پاکستان کی بقا اسلام میں ہے!
پاکستان کے سیکولر ، ملحد، اشتراکی دانش باز حسن اتفاق سے مسلمان گھرانوں میں پیدا تو ہوگئے تھے مگر وہ اس 'اتفاقی حادثہ' کے متعلق شدید ندامت اور خجالت کا شکارہیں۔ وہ 'روشن خیالی' کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں اسلام سے کسی قسم کی وابستگی یا اپنی اسلامی شناخت کا اعتراف انہیں رِجعت پسندی کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ ان کے بیانات کو پیش نظر رکھا جائے تو بلاشبہ وہ فکری ارتداد کے مرتکب ہوچکے ہیں، مگر ان کے اندر اس قدر اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ کھلم کھلا اپنے 'مرتد' ہونے کا اعلان کرسکیں۔ وہ ایک عجیب فکری گھٹن اور مخمصے میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں، وہ بظاہر اپنے مسلمان ہونے کے دعوے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے مگر اسلام کو ضابطہ حیات کے طور پر قبول کرنے کوبھی تیار نہیں ہیں۔ وہ اسلام کی کھل کر تو مخالفت نہیں کرسکتے، کیونکہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں 'حریت ِفکر' کے مغربی معیارات کو ابھی تک قبولیت نہیں مل سکی۔ البتہ اپنی دانشورانہ فریب کاری کے پردے میں وہ اسلام کی مخالفت کاکوئی نہ کوئی طریقہ ضرور ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
سیکولر زم کی نئی لہر
ان دنوں سیکولرزم کا ایک نیا سیلاب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں سے ٹکرا رہا ہے۔ پاکستان کا سیکولر طبقہ ایک مختلف جارحانہ استدلال اور منفی پراپیگنڈہ کے ساتھ پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملہ آور ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے ان کااستدلال یہ تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح سیکولر ، روادار اور متحمل مزاج ریاست کا تصور رکھتے تھے۔ اب ان کا زور اس بات پر ہے کہ قیام پاکستان کا محرک سرے سے کوئی نظریہ (آئیڈیالوجی) تھا ہی نہیں۔ وہ آئیڈیالوجی کی نفی کرکے بالواسطہ اسلام کی نفی کر رہے ہیں، کیونکہ نظریہٴ پاکستان کا دوسرا نام 'اسلام' ہے۔
آج کل تواتر سے سیکولر صحافی یہ لکھ رہے ہیں کہ آج پاکستان وہ نہیں ہے، جو جناح کا پاکستان تھا، بلکہ یہ ملاؤں کی طرف سے مسخ شدہ پاکستان کا نقشہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ بعض افراد تو افواجِ پاکستان کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ خوامخواہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کا کردار اپنے اوپر طاری کئے ہوئے ہے۔معلوم ہوتا ہے پاکستان کا نظریاتی تشخص مٹانے کی ایک بہت ہی مکروہ سازش ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ذرائع ابلاغ کوبھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران راقم کی نگاہ سے متعدد مضامین گذرے ہیں جس میں مندرجہ بالا اَفکار کا پرچار کیا گیا ہے۔ سب کاحوالہ دینا مشکل ہے البتہ میں چند ایک مضامین کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔
(۱) 'دی فرائیڈے ٹائمز' لاہور سے نجم سیٹھی کی زیرادارت نکلنے والا ایک معروف ہفتہ روزہ ہے، اس میں نظریہٴ پاکستان کے خلاف مسلسل مضامین کا سلسلہ جاری ہے۔ ۲۵ تا ۳۱/ مئی ۲۰۰۱ء کے 'فرائیڈے ٹائمز' کے اداریے کا عنوان تھا: "Mixing Religion with politics" اس میں نہایت جارحانہ انداز میں علماءِ دین پسندوں اور وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور ڈاکٹر محمود غازی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس ادارے میں اسلامی ریاست اورسیکولر ریاست کا فرق بتاتے ہوئے تحریر کیا گیا کہ سیکولر ریاست وہ ہوتی ہے جس میں "حاکمیت (Soverienghty) عوام کے پاس ہوتی ہے، جبکہ اسلامی ریاست میں حاکمیت اللہ کی تصور کی جاتی ہے"۔ اداریہ نویس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کے آئین میں عوام کو حاکمیت سے محروم کردیا گیا ہے۔
(۲) ۱۲/ جون ۲۰۰۱ء کو روزنامہ 'دی نیشن' میں حسین نقی کا کالم شائع ہوا، جس میں مذہب بیزار کالم نگار نے پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے پر زور دیا۔ موصوف نے اسلام پسندوں کو "Obscuramtist" یعنی ابہام پسند یا 'ترقی کے دشمن' ہونے کاطعنہ دیا۔
(۳) ۲۶/ جون ۲۰۰۱ء اور ۲/ جولائی ۲۰۰۱ء کے درمیان انگریزی روزنامہ 'دی نیوز' میں ایک غالی اشتراکی ایچ کے برکی کے مضامین کا ایک سلسلہ چھ اقساط میں شائع ہوا جس میں انہوں نے لچر انداز میں پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ موصوف نے نظریہٴ پاکستان کے وجود سے کلی طور پر انکار کرتے ہوئے اس کو ایک واہیات واہمہ قرار دیا۔ ۲۹/ جون ۲۰۰۱ء کو اس سلسلے کا جو مضمون شائع ہوا، اس کا عنوان تھا "The Merchants of ideology" یعنی 'نظریہ کے سوداگر' ، یہ مضمون نظریہ پاکستان کی مخالفت کا بدترین اسلوب لئے ہوئے تھا۔
(۴) جون ۲۰۰۱ء کی ہی کسی تاریخ کو انگریزی اخبار 'ڈان' میں ایم بی جعفری کا ایک لغو مضمون شائع ہوا، جس میں مضمون نگار نے دعویٰ کیا کہ تحریک ِپاکستان کے دوران "پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ" کانعرہ نہیں لگایا گیا تھا یہ بعدمیں ملاؤں نے تخلیق کیا تھا۔ موصوف نے ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کے دوران تحریک ِآزادی میں علماءِ دین کی کسی قسم کی شرکت یا جدوجہد کا سرے سے انکار کیا۔
(۵) سیکولر پریس میں آج کل حمزہ علوی کے مضامین کا خوب چرچا ہے۔ یہ صاحب ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری ہیں، کافی عرصہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں بھی سینئر پوزیشن پررہے ہیں، ورلڈ بینک میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ مگر آج کل ان کی تمام تر توجہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کے لئے برپا کی جانے والی تحریک پرمرکوز ہے۔ یکم جون کوڈھاکہ میں 'مذہبی بنیادپرستی' کے موضوع پر منعقد ہونے والی ساؤتھ ایشین کانفرنس میں حمزہ صاحب شریک ہوئے اور انہوں نے ایک طویل مقالہ "The rise of religious fundamentalisms in Pakistan یعنی "پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی کا اِرتقا" کے عنوان سے پڑھا۔ یہ مقالہ ۱۵ تا ۲۱/ جون ۲۰۰۱ء کے 'دی فرائیڈے ٹائمز' میں چھپا۔اگر کسی نے پاکستان کے سیکولر طبقہ کے زہریلے، تعفن آلود اور سرطانی افکار کا کسی ایک مضمون میں مطالعہ کرنا ہو تو حمزہ علوی کا مقالہ اس سلسلیمیں 'جامع ترین' ہے۔ اس مضمون کی ایک ایک سطر اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔موصوف نے اپنے مقالے میں بار بار لکھا ہے کہ مسلم لیگ کا ایجنڈا سیکولر پاکستان کا تھا۔ ایک جگہ تحریک ِپاکستان کے متعلق لکھتے ہیں: "یہ مسلمانوں کی تحریک تھی، اسلام کی تحریک نہیں تھی۔" اس مقالے میں دینی مدارس، علماء او رجہادی تنظیموں کے متعلق بھی سخت ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔
(۶) معروف قادیانی صحافی اور دانشور خالداحمد نے ایک طویل عرصہ سے اسلام دشمنی میں اپنے آپ کو کھپایا ہوا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے وہ اپنے کالموں میں جہادی تنظیموں کے خلاف شدید زہر اگل رہے ہیں۔ وہ جہاد فوبیا کی وجہ سے خاصے حواس باختہ نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال پاکستان کے تمام سیاسی، معاشی او رسماجی مسائل کا سبب یہاں بنیادپرستی کا عروج ہے۔ وہ سیکولر ازم کے انتھک مبلغ ہیں۔ حال ہی میں ان کے شائع ہونے والے ایک کالم کا عنوان تھا : "پاکستان کے لئے سیکولر زم ناگزیر ہے۔"
(۷) گذشتہ ایک سال سے لاہور سے ایک ماہنامہ 'نیازمانہ' کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے مدیر صاحب اپنے آپ کو 'مذہبی سکالر' کہتے ہیں مگر ان کی زیرادارت نکلنے والے رسالہ میں سیکولر، اشتراکی اور ملحد دانش بازوں کے مضامین ہی شامل ہوتے ہیں۔ 'نیازمانہ' کے دو ماہ پہلے کے ایک شمارے کے اداریے کا عنوان تھا "پاکستان کی بقا سیکولر زم میں ہے!" اس رسالہ کے سرورق پر قائداعظم کا وہ قول متواتر چھپ رہا ہے، جس میں انہوں نے ہندوؤں کو آزادانہ طور پر عبادت کا حق دیا تھا۔ قائداعظم کی ۱۱/ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے یہ چند جملے ہیں جنہیں ہمارا سیکولر طبقہ توڑ موڑ کر بیان کرتاہے اور اسکی غلط تعبیر نکالتا ہے۔ اس رسالہ کا ماٹوسیکولرزم کا پرچار ہے۔
(۸) انگریزی روزنامہ 'دی فرنٹیر پوسٹ' پشاور اپنی الحادی صحافت کی بنیاد پربے حد بدنام ہے۔ ۲۹/ جنوری ۲۰۰۱ء کو اس اخبار میں ایک یہودی دریدہ دہن کا خط چھپا تھا جس کا عنوان ہے : Why Muslims hate jews یعنی "مسلمان یہودیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟" اس خط میں اس اس یہودی نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پربے حد رکیک حملے کئے تھے۔ شمع رسالت کے پروانوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے فرنٹیر پوسٹ کے دفتر کو آگ لگا دی۔ حکومت نے فوری طور پر اس اخبار کی بندش کا حکم جاری کیا تھا۔ لیکن یہ اخبار ۲۰/ جون ۲۰۰۱ء سے دوبارہ شائع ہونا شروع ہوگیا ہے۔
(۹) انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ، نیوز لائن، مختلف انگریزی اخبارات مثلاً ڈان، دی نیوز، دی نیشن ، دی مسلم وغیرہ میں گذشتہ چند ماہ میں جس قدر سیکولرزم کے پرچارپر مبنی مضامین شائع ہوئے ہیں، راقم کے خیال میں گذشتہ پانچ سالوں میں شاید اس موضوع پر اس قدر مضامین شائع نہیں ہوئے ہوں گے۔
(۱۰) لاہورمیں پنجابی کانفرنس کے دوران 'نظریہٴ پاکستان'کے خلاف جو کچھ کہا گیا، اسے دہرانا تحصیل حاصل ہے۔ 'محدث' کے مئی او رجون کے شمارے میں اس کا تفصیل سے ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔
(۱۱) این جی اوز کانیٹ ورک نظریہٴ پاکستان کے خلاف جو پراپیگنڈہ کررہا ہے، اس کی تفصیلات کا احاطہ کسی ایک مضمون میں نہیں کیا جاسکتا۔ اپوائی بیگمات کے بعد اب ایک اور انتہا پسند گروہ 'عاصمانی بیگمات' کا سامنے آیا ہے، جو پاکستان کے خاندانی نظام کو تباہ کرنے او رپاکستان کی نظریاتی اساس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مجنونانہ جدوجہد کررہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اس گروہ کی سرغنہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر سیکولر طبقہ کی یہ تازہ یلغار کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ یہ سیکولر دانشور ۷۰ اور ۸۰ کی دہائی کے پٹے ہوئے مہرے ہیں۔ آخر ان میں یکایک دوبارہ جان کیسے پڑ گئی ہے۔ مختصر الفاظ میں کہاجاسکتا ہے کہ عالمی منظر پر تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی اسلام کی نشاة ثانیہ کی تحریک کے خلاف عالمی استعمار، یہود و ہنود کی لابیوں اور مذہبی بیزار طبقہ کے ردعمل کا ہی یہ شاخسانہ ہے۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی و یورپی استعماری طاقتیں اب اسلام کو اپنا حریف سمجھتی ہیں۔ یہودی تھنک ٹینک پاکستان کی تباہی (خاکم بدہن) کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ پاکستان کا سیکولر طبقہ جو ہمیشہ اہل مغرب کے نظریات کی ہی جگالی کرتا ہے، وہ عالمی استعماری طاقتوں کے آلہ کار کا کردار اداکررہا ہے۔ پاکستان کے بائیں بازو کے دانشور جو امریکہ کے خلاف لکھتے تھکتے نہیں تھے، آج امریکی زیرسرپرستی کام کرنے والے این جی اوز کے نیٹ ورک کے ہراول دستے میں شامل ہیں۔ این جی اوز امریکی سوچ کو پھیلانے کا آج کل موٴثر ترین ذریعہ ہیں۔ اسلام، نظریہٴ پاکستان، علماءِ دین، جہادی تنظیموں اور دینی مدارس کے خلاف پاکستان کا سیکولر طبقہ جو کچھ لکھ رہا ہے، وہ بنیادی طور پر امریکی پالیسی ہی کوآگے بڑھانے کی ہی ایک صورت ہے۔
پاکستان میں امریکہ کے سفیر ولیم بی میلام نے امریکہ جانے سے پہلے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا موازنہ اگر پاکستان کے سیکولر صحافیوں کے مضامین سے کیا جائے تو اس میں حیران کن حد تک مکمل مشابہت پائی جاتی ہے۔ میلام کی تقریر کا پورا متن روزنامہ 'دی نیشن' کی ۲۷/ جون کی اشاعت میں شامل تھا۔ ولیم میلام نے پاکستانی قوم کو متنبہ کیا کہ اگر پاکستان مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کے شانہ بشانہ چلنا چاہتا ہے تو اسے 'جناح کا پاکستان' ہی دوبارہ قائم کرنا چاہئے۔ اس نے پاکستان میں جہادی تنظیموں کی بڑھتی ہوئی پذیرائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم ایک سیکولر، لبرل اور ترقی پسند پاکستان چاہتے تھے، وہ اسلامی ریاست کے حق میں نہیں تھے۔ ولیم بی میلام نے پاکستان میں دینی راہنماؤں کو obscurantistکہا۔ اس نے باقاعدہ قائداعظم کی ۱۱/ اگست کی تقریر کے وہ اقتباسات پڑھ کر سنائے جس میں اس کے بقول سیکولر ریاست کا تصور موجود ہے۔ اس نے پاکستانی حکومت کو مشورہ (حکم؟) دیا کہ وہ بنیاد پرستوں کو کچلنے کے لئے بھرپور اقدامات کرے۔
یکم جولائی ۲۰۰۱ء کے روزنامہ 'جنگ' میں پاکستان کے سابق وزیرخارجہ جناب آغاشاہی کا مفصل انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے امریکی تھنک ٹینک اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے متعلق تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پاکستان کے متعلق یہ ادارے کس طرح منصوبہ بندی کررہے ہیں، ان کا اہم ترین ہدف یہ ہے کہ وہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اسلامی تحریکوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ امریکی ادارے محض رپورٹیں مرتب ہی نہیں کرتے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتے ہیں ․ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں سیکولرزم کی تازہ لہر کے پس پشت مذکورہ عالمی منصوبہ بندی کارفرما نظر آتی ہے۔
قائد اعظم کا تصورِ پاکستان
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران مسلمانوں میں جس نعرے نے جوش وخروش پیدا کیا، وہ یہی تھا :
"پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اللہ"۔ بانی ٴپاکستان نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد کونہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کیا۔ قائداعظم نے ۱۳/ جنوری ۱۹۴۸ء کواسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں حصولِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔"
۱۱/ اگست ۱۹۴۷ء کی جناح کی تقریر کے بعض اقتباسات پیش کرکے سیکولر دانشور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کی جن تقاریر میں اسلام یا اسلامی ریاست کے متعلق جو باتیں ملتی ہیں، وہ انہوں نے مسلم عوام کے اندر علیحدہ ریاست کے حصو ل کی غرض سے جوش و خروش پیدا کرنے کے لئے کہی تھی ورنہ ان کے پیش نظر ایک سیکولر ریاست کا قیام ہی تھا۔ جناح نے ۱۱/اگست کی تقریر میں سیکولر ریاست کی اصطلاح استعمال کی، نہ ہی سیکولر ازم کو ریاستی نظریہ کے طور پر پیش کیا، مگر لادین طبقہ نے ہمیشہ اس کی من چاہی غلط تعبیر سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مذکورہ تقریر کے بعد بھی جناح نے نہایت واشگاف الفاظ میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کو حصولِ پاکستان کا مقصد قرار دیامگر سیکولر طبقہ ان تقاریر کو ہمیشہ نظر انداز کرکے علمی بددیانتی کا ثبوت دیتا ہے۔
اسلام دشمن طبقہ ملاحدہ نے جناح کی اس تقریر کو آڑ بناتے ہوئے منفی پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ پاکستان کا دستور اسلامی شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا ۔ محمد علی جناح کو جب ان کے اس شرانگیز پراپیگنڈے کا علم ہوا تو انہوں نے بھرپورانداز میں ان کی اس شرانگیزی کی مذمت کی ۔ ۲۵/جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :
" میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا ، جو دیدہٴ و دانستہ اور شرارت سے پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ا یسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے۔"
۴/ فروری ۱۹۴۸ء کو سبی میں خطاب کے دوران آپ نے فرمایا:
"میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے اُمور ومسائل کے بارے میں یہ فیصلے باہمی بحث وتمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"
ہمارے سیکولر راہنما ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کی جناح کی تقریر کو ہی ان کا آخری نقطہ نظر قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان بننے سے پہلے جناح کی تقاریر میں جو اسلام کے متعلق حوالہ جات ملتے ہیں، وہ عوام الناس میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے دیئے گئے۔ مگر یہ محض ان کا سوائے تاویل ہے۔ اس موقع کے بعد بھی جناح نے کئی مرتبہ 'اسلامی ریاست' قائم کرنے کی بات کی۔ ڈاکٹر عائشہ جلال ہی کی کتاب سے جناح کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجئے:
"حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے موقع پر سندھ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے سامعین پر زور دیا کہ وہ تنگ نظری اور صوبہ پرستی سے پرہیز کریں اور اپنے آپ کو پاکستان کو ایک "سچی عظیم اسلامی ریاست" بنانے کے لئے تیار کریں۔" (صفحہ ۲۷۹)
ڈاکٹر عائشہ جلال نے قائداعظم کے اس بیان کو دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس والے مشہور خطاب سے 'بہت نمایاں گریز'(Radical departure) قرار دیا ہے مگر یہ اس خاتون موٴرخ کی کج فہمی ہے۔ قائداعظم کا یہ بیان ان کے سینکڑوں بیانات سے ملتا جلتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ۱۱/ اگست ۱۹۴۷ء کو دیئے گئے ان کے خطبہ کو سیکولر دانشوروں نے بالکل غلط تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس خطبے میں کہیں بھی قائداعظم نے 'سیکولرزم' کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ مگر ان کا اصرار ہے کہ یہ خطبہ سیکولر نظام کو 'آئیڈیل' قرار دیتا ہے۔ نجانے سیکولر اور سیکولرزم کے متعلق ان حضرات کا کیا تصور ہے، سیکولر ازم اپنے مفہوم ومطلب کے لحاظ سے ہر اعتبار سے مذہب مخالف نظریہ ہے۔ معروف ترین انسائیکلوپیڈیا اور انگریزی لغات میں سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے اسے مذہب مخالف نظریہ بتایا گیا ہے۔ (دیکھئے محدث، جولائی ۲۰۰۰ء،ص ۴۸ تا ۵۲)
یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کاافتتاح کرتے ہوئے محمد علی جناحنے من جملہ دیگر باتوں کے اسلام کے اقتصادی نظام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
"اگر ہم نے مغرب کامعاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کیلئے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ایسا نظام پیش کرکے گویا ہم مسلمانوں کی حیثیت میں اپنا فرض انجام دیں گے، انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہوسکتا ہے۔"
'نظریہٴ پاکستان' کی اصطلاح جماعت ِاسلامی کی وضع کردہ نہیں!
قائد اعظم تو فرماتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا مگر اصغر خان صاحب پاکستان کے قیام کا مقصد محض مسلمانوں کے لئے الگ علاقے کے حصول تک محدود بتاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
"اس نظریے کے تحت برصغیر میں شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلم اکثریتی علاقے آزاد ریاستیں تشکیل دے سکتے تھے۔ اس وقت تک اس نظریے کا مفہوم بس اس قدر تھا، اس سے زیادہ نہ تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گذرتاتھا، اس کی نئی نئی تفسیریں سامنے آنے لگیں۔ مذہبی دھڑے جو اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے تھے، یہ ثابت کرنے پر تل گئے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست کے طور پر قائم ہوا ہے... جب پاکستان بن گیا تو وہی مذہبی جماعتیں، جنہوں نے اس کے قیام کی مخالفت کی تھی اور قائداعظم کو کافر اعظم کہہ کر گالی دی تھی،قیامِ پاکستان کے فلسفے کی مبلغ بن گئیں۔ اس طرح'نظریہٴ پاکستان'کی اصطلاح وجود میں آگئی"۔ (اسلام، جمہوریت اور پاکستان از اصغرخان ، صفحہ ۲۷۸)
قائداعظم نے جب ۱۹۴۸ء میں بھی پاکستان کے دستور کو شریعت پر مبنی نہ سمجھنے والوں کو شرارتی قرار دیا، ظاہر ہے ان کے پیش نظر دستور کی جو بھی شکل تھی، وہ شریعت سے متصادم نہیں تھی۔جس ریاست کا دستور شریعت پر مبنی ہوگا، کیا وہ ریاست سیکولر کہلائی جاسکتی ہے؟ اصغر خان اس سوال کا جواب دینا پسند کریں گے؟ یہ اصغر خان جیسے سیکولر دانشوروں کی محض شرارت ہے کہ وہ نظریہٴ پاکستان کو بعد کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ اس شرارت کے خالق جسٹس (ر) محمد منیر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب "جناح سے ضیاء تک" میں'نظریہٴ پاکستان' کی اصطلاح کو جماعت اسلامی کے ایک رکن اسمبلی سے منسوب کیاہے۔ جسٹس (ر) منیر کے مطابق :
"قائداعظم نے 'نظریہٴ پاکستان' کا فقرہ کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ قیام پاکستان کے پندرہ سال بعد تک نظریہٴ پاکستان کے فقرے سے کوئی متعارف نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ۱۹۶۲ء میں جب قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے قانونی بل پر بحث ہو رہی تھی تو اسمبلی میں جماعت اسلامی کے واحد ممبر جنہوں نے ایک ترمیم پیش کر رکھی تھی، نے اپنی تقریر میں نظریہٴ پاکستان کافقرہ استعمال کیا تھا۔ اس پر چوہدری فضل الٰہی نے جو بعد میں پاکستان کے صدر مقرر ہوئے تھے، اعتراض کیا تھا کہ نظریہٴ پاکستان کی تعریف کی جانی چاہئے، اس پر ممبر مذکور نے جواب دیا تھا کہ نظریہٴ پاکستان اسلام ہے، لیکن پھر کسی ممبر نے مزید یہ نہیں پوچھا کہ"اسلام کیا ہے؟" چنانچہ ترمیم منظور کرلی گئی۔" (صفحہ ۲۶)
جسٹس (ر) منیر کی کتاب سے مندرجہ بالا اقتباس نقل کرنے کے بعد ایک قادیانی دانش باز ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنے مضمون (پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل)میں ان الفاظ میں تبصرہ کرتا ہے :
"نظریہٴ پاکستان کے فقرے کا پہلا نمایاں استعمال خواہ اس موقع پر ہوا ہو یا اس سے پہلے یا بعد، اس واقع سے جو بات واضح ہے، وہ اس فقرے کے ساتھ جماعت اسلامی کا ملوث ہونا ہے کہ اس فقرے نے اسے پراپیگنڈے کا محور بنا لیا ہے بلکہ اس فقرے کی تخلیق بھی انہوں نے ہی کی تھی۔"
قارئین کرام!ذراغور فرمائیے، جسٹس منیر کے مطابق 'نظریہٴ پاکستان' کے الفاظ پہلی دفعہ ۱۹۶۲ء میں جماعت اسلامی کے ایک رکن اسمبلی نے ادا کئے تھے، لیکن ڈاکٹر ہود بھائی کو اس کے بارے میں تویقین نہیں ہے کہ یہ الفاظ کس موقع پر ادا کئے گئے تھے۔ مگر وہ بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ اس فقرے کی تخلیق کی ذمہ داری جماعت اسلامی پر ڈالتے ہیں۔ آگے چل کر اسی مضمون میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اس فقرے کا آغاز جماعت اسلامی کے ۱۹۵۹ء میں ترمیم شدہ منشور سے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے منشور کا وہ جملہ یوں ہے :
"کسی کو بھی نظریہٴ پاکستان کی منافی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ اس ملک کو سیکولر ریاست میں بدلنے کی کوشش یا غیر ملکی نظریہ کو پروان چڑھانے کا مطلب پاکستان کے وجود پر حملہ آور ہونا ہے۔" اس کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:
" ظاہری اختلافات کے باوجود جماعت اسلامی اور پاکستانی حکمرانوں کے مفادات اور تصورات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ نظریہٴ پاکستان کا فقرہ جو پہلے صرف جماعت اسلامی کے منشور کا حصہ تھا، اب ناقابل چیلنج قومی عقیدہ بن چکا ہے۔"
پرویز ہود بھائی ہی نہیں، بہت سے سیکولر مصنّفین نے جسٹس منیر کی اس خام خیالی کو حقیقت کا درجہ دیتے ہوئے اپنی تحریروں میں نقل کیا ہے۔ ان سب کا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ 'نظریہ پاکستان' کا تعلق تحریک ِپاکستان سے ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تو قیام پاکستان کے بہت بعد جماعت ِاسلامی کی اختراع ہے، نہایت افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اس بارے میں جسٹس منیر جیسی اہم شخصیت نے بھی غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر وہ خلوصِ دل سے قائداعظم کے اقوال کے متعلق ہی تحقیق فرماتے تو ان پر یہ حقیقت ضرور منکشف ہوتی کہ 'نظریہٴ پاکستان' کے الفاظ خود قائداعظم نے اپنی تقریر میں ہی ارشاد فرمائے تھے :
"It is by our own dint of arduous and sustained efforts that we can create strength and support our people not only to achieve our freedom and independance but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles.
Pakistan not only means freedom and independance but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which we hope other will share with us." ("Some recent speeches and writing of Mr. "Jinnah" Published by Sh. Muhammad Ashraf, Lahore,1947, P.89)
" ہم اپنی سخت اور پیہم جدوجہد کے ذریعے قوت بہم پہنچا سکتے ہیں، ہم نہ صرف آزادی کے حصول کے لئے اپنے لوگوں کی معاونت کرسکتے ہیں، بلکہ انہیں ہم اس قابل بھی بنا سکتے ہیں کہ وہ اس کو قائم رکھیں اور اسلامی آدرش اور اُصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں۔
پاکستان کا مطلب محض آزادی نہیں ہے، ا س کا مطلب 'مسلم آئیڈیالوجی' بھی ہے جس کا تحفظ کیا جانا باقی ہے، جو ہم تک ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر پہنچا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں دوسری (اَقوام) بھی اس میں حصہ دار بن سکتی ہے۔"
ڈاکٹر عائشہ جلال پاکستانی ہیں مگر ایک طویل عرصہ سے میڈیسن یونیورسٹی امریکہ میں بطورِ پروفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ پاکستانی سیاست پر ان کی کتابیں بہت مقبول ہیں۔ وہ اسلامک آئیڈیالوجی اور کلچر کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
"پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیرتعلیم جناب فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ مستقبل میں تدریسی وتعلیمی طریقہ کی بنیاد 'اسلامک آئیڈیالوجی' پر رکھی جائے گی، محض یہی نہیں بلکہ فلم اور میڈیا کو بھی لوگوں کا اس نہج پر نقطہ نظر بدلنے کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔"
(The State of Martial Rule, P.282)
معاشرے کو اسلامی نہج پرڈھالنے کے لئے اس دور کی حکومت کے اقدامات کو ڈاکٹر عائشہ جلال جیسی سیکولر خاتون نے 'اسلامک سوشل انجینئرنگ' کانام دیاہے (صفحہ ۲۸۳)۔ وہ مختلف مثالیں دینے کے بعد اظہارِ خیال کرتی ہیں: "یہ تمام مثالیں آزادی کے بعد چند ابتدائی سالوں سے متعلق ہیں، یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے قائدین ریاست کو اسلامک سوشل آرڈر (اسلامی سماجی ضابطہ) کے حتمی ضامن کی حیثیت سے قائم کرنے کے متعلق بہت فکر مند تھے" (صفحہ ۲۸۴)۔
اسلامی ریاست کا مفہوم لیاقت علی خان کے ذہن میں کیا تھا، بقول ڈاکٹر عائشہ جلال:
"لیاقت علی خان نے اس کی تشریح یوں کی کہ ریاست محض غیر جانبدار مبصر کاکردار ادا کرنے پر قانع نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ سماجی ڈھانچہ تشکیل دینے میں مستعدی سے اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ پاکستان کامل طور پر 'اسلام کی لیبارٹری' بن سکے۔" (صفحہ۲۸۵)
مارچ ۱۹۴۹ء میں جب دستورساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی تو اس کے بعد وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے جو تقریر کی وہ نظریہٴ پاکستان کی تشریح کے متعلق ایک عظیم دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں انہوں نے نظریہٴ پاکستان کے خدوخال اور اس کے نفاذ کی حکمت ِعملی کو بے حد بلیغ انداز میں بیان کیا۔
اسی طرح جناب ابراہیم اسماعیل چندریگر نے ۱۸/ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، اس تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے انہوں نے منجملہ دیگر باتوں کے کہا:
"میری جماعت (مسلم لیگ) حکومت میں اس لئے داخل ہوئی ہے تاکہ آئیڈیالوجی آف پاکستان (نظریہٴ پاکستان) کا تحفظ کرسکے جسے مخلوط انتخابات سے خطرات لاحق ہیں۔"
(Ref: "Pakistan Affairs, by Tariq Mahmood Dogar, P.178)
جنرل یحییٰ خان نے ۱۹۶۹ء میں 'لیگل فریم ورک آرڈر' متعارف کرایا، اس کے آرٹیکل ۲۰ کے الفاظ یہ ہیں:
"Islamic Ideology which in the basis for the creation of Pakistan shall be preserved." "اسلامی نظریہ، جو تخلیق پاکستان کی بنیاد ہے، کا تحفظ کیا جائے گا"
راقم الحروف کی ریسرچ کے مطابق 'پاکستان آئیڈیالوجی' کی اصطلاح سب سے پہلے پاکستان کے لفظ کے خالق چوہدری رحمت علی (مرحوم) نے ۱۹۳۴ء میں استعمال کی تھی۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں:
"The effect of Pak-Ideology on the myth of Indian unity has been devastating. It has destroyed the cult of uni-nationalism and uni-territorialism of India and created instead the creed of the multi-nationalism and multi-territorialism of "Dinia" (South Asia)
("Pakistan - The Father land of the Pak Nation. Ch. Rehmat Ali, P.205)
" ہندوستانی وحدت کے موہوم راز پر پاک آئیڈیالوجی کے بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے وحدانی علاقائیت، وحدانی قومیت کے عمومی تصور کو ختم کردیا اور اس کی بجائے کثیر القومیت اور کثیری علاقائیت یعنی دینیہ (جنوبی ایشیا) کے تصور کو پروان چڑھایا۔"
راقم الحروف نے معمولی کاوش کے بعد اپنی لائبریری میں موجود کتب سے 'نظریہ پاکستان' کے متعلق اس قدر حوالہ جات ڈھونڈ نکالے ہیں۔ اس موضوع پراگر صحیح معنوں میں تحقیق کی جائے، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں ارکان کی تقاریر کے ریکارڈ کو کھنگالا جائے اور مختلف راہنماؤں کے بیانات اور حکومتی پالیسیوں کا مطالعہ کیا جائے، تو اس طرح کے سینکڑوں حوالہ جات مل سکتے ہیں۔ مگر متحدہ پاکستان کے دوسرے چیف جسٹس محمد منیر کا تجاہل عارفانہ ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
"میں نے یہ لفظ (آئیڈیالوجی) پہلی مرتبہ اس وقت سنا جب میں ۱۹۵۳ء میں پنجاب میں ہونے والے فسادات کی انکوائری کر رہا تھا اور میں نے باقاعدہ اس لفظ کو رپورٹ کو ان تین مطالبات کے حوالے سے درج کیا جو قراردادِمقاصد کی بنیادپر احمدیوں کے خلاف کئے جارہے تھے۔"
مندرجہ بالا سطور میں قائداعظم کی تقریر کا اقتباس نقل کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر 'مسلم آئیڈیالوجی' کے الفاظ مذکور ہیں مگر جسٹس منیر اور ان کے بعد دیگر سیکولر دانشور نہایت ہٹ دھرمی کے ساتھ یہ رٹ لگا رہے ہیں کہ قائداعظم نے تو آئیڈیالوجی کا لفظ کبھی استعمال نہیں کیاتھا۔ انصاف کے اتنے بڑے منصب پر فائز رہنے والے صاحب بھی اگر تاریخ لکھتے ہوئے انصاف سے کام نہ لیں تو پھر تاریخ کی بجائے تاریخ کا نوحہ رقم کرنا چاہئے۔ آج کل کے خانہ زاد دانش بازوں کو تو 'اسلام' کے لفظ سے سخت الرجی ہے مگر قائداعظم کے سینکڑوں بیانات ایسے ہیں جس میں انہوں نے اسلام اور اسلام کے روشن اصولوں سے وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ قائداعظم کے علاوہ اس دور کے تمام قابل ذکر مسلم لیگ کے راہنماؤں کو بھی نظریہٴ پاکستان کے متعلق انشراحِ صدر تھا، البتہ جسٹس منیر او ران کے ہم خیال مذہب بیزار حضرات اپنے مخصوص تعصب کی بنیاد پر نظریہٴ پاکستان کا انکار کرتے ہیں۔ اگر جسٹس منیر زندہ ہوتے تو ان سے دریافت کرنے کو جی چاہتا ہے کہ 'مسلم آئیڈیالوجی' کو اقوامِ عالم کے لئے قیمتی خزانہ کہنے والا محمدعلی جناح 'سیکولر' (لادین) کیسے ہوسکتا ہے اور ایسے شخص کے ذہن میں پاکستان کا تصور بطورِ سیکولر ریاست کے کیونکر آسکتا ہے۔
حال ہی میں انتقال کرنے والے دانشور صاحبزادہ خورشیداحمد گیلانی نے کیا خوبصورت بات کی ہے
"اگر مسئلہ محض ایک 'سیکولر پاکستان' کا ہوتا جو اسلامی احکام و تعلیمات کا تجربہ گاہ نہ ہوتا تو پھر ایک بڑے 'سیکولر ہندوستان' کے ہوتے ہوئے ایک نسبتاً چھوٹے سیکولر ملک کی کیا ضرورت تھی؟ اگر سرپھوڑنا ہی مقدر ٹھہرا ہے تو پھر اے سنگدل! تیرا ہی سنگ ِآستان کیوں ہو"۔ (کالم، قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ کتاب، قلم برداشتہ صفحہ ۳۰۳)
سوال پیداہوتا ہے کہ پاکستانی حکمران بالخصوص ایوب خان جماعت ِاسلامی کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کے دور میں جماعت ِاسلامی پر پابندی عائد رہی تو جماعت اور ان کے مفادات اور تصورات میں ہم آہنگی کس طرح پیدا ہوگئی۔ جب وہ دونوں متحارب اور مخالف تھے تو فکر میں یہ یکسانیت کیسی؟ پرویز ہود بھائی نے قادیانی اسلوب میں کی گئی اس شرانگیزی کا جواز کچھ نہیں بتایا۔ ایک معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی اس قادیانی پراپیگنڈہ باز کے تجزیے کو نامعقول اور لغو قرار دے گا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی تو خلوصِ دل سے یہ سمجھتی تھی کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلام کانفاذ ہی ہے۔ ان کے نزدیک نظریہٴ پاکستان کا دوسرا نام اسلام ہی ہے۔ مگر ایوب خان اور دیگر سیکولر حکمران جو پاکستان میں اسلام نافذ نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ منافقت کا اظہار کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ پاکستانی عوام اسلام کے علاوہ کسی 'ازم'کو قبول نہیں کریں گے، اسی لئے وہ ان کو مطمئن کرنے کے لئے نظریہٴ پاکستان کی بات کرتے تھے۔ اگر جماعت اور ان کے درمیان ہم آہنگی تھی تو اس کی وجہ ان دو متحارب فریقوں کے درمیان پرخلوص اشتراکِ فکر نہیں تھا جیسا کہ ہود بھائی بتانا چاہتے ہیں۔
۱۹۴۹ء میں جب مولانا مودودی جیل میں تھے اور حکومت کے زیر عتاب تھے۔ مگر حکومت ِوقت نے یہ ضروری سمجھا کہ قراردادِ مقاصد کا مسودہ مولانا مودودی کو جیل میں ضرور دکھایا جائے کیونکہ تمام اسلامی جماعتوں نے ان پر اعتماد کیا تھا۔ مولانا مودودی اور حکومت کے درمیان سیاسی اختلافات ضرور تھے۔ مگر اہل حکومت یہ بخوبی سمجھتے تھے کہ مولانا مودودی جو اسلامی نظام کے نفاذ کا جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ محض جماعت اسلامی کا پیش کردہ نہیں ہے۔ اگر حکومت کو یہ یقین ہوتا کہ جماعت جو بات کر رہی ہے، اسے عوامی تائید حاصل نہیں ہے تو وہ جماعت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپناتی۔ اہل اقتدار کو یقین تھا کہ جماعت اگرچہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مسلم لیگ کے شانہ بشانہ شامل نہیں تھی مگر قیامِ پاکستان کے بعد اسلامی دستور کا مطالبہ ایک عوامی مطالبہ تھا جس کو آگے لے کر جماعت تحریک چلا رہی تھی۔ اس مطالبے میں جماعت ِاسلامی کو دیگر دینی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ کے اسلام پسند راہنماؤں کی ایک کثیر تعداد کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ اس معاملے میں لیاقت علی خان اور محمد علی چوہدری بھی مولانا مودودی کے مطالبہ کو محض جماعت ِاسلامی کا مطالبہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس بنیادی بات کو سیکولر دانش باز قطعی طور پر نظر انداز کردیتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پر اعتراض ؟
سیکولر طبقہ نے پاکستان کے 'اسلامی' جمہوریہ ہونے کے تشخص کو صدقِ دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔ گذشتہ ایک دو سالوں میں پاکستان میں سیکولرزم کی حمایت میں کچھ زیادہ ہی بے باکانہ بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اصغر خان، جو سیکولرزم کے عشق میں بہت دور نکل گئے ہیں، گذشتہ چند ماہ کے دوران کئی مرتبہ اپنے اخباری بیانات میں یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ پاکستان کے نام کے ساتھ 'اسلامی جمہوریہ' نہیں ہونا چاہئے۔ سیکولر نام نہاد انسانی حقوق کمیشن کے قادیانی ڈائریکٹر آئی اے رحمن اپنی تحریر و تقریر میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اقبال حیدر جو عاصمہ جہانگیر کے ادارے 'دستک' کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہیں، فروری میں ایک سیمینار میں بے حد زوردار انداز میں 'اسلامی جمہوریہ' کے خلاف تنقید کرچکے ہیں۔ سیکولر اور اشتراکی دانش بازوں کا جہاں بھی اکٹھ ہوتا ہے وہ اس ناروا مطالبہ کو ضرور دہراتے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں 'پنجابی عالمی کانفرنس' کے دوران لادین عناصر کا اجتماع ہوا جس میں انڈیا سے بھی کثیر تعداد میں مندوبین شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں ڈاکٹر مبارک علی نے اشتراکی پنچ لگائی کہ :
"قیامِ پاکستان کی تحریک اسلامی ملک کے حصول کے لئے نہیں بلکہ سیکولر ڈیموکریٹک پاکستان کے لئے تھی۔ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہنا درست نہیں۔ ایوب خان کے دور تک یہ صرف جمہوریہ پاکستان تھا۔ نظریہ کے بارے میں سرکاری نقطہ نظر کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا اور برصغیر کی تقسیم کی از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیکولر ڈیمو کریٹک سسٹم ہونا چاہئے۔" (روزنامہ'انصاف' ۱۴/اپریل ۲۰۰۱ء)
ڈاکٹر مبارک کی مذکورة الصدر نامبارک یاوہ گوئی ایک خود ساختہ موٴرخ کی تاریخ شکن حرکت ہے۔ تاریخ کے نام پر جھک مارنے والا یہ مصنف کل تک تو ساقط الاعتبار تھا مگر آج اسے سیکولر اشتراکی حلقوں میں کافی اعتبار حاصل ہوگیاہے۔ سبط حسن اور علی عباس جلال پوری کے بعد اشتراکی میکدے میں جو قحط الرجال کی صورت پیدا ہوئی تھی، اس میں ڈاکٹر مبارک کو 'بلند مقام' حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ ڈاکٹر مبارک صاحب ۳۰ کے قریب کتابوں کے مصنف (یا موٴلف) ہیں، مگر ان کی تمام کتابیں تاریخ کی مارکسی تعبیر کے گرد گھومتی ہیں۔ مارکسی موٴرخین کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو روشن خیال اور غیر متعصب سمجھتے ہیں، مگر ان کی تصانیف تاریخ کی مادّی تعبیر اور مارکسی تعصب کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ معروضیت اور غیر جانبداری کا ان کے ہاں گزر تک نہیں ہوتا۔ ان کی تاریخ کا مقصد مارکسی پراپیگنڈہ کوآگے بڑھانا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مبارک کتابوں کے علاوہ ایک سہ ماہی 'تاریخ' بھی نکالتے ہیں، اس میں بھی وہ تاریخ کا وہی حشر کرتے ہیں جو بالعموم ان کی کتابوں میں نظر آتا ہے۔ دیگر جذباتی، اشتراکی موٴرخین کی طرح ڈاکٹر مبارک کا مشن بھی یہی ہے کہ وہ برصغیر پاک و ہند کی تمام تاریخ کو ناقابل اعتبار ثابت کرسکے۔ اشتراکی موٴرخین قدیم تاریخ کے سرچشموں اور ذرائع کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں قدیم موٴرخین نے معروضی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف وہ تاریخ لکھی جو استحصالی طبقے کے مفادات کی ترجمان تھی۔ وہ اس تاریخ کو 'جھوٹ کا پلندہ' قرار دیتے ہوئے مسترد کردیتے ہیں اور باربار اس ضرورت کا احساس دلاتے ہیں کہ تاریخ کونئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ مگر اشتراکی موٴرخین نے تاریخ نویسی کے جو 'روشن ' اصول وضع کئے ہیں، ان کی 'شاندار' جھلک ڈاکٹر مبارک کے مندرجہ بالا بیان میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر مبارک کے بیان کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :
۱۔ڈاکٹر مبارک نے بے حد دھڑلے سے اپنی 'دانشوری' تو جھاڑ دی ہے کہ قیامِ پاکستان کی تحریک سیکولر ڈیموکریٹک پاکستان کے لئے تھی مگر اس نے اپنے اس بے کاردعویٰ کے ثبوت کے لئے کوئی دلیل دینا مناسب نہیں سمجھا۔آخر موصوف نے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کیا ہے؟کیامحمد علی جناح، لیاقت علی خان، سردار عبدالربّ نشتر، خواجہ ناظم الدین اور دیگر بانیانِ پاکستان کے کسی بیان یا تقریر سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے یا یہ ان کے ذرخیز ذہن کی کوئی اپنی درفنطنی ہے؟ قائد اعظم کے سینکڑوں بیانات ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی اصولوں پر مبنی جمہوری ریاست کا قیام چاہتے ہیں مگر ان کا ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے جس میں انہوں نے کہا ہو کہ وہ مسلمانوں کے لئے 'سیکولر ڈیموکریٹک' ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔اس طرح کی بے بنیاد بات اگر کوئی مولوی صاحب کریں تو ڈاکٹرمبارک جیسے روشن خیال اسے 'جاہل کٹھ ملا' کا نام دیتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مارکسٹوں نے تاریخ نویسی کا جو اسلوب متعارف کرایا ہے اس میں جھوٹ کو بھی 'قدر' کی حیثیت حاصل ہے۔ شاید اسی اصول کا عملی اطلاق ڈاکٹر مبارک نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔حیف ہے افسانے تراشنے اور بے پرکی اڑانے والا یہ شخص اپنے آپ کو'موٴرخ' سمجھنے کے فسوں میں مبتلا ہے۔
۲۔ڈاکٹر مبارک کا یہ ارشاد بھی لغو ہے کہ نظریہٴ پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا جاتاہے وہ محض سرکاری نقطہ نظر ہے۔جس ملک کے زمانہٴ اول میں غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر افراد حکومت کرچکے ہوں، وہاں کے آئین میں اگر کچھ اسلامی دفعات بھی شامل ہوگئی ہیں تو یہ محض نتیجہ ہے غیر سرکاری یعنی عوامی دباؤ کا۔ ایوب خان نے تو ۱۹۶۲ء کے آئین سے 'اسلامی جمہوریہ' کالفظ ہی نکال دیا تھا مگر پاکستان کے محب ِوطن اسلام پسند عوام کے دباؤ کے سامنے انہیں جھکنا پڑا۔ اگریہ معاملہ ایوب خان یا مذکورہ بالا دیگر حکمرانوں کی پسند پر ہی منحصر ہوتا تو پاکستان کے آئین کا تشخص کبھی بھی اسلامی قرار نہ پاتا۔ نظریہٴ پاکستان اسلام کا دوسرا نام ہے او راسلام پاکستان کے ۵ء۹۷ فیصد شہریوں کا مذہب ہے جس سے وہ والہانہ شیفتگی رکھتے ہیں۔ اسے محض سرکاری نقطہ نظر قرار دینا پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت کے ایمان کی سنگین توہین کے مترادف ہے۔
۳۔ ڈاکٹر مبارک کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے بارے میں بھی چٹا کورا ہے مگر جب وہ کہتا ہے کہ "ایوب خان کے دور تک یہ صرف جمہوریہ پاکستان تھا" تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ یہ خانہ زاد موٴرخ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے فن میں ید ِطولیٰ رکھتا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا بھی ہے کہ اس کے طبع زاد جھوٹ کو عام آدمی محض اس بنا پر'سچ' مان لے گا کیونکہ یہ صاحب 'موٴرخ' کہلاتے ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ایوب خان سے پہلے یہ ملک 'اسلامی جمہوریہ ' ہی تھا۔
۱۹۴۹ء میں جب قرار داد مقاصد منظور ہوئی، یہ ملک دستوری اعتبار سے آئینی ہوگیا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں جب وزیراعظم محمد علی کی قیادت میں پاکستان کا پہلا دستور نافذ ہوا تو اس میں بھی 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' ہی درج تھا۔ ۱۹۶۲ء میں جب ایوب خان نے اپنا وضع کردہ آئین متعارف کرایا تو اس میں سے 'اسلامی' کا لفظ حذف کردیا جس کے خلاف شدید احتجاج ہوا۔ چند ماہ کے اندر ہی آئین کی پہلی ترمیم کے ذریعے ایوب خان کو 'اسلامی' کا لفظ دوبارہ آئین میں شامل کرنا پڑا۔ ایوب خان کو عوامی ردّعمل کا اندازہ نہیں تھا۔ اس کے بعد کسی بھی سیکولر حکمران کو پاکستان کے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی جرأت نہ ہوئی۔ کس ڈھٹائی سے آج ڈاکٹر مبارک یہ بیان داغتا ہے کہ ایوب خان کے دور تک یہ صرف جمہوریہ تھا۔ پنجابی کانفرنس میں شریک کیا ایک بھی صاحب ِضمیر 'روشن خیال' دانشور موجود نہیں تھا جو ڈاکٹر مبارک کی اس لغو حرکت کا نوٹس لیتا اور اسے اس کے جھوٹ پر متنبہ کرتا!!؟
میاں افتخار الدین کا تبصرہ
آج کے سیکولر دانشور 'اسلامی جمہوریہ' کے لفظ سے خار کھاتے ہیں، مگر میاں افتخار الدین جیسے اشتراکی رہنما نے قراردادِ مقاصد کی منظوری پر جو تقریر کی، وہ ملاحظہ کیجئے :
"اس قرارداد (مقاصد) پرجو اعتراضات کئے گئے ہیں، ان کا تعلق اس بیان سے ہے کہ طاقت کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس طرح آئین کی نوعیت مذہبی ہوجاتی ہے۔ جنابِ عالی! میں کانگریس پارٹی کے ارکان کویقین دلاتا ہوں کہ قرارداد کا ابتدائیہ اسے کسی طرح بھی مذہبی نہیں بنا دیتا۔ اس سے زیادہ مذہبی نہیں بناتا جتنے مذہبی دنیا کے جدید ملکوں کی وہ قراردادیں اور بیانات ہیں جن کا تعلق بنیادی اصولوں سے ہے۔
جنابِ عالی! بہت سے ملکوں کے دساتیر کی عبارت اگر بالکل ایسے ہی نہیں تو اس سے ملتے جلتے الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ آئر لینڈ ہی وہ تنہا ملک نہیں جس کے بارے میں میں جانتا ہوں، جس کا دستور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ انہی جیسے الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ برطانوی سلطنت کا تقریباً ہرملک اپنا اقتدار بادشاہ کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے۔ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے: "بادشاہ کے ذریعے، اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے" وغیرہ وغیرہ۔ اگر سلطنت ِبرطانیہ کی رعیت یا آئرش فری اسٹیٹ کے شہری، قرارداد کے ان الفاظ سے پریشان نہیں ہوتے تو کانگریس پارٹی کے ارکان کو بھی اس سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔"
جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کے متعلق 'اسلام' اور 'اسلامی' کے الفاظ کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے میاں افتخار الدین نے کہا :
"اگر ہم کسی لحاظ اور جھجک کے بغیر رومن لا، برٹش پارلیمانی نظام اور ایسی ہی دوسری اصطلاحات استعمال کرسکتے ہیں تو 'اسلامی' کی اصطلاح کیوں استعمال نہیں کرسکتے؟ لیکن ہمیں دنیا کوایک اسلامی آئین دینا ہے۔ اگر ہم نے ایک صحیح اسلامی آئین دیا ہوتا جو ایک بہترین نظریے پر مبنی اور حقیقی جمہوریت کے حصول کا ذریعہ ہوتا تو میرا خیال ہے کہ ہم ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیتے۔ تاہم اس موقع پر مجھے یہ کہنے کا حق ہے اور اس کے لئے میں کسی رکن کو یا اس ایوان کے کسی حصے کو الزام نہیں دوں گا بلکہ میں بھی ان میں شامل ہوں کہ ہم اپنا فرض ادا نہیں کررہے ہیں۔ ریاست کا اسلامی تصور غالباً اتنا ہی ترقی پسندانہ، اتنا ہی انقلابی، اتنا ہی جمہوری او رحرکت و عمل کے امکانات سے پر ہے، جتنا کسی او رملک کا آئین یا نظریہ ہوسکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اپنی عظیم ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس مرحلے میں بھی یہ ایوان قراردادمقاصد کے مسودے میں ان اصولوں کو شامل کرلے گا جو حقیقی جمہوریت کو ممکن بنائیں گے۔"
آج کے ہمارے اشتراکی دانشوروں کو علماء سے اگر خاص بغض ہے تو وہ اپنے ہی ہم خیال بزرگ اشتراکی کی رائے کا ہی احترام کریں۔
قدرت اللہ شہاب کی گواہی
صدر ایوب خان سیکولر میلان کے مالک تو تھے لیکن اسلام سے اس قدر بیزار بھی نہ تھے۔ ان کے دور میں پاکستان میں ترقی پسندوں اور اشتراکیوں کا بہت غلغلہ تھا۔ اس زمانے میں اسلام یا مذہب کی حمایت کرنے والوں کو بائیں بازو کے دانشور سخت طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے تھے۔ جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتیں زیر عتاب تھیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قدرت اللہ شہاب مرحوم کی شہادت ریکارڈ پر لائی جائے۔ انہوں نے شہاب نامہ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح ایوب خان کے برسراقتدار آتے ہی سرکاری خط و کتابت میں 'اسلامی جمہوریہ' کا ذکر غائب ہوگیا اور کس طرح انہیں دوبارہ ان الفاظ کو آئین میں شامل کرنا پڑا۔ شہاب نامہ میں وہ لکھتے ہیں :
"اس نئے دور میں کام شروع کرتے ہی میرے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مارشل لا نافذ ہونے کے بعد اب تک جتنے سرکاری اعلانات، قوانین اور ریگولیشن جاری ہوئے ہیں، ان میں صرف حکومت ِپاکستان کا حوالہ دیا ہے، حکومت ِاسلامی جمہوریہ پاکستان کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید ڈرافٹنگ میں غلطی سے ایک آدھ بار یہ فروگذاشت ہوگئی ہوگی، لیکن جب ذرا تفصیل سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس تواتر سے یہ فروگذاشت دہرائی جارہی ہے وہ سہواً کم، التزاماً زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس پر میں نے ایک مختصر سے نوٹ میں صدر ایوب کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو وزارتِ قانون اور مارشل لا ہیڈ کوارٹر کی توجہ اس صورت حال کی طرف دلائی جائے اور ان کو ہدایت کی جائے کہ جاری شدہ تمام اعلانات اور قوانین کی تصحیح کی جائے اور آئندہ کے لئے اس غلطی کو نہ دہرایا جائے۔ صدر ایوب صاحب کا قاعدہ تھا کہ وہ فائلیں اور دوسرے کاغذات روز کے روز نپٹا کر میرے پاس واپس بھیج دیاکرتے تھے لیکن معمول کے برعکس یہ نوٹ کئی روز تک میرے پاس نہ آیا۔ ۵ /نومبر کی شام کو میں اپنے دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا تھا۔ باہر ٹیرس پرصدر ایوب اپنے چند رفیقوں کے ساتھ کسی معاملے پر گرما گرم بحث کر رہے تھے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد جب سب لوگ چلے گئے تو صدر میرے نوٹ کا پرچہ ہاتھ میں لئے میرے کمرے میں آئے۔ وہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے۔ آتے ہی انہوں نے میرا نوٹ میرے حوالے کیا اور کہا: "تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر یہی طے کیا کہ اسلامک ری پبلک آف پاکستان سے'اسلامک' کا لفظ نکال دیا جائے"۔
" یہ فیصلہ ہوچکا ہے یا ابھی کرنا ہے؟" میں نے پوچھا۔ صدر ایوب نے کس قدر غصے سے مجھے گھورا اور سخت لہجے میں کہا:"ہاں، ہاں فیصلہ ہوگیاہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہئے اور اس میں دیر نہ ہو"، شائد کہ وہ خدا حافظ کہے بغیر تیز تیز قدم کمرے سے نکل گئے۔ اگر مجھ میں ہمت ہوتی تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتا اور انہیں روک کر پوچھتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اسلامی کا لفظ حذف کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟۔" (صفحہ ۷۱۹، ۷۲۰)
اس کے بعد جناب قدرت اللہ شہاب نے جو سطور لکھی ہیں وہ فی الواقع سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مجھے تعجب ہوگا اگر کوئی ادیب آج بھی 'اسلامی جمہوریہ' کے دفاع میں اس سے زیادہ خوبصورت ، پرتاثیر اور موٴثر انداز میں ایسی سطور لکھ سکے۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے شہاب صاحب صرف میری ہی نہیں بلکہ اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دے گئے ہیں۔ ڈاکٹرمبارک جیسے اشتراکی جو پاکستان کے آئین میں 'اسلامی' کا لفظ برداشت نہیں کرتے، کاش ان سطور میں بیان کردہ استدلال پر غور کرسکیں۔ شہاب موصوف کی وہ زندہ رہنے والی سطور ملاحظہ کیجئے :
"بڑے سوچ بچار کے بعد صبح کے قریب میں نے پریس ریلیز تو تیار نہ کیا بلکہ اس کی جگہ دو ڈھائی صفحوں کا ایک نوٹ لکھا، جس کا لب ِلباب یہ تھا کہ پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پر انی لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریڈ کلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطہ ارضِ اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کردیا گیا تو حد بندی کی یہ لائن معدوم ہوجائے گی۔ ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔ اگر افغانستان، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیر باد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں لیکن ہم اسلام کے نام سے راہِ فرار اختیارکریں تو پاکستان کا الگ کوئی وجود قائم نہیں رہتا۔ اس لئے اسلام ہماری طبع نازک کوپسند ِخاطر ہویا نہ ہو، اسلام ہماری طرزِ زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لئے نہیں تو اسی چند روزہ زندگی میں خودغرضی کے طور پر اپنے وطن کی سلامتی کے لئے ہمیں اسلام کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال کر برسرعام ڈنکے کی چوٹ پر بچانا ہی پڑے گا، خواہ اس کی دھمک ہمارے حسن سماعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔ جمہوریہ پاکستان کے ساتھ 'اسلامک' کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرونِ وسطیٰ کی طرف جاتاہے تو جانے دیں۔ دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
دوسرے دن اس نوٹ کے حوالے سے شہاب صاحب ایوب خان سے اپنی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں:
" وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور میرے ہاتھ کا لکھاہوا نوٹ پڑھنے لگے۔ چند سطریں پڑھ کر کچھ چونکے اور پھر از سر نو پڑھنے لگے۔ جب ختم کرچکے تو کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے "Yes, Right you are" یہ فقرہ انہوں نے دوباردہرایا اور پھر نوٹ ہاتھ میں لئے کمرے سے چلے گئے۔ اس کے بعد اس موضوع پر پھر کسی سے کبھی کوئی بات نہ کی۔ چند روز بعد میں کچھ فائلیں لے کر صدر ایوب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے:"کچھ لوگ مجھے لکھتے ہیں ، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ اب ماڈرن ازم اور اسلام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں ان سے کہتا ہوں:
"Pakistan has no escape from Islam" "پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں!"
اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں، پاکستان اگر جسم ہے تو اسلامی نظریہ اس کی روح ہے۔ پاکستان کی اصل شناخت اس کا اسلامی ہونا ہے۔ غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان وغیرہ جیسے غاصب سیکولر آمروں کو پاکستان کی اصل شناخت مٹانے میں کامیابی نہ ہو۔ آج اگر کسی دانشور کو علمائے دین سے کوئی بغض ہے، تو وہ ان سے اپنا حساب الگ سے چکائے۔ مولویوں کی آڑ میں اسلام یا پاکستان کے خلاف بدزبانی کو کروڑوں محب ِوطن پاکستانی ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اگر کوئی مغرب کی لادینی جمہوریت پر فریفتہ ہے اور وہاں کی مادرپدر آزادی کی حسرت میں مرا جارہا ہے، اسے چاہئے کہ کسی مغربی ملک میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے، یہ ملک دین، اسلام کی بنیاد پر بنا تھا یہاں لادینیت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک بغیر 'نظریے' کے وجود نہیں رکھتا۔ لبرل جمہوریت ایک نظریہ ہے، مارکسزم ایک نظریہ ہے، سیکولرزم ایک نظریہ ہے، دین اسلام ایک نظریہ ہی نہیں عظیم ترین خدائی نعمت اورالٰہیاتی نظام ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر ہی وجو دمیں آیا تھا اور ہمیشہ 'اسلامی ' ہی رہے گا۔ (ان شاء اللہ)
ہمارا یہ یقین کامل ہے کہ پاکستان کی بقا صرف 'اسلام' میں ہے!
٭٭٭٭٭