اسلام میں نسب ونسل کا تحفظ (اثباتِ نسب میں قیافہ وقرائن اور DNA ٹیسٹ وغیرہ کی حیثیت)
يورپ ميں نكاح كے بغير جنسى تعلقات معمول كى بات ہے- نسب كے تحفظ كے ذرائع اختيار نہ كرنے كى بنا پر اُنہوں نے نسب كے تعين كے لئے طبعى ذرائع پرانحصار كرركها ہے، جس ميں جديد سائنسى طريقہDNA بڑا كارآمد ثابت ہوا ہے- وہاں جنسى بے راہ روى اس حد تك ہے كہ كوئى انسان يقين سے اپنے باپ كى نشاندہى نہيں كرسكتا، يہى وجہ ہے كہ اب باپ كے بجائے ماں كے نام كو زيادہ اہميت حاصل ہوتى جارہى ہے-
دوسرى طرف اسلام نسب كے تحفظ كو بہت زيادہ اہميت ديتا ہے اور شريعت ِاسلاميہ كے كئى احكامات كا انحصار بهى اسى پر ہے،يہى وجہ ہے كہ اسلام ميں اس كا ايك ٹهوس نظام ہے- جديد معاشروں سے مرعوبيت كى وجہ سے ہم اپنے اس امتيازى نظام اور اس كى حدود كو نظر انداز كركے انہى مغربى ذرائع پروالہانہ انداز ميں انحصار كرنا چاہتے ہيں -ہمارا حكمران طبقہ خصوصاً عدل وانصاف سے وابستہ لوگ مغرب سے آئى ہرچيز كو بغير سوچے سمجھے اپنانے كے عادى ہيں، جيساكہ گذشتہ دنوں پاكستان ميں اس نوعیت كے كئى كيسوں ميں عدالت نے DNA ٹيسٹ كى بنا پر ہى اپنا فيصلہ صادر كيا ہے- ان كيسوں كى تفصيلات اور ان كے فيصلوں كا تذكرہ ذرائع ابلاغ پر بهى بكثرت ہوا جس سے عوام كے ذہنوں ميں بهى انتشار پيدا ہوا- افسوسناك امر يہ ہے كہ ان پيش آمدہ مسائل ميں كسى كے پاس وہ اساسى نكات نہيں ہيں جنہيں كسوٹى قرار دے كران كى بنا پر فيصلہ كيا جائے- زير نظر مضمون ميں قرآن وحديث كے مختلف اقتباسات سے اسى كسوٹى كى نشاندہى كى گئى ہے۔
اللہ تعالىٰ ہميں اسلام كو سیكھنے اور اسے اپنانے كى توفيق مرحمت فرمائے- آمين!
'نسب كا تحفظ' رشتہ دارى اور خاندانى نظام كى پہلى كڑى ہے!
مسلمانوں كے آپس ميں رشتہ دارى كے تعلقات اور صلہ رحمى ايسا امتياز ہيں جس سے مغربى معاشرے محروم ہيں- مسلمانوں ميں ہر پيدا ہونے والا بچہ اپنے خاندان كے ساتھ مل كر ايك مستقل شناخت ركهتا ہے،جس كے فرائض او رحقوق كى پورى تفصيلات شريعت ِاسلاميہ ميں ملتى ہيں- اسى نسل اور نسب كے تحفظ سے ايك پورا خاندان وجود ميں آتا ہے-قرآنِ كريم ميں اللہ تعالىٰ نے اس بات كو اپنى صفت اور بہت بڑا انعام بتلايا ہے :
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا ﴿٥٤﴾...سورۃ الفرقان
"اللہ وہ ہے جس نے انسان كو پانى سے پيدا كيا، پهر اس كا نسب اور سسرالى رشتہ بنايا-"
اسلام كے پيش نظر چونكہ ايك صالح اور ذمہ دار معاشرہ كى تشكيل ہے، اس لئے اس ميں ايسے احكامات كى ايك لمبى تفصيل پائى جاتى ہے- سماجى تعلقات اور انسانوں كے باہمى رويے اسلام كا اہم ترين موضوع ہے، نسب اورنسل كى حفاظت سے ہى آپس ميں رشتہ دارياں قائم ہوتيں ہيں، اورجس معاشرے ميں رشتہ داريوں كا يہ احترام يا ان كا كوئى نظم نہ پايا جائے وہ معاشرہ گويا جانوروں كا معاشرہ ہے، جس ميں نسب كى حفاظت كا كوئى نظام نہيں- قيامت كى سنگينى بيان كرتے ہوئے اللہ تعالىٰ قرآن كريم ميں فرماتے ہيں :
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ ﴿١٠١﴾...سورۃ المومنون
"جب قيامت كا صور پهونكا جائے گا تو اس دن آپس كے نسب كى كوئى پروا نہ رہے گى-"
يہى بات ديگر مقامات پر بهى ايسے آئى ہے كہ روزِقيامت آدمى اپنے ماں باپ، بهائى بہن اور باپ بيٹے سے دور بهاگے گا اور رشتہ دارى كى كوئى پروا نہ ہوگى- (المعارج : 12 وعبس: 31)
رشتہ داروں سے انسان اپنا دكھ سكھ بانٹ سكتا ہے اور رشتہ دارى حقيقتاً خون كے تعلق،يعنى نسب ونسل سے ہى پيدا ہوتى ہے- اللہ نے قرابت اور رشتہ دارى كو توڑنے سے منع كرتے ہوئے كہا ہے :
وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ...﴿١﴾...سورۃ النساء
"اس اللہ سے ڈرو جس كے نام كا تم واسطہ ديتے ہو اور رشتہ دارى كو توڑنے سے ڈرو-"
رشتہ دارى، حقوق وفرائض اور خاندانى نظام كا تمام تر ڈهانچہ نسب اور نسل كے تحفظ پر قائم ہے-اگر كسى انسان كو اپنے بهائى،بہن كا علم نہيں ہے يا اس ميں شك ميں مبتلا ہے تو وہ كيونكراس سے قربت كے تعلقات استوار كرسكتا ہے-يہى وجہ ہے كہ اسلام ميں نسب كو اس قدر زيادہ اہميت دى گئى ہے كہ شريعت ِاسلاميہ جن پانچ مقاصد كے تحفظ كے گرد گهومتى ہے، ان ميں ايك نسل اور نسب كا تحفظ بهى ہے-اُصولِ فقہ كى مشہور كتاب 'جامع الاصول' ميں ہے :
"ضرورياتِ دين سے مراد وہ مصالح ہيں جن پر لوگوں كى زندگى كا دارو مدار ہے اور انہى پر معاشرہ كا قيام اور اس كا استحكام موقوف ہے-اگر يہ مصالح فوت ہوجائيں تو معاشرے كا نظام درہم برہم ہوجائے اور لوگ زبردست انتشار اور افراتفرى كا شكار ہوجائيں-او ران كے تمام معاملات گڑبڑ هوجائيں-دنيا ميں بهى ان كے لئے بدبختى ہو اور آخرت ميں بهى تكليف وعذاب- اور ضرورياتِ دين پانچ ہيں: دين(مذہب)،نفس(جان)،عقل(ہوش وحواس)، نسل(سلسلہ پيدائش ونسب) اور مال(دولت)" 1
نسب كا تحفظ الہامى شريعتوں كا ہى امتياز ہے !
نسل كى حفاظت كے احكامات اورلوازمات اسلام كے علاوہ تمام الہامى مذاہب ميں بهى موجود رہے ہيں، جيسا كہ اس سلسلے ميں يہود سے نبى كريم كا مشہور مكالمہ صحيح بخارى ميں موجود ہے كہ ايك يہودى مرد وعورت نے زنا كا ارتكاب كيا تو يہودى آپ كے پاس ان كا قضيہ لے كر آئے- آپ نے ان سے پوچها كہ تمہارى شريعت (توراة) اس بارے ميں كيا كہتى ہے؟ انہوں نے جواب ديا كہ ان كو شرمسار كيا جائے اور كوڑے مارے جائيں-وہاں عبد اللہ بن سلام بهى موجود تهے(جو اسلام قبول كرنے سے قبل يہود كے عالم رہ چكے تهے) اُنہوں نے كہا : تم جهوٹ بولتے ہو، توراة كهول كر پڑهو- يہوديوں نے توراة پڑهتے ہوئے متعلقہ حكم پر ہاتھ ركھ آگے پیچھے سے پڑھ ديا تو عبد اللہ بن سلام نے اُنہيں ہاتھ اُٹهانے كا كہا :
فإذا فيها آية الرجم فقالوا:صدق يا محمد فيها آية الرجم فأمر بهما رسول الله ﷺ فرُجما.قال عبد الله: فرأيتُ الرجل يجنأ على المرأة يقيها الحجارة 2
" اس ميں رجم كى آيت موجود تهى، تب يہودى كہنے لگے:اے محمد!اس (عبد اللہ بن سلام) نے سچ كہا ہے- چنانچہ نبى كريم ﷺ نے ان دونوں كے بارے ميں حكم ديا اور دونوں كو رجم كرديا گيا-عبد اللہ بن سلام كہتے ہيں كہ ميں نے زانى كو ديكها كہ وہ زانيہ پر جهك كر اسے بچانے كى كوشش كررہا تها-"
نسل ونسب كا تحفظ الہامى قوانين كا ہى امتياز ہے كيونكہ نبى كريم كا فرمان ہے :
(والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته) 3
"اللہ كى قسم! اس بارے ميں كوئى بهى اللہ تعالىٰ سے بڑھ كر غيرت والا نہيں ہے كہ اس كا كوئى بندہ يا بندى زناكا ارتكاب كريں-"
جبكہ نسب كے تحفظ كے بارے ميں يہ حساسيت انسانوں كے خود تراشيدہ قوانين ميں نہيں پائى جاتى- مشہور اسلامى ماہر قانون جسٹس عبد القادر عودہ شہيد لكھتے ہيں :
"اٹهارويں صدى كے آخر ميں فلسفيانہ، سائنسى اور اجتماعى نظريات كى روشنى ميں قانونى ارتقا كا آخرى مرحلہ شروع ہوا اوراس وقت سے اب تك قانون نے عظيم ترقيات حاصل كرليں اور جديد قانون كو ايسى بنياديں حاصل ہوگئيں جن كا قديم قوانين ميں كوئى وجود تك نہ تها- ان جديد نظريات كى اساس: انصاف،مساوات، رحم او رانسانيت كے اُصول ہيں۔" 4
اسى بے احتياطى كا نتيجہ ہے كہ مغرب ميں 'نسب' اب باپ كى بجائے ماں سے منسوب ہوتا جارہا ہے، كيونكہ اس كو محفوظ ركهنے يا جاننے كے بااعتماد ذرائع كا تحفظ نہيں كياجاتا،حتىٰ كہ زنا كى تعريف كو ہى بدل ديا گيا ہے اور ايك مرد اور عورت ميں رضامندى سے ہونے والى ہم بسترى اب زنا كے مفہوم سے ہى خارج ہے۔
نسب كا مفہوم
نسب كا لغوى مطلب 'باپ كى طرف منسوب' كرنا ہے-اصطلاحى تعريف يہ ہے :
القرابة وهي الاتصال بين إنسانين بالاشتراك في ولادة قريبة أو بعيدة 5
"اس سے مراد قرابت ہے اور قرابت دو انسانوں كے ما بين پيدائشى تعلق كو كہتے ہيں خواہ وہ تعلق قريب كا ہو يا دور كا -"
جواہر الإكليل ميں ہے كہ نسب كا لفظ 'معين والد كى طرف منسوب ' كرنے پر بولا جاتا ہے- 6
نسب صرف 'باپ' كے لئے
قرآنِ كريم ميں اس بارے ميں صريح حكم آيا ہے :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥﴾...سورۃ الاحزاب
"اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بيٹوں كو تمہارے حقيقى بيٹے نہيں بنايا- يہ تمہارے زبانى دعوے ہيں، اللہ ہى حق بات كہتا او رسيدهے راستے كى طرف رہنمائى كرتا ہے- انہيں ان كے حقيقى باپوں سے ہى منسوب كرو، يہى الله كے نزديك زيادہ انصاف والا طريقہ ہے - اگر تمہيں ان كے باپوں كا علم نہ ہو تو پهر يہ تمہارے دينى بهائى يا تمہارے آزاد كردہ غلام ہيں-"
صحيح بخارى ميں ہے كہ يہ آيت حضرت زيد بن حارثہ كے بارے ميں نازل ہوئى كيونكہ اُنہيں اوائل اسلام ميں نبى كريم كا بيٹا كہا جاتا تها- 7
صحيح بخارى كى ہى ايك او رحديث ميں ہے :
أن أبا حذيفة تبنّٰى سالمًا كما تبنى رسول الله ﷺ زيدًا وكان من تبنى رجلًا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث ميراثه حتى أنزل الله تعالى ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ﴾ 8
"ابو حذيفہ نے سالم كو اپنا 'لے پالك' بيٹا بنا ركها تهاجيسا كہ نبى كريم ﷺ نے زيد كوبنايا تها- جاہليت كادستوريہ تها كہ جوجس كو اپنا 'لے پالك' بنا ليتا، لوگ اسى كى طرف اسے منسوب كياكرتے، اور اس كو ہى وارث بنايا جاتا حتى كہ اللہ تعالىٰ نے اس آيت كو نازل فرما ديا كہ انہيں ان كے باپوں كے نام سے ہى پكارو-"
نسب ونسل كى اہميت كے پيش نظر قرآنِ كريم ميں اس كے متعلق بعض آيات بهى نازل كى گئى تهيں، بعد ميں آيت ِرجم كى طرح ان كى تلاوت كرنا منسوخ قرار دے ديا گيا-حضرت عبد اللہ بن عباس ايك لمبى حديث ذكر كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله (أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم)9
" قرآن كريم ميں ہم يہ آيت بهى پڑها كرتے تهے : تم اپنے باپوں سے اپنى نسبت كو ہٹاؤ مت ، جو كوئى اپنے باپ كے علاوہ اپنى نسبت كرے گويا يہ تمہارے كفر كے مترادف ہے-"
درست نسب كى اسلام ميں اہميت اس قدر زيادہ ہے كہ نبى كريم كا فرمان ہے:
(من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام)
"جو شخص علم ركهنے كے باوجود اپنے آپ كو باپ كے علاوہ دوسرے كى طرف منسوب كرے تو ايسے شخص پر جنت حرام ہے-" 10
نبى كريم نے ايك فرمان ميں نسب ميں طعنہ زنى كرنے كو جاہلیت اور دوسرے فرمان ميں كفر كے مترادف قرار ديا ہے - 11
حضرت انس بن مالك سے مروى ہے :
(من ادّعٰى إلى غير أبيه أو انتمٰى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة) 12
"جو شخص باپ كے سوا يا كوئى غلام اپنے آقا كے سوا دوسرے كى طرف اپنے آپ كو منسوب كرے تو اس پر قيامت قائم ہونے تك متواتراللہ كى لعنت برستى رہتى ہے-"
حضرت ابو ہريرہ سے مروى ہے كہ جب لعان كى آيات نازل ہوئيں تو نبى ﷺ نے فرمايا:
(أيما امرأة أدخلتْ على قوم من ليس منهم فليست من الله في شي $ولن يدخلها الله جنته وأيما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه احتجب الله منه وفضحه على روٴوس الأولين والآخرين) 13
"جو عورت اپنے خاندان ميں ايسے بچے كو داخل كرے جو ان كا نہيں تو اللہ كے ہاں اس كا كوئى حصہ نہيں اور اللہ اس كو اپنى جنت ميں بهى داخل نہ كرے گا- ايسے ہى جو شخص اپنے بيٹے سے انكار كردے حالانكہ اسے معلوم ہے كہ وہ اس كا بيٹا ہے تو اللہ تعالىٰ روزِ قيامت اس سے پردہ فرمائے گا، اور اگلوں پچھلوں ميں اس كو رسوا كرے گا-"
مندرجہ بالا قرآنى آيات اور احاديث ِنبويہ سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ميں نسب كو بہت زيادہ اہميت دى گئى ہے اور نسب كو غلط يا خلط ملط كرنے كى شديد مذمت پائى جاتى ہے- ان سے يہ بهى پتہ چلتاہے كہ اسلام كى رو سے نسب اور نسل صر ف باپ (i)كے لئے مخصوص ہے اور يہ نسب ماں كى طرف سے نہيں چلتا۔
زنا كى صورت ميں 'نسب' كس كے لئے؟
يہاں بڑا اہم سوال يہ پيدا ہوتاہے كہ نسب كى صحت كے لئے كيا صرف يہ كافى ہے كہ بچہ كسى مرد كے نطفے سے پيدا ہو يا مرد كا عورت كے ساتھ شرعى نكاح ہونا بهى ضرورى ہے؟ اس سلسلے ميں اسلام كا اُصولى موقف يہ ہے كہ بچے كو صرف اسى شخص كے ساتھ ملحق كيا جائے گا جو اس كا جائز والد ہو- اگر وہ بچہ زنا كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے تو ايسى صورت ميں اس كا نسب زانى سے نہيں جوڑا جائے گا اور شرعى طور پر بچہ زانى كا وارث نہيں ہوگا، نہ ہى زانى پر اس بچے كى كفالت فرض ہوگى- حتىٰ كہ اگر كسى بچے كے بارے ميں يہ امر حتمى بهى ہو كہ وہ اس زانى كے زنا كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے، مثلاً زانى نے زنا كا اعتراف بهى كرليا ہو تب بهى امر واقعہ كے باوجود اس زانى كو باپ نہيں بنايا جائے گاگويا يہ بهى زنا كى سزا كا ايك حصہ ہے- اس كى وجہ يہ ہے كہ شرعى طور پر باپ ہونے كے ناطے جو حقوق اسے حاصل ہوتے ہيں، وہ بهى اللہ كے ہى عطا كردہ ہيں- اللہ كى نافرمانى پر مبنى ايك فعل كے ذريعے اسے ديگر شرعى حقوق بهى حاصل نہيں ہوں گے- اس مسئلہ پر تمام فقہاے كرام كا بهى اتفاق پايا جاتا ہے، جيسا كہ اس كا تذكرہ آگے آرہا ہے- اس سلسلے ميں احاديث نبويہ حسب ِذيل ہيں:
(1)نبى كريم ﷺ فرماتے ہيں :
(وإن كان من أَمَة لم يملكها أو من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق به ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو ادعاه فهو ولد زِنية من حرة كان أو أمة ... وهو ولد زنا لأهل أمّه من كانوا حرة أو أمة) 14
"اگر كوئى شخص اپنى غير مملوكہ لونڈى سے يا كسى آزاد عورت سے زنا كرے تو بچے كو نہ تو اس كى طرف منسوب كيا جائے گا،نہ ہى وہ اس كا وارث ہوگا- خواہ زانى يہ دعوىٰ بهى كرے كہ وہ اس كا بچہ ہے-وہ بچہ زنا كا نتيجہ ہے چاہے وہ لونڈى سے ہو يا آزاد عورت سے- (اگلى حديث ميں ہے كہ) ولد الزنا اس كى ماں كے خاندان كو دے ديا جائے گا، چاہے ماں آزاد ہو يا لونڈى- (لونڈى كا 'اہل' اس كے مالكان ہيں)-"
ديكهئے!نبى كريم نے اپنے فرمان ميں اسے باپ قرار دينے سے احتراز كرتے ہوئے صرف دعوىٰ كرنے والا قرار ديا ہے، الفاظ كا ايسا محتاط استعمال شانِ رسالت كے ہى لائق ہے-
(2) حضرت ابن عباس سے مروى ہے كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا:
(من ادّعى ولدًا من غير رِشدة فلا يَرِث ولايورث) 15
" جو كوئى نكاح كے بغير كسى بچے كا دعوىٰ كرے تو نہ تو وہ بچہ اس زانى كا وارث بن سكتا ہے اور نہ وہ زانى اس بچے كا وارث قرار پائے گا-"
(3) ايك آدمى نے نبى كريم كے سامنے كهڑے ہو كر اس بات كا دعوىٰ كيا كہ فلاں لڑكا ميرا بيٹا ہے كيونكہ اس كى ماں سے ميں نے جاہليت ميں زنا كيا تها- تو آپ نے فرمايا :
(لا دَعوة في الإسلام،ذهب أمر الجاهلية،الولد للفراش وللعاهر الحجر) 16
"اسلام ميں نسب دعووں سے ثابت نہيں ہوتا- جاہليت كا دور لد گيا، بچہ تو فراش (بستر كے جائز مالك) كا ہے- اور زانى كے لئے پتهروں كى سزا ہے-"
(4) نبى كريم كا اُصولى فرمان متعدد كتب ِحديث ميں بيان ہوا ہے :
(الولد للفراش وللعاهر الحَجَر) 17
"بچہ اس كا ہوگا جس كى بيوى ہے اور زانى كے لئے پتهر ہيں-"
الحَجَركا مطلب محرومى بهى آتا ہے يعنى زانى كيلئے محرومى ہے-18
يہاں ايك بنيادى اُصول بيان كيا گيا ہے كہ بچہ اس آدمى كا ہے جس كے فراش (بيوى يا باندى) كے ہاں پيد ا ہوا ہے- یعنى بچے كے درست نسب كے لئے ضرورى يہ ہے كہ وہ آدمى كى بيوى يا اس كى اپنى باندى كے ہاں پيدا ہو، اگر وہ عورت زانى كے لئے جائز نہيں توگويا وہ اس كى فراش بهى نہيں- 'فراش' عربى زبان ميں بستر كوكہتے ہيں-فقہى انسا ئيكلوپيڈيا ميں ہے:
فاقتضٰى ألا يكون الولد لمن لا فراش له كما لا يكون الحجر لمن لازنا له إذ القسمة تنفي الشركة 19
"تقاضا يہ ہے كہ جس كا بستر نہيں، اس كا بچہ بهى نہ ہو، جيسا كہ اس كو پتهر كى سزا بهى نہ ہو جس نے زنا نہيں كيا- زانى اور والد ميں يہ تقسيم كردينا ان كا بچے ميں شركت كى نفى كرتا ہے-"
جب كسى عورت سے اس كے شوہر (يا مالك) كے سوا كوئى اور مرد زنا كرے اوربچے كے متعلق ان ميں اختلاف پيدا ہو جائے، ہر كوئى دعوىٰ كرے كہ يہ بچہ اس كا ہے تو تب يہ بچہ شوہر (يا باندى كے مالك)كى طرف ہى منسوب ہوگا- گويا فراش سے مراد صاحب ِفراش ہے، جيساكہ ايك حديث ميں يہ الفاظ بهى آئے ہيں: (الولد لصاحب الفراش) 20
يہ اُصول نبى كريم ﷺ نے ايك لمبے واقعہ كے ضمن ميں بيان فرمايا ہے جس سے اس كى مراد مزيد واضح ہوجاتى ہے- حضرت عائشہ صدیقہ سے مروى ہے كہ عتبہ بن ابى وقاص (كافر) نے اپنے بهائى سعد بن ابى وقاص كو وصیت كى تهى كہ 'زمعہ'كى باندى كا بچہ ميرے نطفہ سے ہے، اس لئے تم اسے اپنے قبضہ ميں كرلينا- حضرت عائشہ فرماتى ہيں كہ جس سال مكہ فتح ہوا، سعد بن ابى وقاص نے اس بچے كو اُٹهاليا اور كہا كہ يہ ميرے بهائى (عتبہ) كا بچہ ہے اور انہوں نے اس كے متعلق مجهے وصيت كى تهى- جبكہ عبدبن زمعہ كهڑا ہوا اور كہنے لگا كہ يہ ميرے باپ كى لونڈى كا لڑكا ہے اور ميرے باپ كے بستر پر پيدا ہوا ہے-گويا يہ اختلاف دو آدميوں (زمعہ اور عتبہ)كے عمل كا نتيجہ ہے جنہوں نے جاہليت ميں ايك لونڈى سے ہم بسترى كى تهى اور زانى بچے كو اپنى طرف منسوب كرنا چاہتا تها- بالآخر دونوں كے نمائندے مقدمہ لے كرنبى كريم كے پاس چلے آئے-
حضرت سعد نے عرض كيا :اے اللہ كے رسول ﷺ! "يہ ميرے بهائى كابيٹاہے اوراس نے مجهے اس كے بارے ميں وصيت كى تهى-" پهرعبد بن زمعہ نے كہا كہ "يہ لڑكا ميرا بهائى ہے اور ميرے باپ كى باندى كا لڑكا ہے اور ميرے باپ ہى كے بستر پر پيدا ہوا ہے-" اللہ كے رسول نے دونوں طرف سے بيان سننے كے بعد فرمايا: كہ "اے عبد بن زمعہ! يہ لڑكا تمہارے پاس رہے گا، پهر آپ نے فرمايا كہ (الولد للفراش وللعاهر الحجر) "بچہ اس كا ہوگاجس كے بستر پر پيدا ہوا اور زانى كے لئے پتهروں كى سزا (رجم) ہے- "
پهر آپ نے حضرت سودہ (جو حضور كى بيوى، عبد كى بہن اور اب اس لڑكے كى بهى بہن بنتى تهيں) سے فرمايا كہ اس لڑكے (یعنى قانونى بهائى) سے پردہ كرنا كيونكہ آنحضرت اس لڑكے ميں (زمعہ كى بجائے) عتبہ كى مشابہت محسوس كرتے تهے- (چنانچہ حضرت سودہ كے پردہ كرنے كى وجہ سے) اس لڑكے نے اُنہيں مرتے دم تك نہيں ديكها-" 21
اس واقعہ ميں سعد بن ابى وقاص كے دعوىٰ كو آپ نے اس بنياد پر غلط قرار ديا كہ وہ لونڈى اس كے بهائى كا 'فراش' نہيں تهى- اور اس بچے كو زمعہ كے خاندان كے حوالے كرديا كيونكہ اس لونڈى كا مالك وہ تها- البتہ ساتھ ہى اس بچے كى قانونى بہن اُمّ المومنين كو اس سے پردہ كا حكم اس لئے ديا كيونكہ اس بچے ميں عتبہ بن ابى وقاص كى مشابہت پائى جارہى تهى- گويا مشابہت پائے جانے كے باوجود قانونى اور شرعى پہلو كو ہى يہاں ترجيح دى گئى ہے۔
(5) رباح ذكر كرتے ہيں كہ ميرى ايك لونڈى تهى، اس سے ميرے دو بيٹے عبد الله اور عبيدالله پيدا ہوئے جو بالكل ميرے جيسے سياہ رنگت والے تهے- اسى دوران ميرى لونڈى كو يوحنا نامى ايك رومى غلام ورغلانے ميں كامياب ہوگيا، بعد ميں اس كے ہاں سفيد رنگت كا بچہ پيدا ہوا، ميں نے جب اپنى باندى سے باز پرس كى تو اس نے اعتراف كرليا كہ يہ اسى رومى غلام سے زنا كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے- يہ معاملہ حضرت على كى عدالت ميں لے جايا گيا تو آپ نے كہاكہ ميں تمہارے درميان نبى ﷺ والا فيصلہ كروں گا- (الولد للفراش وللعاهر الحجر) بچہ اسى كا ہوگاجس كے بستر پر پيدا ہوا اور زانى كے لئے پتهروں كى سزا (رجم) ہے-"ا ور اس غلام اور باندى كو آپ نے كوڑوں كى سزا لگوائى- 22
چونكہ رباح اس بچے سے انكارى تها، اس ليے يہ بچہ اس كى طرف تومنسوب نہ ہو گا بلكہ وہ اپنى ماں كے زير كفالت رہے گا اور يہ جملہ فرما كر حضرت على نے اس كے مفہوم مخالف كى طرف اشارہ كيا ہے كہ جس كا فراش نہيں، اس كا بچہ بهى نہيں-
(6) اسلامى تاريخ ميں زياد بن أبيہ (م53 ھ )كا بهى ايك مشہور واقعہ ملتاہے- حضرت معاويہ نے اُنہيں اپنا بهائى قرار ديا تها- اس واقعہ كى تفصيلات يہ ہيں كہ
يقال: إن أبا سفيان أتى الطائف فسَكِر فطلب بغيًّا فواقع سميةَ وكانت مزوَّجةً بعُبَيد فولدتْ من جِماعه زيادًا فلما رآه معاوية من أفراد الدهر استعطفه وادّعاه وقال نزل من ظهر أبي ولما مات علي كان زياد نائبا له على إقليم فارس قال ابن سيرين : قال زياد لأبي بكرة : ألم تر أمير الموٴمنين يريدني على كذا وكذا وقد وُلِدتُ على فراش عُبيد وأشبهتُه وقد علمتُ أن رسول الله ﷺ قال: من ادعى إلى غير أبيه فليتبوأ مقعده من النار23
"ابو سفيان اسلام لانے سے قبل طائف آئے ، شراب پى اور فاحشہ عورت كا تقاضا كيا اور سميہ نامى عورت سے زنا كيا جو عبيد كى بيوى تهى- اس زنا كے نتيجے ميں زياد تولد ہوا- جب حضرت معاويہ نے زياد كو ديكها كہ وہ بڑا اثر ورسوخ والاشخص ہے تو اس كو قريب كرنے كى كوشش كى او راس كے بارے ميں دعوى كيا كہ يہ تو ميرے باپ كى پشت سے پيدا ہوا ہے (گويا ميرا بهائى ہے)- جب حضرت على كى وفات ہوئى تو زياد فارس كے صوبہ پران كا نائب تها- ابن سيرين كہتے ہيں كہ زياد نے ابو بكرہ سے ذكر كيا كہ تم ديكهتے نہيں كہ اميرالمومنين (معاويہ ) مجھ سے يہ يہ توقعات ركهتے ہيں حالانكہ ميں عبيد كے بستر پر پيدا ہوا ہوں، اُسى سے ميرى مشابہت ہے (يہ زياد كا اپنا خيال ہے) اوريہ بات بهى ميرے علم ميں ہے كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا ہے كہ جو اپنے باپ كے علاوہ اپنے آپ كو منسوب كرے تو وہ اپنا ٹهكانہ جہنم ميں سمجھ لے-"
چونكہ زياد ابو سفيان كا ناجائز بيٹا تهاكيونكہ سميہ ابو سفيان كى باندى نہيں تهى- ايسى صورت ميں زيادكى نسبت ابو سفيان سے نہيں ہونى چاہئے اور نہ ہى عبيد سے كيونكہ عبيد اس ہم بسترى سے ويسے ہى برى ہے، يہ اس كى بيوى كى جاہليت ميں غلط كارى تهى- يہى وجہ ہے كہ كتب ِتاريخ ميں زياد كانام زياد بن أبيہ (اپنے باپ كا بيٹا ) آيا ہے يا زياد بن سميةيعنى وہ اپنى ماں سے منسوب ہوا- اس سے پتہ چلا كہ زيادكو زياد بن ابى سفيان كہنا درست نہيں اور حضرت معاويہ نے صرف سياسى مصلحت كے پيش نظر ايسا كرنے كى خواہش كى تهى-
ياد رہے كہ صحيح بخارى اورموطأ ميں روايت ہونے والى ايك حديث كى سند ميں اس كو زياد بن ابوسفيان كے نام سے ذكر كيا گيا ہے ليكن بخارى كے شارح حافظ ابن حجر اور مسلم كے شارح امام نووى نے اس كى وجہ بهى حضرت معاويہ كے فيصلہ كو قرار ديا ہے اور چونكہ حاكم كا فيصلہ بظاہر جارى ہوجاتا ہے، ليكن اس سے حقيقت تو نہيں بدل جاتى- مزيد تفصيل كے لئے دیكھیں : فتح البارى: 3/545 اورشرح نووى:2/52 وغيرہ
ايك شبہ اور اس كى وضاحت :عتبہ اور زمعہ كے بچے كے بارے ميں نبى كريم ﷺ كا فرمان يہ ہے كہ يہ بچہ زمعہ كو دے ديا جائے، كيونكہ اس كے بستر پر پيد اہوا گويا كہ اس كا نسب زمعہ سے جوڑا گيا ہے جبكہ زياد كے واقعے ميں زياد كا نسب بستر كے جائز مالك عبيد سے جوڑنے كى بجائے اسے زياد بن ابيہ كہا جاتا رہا- ايسا فرق كيوں ہے ؟
اس سے پتہ چلتا ہے كہ نسب ميں دعوىٰ كا بهى عمل دخل ہے- زمعہ كے كيس ميں دونوں فريق بچے كے نسب اور حقوق لينے كے دعويدار تهے، جبكہ زياد كے نسب ميں عبيد اس كے نسب كا سرے سے داعى نہ تها- دوسرى طرف ابوسفيان كے ورثا وغيرہ داعى تو تهے ليكن وہ ان سے ناجائز بستر كى بنا پر منسوب نہ ہوسكتا تها- اس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ (الولد للفراش وللعاهر الحجر) والا اصول اس صورت ميں ہے جب بچے كے دعويدار ايك سے زيادہ ہوں-اگر شوہر اس بچے كا داعى ہى نہيں ہے تواس كى طرف منسوب نہيں كيا جائے گا-چنانچہ كسى بچے كو باپ سے منسوب كرنے كے لئے يہ بهى ضرورى ہے كہ وہ اس كا اقرار كرتا ہو۔
البتہ نسب كو رفع كرنے كا اسلام ميں ايك ہى طريقہ ہے اور وہ ہے 'لعان'- اگر كوئى باپ بچے كا اقرارى نہ ہو تو اس بچے كى اپنے سے نسبت كوختم كرنے كے لئے وہ لعان كا راستہ اختيار كرسكتا ہے ليكن لعان كى صورت ميں اس كى بيوى كا بعد ميں بيوى رہنا ممكن نہيں رہتا۔
كيونكہ اگر ايك شوہر اپنى بيوى پر بدكردارى كا الزام عائد كرے تو ايسى صورت ميں يا وہ تہمت كى سزا پائے گا يا اسے زنا كے چار گواہ پيش كرنا ہوں گے اور اگر وہ گواہى ثابت كرديتا ہے تو اس كى بيوى شادى شدہ عورت ہونے كى و جہ سے رجم ہوكر موت سے ہم كنار ہوجائے گى- يا لعان كى صورت ميں چار قسميں كہا كر اس عورت سے جدائى كركے وہ اس بچہ سے اپنے نسب كو رفع كرلے گا اور اس ولد الزنا كا نسب اپنى ماں كى طرف ملحق ہوجائے گا، جيسا كہ آگے آرہا ہے- گويا اپنى بيوى پر زنا كا الزام لگانے كے بعد وہ عورت آخر كار اس شوہر كى بيوى نہيں رہ سكتى، الا يہ كہ اس عورت پر زنا ميں جبر كيا گيا ہو۔
فقہا كا نقطہ نظر
امام شافعى اپنى كتاب 'احكام القرآن ' ميں لکھتے ہيں:
"فكان معقولا في كتاب الله أن ولد الزنا لا يكون منسوبا إلى أبيه لما وصفنا من أن نعمته إنما تكون من جهة طاعته لا من جهة معصيته" 24
"كتاب اللہ سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ ولد الزنا كو اسكے باپ سے منسوب نہ كيا جائے كيونكہ اولاد اللہ كى نعمت ہے او ريہ نعمت اللہ كى اطاعت كے نتيجے ميں ملتى ہے نہ كہ نافرمانى پر-"
امام ابو بكر جصاص حنفى اپنى كتاب 'احكام القرآن' ميں لكھتے ہيں:
"فالميراث إنما يتعلق حكمه بثبوت النسب منه لا بأنه من مائه ألا ترىٰ أن ولد الزنا لا يرث الزاني لعدم ثبوت النسب وإن كان من مائه" 25
"وراثت كا تعلق نسب كے ثابت ہونے سے ہے، نہ كہ اس بنا پر كہ بچہ اس كے نطفہ سے ہے- كيا آپ ديكهتے نہيں كہ ولد الزنا زانى كا وارث نہيں بن سكتاكيونكہ اس كانسب اس سے ثابت نہيں ہے باوجود اس كے ، كہ وہ اس كے نطفہ سے ہے-"
امام سرخسى اپنى معروف كتاب المبسوطميں لكھتے ہيں:
"رجل أنه أقرَّ بامرأةٍ حرةٍ وأَن هذا الولد ابنه من الزنا وصدَّقتْه المرأة فإن النسبَ لا يثبتُ من واحد من قولِهما لقولِ النبي ﷺ (الولدُ للفراش وللعاهر الحَجر) ولا فراشَ للزاني وقد جعل رسول اللهﷺ حظَّ الزاني الحجر فقط وقيل هو إشارة إلى الرجم وقيل هو إشارة إلى الغَيبة كما يقال للغيبة الحجر أي هو غائب لا حظ له والمراد هنا أنه لا حظ للعاهر من النسبِ وبَقِي النسب من الزاني حق الشرع إما بطريقِ العقوبةِ ليكون له زجرًا عن الزنا إذا عَلِم أن ماء ه يضيع به... الخ 26
"كسى آدمى نے اس امر كا اعتراف كرليا كہ اس آزاد عورت سے زنا كے نتيجے ميں اس كا يہ بيٹا پيدا ہوا ہے اور اس بات كى عورت نے بهى تصديق كردى تو ان دونوں ميں سے كسى كى بات پر نسب ثابت نہيں ہوگا، كيونكہ نبى كريم ﷺ كا فرمان ہے: بچہ بستر كے مالك كا ہے اور زانى كے لئے پتهر ہيں-چونكہ زانى كا يہ بستر نہيں اس لئے نبى كريم نے زانى كے ليے بدلہ ميں صرف پتهر ركهے ہيں- كہا گيا ہے كہ اس ميں زانى كے رجم كى طرف اشارہ ہے اور يہ بهى كہا گيا ہے كہ اس ميں كچھ نہ ملنے كى طرف اشارہ ہے، كيونكہ عربى ميں حجر اس كے ليے بولا جاتا ہے جس كا كوئى حصہ نہ ہو- مراد يہ كہ زانى كا نسب ميں كوئى حصہ /حق نہيں ہے- زانى سے نسب كايہ حق لينا شرعى عقوبت كى بنا پر ہے تا كہ زانى كو اس امركى تنبيہ كردى جائے كہ تيرا نطفہ ضائع ہى جائے گا-"
امام ابن حزم ظاہرى اپنى معروف كتاب المحلّٰى بالآثارميں لكهتے ہيں :
والولد يلحق في النكاح الصحيح 27
"بچے كا صحيح نكاح كے نتيجے ميں ہى (باپ سے) الحاق كيا جائے گا-"
كويت ميں 45 جلدوں ميں تيار ہونے والے الموسوعة الفقهية ميں ہے:
ذهب الفقهاء إلى أنه لا يثبت النسب بالزنا مطلقًا28
"فقہاكا اس امر پر اتفاق ہے كہ زنا سے نسب مطلقاً ثابت نہيں ہوتا-"
شريعت نے نكاح كے بغير صرف نطفہ كى بنا پر نسب كا اعتبار نہيں كيا !!
واضح رہنا چاہئے كہ اسلام نے چودہ سو برس قبل اس بات كى شہادت دے دى تهى كہ بچے كى ولادت ميں ماں اور باپ دونوں كے جرثوموں كا كردار ہوتا ہے- جديد سائنس بڑ ى تحقیق كے بعد كچھ عرصہ قبل اس نتيجہ پر پہنچى ہے كہ دونوں كے جرثوموں كے اشتراك سے زايگوٹ يعنى 'نطفہ امشاج' تيار ہوتا ہے- اور جس كو برترى/سبقت حاصل ہوجائے،بچے ميں زيادہ مشابہت بهى اسى كى پائى جاتى ہے- اس سلسلے ميں حضرت اُمّ سليم كا نبى كريم ﷺ سے مكالمہ كتب ِحديث ميں موجود ہے:
أنها سألت نبي الله ﷺ عن المرأة ترىٰ في منامها ما يرىٰ الرجل فقال رسول الله ﷺ(إذا رأت ذلك المرأة فلتغتسل) فقالت أم سليم: فاستحييتُ من ذلك، قالت: وهل يكون هذا؟ فقال نبي الله ﷺ: (نعم! فمن أين يكون الشبه،إن ماء الرجل غليظ أبيض وماء المرأة رقيق أصفر فمن أيهما علا أو سبق يكون منه الشبه) 29
"اُنہوں نے نبى كريم ﷺ سے عورت كے اس خوا ب كے بارے ميں دريافت كيا جو وہ مرد كى طرح دیكھتى ہے (یعنى احتلام) تو آپ ﷺ نے فرمايا كہ جب عورت بهى ايسا خواب ديكهے تو غسل كرے- اُمّ سليم كہتى ہيں كہ مجهے اس پر بڑى شرم آئى اور ميں نے پوچها كہ اے اللہ كے نبى! كيا عورتوں ميں بهى ايسا ہوتا ہے (یعنى احتلام) تو آپ ﷺ نے جواب ديا: بالكل ورنہ (عورت سے بچے كى) مشابہت كا كيا مطلب؟آدمى كا پانى گاڑها سفيد ہوتا ہے اور عورت كا پتلا زرد، ان ميں سے جس كى خصوصيات غالب آجاتى ہيں، بچہ اسى سے مشابہ ہوتا ہے-"
يہوديوں كے عالم عبد اللہ بن سلام كو جب نبى كريم ﷺ كے مدينہ تشريف آورى كى خبر ہوئى تو آپ نبى ﷺ كے پاس تشريف لائے اور كہا كہ مجهے تين باتوں كا جواب ديں ، كيونكہ ان كا جواب صرف ايك نبى ہى دے سكتا ہے- تيسرا سوال يہ تها كہ بچہ ماں يا باپ سے مشابہ كيوں ہوتا ہے؟ تو نبى كريم ﷺ نے فرمايا :
(أما الولد فإذا سبق ماء الرجل ماء المرأة نزع الولد وإذا سبق ماء المرأة ماء الرجل نزعت الولد ) 30
"جہاں تك بچے كے بارے ميں سوال كا تعلق ہے تو جب آدمى كا پانى عورت پر سبقت كرجاتا ہے، بچے كى اُس سے مشابہت ہو جاتى ہے او رجب عورت كا پانى سبقت كر جائے تو بچہ اُس كے مشابہ پيدا ہوتا ہے- " يہ جوابات سن كر عبد اللہ بن سلام اسلام لے آئے-
اس موضوع پر احاديث ميں بكثرت تفصيلات ملتى ہيں، جس ميں ايك حديث ميں يہ بهى ہے كہ اگر مرد كے پانى كا غلبہ ہوجائے تو بچہ كى مشابہت اپنے چچاؤں سے ہوتى ہے ، بصورتِ ديگر اپنے ماموں وغيرہ سے- 31
ان احاديث سے يہ تو پتہ چلتا ہے كہ نبى كريم ﷺ كو الله تعالىٰ نے اس امر كا علم ديا تها كہ بچے كى والدين سے مشابہت كى حقيقى اور ٹهوس طبعى بنياديں موجود ہيں ليكن اس امر كا تعين ہوجانے كے باوجود آپ نے مختلف واقعات ميں اس مشابہت كى بنياد پر نسب كو ثابت نہيں كيا بلكہ اس طبعى امر پر شرعى حيثيت كو ہى غالب قرار ديا ، قابل ذكر واقعات يہ ہيں :
(1) اوپر گزرنے والے حضرت سودہ بنت زمعہ كے واقعہ ميں آپ نے عتبہ بن ابى وقاص سے بچہ كى واضح مشابہت محسوس كرلينے كے باوجود اس كو زمعہ كا ہى بيٹا قرار ديا- يہ مشابہت اس قدر واضح تهى كہ آپ نے سودہ كو اپنے قانونى بهائى سے پردہ كرنے كا بهى حكم ديا-
(2) لعان كا ايك واقعہ دورِ نبوى ميں پيش آيا جس ميں ہلال بن اُميہ نے اپنى بيوى پر شريك بن سحما سے ملوث ہونے كا الزام لگايا- عورت كے اعتراف نہ كرنے كى بنا پر لعان ہوا اور لعان كے دوران وہ عورت آخرى قسميں اور لعنت بهيجتے ہوئے قدرے جھجكى بهى ليكن اس نے كہا كہ ميں اپنے قبيلہ كو رسوا نہ كروں گى او رآخر ى قسميں بهى اُٹها ليں- تو نبى كريم ﷺ نے فرمايا:
(أبصروها فإن جاء ت به أكحل العينين سابغ الإليتين خدلج الساقين فهو لشريك بن سحماء)فجاء ت به كذلك فقال النبيﷺ: (لولا ما مضىٰ من كتاب الله لكان لي ولها شأن) 32
"ذرا اس عورت كے بچے كا دهيان ركهنا، اگر اس عورت كا بچہ سرمگيں آنكهوں والا، موٹى سرين والا اور بهارى بهر كم پنڈليوں والا ہو تو وہ شريك بن سحما كا ہوگا-چنانچہ بچہ ايسا ہى پيدا ہوا تونبى ﷺ نے فرمايا: اگر اللہ تعالىٰ كا حكم اُترا نہ ہوتا توميرے او راس كے مابين ايك فيصلہ ہوتا-" يعنى ميں اس كو سزا سے دوچار كرتا۔
آگے آرہا ہے كہ لعان كى صورت ميں بچہ ماں سے منسو ب ہوتا ہے-چنانچہ ظاہر ہے كہ يہ بچہ شريك بن سحما سے مشابہت كے باوجود اپنى ماں سے ہى منسوب كيا گيا اور مشابہت كى بنا پر اس كو زانى كے حوالہ نہ كيا گيا۔
بلكہ شريعت ميں تو يہاں تك احتياط موجود ہے كہ جہاں نكاح موجود ہو، وہاں صرف مشابہت كى بنا پر شكوك وشبہات اور وسوسوں كو راہ دينا مناسب نہيں- جيساكہ ايك آدمى نے نبى كريم كے پاس يہ شكايت كى كہ ميرے ہاں سياہ رنگ كا بچہ پيدا ہوا ہے-تو آپ نے اس سے پوچها: تمہارے پاس اونٹ ہيں ، ان كا رنگ كيا ہے؟ اُس نے جواب ديا :سرخ - آپ نے پوچها كہ كيا اس ميں بهورے رنگ كا بهى ہے؟ اس نے جواب ديا : ہاں، آپ نے پوچها : وہ كہاں سے آگيا ؟ اس نے كہا : شايد كہ اس نے كسى پچهلے اونٹ كى خصوصيت كھینچ لى ہو- تو آپ نے فرمايا :
(فلعل ابنك هذا نزعه) 33
"شايد كہ تمہارے اس بيٹے نے (بهى تمہارے بڑوں ميں كسى كى خصوصيت ) كھینچ لى ہو-"
چنانچہ نبى كريم نے اس كى بنا پر اس كو شك وشبہ ميں پڑنے سے روك ديا اور اس كو اجازت نہ دى كہ اس بنا پر وہ اپنے بیٹے سے انكار كرے- 34
حضرت عمر بن خطاب كو ايك سياہ رنگت كے آدمى نے اپنى بيوى كى شكايت كى كہ اس نے سفيد رنگت كا بيٹا كيونكر جنا ہے؟ جبكہ اس عورت نے اس الزام كو قبول كرنے سے كلى انكار كرديا- حضرت عمر نے اس پريشانى كے عالم ميں حضرت على سے مشورہ ليا تو حضرت على نے اس آدمى سے فرمايا : جو ميں پوچهوں سچ سچ بتانا، كيا تم نے حيض كى حالت ميں اپنى بيوى سے مباشرت كى تهى؟ اس نے اقرار كيا تو آپ نے فرمايا :
الله أكبر إن النطفة إذا خلطت بالدم فخلق الله عزوجل منها خلقا كان أحمر، فلا تنكر ولدك فأنت جنيت على نفسك 35
"اللہ كى شان! جب نطفہ حيض كے خون ميں مل جاتا ہے تو اس سے اللہ تعالىٰ نے ايسا پيدا كيا جو سرخ ہے- اپنے بيٹے سے انكار مت كرو، تم نے اپنے آپ پر خود زيادتى كى ہے-"
ولد الزنا كس كو ديا جائے؟
مذكورہ بالاتفصيلات سے پتہ چلتا ہے كہ ولد الزنا ، زانى سے منسوب نہيں ہوگا- البتہ بچہ كے قصور وار نہ ہونے كى و جہ سے اس كو ماں كى حضانت (تربيت وپرورش) كے حق سے محروم نہيں كيا جائے گا- البتہ جب شادى شدہ زانيہ عورت كو رجم كى سزا دى جائے تو ايسى صورت ميں يہ بچہ ماں كے ورثا يا عامة المسلمين كے حوالے بهى كيا جاسكتا ہے كيونكہ ماں كے اقارب ہى اس كو تربيت كے لئے ضرورى پيار دے سكتے ہيں-يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ ولد الزنا كا كيا قصور ہے كہ اس كو باپ كے نسب سے محروم ركها جارہا ہے؟
جہاں تك شريعت ميں اس بچے كے اپنے افعال كى حيثيت كا تعلق ہے تو ولد الزنا ہونے كى وجہ سے اس ميں كوئى فرق واقع نہيں ہوتا، چنانچہ ايسا بچہ نماز ميں امامت (ii)كے علاوہ مسلمانوں كا حاكم بهى بن سكتاہے، ليكن نسب ميں اگر اس بچے كو جائزبچوں جيسا ہى مقام ديا جائے تو اس سے ان جائز بچوں كا حق متاثر ہوتا ہے اور وہ انہى كى طرح اپنے باپ كے حقوق(iii) استعمال كرتا ہے- ايسے ہى جب بچے اپنے والدين سے اچهائياں اور خوبياں حاصل كرتے ہيں، ويسے ہى ان پر برائيوں كا بهى كچھ نہ كچھ اثر واقع ہوتا ہے، كيونكہ اللہ نے يہ سلسلہ ہى اس طرح ركها ہے- جديد سائنس كى رو سے مختلف امراض اور مختلف صلاحيتيں موروثى طور پر بچے كو حاصل ہوتى ہيں- اگر بادشاہ كا بيٹا شہزادہ ہوتا ہے تو مزدور كابيٹا بهى اس وقت تك اپنے باپ كى سى حيثيت ركهتا ہے، جب تك اس كى ذاتى حيثيت نماياں ہونے كا وقت نہ آجائے۔
يوں بهى اگر ولد الزنا كو جائز بچے جيسے ہى تمام حقوق دے ديے جائيں تو اس سے معاشرے ميں زنا كى حوصلہ افزائى ہو گى، گويا ناجائز فعل كى بنا پر اس كو حاصل ہونے والا بچہ اس كے برے كام كا انعام تصور ہوگا، اس لئے معاشرے ميں پاكيزگى اورعفت وعصمت كے تحفظ كے لئے ضرورى ہے كہ زنا كے فعل كو مذموم ترين اور سنگين جرم قرار ديا جائے اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج اور اثرات كوغير معتبر سمجھا جائے -آج لادين معاشروں ميں حرامى بچوں كى بڑھتى تعداد اسى الہامى حكم كو نظر انداز كرنے كا نتيجہ ہے-
شرعى طورپر يہ نسب كس كى طرف منتقل ہوگا، اس سلسلے ميں دورِ نبوى كے واقعات يہ ہيں:
(1) اوپر نبى كريم كا ايك فرمان ذكر كيا گيا ہے جس كے يہ الفاظ قابل توجہ ہيں:
وهو ولد زنا لأهل أمّه من كانوا حرة أو أمة 36
"اور يہ ولد زنا ماں كے خاندان كو ديا جائے گا، چاہے وہ ماں آزاد ہو يا باندى"
(2) اگر ماں شادى شدہ ہو تو اس صورت ميں رجم كى سزا پاكر موت سے دوچار ہوگى- ايسى صورت ميں يہ بچہ ماں كے خاندان كو يا عامة المسلمین كو بهى ديا جاسكتا ہے- اس بارے ميں حضرت غامديہ كا واقعہ كتب ِحديث ميں ملتاہے، جب اُنہوں نے نبى كريم كے سامنے اپنے آپ كو باربارسزائے رجم كے لئے پيش كيا - احاديث ميں يہ الفاظ قابل توجہ ہيں:
(حتى تضعي ما في بطنك) قال فكفلها رجل من الأنصار حتى وضعت ... فقام رجل من الأنصار فقال: إليّ رضاعه يا نبي الله قال فرجمها
"(اس وقت تك انتظار كر) جب تك كہ تيرا بچہ پيدا نہ ہو جائے، تو ايك انصارى آدمى نے غامديہ كى وضع حمل تك كفالت كى... آخر حديث ميں ہے كہ انصار ميں سے ايك آدمى كهڑا ہوا اور اس نے كہا: يا رسول اللہ !اس كى رضاعت ميرے ذمے ہے ، تب نبى كريم نے اس كو رجم كرديا-" 37
اور اس سے اگلى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
أتته بالصبي في يده كسرة خبز...فدفع الصبي إلى رجل من المسلمين
"غامديہ نبى كريم كے پاس بچے كو اس حالت ميں لائى كہ اس كے ہاتھ ميں روٹى كا ٹكڑا تها- نبى كريم نے اس كا يہ بچہ ايك مسلمان كو دے ديا-"
البتہ لعان كرنے والى عورت كے بچے كى نسبت اس كى ماں كى طرف ہى كى جائے گى، جيساكہ درج ذيل احاديث ميں ہے :
(3) لعان كے ايك واقعہ ميں ايك عورت پر اس كے شوہر عويمرعجلانى نے ايك مرد سے ملوث ہونے كا الزام لگا يا، عورت نے قسميں كهاليں اور اس كى عويمر سے جدائى ہوگئى- حديث كے الفاظ يہ ہيں: فكان بعد ينسب إلى اُمه 38
"بعد ميں يہ بچہ اپنى ماں كى طرف منسوب كيا جاتا تها-"
مسند احمد بن حنبل كى ايك روايت ميں اس بچے كے بارے ميں ذكر ہے كہ
قال عكرمة فكان بعد ذلك أميرا علىٰ مصر وكان يدعى لأمه وما يُدعى إلى أبيه 39
"عكرمہ كہتے ہيں كہ يہ بچہ بعد ميں مصر كا گورنر بنا، اور اس كو اس كى ماں كى طرف ہى منسوب كيا جاتا تها،نہ كہ اس مرد كى طرف جس كے ساتھ زنا كرنے كا اس كى ماں پر الزام لگايا گيا تها-"
صحيح بخارى كى حديث نمبر 4748ميں ہے كہ نبى كريم ﷺ نے بچہ ماں كو دينے كا فيصلہ فرمايا- ايك او رحديث ميں يہ تذكرہ ہے كہ لعان كى صورت ميں پيدا ہونے والے بچے كى وراثت اس كى ماں كو ملتى اور وہ بهى اپنى ماں كى وراثت سے ہى حصہ(iv) پاتا- 40
(4) حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروى ہے :
قضٰى رسول الله فى ابن الملاعنة أن لا يدعى لأب ومن رماها أو رمى ولدها فإنه يجلد الحد 41
" نبى كريم ﷺ نے لعان كرنے والے خاوند، بيوى كے بچے كے بارے ميں يہ فيصلہ كيا كہ اسے باپ (ماں كے شوہر) سے منسوب نہ كيا جائے اور جو اس عورت پر (زنا كا) يا اس كے بچے پر حرامى ہونے كا الزام لگائے گا تو اس پر حد (تہمت) جارى ہوگى- "
(5) الولد للفراش سے بهى ثابت ہوتا ہے كہ بچہ ماں كو ديا جائے گا-ليكن جب اس ميں 'فراش' سے مراد صاحب ِفراش (مرد) كى بجائے زانيہ عورت كو ليا جائے جيساكہ بعض فقہا نے 'فراش' سے عورت كو بهى مراد ليا ہے اوران كى دليل قرآن كى آيت ہے (وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ ﴿٣٤﴾...سورۃ الواقعہ) جس كى ايك تفسير 'جنتى عورتوں' سے بهى كى گئى ہے- 42
اس كا مطلب يہ ہوا كہ جب بستر كا مالك بچے سے انكار كرے تو ايسى صورت ميں يہ بچہ زانى كو تو نہيں ديا جائے گا كيونكہ يہ اس كى سزا ہے ، البتہ ماں كو ديا جائے گا- اس كى حكمت يہ ہوسكتى ہے كہ عورت كو اسلامى معاشرے ميں جو حرمت حاصل ہے ، اس ميں اگرعورت كى طرف سے كوئى ترغيب موجود نہ ہو تو زنا كا وقوع بہت مشكل ہوجاتاہے- چنانچہ زانيہ كو اس بات كا علم رہنا چاہئے كہ يہ بچہ اس كو اكيلے ہى سنبهالنا ہوگا، تاكہ وہ اس فعل بد سے ہرممكن احتراز كرے- زنا كا يہ پہلو بہت سنگين ہے- باپ كا تو بچے سے تعلق ہى ختم كرديا گيا اور ماں پر اس بچے كااكيلا بوجہ اور زندگى بهر كى رسوائى ڈال دى گئى- ايسى سخت سزا كے بعد اسلامى معاشرے ميں زنا كے امكانات ديگر تہذيبوں سے كيونكر كم ترنہ ہوں گے-
قيافہ، ڈى اين اے(v) وغيرہ كى حيثيت
مذكورہ بالا تفصيلات كے بعد يہ امر تو بالكل واضح ہے كہ اسلام ميں نسب كو ثابت كرنے كا صرف ايك ہى طریقہ ہے اور وہ ہے 'نكاح'- نكاح كے بغير كسى كا نسب ثابت ہونا شريعت اسلاميہ كى رو سے ممكن نہيں ہے- نكاح كے بعد بعض صورتوں ميں قيافہ اور ڈى اين اے ٹيسٹ سے بهى فيصلہ كيا جاسكتا ہے ليكن يہ اسى وقت ہوگا جب دوافراد ايك عورت ميں اس طرح شريك ہوجائيں كہ دونوں كا نكاح اپنى اصل كے اعتبار سے درست ہو- ايسا بظاہر ممكن نہيں كہ ايك عورت بيك وقت دو مردوں كے نكاح ميں ہو ليكن غلطى يا كوتاہى كى بنا پر ايسا ہوسكتا ہے- مثلاً كوئى عورت تين ماہواريوں كى عدت پورى كيے بغير طلاق ملنے كے فوراً بعد دوسرے مرد سے نكاح كرلیتى ہے، تو ايسى صورت ميں اس كا آگے نكاح كرنا تو باعث ِگناہ ہوگا ليكن اس كے نكاح كے بعد كے تعلقات كو زنا قرار نہيں ديا جاسكتا- يا كسى عورت كے رحم ميں كوتاہى كى وجہ سے دو نطفے جمع ہوگئے ہيں، تب يہ سوال پيدا ہوسكتا ہے-
ايسے ہى لونڈى سے تعلق قائم كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ ايك ماہوارى انتظار كيا جائے تاكہ اس كے رحم كا خالى ہونا (استبراء رحم ) يقينى ہوجائے- ليكن اگر كوئى شخص اس امر كا دهيان نہ كرے توايسى صورت ميں اس احتياط كو ملحوظ نہ ركهنے كى سزا تو اُسے دى جائے گى، البتہ اس كا ہم بسترى كرنا 'زنا' شمار نہيں ہوگا- چونكہ ان تمام صورتوں ميں ان كا نكاح يا لونڈى سے تعلق درست ہے، اب شبہ پڑجانے كے وقت دو مردوں ميں سے بچے كا فيصلہ كس كے حق ميں كيا جائے؟ قيافہ يا ديگر قرائن سے اس امر كو ترجيح دى جاسكتى ہى- گويا قيافہ يا كوئى اور يقينى امر بهى، اكيلا نسب كو ثابت كرنے كى بنياد نہيں بن سكتا، بلكہ اس كے ذريعے جائز نكاح كے بعد صرف ترجيح كا فائدہ ليا جا سكتا ہے۔
اس كى وجہ يہ نہيں كہ اسلام جديد سائنسى تحقيقات كو قبول نہيں كرتا بلكہ اس كى وجہ يہ ہے كہ اسلام غلط تعلق كے نتيجے ميں ہونے والے فعل كو شرعى حيثيت نہيں ديتا اور زانى كو تحفظ دينے كى بجائے اس كى حوصلہ شكنى كرتا ہے- باوجود اس امر كے، كہ بچے كا اپنے باپ سے تعلق مشاہدہ يا ديگر يقينى دلائل سے بهى حاصل ہوچكا ہو يا اعترا ف كے نتيجے ميں انہيں سزا بهى مل چكى ہو-گويا اسلام ميں جينياتى حقوق نكاح كے بعد ہى معتبر ہوتے ہيں،اُس سے پہلے نہيں- يہاں تو يہ كہنا چاہئے كہ اسلام مشاہدہ او ر زانى كے اعتراف كو بهى كوئى حيثيت نہيں ديتا كجا يہ كہ وہ ڈى اين اے ہوكيونكہ اسلام كے پيش نظر اس فعل كى جائز اور ناجائز حيثيت كے مابين فرق كرنا ہے-
يورپ ميں جو بحث ان دنوں بڑى گرم ہے كہ انسان كے قانونى حقوق برتر ہيں يا جینیاتى تو اسلام ميں اس كا فيصلہ پہلے سے كرديا گياہے- يہ سوال وہاں پيدا ہى اس لئے ہوا كيونكہ وہاں زنا كى تعريف كو بدل كر بغير نكاح كے جنسى تعلقات كو گوارا كر ليا گيا ہے-
(1) عروہ بن زبير سے مروى ہے كہ اُمّ المومنين حضرت عائشہ نے اُنہيں بتايا كہ
"جاہليت ميں نكاح چار طرح سے ہوتے تهے :
(1) ايك تو نكاح كى وہ صورت جو آ ج كل مروّج ہے كہ ايك شخص دوسرے كو اپنى بيٹى يا زير ولايت لڑكى سے نكاح كى پيش كش كرتا اور حق مہر كے ساتھ اس كا نكاح قرار پاجاتا-
(2) نكاح استبضاع: جس ميں ايك شخص اپنى بيوى كو حيض سے فارغ ہونے كے بعد كسى عالى نسب يا معزز آدمى كے پاس ہم بسترى كے لئے بهيج ديتا- حمل قرار پانے تك اس كا حقيقى شوہر اپنى بيوى سے ہم بسترى سے اجتناب كرتا- يہ كام اس لئے كيا جاتا تاكہ بچہ اعلىٰ صلاحيتوں كا حامل اورنجيب صفت ہو-
(3) نكاح كى تيسرى صورت يہ ہواكرتى كہ ايك عورت سے 10 كے قريب لوگ ہم بسترى كيا كرتے- حمل قرار پانے كے بعد وہ عورت سب كو بلاتى اور كوئى انكار كى جرات نہ پاتا- وہ عورت اس بچے كو جس كى طرف منسوب قرار ديتى، اس شخص كے لئے اس كو ماننے كے سوا چارہ نہ ہوتا،پهر وہى اس بچے كا نام وغيرہ ركهتا-
(4) فاحشہ عورتوں كے پاس بے شمار لوگ زناكارى كے لئے آتے رہتے، ايسى عورتوں كے دروازوں پر مخصوص جهنڈے لگے ہوتے- جب بچہ پيدا ہوتا تو قيافہ شناس كو بلايا جاتا اور وہ اس بچہ كو جس سے منسوب كرتا، اسى كى طرف اس كى نسبت سمجھى جاتى اور معاشرے ميں اسى كى ولديت سے وہ معروف ہوجاتا... جب اللہ نے نبى كريم كو مبعوث فرمايا تو آپ نے تمام نكاحوں كو باطل قرار ديتے ہوئے صرف نكاح كى پہلى صورت باقى ركهى-" 43
اس حديث ميں نكاح كى چاروں صورتوں كے ساتھ جاہليت ميں نسب كے تعين كى صورتوں كا بهى تذكره كيا گيا ہے، ان چار صورتوں ميں جہاں تك نسب كا تعلق ہے تو اسلام ميں اس كا ثبوت صرف پہلى صورت كے ساتھ خاص ہے-دوسرى صورت ميں زنا ہونے كى وجہ سے چاہے امر واقعہ ميں اس كا باپ زانى شخص ہے ليكن اس بچے كو قانونى طورپر اس سے منسوب نہيں كيا جائے گا جيساكہ اس كے دلائل گزر چكے ہيں۔
تيسرى صورت ميں بهى عورت كى طرف سے نسب كے تعین كا اسلام ميں كوئى اعتبار نہيں ہے-جہاں تك چوتهى صورت ہے تو اسلام كى رو سے كسى كوتاہى يا غلطى كے موقعہ پر قيافہ شناسى كى بنا پر كسى ايك سے نسب كو ثابت كيا جاسكتا ہے ليكن اس ميں بهى يہ شرط ہے كہ مرد وعورت كا آپس ميں جائز نكاح كا تعلق قائم ہوچكا ہو، گويا نسب كى اصل اور واحد بنياد صرف جائز نكاح ہے اور قيافہ يا ڈى اين اے وغيرہ اس ميں شبہ كى صورت ميں صرف ترجيح كا كردار ادا كريں گے- قيافہ او رڈى اين اے ميں فرق يہ ہے كہ قيافہ ميں انسانى تجربہ اور عام مشاہدہ كے ذريعے اعضاكى مشابہت كى بنا پر بچے كى والد سے مشابہت تلاش كى جاتى ہے جبكہ ڈى اين اے ميں سائنسى تجزيات كى مدد سے نسبتاً زيادہ يقينى طورپر اور مزيد باريك بينى سے جينياتى معلومات كى بنا سے اس امر كا تعين كيا جاتا ہے-اس لحاظ سے ڈى اين اے كا تجزيہ اگر دورانِ عمل كسى غلطى سے محفوظ ہو تو اس پر قيافہ كى نسبت زيادہ انحصار كيا جاسكتا ہے-
(2) اسى نوعيت كا ايك واقعہ حضرت عمر بن خطاب كے دور ميں پيش آيا- آپ كے پاس دو آدمى آئے اور دونوں ايك بچے كے بارے ميں اپنا اپنا دعوىٰ كررہے تهے- توحضرت عمر بن خطاب نے قيافہ شناس كو طلب كيا ، دونوں كو ديكھ كر وہ كہنے لگا كہ يہ دونوں اس بچہ ميں شريك ہيں- (اس عجيب دعوىٰ پر) حضرت عمر نے اس قيافہ شناس كو درّہ سے مارا او راس عورت كو بهى طلب كرليا اور اس سے كہا: سچ سچ بتاؤ، تو وہ كہنے لگى :
"كان هذا لأحد الرجلين يأتيني وهي في إبل لأهلها فلا يفارقها حتى يظن وتظن أنه قد استمر بها حبل ثم انصرف عنها فأهريقت عليه دماء ثم خلف عليها هذا تعني الآخر فلا أدري من أيهما هو قال فكبر القائف فقال عمر للغلام وال أيّهما شئت44
"ان دونوں ميں يہ آدمى ميرے پاس آيا كرتا تها اور ميں اپنے اونٹوں كو چرا رہى ہوتى- يہ آدمى ا س وقت تك مجھ سے جدا نہ ہوتا جب تك اسے اور مجهے يقين نہ ہوجاتا كہ حمل ٹھہر گيا ہے - پهر يہ آدمى چلا جاتا، اس كے بعد مجهے خون آجاتا- پهر دوسرا آدمى اس كے بعد آجايا كرتا (اور ايسا ہى كرتا) ميں نہيں جانتى كہ يہ دونوں ميں سے كس كا ہے؟ راوى كہتا ہے كہ قيافہ شناس نے 'الله اكبر' كہا اور حضرت عمر نے لڑكے كو كہا : جس سے تم چاہو، اپنے آپ كو منسوب كرلو-"
حضرت عمر كا ايسے واقعہ ميں قيافہ شناس كو بلانے سے پتہ چلتاہے كہ ايسا مسئلہ قيافہ شناس كے ذريعے حل كيا جاسكتا ہے- او رقيافہ شناس كو درّہ مارنے كى وجہ يہ ہے كہ ايك بچہ بيك وقت دو آدميوں كاكيونكر ہوسكتا ہے- پهر عورت كے خون آنے كا دعوىٰ كرنے كا مطلب يہ نہيں كہ اسے حيض كا باقاعدہ خون آتا بلكہ اس سے تهوڑا بہت خون مرا دہوسكتا ہے-گويا ايك حيض ميں ہى دو مرد اس عورت سے زنا كارى كيا كرتے- اور بچے كو اپنى مرضى سے منسوب ہونے كا اختيار دينے كى و جہ يہ ہوسكتى ہے كہ قيافہ شناس سے فيصلہ ممكن نہ ہوا اور بچہ سن رُشد كو پہنچ چكا تها، اس لئے اس سے اس كا فيصلہ كرا ليا گيا-
(3) بعض اوقات اس مسئلہ ميں بڑى عجيب عجيب صورتيں سامنے آتى ہيں، جيسا كہ دو آدمى ايك عورت ميں جائز نكاح كے ذريعے شريك ہوجاتے ہيں ، ليكن واقعہ ميں ايك ايسا يقينى امر مل جاتا ہے جو بچے كے نسب كا فيصلہ كرد يتا ہے- ايسى صورت ميں يہ فيصلہ معتبر سمجھا جائے گا- چنانچہ موطا ٴامام مالك ميں ايسا ہى ايك واقعہ ہے كہ ايك عورت كا شوہر فوت ہوگيا، چنانچہ اس نے چارماہ دس دن كى عدت گزارى اور اس كے بعد ايك مرد سے نكاح كرليا- نكاح كے پورے 4 ماہ 15 دن بعد اس عورت نے ايك صحت مندبچے كو جنم ديا- يہ آدمى اپنا معاملہ حضرت عمر كے پاس لے آيا ، حضرت عمر يہ سن كر سوچ ميں پڑ گئے او ربڑى بوڑهيوں كو بلا كر پوچها كہ يہ كيا معاملہ ہے؟ ايك بوڑهى عورت بولى كہ اس كى وجہ ميں بتاتى ہوں، ہوا يوں كہ جب اس كا پہلا شوہر فوت ہوا تو اس سے يہ حاملہ تهى، يہ اسى كا حمل ہے جو سوكھ گيا تها، بعد ميں اسى نطفہ ميں زندگى كے آثار پيدا ہو ے اور نو ماہ پورے ہونے پر وضع حمل ہوگيا ہے- حضرت عمر نے اس عورت كى بات كى تصديق كى اور اس شوہر بيو ى ميں جدائى كروا كے اس بچے كو فوت شدہ شوہر سے منسوب كرديا- 45
بعض صورتوں ميں ايسے بچے كو بعد ميں ہم بسترى كرنے والے كو بهى ديا گيا ہے- نسب كے بارے ميں 10 سے زائد واقعات أقضية الخلفاء الراشدين ميں ذكر كئے گئے ہيں- (1/298 تا 313) ان ميں سے اكثر واقعات كا تعلق دورِ جاہليت كے تعلقاتِ مباشرت كے نتيجے ميں پيدا ہونے والے بچوں سے ہے- البتہ ان سے قيافہ شناسى سے مدد لينے كا اُصول ضرور ثابت ہوتا ہے- تفصيل كے خواہش مند محولہ كتاب كى طرف رجوع فرمائيں-
قرعہ اندازى: جب ايك عورت سے دو مردوں كا تعلق اس انداز سے قائم ہو كہ يہ تعلق اپنى اصل كے اعتبار سے ناجائز نہ ہو تو اس صورت ميں بعض اوقات قرعہ اندازى سے بهى فيصلہ كيا جاسكتا ہے- حضرت على كو دورِ نبوى ميں يمن ميں قاضى بناكر بهيجا گيا تو وہاں آپ نے ايسے ہى ايك مسئلہ ميں فيصلہ فرمايا اور جب يہ فيصلہ نبى كريم كو بتايا گيا تو آ پ نے اس پر تبسم فرمايا، يہ واقعہ سنن نسائى اور سنن ابودادو ميں موجود ہے- زيدبن ارقم سے مروى ہے :
أتي علي بثلاثة وهو باليمن وقعوا على امرأة في طهر واحد فسأل اثنين أتقران لهذا بالولد؟ قالا: لا حتى سألهم جميعًا فجعل كلما سأل اثنين قالا: لا فأقرع بينهم وألحق الولد بالذي صارت عليه القرعة وجعل عليه ثُلثَي الدية قال فذُكر ذلك للنبي ﷺ فضحك حتى بدت نواجذه 46
حضرت على كے پاس يمن ميں تين آدمى لائے گئے جنہوں نے ايك لونڈى سے ايك ہى طہر ميں ہم بسترى كى تهى- آپ نے دو آدميوں سے بارى بارى پوچها : كيا تم اس تيسرے كو يہ بچہ دينے كا اقرار كرتے ہو، ان دونوں نے كہا : نہيں- حتى كہ جب آپ تمام سے پوچھ بیٹھے اور ہر ايك نے نفى ميں جوا ب ديا تو آپ نے ان كے درميان قرعہ ڈالا، اور بچے كو اس سے منسوب كرديا جس كے نام قرعہ نكلا تها-اور اس كو پابند كيا كہ تم دوتہائى ديت ادا كرو- جب يہ بات نبى كريم كو بتائى گئى تو آپ اس قدر ہنسے كہ آپ كى داڑھیں نماياں ہوگئيں-"
علامہ ابن قيم الجوزيہ سنن ابو داود پر اپنى 'تعليقات' ميں اس حديث پر لكھتے ہيں:
"حافظ ابن حزم نے بهى اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے- اس حديث ميں مسئلہ يہ بيان كيا گيا ہے كہ جس بچے كے بارے ميں فيصلہ نہ ہو تو اس كو قرعہ كے ذريعے كسى ايك سے الحاق كرديا جائے- يہ اسحق بن راہويہ اور امام شافعى كا پہلا قول ہے- جبكہ امام مالكاوراحمد كے نزديك اس كے بجائے حديث القيافة (vi)كى بنا پر قيافہ شناس سے كام لينا زيادہ بہتر ہے- جبكہ امام ابو حنيفہ سے اس بارے ميں قرعہ يا قيافہ دونوں كے بارے ميں كچھ بهى منقول نہيں ہے"
اس مسئلہ كو قيافہ كى بجائے قرعہ اندازى سے حل كرنے كى وجہ يہ بهى ہوسكتى ہے كہ قيافہ شناس وہاں موجود نہ ہوں يا قيافہ شناس كے لئے فيصلہ كرنا مشكل ہو، جيسا كہ نسائى پر حاشيہ سندى ميں اس كا رجحان ظاہر كيا گيا ہے-
جہاں تك قرعہ كے ذريعے والد قرار ديے گئے شخص پر ديت كے دوتہائى عائد كرنے كا تعلق ہے تو اس كى توجيہ كے بارے ميں مسند حميدى ميں يہ الفاظ ملتے ہيں :
فقال علي لاثنين منهم أتُطِيبان به نفسًا لصاحبكما قالا: لا،ثم قال للآخَرَين أتطيبان به نفسا لصاحبكما قالا: لا، فقال علي: أنتم شركاء متشاكسون إنني مُقرع بينكم فأيكم أصابته القرعة ألزمتُه الولد وأغرمتُه ثُلَثَي قيمة الجارية لصاحبه 47
"حضرت على نے بارى بارى دو سے پوچها: كياتم دو اپنے ساتهى كے لئے اس سے بخوشى دستبردار ہوتے ہو- انہوں نے انكار كيا- پهر آپ نے باقى دو سے يہى پوچها، اُنہوں نے بهى نفى ميں جواب دياتو آپ نے كہا كہ اب تم سب برابر كے شريك ہو-ميں تمہارے درميان قرعہ اندازى كرتاہوں، جس كے نام قرعہ نكل آيا ، اس كو يہ بچہ ميں حوالے كردوں گا اور اس كو كہوں گا كہ وہ لونڈى كى دو تہائى قیمت دوسرے ساتھیوں كو ادا كرے-"
حافظ ابن قيم الجوزيہ كہتے ہيں كہ
لما لحق به صارت أمّ ولد وله فيها ثلثها فغرمه قيمة ثلثيها الذين أفسدهما على الشريكين بالاستيلاد فلعل هذا هو المحفوظ،وذِكرُ ثلثي دية الولد وهم أو يكون عَبَّر عن قيمة الجارية بالدية لأنها هي التي توٴدىٰ بها فلا يكون بينهما تناقض
"جب وہ بچہ اس سے منسوب ہوگيا تو گويا يہ لونڈى اس كى اُم ولد بن گئى جبكہ اس كا اس لونڈى ميں صرف تيسرا حصہ تها، تو حضرت على نے اس پر اس باقى دو تہائى كى ادائيگى عائد كردى جن كا اب اس لونڈى سے صحبت كرنا(اُمّ ولد بن جانے كى بنا پر ملنے والے آزادى كى بنا پر) ممنوع ہوگيا-اور اسے بچے كى دو تہائى ديت قرار دينا وہم ہے يا يہاں لونڈى كى قيمت كو ديت كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے كيونكہ اسى كى ادائيگى كى جانا تهى- ايسى صورت ميں كوئى تضاد باقى نہ رہا-"
احاديث ميں زيادہ تر واقعات لونڈيوں كے آئے ہيں، اس سے يہ مطلب سمجھنا درست نہيں كہ يہ احكام لونڈيوں سے ہى مخصوص ہيں- دراصل ايسى كوتاہى زيادہ تر انسان لونڈيوں كے بارے ميں ہى كرتاہے، جہاں تك آزاد عورت كا معاملہ ہے تو مكمل حقوق ركهنے كى وجہ سے اور اس سے عزت وشرف كو زيادہ منسوب سمجهنے كى وجہ سے ايسى بے احتياطى وہاں كم ہوتى ہے-
علم القيافة فقہا كى نظر ميں
قيافہ كے علم كے دو پہلو ہيں: ايك تو كهوجى جو قدموں كے نشانات سے كسى وقوعہ كا كهوج لگاتا ہے، اسے قيافة الأثر كہتے ہيں- دوسرا قيافة البشرجس كا مقصد مشابہتوں كى بنا پر آپس ميں نسبى تعلقات كو جوڑنا ہوتا ہے-
جمہور فقہا( مالكى، شافعى اور حنابلہ ) كے نزديك اختلاف كے وقت قيافہ كے ذريعے نسب كا تعین كيا جاسكتا ہے-ان كى دلیل حديث ِقيافہ(اسامہ اور زيدكى مشابہت) اور حضرت اُمّ سليم سے نبى كريم كا مكالمہ ہے- شافعيہ اور حنابلہ كے خيال ميں قيافہ شناس كے ذريعے باندى اور آزاد عورت دونوں كے بچوں كا فيصلہ كيا جاسكتا ہے جبكہ مالكيہ كے نزديك اس سے صرف باندى كے متعلق فيصلہ كيا جانا چاہئے البتہ اگر كبهى بچہ بوقت ولادت گم جائے يااشتباہ واقع ہوجائے تو ايسى صورت ميں قيافہ شناس سے آزاد عورت كے بچے كے فيصلے كاكام ليا جاسكتا ہے۔
احناف كا نقطہ نظر يہ ہے كہ قيافہ بهى كہانت كى طرح مكروہ علم ہے، او رشريعت نے نسب كو ثابت كرنے كا صرف ايك ہى ذريعہ قائم كيا ہے اور وہ ہے جائز بستر، اور جس آدمى كواپنے بچے كے بارے ميں شبہ ہوتو اسے حديث لعان كى رو سے لعان كا حكم ہے نہ كہ قيافہ شناس سے فيصلہ كرانے كا-علاوہ ازيں مجرد شباہت ايك ناقابل اعتبار امر ہے، كبهى بچہ اپنے كسى دور كے رشتہ دار سے بهى مشابہ ہوسكتا ہے، جيساكہ ايك آدمى كے ہاں سياہ رنگ كا بچہ پيدا ہونے كا واقعہ كتب ِاحاديث ميں آيا ہے-حنفيہ كے موقف كا خلاصہ يہ ہے كہ
ومفاد هذا كله أن النسب يثبت للرجل عند الحنفية بثبوت سببه وهو النكاح أو ملك اليمين ولا يرجع عمل القائف إلى شيء من ذلك وإنما يرجع إلى معرفة التخلق من الماء وهو لا يثبت به النسب حتى لو تيقنا من هذا التخلق ولا فراش فإن النسب لا يثبت 48
"تمام تر بحث كا خلاصہ يہ ہے كہ حنفيہ كے نزديك آدمى كا نسب صرف اس كا سبب ثابت ہونے پر موقوف ہے اور وہ سبب نكاح ہے يا ملك ِيمين- جبكہ قيافہ كا كوئى انحصار ان چيزوں پر نہيں ہے بلكہ اس كا انحصار تو نطفہ كے ذريعے مشابہت كو تلاش كرنا ہے ليكن اس سے نسب ثابت نہيں ہوتا،حتىٰ كہ اگرہميں خلقت ميں مشابہت كا يقين بهى حاصل ہوجائے اوراس كا محل جائز بستر نہ ہو تو نسب كسى طرح ثابت نہيں ہوگا-"
زير نظر مضمون ميں جو موقف ہم نے پيش كيا ہے وہ ان دونوں نقطہ ہائے نظر كے متفقہ نكات پر مبنى ہے- حنفيہ كے اس نكتہ پر ہميں پورا اتفاق ہے كہ نسب نكاح يا ملك يمين كے بغير ثابت ہونا ممكن نہيں، البتہ جب ايك مقام پر غلطى ياكوتاہى سے دو افراد ايك جائز عورت ميں شريك ہوجائيں، گويا نسب كى اصل بنياد قائم ہوجائے تب قيافہ يا قرائن مثلاً ڈى اين اے وغيرہ سے فيصلہ كيا جاسكتا ہے- والله اعلم
پاكستان ميں ايسے دو واقعات
(1)گذشتہ دنوں ہمارے ہاں ايسے دوكيس عدالتوں ميں پيش آئے ہيں جن ميں نسب كا مسئلہ زير بحث آيا- ان دونوں كيسوں ميں ڈى اين اے كے ذريعے نسب كو ثابت كرنے كے مسئلہ پر بهى بحث كى گئى-
پہلے واقعہ كا خلاصہ يوں ہے كہ نشتر ٹاؤن لاہور كے رہائشى طارق مسيح كے مطابق روحيل 2001ء ميں پيدا ہوا اور دو سال تك اس كے گهر ميں اس كى بيوى كے پاس رہا - 2003ء ميں يہ بچہ اغوا ہوگيا- 2005ء ميں جب يہ بچہ محمد على نامى ايك شخص اور اس كى بيوى كے پاس سے برآمد ہوا تو طارق مسيح نے اس كى واپسى كى درخواست تهانے ميں جمع كرادى اور يہ دعوىٰ كيا كہ يہ بچہ ميرا ہے، جيسا كہ اس كى پيدائش پرچى وغيرہ سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اسے ميرے حوالے كيا جائے- اس موقعہ پر شہزاد مسيح نامى ايك كنوارے لڑكے نے يہ دعوىٰ كيا كہ روحيل تو ميرا بيٹا ہے اور ثمينہ ابراہيم گجر نامى ايك لڑكى سے ناجائز تعلقات كے نتيجے ميں يہ بچہ پيدا ہوا تها- تهانے ميں اس نے ثمينہ سے اپنى شادى كا تذكرہ كيا، البتہ جب يہ معاملہ عدالت ميں چلا گيا تو وہاں عدالت كے رو برو اس نے صرف تعلقات اور شادى كے وعدہ كا ذكر كيا- وہاں شہزاد عرف پپو نے يہ دعوىٰ بهى كيا كہ اپنے اس بچے كو ميں نے محمد على كے پاس اچهى تربيت كے لئے ركهوايا ہوا ہے-اب اس بچے كے باپ ہونے كے دو عيسائى شخص دعويدار ہيں:
(1)كنوارا شہزاد جو ثمينہ ابراہيم كے ساتہ تعلقات كے نتيجے ميں اسے اپنا بيٹا قرار ديتا ہے-
(2) طارق مسيح جو اسے اپنا اور اپنى بيوى كا بچہ قرار ديتا ہے-
عدالت نے اس سلسلہ ميں ثمينہ كا بيان لئے اور واقعہ كى تفصيلات ميں جائے بغير دونوں سے كہا كہ اگر ڈى اين اے ٹيسٹ كرا ليا جائے تو كيا اس كا نتيجہ آپ دونوں مانيں گے؟ دونوں نے اس كا اقرار كرليا- ڈى اين اے ٹيسٹ ميں يہ بچہ شہزاد سے مشابہ نكل آيا، سو عدالت نے 27/اپريل 2005ء كو ايك فيصلہ كے ذريعے اس كے حوالہ كرديا-
اس عدالتى فيصلہ كے بارے ميں روزنامہ پاكستان ميں 10/مئى 2005ء كو ايك مذاكرہ ہوا، جس ميں علما كرام كے علاوہ ماہر ڈاكٹرز كو بهى دعوت دى گئى-
مذاكرہ ميں مدعو مہمان ڈاكٹر امينہ نے ڈى اين اے ٹيسٹ كى حيثيت كے بارے ميں گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ "يہ ٹيسٹ اگر صحيح ہوجائے تو اس كے نتائج سو فيصد ہوتے ہيں اورہرآدمى كا ڈى اين اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اورممكن ہے كہ ايك كهرب افراد كے بعد كسى ايك كا دوسرے سے ڈى اين اے ملے- اس لئے اس پر اعتماد كيا جاسكتا ہے ، البتہ پاكستان ميں ڈى اين اے ٹيسٹ ہونے كے معيار ى انتظامات موجود نہيں-"
زير بحث مسئلہ كے بارے ميں وہاں مختلف اہل علم نے بهى اپنے اپنے خيالات كا اظہار كياجو روزنامہ پاكستان ميں شائع بهى ہوچكے ہيں-
اس فيصلہ پر ہمارا تبصرہ نكات كى صورت ميں حسب ِذيل ہے :
(1) ہائيكورٹ نے انسانى قوانين كے پيش نظر اس مسئلہ كو زنا كى حيثيت سے عليحدہ كركے غور كيا ہے، جبكہ نسب كا مسئلہ كوئى مجرد سوال نہيں بلكہ يہ نسب ايك فعل كے نتيجے ميں پيدا ہوتا ہے- اگر وہ فعل درست ہے تو اس كى بنا پرنسب كو ثابت كيا جانا چاہئے ، اور اگر وہ فعل درست نہيں تو اس نسب كا اعتبار نہيں ہونا چاہئے- عدالت كا نسب كو مجرد طورپر زير بحث لانا درست نہيں- عدالت كا يہ رويہ جديد سائنس سے مرعوبيت اور اسلامى شريعت سے لاعلمى كا نتيجہ ہے-
(2) شہزاد كا دعوىٰ ہے كہ وہ ابهى تك كنوارا ہے، اگر وہ كنوارا ہے اوريہ بچہ ثمينہ سے غلط تعلقات كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے، تو يہ زنا ہے اور زنا سے نسب ثابت نہيں ہوتا-
(3) اگر شہزاد كا ثمينہ سے شادى كا دعوىٰ بهى مان ليا جائے تو اسلام كى رو سے عيسائى مرد سے مسلمان عورت كى شادى نہيں ہوسكتى، تب بهى يہ نكاح باطل ہے جس كى وجہ سے شہزاد كو يہ بچہ نہيں مل سكتا- عدالت كو شہزاد كے اعترافِ زنا كے جرم ميں سزا دينا چاہئے، اگر اسلام كى رو سے نہيں تو كم از كم عيسائيت كى روسے حرام ہے يا پاكستانى قانون ميں زنا ايك قابل سزا جرم !
(4) بالفرض يہ بچہ شہزاد اور ثمينہ كے تعلقات كے نتيجے ميں تسليم بهى كرليا جائے تو اس بچے كو ثمينہ كو دينا چاہئے تها، جبكہ عدالت نے ثمينہ كے بارے ميں معمولى تحقيق يا اس كا بيان لينے كى زحمت بهى گوارا نہيں كى-
(5) عدالت كا بچے كو شہزاد كے حوالے كردينا گويا زنا كا انعام دينے كے زمرے ميں آتا ہے اور اس سے اسلامى معاشرت شديد خطرے ميں پڑ جاتى ہے كہ ايك آدمى غلط كام كا بهى ارتكاب كرے او رساتھ اس زنا كے نتيجے ميں ہونے والے بچے كا وارث بهى بن بیٹھے-
(2) ايسا ہى ايك واقعہ انہى دنوں عدالت ِعاليہ ميں امريكہ ميں مقیم شخص كا پيش آيا- يہ شخص گاہے بگاہے پاكستان آتا رہتا- اس دوران اس كے ہاں ايك بچى پيدا ہوئى- چند سالوں بعد اس كو اس بچى پر شك گزرا تو وہ اسے امريكہ لے گيا اور وہاں اپنا اور اپنى بچى كا DNA ٹيسٹ كروايا، دونوں كى رپورٹ ميں فرق نكلا- چنانچہ پاكستان آكر اس نے اپنى بيوى اور ايك غير شخص پر زنا كا پرچہ كٹوا ديا- يہ پاكستان كى عدالتى تاريخ كا پہلا واقعہ ہے- دوسرى طرف جس شخص پر الزام لگايا گيا، وہ بهى عدالت ميں اپنے آپ كو اس الزام سے برى قرا رديتا ہے- اس كيس ميں عدالت نے جناب محمد اسمٰعيل قريشى ايڈوكيٹ كو بهى معاونت كے لئے طلب كيا-
گذشتہ دِنوں عدالت نے بهى يہ فيصلہ سنا ديا كہ DNA سے زنا كى حد نہيں لگائى جاسكتى- اس پر جنرل مشرف نے يہ بيان دياكہ ہميں قدامت پسند علما كى تشريحات سے شریعت كو آزاد كرانا ہوگا، DNA زنا كى سزا كے لئے معتبر ہے- جناب صدر كے اس بيان كے ساتھ يہ بهى حقيقت ہے كہ اگر DNA كى بنا پر ملزمان كو زنا كى حد لگائى جاتى تب بهى صدر كو اعتراض ہوتا، صدر كے اس بيان كا مقصد علما كے بہانے سے اسلام كو قديم قرار دينا اور محض مغرب نواز حلقوں كو خوش كرنا ہے- تفصيلات كے لئے اخبارات ملاحظہ فرمائيں-
ڈى اين اے كى حيثيت ؛ اثباتِ جرم ميں
يوں تو ہمارا موضوع اثباتِ نسب ميں قرائن كى حيثيت تك محدود تها، ليكن اس كے ايك اور پہلو پر مختصر بحث بهى تتمہ كے طور پر ملاحظہ فرمائيے- جہاں تك اثباتِ نسب كا تعلق ہے تو وہ صرف نكاح سے ثابت ہوتا ہے اورنكاح كے بعد بعض شبہات كى موجودگى ميں قرائن يا ڈى اين اے كے ذريعے صرف 'نسب كى ترجيح' كا فيصلہ كيا جاسكتا ہے-
دوسرى طرف رفع نسب كا اسلامى شریعت ميں ايك ہى طریقہ ہے اور وہ ہے 'لعان' - گويا منكوحہ كے بارے ميں شوہر كو ديگر لوگوں سے ايك خصوصيت حاصل ہے كہ وہ قسموں كى بنياد پراپنى بيوى كے بچے سے اپنے نسب كو رفع كرسكتا ہے، لعان صرف مياں بيوى كے مابين ہے- دوسرے كيس ميں امريكہ ميں مقيم شخص كوبيٹى سے اپنا تعلق منقطع كرنے كيلئے لعان ہى كرنا ہوگا-
قرائن كى ايك تيسرى حيثيت بهى ہے اور وہ ہے اثباتِ جرم كى-اثبات جرم كے بهى دو پہلو ہيں: آيا وہ جرم حدود ميں سے ہے ... يا اس كا تعلق ديگر جرائم سے ہے-
اگر اس كا تعلق حدود سے ہے تو حدود كى تفصيلات اللہ تعالىٰ نے انسانوں كے بجائے اپنے ذمے لى ہيں، كوئى حاكم نہ تو حد كى سزا ميں كمى بيشى كرسكتا ہے اور نہ ہى حد كو لازمى كرنے والے جرم كى تفصيلات ميں اپنى طرف سے ترميم كرسكتا ہے- حدزنا ميں يوں بهى مقصد صرف جرم كا ثبوت نہيں بلكہ شارع كے پيش نظر مزيد حكمتیں بهى ہيں، يہى وجہ ہے كہ وقوعہ كا ثبوت تو دو گواہوں سے بهى ہوجاتا ہے ليكن اس بنا پر اس پر حد ِزنا جارى نہيں كى جاتى-
ڈى اين اے وغيرہ قرائن كى حدود ميں غير موٴثرہونے كى بڑى و جہ نبى ﷺ كا يہ فرمان بهى ہے كہ (إدرء وا الحدود ما وجدتم لها مدفعا) 49
"جہاں حدود ترك كرنے كى كوئى گنجائش ہو، وہاں حدود كو دو ركرو-"
يہى وجہ ہے كہ جمہور فقہا (احناف، شافعيہ اور حنابلہ)كا موقف يہى ہے كہ حدزنا ميں قرائن كااعتبار نہ كيا جائے بلكہ اس كے عائد ہونے كا جو نصاب نصوص ميں آيا ہے (يعنى چار گواہ يااعتراف) اسى پر اكتفا كيا جائے- البتہ فقہا مالكيہ نے حضرت عمر كے اس واقعہ كى بنا پر قرائن كو اثباتِ زنا ميں بهى معتبرخيال كيا ہے، جس ميں اُنہوں نے ايك كنوارى كے حمل كو زنا كے ثبوت كے لئے معتبر قرار ديا-(بخارى:6829) اسلام ميں زنا كا مسئلہ بطورِ خاص اہميت كا حامل ہے- اس كى سنگينى اس قدر ہے كہ زنا كى جهوٹى تہمت لگانے والے كوبہتان كى سزا كا سامناكرنا پڑتا ہے-
جہاں تك حدود كے علاوہ ديگر جرائم كے لئے قرائن كے معتبر ہونے كا تعلق ہے تواس ميں بهى فقہا قرينہ قطعيہ اور قرينہ ظنيہ كا فرق كرتے ہيں- روزنامہ پاكستان ميں اس مسئلے پر گزشتہ دِنوں علما كا فورم ہوا جس كى رپورٹ ہفت روزہ 'اہلحديث'(شمارہ 36/7/ 4 مارچ2005ء) ميں شائع ہوئى- اس فورم ميں اكثر علما نے ڈى اين اے ٹيسٹ كو ظنى قرينہ قرار ديا ہے، راقم كى نظر ميں اگر اسے قطعى حيثيت بهى دى جائے تو حد ِزنا ميں اس كو معتبر نہيں قرار دياجاسكتا، البتہ حدود كے سوا ديگر سزاوٴں ميں اس پر بنياد ركهى جاسكتى ہے- يوں بهى ڈى اين اے ٹيسٹ كى رپورٹ ميں دورانِ تجزيہ كوتاہيوں يا مختلف مفادات كو بهى بالخصوص پاكستان جيسے ملك ميں نظر انداز نہيں كيا جاسكتا-مزيد تفصيلات كے لئے درج ذيل مضامين كا مطالعہ مفيد ہوگا :
قانون ميں قرائن كى حجيت مجلہ 'منہاج' لاہور اكتوبر 1990ء ص73 تا 106
قيافہ و فراست ميں قرائن كى حجيت مجلہ 'منہاج' لاہور اكتوبر 2001ء ص 169 تا 184
قيافہ اور قرائن كى حيثيت مجلہ فكر ونظر،اسلام آباد اور الطرق الحكمية از ابن قيم الجوزيہ
اسى مضمون كا اختصار روزنامہ جنگ كے كلر ايڈيشن موٴرخہ 10/جون 2005ء اور ہفت روزہ 'الاعتصام ' ميں دیكھیں
حوالہ جات
1. ترجمہ بنام 'الوجيز':ص 620
2. صحيح بخارى: 3635
3. بخارى: 1044
4. اسلام كا فوجدارى قانون،مترجم:ساجد الرحمن كاندہلوى: ج1/ص 14
5. مغني المحتاج: 3/4،نيل المآرب: 2/55،التفريع: 2/338
6. ج2/ص100
7. رقم:4782
8. رقم:4000
9. صحيح بخارى:6830 اور 6768
10. صحيح بخارى: 6766
11. صحيح بخارى: 3850 اور صحيح مسلم:67
12. صحيح سنن ابو داود:4268
13. سنن ابو داود:2263
14. صحيح سنن ابو داود:1982
15. سنن ابو داود: 2264
16. صحيح سنن ابو داود:1990
17. صحيح بخارى: 2053
18. لسان العرب: 4/166
19. الموسوعة الفقهية: 34/97
20. بخارى: 6750
21. صحيح بخارى :2053
22. سنن ابو داود: 2275
23. سير أعلام النبلاء: 3/495
24. (2/190)
25. (3/338)
26. 17/155، مسئلہ 2009
27. 10/142، مسئلہ 2009
28. (40/237)
29. صحيح مسلم: 311
30. صحيح بخارى: 3938
31. صحيح مسلم: 314
32. صحيح بخارى : 4747
33. صحيح بخارى: 5305
34. مسند احمد: 7433
35. الطرق الحكمية: 69
36. صحيح ابو داؤد: 1983
37. صحيح مسلم: 1695
38. صحيح بخارى: 4745
39. مسند احمد: 2132
40. بخارى: 4746
41. مسند احمد:2200
42. بدائع الصنائع : 6/243
43. بخارى: 5127
44. موطأ مالك: 1451
45. موطأ: 1450
46. صحيح ابو داود: 1987
47. ج2/ص345، رقم: 785
48. المبسوط 17/70، شرح معاني الآثار للطحاوي: 3/116، 180 و 4/161 والموسوعة الفقهية: 34/ 98
49. سنن ابن ماجہ :2545
i. مفسر قرآن حضرت قتادہ کا قول یہ ہے کہ اگر اصل باپ معروف ہو تب غیر سے نسبت کی گنجائش نکل سکتی ہے، ان کی دلیل حضرت مقداد بن اسود کی نسبت ہے، جن کے والد کا نام توعمرو تھا لیکن اس کے باوجود اُنہیں کتب ِحدیث وغیرہ میں مقداد بن اسود ہی لکھا جاتا ہے اور وہ ابن اسود سے ہی مشہور ہیں۔(الاصابہ: 4343)
ii. موطا امام مالک میں ایک واقعہ توآتا ہے جس میں عمر بن عبد العزیز نے ایک ایسے شخص کو عقیق مقام پر امامت سے روک دیا تھا جس کے باپ کا علم نہ تھا ۔( رقم: 305) لیکن آپ کا ایسا کرنا کراہت کی بنا پر ہوسکتا ہے، راجح قول کے مطابق ایسے شخص کی امامت درست ہے۔
iii. نسب کے ساتھ حاصل ہونے والے حقوق یہ ہیں:کفالت، وراثت اور رشتہ داری وغیرہ
iv. شریعت ِاسلامیہ میں ماں کے اپنی اولاد سے تعلق کے بارے میں نطفے کے تعلق کی بجائے حمل اور وضع حمل کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے (ِنْ أُمَّہٰتُہُمْ اِلاَّ الّٰئِ َولَدْنَہُمْ) اور(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا) یہی وجہ ہے کہ زنا کی صورت میں مرد کا تعلق تو اپنی اولاد سے منقطع ہوتا ہے، البتہ عورت کا اپنی اولاد سے تعلق برقرار رہتا ہے۔
v. DNAکیا ہے؟ ہر خلیے (Cell) میں ایک مکمل کارخانے کی طرح نظام چلتا ہے،جس میں بے شمار چیزیں کیمیائی عمل سے گزر کر زندگی کو جاری و ساری رکھتی ہیں۔ ہر خلیے میں ایک چھوٹی سی چوکور یا گول گیند ہوتی ہے جسے مرکزہ Nucleus کہا جاتا ہے اور یہی مرکزہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے جو پورے خلیہ کے کیمیائی عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر اسے نکال دیا جائے تو باقی خلیہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس مرکزہ میں دھاگہ نما ساختیں ہوتی ہیں جنہیں کروموسوم Chromosome کہا جاتا ہے اور ان کے اندر جاندار کی نشوونما، رنگ و شکل اور عادات و خصوصیات وغیرہ سے متعلق تمام تفاصیل و معلومات درج ہوتی ہیں۔ ہر جاندار خلیہ کے اندر کروموسوم کی اپنی مخصوص تعداد طے ہوتی ہے، مثلاً انسان میں 46، مکھی میں 8، بلی میں 38، مرغی میں 78 کروموسوم موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارا جسم گوشت اور ہڈیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے، اسی طرح یہ کروموسوم DNA نامی ایک مادّے سے بنے ہوتے ہیں جسے جینیاتی مادہ بھی کہا جاتا ہے۔ ا س مادے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پریہ اپنے جیسے ٹکڑوں کو بنا سکتا ہے۔ یعنی دو سے چار، چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ ... DNA کے ہر متفرق ٹکڑے یا حصے کو جین (Gene) کہا جاتا ہے اور ہر جاندار میں جس خصلت، شکل یا فعل کے جین ہوں گے وہ جاندار اسی خصلت، شکل اور فعل کی عکاسی کرے گا، مثلاً کسی کا قد چھوٹا یا لمبا ہے توا س لئے کہ اس کے جینز میں ایسی ہی خصوصیت تھی۔ کسی کے بال سرخ یا بھورے ہیں یا رنگت، سرخ و سفید، گندمی یا انتہائی سیاہ ہے تو اس لئے کہ اس کے جینز کی خصوصیت ویسی تھی۔
v. حدیث ِقیافہ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کے بارے میں ہے۔امام ابو داود فرماتے ہیں کہ اسامہ کا رنگ تارکول کی طرح سیاہ تھا اور ان کے والد زید کا رنگ روئی کی طرف سفید۔اور لوگ ان کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاںکرتے تھے۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے اور آپ کے چہرے پر مسرت نمایاں تھی، آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا: (ألم تر أن مجززا المدلج رأی زیدا وأسامة قد غطیا رء وسہما بقطیفة وبدت أقدامہما فقال ن ہذہ الأقدام بعضہا من بعض) (صحیح ابو داود: 1984 )
''کیا تم نے (قیافہ دان) مجزز مدلجی کی بات نہیں سنی، اس نے زید اور اسامہ کو لیٹے دیکھا، دونوں نے سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی اور پائوں نظر آرہے تھے۔ تو کہنے لگا کہ یہ پائوں آپس میں ایک دوسرے سے ہیں۔''