فتاوی

مشت سے زيادہ ڈاڑهى ؟ سجدہ ميں پہلے ہاتھ ركهے جائيں يا گهٹنے؟نئى ركعت كے ليے اُٹهتے ہوئے ہاتهوں سے ٹيك لگانے كى كيفيت , مزارات وغيرہ ميں خيرات وغيرہ تقسيم كرنا
سوال: اگر اللہ تعالىٰ كے نام پرخيرات كى كوئى چيز پكائى جائے اور اس كو كسى مزار كے احاطے ميں يا باہر غرباميں تقسيم كيا جائے تو اس پر شريعت كيا كہتى ہے- آيا يہ فعل گناہ كبيرہ ہے يا صغيرہ ، شرك ہے يا ناجائز؟ باحوالہ فتوىٰ دركا رہے۔ (محمد فيصل ولد الطاف احمد)
جواب: مذكورہ صورت وسيلہ شرك ہونے كى بنا پر ممنوع ہے- حضرت ثابت بن ضحاك سے مروى ہے كہ ايك شخص نے نذر مانى كہ وہ 'بوانہ' نامى مقام پر چند اونٹ ذبح كرے گا- اس نذر كے ماننے والے نے آنحضرت ﷺ سے پوچها كہ كيا ايسا كرنا صحيح ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے دريافت فرمايا كہ كيا وہاں كوئى بت تها جس كى مشرك پوجا كرتے تهے؟ صحابہ  نے عرض كيا: نہيں- آنحضرت ﷺ نے دوبارہ پوچها كہ كيا وہاں كوئى مشركين كا ميلہ لگتا تها- صحابہ نے كہا : نہيں- رسول اللہ ﷺ نے فرمايا كہ اپنى نذر پورى كرلو اور ياد ركھو كہ اللہ تعالىٰ كى نافرمانى ميں نذر كا پورا كرنا درست نہيں اور نہ ايسى نذر پورى كرنا صحيح ہے جو انسان كى ملكيت ميں نہ ہو۔1

اس حديث سے باب سد ِذرائع كا بهى استنباط ہوتا ہے نيز يہ بهى ثابت ہوتا ہے كہ مشركين سے كسى پہلو سے بهى مشابہت نہيں ہونى چاہئے اور ان اُمور سے بچنا چاہئے جن سے يہ انديشہ ہو كہ وہ مشركين سے مشابہت كا ذريعہ اور وسيلہ بن سكتے ہيں۔

يہ حديث اس بارے ميں نص ہے كہ شرك والى جگہ كے قريب بهى نہيں پھٹكنا چاہئے-چہ جائيكہ وہاں فقراء و مساكين كى موجودگى كو بہانہ بنا كر شركیہ مقام كى رونق كو دوبالا كرے- اس فعل كا مرتكب بدعات و شركيات كا حصہ دار تصور ہوگا اور دوسرى روايت ميں ہے: (من تشبه بقوم فهو منهم) (ابوداود) "جو كسى قوم سے مشابہت كرے وہ انہيں ميں سے ہے۔"

قرآنِ مجيد نے بهى مشركين سے دورى كى تلقين فرمائى ہے، چنانچہ ارشاد بارى تعالىٰ ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ‌ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ‌هِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ...﴿١٤٠﴾...سورۃ النساء
"اور اللہ نے تم پر اپنى كتاب ميں (يہ حكم) نازل فرمايا ہے كہ جب تم (كہيں)سنو كہ اللہ كى آيتوں سے انكار ہورہا ہے اور اُن كى ہنسى اُڑائى جاتى ہے تو جب تك وہ لوگ اور باتيں (نہ) كرنے لگیں، ان كے پاس مت بیٹھو، ورنہ تم انہيں جيسے ہوجاوٴ گے -"

اور دوسرے مقام ميں ہے:
وَإِذَا رَ‌أَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ‌هِ ۚ...﴿٦٨﴾...سورۃ الانعام
" اور اے نبى! جب تم ديكهو كہ لوگ ہمارى آيات پر نكتہ چينى كر رہے ہيں تو تم ان كے پاس سے ہٹ جاوٴ يہاں تك كہ وہ اس گفتگو كو چهوڑ كر دوسرى باتوں ميں لگ جائيں۔"

يوں بهى مستحقین صدقہ كا وجود ہر جگہ ممكن ہے، ايسى خام خيالى سے شرك كے اڈے كو آباد كرنا خسارے كا سودا ہے، يہ كبيرہ گناہ ہے جو وسیلہ شرك و بدعت ہے۔ لا علمى كى صورت ميں توبہ كرنا چاہئے ورنہ انجام كار خطرہ ميں ہے۔ والله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم

مشت سے زيادہ ڈاڑهى اور علامہ البانى 
سوال: محدث كے چند شمارے نظر سے گزرے ، اس ميں مفيد مضامين كے مطالعہ كے بعد ميرا يہ تاثر پختہ ہوگيا كہ محدث كے تمام شمارے اسى طرح علم وتحقیق كا مرقع ہوں گے- ان ميں 'دارالافتاء' كے نام سے قرآن وسنت كى روشنى ميں جوابات كا سلسلہ مجهے بہت پسند ہے۔

كچھ دنوں سے چند دوستوں سے مباحثہ نے ميرے ذہن ميں خلجان پيدا كردياہے اور ميں كسى ايك بات پر مطمئن نہيں ہوپارہا- ميں وہ چند سوالات جو موضوعِ بحث تهے، اور جو اُلجھنیں مجهے اس موضوع پر دوسرى كتب كا مطالعہ كرنے كے بعد وارد هوئيں ان كا ذكر كر رہا ہوں-براہ كرم مفصل اور مدلل جواب سے نوازيں -ميرے سوالات حسب ِذيل ہيں :
ڈاڑھى كے معاملہ ميں جو صحيح ترين حديث ہے، اس كے مركزى راوى حضرت عبداللہ بن عمر ہيں۔ يہ حديث صحيح بخارى اور صحيح مسلم دونوں ميں منقول ہے- آپ ايسا پختہ، متبع سنت اور نبى ﷺ كى اتباع كا قابل تحسین نمونہ رسول الله ﷺ كے ڈاڑهى كے متعلق ارشادِ مبارك كى يہ توضيح كرتا ہےكہ ڈاڑهى كى كم سے كم مسنون مقدار ايك مشت ہے جيسا كہ صحيح بخارى ميں ہے كہ عبداللہ بن عمر حج كے موقع پر اپنى ڈاڑهى كے بال پكڑتے اور جو مٹھى كے نيچے ہوتے، ان كو كاٹ ڈالتے- آپ كبائر و صغائر سب صحابہ كے سامنے يہ عمل كرتے تهے ليكن كوئى بهى اس پر اعتراض نہ كرتا۔

يہ كیسے ہوسكتا ہے كہ عبداللہ بن عمر خود ہى ڈاڑهى بڑهانے والى حديث كو روايت كريں اور پهر اس كے خلاف عمل بهى كريں،جبكہ آپ كو رسول اللہ ﷺ كى ہر سنت كا خوب اہتمام رہتا تها- ميرا خيال ہے كہ اسى وجہ سے علامہ ناصر الدين البانى  بهى ان لوگوں كے موقف كى تائيد كرتے ہيں جو يہ كہتے ہيں كہ ڈاڑهى كى كم سے كم مسنون مقدار ايك مشت ہے اور اس سے زيادہ افضل ہے۔ چنانچہ علامہ البانى  إعلام الفتية بأحكام اللِّحيةص63 ميں مولانا حفظ الرحمن اعظمى ندوى كے نام لكھتے ہيں :
"ميرا مسلك وہى ہے جس كى طرف آپ نے اشارہ كيا ہے كہ ڈاڑهى ميں قبضہ سے زائد بال لے لئے جائيں اور اس مسلك كى دو دليليں ہيں:
( صلی اللہ علیہ وسلم ) سلف صالحين، حضرات صحابہ وتابعين، ائمہ مجتہدين اور خصوصاً امام اہل سنت احمد بن حنبل اور صحابہ  ميں سے عبداللہ بن عمر اور سيدنا ابوہريرہ جو حديث إعفاء اللحية (داڑهى كو بڑهنے دينا) كے راوى ہيں، ان كا عمل اور قبضہ سے زائد لينے كى متواتر روايات ؛ (یعنى ان تمام صالح اصحاب كا عمل ڈاڑهى ميں قبضہ سے زائد بال لے لينے كى مشروعیت پر دلالت كرتا ہے) اگر حديث إعفاء اللحيةاپنے اطلاق پر ہوتى جيسا كہ بعض متاخرين كاخيال ہے تو مذكورہ تمام حضرات اس كى مخالفت (قطعاً) نہ كرتے۔
(2) نبى كريم ﷺ اور صحابہ  سے فعلاً (تو كجا) قولاً بهى اس كے منافى كسى ہدايت كا منقول نہ ہونا (اس موقف كى مشروعيت پر دلالت كر رہا ہے) اور بعض لوگوں كا يہ كہنا كہ نبى ﷺ اپنى ڈاڑهى كے بال نہ ليتے تهے، تو يہ بات محض گمان ہے جس كا خود ان لوگوں كو بهى يقين نہيں يا دوسرے لفظوں ميں روايت كى رو سے اس كى كوئى اصل نہيں-" (سائل :حافظ عاطف ،اوكاڑا)
جواب: عبداللہ بن عمر صحابى جليل كے بارے ميں جن اوصاف كى نشاندہى كى گئى ہے فى الواقع وہ انہى سے متصف تهے اور حديث توفير اللحیة كے راوى ہو كر اس كى مخالفت كرنا عجیب سا معلوم ہوتا ہے، سو ان كے اس فعل سے صاف نظر آتا ہے كہ اُنہوں نے ضرور نبى ﷺ سے سند لى ہے، ورنہ ڈاڑھیاں بڑهانے كى حديث كے راوى ہوكر ايك ناجائز امر كا ارتكاب نہ كرتے۔ اس لئے اگر كوئى شخص مٹھى سے زائد ڈاڑهى كٹا لے تو جواز ہے، ہاں البتہ افضل يہى ہے كہ مٹھى سے زائدبهى نہ كٹائى جائے كيونكہ خير القرون ميں اس كى مثال كم ہى نظر آتى ہے نيز عبداللہ بن عمر كے متعلق يہ كہنا كہ وہ صرف حج وعمرہ كے موقع پر كٹاتے تهے، يہ بهى درست معلوم نہيں ہوتاكيونكہ حج اور عمرہ كے علاوه ڈاڑهى كو چھیڑنا ناجائز ہوتا تو حج وعمرہ ميں ناجائز فعل كا ارتكاب كس طرح جائز ہوگيا۔احرام سے فراغت كے لئے وہى كام كيا جاتا ہے جو غير احرام ميں جائز ہو، بالخصوص مُوَطَّأ امام مالك ميں اس امر كى تصريح بهى موجود ہے كہ ابن عمر جب حج كا ارادہ كرتے تو ڈاڑهى چهوڑ ديتے ،چنانچہ اصل الفاظ يوں ہيں :
أن عبدالله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيئًا حتى يحُجَّ 2
اسى طرح ابوہريرہ سے بهى ڈاڑهى كٹانا ثابت ہے اور حضرت عمر نے ايك شخص كے ساتھ يہى فعل كيا تها كہ اس كى قبضہ سے زائد ڈاڑهى كاٹ دى۔

ليكن يہاں يہ بات واضح رہنى چاہيے كہ چند افراد كے عمل سے يہ لازم نہيں آتا كہ سارى اُمت اسى بات كى قائل تهى جس طرح كہ علامہ البانى  كى كلام سے مترشح ہے۔پهراسلامى تاريخ كے بہترين ادوار ميں اگر يہ فہم متفقہ ہوتا تو چند افراد كى تصريح كى چنداں ضرورت نہ تهى، ظاہر ہے كہ سلف صالحين ميں ديگر لوگ توفير لحية كے قائل تهے، اس بنا پر جو نتيجہ علامہ البانى نے اخذ كيا ہے، يہ محل نظر ہے اور اگر اس امر كى تفصيل مطلوب ہو تو فتح البارى شرح صحيح البخارى: ج10/ص350 كى طرف رجوع فرمائيں۔

سجدہ ميں پہلے ہاتھ ركهے جائيں يا گهٹنے؟
سوال: صحيح ابوداود از علامہ البانى  ميں ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ ميں جاتے وقت اونٹ كى طرح بیٹھنے سے منع فرمايا اور حكم ديا كہ گهٹنوں سے پہلے ہاتھ ركهو- يہ روايت حضرت ابوہريرہ سے مروى ہے،جبكہ وائل بن حجر كى حديث جو ابوداود، نسائى اور ترمذى وغيرہ ميں موجود ہے، اس ميں ارشاد يہ ہے كہ "وائل بن حجر فرماتے ہيں كہ ميں نے رسول اللہ ﷺ كو ديكها،جب آپ سجدہ كرتے تو دونوں گهٹنے ہاتهوں سے پہلے ركهتے اور جب سجدہ كے بعد اُٹھتے تو دونوں ہاتھ گهٹنوں سے پہلے اُٹهاتے۔"
علماء اہلحديث دونوں احاديث كو صحيح كہتے ہيں مگر ساتھ يہ بهى كہتے ہيں كہ چونكہ حضرت ابوہريرہ كى روايت اسناد كے لحاظ سے زيادہ قوى اور عمدہ ہے لہٰذا اسى كو ترجيح ہے- اختلاف كى بات يہ ہے كہ رفع اليدين رسول اللہ ﷺ كے آخرى عمل سے ثابت ہے جس كا ثبوت وائل بن حجر كى صحيح حديث ہے- وائل بن حجر 9 ہجرى كے موسم سرما ميں مسلمان ہوئے ، جب آپ 10ہجرى ميں دوبارہ رسول اللہ ﷺ كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو آپ نے رسول اللہ ﷺ كو رفع اليدين كرتے ديكها لہٰذا رفع اليدين كى ناسخ وہى روايت ہو سكتى ہے جو وائل بن حجر كے دور كے بعد كى ہواور ايسا ممكن نہيں-اسى بات كو اگر اس طرح كہا جائے كہ سجدہ كو جاتے وقت ہاتهوں سے پہلے گهٹنے ركهنا، وائل بن حجر  كى حديث كى وجہ سے رسولِ كريم ﷺ كا آخرى عمل ہونا ثابت ہوگيا لہٰذا ترجيح آخرى عمل كو ہے اور پچھلا حكم منسوخ ہوگيا اور اس عمل كى ناسخ حديث اس دور كے بعد كى ہونى چاہئے جو كہ ممكن نہيں- كيا اہلحديث اس كے یكسر خلاف عمل نہيں كرتے؟
جواب: مذكورہ مسئلہ ميں صحيح موقف يہ ہے كہ وائل بن حجر كى روايت ضعيف ہے جس كو ابوداود، نسائى اور ترمذى وغيرہ نے روايت كيا ہے- اس كى سند شريك بن عبداللہ قاضى كى وجہ سے ضعیف ہے، ہمام نے بهى ان كى متابعت كى ہے مگر اُنہوں نے اس حديث كو موصول كى بجائے مرسل روايت كيا ہے- حازمى نے مرسل ہى كو محفوظ كہا ہے، ہمام سے اس حديث كى ايك دوسرى سند بهى ہے مگر وہ منقطع ہونے كى وجہ سے ضعيف ہے- تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو : سلسلة الأحاديث الضعيفة : 2/329،330 اور إرواء الغليل: 2/75،35

اس حديث كى ايك تيسرى سند سنن كبرىٰ بيہقى (2/99) ميں ہے اور وہ بهى سخت ضعيف ہے- اس ميں درج ذيل علتیں ہيں: راوى محمد بن حجر كے بارے ميں امام بخارى نے كہا :
فيه نظر3 "اس ميں كلام ہے-"

راوى سعيد بن عبدالجبار كو ابن حجر نے تقريب ميں ضعيف كہا ہے- اُمّ عبدالجبار كے بارے ميں تهذيب التهذیب ميں عبدالجبار بن وائل كے ترجمہ ميں ہے كہ اس نے اپنے والدين سے سنا نہيں، اگر يہ بات صحيح ہے كہ اس نے اپنے باپ كى طرح اپنى والدہ سے بهى نہيں سنا تو اس سند ميں چوتهى علت انقطاع ہے تو مشاراليہ سند اصل ميں يوں ہے :
محمد بن حجر ثنا سعيد بن عبدالجبار عن عبدالجبار بن وائل عن اُمه عن وائل بن حجر
اور جہاں تك ابوہريرہ كى روايت كا تعلق ہے، وہ صحيح ہے۔اس كو ابوداود، نسائى، احمد وغيرہ نے روايت كيا ہے۔ علامہ مباركپورى نے كہا:
"يہ حديث صحيح يا حسن لذاتہ ہے اور اس كے سب راوى ثقہ ہيں۔" 4

مذكورہ بحث سے معلوم ہوا كہ راجح اور قوى مسلك يہى ہے كہ سجدے ميں جاتے وقت آدمى گهنٹوں كى بجائے پہلے اپنے ہاتھ زمين پر ٹكائے، اس مختصر بحث سے وہ تمام توجیہات جو صورتِ سوال ميں ذكر كى گئى ہيں، كالعدم ہوجاتى ہيں-جملہ تفصیل كے لئے تحفة الأحوذي اور إرواء الغليل ملاحظہ ہو۔5

سجدہ كے بعد اُٹھتے ہوئے ٹيك لگانے كى كيفيت
سوال:نئى ركعت كے لئے اُٹھتے وقت ہاتهوں كو ٹيك لگانے كى كيفيت كون سى ہے، آيا ہتھیلیوں كے ذريعے ٹيك لگائيں يا مٹھیاں بند كركے؟ اور اگر دونوں كيفيات صحيح احاديث سے ثابت ہيں تو ترجيح كس موقف كو دى جائے اور كن دلائل كى بنا پر دى جائے؟
جواب:اُٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمين پر ٹیكتے ہوئے مٹھیاں بند ركھنى چاہئيں،جيسا كہ حديث ِابن عمر ميں رسولِ اكرم ﷺ كا فعل مروى ہے- اس كو حربى نے غريب الحديث ميں روايت كياہے اور علامہ البانى  نے سلسلہ ضعيفہ (2/392) ميں اس كى سند كو حسن كہا ہے۔


حوالہ جات
1. سنن أبوداود، باب مايوٴمر به من وفاء النذر
2. 2/350 مع زرقانى
3. تاريخ كبير :1/69
4. تحفة الأحوذي:1/229
5. اس سلسلے میں تفصیلی مضمون کیلئے دیکھئے: نماز میں سجدے میں جانے کی کیفیت از مولانا منیر قمر سیالکوٹی
شائع شدہ ماہنامہ 'محدث' لاہور: ج31 عدد2 بابت فروری 1999ء ...صفحہ8تا23 سیریل نمبر223