قرآن فہمى اور حديث نبوى ﷺ

جناب غلام احمد پرويز بلا شبہ ذہين آدمى تهے- ذہانت و فطانت كے ساتھ عمده قلمى صلاحيتوں كے بهى حامل تهے- جديد افكار و نظريات سے متاثر ہى نہيں بلكہ انتہائى مرعوب بهى تهے- اسى فكرى اسيرى اور ذ ہنى غلامى كے باعث وہ قرآن مجید سے نت نئى چيزيں كشيد كيا كرتے تهے، جو ان كے پيروكاروں كے نزديك 'علمى جواہر پارے' اور ان كے مخالفين كى نظر ميں 'تحريفات و تلبيسات'تهيں- تاہم وہ غوروفكر، سوچ بچار اور فكر و تدبر سے كام لينے والے تهے، لہٰذا فضاے دماغى ميں اُٹھنے والى ہر لہر كے ساتھ ان كے آراء و نظريات ميں بهى تبديلى واقع ہوتى رہتى تهى،جس كے نتيجے ميں طلوعِ اسلام كى فائل از ابتدا تا انتہا ايك وسيع خارزارِ تضادات و تناقضات كا منظر پيش كرتى ہے- ليكن اپنے ان تضادات پر پردہ ڈالے ركهنے كے لئے وه مجبور تهے كہ خوردبينى مطالعہ كے ذريعہ اپنے مخالفين كى تحريروں ميں سے تضادات كو 'دريافت كركے' خوب اُچهالا جائے اور نہ ملنے كى صورت ميں اپنى ذہانت و فطانت كو كام ميں لاتے ہوئے اُنہيں 'پيدا كركے' يہ ڈهنڈورا پيٹا جائے كہ
"مفاد پرستوں كے خود ساختہ اسلام كے كئى مختلف ايڈيشن شائع ہوئے ليكن مصلحت انديشيوں كى ديمك نے اُنہيں اس طرح چاٹا كہ ان كا ايك حرف بهى زمانہ كے صفحہ پر دكهائى نہيں ديتا، ليكن تغيرات كى ان آندھیوں ميں اور انقلابات كے ان جھكڑوں ميں ايك طلوعِ اسلام ہے كہ جس ميں آپ كو نہ كہيں تضاد ملے گا، نہ تخالف نظر آئے گا-" 1

ليكن پرويز صاحب كے فكرى پسماندگان جو طلوعِ اسلام كى اشاعت كا بيڑا اب تك اُٹهائے ہوئے ہيں، وہ نہ تو ذہانت و فطانت كے اعتبار سے اور نہ ہى قلمى صلاحيتوں كے اعتبار سے ان كے موزوں وارث بن پائے- وہ نہ تو پرويز صاحب كى سى خوردبينى نظر ركهتے ہيں كہ

اپنے مخالفين كے عيوب و اسقام كو ڈهونڈ پائيں اور نہ ہى ايسى ذہنى چابك دستى ركهتے ہيں كہ اپنے مخالفين ميں خاميوں كو 'پيدا كركے' ويسا پراپيگنڈا كرسكيں اور يوں طلوعِ اسلام كى گاڑى رواں دواں رہے- اس لئے وہ بے چارے مجبور ہيں كہ پرويز صاحب ہى كے 'علمى جواہرپاروں' پر گزارہ كرتے رہيں اور اُنہيں كے گھسے پٹے نظريات كو اعادہ و تكرار كے ساتھ طلوعِ اسلام ميں پيش كرتے رہيں- اگر كہيں نقد و تبصرہ كا شوق سراُٹهائے تو دس پندرہ سال پہلے كے كسى رسالے ميں شائع ہونے والے كسى مضمون و مقالہ كو اپنى طبع آزمائى كا نشانہ بنايا جائے- قرآن فہمى كے سلسلہ ميں طلوعِ اسلام كى قريبى اشاعتوں ميں شائع ہونے والے مباحث اسى نظريہٴ ضرورت كے شاخسانے ہيں- ان مباحث كى ابتدا جناب ابو منيب راشد صاحب كے اس مقالہ سے ہوئى ہے جو ستمبر1990ء كے 'اشراق' ميں چھپنے والے مضمون كى ترديد ميں لكها گيا ہے حالانكہ برسوں پہلے جناب خورشيد احمد نديم صاحب كے ہاتهوں گڑے ہوئے مُردوں كو اكهاڑنے كى كوئى ضرورت نہ تهى ليكن بہرحال طلوعِ اسلام كا پيٹ بهى تو بهرنا تها-

سردست، جناب ابومنيب راشد صاحب كے مقالہ پر تفصيلى نقد و تبصرہ كرنا ميرے پيش نظر نہيں ہے- چند ايك باتوں پر اجمالاً اظہار خيال كرنے كے بعد ميں آئندہ قسط ميں 'قرآن فہمى اور حديث ِنبوى ' كے زيرعنوان اس مقالہ پر گفتگو كرنا چاہتا ہوں جو طلوعِ اسلام مئى 2005ء ميں شائع ہوا ہے- اس لئے يہ مقالہ دو حصوں پر مشتمل ہے- پہلے حصہ ميں ابومنيب راشد صاحب اور دوسرے ميں جناب خواجہ ازہر عباس صاحب كى نگارشات پر نقد و تبصرہ كيا گيا ہے-

حصہ اول
(1) جناب مضمون نگار كا تحدى آميز مطالبہ
مضمون نگار صاحب ايك مقام پر بڑے تحدى آميز انداز ميں جناب خورشيد احمد نديم صاحب سے مستفسر ہيں كہ كيا وہ اس امر كو ثابت كرسكتے ہيں كہ پورے قرآن ميں كسى ايك اسم علم كو پرويز صاحب نے اسم نكرہ بنا ديا ہو؟ يا كسى بهى اسم نكرہ كو اسم علم ٹھہرا ديا ہو- جہاں تك ہم نے پرويز صاحب كو سنا اور پڑها ہے، ہميں تو كوئى ايسى مثال نہيں ملتى- اگر نديم صاحب كو پرويز صاحب كے ہاں كوئى ايك بهى ايسى بے ہودہ و لايعنى مثال ملى ہو تو وہ ہمارے سامنے پيش كريں- 2

مثاليں تو بہت سى ہيں ليكن ايسے لوگوں كو يہ مثاليں كبهى نظر نہيں آيا كرتيں جو حقيقت كى آنكھوں سے ديكهنے كى بجائے عقيدت كى عینك ميں سے ديكهنے كے عادى ہوں يا اپنى اندهى عقيدت و ارادت كا تقاضا يہ سمجهتے ہيں كہ ايسى نماياں مثالوں سے صرفِ نظر ہى كرليا جائے تاكہ عقيدت كے نازك آبگینوں كوٹھیس نہ لگ جائے، ايسى صورت ميں ظاہر ہے كہ ع
آنكھیں اگر ہوں بند، تو پهر دن بهى رات ہے اس ميں بھلا قصور كياہے آفتاب كا !!

ميں ايك مثال صرف اس لئے پيش كررہا ہوں كہ اوّلاً تو اس مقالہ ميں زيادہ مثالوں كى گنجائش نہيں اور ثانياً مطالبہ بهى صرف ايك ہى مثال كا ہے- ايك مبتدى طالب علم بهى جانتا ہے كہ جس طرح زيد، خالد،سليم، اسم معرفہ ہيں اُسى طرح نوح، لوط، ابراہيم  كى طرح آدم بهى اسم معرفہ ہيں- ليكن ہمارے 'مفكرقرآن' صاحب،آدم  كو (جو اسم علم ہونے كى بنا پر ہى اسم معرفہ ہے) بطور اسم نكرہ ہى كے پيش كرتے رہے ہيں- آدم، بہرحال فردِ خاص تها، بالكل اسى طرح جس طرح نوح، ابراہیم  ، اور عمران نام كے مذكور فى القرآن لوگ خاص افراد (اسم معرفہ) تهے ليكن ہمارے 'مفكرقرآن' صاحب حضرت آدم عليہ السلام كو اسم علم، اسم معرفہ يا فرد خاص قرار دينے كى بجائے يہ كہا كرتے تهے كہ
"آدم سے مراد آدمى ہے، قصہ آدم خود آدمى كى سرگزشت ہے نہ كہ كسى خاص فرد كى داستان!" 3

اب يہ فيصلہ كرنا طلوعِ اسلام يا جناب مضمون نگار صاحب كا اپنا كام ہے كہ آدم  جيسے اسم علم اور اسم معرفہ كو اسم نكرہ بنا ڈالنے كى يہ پرويزى مثال بے ہودہ و لا یعنى مثال ہے يا نہيں-

(2) عابد بمعنى حريص و لالچى؟
ستمبر 1990ء كے 'اشراق' ميں چھپنے والے ايك مقالہ ميں جناب خورشيد احمد نديم صاحب نے ايك عربى لفظ عابد كا معنى 'حريص اور لالچى' شخص بهى بيان كيا تها- اس پر جناب مضمون نگار صاحب بڑے تعلّى آميزانداز ميں اپنے پندارِ علم كا مظاہرہ بايں الفاظ كرتے ہيں-
"خدا معلوم كہ جناب نديم صاحب كے پاس كون سا اُردو لغت ہے كہ جس ميں عابد كا معنى حريص و لالچى لكها ہے، اگر ايسا كوئى لغت ہے تو وہ اس كا حوالہ دے كر اور اس كے پبلشرز كا اَتہ پتہ بتا كر ہمارے لئے جو دو كرم كا باب وا كرنے ميں بخل و تساہل سے كام نہيں ليں گے- ايسا مطالبہ كرنا بالكل بجا اور درست ہے، كيونكہ آپ نے محولہ بالا عبارت ميں اعتراف كيا ہے كہ لغت كے لحاظ سے يہ صحيح مفہوم ہے جب لغات كے حوالے سے يہ صحيح ہے توپهر لغات ہى سے سند كا مطالبہ كرنا بهى صحيح اور معقول ہے-" 4

اب جناب مضمون نگار صاحب كويہ كون سمجھائے كہ 'عابد' عربى زبان كا لفظ ہے- اُردو زبان ميں بهى يہ لفظ عربى زبان ہى سے آيا ہے- لہٰذا اس معنى كى تلاش اگر پيش نظر ہے تو اُردو لغات كى بجائے عربى لغات كى طرف رجوع كرنا ناگزير ہے -اگر وہاں بهى يہ معنى نہ ملے تو بهى جناب مضمون نگار صاحب كے لئے ايسا تعلّى آميز پندارِ علم كا مظاہرہ كرنا ايك حد تك جائز ہوگا اگرچہ اخلاقاً يہ كوئى مستحسن چيز نہيں ہے-ميں تفصيل و اطناب سے گريز كرتے ہوئے صرف دو كتب لغت كاحوالہ پيش كررہا ہوں، جس ميں يہ معنى موجود ہے- عبد عليه : حرص 5

اب ميں ايك ايسى كتاب لغت كا حوالہ پيش كررہا ہوں جس تك رسائى پانا معمولى پڑهے لكھے انسان كے لئے بهى آسان ہے- عبد على الشيء حريص ہونا، صفت عابد و عبد 6

جہاں تك ان كتابوں كے 'پبلشر كا اتہ پتہ بتانے' كا تعلق ہے تو اوّل الذكر كتاب المعجم الوسيط تہران ايران سے انتشارات ناصر خسرو كے زيراہتمام شائع ہوئى ہے جبكہ ثانى الذكر 'مصباح اللغات' عربى اردو لغت ہے جس كا موٴلف عبدالحفيظ بلياوى ہے اور اسے ايچ ايم سعيد كمپنى، ادب منزل، پاكستان چوك، كراچى كى طرف سے شائع كيا گيا ہے-

فى الحال، طوالت ِمقالہ سے بچتے ہوئے انہى دو حوالوں پراكتفا كيا جاتا ہے ورنہ ديگر كتب لغات سے بهى اس معنى كى تصديق ممكن ہے-

(3) مضمون نگار كا ايك اور تعلّى آميز مطالبہ
جناب مضمون نگار صاحب نے ايك اور تحدى آميز مطالبہ ان الفاظ ميں كيا ہے :
"لغات سے سند طلب كرنے كے علاوہ ہمارا دوسرا مطالبہ ان سے يہ ہے كہ وہ (یعنى نديم صاحب) جناب پرويز صاحب كے مضامين و مقالات اور معارف و مطالب كے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ان جواہر پاروں ميں سے كہ جنہيں اُردو ميں ادبِ عاليہ كا مقام حاصل ہوچكا ہے، كوئى ايك لفظ ايسا دكها ديں كہ جس كے ساتھ جناب پرويز صاحب نے وہى كچھ كيا ہو جو اُنہوں نے عابد كے لفظ كے ساتھ كيا ہے-" 7

مجهے اس بات پر خوشى ہے كہ جناب مضمون نگار صاحب نے 'كوئى ايك لفظ' ہى دكها دينے كا مطالبہ كيا ہے جبكہ ميں خود مقالہ ميں اختصار كا خواہاں ہوں- لیجئے ايك ايسا لفظ جس كے ساتھ واقعتاً پرويز صاحب نے وہى (بلكہ اس سے بهى بدتر) سلوك كيا ہے جس كا الزام وہ اپنے مخالف پر لگا رہے ہيں- يہ لفظ ہے بَغْيًا جو سورہ مريم ميں دو جگہ آيا ہے-

قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ‌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ﴿٢٠...سورۃ مریم
"(مريم نے) كہا ميرے ہاں لڑكا كيسے ہوگا جبكہ مجهے كسى فرد بشر نے چهوا تك نہيں اور نہ ميں بدكار و بدچلن رہى ہوں-"

يَا أُخْتَ هَارُ‌ونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَ‌أَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ﴿٢٨...سورۃ مریم
"اے اُخت ِہارون! نہ تيرا باپ ہى كوئى بُرا آدمى تها اور نہ ہى تيرى ماں بدكردار و زناكارہ تهى (تو يہ كيا پاپ كربیٹھى؟)"

ان آيات ميں بغیًاكے لفظ كا ايك ہى معنى ہے:'زناكار، بدچلن، بدكار' عربى زبان ميں يہ لفظ اسى مفہوم كے لئے آتا ہے- 'مفكر قرآن' نے اس لفظ كو طلوعِ اسلام كے مَصنع ميں خراد پرچڑها كر اسے اپنے خود ساختہ مفہوم ميں ڈهالا ہے اورپهريہ اعلان كيا كہ سورہ مريم ميں بغيا كا لفظ حدود شكن كے لئے (19/20) آيا ہے ، خاص طور پر زناكار كے لئے نہيں- 8

امر واقعہ يہ ہے كہ يہ لفظ زنا كار كے علاوہ كسى اور معنى ميں آتا ہى نہيں ہے- اگر اس كا معنى تكلف ، تصنع اور بناوٹ كے ساتھ 'حدود شكن' كيا جائے (بشرطيكہ ايسا كرنا محال نہ ہو) تو يہ حدود شكنى بهى عفت و عصمت كے حوالہ ہى سے ہوگى، (نہ كہ مطلق حدود شكنى)- 'مفكر ِقرآن' نے لفظ بغيًاكے ساتھ، يہ سلوك صرف اس لئے كيا ہے كہ حضرت عيسىٰ عليہ السلام كى بن باپ ولادت كونہ ماننا پڑے- چودہ صديوں ميں منكرين حديث كے گروہ كے علاوہ كسى مفسر قرآن اور مترجم قرآن عالم دين نے اس لفظ كا معنى 'حدود شكن' بيان نہيں كيا- ہر ايك نے 'بدكار وزناكار يا بدچلن' ہى اس كا معنى لكها ہے- حتىٰ كہ خود پرويز صاحب نے بهى اپنے ماضى ميں (جبكہ وہ روشنى سے تاريكيوں كى طرف اپنے سفر كى ابتدائى منازل ميں تهے) يہى 'زناكار وبدچلن' كا معنى درج كيا ہے- ملاحظہ فرمائيے، متذكرہ بالا آيات كے پرويزى تراجم :
"مريم بولى! يہ كیسے ہوسكتا ہے كہ ميرے لڑكا ہو، حالانكہ كسى مرد نے مجهے چهوا نہيں، اور نہ ميں بدچلن ہوں-9 اے ہارون كى بہن! نہ تو تيرا باپ بُرا آدمى تها اورنہ تيرى ماں بدكردار تهى (تو يہ كياكربیٹھى؟)" 10

خدا معلوم كہ جناب مضمون نگار صاحب كے پاس (پرويزى لغات كے سوا) كون سا لغات ہے جس ميں بغيًا كا معنى 'حدود شكن' لكها ہوا ہے- اگر ايسا كوئى لغت ہے تو وہ اس كا حوالہ دے كر اور اس كے پبلشر كا اتہ پتہ بتا كر ہمارے لئے جودوكرم كا باب وا كرنے ميں بخل و تساہل سے كام نہ ليں-

اپنے اُصول كى آپ مخالفت
جناب مضمون نگار صاحب سے گزارش ہے كہ وہ 'فكر ِپرويز كى اصل قدر وقیمت' كے صحيح تعین كے لئے اس بات كوبهى مدنظر ركهيں كہ 'مفكر ِقرآن' صاحب اپنى تفسيرى كارگزاريوں كے دوران خود اپنے تسليم شدہ اصولوں كى بڑے دهڑلے سے مخالفت كياكرتے تهے، مثلاً وہ يہ اُصول بيان كياكرتے تهے كہ
"جب كوئى لفظ اصطلاح كى شكل ميں مستعمل ہونے لگ جائے تو وہ اپنا لغوى مفہوم كهو ديتا ہے- اس كے بعد آپ جب بهى اس لفظ كا استعمال كريں گے وہ اپنے اُن تمام مضمرات ولزومات كو اپنے ساتھ لائے گا جن سے وہ نظريہ يا نظام عبارت ہے، جس كے لئے وہ اصطلاح وضع كى گئى ہے-" 11

اُصول آپ نے ملاحظہ فرما ليا- اس كے بعد خود 'مفكر ِقرآن' ہى كے قلم سے يہ بهى ملاحظہ فرما ليجئے كہ قرآن ميں كون كون سے الفاظ بطورِ اصطلاح مستعمل ہيں:
"قرآنِ كريم ميں اقامت ِصلوٰة اور ايتاءِ زكوٰة كى اصطلاحات دين كے بنيادى اركان (عمائد اور ستون) كى حيثيت سے باربار دہرائى جاتى ہيں۔" 12

اس اقتباس سے واضح ہے كہ اقامت ِصلوٰة اور ايتاء الزكوٰة قرآنى اصطلاحات ہيں- ايك اور مقام پر انفاق كو بهى اصطلاحِ قرآن كہا گيا ہے :
"انفاق كے معنى خرچ كرنے كے نہيں بلكہ يہ ايك ايسى روش، نظريہ يا معاشى نظام كى اصطلاح ہے جس ميں سامانِ زيست كو روك كر نہيں ركها جاتا بلكہ اسے عالمگير ربوبيت ِانسانيہ كے لئے كهلا ركها جاتا ہے-" 13

ان دونوں اقتباسات سے اقامت ِصلوٰة، ايتاء الزكوٰة اور انفاق (تينوں) كا قرآنى اصطلاحات ہونا واضح ہے- يہ نہ سمجهئے كہ 'مفكر قرآن' كے نزديك صرف يہ تين ہى قرآنى اصطلاحات ہيں- نہيں، بلكہ ان كے ہاں يہ فہرست بہت لمبى ہے ليكن ہم صرف ان تينوں پر ہى اكتفا كرتے ہيں۔

'مفكر ِقرآن' صاحب ان تينوں كو اسلام كى اصطلاحات بهى قرار ديتے ہيں، ليكن پهر ان كا مفہوم متعین كرنے كے لئے كتب ِلغات كهول كر بهى بیٹھ جاتے ہيں، چنانچہ اس اصطلاح كا مفہوم وہ ازروے لغت متعین كرتے ہيں اور شارع علیہ السلام كے اس مفہوم كو جو تواتر كے ساتھ ہم تك پہنچا ہے، قطعى نظر انداز كرتے ہيں اور لغوى موشگافيوں پر مبنى قلمى ورزش كے نتيجہ ميں كئى پيراگراف اس كے لئے وقف كرڈالتے ہيں جن كو طوالت كے پيش نظر يہاں نقل نہيں كيا جارہا ہے- (ديكهئے 'لغات القرآن' از پرويز: ج3/ ص1034)

اسى طرح كا معاملہ وہ ايتاءِ زكوٰة كى اصطلاح كے ساتھ كرتے ہيں- ايتاء كى الگ لغوى بحث كرتے ہيں اور زكوٰة كى الگ- پهر موٴخرالذكر لفظ كى بحث كے دوران وہ علماے لغت كے حوالے سے جو كچھ بيان كرتے ہيں، وہ ان كى قلمى چابك دستى كے باعث حقيقت سے بعيد ہوتا ہے- لغات القرآن ميں يہ بحث تقريباً دو صفحات پر پھیلى ہوئى ہے ليكن حرام ہے جو اس اصطلاح ميں كہيں ان مضمرات و لزومات كا بهى ذكر ہو جو خود شارع عليہ السلام نے اس ميں سمو ديئے ہيں- اس بحث ميں انحرافات كى قلعى، ماہنامہ محدث كے شمارہ مارچ 1989ء ميں كهولى جاچكى ہے-

يہى كهيل 'مفكر ِقرآن' نے انفاق كى اصطلاح كے ساتھ بهى كهيلا ہے اور وہ اس كے خود ساختہ معنى 'كهلا ركهنا' پيش كرتے ہيں اور پهر سينہ زورى كا يہ عالم ہے كہ وہ يہ نہيں كہتے كہ انفاق كا معنى 'كهلا ركهنا'بهى ہے، تاكہ كسى دوسرے معنى (بلكہ اصل مفہوم) كى گنجائش بهى باقى رہ جائے،بلكہ وہ 'خرچ كرنے' كے معنى كى قطعى نفى كرتے ہيں اور 'كهلا ركهنے' كے واحد معنى كا اثبات كرتے ہيں- (جيسا كہ گذشتہ اقتباس ميں گزر چكا ہے-) مزيد برآں وہ بہت سى قرآنى آيات ميں اس معنى كو نبها بهى نہيں سكے ہيں، پهر يہ اصطلاح جب ان كى لغوى تحقيق كى جولا نگاہ سے نجات پاكر نكلتى ہے تو اس كا چہرہ انحرافات سے داغدار ہوچكا ہوتا ہے- ان انحرافات كا پردہ بهى اپريل 1989ء كے شمارہ محدث ميں چاك كيا جاچكا ہے-

لغوى 'تحقيق' كے لئے كتب ِلغات كو كھنگالنے كے ساتھ ساتھ 'مفكر ِقرآن' صاحب يہ ڈهنڈورا بهى پيٹتے نہيں تھكتے كہ
(1) "ہر نظام كى ايك اصطلاح ہوتى ہے اور وہ اصطلاح اسى نظام كے منطوق كے اظہار كے لئے وضع كى جاتى ہے-" 14
(2)"جب كوئى لفظ بطورِ اصطلاح كے رائج ہو جائے تو اس كے لغوى معانى نہيں بلكہ اصطلاحى معانى لئے جاتے ہيں-" 15
(3) "جب كوئى لفظ اصطلاح كے طور پر استعمال ہونے لگے، تو اس كے لغوى معنى نہيں لئے جاتے- اصطلاحى مفہوم ليا جاتا ہے اور ان ميں اكثر بڑا فرق ہوتا ہے-" 16

'مفكر ِقرآن' كا (ہر معاملہ كى طرح) اس امر ميں بهى متضاد طرزِعمل ملاحظہ فرمائيے كہ وہ اقامت الصلوٰة، ايتاء الزكوٰة اور انفاق وغيرہ كو قرآنى اصطلاحات بهى مانتے تهے اور پهر يہ بهى تسليم كرتے تهے كہ "جب كوئى لفظ اصطلاح كى شكل ميں مستعمل ہونے لگ جائے تو وہ اپنا لغوى مفہوم كهو ديتا ہے-" ... پهر وه ان قرآنى مصطلحات كے مفہوم كے تعين كے لئے كتب ِلغات كهول كر بیٹھ جايا كرتے تهے- اس ورق گردانى كے نتيجے ميں كہيں كى اينٹ اور كہيں كا روڑا لے كر وہ نئے نئے معانى كا كنبہ جوڑا كرتے تهے- ہمارے نزديك يہ سارى كارروائى جس ميں وہ عمر بهر قرآنى اصطلاحات كا مفہوم ازروئے كتب ِلغات متعین كرنے ميں مبتلاے زحمت رہے، نہ صرف يہ كہ پانى ميں مدهانى چلانے كے مترادف ہے، بلكہ اگر يہ فريب دہى نہيں تو فريب خوردگى ضرور ہے-

بہرحال اقامت الصلوٰة، ايتاء زكوٰة، انفاق اور جملہ ديگر اصطلاحات ميں جو معانى و مفاہیم شارع علیہ السلام نے نظامِ اسلام كے ساتھ وابستہ كرتے ہوئے سمو ديے ہيں اور معاشياتِ اسلام كے حوالہ سے جو لزومات و مضمرات ان ميں ودیعت شدہ ہيں، ان سے صرفِ نظر كرتے ہوئے كتب لغات كى بنياد پر كھینچ تان كركے ماركسزم كى فكرى و ذہنى غلامى كے زيراثر، خود ساختہ معانى داخل كرنا سخت بے جا بات ہے- 'مفكر ِقرآن' صاحب كى عمر بهر كى 'قرآنى خدمات'كا ماحصل يہ ہے كہ قرآنِ كريم كى ايك ايك اصطلاح كو لے كر اشتراكى تہذيب كى فكرى اسيرى ميں مبتلا ہوكر كتب ِلغات كى آڑ ميں اس كے اندر نئے مداليل و مفاہيم داخل كئے ہيں-

(4)حقيقى و مجازى معانى كے اُصول و ضوابط
اس ميں شك نہيں كہ عربوں كے ہاں بعض الفاظ كے حقيقى اور مجازى معانى پائے جاتے تهے (اور اب بهى ہيں)- اہل زبان اُنہيں سمجهتے بهى تهے اور جناب مضمون نگار صاحب بهى اس كے قائل ہيں، چنانچہ وہ فرماتے ہيں كہ
"حقيقت يہ ہے كہ كسى لفظ كے عرفى و حقيقى يا مجازى معانى لينے كے لئے بهى كچھ اُصول اور ضابطے ہيں- يہ نہيں كہ كسى كا جو دل چاہے اور جب اور جيسا چاہے وہ مجاز كا بہانہ بنا كر اصل مفہوم و مدلول الفاظ كا تيا پانچہ كردے-" 17

'مفكر ِقرآن' صاحب (اور ان كى تقليد ميں وابستگانِ طلوع اسلام) كى يہ عام روش ہے كہ انہيں اگر كسى حقيقت كو تسليم كرنا بهى پڑے تو بڑے مبہم انداز ميں كرتے ہيں- ان حضرات كى تكنیك يہ ہے كہ كسى ايك جگہ بهى بات واضح اور متعین طور پر نہ كہى جائے، ہر بات كو مبہم ركها جائے اور ہر جگہ متضاد بات كہى جائے تاكہ مدارى كى پٹارى سے حسب ِمنشا جب اور جہاں جى چاہے بات پيش كردى جائے- اعتراف و اظہارِ حقيقت كى حد تك تو يہ بات درست اور بجا ہے كہ"حقيقى يا مجازى معانى، مراد لينے كے بهى اُصول و ضوابط ہيں"... ليكن حرام ہے جو كبهى 'مفكرقرآن' نے (يا ان كے متبعین نے) كسى مقام پر ان اُصول و ضوابط كا ذكر كيا ہو- ہم ان حضرات سے درخواست گزار ہيں كہ وہ ان اُصول وضوابط كى ضرور وضاحت فرمائيں جو اقتباسِ بالا ميں مذكور ہيں، تاكہ دنيا خود ديكھ لے كہ خود 'مفكر قرآن' نے ان اصول و ضوابط كو اپنى تحريروں ميں كہاں تك مرعى و ملحوظ ركها ہے يا انہيں بالكل ہى نظر اندا زكرديا ہے- اس درخواست كے بعد مندرجہ ذيل چند آيات كو ملاحظہ فرمائيے :
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿١٧﴾ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِ‌بُ أُخْرَ‌ىٰ ﴿١٨﴾ قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَىٰ ﴿١٩﴾ فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَىٰ ﴿٢٠﴾قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيدُهَا سِيرَ‌تَهَا الْأُولَىٰ ﴿٢١﴾ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَىٰ جَنَاحِكَ تَخْرُ‌جْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ‌ سُوءٍ آيَةً أُخْرَ‌ىٰ ﴿٢٢...سورۃ طہ
آيات آپ نے ملاحظہ فرما ليں، اب ان كا معنى و مفہوم بهى ملاحظہ فرما ليجئے :
"اور (صداے غيبى نے پوچها) اے موسىٰ! تيرے داہنے ہاتھ ميں كيا ہے؟ عرض كيا "يہ ميرى لاٹهى ہے، چلنے ميں اس كا سہارا ليتا ہوں، اسى سے اپنى بكريوں كے لئے پتے جهاڑ ليتا ہوں، ميرے لئے اس ميں اور بهى طرح طرح كے فائدے ہيں-"حكم ہوا: "اے موسىٰ! اسے ڈال دے-"چنانچہ موسىٰ نے ڈال ديا اور دیكھتا كيا ہے كہ وہ ايك سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے- حكم ہوا "اب اسے پكڑ لے، ہم اسے پهر اس كى اصلى حالت پركئے ديتے ہيں-" اور (نيز) حكم ہوا "اپنا ہاتھ، اپنے پہلو ميں ركھ، اور پهر نكال، بغير اس كے كہ كسى طرح كا عيب ہو، چمكتا ہوا نكلے گا- يہ (تيرے لئے) دوسرى نشانى ہوئى-" 18

قارئين كرام! يہاں يہ بات ذہن نشين فرما ليں كہ آيات كى يہ ترجمانى بهى پرويز صاحب ہى كے قلم سے برآمد ہوئى ہے- اور اب ان ہى آيات (جى ہاں، بالكل ان ہى آيات) كا مندرجہ ذيل مفہوم بهى ملاحظہ فرما ليجئے اور لطف يہ كہ يہ مفہوم بهى جناب پرويز صاحب ہى كے قلم كا مرہونِ منت ہے- از راہ كرم ہر آيت كے مفہوم كا مطالعہ كرنے سے قبل ايك نظر متعلقہ آيت كے الفاظ پر بهى ڈال لیجئے- اب ملاحظہ فرمائيے ، آيت 17 كا مفہوم جس ميں گنتى كے يہ چند الفاظ ہيں : وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ

چنانچہ اس كے بعد موسىٰ كو اس انقلابى پروگرام كے سلسلہ ميں ہدايات و احكام ديے گئے- ان ميں فريق مخالف كو روشن دلائل و براہين سے قائل كرنے كى ہدايات بهى تهيں اور مقابلہ كے وقت، قوت اور سخت گيرى سے كام لينے كے احكام بهى- جب يہ احكام ديے جاچكے (تو نداے غيب نے كہا كہ) اے موسىٰ! تم ان احكام و ہدايات پر قوت اور بركت ، ہر دو نقاطِ نگاہ سے غور كرو اور بتاوٴ كہ تم اُنہيں كيسا پاتے ہو۔ 19

اس كے بعد بقيہ آيات كا مفہوم بهى ملاحظہ فرما ليجئے، ليكن الفاظ آيات كو ذہن ميں مستحضر ركهتے ہوئے :
موسىٰ نے كہا "بارِالٰها! يہ احكام كيا ہيں، ميرے لئے تو سفر زندگى ميں بہت بڑا سہارا ہيں- ميں اب انہى كے آسرے سے چلوں گا،اور ہر مشكل مقام پر، اُنہيں مضبوطى سے تهامے ركهوں گا تاكہ ميرا قدم كہيں نہ پھسلے- انہى كے ذريعے اب ميں اپنے ريوڑ (يعنى بنى اسرائيل، جن كا گڈريا بنا كر تو مجهے بهيج رہا ہے) جھنجھوڑوں گا اور اس طرح ان كے جمود و تعطل كو مبدل بہ حركت و عمل كروں گا- ان كے علاوہ زندگى كے ديگر معاملات كے متعلق جو ميرے سامنے آئيں گے، ان سے بصيرت و راہنمائى حاصل كروں گا۔
حكم ہوا كہ تم نے ٹهيك سمجھا، اب تم انہيں لوگوں كے سامنے پيش كردو۔
اس كے بعد جب موسىٰ نے اس مہم پر غور كيا جس كے لئے اسے مامور كيا جارہا تها تو اسے اندازہ ہوا كہ ان احكام كا لوگوں كے سامنے پيش كرنا، آسان كام نہيں- اس نے ايسا محسوس كيا كہ وہ ضابطہ احكام نہيں، ايك اژدہا ہے جو بڑى تيزى سے دوڑ رہا ہے۔
خدا نے موسىٰ كو اطمينان دلايا اور كہا كہ اس خيال سے مت گهبراوٴ- ان احكام كو مضبوطى سے تهامے ركهو- ان كے متعلق جو بات تم نے كہى تهى (كہ ان سے فلاں فلاں منفعت بخش كام لوں گا) ہم انہيں ايسا ہى بنا ديں گے (يہ اژدہا كى طرح ہلاكت آفرين ثابت ہوں گے، باطل كے لئے ليكن تمہارے اور تمہارى قوم كے لئے سہارا بن جائيں گے۔
اس مہم ميں تو بالكل پريشان نہ ہو، بلكہ نہايت اطمينان و سكون اور كامل دل جمعى سے اپنى دعوت كو واضح اور روشن دلائل كے ساتھ پيش كرتا چلا جا- تو تمام مشكلات سے محفوظ و مصئون باہر نكل آئے گا- تيرى يہ كاميابى، تيرى دعوت كى دوسرى نشانى ہوگى (پہلى نشانى، دشمن كى تباہى اور دوسرى نشانى تمہارى جماعت كا تمكن اور سرفرازى) 20

آيات كے فوراً بعد جو عبارت ِپرويز دى گئى ہے وہ 'ترجمہ آيات' ہے جبكہ يہ لمبى چوڑى عبارت 'مفہوم آيات' ہے- ترجمہ اور مفہوم ميں كيافرق ہے؟ معلوم يہ ہوتا ہے كہ شايد (پرويز صاحب كے نزديك) جس عبارت ميں الفاظِ آيات كے معنى و مفہوم كى كچھ رعايت ملحوظ ركهى جائے وہ 'ترجمہ' ہے، اور جس عبارت ميں الفاظِ آيات كى لفظى پابندى سے بالاتر ہوكر الفاظ كابے پناہ اُمنڈتا ہوا سيلاب آتا دكهائى دے تو وہ 'مفہوم آيات' ہے ،جسے اگر جملہ آياتِ قرآن كے حوالے سے يكجا كركے كتابى شكل ميں ڈهال ديا جائے تو پهر يہ كباڑخانہ 'مفہوم القرآن' كہلاتا ہے اور يہ سب كچھ فہم قرآن كو آسان بنا دينے كے لئے محاورہٴ عرب اور تصريف ِآيات كے اُصول پر كيا گيا ہے جہاں تك محاورہٴ عرب كا تعلق ہے، خود سوچ ليجئے كہ مذكورہ بالا آيات كا يہ مفہوم القرآن اگر دورِ نزول قرآن كا اَن پڑھ، جاہل، تمدن و حضريت سے يكسر عارى، سادہ مزاج بدو پڑھ ليتا، تو واقعى وہ قرآن كو اس قدر آسانى كے ساتھ سمجھ ليتا جس قدر سہولت كے ساتہ وہ زمين، آسمان، پہاڑ، صحرا اور دشت و غار كا مفہوم سمجھے ہوئے تها؟ اب رہا تصريف آيات كا اُصول تو بظاہر كس قدر خوش آئند ہے يہ نام اور عملاً خواہ يہ'تحريف ِآيات' سے بهى آگے بڑھ كر تمسیخ آيات ہى كا روپ دهار لے-

مجازى معنى اور باطنى معنى
اگر قارئين كرام ميں سے كوئى صاحب سورہ طہٰ كى آيت نمبر 17 تا آيت نمبر 22 كا وہ مفہوم جو قلم پرويز سے برآمد ہوا، لكھ كر طلوعِ اسلام كوبهيج ديں اور ساتھ يہ كہہ ديں كہ يہ ان آيات كاباطنى مفہوم ہے تو كيا آپ كو پتہ ہے كہ 'مفكر قرآن' صاحب يا طلوعِ اسلام كيا رد عمل ظاہر كرے گا؟ آپ كو علم ہو يا نہ ہو، ليكن ہميں علم ہے كيونكہ 'مفكر ِقرآن' نے اپنى 'قرآنى بصيرت' كى بنا پر مرنے سے پہلے ہى ايسے معاملات ميں اپنے ردعمل كا اظہار كرديا تها- وہ فوراً ہى يہ كہہ ديں گے كہ
"قرآن كى موجودگى ميں ، باطنى معنى اور مسلك كى تائيد اور مدافعت وہ جذبات پرستى ہے جس سے قرآن نے اس شدت سے روكا تها" 21

ليكن اگر اسى مفہوم آيات كو يہ كہہ كر'مفكر ِقرآن' ياطلوعِ اسلام كو ارسال كرديں كہ يہ آيات كا مجازى مفہوم ہے تو وہ أحسنت اور مرحبا كہہ كر اسے شاداں و فرحاں قبول كريں گے كيونكہ ان آيات كے اسى 'مجازى مفہوم' كے بارے ميں وہ خود يہ فرما چكے ہيں كہ
"آيات نمبر 17 تا 22 ميں الفاظ كے مجازى معانى لئے گئے ہيں-" 22

قرآنى الفاظ كى لفظى پابندى سے آزاد ہوكر قلم سے اُگلے ہوئے خوبصورت الفاظ كے ڈهير كو اگر مجازى معنى كہہ ديا جائے تو وہ قابل قبول ہو، ليكن اگر اسے باطنى معنى قرار ديا جائے تو ناقابل قبول ہو- آخر يہ كيوں؟ كسى عبارت كے باطنى معنى يا مجازى معنى ہونے كا معيار كيا ہے؟ وہ كون سے اُصول و ضوابط ہيں جن كى بنا پر دونوں قسم كے معانى ميں فرق و امتياز كيا جاسكتا ہے- اور مجازى معنى كو درست قرار ديا جاسكتا ہے؟

ہم جناب مضمون نگار سے بصد ادب و احترام مستفسر ہيں كہ مجازى مفہوم كے درست قرار پانے كے لئے جن اُصولوں و ضوابط كا ذكر انہوں نے اپنے مقالہ ميں فرماياہے ،وہ آخر ہيں كيا؟ ہميں اُميد ہے كہ وہ ان اصول و ضوابط كو مع حوالہ جات كے ترتيب وار بيان كركے "ہمارے لئے جودوكرم كا باب وا كرنے ميں بخل و تساہل سے كام نہيں ليں گے" ورنہ لوگ يہ باور كرنے ميں حق بجانب ہوں گے كہ 'مفكر ِقرآن' صاحب كا "جو دل چاہے، جب اور جيسا چاہے وہ مجاز كا بہانہ بناكر اصل مفہوم و مدلول كا تياپانچہ كرڈالتے تهے-"

(5) كيا علامہ اقبال منكر حديث تهے؟
جناب مضمون نگار صاحب، منكرين حديث كے پراپيگنڈے كا شكار ہوكر يا خود اس پراپيگنڈے ميں شامل ہوكر فرماتے ہيں كہ
" اگر انصاف پسندى كوئى اُصول ہے تو ہم ان ناقدانِ پرويز سے التماس كريں گے كہ يا تو وہ علامہ محمد اقبال كو بهى منكرين حديث ميں شمار كريں كيونكہ ان كے موقف ِحديث اور علامہ پرويز كے موقف ِحديث ميں سرموفرق نہيں ہے اور اگر وہ ايسا نہ كريں تو كم از كم انہيں اپنے تضادِ فكر و نظر پر كچھ تو ندامت محسوس كرنى چاہئے-" 23

حقيقت يہ ہے كہ سچائى كى تو كوئى نہ كوئى حد ہوتى ہے، جس سے آگے كوئى راست باز شخص تجاوز نہيں كرسكتا ليكن جهوٹ كى تو كوئى حد ہى نہيں ہوتى جہاں پہنچ كر كوئى كاذب و مفترى رك جائے- منكرين حديث كے چند نماياں اكاذيب و اباطيل ميں سے ايك واضح جهوٹ يہ ہے كہ علامہ اقبال منكر ِحديث اور منكر ِسنت بهى تهے- اس جهوٹ كو اعادہ و تكرار كے ساتھ بكثرت اور باربار دہرايا جاتا ہے، كيا آپ كو پتہ ہے كہ كيوں؟ صرف اس لئے كہ
"نازيوں كے گوئبلز... كا مقولہ تها كہ جهوٹ كو اگر سو دفعہ دہراياجائے تو وہ سچ بن جاتا ہے- دنيا اس كے اس مقولے پر ہنستى رہى، ليكن دور رس نگاہوں نے اسے قيمتى متاع سمجھ كر احتياط سے ركھ ليا تاكہ بوقت ِضرورت اس سے كام ليا جاسكے-" 24

اب ظاہر ہے كہ منكرين حديث سے بڑھ كر 'دور ر س نگاہ' كس كى ہوگى؟ انہوں نے اسے قیمتى متاع سمجھ كر ركھ ليا اور بوقت ِضرورت اس سے خوب كام ليا- علامہ اقبال كے سلسلہ ميں يہ پراپيگنڈا بهى بڑى 'دور رس نگاہ' كے ساتھ اس مقولے سے بهرپور كام لينے كى ايك كڑى ہے-

ياد ركهئے، كسى شيطان نے آج تك اپنى شيطنت كو خود اپنے نام سے پيش نہيں كيا، بلكہ يہ كام اس نے ہميشہ ان لوگوں كے نام كى آڑ ميں كيا ہے، جن كا قوم ميں احترام اور اثرورسوخ پايا جاتا ہے- اگر شيطان اپنے باطل نظريات كو خود اپنے نام سے پيش كرے تو اسے خو دبهى علم ہے كہ سماج ميں يہ قابل قبول نہ ہوں گے- اس لئے باطل كو حق كا اور بگاڑ كو صلاح كا لباس زُور پہنا كر ان ہستيوں كے نام كى آڑ ميں پيش كرتا ہے جو معاشرے ميں مقامِ احترام و تعظيم ركهتے ہيں- اس قسم كے شيطنت مزاج اور حيلہ جُو لوگ ان ہستيوں كى بڑى مبالغہ آميز مدحت و ثنا كے ساتھ ساتھ ان كى بڑى بڑى تصاوير اور پورٹريٹ كو اپنے آگے ركهتے ہيں اور خود ان كے پیچھے رہ كر ان كى آڑ ميں اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑهتے ہيں- ان كى زبانوں پر اسلاف كے حق ميں زندہ باد كے نعرے اور ان كے ہاتهوں ميں ان واجب الاحترام ہستيوں كى تصويريں عامة الناس ميں يہ تاثر پيدا كرتے ہيں كہ انہيں ان ہستيوں سے بڑى عقيدت اور محبت ہے- اس كے بعد يہ پُرفريب لوگ جو چيز بهى ان اسلاف كى طرف منسوب كرديں، لوگ اسلاف كے ساتھ اپنے احترام و عقيدت كے بل بوتے پر بغير كسى تحقیق و تفتيش كے درست مان ليتے ہيں- ٹهيك يہى تكنیك ہے جو انكارِ حديث كے علمبرداروں نے ڈاكٹر علامہ محمد اقبال(وغيرہ) كے بارے ميں اختيار كى ہے- مجلہ طلوعِ اسلام كے ابتدائى دور ميں اس كے پہلے صفحے پر حضرت علامہ محمد اقبال كى بڑى دلكش تصوير شائع ہوا كرتى تهى- اس كے بعد كلامِ اقبال ميں سے كوئى ايك قطعہ پيش كيا جاتا تها پهر علامہ اقبال كو مختلف مقالات و مضامين كے ذريعہ ان كى 'شاعرى' پر داد دى جاتى تهى تاكہ ان كے نام كى آڑ ميں يہ دكاندارى چلتى رہے اور نام اقبال كے باعث طلوعِ اسلام كے گاہكوں ميں اضافہ ہوتا رہے اور آج تك درجہ بدرجہ اس تكنیك ميں وقتى تقاضوں كے تحت كمى بيشى كے ساتھ يہ سلسلہ جارى ہے- اقبال سے متعلقہ مضامين و مقالات ميں اس بات كا خاص التزام برتا جاتا ہے كہ كتاب اللہ كے ساتھ، علامہ اقبال كے شغف كو تو نماياں كيا جائے، ليكن اس كى اطاعت ِ سنت ِ نبويہ كا كہيں ذكر نہ آنے پائے- شاعر مشرق كے وہ اشعار تو پيش كرديے جائيں جن ميں قرآن كريم كو اسلامى تعلیمات كا سرچشمہ قرار ديا گيا ہے مگر اُن اشعار سے پرہيز كيا جائے جن ميں اُمت ِمسلمہ كے زوال كا انحطاط كا سبب تركِ سنت ِنبويہ قرار ديا گيا ہے- چنانچہ "نيست ممكن جزبہ قرآں زيستن" كو تو خوب اُچهالا گيا مگر "از حدود مصطفى بيروں مرو" كے بيان سے اس طرح پرہيز كيا گيا جس طرح شيطان نيكى سے پرہيز كرتا ہے- اس كا نتيجہ يہ ہوا كہ اس مخصوص انداز كے تعارفِ اقبال نے جسے طلوعِ اسلام نے اپنى منفرد ذہنى اُفتاد كے پيش نظر تسلسل اور تواتر كے ساتھ برسوں جارى، ايك مخصوص حلقے ميں يہ تاثر پيدا كرديا كہ اقبال بهى گويا يكے از منكرين حديث تهے، حالانكہ يہ تاثر از سرتاپا بے اصل و بے بنياد اور خالص كذب و باطل ہے- اس كے ثبوت كے لئے زيادہ نہيں تو صرف ايك كتاب كا مطالعہ ہى كافى ہے- يہ كتاب علامہ اقبال كى زندگى كے آخرى ايام كى ان يادداشتوں اور گفتگووٴں پر مشتمل ہے جن ميں حديث ِرسول، اتباعِ رسول اور كتاب و سنت كے متعلق علامہ اقبال كے نظريات كى صراحت ہوجاتى ہے- اسے سيد نذير نيازى صاحب نے روزانہ كى ڈائرى كى صورت ميں مرتب كيا ہے اور يہ وہى سيد نذير نيازى صاحب ہيں جو پرويزى طلوع اسلام كے اجرا سے پہلے خود 'طلوعِ اسلام' ہى كے نام سے ايك مجلہ نكالا كرتے تهے- ان كى كتاب 'اقبال كے حضور' اس اعتبار سے بهى ايك ثقہ كتاب ہے كہ سيد نذير نيازى صاحب ايك تو علامہ مرحوم كے بہت قريبى ساتهى تهے اور دوسرے خود طلوع اسلام سے وابستہ افراد بهى، انہيں عزت و احترام كى نگاہ سے ديكهتے ہيں اور سب سے اہم بات يہ ہے كہ اس كتاب ميں حديث ِرسول اور سنت ِنبيسے متعلقہ فرموداتِ اقبال ان كى زندگى كے بالكل آخرى ايام سے تعلق ركهتے ہيں- ان فرمودات كے بعد يہ ناممكن ہے كہ انكارِ حديث پر مبنى ان كا كوئى فرمان پيش كيا جاسكے-

مقالے كى تنگدستى كے باعث ميں نہ تو اس كتاب 'اقبال كے حضور' ميں سے كچھ اقتباس پيش كرنے كى گنجائش پاتا ہوں اور نہ ہى كلامِ اقبال ميں سے كچھ اشعار- ميں صرف دو ايسے اقتباسات پيش كررہا ہوں جومجلہ طلوعِ اسلام ہى سے ماخوذ ہيں تاكہ اس موضوع پر خود وابستگانِ طلوعِ اسلام پر حجت قائم ہوسكے اور يہ اس لئے بهى كہ ع
مدعى لاكھ پہ بہارى ہے گواہى تيرى!


طلوع اسلام كا مقصد ِ اجرا
طلوعِ اسلام نے اپنے ابتدائى دور ميں اپنے مقصد ِاجرا كو مندرجہ ذيل الفاظ ميں بيان كيا تها :
"پرچہ طلوعِ اسلام كے مقاصد كے متعلق اعلان كيا گيا تها كہ اس كا مسلك حضرت علامہ اقبال  كے نورِ بصیرت كو عام كرنا: یعنى مسلمانوں كى حياتِ اجتماعيہ سے متعلق ہر مسئلہ كا حل كتاب وسنت كى روشنى ميں پيش كرنا ہوگا-" 25

اس اقتباس سے يہ واضح ہے كہ علامہ اقبال كا مسلك كتاب و سنت ہى تها- ان كے نور بصيرت كو عام كرنے كا مطلب اس كے سوا كچھ نہيں كہ مسائل حيات كا حل كتاب و سنت كى روشنى ميں پيش كيا جائے- ليكن پاكستان بننے كے بعد ذہن ِپرويز نے عقائد و نظريات كے معاملے ميں جو اُلٹى زقند لگائى اور قرآن و سنت كى بجائے فقط قرآن كى رٹ لگانا شروع كى تو مسلك ِاقبال كو بهى'مفكر قرآن' نے اپنے بدلتے ہوئے عقائد كى بهينٹ چڑها ديا اور يہ پراپيگنڈہ شروع كرديا كہ علامہ اقبال يكے از منكرين حديث تهے- نيز اس سے يہ بات بهى واضح ہوجاتى ہے كہ جو شخص خود اپنے نظريات و معتقدات كوبدل ڈالنے كے بعد دوسرى قابل احترام ہستيوں پربهى يہ جهوٹا الزام عائد كرتا ہے كہ ان كے عقائد بهى اس كے اپنے تبديل شدہ عقائد كے مطابق تهے، وہ علامہ اقبال كے كلام كى تشريح و توضيح كرے گا؟ يا ترميم و تغيير؟

امر واقعہ يہ ہے كہ 'مفكر ِقرآن' صاحب علامہ اقبال كے نام كى آڑ ميں اپنے افكارِ باطلہ كے كهوٹے سكوں كو اسى طرح سوقِ علم ميں لايا كرتے تهے جس طرح يہود و نصارىٰ اور مشركين مكہ، حضرت ابراہيم عليہ الصلوٰة والسلام كے نام پر اپنے معتقداتِ باطلہ كو منڈى كا مال بنا كر پيش كيا كرتے تهے اورپهر قرآنِ كريم كو ان كى ترديد ميں يہ اعلان كرنا پڑا كہ(مَا كَانَ إِبْرَ‌اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ‌انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٦٧...سورۃ آل عمران) آج ہم بهى يہ حقيقت واشگاف كرنے پر مجبور ہيں كہ علامہ اقبال كا مسلك،مسلك ِانكار حديث ہرگز نہ تها بلكہ قرآن و سنت ہى ان كا مسلك تها اور يہ كشف حقيقت بهى ہم كسى اور ذريعہ سے نہيں بلكہ طلوعِ اسلام ہى كے ذريعہ كررہے ہيں۔ 26

دوسرا حوالہ؛ مكتوبِ اقبال
اب دوسرا حوالہ ملاحظہ فرمائيے، يہ بهى طلوع اسلام ہى سے ماخوذ ہے- يہ دراصل علامہ اقبال كے اس خط كا اقتباس ہے جو آپ نے جامع ازہر (مصر) كے شيخ مصطفى المراغى كى خدمت ميں ارسال كيا تها، تاكہ وہاں سے كسى قابل جہاں ديدہ علومِ قديمہ و جديدہ سے بہرہ مند جيد عالم دين كوبلاكر دارالسلام كى سكيم كو بروئے كار لايا جائے- يہاں يہ بات ذہن نشين رہے كہ'دارالسلام' كے زيرعنوان جس مضمون ميں سے علامہ اقبال كے خط كا يہ اقتباس پيش كيا جارہا ہے،وہ مضمون خود پرويز صاحب ہى كا لكها ہوا ہے-لیجئے، ملاحظہ فرمائيے،اقتباس مكتوب اقبال
"ہم نے ارادہ كيا ہے كہ پنجاب كے ايك گاوٴں ميں ايك ايسا ادارہ قائم كريں جس كى نظير آج تك يہاں قائم نہيں كيا گيا- ہمارى خواہش ہے كہ اس ادارہ كو وہ شان حاصل ہو جو دوسرے دينى اور اسلامى اداروں كى شان سے بہت بڑھ چڑھ كر ہو- ہم نے ارادہ كيا ہے كہ علومِ جديدہ كے چند فارغ التحصيل حضرات اور چند علومِ دينيہ كے ماہرين كو يہاں جمع كريں- يہ حضرات ايسے ہوں جن ميں اعلىٰ درجہ كى ذہنى صلاحیتیں موجود ہوں اور وہ اپنى زندگياں دين اسلامى كى خدمت كے لئے وقف كرنے پر تيار ہوں- ہم ان كے لئے تہذيب ِحاضرہ كے شوروشغب سے دور ايك كونے ميں ہوسٹل بنانا چاہتے ہيں جو كہ ان كے لئے ايك علمى اسلامى مركز ہو اور ہم ان كے لئے ايك لائبريرى قائم كرنا چاہتے ہيں جس ميں ہر قسم كى نئى اور پرانى كتب موجود ہوں- علاوہ ازيں ہم ايك ايسا رہنما جوكامل اورصالح ہو اور قرآن حكيم ميں بصيرتِ تامہ ركهتا ہو اور نيز انقلاباتِ دور حاضرہ سے بهى واقف ہو، مقرر كرنا چاہتے ہيں، تاكہ ان كو كتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہﷺكى روح سے واقف كرے اور تفكر اسلامى كى تجديد، يعنى فلسفہ ، حكمت، اقتصاديات اور سياسيات كے علوم ميں ان كى مدد كرے، تاكہ وہ اپنے علم اور تحريروں كے ذريعے تمدنِ اسلامى كے دوبارہ زندہ كرنے ميں جہاد كرسكيں-" 27

مصر سے جب ايسى كوئى شخصیت میسر نہ ہوسكى تو ہندوستان ہى ميں سے علامہ مرحوم كسى ايسے ہى جوہر قابل كے متلاشى رہے اور بالاخر ان كى نگاہ انتخاب سيد ابوالاعلىٰ مودودى پر پڑى اور انہيں حيدر آباد دكن سے دارالسلام (جمال پور،پنجاب) ميں منتقل ہونے كى دعوت دى- چنانچہ وہ علامہ اقبال كى اس دعوت كو قبول كرتے ہوئے دارالسلام ميں تشريف لے آئے-

مودودى صاحب ہى كيوں، پرويز كيوں نہيں؟
يہاں ايك سوال پيدا ہوتا ہے- اگر علامہ اقبال مرحوم، منكر حديث اور منكر سنت تهے اور پرويز صاحب كے ہم مسلك ہونے كى بنا پر صرف حجيت ِقرآن ہى كے قائل تهے تو انہوں نے دارالسلام ميں اس دينى خدمت كے لئے پرويزصاحب كو كيوں نہ دعوت دى؟ اور اس مودودى ہى كو كيوں دعوت دى، جن كا مسلك قرآن كى حجيت اور سنت كى سنديت وحجيت پرقائم تها؟ جس پر ان كى كتاب 'سنت كى آئينى حيثيت' اور كئى ديگر تحريريں شاہد ِعدل ہيں-

حيات ِ اقبال كے آخرى لمحات
حديث ِنبوى كے متعلق اقبال كا رويہ كيا تها؟ اس كى وضاحت كے لئے اب ميں حيات اقبال كے بالكل آخرى لمحات كو نذرِ قارئين كررہا ہوں-ملاحظہ فرمائيے كہ موت سے چند ثانئے قبل انہوں نے حديث ِنبوى كے متعلق كيا طرزِعمل اختيار كياتها :
21/اپريل 1938ء كى شب، بڑى قيامت خيز شب تهى- وہ مفكر اسلام جس نے اپنے نغموں سے مسلم معاشرے پر خودى كے راز كو آشكار كيا، جس نے رنگ و نسل، علاقائيت اور زبانوں كى عصبيت سے بلند ہوكر، سارى انسانيت كو سربلندى كا پيغام ديا، جس نے اپنے شعر و ادب سے عالم اسلامى كو اتحاد كى راہ دكهائى، جس نے اپنى شاعرى ميں شرفِ انسانى كے رموز كو واضح كيا، جس نے اپنے كلام سے قومى تشخص كے اُمور كو ابهارا، جس نے اپنى فكر اور شاعرى كو اتحاد اسلامى اور تحريك آزادى كو فروغ دينے كا ذريعہ بنايا- يہ دانائے راز، جاويد منزل كے ايك كمرے ميں بستر مرگ پر اس وقت كا انتظار كررہا ہے جب بندہ اپنے محبوب ِ حقيقى سے جاملتا ہے اور موت بندہٴ مومن پر حياتِ دوام كے دروازے كهول ديتى ہے-

اس قيامت خيز شب ميں تمام تيماردار، ساڑهے باره بجے شب كو رخصت ہوگئے، علامہ كو پچهلے پهر رات كو بے چينى شروع ہوئى- شب كے تين بجے علامہ نے را جہ حسن اختر كو بلايا- جب وہ حاضر ہوئے تو علامہ نے اپنے ملازم ديوان على سے فرمايا كہ تم سوجاوٴ، البتہ على بخش جاگتا رہے، كيونكہ اب اس كے سونے كا وقت نہيں- پهر راجہ حسن اختر سے فرمايا كہ پیٹھ كى طرف كيوں بیٹھے ہو؟ راجہ حسن اختر علامہ كے قريب ہو بیٹھے تو فرمايا: "قرآن مجيد كا كوئى حصہ سناوٴ ، كوئى حديث ياد ہے؟ يہ فرما كر علامہ پر غنودگى طارى ہوگئى-"28

غورفرمائيے! وہ اقبال جو آغوشِ موت ميں بهى جاتے ہوئے يا تو قرآنِ كريم كى سماعت كا خواہش مند ہے يا حديث ِرسول كے سننے كا آرزو مند، وہ اپنى زندگى كا آخرى عمل يا تو كتاب اللہ كى سماعت كو بنانا چاہتا ہے يا فرمانِ نبى كى سماعت كو، كيا اس كے متعلق يہ گمان بهى كيا جاسكتا ہے كہ وہ احاديث ِنبوى كو سرچشمہ اسلام تسليم نہ كرتا تها؟ اقبال كى طرف انكارِ حديث كے مسلك كو منسوب كرنا بالكل ايسا ہى ہے، جيسے حضرت ابراہیم عليہ السلام كى طرف يہوديت، عيسائيت يا دين شرك كو منسوب كيا جائے-

حقيقت يہ ہے كہ جو لوگ انكارِ حديث كے مسلك كو اقبال كے كهاتے ميں ڈالتے ہيں، وہ اتنا بڑا جهوٹ بولتے ہيں كہ اس پر نہ تو وہ خالق ہى كى طرف سے كوئى حيا محسوس كرتے ہيں اور نہ ہى مخلوق ہى سے شرم محسوس كرتے ہيں- پهر وہ يہ بهى نہيں سوچتے كہ جن لوگوں پر ان كے مسلسل اور پیہم بولے جانے والے جهوٹ كى قلعى كهل جاتى ہے، ان كى نگاہ ميں ايسے لوگوں كى كيا عزت و آبرو باقى رہ جائے گى؟ آخرت كى جوابدہى كا احساس تو رہا ايك طرف، اگر يہ لوگ دنيا ہى ميں اپنے جهوٹ كے انجام كا خيال كرليں تو كبهى ايسى حركت نہ كريں، ليكن كيا كيا جائے! جن لوگوں نے بس اس دنيا ہى كو سب كچھ سمجھ ركها ہو اور كذب و زُور ہى كى بنياد پر لوگوں كو اپنے ساتھ ملائے ركهنے كا وطيرہ اپنا ليا ہو اور اپنى الزام تراشيوں، كذب بافيوں اور افترا پردازيوں ہى كے ذريعہ چند لوگوں كو غلط فہميوں ميں مبتلاكرڈالنے ہى كو كاميابى سمجھ ركها ہو اور اپنى غلط بيانيوں كے باعث لوگوں كى آنكھوں ميں دهول جهونكنے ہى كو فوز وفلاح قرار دے ركها ہو، اُنہيں اس سے كيا غرض كہ ان كى يہ بہتان تراشياں اور افترا پردازياں سنجيدہ طبقے ميں ان كے متعلق كيا تاثر پيدا كررہى ہيں؟

آخر ميں، ميں يہ عرض كردينا بهى ضرورى سمجھتا ہوں كہ ميں نے يہ چند سطور صرف اس لئے لكھى ہيں كہ علامہ اقبال كى وفات كے بعد ان كى ذات كے احترام اور ان كے كلام كى تشريح كى آڑ ميں 'طلوعِ اسلام' نے انہيں منكر حديث قرار دے كر ان كى روح پر جو ظلم عظيم روا ركها ہے، اس كا نہ صرف يہ كہ سدباب ہوجائے بلكہ علامہ اقبال كى نظر ميں حديث و سنت كا جو مقام ہے، وه بهى واضح ہوجائے- ورنہ ہمارے نزديك اقبال مرحوم كى ہرگز ہرگز يہ حيثيت نہيں ہے كہ انہوں نے اگر قرآن كے ساتھ حديث كا نام لياہے تو ہم بهى ان كى اتباع و تقلیدميں ايسا كر گزريں- ہم قرآن و سنت كو اسلام كا مستقل سرچشمہ تسليم كرتے ہيں،ہم كتاب بلاپیغمبر اور قرآن بلا محمد كے قائل نہيں ہيں- علامہ اقبال اگر نہ بهى پيدا ہوتے، تب بهى اہل ايمان كے لئے ہدايت كا سرچشمہ قرآن وسنت ہى مانے جاتے، جيسا كہ ان كى ولادت سے قبل بهى ان كى حيثيت مسلم رہى ہے - قرآن و سنت كا يہ مقام دورِ نبوى سے اب تك تواتر و تسلسل كے ساتھ برقرار رہا ہے-

يہاں تك تو 'اشراق ' 1990ء كى ترديد ميں شائع ہونے والے مضمون ميں طلوعِ اسلام كے بعض بے كار دعوؤں كى قلعى كهولى گئى ہے- آئندہ قسط ميں طلوعِ اسلام كے اس مضمون پر نقد وتبصرہ كيا جائے گا جو مئى 2005ء ميں محدث كى ترديد ميں شائع كيا گيا ہے۔


حوالہ جات
1. طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص23تا24
2. طلوع اسلام، فروری 2005ء، ص13
3. ابلیس و آدم، ص40
4. طلوع اسلام، فروری 2005ء، ص13
5. المعجم الوسیط ج2، ص579، انتشارات ناصر خسرو، مہران، ایران
6. مصباح اللغات، ص527، سعید اینڈ کمپنی، ادب منزل، پاکستان چوک، کراچی
7. طلوع اسلام، فروری 2005ء، ص13
8. لغات القرآن (پرویز) ص336
9. معارف القرآن، ج3 ص492،549،551
10. ایضاً:ج3 ص553
11. طلوع اسلام، ستمبر 1973ء ص44
12. تفسیر مطالب الفرقان، ج1 ص97
13. تفسیر مطالب الفرقان ، ج1 ص106
14. طلوع اسلام،ستمبر1966ء،ص60
15. طلوع اسلام،اپریل1981ء،ص61
16. طلوع اسلام،جون 1981ء،ص68
17. طلوع اسلام،فروری 2005ء،ص13
18. معارف القرآن،ج3،ص202تا 203
19. مفہوم القرآن،ج2ص705
20. مفہوم القرآن، ج2 ص706
21. سلسبیل، ص151
22. مفہوم القرآن، ج2 ص706
23. طلوع اسلام، فروری 2005ء، ص23
24. طلوع اسلام، ستمبر 1960ء، ص69
25. طلوع اسلام، اپریل 1939ء، ص94
26. اقبال کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپکی احادیث کے بارے میں عقیدہ کے لئے درج ذیل کتب دیکھیں:

  1. محمد اسماعیل قریشی ، ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت ، ص 407، الفیصل ناشران کتب لاہور ، 1999ء
  2. مرزائیت کے متعلق جواہر لعل نہرو کے جواب میں علامہ اقبال کا بیان ، شعبہ اشاعت و تبلیغ لاہور ، 1936ء

27. طلوع اسلام، اگست 1939ء، ص83
28. اقبال اور علماء پاک و ہند از اعجاز الحق قدوسی، ص82تا83