فیملى پلاننگ اورمغربى مفادات
وطن عزيز ميں حكومتى سطح پر جس محكمے ميں سب سے زيادہ نيك نيتى اور خلوص سے كام ہوتا ہے، وہ محكمہ بہبود آبادى ہے- اس كے لئے اربوں كا بجٹ ملكى طور پر ركها جاتا ہے اور بيرونِ ملك سے بهى وافر امداد حاصل ہوتى ہے- جگہ جگہ ادارے كهولے گئے ہيں، منظم اشتہارى مہم جس ميں اخبار، ٹى وى ، رسائل ، سٹيكر اور بڑے بڑے ہورڈنگز شامل ہيں- اس كے علاوہ كانفرنسز اور سيمينار منعقد ہوتے رہتے ہيں- اتنى كوششوں كے باوجود كماحقہ نتائج حاصل نہ ہوسكے كيونكہ اكثر مسلمان اس كو مذہبى نقطہ نظر سے جائز نہيں سمجهتے- گويا حكومتى عزائم كى راہ ميں ركاوٹ مذہب اور علما كرام ہيں!!
گذشتہ ماہ حكومت نے 'بہبودِ آبادى' كے نام سے 6 مئى 2005ء كو اسلام آباد ميں ايك كانفرنس بلائى جس ميں 21/ مسلم ممالك كے علما اور مشائخ كو اكٹھا كرنے كا دعوىٰ كيا گيا اور ان سے مطالبہ كيا گيا كہ فیملى پلاننگ كے حوالے سے اسلامى احكامات كى ايسى تشريح كريں كہ عوام الناس كے اندر اس كے لئے قبوليت پيدا ہوسكے اور آبادى ميں كمى كے حوالے سے ہم اپنے اہداف حاصل كرليں- اس سے ايك طرف تو يہ پتہ چلتا ہے كہ حكومت اس طرح كى كوششوں ميں يہ سمجھتى ہے كہ علما كى مدد كے بغير وہ كامياب نہيں ہوسكتى، دوسرى طرف يہ بهى خوش آئند امر ہے كہ اس كانفرنس ميں ائمہ حرمين شريفين اور نامور علما كى شركت كا ڈهنڈورا تو بہت پيٹا گيا ليكن چند حكومت نواز مولويوں اور مغربى اقدار كى پروردہ بے حجاب خواتين جنہيں اسلامى سكالربناكر پيش كيا گيا ، كے سوا كسى نامور عالم دين يا ائمہ حرمين نے اس كانفرنس ميں شركت گوارا نہيں كى-
يادرہے فیملى پلاننگ يا بہبود آبادى سے مراد يہ ہے كہ غيرفطرى طريقوں سے اولاد كى پيدائش كوروكا جائے اور خاندان كى تعداد محدود ركهى جائے جس كے لئے سب سے پركشش تعداد دو افراد كى ہے اور چار سے زيادہ تو واقعى طور پر قابل اعتراض اور قابل گرفت ہے-
فیملى پلاننگ كيوں ضرورى ہے؟
اس سوال كے جواب كے لئے حكومت تين وجوہات بيان كرتى ہے :
(1) زيادہ آبادى ملكى ترقى و خوشحالى كى راہ ميں سب سے بڑى ركاوٹ اور پسماندگى و ناخواندگى كى سب سے بڑى و جہ ہے-
(2) زيادہ آبادى ماحولياتى آلودگى كا باعث بنتى ہے-
(3) زيادہ بچوں كى پيدائش ماوٴں كى زندگى كو خطرے سے دوچار كرديتى ہے-
ذيل كى سطور ميں ہم ان تينوں باتوں كا زمينى حقائق كى روشنى ميں جائزہ ليتے ہيں كہ ان ميں كس قدر حقيقت ہے -
پہلا اعتراض
پراپيگنڈہ كے ماہرين فیملى پلاننگ كے لئے اپنى پراپيگنڈہ مہم ميں سب سے زيادہ زور اس بات پر ديتے ہيں كہ زيادہ آبادى ہى ملكى پسماندگى كا باعث ہے- مزيد يہ كہ اگر آبادى اسى رفتار سے بڑھتى رہى تو ملكى وسائل ختم ہوجائيں گے-
معلوم كرنا چاہئے كہ آبادى ميں اضافے اور ملكى ترقى اور وسائل ميں كيا رشتہ اور تناسب ہے؟
اس بارے ميں ہارورڈ يونيورسٹى نے 1991ء ميں لاطینى امريكہ ميں ايك ريسرچ كى- يہ ريسرچ 1900 تا 1991ء كے 90 سالہ عرصہ پر محيط تهى- اس دوران لاطينى امريكہ كى آبادى ميں سات گنا اضافہ ہوا جبكہ اس دوران فى كس آمدنى ميں پانچ گنا اضافہ ريكارڈ كيا گيا- یعنى مجموعى طور پر قومى آمدن ميں 35 گنا اضافہ ہوا، گويا آبادى ميں اضافہ قومى آمدن ميں اضافہ كرتا ہے اور قومى آمدن ميں اضافہ ہوگا تو لازماً ملكى ترقى اور خوشحالى ميں بهى اضافہ ہوگا-
پاكستان كى آبادى جس رفتار سے بڑهى، اس سے كہيں زيادہ رفتار سے قومى آمدن ميں اضافہ ہوا- پاكستان كابجٹ كبهى اربوں ميں ہوتا تها، اب كهربوں ميں ہے- قومى آمدن جس تناسب سے بڑهى؛ قومى ترقى، خوشحالى اور خواندگى ميں اس تناسب سے اضافہ نہ ہوا- اس كى اصل وجہ آبادى ميں اضافہ نہ تها بلكہ ملك ميں تيز رفتارى سے بڑهنے والى كرپشن، رشوت اور سودى نظام تها- بيوروكريسى اور حكمران، ہر دو كرپٹ تهے- انہوں نے اپنى بدعنوانيوں پر پردہ ڈالنے كے لئے غيرملكى آقاوٴں كى ہاں ميں ہاں ملاتے ہوئے پراپيگنڈہ شروع كرديا كہ قومى پسماندگى، ناخواندگى اور ديگر مسائل كى جڑ اونچى شرح پيدائش ہے- اگر ہم ترقى كرنا چاہتے ہيں تو اپنى آبادى كو كنٹرول كرنا ہوگا اور اس ميں كمى كرنا ہوگى- اس طرح آبادى ميں اضافہ كے پراپيگنڈہ كو پسماندگى كا جواز بنا كر حكمرانوں اور بيوروكريسى نے اپنى كرپشن پرپردہ ڈال ليا-
اس پراپيگنڈا كے لئے ہر طرح كے ذرائع ابلاغ پورى قوت سے استعمال كئے گئے- نتيجہ يہ ہواكہ فیملى پلاننگ كى جو بنياد جهوٹ پركهڑى كى گئى تهى، اسے معاشرے سے ايك حقيقت كے طور پر تسليم كراليا گيا- آج كسى بهى دانشور، مولوى، وكيل، عام شہرى سے بات كريں تو وہ كہتا ہے كہ ہمارے سارے مسائل زيادہ آبادى كى وجہ سے ہيں- كوئى نہيں سوچتا كہ اگر آبادى بڑهى ہے تو قومى آمدن ميں اس سے كہيں زيادہ اضافہ ہوا ہے۔
جناب شاہد جاويد بركى كا ايك مضمون روزنامہ پاكستان ميں شائع ہوا تها،جس ميں وہ لكھتے ہيں:
"1947ء سے 1991ء تك بهارت كا جى ڈى پى 4فيصد سالانہ كے حساب سے ترقى كررہا تها جبكہ پاكستان ميں ترقى كى يہ شرح 6فيصد تهى حالانكہ پاكستان كى آبادى ميں اضافہ كى شرح بهارت كے مقابلے ميں ايك فيصد زيادہ تهى، یعنى بهارت ميں 2 فيصد اور پاكستان ميں 3 فيصد تهى-"
اس كے بعد كرپشن ميں تيزى سے اضافہ ہوتا ہے اور شرحِ پيدائش ميں كمى كے باوجود پاكستان كى ترقى كى شرح رُك جاتى ہے، چنانچہ شاہد جاويد بركى صاحب مزيد لكھتے ہيں:
"بهارت ميں ترقى كى رفتار 6 فيصد سے 7 فيصد ہوگئى- جى ڈى پى ميں 1ء6 فيصد اضافہ ہوا، آبادى ميں 2 فيصداور فى كس آمدنى ميں 1ء4 فيصد اضافہ ہوا-اس دوران پاكستان ميں اقتصادى ترقى 1ء4 فيصد رہ گئى- جبكہ آبادى كى شرح ميں اضافہ3فيصد سے كم ہوكر 8ء2 فيصد ہوگيا- يعنى شرحِ پيدائش ميں كمى كے باوجود ترقى ميں اضافہ كى بجائے كمى ہوئى-"
سر تا سر جهوٹ پر مبنى يہ سبق پاكستانى حكمرانوں نے كہاں سے پڑها؟ كس نے انہيں اپنا آلہ كار بنا كر نہ صرف اپنے مفادات حاصل كئے بلكہ پاكستانى حكمرانوں كوبهى عوامى غيظ و غضب سے بچنے كے لئے ايك محفوظ پناہ گاہ مہيا كردى-
ايك طرف حكومت فملى پلاننگ كے لئے يہ جواز نكالتى ہے، دوسرى طرف خود اس كے اعداد وشمار اس كے دعووں كى تكذيب كرتے ہيں- ابهى گذشتہ ماہ ہى پاكستانى وزير اعظم شوكت عزيز نے 17 مئى 2005ء كو روزنامہ 'خبريں' كے 'كسان ٹائم' ميں اپنى حكومت كى كاركردگى بتاتے ہوئے ترقى كے جو بلند وبالا اعداد وشمار پيش كئے ہيں، اس سے حكومتى تضادات كهل كر سامنے آجاتے ہيں- اُنہوں نے كہا كہ
"مجموعى ملكى پيداوار كى شرح نمو35ء8 فيصد ہوچكى ہے جو ملكى تاريخ ميں ايك ريكارڈ ہے، جبكہ فى كس آمدنى 700 ڈالر تك پہنچ چكى ہے، حكومت كا گروتہ ريٹ 6ء6 فيصد تها، ليكن خلافِ توقع زيادہ كاميابى حاصل ہوئى- بڑى فصلوں ميں 3ء17 فيصد اور كپاس ميں 45 فيصداضافہ ہوا- گندم 22ملين ٹن ہوئى جبكہ سروسز كے شعبے ميں شرح نمو 9ء7 فيصد رہى-"1
"پاكستان كى تاريخ ميں پہلى بار ہوا ہے كہ مجموعى پيداوار كے مقابلے ميں اضافہ كى شرح 8فيصد سے تجاوز كرجائے گى-جس كے بعدپاكستان ايشيا ميں تيز رفتار شرح پيدائش كے لحاظ سے 5 بڑے ممالك ميں شامل ہوجائے گا-" 2
گورنر بينك دولت پاكستان جناب عشرت حسين نے BIS.org كے نام سے ويب سائٹ ميں 1947ء سے 2004ء تك پاكستان كے تمام شعبوں ميں ترقى اور وسائلِ پيداوار كا جائزہ ايك جدول كى صورت ميں پيش كيا ہے،جس كى رو سے گندم كى پيداوار ميں 7 گنا، چاول ميں 14ء7 گنا،كپاس ميں 09ء9 گنا جبكہ گنے كى پيداوار ميں 402 گنا اضافہ ہوا- سٹيٹ بنك كے مطابق فى كس آمدنى ميں 8 گنا،جبكہ آبادى ميں صرف 5ء4 گنا اضافہ ہوا-
وزير اعظم نے كسانوں پر زمينيپيداوار كو مزيد بڑهانے كے لئے كوششيں كرنے پر زور ديتے ہوئے يہ بهى بتايا كہ ہم گندم كى فى ايكڑ پيداوار كو 35 من سے بڑها كر 50 من تك لے جانا چاہتے ہيں-(خبريں: 16/مئى) جبكہ جہاں تك پاكستان كى زمين كى پيداوارى صلاحيت كا تعلق ہے تو خبريں كے ہى زير اہتمام ايك مقابلے ميں انعام شدہ زمينوں كى پيداوارى صلاحيت بالترتيب يہ رہى: 84ء86 اور 71 او رتيسرے انعام كى حقدار زمين 73ء69- گويا ابهى پاكستانى زمين ميں اس سے بهى زياده گنجائش موجود ہے-
دوسرى طرف ابهى پاكستان كى 30 فيصد زرعى زمين بے كار اور ہمارى توجہ كى منتظر پڑى ہے-
پاكستان ميں فیملى پلاننگ كا كام 1953ء ميں انفرادى كوششوں اور اين جى اوز سے شروع ہوا- 1960ء ميں اس كو باقاعدہ سركارى سرپرستى حاصل ہوئى، اس كى تشہير شروع ہوئى، اس كى سہوليات عام ہوئيں تو لوگوں نے سمجھا كہ يہ فحاشى اور بے حيائى كى تحريك ہے- علماء ودانشوروں اور صحيح الفكر لوگوں كو بہت بعد ميں پتہ چلا كہ فحاشى اور بے حيائى تو فیملى پلاننگ كا صرف ايك پہلو ہے، اصل مقصد مسلمانوں كى بے تحاشا بڑھتى ہوئى آبادى كے آگے بند باندهنا ہے جو يورپ اور امريكہ كے لئے ايك عظيم خطرہ ہے!!
مغربى مفكرين كى پريشانى
مغربى مفكرين كا اس بات پر اتفاق ہے كہ "طاقت كا فيصلہ رقبے نہيں، آبادى كے ہاتھ ميں ہے-" اور بدقسمتى يا خوش قسمتى سے امريكہ و يورپ كى گورى صلیبى آبادى ميں شرح بار آورى تيزى سے گر رہى ہے- اس كى وجہ ان كى غير فطرى اور بے غيرتى پر مبنى طرزِزندگى ہے يا موسمى اور ماحولياتى اثرات- وجہ كچھ بهى ہو، يہ ہولناك حقيقت انہيں شديد تشويش ميں مبتلا كررہى ہے- ان ميں اوسطاً شرح بار آورى7ء1ہے جبكہ مسلم دُنيا ميں اوسطاً 5ء6 ہے-گويا يورپى اقوام ميں ايك جوڑا اگلى نسل كو اپنے جيسے دو افراد بهى نہيں دے پاتا ، نتیجتاً گورى اقوام كى تعداد روز بروز پہلے سے كم ہوتى جارہى ہے-
امريكہ اور يورپى اقوام ميں گرتى ہوئى شرح پيدائش كو ديكهتے ہوئے 1990ء ميں 'امريكن انٹرپرائزز انسٹيٹيوٹ' كے شائع كردہ ايك مضمون ميں نشاندہى كى گئى كہ
"آبادى كے تناسب كو ديكهتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ چهوٹى قوميں (یعنى مسلم) اُبهريں گى اور بڑى طاقتیں كم آبادى كے باعث ختم ہوجائيں گى-"
صلیبى گورے جب مسلمانوں ميں اونچى شرح پيدائش ديكهتے ہيں اور حساب و كتاب كرتے ہيں تو پريشان ہوجاتے ہيں- وہ ديكهتے ہيں كہ ايك عام یمنى عورت سات بچوں كو جنم ديتى ہے اور اگر آئندہ تين نسلوں تك يہى شرحِ پيدائش رہى تو ايك یمنى عورت كے 49 نواسے اور پوتے، 343 پرنواسے اور تيسرى نسل تك 343x7=2401 / افراد ہوں گے، جبكہ يورپ ميں ايك عام فیملى صرف ايك بچہ ركھتى ہے- تين نسلوں تك بمشكل 2 يا 3 ہوں گے، يعنى 2401 كے مقابلے ميں صرف 3 (اگرچہ عملى دنيا ميں ايسا كم ہى ہوتا ہے، مگر حساب كتاب نے صلیبیوں كو چكرا كر ركھ ديا ہے) وہ خوفزدہ ہيں كہ آئندہ چند دهائيوں ميں صورتِ حال بدل جائے گى-
1988ء ميں امريكہ ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ كى ايك رپورٹ ميں تشويش كا اظہار كرتے ہوئے كہا گيا كہ "دنيا كى آبادى ميں آنے والى تبديليوں سے فوجى طاقت كا عالمى توازن اگلى دو دهائيوں ميں بدل سكتا ہے-" رپورٹ ميں امريكہ كے پاليسى ميكرز سے كہا گيا كہ
"وہ اس طرف بهرپور توجہ ديں اور مسلمانوں ميں آبادى كے كنٹرول كواتنى ہى اہميت دى جائے جتنى نئے تباہ كن ہتهياروں كى تيارى پر دى جارہى ہے-"
1991ء ميں ايك كتاب 'دى فرسٹ يونيورسل نيشن' ميں امريكى كالم نگار واٹن برگ نے عالمى آبادى پر تبصرہ كرتے ہوئے لكها: "يہ كہنے كے لئے ايك بلين وجوہات ہيں كہ مسلم اثرورسوخ بڑهے گا-" اس نے بتايا كہ 1950ء ميں مسلمان ساڑهے سینتیس كروڑ تهے اور اكيسويں صدى كے اوّل ميں يہ دو ارب ہوجائيں گے- مسلم قوميں تيز ترين رفتار سے بڑھ رہى ہيں- واٹن برگ نے شكايتاً لكها كہ ترقى يافتہ ممالك ميں ايك عورت كے ہاں اوسطاً 7ء1 بچے پيدا ہوتے ہيں، سوويت بلاك ممالك ميں2ء1، غير مسلم ترقى پذير ممالك ميں 4ء5 جبكہ مسلمان قوموں ميں 6 بچے ہوتے ہيں۔
برطانوى فلاسفر برٹرينڈرسل نے اپنى كتاب 'ميرج اينڈ مارلز' ميں لكها تها كہ مغربى يورپ ميں شرحِ پيدائش تيزى سے گر رہى ہے اور دنيا كى سفيد فام آبادى جلد نيست ونابود ہو جائے گى، اس كے خيال ميں ايشيائى لوگ زيادہ دير رہيں گے اور افريقى ان سے بهى زيادہ- اس نے اہل مغرب كو نہ صرف شرح پيدائش بڑهانے كى ترغيب دى بلكہ غير سفيد فام قوموں كى آبادى كنٹرول كرنے كے ليے اقدام اٹهانے پر بهى زور ديا-
' نارتھ كيرولينا سنٹر برائے تحقيق آبادى اور تحفظ' كے ڈاكٹر سٹيفن نے 1977ء ميں اپنى كتاب 'پاپوليشن گروتھ كنٹرول' ميں لكها كہ دنيا كى آبادى كى تحديد كے ليے غير معمولى اقدامات كى ضرورت ہے-اب وسيع پيمانے پر لازماً مداخلت كرنا ہو گى كيونكہ ہمارى بقا خطرے ميں ہے- لہٰذامغرب كو خطرہ يہ ہے كہ اپنى تمام تر ٹيكنالوجى ، ہتهياروں اور دولت كے باوجود اگر عددى لحاظ سے وہ كم ہوگئے تو ان كا يہ غلبہ زيادہ دير برقرار نہيں رہ سكتا اور اكيسويں صدى كے وسط ميں مسلمان تعداد كے لحاظ سے دُنيا ميں سب سے بڑى قوم ہوں گے-
آبادى كے اس فرق كو كم كرنے كے طريقے
آبادى ميں اضافے كے اس فرق كو كم كرنے كے صرف دو طريقے ہيں: اہل مغرب اپنى آبادى بڑهائيں يا پهر مسلمانوں كى آبادى كم كريں-اہل مغرب كے لئے اپنى آبادى بڑهانا ممكن نہيں كيونكہ ان كے ہاں شرحِ بار آورى ہى بہت كم ہے- اس شرح كو بڑهانے كے لئے ہر طرح كى كوششيں كى گئيں- ٹيسٹ ٹيوب بے بى اور كلوننگ بهى اسى سلسلے كى ايك كڑى ہے-
تيزى سے گرتى ہوئى شرحِ پيدائش پر قابو پانے كے لئے صلیبى دنيا نے بڑے اقدامات كئے مثلاً حرام كى اولاد كو قانونى تحفظ دے كر حرامى بچے پيدا كرنے والى ماوٴں كوسہولتيں دى گئيں- بغير شادى كے ازدواجى تعلقات كو تسليم كيا گيا- غير ملكیوں كے ساتھ شادى كى حوصلہ افزائى كى گئى-1984ء ميں يورپى پارليمنٹ نے ايك قرارداد پاس كى جس ميں تمام ممبر ممالك سے كہا گيا كہ وہ ايسے اقدام كريں جس سے شرحِ پيدائش ميں اضافہ ہوسكے- قرار داد ميں اس بات پر تشويش كا اظہار كياگيا كہ 1960ء ميں يورپى گورے پورى دنيا ميں 8ء8 فيصد تهے- شرحِ پيدائش ميں كمى كے باعث 2025ء ميں صرف 2 فيصد رہ جائيں گے- اس سے عالمى سطح پر يورپ كا اثرورسوخ كم ہوجائے گا-
يورپى يونين كے ممبر 16/ممالك نے اپنى آبادى ميں اضافے كے لئے جو منصوبہ وضع كيا ہے ، اس كى رو سے 1960ء ميں 60 سال سے اوپرلوگوں كى تعداد جو 18 فيصد تهى ، اسے 2050ء ميں 36 فيصد كرنے كا ہدف ركها گيا ہے، 15 تا 59 سال كے يورپى لوگ 1960ء ميں 59 فيصد تهے، جنہيں 2050ء ميں كم از كم 48 فيصد تك لانا ہے-15 سال سے كم عمر بچوں كى تعداد تب 23 فيصد تهى، جسے 16 فيصد تك لانے كا ہدف مقرر كيا گيا ہے-
اس سلسلے ميں يورپى حكومتوں نے اپنے عوام كو پركشش ترغيبات بهى دى ہيں- فرانس كى حكومت 800 ڈالر ماہانہ ميٹرنٹى الاوٴنس ديتى ہے- جو خواتين تيسرے ياچوتهے بچے كو جنم ديتى ہيں، انہيں تين برس تك معقول ماہانہ الاوٴنس ملتا ہے- جرمنى كى حكومت نئے جوڑوں كو مكان كى تعمير كے لئے بلا سود قرضے فراہم كرتى ہے اور ہر نئے بچے كى پيدائش پر قرض كا ايك حصہ معاف كرديا جاتا ہے- يورپ كے ديگر ممالك ميں بهى 'آبادى بڑهاوٴ' پاليسى پر عمل3 ہورہا ہے۔
پوپ جان پال دوئم نے اپنے دورئہ بهارت كے دوران 7 نومبر 1999ء كو نہرو سٹيڈيم ميں 50 ہزار عيسائيوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا :
"اپنى آبادى كو كم كرنے كى كوشش نہ كريں، بلكہ اضافہ كرتے رہيں- بهوك اور غربت كى وجہ سے اسقاطِ حمل اور مصنوعى طريقوں سے افزائش نسل روكنا درست نہيں- فیملى پلاننگ موت كا كلچر ہے- اكيسويں صدى كو ايشيا ميں عيسائيت كى صدى بنانا ہے-"
صلیبیوں كى مسلمانوں كے لئے تويہ نصیحت ہے كہ 'آبادى گھٹاوٴ، خوشحالى بڑهاوٴ'، 'بڑا گهرانہ، بڑا جنجال' ،'چهوٹا گهرانہ، تندرست و توانا' ،'كم بچے،خوشحال گهرانہ'، مگر خود اپنے ہاں 'آبادى بڑهاوٴ، طاقت بڑهاوٴ' كى پاليسى پر عمل پيرا ہيں-
اٹلى كے ايك قصبے كے ميئر نے نوجوان كنواروں سے خطاب كرتے ہوئے تاكيد كى كہ وہ شادى كريں يا پهر 'كنوارا ٹيكس' دينے كے لئے تيار ہوجائيں، كيونكہ قصبے ميں بچوں كى كمى كے باعث كئى سكول بند ہوگئے ہيں-
اہل مغرب اپنى ہمہ گير كوششوں كے باوجود تاحال اپنے مقصد، یعنى اپنى آبادى كو بڑهانے ميں كاميابى حاصل نہيں كرسكے-اس سلسلے ميں ان كى سب كوششيں برى طرح ناكام ہوچكى ہيں اُنہوں نے ايسا معاشرتى سيٹ اپ بنا ليا ہے كہ عورتيں بچے پالنااپنے ليے مصيبت سمجھتى ہيں، سو انہوں نے اپنا سارا زور مسلمانوں كى آبادى كم كرنے كى طرف لگا ديا ہے- اس مقصد كو حاصل كرنے كے لئے درج ذيل طريقے اختيار كئے گئے :
(1) ميڈيا (ريڈيو، ٹى وى، اخبارات، رسائل، اشتہارات) سے سحرانگيز اور پركشش پراپيگنڈہ
(2) خوبصورت اداكاراوٴں اور مقامى ليڈى ڈاكٹروں كو اشتہاروں ميں استعمال كيا گيا
(3) مقبول قومى كهلاڑيوں اور سوشل وركرز سے كام ليا گيا
(4) ايجنٹ تنظيموں كے ذريعے پوسٹر لگائے اور پمفلٹ تقسيم كئے گئے
(5) واكس(walks)كا اہتمام كيا گيا
(6) حكومت كو آئى ايم ايف اور ورلڈ بنك كے قرضوں كے ذريعے جكڑا ديا گيا اور انہيں فيملى پلاننگ كروانے پر مجبور كيا گيا اور مالى امداد كو برتھ كنٹرول سے مشروط كرديا-
(7) مالياتى پاليسيوں كے ذريعے مہنگائى پيدا كر كے عوام كے ذہنوں ميں زيادہ بچوں كے بوجھ كا احساس پيدا كيا گيا
(8) مقبول عام گانوں اور ورائٹى پروگراموں كے ذريعے بهى برتھ كنٹرول كى ترغيب دى جاتى ہے-
(9) پراپيگنڈے كى اس ہمہ جہت مہم كى كاميابى ميں بڑى ركاوٹ مسلم علما اور دانشور تهے- اس مسئلے كے حل كے لئے عالم اسلام كے ہر كونے ميں ريسرچ كى گئى، مسلم علما كا جائزہ ليا گيا اور مختلف ہتھكنڈوں سے اُنہيں خاموش كرا ديا گيا- تضحیك كا نشانہ بناياگيا اور معاشرے ميں ان كا مقام بہت نيچے گرا دياگيا-جن ذمہ دار فرض شناس علما نے اس شر انگيز مہم كا مقابلہ كرنا چاہا اور قرآن و حديث كى روشنى ميں اس كا ابطال كيا تو زرخريدمولويوں كے ذريعے ان آيات و احاديث كى حسب ِخواہش تاويل كرا دى گئى اور پهر علما كے جوابات كو مذاق ميں اُڑا ديا- بكنے والے علما كو بهارى عطيات اور اوقاف كى ملازمتيں دلا كر خريد ليا گيا-
اس سلسلے ميں ايك تنظيم"Save The Children"بہت كام كررہى ہے- اس كاكام عوامى اور مذہبى ليڈروں كو ہم نوا بنانا ہے- اس نے ايك سال كے دوران 110 سيشن منعقد كئے، جس ميں 3300/ افراد نے شركت كى- بنگلہ ديش ميں بڑى تعداد ميں اس نے علما كو ہم نوا بنا ليا ہے- پاكستان ميں اس تنظيم كو 'فیملى ہیلتھ پراجيكٹ' كے نام پر ورلڈ بينك سے امداد مل رہى ہے- افريقى ممالك ميں بهى يہ تنظيم كام كررہى ہے- يہ گاوٴں كے امام مسجد كو ٹارگٹ بناتى ہے- اپنے تنخواہ دار تربيت يافتہ مولوى كے ذريعے اس كى برين واشنگ كرتى ہے پهر اس كے ذريعے دوسرے اماموں پر كام كيا جاتا ہے۔
امريكى دفاعى ادارے پينٹاگون نے 'قرآن ريسرچ'كے لئے باقاعدہ ملازم ركهے تاكہ اسقاطِ حمل اور مانع حمل طريقوں كے بارے ميں مسلمانوں كو گمراہ كرنے كے لئے قرآنى آيات كو مرضى كے مطابق ڈهالا جاسكے- آيات كے معانى بدلے جائيں، خود ساختہ احاديث اور اقوالِ صحابہ كو فیملى پلاننگ كے حق ميں ديا جائے- چنانچہ يہ لوگ اپنے اہداف بڑى كاميابى سے حاصل كررہے ہيں مثلاً :
(1) سورئہ بنى اسرائيل كى آيت نمبر 31 (وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ) "اور اپنے بچوں كو مفلسى كے ڈر سے قتل نہ كرو-" سے يہ ثابت كرنے كى كوشش كى گئى "كہ اپنے خاندان كو اپنے وسائل سے ہم آہنگ ركهيں" حالانكہ يہ آيت خاندانى منصوبہ بندى كى جڑ كاٹتى ہے۔
(2) سورہٴ توبہ كى آيت نمبر 25 (إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا) "جب تمہیں تمہارى كثرت نے خوش كيا مگر يہ كثرت تمہارے كچھ كام نہ آئى-" يہ آيت جنگ حنين كے بارے ميں ہے،جس ميں فتح كے لئے كثرتِ تعداد كى بجائے اللہ پر بهروسہ ركهنے كے لئے كہا گيا ہے- اس آيت كو 'كثرتِ آبادى' كے خلاف استعمال كيا گيا-
(3) سورة البقرة كى آيت نمبر 286 ميں: (لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ) "الله كسى جان كو اس كى ہمت سے بڑھ كر تكليف نہيں ديتا..." اس آيت كو بهى كثرتِ آبادى كے خلاف استعمال كيا گيا ان كے علاوہ پاكستان كے محكمہ بہبود آبادى نے مندرجہ ذيل آيات كو فيملى پلاننگ كے پراپيگنڈے كے لئے استعمال كيا :
(4) "موٴمنو! تمہارے مال اور تمہارى اولاديں تمہیں اللہ كى ياد سے غافل نہ كرديں اور جو كوئى ايسا كرے گا، وہ خسارہ پانے والوں ميں سے ہوگا-" (المنافقون:9)
(5) "قيامت كے دن نہ رشتے ناطے كام آئيں گے اور نہ ہى اولاد" (الممتحنہ:3)
(6) "اور جان ركهو كہ تمہارا مال اور تمہارى اولاد بڑى آزمائش ہے-" (الانفال:28)
(7) "يہ تمہارى دولت اور تمہارى اولاد يں نہيں جو تمہيں ہم سے قريب كرتى ہيں-" (السبا:37)
اسى طرح معروف علما اور مفتيان كے فتووں كو سياق و سباق سے عليحدہ كركے شائع كيا گيا، مثلاً اگركسى مفتى نے فتوىٰ ديا كہ "اگر عورت كى جان كو خطرہ ہو تو وہ ضبط ِولادت كرسكتى ہے-" اس ميں سے پہلا جملہ نكال ديا گيا اور لكہ ديا گيا كہ فلاں مفتى نے كہا ہے:"عورت ضبط ولادت كرسكتى ہے" يعنى ہر جعلسازى اپنائى گئى- پاكستان كے محكمہ بہبود آبادى نے 96، 1995ء كے كيلنڈر ميں 12/ قرآنى آيات كو سياق و سباق سے كاٹ كر اور اصل مفہوم بدل كر شائع كرديا، حالانكہ ان ميں كوئى ايك آيت بهى 'تحديد آبادى' كے حق ميں نہيں-
مسلم حكمرانوں اورعوام كو فيملى پلاننگ پر راغب كرنے كے لئے نہ صرف ترغيب و تحريص اور تاكيد سے كام ليا گيابلكہ اس كے ساتھ ساتھ تاديبى ہتھكنڈے بهى استعمال كئے گئے- انڈونيشيا ميں 'برتھ كنٹرول' كو بزورِ قوت نافذ كيا گيا- انڈونيشيا كے فوجى خواتين كو بندوق كى نوك پر نظربندى كیمپوں ميں لے جاتے اور انہيں اس وقت تك وہاں ركها جاتا جب تك وہ فیملى پلاننگ پر عمل كرنے كى ٹهوس ضمانت نہ دے ديتيں يا نس بندى نہ كروا لیتیں- 'انڈونيشيا ٹوڈے' كے مطابق گن پوائنٹ پر 14 D(رحم مادر ميں ركهنے والى ڈيوائس) ركهى گئى- تعليمى اداروں ميں جوان لڑكيوں ميں طويل عرصہ والے ٹيكے لگائے گئے- نتيجةً وہاں فى فیملى 6 بچوں كى بجائے اوسطاً 3 رہ گئے-
پاكستان كے بارے ميں بهى اخبارات ميں آيا ہے كہ حكومت ِپاكستان نے ان سركارى ملازمين كى ترقى روكنے كا فيصلہ كيا ہے جو چار سے زيادہ بچے پيدا كرنے كے قصور وار ہوں گے-جن استانيوں كے تين سے زيادہ بچے ہوں، ان كو ولادت كے ايام كى رخصت سے مستثنىٰ قرار دينے كا فيصلہ بهى عمل ميں لايا جارہا ہے-
1981ء ميں امريكى آفیشل تهامس فرگوسن نے كہا: ہميں آبادى ميں اضافے كے فرق كو ہر حال ميں كم كرنا ہے، چاہے حكومتيں ہمارے صاف ستھرے طريقوں سے كام كريں يا پهر دوسرے (يعنى جبرى) طريقوں سے- مندرجہ بالا تدابير اختيار كرتے ہوئے آخر وہ اپنے مقاصد كو پانے ميں كامياب ہوئے اورجنورى 1991ء ميں 'دى راك فيلرز پاپوليشن كونسل' نے اعلان كيا كہ فيملى پلاننگ كے ذريعے مسلم ممالك ميں 40 كروڑ سے زيادہ پيدائشيں روك لى گئى ہيں اور اگلى صدى كے آخر تك ايك ارب 20 كروڑ پيدائشيں مزيد روك لى جائيں گى، يہ ان كا ٹارگٹ ہے-
پروفيسر نكولس ايبر سٹاڈجو ہارورڈ يونيورسٹى كے 'ادارئہ مطالعہ آبادى' كے محقق ہيں، كہتے ہيں كہ ہمارے لئے اصل دردِ سردنيا ميں مسلمانوں كى بڑهتى ہوئى آبادى ہے-
1974ء ميں امريكى صدر نكسن نے وزير خارجہ ہنرى كسنجر كى سربراہى ميں ايك كميٹى تشكيل دى،جس كا مقصدجو 2000ء تك امريكہ كو درپيش مشكلات كى نشاندہى اور پيش بندى كرنا تها- 'رپورٹ 2000ء' نا مى اس رپورٹ ميں پاكستان، مصر، بنگلہ ديش، تركى، نائيجيريااور انڈونيشيا ميں مسلمانوں كى بڑھتى ہوئى آبادى كو امريكہ كے لئے خطرہ قرار ديا گيا-
1992ء ميں CIA كے ڈائريكٹر اينڈرے ايس كلائن نے اپنى كتاب ميں لكها كہ
"دنيا كے وسيع رقبوں پرانہى اقوام كا اقتدار ہوگا جن كى آبادى وسيع ہوگى-"
دوسرا اعتراض: زيادہ آبادى آلودگى كا باعث ہے!
اس وقت دُنيا ميں جو ماحولياتى آلودگى پائى جاتى ہے ، اس كا ذمہ دار بهى يورپى ممالك كى طرف سے زيادہ آبادى كو ٹھہرايا جارہا ہے- اور اس اعتراض كو بنياد بنا كر مسلم ممالك پر دباوٴ ڈالا جارہا ہے كہ اپنى آبادى كنٹرول كرو- اصل ميں آبادى ميں كمى كروانے كى وجوہات تو وہى ہيں جن كا تذكرہ سابقہ صفحات ميں كيا گياہے، يہ تو محض ايك خود ساختہ اعتراض ہے جبكہ ماہرين كا يہ كہنا ہے كہ ماحول كو زيادہ نقصان آبادى ميں اضافے كى وجہ سے نہيں بلكہ امير ممالك كے ضرورت سے زيادہ خرچ (Over consumption) سے پہنچا ہے- ان ماہرين كے مطابق دنيا كے ايك ارب امير لوگوں نے زمين پر زندگى كو خطرے سے دوچار كرديا ہے- يہ بات ورلڈ واچ انسٹيٹيوٹ كى رپورٹ ميں بتائى گئى ہے-
مارگريٹ كارلسن نے يو اين دستاويز 'پراگرس آف نيشنز' ميں اس بات كا اعتراف كيا ہے كہ
"ترقى يافتہ صنعتى ممالك ميں پيدا ہونے والا ہر بچہ اپنى زندگى ميں ترقى پذير ممالك (یعنى عمومى طور پر مسلم ممالك) ميں پيدا ہونيوالے بچہ كى نسبت 20 تا 30 گنا زيادہ وسائل خرچ كرتا ہے- اسى طرح 'نيچرل ريسورسز ڈيفنس كونسل' نے قرار ديا ہے كہ صنعتى ممالك ميں 55 ملين افراد ترقى پذير دنيا ميں پيدا ہونے والے 895 ملين افراد سے زيادہ دنيا كو آلودہ كرتے ہيں- اس لئے ہميں آلودگى كے خاتمے كے لئے اپنى كوششيں صنعتى ممالك پر مركوز كرنا ہوں گى-"
لاس اینجلس ٹائمز نے 1994ء ميں سب سے زيادہ آلودہ جگہ برازيل كے كوباٹو كو بتايا تها- حالانكہ يہاں آبادى ميں اضافہ كا كوئى مسئلہ ہى نہ تها بلكہ يہ آلودگى صنعتى اور فارماسيوٹيكل كمپنيوں كى وجہ سے تهى- ايك عام فہم بات ہے كہ ايك غريب بچہ وہ آلودگى نہيں پهيلا سكتا جو امير كى گاڑى يا ايئر كنڈيشن وغيرہ پهيلاتے ہيں- پاكستانى شہروں ميں جو آلودگى ہے، اس كى وجہ كرپٹ اور نااہل انتظاميہ ہے-نيچے سے اوپر تك درجہ بدرجہ تمام سركارى اور حكومتى اہلكار اپنے پيشہ وارانہ فرائض سے بے خبر اور بے فكر ہيں-
دراصل ترقى يافتہ ملكوں كے يہ ايٹمى اور سائنسى تجربات، انسانى خوراك، پانى اور فضا كو انسانى زندگى كے لئے ضرر رساں بنا ديتے ہيں- سائنس دانوں كا كہنا ہے كہ گذشتہ 50 برسوں ميں مرد حضرات كے مادئہ توليد كے جرثوموں ميں 50 فيصد كمى آچكى ہے اور اندازہ ہے كہ آئندہ 50 برسوں ميں ان كى گنتى محض 25% فيصد رہ جائے گى اور اگر يہ گنتى اسى رفتار سے كم ہوتى گئى تو اگلى صدى كے اختتام پر زيرو كے مقام پر پہنچ جائے گى-
ترقى يافتہ ممالك كى صنعتى، ايٹمى اور سائنسى سرگرمياں ايك طرف تو ماحول كو آلودہ كررہى ہيں اور دوسرى طرف نسل انسانى كى تباہى كا باعث بن رہى ہيں مگر كمال ڈهٹائى سے كہا جاتا ہے كہ مسلمان اپنى آبادى كنٹرول كريں، يہ ماحولياتى آلودگى ميں اضافہ كررہے ہيں-
تيسرا اعتراض :زيادہ بچوں كى پيدائش سے ماوٴں كى زندگى كو خطرہ
يہ پراپيگنڈا كركے كہ زيادہ بچے پيدا كرنا عورت كى زندگى كے لئے خطرہ ہے،خوب دہشت پهيلائى گئى ہے- حالانكہ اس پراپيگنڈے كا حقيقت سے كوئى تعلق نہيں- مولانا مودودى نے اپنى كتاب 'اسلام اور ضبط ِولادت' ميں اس موضوع پر مغرب كے طبى اور نفسیاتى ماہرين كے حوالے سے كافى روشنى ڈالى ہے- ڈاكٹر اوسوالڈ سكوارس كے حوالے سے لكھتے ہيں:
"يہ ايك ثابت شدہ حياتياتى قانون ہے كہ جسم كا ہر عضو اپنا خاص وظيفہ انجام دينا چاہتا ہے اور اس كام كو پورا كرنا چاہتا ہے جو فطرت نے اس كے سپرد كيا ہے- اگر كسى عضو كو اپنا كام كرنے سے رو ك ديا جائے تو لازماً الجھنیں اور مشكلات پيدا ہوكر رہتى ہيں- عورت كے جسم كا بڑا حصہ بنايا ہى گيا ہے استقرارِ حمل اور عمل توليد كى انجام دہى كے لئے- اگر ايك عورت كو اپنے جسمانى اور ذ ہنى نظام كا يہ تقاضا پورا كرنے سے روك ديا جائے تو وہ اضمحلال اور اندرونى ٹوٹ پهوٹ كا شكار ہو جائے گى- "
ڈاكٹر اليكسز كارل كے حوالے سے لكھتے ہيں:
" وظائف ِتوليدى كى انجام دہى عورت كى صحت و تكميل كے لئے ناگزير ہے- يہ ايك احمقانہ فعل ہے كہ عورتوں كو توليد اور زچگى سے برگشتہ كيا جائے-"
اگر ہم اپنے ارد گرد كا جائزہ ليں تو مندرجہ بالا حقيقت روزِ روشن كى طرح عياں اور واضح نظر آتى ہے كہ جن عورتوں كے بچے زيادہ ہيں وہ زيادہ صحت مند اور فٹ ہيں، بہ نسبت ان كے جن كے ايك يا دو بچے ہيں- ايك عورت اور ماں ہونے كے ناطے ميں خود اس حقيقت كا مشاہدہ كرتى ہوں- اللہ نے سات اولادوں سے نوازا اور الحمدلله آج تك كسى مرحلے پر كسى بهى اَپ سيٹ سے سابقہ پيش نہيں آيا- اور آج عمر كى 50 كى دهائى ميں ہونے كے باوجود الحمدللہ كسى سنجيدہ بيمارى سے واسطہ نہيں پڑا، سوائے موسمى ہلكى پھلكى خرابيوں كے- ايسى بہت سى مثاليں ميں اپنے ارد گرد اور اپنے خاندان ميں دیكھتى ہوں- اس كے برعكس جن كے ہاں دو يا تين بچے ہيں، انہيں عموماً كسى نہ كسى بيمارى سے دوچار ديكها ہے- درحقيقت يہ بيمارياں ان مانع حمل ادويات اور ڈيوائسز كے استعمال كا نتيجہ ہوتى ہيں-
ايك صاحب جن كے 6 بچے ہيں، اپنا واقعہ بيان كرتے ہوئے بتاتے ہيں كہ دوسرے بچے كى پيدائش كے بعد ليڈى ڈاكٹر نے ميرى بيوى كو تيسرى بار ماں بننے سے سختى سے منع كرديا اور كہا كہ اگر ايسى غلطى كرو گى تو مرجاوٴ گى- جب تيسرے بچے كا حمل ٹھہر گيا تو ميرى پريشان بيوى اس كے پاس گئى- ليڈى ڈاكٹر نے مجهے بلوايا، خوب لعن طعن كى اور بڑے وثوق سے كہا كہ زچہ بچ نہيں سكے گى- مگر نہ صرف تيسرا بچہ بخير و خوبى پيدا ہوا بلكہ مزيد تين بچے بهى پيدا ہوئے اور اللہ تعالىٰ كے فضل و كرم سے ميرى بيوى بهى تندرست ہے-
دراصل زچگى كے باعث جو اموات ہورہى ہيں، اس كى اصل ذمہ دار حكومتيں ہيں- جو ٹيكس لينے كے باوجودضرورى طبى سہوليات فراہم نہيں كرتيں- زيادہ بچے خواتين كى زندگى كے لئے اتنے خطرناك نہيں جتنى ناكافى طبى سہوليات اور مانع حمل ادويات ہيں- يہ ادويات استعمال كرنے والى اكثر خواتين پيچيدہ بيماريوں كا شكار ہوجاتى ہيں۔
كراچى كے ڈاكٹر انوار الحق كى رپورٹ كے مطابق ان ادويات سے انجمادِ خون كے خطرناك مسائل مثلاً(Thrombosis and Embolism) وغيرہ كے علاوہ رحم كى جھلیوں كا ورم اوررحم ميں كینسر كى بيمارياں پيدا ہورہى ہيں- يہ ادويات جگر كے بعض ٹيومرز كے پھٹنے اور خون بہنے كا باعث بهى بن رہى ہيں- فیملى پلاننگ ادويات سے مرنے والوں كا چونكہ ہسپتال ريكارڈ نہيں ركهتے بلكہ اسے عام بيمارى كى اموات ہى ظاہر كرتے ہيں، اس لئے اعداد وشمارميں يہ بتانا مشكل ہے كہ سالانہ كتنے ہزار خواتين ان ادويات سے مررہى ہيں اور كتنى كینسر كا شكار ہوكر شديد اذيت سے دوچار ہيں-علاوہ ازيں فیملى پلاننگ كا عملہ زيادہ تر نيم خواندہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور اسقاطِ حمل كے لئے بعض اوقات ايسے ہولناك طريقے بهى استعمال كرجاتا ہے جن كے بارے ميں ايك ڈاكٹر سوچ بهى نہيں سكتا- نتيجہ پيچيدہ بيماريوں اور اموات كى صورت ميں نكلتا ہے-
ان ادويات سے متذكرہ بالا بيماريوں كے علاوہ ايام ميں بے قاعدگى اور زيادتى، پيٹ ميں درد، اُلٹياں، معدے كا السر، خون كى كمى، سردرد اور پژمردگى، عصبى ناہموارى، بے خوابى، پريشان خيالى، چڑچڑاپن، دل و دماغ كى كمزورى، نفسیاتى الجھنیں، پاوٴں كا سُن ہونا اور فالج جيسى بيمارياں بهى جنم لیتى ہيں-(اونٹاريو كينيڈا ميں كى گئى ريسرچ كے مطابق فیملى پلاننگ ادويات اور ڈيوائسز كا استعمال كرنے والى خواتين ميں فالج كا تناسب 57 فيصد ہے) اس كے علاوہ مرد بهى كئى قسم كى مردانہ كمزوريوں كا شكار ہوجاتے ہيں اور بسا اوقات اپنى فطرى صلاحيتوں سے كلى محروم ہوجاتے ہيں۔
بدقسمتى سے پاكستان ميڈيكل ايسوسى ايشن (PMA)بهى اس صلیبى سازش كا آلہ كار بن چكى ہے- اگرچہ فیملى پلاننگ كا يہ سارا پروگرام انسانى فلاح و بہبود اور خوشحالى اور ترقى كے نام پر ہورہا ہے مگر حقيقت ظاہر ہے كہ صلیبى دنيا كا انسانى فلاح و بہبود سے كوئى سروكار ہے ہى نہيں!!
حوالہ جات
1. خبريں:18/مئى
2. روزنامہ جنگ لاہور: 18/مئى 2005ء
3. اس کی تفصیلات کے لئے اس ضمیمہ کو ملاحظہ فرمائیں۔