اپنى آبادى ميں اضافہ … يورپ كى اوّلين ترجيح

برطانيہ ميں آج زيادہ تر عورتيں وہ ہيں جو 40 سال كے بعدبچہ پيدا كرتى ہيں اور ان ميں شرح پيدائش نوجوان عورتوں سے بهى زيادہ ہے كيونكہ نوجوان عورتيں تو بچہ چاہتى ہى نہيں- BBC كے مطابق 40 سال كى زچہ عورتوں كى تعداد ميں گزشتہ دس سال ميں دگنا اضافہ ہوگيا ہے-


شمالى آئرلينڈ والے بهى پريشان ہيں كہ ان كى آبادى كى شرح كم ترين سطح تك پہنچ گئى ہے- 2002ء ميں 385،21 بچے پيدا ہوئے- گذشتہ سال كى نسبت اس ميں 577 كى كمى ہوئى ہے- بہتر شرح پيدائش و ترقى كے لئے يورپى ماہرين نے 1ء2 بچے فى عورت كى حد مقرر كى ہوئى ليكن يورپ كے اكثر ممالك اس آخرى حد سے بهى نيچے جاچكے ہيں- اور اكثر كى شرح 5ء1 سے بهى نيچے ہے- G8 ممالك بهى آج كل اسى بحران سے نمٹنے كے لئے اقدامات كرنے پر كئى اجلاس كرچكے ہيں-

سنگاپور ميں جہاں شر حِ پيدائش26ء1 بچے فى عورت پہنچ گئى ہے، حكومت نے آبادى بڑهانے كے لئے باقاعدہ ايك وزير كا تقرر كردياہے تاكہ وہ ايسى پاليسياں لائے كہ لوگ آبادى بڑهانے پر تيار ہوجائيں- اس كے لئے حكومت نے اب تيسرا يا چوتها بچہ پيدا كرنے پر والدين كو 10 ہزار ڈالر انعام دينے كا اعلان كيا ہے-آسٹريليا ميں بهى شرحِ پيدائش مجموعى طور پر 8ء1 بچے فى عورت تك پہنچ گئى ہے، چنانچہ اس كو بڑهانے كے لئے حكومت والدين بالخصوص عورتوں كو زيادہ سے زيادہ سہولتيں، مراعات اور ملازمت سے زيادہ سے زيادہ چهٹياں دينے كے اقدامات كررہى ہے-

جاپان ميں شرحِ پيدائش 29ء1 بچے فى عورت رہ گئى ہے جو دنيا ميں كم ترين ہے- يہاں 5ء19 فى صد لوگوں كى عمر 65 سال يا اس سے زيادہ ہے- فرانس ميں جہاں آبادى كى شرح 8ء1 بچے فى عورت ہے، وہاں بهى آبادى بڑهانے كے لئے خواتين كو تيسرا يا چوتها بچہ پيدا كرنے پر تين برس تك باقاعدہ معقول ماہانہ وظيفہ دينے كا اعلان كيا گيا ہے- جرمنى ميں جہاں 37ء1 بچے فى عورت كى شرح ہے، نئے نويلے جوڑوں كو مكانات كے لئے بلا سود قرضے فراہم كئے جارہے ہيں اور ہر نئے بچے كے ساتھ قرضے كا ايك حصہ معاف كرديا جاتا ہے-

كچھ عرصہ قبل يہودى جوڑوں كو اسرائيلى وزيراعظم شمعون نے ہدايت كى تهى كہ "وہ زيادہ سے زيادہ بچے پيدا كريں كيونكہ اسرائيل كى آبادى كم ہورہى ہے- اگر آبادى اس رفتار سے كم ہوتى رہى تو قومى نقصان كا سامنا كرنا پڑے گا- يہ ياد رہے كہ غزہ (فلسطين) ميں دنيا كى سب سے زيادہ شرحِ پيدائش يعنى 1ء8 فى صد ہے-

آبادى ميں اضافہ كے لئے رومانيہ كى حكومت نے قانون جارى كيا ہے كہ 5 سے كم بچوں والى عورتيں اور جن كى عمر 54 سال سے كم ہو، اسقاطِ حمل نہيں كراسكيں گى جبكہ ايسے جوڑوں پرٹيكس بڑها ديا جائے گا جن كے ہاں كوئى بچہ نہيں ہے- ياد رہے كہ رومانيہ ميں شرحِ پيدائش 36ء1 بچے فى عورت ہے-

چين ميں جہاں آبادى كى شرح صرف 7ء1 بچے فى عورت ہے ، وہاں ايك گهرانہ ايك بچہ پاليسى كے نتيجے ميں لڑكوں اور لڑكيوں كى آبادى ميں شديد عدمِ توازن پيدا ہوچكا ہے- الٹرا ساوٴنڈ ميں لڑكى آنے پراسقاط كرا ديا جاتا ہے اور يوں لڑكيوں كو ہلاك كرنے كى ظالمانہ رسم پهر لوٹ آئى ہے- خدشہ ظاہر كيا گيا ہے كہ 2020ء تك چين ميں 4 كروڑ مرد كنوارے رہ جائيں گے اور چينى ماہرين كے مطابق اس كانتيجہ عصمت فروشى اور عورتوں كى ناجائز تجارت كى صورت ميں نكلے گا- چينى حكومت اس پر فكرمند ہے اور مناسب اقدامات پر غور كررہى ہے- يہى صورت حال بهارت كى ہے، جہاں ويشوا ہندو پريشد آئے دن ہندووٴں سے كہتى رہتى ہے كہ وہ زيادہ سے زيادہ بچے پيدا كريں كيونكہ اعدادوشمار كى كمى ہورہى ہے- راجيو گاندهى كے دور ميں آسام اور كئى دوسرے علاقوں ميں مسلمانوں كى زبردستى فيملى پلاننگ اور نس بندى كى گئى تهى-

روس جہاں چند سال قبل مسلمانوں كى آبادى 5 گنا بڑھ رہى تهى اور سلاوى اپنے آپ كو اقليت ميں جاتا محسوس كررہے تهے، چنانچہ روسى حكومت نے فورى اقدامات كئے- اب روسى عورتوں كے لئے كام لينے كے قوانين ميں نرمى كى جارہى ہے- زچگى كى چهٹيوں ميں اضافہ كيا جارہا ہے- اوقاتِ كار كم كرديے گئے ہيں- جن عورتوں كو شوہر ميسر نہيں يا جو شادى نہيں كرنا چاہتيں، اُنہيں تين تك حرامى بچے پيدا كرنے كو كہا گيا ہے- ہمارى حكومت تو حلال بچوں پربهى دو كى پابندى لگا رہى ہے ليكن غيرمسلم ممالك حرامى بچوں كى تعداد بهى تين تك مقرر كرر ہے ہيں- 1981ء ميں جب ايك روسى عورت نے پندرہواں بچہ پيدا كيا تو حكومت نے اس كے والدين كو ايك بس تحفے ميں دى- اس كے علاوہ بچے كى ماں كو ايك ڈاكٹر اور ايك نرس كى مفت خدمات فراہم كى گئيں-

ياد رہے كہ ان سب اقدامات كے باوجود روس كى شرح پيدائش 2003ء ميں بهى 33ء1 بچے فى عورت سے آگے نہيں بڑھ سكى- اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جنسى بے راہرويوں پر چلنے كے بعد واپسى اتنى آسان نہيں ہوتى- بہرحال مسلمانوں كے لئے اس ميں مقامِ فكر ہے كہ كافر تو اپنى آبادى بڑهانے پر فكر مند ہيں ليكن ہم ہيں كہ بلا سوچے سمجھے اپنى آبادى گھٹائے جارہے ہيں- وہ يہ بات بخوبى سمجھ گئے ہيں كہ جب آبادى كم ہوگى تو ملك كيلئے كام كرنيوالے نوجوان ہاتھ كم ہوں گے- بوڑهے زيادہ ہوں گے- اُلٹا انہيں پنشن اور مراعات زيادہ دينى پڑيں گى ليكن يہ مراعات بهى ٹيكسوں سے حاصل ہوتى ہيں اور جب كام كرنے والى آبادى ہى نہ ہوگى توٹيكس كن پر لگيں گے- اسكے علاوہ ملك كا دفاع كرنے كے لئے بهى نوجوان چاہئيں- جب نوجوان ہى كم ہوں گے تو كوئى قوم اپنا وجود بهى برقرار نہ ركھ سكے گى- چنانچہ انہيں تو ان خطروں كا احساس ہے اور وہ فورى اقدامات كررہے ہيں ليكن مغرب كى تقليد ميں گرفتار ہمارے حكمرانوں كو نجانے يہ بات كب سمجھ آئے گى؟ (مجلہ الدعوة: جون 2005ء: ص 31)