پستی اور خرابی منتخب کرلی، اپنے لئے اور اپنے آقاؤں کے لئے؟ کیاسازش اسی طرح کی جاتی ہے؟ اور کیا ایسی ہی اُلٹی سیدھی تدبیروں سے سیاسی بالادستی حاصل ہوتی ہے؟

بریں عقل و دانش بباید گریست


آئیے آپ کو ایک اور حقیقت کی طرف متوجہ کروں۔ جسے مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ،گوجرانوالہ نے لکھا ہے ، لکھتے ہیں:

''پھر آپ نے کبھی اس پر بھی غور فرمایا کہ اسلامی حکومت سرزمین حجاز سے شروع ہو کر اقطارِ عالم تک لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ آپ یہ سوچیں آپ کو صلح سے کوئی ملک ملا۔ خود سرزمین حجاز میںقد قدم پر لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ مکہ پر فوج کشی کی ضرورت ہوئی۔نجد لڑائی سے ملا۔ شام ، عراق، حبش، یمن کے بعض علاقوں پر لڑنا پڑا۔ سمندر کے ساحلی علاقوں پر جنگیں ہوئیں۔

آنحضرت ﷺ کو اپنی زندگی میں کم و بیش بیاسی جنگیں لڑنا پڑیں۔ پھر یہ جنگوں کا سلسلہ خلیفہ ثالث کی حکومت کے درمیانی ایام تک جاری رہا۔پھر خلیفہ ثالث کے آخری دور سے شروع ہوکر حضرت علیؓ کا پورا زمانہ قریب قریب باہمی آویزش کی نذر رہا۔ ۴۱ھ کے بعد جوں ہی ملک میں امن قائم ہوا، خلفاے بنی اُمیہ نے شخصی کمزوریوں کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہندوستان، اندلس، بربر، الجزائر، تمام علاقے جنگ ہی سے اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے۔

پھر آپ کے قلم اور دماغ نے سازش کا نزلہ صرف 'فارس' پرکیوںگرایا؟ محض ملک گیری اور فتوحات کی بنا پر بغاوتیں، سازشیں تصنیف کی جاسکتی ہیں تو حجازی سازش، ہندوستانی سازش، بربری اور اندلسی سازش کیوں نہیں بنائی گئی؟ کیا شام کے یہودی معصوم، عراق اور روم کے مشرک اور عیسائی فارسیوں سے زیادہ پاک باز تھے؟ ان کی حکومتیں مسلمانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ نہیں اُتریں؟ مصر میں اسلامی فتوحات سے قبطی اور مصری قوموں کا وقار پامال نہیں ہوا۔ پھر آپ مصری سازش کے متعلق کیوں نہیں سوچتے؟

اگر عقل کا دیوالیہ نہیں دے دیا گیا تو اپنی فتوحات کی پوری تاریخ پر غور فرمائیے۔ چین کے سوا شاید ہی کوئی ملک ہے جہاں مسلمانوں کے خون نے زمین کو لالہ زار نہ کیا ہو۔ مغربی سمندر کے سواحل پر آپ کی فوجیں برسوں لنگر انداز رہیں۔ ان لوگوں پر آپ کو سازش کا شبہ کیوں نہیں؟ آپ اُلٹا خود ہی ان کی سازش کا شکار ہوگئے...!!

غزالی، ابن مکرم، ابن عربی ، ابن العربی، شاطبی، ابن حزم، یحییٰ بن یحییٰ مصمودی وغیرہم، قرطبہ اور اندلس کے علما کو سازشی نہیں کہا جاتا۔ اگر خراسان، بخارا، قزوین، ترمذ، نساء کے علما پرحدیث سازی کی تہمت اس لئے لگائی گئی ہے کہ ان بزرگوں نے سنت کے پرانے تذکروں، صحابہ اور تابعین کی بیاضوں اور سلف اُمت کے مسودات سے تدوین حدیث کے لئے راہیں ہموار کیں تو علمائے اندلس نے بھی سنت کی کچھ کم خدمت نہیں کی کہ شروحِ حدیث، فقہ الحدیث اور علومِ سنت کی خدمت میں ان بزرگوں نے لاکھوں صفحات لکھ ڈالے۔ ان خدمات کو کیوں سازش نہیں کہا گیا۔ منکرین سنت کے پورے خاندان میں کوئی عقلمند نہیں جو ان حقائق پر سنجیدگی سے غور کرے، کیا علومِ دینی اور فنونِ نبوت کی ساری داستان میں آپ کو صرف علمائے فارس ہی مجرم نظر آئے!!

من کان هذا القدر مبلغ علمه     فليستتر بالصمت والکتمان''


(حدیث کی تشریعی اہمیت از مولانا محمد اسمٰعیل سلفی: ؒص ۶۹تا ۷۱)

آئیے اس'ایرانی سازش' کے متعلق مولانا موصوف کے بعض اور تبصرے ملاحظہ فرماتے چلئے۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں :

''آ ج سے تقریباً ایک صدی پہلے حکومت نہ انتخابی تھی؛ نہ جمہوری نمائندگی کی سند ان کو حاصل تھی۔ نہ وہ حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی تھیں بلکہ اس وقت کی حکومتیں شخصی ہوتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی قوم حاکم ہوجاتی، باقی لوگ محکوم ہوتے تھے۔ اقتدار میں عوام کی جوابدہی قطعاً ملحوظ نہیںرکھی جاتی تھی۔ نہ حکومت کسی آئین کی پابند ہوتی تھی۔ بادشاہ کی رائے اور بادشاہ کا قلم پورا آئین ہوتا تھا۔ یا وہ لوگ جو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا کر حکومت کے منظورِ نظر ہوجائیں۔

ایسی حکومتوں کے ساتھ ہمدردی ذاتی ضرورتوں کی وجہ سے ہوتی تھی۔ یا بادشاہ کے ذاتی ا خلاق اور کریکٹر کی وجہ سے۔ اگر کوئی انقلاب ہوجائے تو انقلاب سے ملک متاثر تو ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ بادشاہ یا اس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ تاثر آنے جانے والی حکومتوں کے مقاصد کی وجہ سے ہوتا۔

فارسی حکومت شخصی تھی۔ یزدگرد کی موت پراس کا خاتمہ ہوگیا۔یزدگرد کا خاندان یقینا اس انقلاب میں پامال ہوا ہوگا۔ لیکن تاریخ اس وقت کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں دیتی جو اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کے طور پر کی گئی ہو۔نوشیرواں کے بعد ویسے بھی کسریٰ کی حکومت روبہ انحطاط تھی، ان کے کردار میں عدل و انصاف کے بجائے استبداد روز بروز بڑھ رہا تھا۔ عوام کو حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور محبت نہیں تھی۔ پھر سازش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

مذہبا ً فارسی حکومت آتش پرست تھی۔ اسلام نے توحید کے عقیدہ کی سادگی سے یہودیت اور عیسائیت تک کو متاثر کیا۔ بت پرستی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی، آتش پرستی کی وہاں کیا مجال تھی۔ اسلام کی تعلیمات اس مسئلہ میں نہایت مدلل اور واضح تھیں، ان میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اسلام کا موقف عقیدۂ توحید کے معاملے میںکھلی کتاب تھا۔ وہ دوسروں کے شبہات اور اعتراضات بڑی کشادہ دلی سے سنتا تھا۔ مخالفین کے شبہات کی تردید اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی اپنے نظریہ کو کسی پر جبراً ٹھونستا تھا، پھر اس کے خلاف کیوں سازش کی جائے... کون کرے؟ اور کس طرح کرے؟

فارسی حکومت کا چراغ خلیفہ ثانی کی حکومت میں گل ہوا۔ یزد گرد کو خود اس کی رعایا نے قتل کیا اور اس کے خاتمہ میں مسلم عساکر کی مدد کی۔ پھر سازش کی ضرورت کیسے ہوئی؟ فارس کی فتح کے بعد ہزاروں فارسی اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ جزیہ دیتے رہے، انہیں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کے معبد (آتش کدے) مدتوں قائم رہے۔ جو لوگ ان سے اسلام کی طرف راغب ہوئے انہیں اسلام نے پوری ہمدردی کے ساتھ اپنی آغوش میں عزت کی جگہ دی۔

جہاں مذہب یوں آزاد ہو اور سیاست اس طرح بے اثر، ملک کے عوام مسلمانوں کی فتوحات پر خوشیاں مناتے ہوں، جب وہ جنگی مصالح کی بنا پر کسی مقام سے پیچھے ہٹنا پسند کریں تو اس علاقہ میں صف ماتم بچھ جائے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ادارئہ طلوعِ اسلام اور جناب اسلم جیراجپوری نے سازش کے جراثیم کو کون سی عینک سے دیکھ لیا!!

تاریخ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عدل گستری اور انصاف پسندی کی وجہ سے فارسی بالکل مطمئن ہوگئے تھے۔ فاتحین کی علم دوستی کے اثرات سے فارس کے تمام ذہین لوگ سیاست چھوڑ کر فوراً علم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس راہ میں انہوں نے آخرت کی سربلندیوں کے علاوہ علمی دنیا میں بہت بڑا نام پیدا کیا، اور حکومت کے خلاف سازش کا ان کی زبان پر کبھی نام تک نہیں آیا۔یہ سازش کا پورا کیس مولانا جیراجپوری کے کاشانہ اور ادارۂ طلوع اسلام کے دفتر میں تیار ہوا ہے۔ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

سازش کی یہ عجیب قسم ہے کہ سازشیوں نے فاتحین کا مذہب قبول کیا۔ پھر ان کے علوم کی اس قدر خدمت کی کہ فاتحین اپنے علوم کی حفاظت سے بے فکر اور کلی طور پر مطمئن ہوگئے۔ پھر فاتحین نے ان میں سے اکثر علوم اور علما کی سرپرستی کی۔ (مقدمہ ابن خلدون:۵۸)

معلوم ہے کہ اُموی خلفاء کے وقت شاہی درباروں میں عجمیوں کو وہ اقتدار حاصل نہ تھا جو عباسی درباروں میں برامکہ کوحاصل ہوا۔ لیکن اُن کا دامن دین کی خدمات سے بالکل خالی تھا۔ قرآن وسنت اور دینی علوم تو بڑی بات ہے، برامکہ سے تو عربی زبان کی بھی کوئی خدمت نہ ہوسکی۔

ہارون الرشید نے امام مالکؒ اور ان کے درس کی سرپرستی کی کوشش کی، لیکن امام مالک نے اسے بے اعتنائی سے مسترد کردیا، روپیہ دینے کی کوشش کی تو پورے استغنا سے واپس کردیا۔

سازش کا آخر یہ مقصد ہوسکتا تھا کہ شاہی دربار تک رسائی ہو، مال و دولت اور حکومت میں حصہ ملے، اب دربار خود درِ دولت پر حاضر ہوتا ہے، اپنی ساری بلندیاں چھوڑ کر پورے انکسار، انتہائی احترام سے خزانوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ تھیلیاں باادب پیش ہوتی ہیں، اور 'سازشی' ہیں کہ نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔

بادشاہ عرض کرتے ہیں تشریف لے چلئے، آنکھیں فرشِ راہ ہوں گی، فارسی سازش کے سرغنہ یا فن حدیث کے سالارِ قافلہ فرماتے ہیں: «والمدينة خيرلهم لو کانوا يعلمون» مطلب یہ کہ اس بڑے دربار سے علیحدگی میرے لئے ناممکن ہے۔

پھر سازشیوں کا یہ پورا گروہ مختلف عجمی ممالک سے ہزاروں میل سفر طے کرکے مدینہ منورہ پہنچ کر امام کی خدمت میں تحصیل علم کے لئے پیش ہوتا ہے اور کوئی سوچتا نہیں کہ شیخ عرب ہے، یہ عجمی النسل کہیں پوری سازش کا راز فاش نہ کردے۔

عرب استاد کے عجمی شاگرد مدتوں استفادہ کرتے ہیں اور انہیں علوم کا درس ہوتا ہے۔ ساتھی ساتھی پر جرح کرتا ہے۔ایک دوسرے کی کمزوریوں کے کھلے بندوں تذکرے ہوتے ہیں۔ عرب محدثین عجمی علما پرتنقید کرتے ہیں، عجمی اہل عرب کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن اس سازش کا سراغ جس کے اختراع کا سہرا 'طلوعِ اسلام' کے دفتر پر ہے، نہ کسی عرب کو لگا، نہ کسی عجمی کو۔ نہ استا د نے اسے محسوس کیا نہ شاگرد نے نہ ساتھی نے!!

پھر تعجب یہ ہے کہ فارس کی فتح پہلی صدی کے اوائل میں ہوئی اور اس سازش کا منصوبہ تیسری صدی میں بنایا گیا۔ تقریبا پورے دو سو سال فارسی بے وقوف آرام کی نیند سوتے رہے۔ یعنی جب شکست کا درد اور کوفت تازہ تھی، اس وقت تو فارسیوں کو کوئی احساس نہ ہوا۔ لیکن تین سو سال کے بعد درد کی بے قراریاں انگڑئیاں لینے لگیں اور فارسی سازشیوں نے بخاری ؍مسلم اور کتب ِصحاح کی صورت اختیار کرلی۔ فيا للعقول وأربابها

پھر اتنی بڑی سازش جس نے اسلامی اور تعلیمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دنیا کے مسلم اور غیرمسلم مؤرخوں کی آنکھیں بے کار ہوگئیں، قلم ٹوٹ گئے اور زبانیں گنگ؟... ان کی ضخیم کتابیںاس عظیم الشان سازش کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں۔ یہ راز سب سے پہلے یورپ کے ملحد مُکتشفینپرکھلا اور اس کے بعد دفتر طلوعِ اسلام کے دریوزہ گروں نے کچھ ہڈیاں مستعار لے لیں۔ ﴿فَوَيلٌ لَهُم مِمّا كَتَبَت أَيديهِم وَوَيلٌ لَهُم مِمّا يَكسِبونَ ٧٩ ﴾... سورة البقرة

(حدیث کی تشریعی اہمیت: ص ۴۲ تا ۴۹)

ہماری ان گذارشات سے واضح ہوگیا کہ ایرانی سازش کا جو شاخسانہ آپ کے رہنماؤں نے چھوڑا ہے وہ کوئی 'ٹھوس حقیقت' نہیں بلکہ ایک 'بدبودار افسانہ' ہے۔ جس نے اسلام کے دانا دشمن یہودی مستشرق گولڈ زیہر اور اس کے رفقا کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور حافظ اسلم، مسٹر پرویز اور پاکستان کے کچھ بے علم یا محدود العلم کلرکوں کی گود میں پل کر جوان ہوا ہے۔ اور اب آپ جیسے 'محقق' حضرات اسے عام مسلمانوں کے حلق میںٹھونسنے کے لئے اپنے 'سرمایۂ تحقیقات' کی حیثیت سے اس کی نمائش کرتے پھر رہے ہیں۔

خیر جناب! 'سازشی ٹولے' نے پہلی صدی میں اپنی 'سازش'کا آغاز کیا اور تیسری صدی کے اخیر تک مکمل کرلیا۔ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اب ہزار برس بعد یعنی اب سے کوئی اَسی برس پہلے آپ حضرات کے ہوش و حواس نے انگڑائی لی اور یہودی و صلیبی مستشرقین کی خرد بین لگا کر آپ حضرات نے یہ انکشاف کیا کہ یہ اُمت تو اپنے آغاز سے اب تک 'ایرانی سازش' کا شکار ہے۔ یہ انکشاف بڑی دیر سے ہوسکا۔اب یہ آؤٹ آف ڈیٹ ہوچکا ہے۔ اس کی حیثیت مشت بعد از جنگ کی ہے۔ اس لئے اسے شیخ سعدیؒ کے مشورہ کے مطابق آپ اپنے ہی کلے پر مار لیجئے۔ اتنی دیر کے بعد ایسے فوجداری مقدمات کی تفتیش نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی دانشمند اس موضوع پر سوچنے کی کوشش کرسکتا ہے!!

روایتوں کے متفرق اور متضاد ہونے کی حقیقت

آپ نے روایتوں کو متفرق اور متضاد لکھا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلم آپ سے یہ سوال کربیٹھے کہ آپ کا قرآن ابتداء ً متفرق تھا یا مجتمع؟ اور اگر مجتمع تھا تو کس لوح پر، وہ لوح کہاںہے؟ اسے کس نے دیکھا ہے؟ اور اس بات کی شہادت کیا ہے کہ انہوں نے دیکھا ہے؟ پھر یہ شاہدین قابل اعتبار تھے بھی یا نہیں؟ انہوں نے اپنی شہادت کن کن لوگوں کے سامنے اَدا کی؟ پھر ان لوگوں کی حیثیت کیا تھی؟ وھلم جرّا، اگر آپ کے سامنے ایسے سوالات پیش کردیئے جائیں تو آپ کیا جواب دیں گے؟ حدیث تو خیر 'فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے' کے واسطے سے حضور ﷺ تک پہنچ بھی جاتی ہے۔ مگر آپ لوحِ قرآن کے لئے تو اتنا بھی ثبوت فراہم نہیں کرسکتے۔

باقی رہا تضاد کا معاملہ تو یہ محض ایک 'ہوا' ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ صحیح احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ ظاہر بینی کے لحاظ سے اگر آپ حضرات نے کچھ مثالیں فراہم کرلی ہیں تو ایسی مثالیں قرآن کے نہ ماننے والوں نے خود قرآن سے فراہم کی ہیں تو کیا آپ تسلیم کرلیں گے کہ (نعوذ باللہ) قرآن میں بھی تضاد ہے؟ پھر آپ حضرات اپنی 'تدبر فی القرآن'کی مخصوص صلاحیت کوبروے کارلاتے ہوئے قرآنی آیات کا جیسا کچھ مفہوم سمجھتے ہیں، ان کے لحاظ سے تو قرآن مجید تضاد سے بھرا نظر آئے گا۔ مثال دیکھنی ہو تو پچھلے اوراق پلٹ لیجئے (اور اگلے صفحات میں بھی ملاحظہ فرمایئے گا) ظن کی بحث میں آپ کی پیش کردہ جن قرآنی آیات پر ہم نے بحث کی ہے، وہ سب کی سب آپ کے بتلائے ہوئے مفہوم کے اعتبار سے خود قرآن ہی کی دوسری آیات سے ٹکرا رہی ہیں۔

روایات کی کتابت میں تاخیر

آپ کو اس کا بھی اِدعا ہے کہ روایتیں کتابت میں آنے سے پہلے زید، عمرو، بکر کی زبانوں پربے روک ٹوک گشت کررہی تھیں، اور قید ِکتابت میں آنے کے بعد اس پر 'صحیح' کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔ ان کی حیثیت نیم تاریخی مواد کی ہے... وغیرہ

مجھے آپ لوگوں کی جرأت پر حیرت ہے۔ جن حوالوں کی بنیاد پر آپ قید ِکتابت کی تاریخ متعین کرتے یا کرسکتے ہیں، انہی حوالوں کی رو سے یہ بات بالکل صاف اور قطعی طور پر عیاں ہے کہ احادیث کے قید ِکتابت میں آنے سے پہلے صرف دو طبقے پائے جاتے ہیں: ایک صحابہ کرام کا طبقہ اور دوسرا تابعین عظام کا۔ پہلا طبقہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے 'والذین معہ' سے تعبیر کیا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جن کی عملی معیت کو شامل کرکے آپ دین کو مکمل مان رہے ہیں اور دوسرا طبقہ ان کے تربیت یافتگان کا ہے جسے قرآن نے ﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ...١٠٠ ﴾... سورة التوبة" سے تعبیر کیا ہے۔ کیا قرآن کے یہ دونوں مقدس طبقے آپ کی نگاہ میں ایسے ہی ایرے غیرے، نتھو خیرے قسم کے ہیں کہ آپ انہیں زید عمر و بکر جیسی اہانت آمیز تعبیر کانشانہ بنائیں، اور اقوال و افعالِ رسولؐ کے متعلق ان کی روایت اور بیان کو ایک کافر کی بے سند تاریخی روایت کے برابر بھی نہ سمجھیں ؟ تفوبر تو اے چرخِ گرداں تفو!

یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جن کتابوں اور حوالوں کی بنیاد پر آپ حضرات نے یہ شگوفہ چھوڑا ہے کہ جن حدیثوں پر 'صحیح' کا لیبل چسپاں کیا گیا ہے، وہ حدیثیں قید ِکتابت میں آنے سے پہلے زید، عمرو، بکر کی زبانوں پربے روک ٹوک گشت کرتی تھیں اور قصہ گویوں، داستان سراؤں اور واعظوں کی گھڑی ہوئی ہیں ان کتابوں اور حوالوں سے آپ حضرات اپنا دعویٰ قطعاً ثابت نہیں کرسکتے۔ ولو کان بعضهم لبعض ظهيرا

ان کتابوں اور حوالوں سے جو کچھ سمجھا جاسکتا ہے، وہ یہی ہے کہ اُسوۂ رسولؐ، صحابہ کرامؓ کے درمیان عملا ً بھی محفوظ تھا اور قولاً بھی ۔ اور اس کے بعد والے طبقوں تک منتقل ہوا۔ پھر تدوین حدیث کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اپنے مختلف النوع اغراض کے لئے حدیثیں گھڑیں اور کوشش کی کہ اپنی گھڑی ہوئی احادیث کواُسوئہ رسولؐ یعنی صحیح احادیث کے ساتھ گڈمڈ کرکے اپنے دیرینہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔ مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ شیعوں نے اہل بیت کے سیاسی تفوق کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ اباحیت پسندوں نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے اور عقلیت پسندوں نے اپنی عقلیت کو وجہ جواز فراہم کرنے کے لئے۔گھڑنے والوں نے اپنی جعلی احادیث کی ترویج کا طریقہ یہ سوچا کہ کچھ مشہور اصحاب حدیث کی صحیح اور قوی سندوں سے ان جعلی احادیث کو روایت کریں تاکہ کسی کو ان کی صحت میں شک نہ ہو۔ لیکن جوں ہی یہ روایتیں اہل علم کے سامنے آئیں ،گھڑنے والے پکڑے گئے۔ کیونکہ کسی بھی بڑے محدث کے ہزاروں شاگرد ہوا کرتے تھے۔ اب ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اس محدث سے ایسی حدیث روایت کرے جو ان ہزاروں شاگردوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ ہو اور وہ اس پر بھی اس کا اعتبار کرلیں۔ ایسے راوی پر فوراً جرح شروع ہوتی تھی۔ پچیسیوں تنقیحات ایسی تھیں کہ کسی جعلساز کے لئے نکل بھاگنے کی کوئی راہ باقی نہ بچتی۔ تھوڑی سی زد وخورد کے بعد اسے ہتھیار ڈال دینے پڑتے اور اپنی جعلسازی کا اقرار کرلینا پڑتا۔

محدثین نے حدیث کی صحت پرکھنے کے لئے ایسے سخت اصول و ضوابط بنائے اور ایسا کڑا معیار مقرر کیا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر نہ لاسکی۔ کوئی دس لاکھ افراد کی زندگیاں کھنگال کر رکھ دیں۔ پھر جملہ افراد کو اس کسوٹی پر پرکھ کر کھرا کھوٹا الگ کردکھایا۔

تدوین ِحدیث کے تیسرے اور چوتھے دور میں ان جعلی احادیث کا ذخیرہ بھی تالیفی شکل میں باقاعدہ علیحدہ کردیا گیا، تاکہ راہِ حق کے راہرو کے لئے کسی بھی مرحلہ میں مشکل پیش نہ آسکے!!

یہ ہے کہ واقعہ کی اصل صورت جو ان کتابوں اور حوالوں سے مستفاد ہوتی ہے جن کی بنیاد پر آپ حضرات نے 'ایرانی سازش'کا بدبودار افسانہ تیار کیا ہے۔ اگر آپ کا ایمان بالقرآن آپ کو صدق و دیانت کی اجازت دیتا ہے تو واقعہ کو اس کی حقیقی صورت میں پیش کیجئے اور قبول کیجئے، ورنہ اپنے دعویٰ کی دلیل لائیے...!!

آپ کے استدلال کی نوعیت بالکل وہی ہے کہ کسی گھر میں چور گھس جائے تو آپ گھر والے ہی کو چور کہنے لگیں اور جب آپ سے ثبوت مانگا جائے تو آپ فرمائیں کہ ثبوت یہ ہے کہ اس کے گھر میںچور گھسے تھے ، یا کوئی پولیس پارٹی ڈاکوؤں کو گرفتار کر لائے تو آپ پولیس پارٹی ہی کو ڈاکو کہیں اور ثبوت یہ پیش کریں کہ انہوں نے ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے۔

جنابِ والا! محدثین نے جعل سازوں سے کوئی حدیث روایت نہیں کی ہے اور نہ اپنے ذخیرے میں ان کی روایات کو دَر آنے دیا ہے؛ بلکہ ان کی جعل سازی پکڑ کر لوگوں کو بتلایا ہے کہ فلاں نے فلاں سے روایتیں گھڑی ہیں۔ اس فرض شناسی پر خود محدثین اور ان کی روایتیں آخر موردِ الزام کیسے ٹھہر گئیں۔بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوا لعجبی ست

آپ نے ذرا آگے چل کر اسی سلسلے میں اناجیل اربعہ کی استنادی حیثیت کی کمزوری بھی بطورِ شہادت پیش کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن پر یہ ضابطہ کابوس بن کر مسلط ہوچکا ہے کہ کوئی بھی واقعہ اسی وقت قابل قبول ہوسکتا ہے جب کہ وہ علیٰ الفور قید ِکتابت میں آچکا ہو۔ صرف چند برسوں کی تاخیر بھی اسے مشکوک بلکہ ناقابل قبول بنا دینے کے لئے کافی ہے، اگرچہ درمیان کے ناقلین اور رواۃ کتنے ہی زیادہ مستند اور قابل اعتماد کیوں نہ ہوں، بلکہ خود واقعہ کے عینی شاہد ہی نے اسے کیوں نہ قلم بند کیا ہو۔

میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ کا یہ ضابطہ تسلیم کرلیا جائے تو پھر قرآن مجید کی استنادی حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ قرآنِ مجید میں گذشتہ اقوام (قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ مدین واصحاب الایکہ، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، قومِ سبا وغیرہ وغیرہ) کے واقعات ان کے وقوع کے ہزار ہا ہزار برس کے بعد قلم بند کئے گئے ہیں۔ پھر آپ کے مذکورہ بالا اُصول کی رو سے انہیں کیونکر مستند تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ ایک دشمن ِاسلام بالکل آپ ہی کے لب و لہجہ اور اندازِ گفتگو میں کہہ سکتا ہے کہ یہ سارے واقعات عرب قصہ گو اور داستان سرا اپنی شبانہ محفلوں، قومی میلوں اور بازاری اجتماعات میں دارا و سکندر اور رستم و اسفند یار کے قصوں کی طرح گرمی ٔ محفل کے لئے بیان کیا کرتے تھے۔ یہ محض عرب کی دیو مالائی کہانیوں کا حصہ تھے، ان کی کوئی حیثیت و اہمیت نہ تھی۔ بلکہ یہ زید، عمرو، بکر کی زبان پربے روک ٹوک گشت کیا کرتے تھے، لیکن ہزاروں برس بعد جب قرآن نے انہی قصوں کو قانونِ قدرت کے تاریخی تسلسل کی شہادت کی حیثیت سے پیش کیا توکلامِ الٰہی بن گیا جس پر ایمان لانا واجب قرار پاگیا اور جس کا انکا رکرنا کفر ٹھہر گیا۔ بھلا ان قصوں کاکیوں کر اعتبار کیا جائے جو ہزارہا برس تک قصہ گویوں اور داستان سراؤں کا موضوعِ سخن بنے رہے، ہر کہ و مہ کی زبان پربے روک ٹوک گشت کرتے رہے اور جنہیں ان کے وقوع کے ہزارہا برس بعد ایک نبوت کے دعویدار نے قید ِکتابت میں لاکر وحی الٰہی اور دین و ایمان کا جزو قرار دے دیا۔

بتائیے! اگر آپ کے سامنے دشمن اسلام یہ سوال پیش کردے تو آپ اپنے مذکورہ بالا اُصول پرقائم رہتے ہوئے کیا جواب دے سکتے ہیں؟ اور اگر قرآن کی استنادی حیثیت ماننے اور منوانے کے سلسلے میں آپ اس اُصول کے پابند نہیں توحدیث کی استنادی حیثیت کے معاملے میں اس اصول کی پابندی پر آپ کو اصرار کیوں ہے...؟

اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کو محفوظ، مستند اور قابل اعتماد قرار دینے کے لئے اس کا قید ِکتابت میں آیا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی یہ اُصول اور معیار ہی سرے سے غلط ہے کہ اگر کوئی بات اپنے وقوع کے وقت قید ِکتابت میں آگئی توقابل اعتماد ہوگی، ورنہ نہیں۔ اس لئے یہ خیال صحیح نہیں کہ قرآن اس لئے قابل اعتماد واِستناد ہے کہ وہ لکھوا لیا گیا تھا۔ اور احادیث اس لئے قابل اعتماد واستناد نہیںکہ وہ عہد ِرسالت اور عہد ِخلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھیں۔ بلکہ اس سلسلہ میں معاملہ کی جو صحیح نوعیت ہے، اسے ذیل کے الفاظ میں سنئے:

''اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن کو جس وجہسے لکھوایا گیا، وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ اور معنی دونوں من جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں، اس کی آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی طرف سے تھی۔اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ اور وہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں۔ اس کے مقابل میں سنت کی نوعیت بالکل مختلف تھی ، وہ محض لفظی نہ تھی بلکہ عملی بھی تھی، اور جو لفظی تھی، اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہو ئے تھے بلکہ حضور نے اس کو اپنی زبان میں ادا کیا تھا۔ پھر اس کا ایک بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضور کے ہمعصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضور کے اخلاق ایسے تھے، حضور کی زندگی ایسی تھی، اور فلاں موقع پر حضورؐ نے یوں عمل کیا۔

حضورؐ کے اقوال و تقریریں نقل کرنے کے بارے میں بھی یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انہیں لفظ بلفظ نقل کریں۔ بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا اور وہ اس پرقادر بھی تھے کہ آپ سے ایک بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں۔ حضورؐ کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ نے دی ہو۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ کرنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں اس کے بعد۔ اس بنا پراحادیث کے معاملے میں یہ بالکل کافی تھا کہ لوگ اسے یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کے معاملے میں کتابت کی وہ اہمیت نہ تھی جو قرآن کے معاملے میں تھی۔

دوسری بات جسے خوب سمجھ لینا چاہئے، یہ ہے کہ کسی چیز کے سند اور حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا ان اشخاص کا بھروسے کے قابل ہونا ہے جس کے یا جن کے ذریعہ سے کوئی بات دوسرے تک پہنچے، خواہ وہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے، وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو ہمار ا کلام مان لیں گے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآن کی جتنی تبلیغ و اشاعت کی، زبانی ہی کی۔ آپ کے جو صحابہ مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میںپڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ ﷺ انہیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ و اشاعت زبان سے ہوتی تھی اور ایمان لانے والے اس ایک صحابی کے اعتماد پریہ بات تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے یارسول اللہ ﷺ کا جو حکم وہ پہنچا رہا ہے، وہ حضور ہی کا حکم ہے۔

تیسرا اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز بجائے خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی، جب تک کہ زندہ اور قابل اعتماد انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی کوئی چیز اگرہمیں ملے اور ہم اصل لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں، یا لکھنے والا خود نہ بتائے کہ یہ اسی کی تحریر ہے ، یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کردیں کہ یہ تحریر اسی کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے محض وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی حجت بھی نہیں ہوسکتی... یہ ایک اصولی حقیقت ہے جسے موجودہ زمانے کا قانونِ شہادت بھی تسلیم کرتاہے اور فاضل جج خود اپنی عدالت میں اس پر عمل فرماتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے محفوظ ہونے پر ہم جو یقین رکھتے ہیں، کیا اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ لکھاگیاتھا؟ کاتبین ِوحی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے صحیفے جو حضورؐ نے املا کرائے تھے، آج دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اگر موجود ہوتے تو بھی آج کون یہ تصدیق کرتا کہ یہ وہی صحیفے ہیںجو حضورؐ نے لکھوائے تھے۔ خود یہ بات بھی کہ حضور ؐاس قرآن کونزولِ وحی کے ساتھ ہی لکھوالیاکرتے تھے، زبانی روایات ہی سے معلوم ہوئی ہے، ورنہ اس کے جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ پس قرآن کے محفوظ ہونے پر ہمارے یقین کی اصل وجہ اس کا لکھا ہوا ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندہ انسان زندہ انسانوں سے مسلسل اس کو سنتے اور آگے زندہ انسانوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہئے کہ کسی چیز کے محفوظ ہونے کی واحد سبیل اس کا لکھا ہوا ہونا ہے۔

ان اُمور پر اگر فاضل جج اور ان کی طرح سوچنے والے حضرات غور فرمائیں تو انہیں یہ تسلیم کرنے میں ان شاء اللہ کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ اگر معتبر ذرائع سے کوئی چیز پہنچے تو وہ سند بننے کی پوری قابلیت رکھتی ہے خواہ وہ لکھی نہ گئی ہو۔

تمام منکرین حدیث بار بار قرآن کے لکھے جانے اور حدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومدار رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات کہ حضورؐ اپنے زمانے میں کاتبانِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے۔ اور اس تحریر سے نقل کرکے حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں قرآن کو مصحف کی شکل میں لکھا گیا، اور بعدمیں اسی کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے شائع کیں، یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دنیا کو معلوم ہوا ہے، قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسری شہادت دنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو آپ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضورؐ کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟

کسی کا یہ کہنا کہ عہد ِنبوی کے رواجات، روایات، نظائر، فیصلوں، احکام اور ہدایات کا پورا ریکارڈ ہم کو 'ایک کتاب'کی شکل میں مرتب شدہ ملنا چاہئے تھا، درحقیقت ایک خالص غیر عملی طرزِ فکر ہے اور وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے جو خیالی دنیا میں رہتا ہو۔ آپ قدیم زمانے کے عرب کی حالت چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے آج اس زمانے کی حالت کو لے لیجئے جب کہ احوال و وقائع کو ریکارڈ کرنے کے لئے ذرائع بے حد ترقی کرچکے ہیں۔ فرض کرلیجئے کہ اس زمانے میں کوئی لیڈر ایسا موجود ہے جو ۲۳ سال تک شب و روز کی مصروف زندگی میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کو اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کرتا ہے۔ ان سے کام لے کر ایک پورے ملک کی فطری، اخلاقی، تمدنی اور معاشی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اپنی قیادت و رہنمائی میں ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی ریاست وجود میں لاتا ہے۔ اس معاشرے میں اس کی ذات ہروقت ایک مستقل نمونہ ہدایت بنی رہتی ہے۔ ہر حالت میں لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر یہ سبق لیتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ ہر طرح کے لوگ شب و روز اُس سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ان کو عقائد و افکار، سیرت و اخلاق، عبادات و معاملات، غرض ہر شعبۂ زندگی کے متعلق اُصولی ہدایات بھی دیتا ہے اور جزئی اَحکام بھی۔ پھر اپنی قائم کردہ ریاست کا فرمانروا، قاضی، شارع، مدبر اور سپہ سالار بھی تنہا وہی ہے۔ اور دس سال تک اس مملکت کے تمام شعبوں کو وہ خود اپنے اُصولوں پرقائم کرتا اور اپنی رہنمائی میں چلاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج اس زمانے میں یہ سارا کام کسی ایک ملک میں ہو تو اس کا ریکارڈ 'ایک کتاب'کی شکل میں مرتب ہوسکتا ہے؟

کیا ہر وقت اس لیڈر کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ لگا رہ سکتا ہے؟ کیا ہر آن فلم کی مشین اس کی شبانہ روز نقل و حرکت ثبت کرنے میں لگی رہ سکتی ہے؟ اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کیا آپ کہیں گے کہ وہ ٹھپا جو اس لیڈر نے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگی پر، پورے معاشرے کی ہیئت اور پوری ریاست کے نظام پر چھوڑا ہے، سرے سے کوئی شہادت ہی نہیں ہے جس کا اعتبار کیا جاسکے؟ کیا آپ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس لیڈر کی تقریر سننے والے، اس کی زندگی دیکھنے والے، اس سے ربط و تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کی رپورٹیں سب کی سب ناقابل اعتماد ہیں، کیونکہ خود اس لیڈر کے سامنے وہ 'ایک کتاب' کی شکل میں مرتب نہیں کی گئیں اور لیڈر نے ان پر اپنے ہاتھ سے مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟ کیا آپ فرمائیں گے کہ اس کے عدالتی فیصلے اور اس کے انتظامی احکام، اس کے قانونی فرامین، اس کے صلح و جنگ کے معاملات کے متعلق جتنا مواد بھی بہت سی مختلف صورتوں میں موجود ہے، اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ایک 'جامع و مانع کتاب'کی شکل میں تو ہے ہی نہیں؟ '' (ترجمان القرآن: منصب ِرسالت نمبر ، ص۳۳، ۳۴،۱۶۳،۳۳۶ تا ۳۳۸)

اس وضاحت کے بعد یہ بھی عرض ہے کہ آپ ذخیرئہ حدیث کو فن تاریخ کے معیار پر پورا اُترتا ہوا تسلیم نہیں کرتے، اس لئے آپ کو چیلنج ہے کہ آپ دنیا کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ تاریخ کو معیارِ حدیث کے ہم پلہ ہی ثابت کردیجئے، صرف بڑا بول بول دینا کوئی کمال نہیں!!

الزام تراشی اور نگاری کلامی کے الزام کی حقیقت

آپ نے منکرین حدیث کا اندازِ اِدّعا بلکہ اندازِ افترا اختیار کرتے ہوئے حدیث کے ایک اور 'تاریک پہلو' کی نشاندہی کی ہے جسے آپ کے بقول 'اسلامی تاریخ' کا 'المیہ' کہنا چاہئے کہ حدیث کے مجموعوں میں ایسی روایات بکثرت ملتی ہیں جو 'الزام تراشی'، 'دروغ بافی' اور 'فحش نگاری' کامرقع ہیں۔

اور اس 'بکثرت'کی مقدار خود آپ لوگوں کی نشاندہی کے مطابق ایک فیصدی بھی نہیں۔ کیااسی کو 'بکثرت' کہاجاتا ہے؟ پھر جہاں تک 'دروغ بافی' کا سوال ہے تو حقیقت کھل چکی ہے۔ جب تک آپ یہودی مستشرقین کی خردبین لگا کر دیکھیں گے، یرقان کے مریض کی طرح آپ کو ہر طرف دروغ ہی دروغ نظر آئے گاکیونکہ یہ مرض آپ کے رَگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ آپ حقیقت پسندی اختیار کریں۔ اور معاملہ کو اس کی صحیح اور اصل شکل میں ملاحظہ فرمائیں۔ ورنہ جب تک آپ گھر کے مالک اور محافظ کوچور اور پولیس پارٹی کو ڈاکو سمجھیں گے، آپ کو اس بیماری سے نجات نہیں مل سکتی۔

باقی رہا 'الزام تراشی' اور 'فحش نگاری' کا دعویٰ تو یہ بھی سراسر زبردستی ہی ہے۔ آپ کے اشارے یا تو ان روایات کی طرف ہیں جن کے جھوٹ ہونے کی قلعی خود محدثین نے کھول دی ہے۔ لیکن آپ کمال ڈھٹائی سے ان چوری پکڑنے والوں ہی کو چور کہہ رہے ہیں یا پھر آپ نے ایسی باتوں کو 'الزام تراشی' اور 'فحش نگاری' قرار دے دیا ہے جن کی نظیریں خود قرآن میںموجود ہیں۔ تو کیا (نعوذ باللہ) آپ قرآن میں 'الزام تراشی' اور 'فحش نگاری' تسلیم کریں گے؟ اگر نہیں تو پھر حدیث اور روایات کی ویسی ہی باتوں کو آپ 'الزام تراشی' اور 'فحش نگاری' قرار دینے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟ آپ نے جن روایات کی طرف اشارہ کیا ہے، آئیے اُنہیں میں سے ایک آدھ سے اس کی توضیح کرتے ہیں:

آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا ہے۔ ان کی بابت صحیح بخاری میں مذکو رہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں تین کذبات کا ارتکاب کیاہے۔کذب، جھوٹ، غلط اور خلافِ واقعہ بات کو کہتے ہیں۔ صحیح بخاری کی یہ روایت سنتے ہی آپ حضرات بھی ، اور قائلین حدیث میں سے بعض عقلیت پسند بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ لیکن آئیے ذرا سنجیدگی سے اس روایت پر غور کریں!!

اس روایت میں جن تین کذبات کا انتساب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کیا گیا ہے، ان میں سے دو کی تفصیلات خود قرآن میں مذکور ہیں۔ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے باتیں کررہے تھے۔ اچانک انہوںنے تاروں پرایک نظر ڈالی اور کہا کہ میں بیمار ہوں۔ قوم چلی گئی اور حضرت ابراہیم نے جھٹ اُٹھ کر ان کے بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ قوم نے واپس آکر معاملے کی تفتیش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ تمہاری حرکت ہے؟ انہوں نے کہا: بلکہ اس بڑے بت نے یہ حرکت کی ہے، اگر تمہارے یہ معبود بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو... الخ

اس میں دو باتیں قابل غور ہیں: (1) ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کا عذر جس سیاق و سباق میں کیا تھا، اس کا منشا یا تو یہ تھا کہ میں تمہارے ساتھ چلنے کے لائق نہیں۔ یا یہ کہ بیماری کے سبب میرے لئے بات چیت کرنی مشکل ہے۔ لیکن جوں ہی قوم ہٹی، وہ جھٹ اُٹھے اور بتوں پر پل پڑے۔ اگر واقعتاً وہ ایسے ہی بیمار تھے جیسی بیماری کا اظہار فرمایا تھا تو کیا وہ بت خانے تک پہنچ سکتے تھے؟ اور بتوں کو توڑسکتے تھے؟ (2) دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے بت شکنی کا الزام بڑے بت پر عائد کیا۔ کیا واقعتاً اُسی نے باقی بتوں کو توڑا تھا؟ یقینا نہیں۔ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دونوں باتیں خلافِ واقعہ کہی تھیں، جسے عربی زبان میں 'کذب' کہتے ہیں۔

تیسرے واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ ایک جابر حکمراں کے علاقے سے گزرے۔ وہ حکمراں خوبصورت عورتیں چھین لیتاتھا۔ اگر ساتھ میںشوہر ہوتا تو قتل کردیا جاتا تھا۔ حضرت سارہ کوبھی اس حکمران نے طلب کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم مجھے اپنا بھائی ظاہر کرنا۔

متعدد مآخذ میںاس کی وضاحت بھی ہے کہ حضرت سارہ کچھ دور کے تعلق سے حضرت ابراہیم ؑ کی بہن ہوتی تھی؛ یوں بھی وہ دینی بہن تھیں۔ لیکن جس سیاق میں وہ اپنے آپ کو بہن کہتیں، اس سے سننے والا یہ سمجھتا کہ وہ حقیقی بہن ہیں۔ اس لئے یہ بات خلافِ واقعہ ہوئی۔

یہ تینوں معاملے ایک اور پہلو سے بھی قابل غور ہیں۔ پہلے اور دوسرے موقع پر خلافِ واقعہ بولے بغیر بھی مقصد حاصل ہوسکتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہہ سکتے تھے کہ آج مجھے معاف رکھیں، میں آپ حضرات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اسی طرح وہ بڑے بت کا نام لئے بغیر کہہ سکتے تھے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے پوچھ لو، اگر بولتے ہوں۔ لیکن تیسرا موقع بڑانازک تھا۔ بیوی اور جان دونوں خطرے میں تھے۔ ایسی صورت میں قرآن نے ا رتکابِ کفر کی اجازت دی ہے: ﴿إِلّا مَن أُكرِ‌هَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ...١٠٦ ﴾... سورة النحل" اس لئے یہ تیسرا واقعہ بھی قرآن کی نگاہ میں معیوب نہیں۔

یہ ہے ان تین کذبات کا خلاصہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں۔ ان میں سے پہلے دو کی نسبت خود قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی ہے۔ صحیح بخاری میں ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔ البتہ تیسرا واقعہ صرف صحیح بخاری میں ہے۔اب ظاہر ہے کہ آپ اس نسبت کو 'الزام تراشی'اور 'دروغ بافی' کامرقع قرار دے رہے ہیں تو آپ کے اس الزام کا صرف ۱؍۳ حصہ صحیح بخاری پر عائد ہوتا ہے جس کے جواز کا فتویٰ دینے میں خود قرآن بھی شریک ہے اور اس الزام کا باقی ۲؍۳ حصہ قرآن پر عائد ہوتا ہے۔ غور فرمائیے کہ آپ نے کس جسارت اور دلیری کے ساتھ حدیث دشمنی کے جوش میں قرآنِ مجید ہی کو 'الزام تراشی' اور 'دروغ بافی' کامرقع قرا ردے دیا۔ فنعوذ بالله من شرور أنفسنا

٭ آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا نام بھی لیا ہے۔ حالانکہ صحیح احادیث میں تو ان پر کوئی الزام نہیں۔ بلکہ انہیں کریم ابن کریم ابن کریم ابن کریم کہا گیا ہے اور قید خانے میں ان کی ثابت قدمی پر ان کی مدح و توصیف کی گئی ہے۔

البتہ قرآن میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے حقیقی بھائی سے ساز باز کرکے ان کے غلے میں شاہی برتن رکھ دیا۔ پھر اپنے بھائیوں کے قافلے پر چوری کا الزام عائد کراکر ان کی تلاشی لی اور حقیقت چھپانے کے لئے پہلے دوسرے بھائیوں کی تلاشی لی، پھر اپنے حقیقی بھائی کے غلہ سے برتن نکال کر دوسرے بھائیوں سے لئے گئے اقرار کے مطابق اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس روک لیا۔

غالباً آپ کے ذہن میں یہی واقعہ تھا۔ لیکن آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اسلئے آپ نے اسے شانِ انبیا کے خلاف سمجھ کر احادیث اور روایتوں پر 'الزام تراشی' کا الزام تراشنے میں اپنی چابک دستی کا مظاہرہ فرما دیا۔ لیکن آپ کی اس چابک دستی کی زَد حدیث کے بجائے قرآن پر آپڑی۔

قریب قریب یہی معاملہ ان بقیہ شخصیتوں کا ہے جن کے اسمائِ گرامی آپ نے ذکر کئے ہیں، اگر تفصیل میں آپ جانا چاہتے ہیں تو چلئے ہم بھی تیا رہیں

سمجھ کے رکھیو قدم دشت ِخار میں مجنوں     کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے!


ہماری اس توضیح سے یہ حقیقت بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ آیا امام بخاریؒ کا نام سن کر جماعت اہلحدیث پر 'سہم کا دورہ' پڑ جاتا ہے، یا آپ حضرات پرجوشِ مخالفت میں سرسامی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کے بعد آپ حضرات کو ہوش ہی نہیں رہتا کہ آپ کیا بک رہے ہیں اور کس کے خلاف بک رہے ہیں۔

آپ نے حدیث پر 'مثلہ معہ'کی پھبتی بھی چست فرمائی ہے۔ مگر بتائیے کہ جب قرآن مجید نے اُسوہ ٔ رسولؐ کو مدارِ نجات قرار دے کر اپنے بنیادی احکام تک کی تفصیلات اسی پر چھوڑ دی ہیں، اور اس اُسوۂ کو اس حد تک وسعت دی ہے کہ پیغمبروں کے خواب تک کو وحی الٰہی اور حکم الٰہی کا درجہ دے رکھا ہے اور جگہ جگہ ایسی وحی کے حوالے دیئے ہیں جن کا قرآن میں کہیں نام و نشان تک نہیں تو خود اس قرآن کے بارے میں کیا ارشاد ہوگا؟ حدیث سے پہلے آپ کی اس پھبتی کی زَد تو خود قرآن ہی پر پڑ رہی ہے۔اگر آپ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں تو آئندہ ہم اس اجمال کی تفصیل بھی پیش کرسکتے ہیں۔

اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا معاملہ

آپ نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے کے لئے رسولؐ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پس اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسولؐ ماننے کے لئے تمام راویوں پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ تو کیا ہمیں اللہ اور رسولؐ کی طرف سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟

اولاً : میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضورؐ کو خود دیکھا ہے؟ اور حضورؐ پر قرآن کے نزول کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ بلکہ آپ تو چودھویں صدی میں پیداہوئے ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ حضور پیغمبر تھے؟ اور آپ پر یہی قرآن نازل ہوا تھا جو اس وقت ہمارے ہاں متداول ہے؟ آپ یہی کہیں گے کہ اس امت کے اجتماعی نقل و تواتر سے یہ قرآن ہم تک پہنچا ہے، اس لئے ہم اس کی صحت کا یقین رکھتے ہیں۔

اب مجھے عرض کرنے دیجئے کہ آپ کے مقرر کئے ہوئے اُصول کے مطابق قرآن پر ایمان لانے کے لئے صرف حضورؐ کی رسالت پرایمان لانا کارآمد نہ ہوسکے گا،بلکہ اس چودہ سو برس کے دوران پیداہونے والے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر (خواہ زاہد و متقی ہوں، خواہ فاسق و فاجر) ایمان لانا ہوگا تو کیا ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اس اُمت کے اَن گنت نیک و بدانسانوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟ إنا للہ

ثانیاً : قرآن نے جو یہ حکم دیا ہے کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلو، جس کا صاف تقاضا یہ ہے کہ اگر 'متقی' خبر لائے تو تحقیق کی بھی حاجت نہیں، یوں ہی مان لو۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر اُسوہ ٔ رسولؐ کے متعلق کوئی شخص کوئی خبر دے تو قرآن کے اس اصول اور حکم پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اگر قرآن کے اس حکم پر عمل کیا گیا، اور اس کی بتائی ہوئی خبر قابل قبول ثابت ہوئی تو کیا اس خبر کو ماننے کیلئے اس شخص پر ایمان لانا پڑے گا؟ اگر ایمان لانا پڑے گا تو پھر ایسے جتنے بھی افراد پر ایمان لانا پڑے، لائیے؛ یہ تو عین حکم قرآنی کا اتباع ہوگا۔ اور اگر نہیں لانا پڑے گا تو پھر آپکے اس چیخ و پکار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ روایتوں کو قبول کرنے کا مطالبہ کرکے درحقیقت ہم سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟

اللہ کے بندے! اپنے تفقه في الدین اور تدبر فی القرآن کی کچھ تو لاج رکھنی تھی۔ ہماری پچھلی گذارشات سے واضح ہوچکا ہے کہ آپ جس چیز کو ایک 'ٹھوس حقیقت' سمجھے بیٹھے ہیں وہ درحقیقت ایک پھسپھسا تخیل ہے جس کی حیثیت﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبيثَةٍ كَشَجَرَ‌ةٍ خَبيثَةٍ اجتُثَّت مِن فَوقِ الأَر‌ضِ ما لَها مِن قَر‌ارٍ‌ ٢٦ ﴾... سورة ابراهيم" سے زیادہ نہیں ہے۔

اگر کوئی ٹھوس حقیقت ہے تو صرف یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب پر ایمان لانافرض ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا، آپ کی اطاعت کرنا، آپ کے فیصلوں کو دل کی تنگی و ناگواری کے بغیر تسلیم کرنا اور ان فیصلوں کے مقابل میں اپنے آپ کو خود مختار نہ سمجھنا، آپ کے اُسوے اور طریق عمل کی پیروی کو رضاے الٰہی اور نجاتِ آخرت کا مدار سمجھنا اور آپ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا فرض ہے۔ یہ سارا فرض خود قرآن نے عائد کیا ہے، اس فرض کو عائد کرنے کے بعد اس نے دین کے بڑے اہم اہم اور بنیادی قسم کے مسائل میں خاموشی اختیار کرلی ہے۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم سینکڑوں جگہ دیا ہے مگر ان کی تفصیلات سے خاموشی ہے۔ اسی طرح اس نے زندگی کے بے شمار مسائل میں صرف بعض بنیادی اُمور کی طرف اشارہ کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اس نے باقی تفصیلات کا دارو مدار اُسوہ ٔ رسولؐ پر رکھ دیا ہے۔

اب جو لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ قرآن سے باہر اُسوۂ رسولؐ کہیں بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے، اور احادیث کے نام سے جو ذخائر اُمت کے ہاتھ میں متداول ہیں، ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں، وہ درحقیقت قرآن کو ناقابل عمل اور اس کی رہنمائی کو سراپا لغو سمجھ رہے ہیں، اور انکارِ حدیث کا لبادہ اوڑھ کر قرآنی تعلیمات کو روندنے اور کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز و درماندہ اور مجبور و بے بس سمجھ رہے ہیں کہ اس نے اُسوۂ رسولؐ کی پیروی کا حکم تو دے دیا اور اسے مدارِ نجات تو ٹھہرا دیا، لیکن چند ہی برس بعد جب چند 'ایرانی سازشیوں' نے اس اُسوۂ رسولؐ کے خلاف 'سازش'کی تو اپنی تمام تر قوت و طاقت، ملک و جبروت اور حکمت و قہرمانی کے باوجود ان کی 'سازش' کو ناکام نہ بنا سکا، اُمت ِمرحومہ کی دستگیری نہ کرسکا اور ہمیشہ کے لئے گمراہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا۔

وہ لوگ اپنے یہودی مستشرقین کی پلائی ہوئی شراب 'حقیقت پسندی' کے نشے میں بدمست ہوکر ساری اُمت کو بیوقوت سمجھ بیٹھے ہیں اور سول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی شاہراہِ ہدایت سے کٹ کر اور لوگوں کو کاٹ کر اپنی عقلی تک بندیوں کے خار زار پر دوڑانا چاہتے ہیں، جو سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے اور جس کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ١١٥ ﴾... سورة النساء

'' جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول للہ ؐ کی مخالفت اختیار کرے گا، اور مؤمنین کی راہ سے الگ تھلگ اپنی راہ بنائے گا، ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جسے اس نے اختیار کیاہے، اور اسے جہنم میں جلائیں گے اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔''

٭٭٭٭٭