کیا اسلام اورمغرب میں تہذیبی تصادم ناگزیر ہے؟

کچھ عرصہ پہلے ہمیں لاہور میں ایک یورپین نومسلم سکالر ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین صاحب کالیکچر سننے کاموقع ملاتھا جس کا عنوان "اکیسویں صدی میں تہذیبوں کا تصادم "تھا۔لیکچر بلاشبہ عالمانہ تھا لیکن اس کے باوجود ہمارا تاثر یہ تھا کہ موصوف کا لہجہ، اسلامی حوالے سے، مدافعانہ بلکہ مصلحت کوشانہ ہے۔اب ان کے لیکچرز شائع ہو کرآئے ہیں تو اس تاثر کو مزید تقویت پہنچی ہے۔1
ڈاکٹر صاحب موصوف کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب دوسری تہذیبوں (خصوصاً مغربی تہذیب) سے الگ اور منفرد کوئی مستقل بالذات تہذیب نہیں کیونکہ سب انسانی تہذیبوں میں باہم اخذ واستفادہ کی وجہ سے بہت سے نکات مشترک ہیں۔ پھر مختلف خطوں کے اسلامی ممالک کی اپنی اپنی تہذیبیں ہیں، اس لئے ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹناور ان کے ہم نوا دوسرے دانشوروں کی اس رائے میں کوئی وزن نہیں کہ اکیسویں صدی میں اگر کوئی بین الاقوامی سطح کا تصادم ہوا تو وہ مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان ہوگا۔
ہم ڈاکٹر ہوف مین صاحب کی اس'نیک خواہش'کی قدر کرتے ہیں (جو ان کی تقریر میں تو نہیں البتہ 'بین السطور' موجود ہے) کہ وہ اسلام کو مغربی تہذیب کے ساتھ کسی ممکنہ تصادم سے بچانا چاہتے ہیں اور غالباً یہ نہیں چاہتے کہ طاقتور مغرب اپنی ساری قوت اور لاؤ لشکر سمیت مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے لئے انہوں نے جو نظریہ پیش کیا ہے، وہ نہایت کمزور ہے، مزید یہ کہ خود مسلمانوں میں معروف اور ان کے نزدیک مستند اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔
یہ کہنا کہ اسلامی تہذیب کوئی منفرد اور دوسری تہذیبوں سے الگ کوئی مستقل بالذات تہذیب نہیں، ایک بالکل کمزور بات ہے۔ آخر تہذیب کی اساس 'فکر' کے سوا کیا ہوتی ہے؟ اب اگر اسلامی فکر دوسرے افکار و اَدیان سے مختلف اور منفرد نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو نیا پیغمبر بھیجنے اور ایک نئی اُمت کھڑی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ صحیح ہے کہ ہم مسلمان تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں اور یہ کہ محمد رسول اللہﷺ پر اترنے والا دین اسی 'اسلام' کا آخری ایڈیشن ہے جوپہلے انبیا علیہم السلام پر اتارا گیا تھا لیکن اگرپہلے سے بچا کھچا دین قابل اصلاح ہوتا تو اللہ تعالیٰ نئی شریعت نہ اُتارتے اور نہ پچھلے اَدیان ٭ کو منسوخ کرتے۔ لہٰذا ہر مسلمان یہ ایمان رکھتا ہے کہ جس دین کو وہ مانتا ہے صرف وہی صحیح ہے اور وہ دوسروں سے ممتاز اور منفرد ہے اور اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور وہ زندگی کے سارے معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اس عقیدے کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس اسلامی فکر کی بنیاد پر جو تہذیب وجود میں آئے وہ دوسری غیر اسلامی تہذیبوں سے نہ صرف الگ، منفرد اور ممتاز ہو بلکہ اپنا مستقل بالذات وجود بھی رکھے۔
ڈاکٹر ہوف مین کو اسلامی تہذیب کوایک منفرد اور مستقل بالذات تہذیب ماننے میں ایک اور الجھن جو پیش آئی، وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس وقت مسلم ممالک کے تمدنی مظاہر میں خاصا اختلاف ہے اور ہر ملک کے اسلامی تمدن نے اپنے اپنے علاقے کے قدیم تمدن کا خاصا حصہ اپنے اندر جذب کیا ہوا ہے لہٰذاسارے مسلمانوں کی ایک متفقہ 'اسلامی تہذیب' کہاں سے وجود میں آسکتی ہے2؟ اس مغالطے کا سبب دراصل تہذیب اور تمدن کے فرق کونہ سمجھنا ہے جس میں بدقسمتی سے بہت سے عالم اور عامی مبتلا ہیں․
'تہذیب'نام ہے ان اجتماعی رویوں کا جو کسی سوسائٹی کے تصورِ انسان، تصورِ کائنات اور تصورِ خدا سے وجود میں آتے ہیں اور تمدن نام ہے ان فروعی مظاہر کا جو ان رویوں کی تفصیلی صورت گری کرتے ہیں جیسے ایک عمارت کی تعمیر میں اس کا مقصد، عمارت کا نقشہ، طرزِتعمیر، عمارت کا مقصد ِتعمیر کے مناسب ہونا، یہ سب گویا تہذیب ہیں اور اس عمارت کا رنگ و روغن، نقش و نگار اور زینت و آرائش اس کا تمدن ہیں۔3اس کو ایک عام فہم مثال کے ذریعے مزید یوں سمجھئے کہ لباس کا ساتر ہونا، اِسراف سے پاک ہونا، پہننے والے کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا، سادہ و پاک صاف ہونا، غیر ضروری آرائش و تکلّفات سے مبرا ہونا، موسمی ضروریات کے مطابق ہونا وغیرہ اسلامی تہذیب ہے۔ اب اگر ان اصولوں کے مطابق ایک امریکی مسلمان پتلون، سعودی مسلمان عبا، پاکستانی شلوار او رہندوستانی پاجامہ پہنتا ہے تو یہ مختلف تمدنی مظاہر ہیں او رایک مشترک اسلامی تہذیب کی نفی نہیں کرتے۔
اگرچہ ڈاکٹر ہوف مین صاحب کی تقاریر میں کئی اور اہم نکات بھی قابل تنقیح ہیں لیکن ہم ان پر اس مختصر تبصرے پرکفایت کرتے ہوئے اب پروفیسر ہنٹٹنگٹن کے تہذیبی تصادم کے نظریے کا ایک جائزہ لینا چاہتے ہیں:
پروفیسر ہنٹنکٹن نے اپنی تالیف 'تہذیبوں کا تصادم' میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ متعدد وجوہ کی بنا پراکیسویں صدی میں اگر کوئی بین الاقوامی سطح کا تصادم ہوا تو وہ اسلامی اور مغربی تہذیب میں ہوگا۔ اس کے جواز میں ا س نے چار وجوہ پیش کی ہیں جن میں سرفہرست یہ ہے کہ مسلمان ایک انتہا پسند قوم ہیں اور مغرب کے ساتھ محاربت کا ایک طویل پس منظر رکھتے ہیں اور جس طرح وہ اب اپنی فوجی قوت میں بتدریج اضافہ کر رہے ہیں اور اپنی تہذیب کو غالب کرنے کے لئے کوشاں ہیں، اس سے مغربی تہذیب کے ساتھ اس کے تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔4دیگر وجوہ میں اس نے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے امریکی اختلافات، چین مسلم گٹھ جوڑ اور یورپ میں عیسائیت اور قدامت پسندی کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کو شامل کیاہے، تاہم اس مقالے میں ہم صرف اس کی پہلی شق ہی پر گفتگو کریں گے جس کا تعلق اسلامی اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم سے ہے۔
پروفیسر ہنٹٹنگٹن کا رویہ عموماً غیر جذباتی ہے اور اس نے جس طرح اپنے دلائل کو اَعداد و شمار سے مزین کیا ہے، سچ یہ ہے کہ وہ مرعوب کن اور متاثر کن ہے اور اہل مغرب کے لئے یقینا فکروعمل کی ایک بنیاد مہیا کرتا ہے اورمغرب خصوصاً امریکہ کے پالیسی ساز یقینا اسے سامنے رکھیں گے، گو وہ پہلے بھی اس پہلو کوفراموش کئے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اگر ہم بنظر غائر پروفیسر ہنٹٹنکٹن کے پیش کردہ 'حقائق' اور 'اَعداوشمار' کا جائزہ لیں تو ان کا بودا پن اور غیر معروضی پن نمایاں ہوجاتاہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ مسلم ممالک کا فوجی بجٹ برابر بڑھ رہا ہے جبکہ عیسائی ممالک کافوجی بجٹ کم ہورہاہے، اس کے لئے وہ مندرجہ ذیل اَعداد و شمار پیش کرتا ہے5
ملک فوجی بجٹ (بلین امریکی ڈالر) خریداسلحہ(بلین امریکی ڈالر)
۱۹۹۴ء ۱۹۹۸ء ۱۹۸۵ء ۱۹۹۵ء
۱۔امریکہ ۳ء۳۴۲ ۳ء۲۲۲ بحری جنگی جہاز ۲۵ ۵
لڑاکا ہوائی جہاز ۹۴۳ ۱۲۷
ٹینک ۷۲۰ ...
میزائل ۴۸ ۱۸
۱۹۸۵ء ۱۹۹۳ء
۲۔ نیٹو ۶ء۵۳۹ ۰ء۴۸۵
۳۔ مشرقی ایشیا ۸ء۸۹ ۰ء۱۳۴
اب یہ اعدادوشمار اگر صحیح بھی ہوں تو اس نے ان کے صرف ایک پہلو کو نمایاں کیا ہے کہ مسلم ممالک کا بجٹ بڑھ اور غیر مسلم ممالک کا بجٹ کم ہورہا ہے اور دوسرے بہت سے پہلوؤں سے صرفِ نظر کرلیا ہے مثلاً یہ کہ امریکہ و یورپ کا دفاعی بجٹ مسلم ممالک کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں پہلے ہی اتنا زیادہ ہے کہ انہیں مزید اضافے کی ضرورت ہی نہیں۔ دیکھئے اس سلسلہ میں تازہ ترین اَعدادوشمار6
ملک دفاعی بجٹ (امریکی بلین ڈالر میں)
امریکہ ۳ء۲۹۳ برطانیہ ۵ء۳۴
فرانس ۰ء۲۷ روس ۰ء۲۹
پاکستان ۳ء۳ ایران ۵ء۷
عراق ۴ء۱
امریکہ و یورپ اور مسلم ممالک کے دفاعی بجٹ کے درمیان جو ہوشربا فرق ہے اس سے صرفِ نظر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رہے کہ امریکہ کی آبادی پاکستان سے محض دگنی ہے جبکہ برطانیہ اور فرانس کی آبادی پاکستان سے آدھی بھی نہیں اور ان کی سلامتی کو کوئی خطرات بھی لاحق نہیں، اس کے باوجود ان کا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر سارے مسلم ممالک کا دفاعی بجٹ جمع کردیا جائے تو وہ صرف امریکہ کے بجٹ کے پاسنگ بھی نہیں بنتا لیکن پروفیسر ہنٹٹنکٹن اس حقیقت سے صرفِ نظر کرکے آگے بڑھ جاتا ہے۔
پروفیسر ہنٹنکٹن نے اس پہلو کو بھی نظر انداز کردیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم ممالک کا بجٹ بڑھ رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک کو اپنی سلامتی کا مسئلہ درپیش ہے، وہ فوجی بجٹ نہ بڑھائیں تو کیا اپنی آزادی سے ہاتھ دھوئیں؟ پاکستان کی مثال لیجئے، ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر اُٹھ جاتا ہے لیکن ہم اس کے لئے مجبور ہیں کیونکہ 'مغرب' نے کشمیر کامسئلہ ہمیں تحفے میں دیا ہے او رہندو جیسا ظالم اور مکار دشمن ہمارے سر پر بیٹھا ہے او رہمارے مقابلے میں اسے اسرائیل ، امریکہ او ریورپ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر ہم اپنے دفاع سے غافل ہوجائیں تو وہ ہمیں آسانی سے نوالہ ترسمجھ کر نگل لے گا۔ لہٰذا ہم اپنے وجود کی سلامتی کے لئے اپنا پیٹ کاٹ کر فوجی بجٹ بڑھانے پر مجبور ہیں۔
فوجی اِخراجات کے حوالے سے پروفیسر ہنٹٹنکٹن نے جو اَعدادشمار (سطورِ بالا میں) پیش کئے ہیں وہ روایتی ہتھیاروں کے ہیں۔اگر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے اَعدادوشمار پیش کرتا تو ہتھیاروں کی تعداد میں عیسائی اور مسلم ممالک کا فیصلہ کن فرق مزید واضح ہوجاتا اور اس کی دلیل کے غبارے سے ہوا نکل جاتی۔ ملاحظہ کیجئے یہ اَعدادوشمار جو ایک مستند مغربی ذریعے سے لئے گئے ہیں :7
ملک تعداد 'وار ہیڈز' میزائل رینج
امریکہ ۰۷۰,۱۲ ۰۰۰,۱۳ کلومیٹر
برطانیہ ۳۸۰ ۰۰۰,۱۲
فرانس ۵۰۰ ۳۰۰,۳
روس ۵۰۰,۲۲ ۰۰۰,۱۱
اسرائیل ۴۶ تا ۱۱۲ ۹۳۰
بھارت ۶۵ ۵۰۰,۲
پاکستان ۱۵ تا ۲۵ ۰۰۰,۱
اب دیکھئے کیا حیثیت ہے پچاس سے زیادہ مسلم ممالک میں سے صرف ایک پاکستان کے پندرہ ایٹم بموں کی، غیر مسلم دنیا کے پینتیس ہزار ایٹم بموں کے مقابلے میں؟ اور کیا وزن رہ جاتا ہے مغرب کے 'اسلامی بم' کے زہریلے پراپیگنڈے کا اورکیا وزن رہ جاتا ہے ہنٹٹنکٹن کی اس دلیل کا کہ مسلمانوں کافوجی بجٹ بڑھ رہا ہے اور عیسائی ممالک کابجٹ کم ہورہاہے ؟
ہم پروفیسر ہنٹنکٹن کے اَعدادوشمار پرمبنی حقائق کی نقاب کشائی کے لئے صرف ایک مثال اور دیں گے، وہ کہتا ہے کہ ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۷۹ء تک دنیا میں کل ۱۴۲ تصادم ہوئے جن میں سے ۷۶ تصادموں میں مسلمان ملوث تھے۔8 اس سے گویا یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ مسلمان جنگجو اور تصادم پسند قوم ہیں لیکن پروفیسر ہنٹٹنکٹن کی معروضیت اسے اس امر پر آمادہ نہیں کرتی کہ وہ یہ دیکھے کہ مسلمان اگر تصادموں میں ملوث تھے تو اس کی وجہ کیا تھی؟... ہم انہیں بتاتے ہیں کہ اس عرصے میں مسلمان مغربی استعمار سے جان چھڑانے کی جدوجہد کر رہے تھے اور پرامن کوششوں کی ناکامی کے بعد ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔انہوں نے الجزائر میں مزاحمت کی، وہ فلسطین میں لڑتے رہے، وہ مراکش میں لڑے، وہ تیونس میں مسلح جدوجہد کرتے رہے، انہوں نے انڈونیشیا میں بھی ہتھیار اٹھائے لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنا چاہتے تھے۔
اب آزادی، جمہوریت، عدل اور بنیادی حقوق کے علمبردار مغربی دانشور ہمیں بتائیں کہ اس تصادم کا ذمہ دار کون تھا؟ وہ مغربی ممالک جنہوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر بندوق کے زور پر قبضہ کیا، مردوں کو غلام بنایا، عورتوں کی عصمت دری کی، مالی وسائل کو لوٹا یا وہ مظلوم مسلمان جو اپنی عزت، آزادی اور بنیادی حقوق کے لئے لڑ رہے تھے؟ ... حقیقت یہ ہے کہ ہنٹٹنکٹن کے اعدادوشمار محض تحقیق کی شعبدہ بازی ہیں، ان کامعروضیت اور زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں!!
یہاں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہارورڈ جیسی دانش گاہ کے پروفیسر ہنٹٹنکٹن کے دلائل اور اَعدادوشمار کے اَنبار سے وہ کچھ ثابت نہیں ہوتا جو وہ کرنا چاہ رہا ہے تو وہ اصل عوامل کون سے ہیں جو اس کے تہذیبی تصادم کے نظریے کے پس پردہ کارفرما ہیں؟ مغرب اورمسلم دنیا کے ساتھ اس کے روابط کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہنٹٹنکٹن کے تہذیبی تصادم کے نظریے کے پیچھے دراصل مندرجہ ذیل عوامل کار فرما ہیں :
(۱) دانشوری، تحقیق اور معروضیت اکثر مستشرقین کی اوپری اور دکھاوے کی تہہ ہوتی ہے۔ اس تہہ کے اندر جو کچھ پوشیدہ ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے نفرت اور انتقام کی دبی ہوئی آگ ہے جو روپ بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے۔ یہ صلیبی جنگوں کے زمانے کی پھیلائی ہوئی نفرت اور زہریلے پروپیگنڈے کا تسلسل ہے جسے دوسروں کے علاوہ صہیونی اپنے مفادات کے لئے آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔9اور یہ صرف ہماری رائے نہیں خود بعض انصاف پسند مستشرقین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں چنانچہ ایڈورڈ سعید کہتا ہے کہ "تحریک ِاستشراق کے دورخ ہیں: ایک ظاہری اور دوسرا خفیہ اور اس کے خفیہ مقاصد (جن میں اسلام دشمنی محرک سرفہرست ہے)آج بھی وہی ہیں جو پہلے دن تھے۔10
اسی طرح ممتاز دانشور فرانسسکو جبرئیلی یہ تسلیم کرتا ہے کہ "پرانی دشمنی عہد ِجدید میں بھی جاری وساری ہے۔11 انسائیکلو پیڈیاآف اسلام ،لائیڈن (طبع دوم) کے مقالہ نگار سیرت کے حوالے سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام او رحضور اکرمﷺ کے بارے میں جو کچھ ماضی میں یورپ میں لکھا جاتا رہا ہے وہ نفرت، دشمنی، حقارت اور مبالغے پر مبنی تھا اور آج بھی اس کے اثرات متوارث چلے آرہے ہیں۔12
دیگر بہت سے انصاف پسند مستشرقین نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے او ران میں سے بعض نے اس پرباقاعدہ معذرت بھی کی اور اس کی مذمت بھی کی ہے۔ ان میں ڈاکٹر ہنری سٹب، ریلان، پیری بائل، بولین ویلرز، الیگزینڈر روس، ایڈورڈگبن، پرسیوال، رینان، گوئٹے، کارلائل، درمنگھم، جے سی آرچر، باستمھ اسمتھ، ارنسٹ بارکر، سودرن، پروفیسر گب، پروفیسر اے جی آربری اور ٹائن بی جیسے لوگ شامل ہیں۔13
(۲) مغرب اور خصوصاً امریکہ، جو اس وقت مغربی تہذیب کانمائندہ او رلیڈر ہے، مغربی تہذیب کو قوت کے بل پر ساری دنیا (خصوصاً اسلامی ممالک) میں پھیلانے اور غالب کرنے کے لئے کوشاں ہے اور ایسا وہ عرصے سے کر رہا ہے اور جمہوریت، آزادی، بنیادی حقوق، عدل، غیر جانبداری، آزادیٴ رائے اور دوسروں کی خود مختاری کے تحفظ کے دعوؤں بلکہ ان کا چمپئن ہونے کے باوجود کر رہا ہے اور اس کے لئے ہر قسم کے ناجائز ہتھکنڈوں بلکہ قتل و غارت گری اور ظلم و جبر سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ہم اگر اپنی طرف سے کچھ کہیں گے تو شائد اسے معروضیت کے خلاف سمجھا جائے گا، اس لئے ہم اپنے پاس سے کچھ کہنے کی بجائے موقر مغربی رسالے 'ٹائم' کی گواہی پیش کرتے ہیں۔ مسلم ملک انڈونیشیا کے بارے میں اس رسالے نے اپنے ایک شمارے میں پوری تفصیل سے ان اقدامات سے پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح امریکی سی آئی اے نے سوئیکارنو کو ہٹانے کے لئے فحش اور ظالمانہ اقدامات کئے۔ ٹائم لکھتا ہے کہ14
"پہلے سی آئی اے نے صدرسوئیکارنو کے ماسک بنوائے۔ انہیں پہنا کر ہالی وڈ کے جنسی اداکاروں سے سوئیکارنو کی 'مفروضہ' عیاشی کی ننگی فلمیں اور فوٹو بنوائے اور انہیں انڈونیشیا میں پھیلایا گیا۔ اس کے باوجود سوئیکارنو حکومت غیر مستحکم نہ ہوئی تو اس کے خلاف ۱۹۵۸ء میں جونیئر افسروں سے بغاوت کروائی گئی اور ان کی مدد کیلئے بی۲۶ بمبار طیارے بھجوائے گئے۔ اس کے نتیجے میں جب ایک امریکی جہاز مارگرایاگیا اور اس کا پائلٹ زندہ پکڑا گیا تو اس وقت کے سی آئی اے کے چیف ایلن ڈیولز نے بامرمجبوری لڑاکا جہازوں کو واپس بلا لیا۔ سوئیکارنو کے خلاف سی آئی اے کی سازشیں جاری رہیں یہا ں تک کہ ۱۹۶۵ء میں اسے کامیابی ہوئی جب سوئیکارنو کے خلاف بغاوت میں ہزاروں آدمی مارے گئے۔ انڈونیشی کمیونسٹ پارٹی تباہ کردی گئی اور سوئیکارنو کو معزول کردیا گیا۔"
مسلم ممالک میں مداخلت، وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے اور بالجبر اپنی تہذیب و اقدار کو وہاں رائج کرنے کی امریکی جدوجہد کی یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سب مسلم ممالک میں یہی کچھ کر رہا ہے۔ جہاں تک عربوں کے خلاف اسرائیل کی مدد، عربوں کوباہم لڑا کر ان کے تیل کے ذخیروں پر قبضہ، ایران اور افغانستان پرمسلح حملہ جیسے واقعات کا تعلق ہے تو ہم سب اس کے عینی شاہد ہیں۔ اسی طرح تعلیم، اطلاعاتی پالیسی، فیملی پلاننگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کے نام پر، ہماری آنکھوں دیکھتے اس وقت بھی مسلم ممالک کے خاندانی نظام اور ان کی معاشرتی اَقدار کو تباہ کیا جارہا ہے اور ان پر مغربی تہذیب کے معاشرتی تصورات زبردستی ٹھونسے جارہے ہیں۔
(۳) امریکہ اور مغرب کے معاشی اور سیاسی مفادات یہ ہیں کہ مسلم ممالک دَبے رہیں، عدمِ استحکام اور معاشی زبوں حالی کا شکار رہیں۔ اکثر مسلم ممالک کی معیشت کو ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور ایسے ہی دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے قرضے دلاکر اور ان کی معاشی پالیسیوں کو کنٹرول کرکے مسلم عوام کو نانِ جویں سے محروم رکھا جارہا ہے۔ آج بھی مسلم ممالک کے خام مال کی بڑی مقدار (جیسے عربوں کا تیل، پاکستان کی کاٹن، بنگلہ دیش کا پٹ سن وغیرہ) مغرب کی فیکٹریوں کے پہئے چالو رکھے ہوئے ہے اور جواب میں ان مسلم ممالک کو کیا برآمد کیا جاتا ہے: ... پرانا اسلحہ، کاریں اور سامانِ تعیش۔
اکثر مسلم ممالک کے سیاسی نظام میں براہِ راست مداخلت کی جاتی ہے ، سیاسی جماعتوں کو فنڈز دیئے جاتے ہیں، جمہوریت کے نام پر عدمِ استحکام پیدا کیا جاتا، مختلف طبقات کو آپس میں لڑایا جاتا ہے اور ایسے حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں کہ صرف ایسا شخص برسراقتدار آسکے جو ان کی مرضی پر چلے اور ان کی مرضی کی پالیسیاں بنائے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتاہے کہ عیسائی مغرب کے معاشی اور سیاسی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ مسلم ممالک سیاسی اور معاشی لحاظ سے ان کے زیردست اور محتاج رہیں۔
(۴) مغرب کو داخلی یکجہتی کے لئے ایک 'دشمن' درکار ہے۔یہ قوموں کی ایک نفسیاتی ، نظریاتی اور سیاسی ضرورت ہوتی ہے۔ پرانے زمانے کے دانشور کہا کرتے تھے کہ ہر وقت کچھ کیا کرو، کوئی کام نہ ہو تو اپنے کپڑے پھاڑ کر دوبارہ سینا شروع کردو۔ موجودہ ماہرین نفسیات بھی یہی کہتے ہیں کہ مصروف رہنا انسانی صحت کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں بھی بعض سیاسی بزرجمہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان دشمنی کا رویہ ہماری داخلی یکجہتی کے لئے مفید ہے، لہٰذا اسے جاری رکھنا چاہئے۔ اس تناظر میں دیکھئے تو کمیونسٹ روس مغرب کا دشمن تھا تو سارا کاروبارِ حیات بخوبی چل رہا تھا، لمبی چوڑی دفاعی تیاریوں کا جواز تھا، سیٹو سینٹو اور نیٹو کی ضرورت تھی اور ایک بھرپور سرد جنگ ہر وقت جاری رہتی تھی جو کہیں کہیں گرم جنگ میں بدل جاتی تھی۔اب روس اور کمیونزم کی ہزیمت کے بعد امریکہ واحد سپرپاور رہ گیا ہے او راس کے مدمقابل کوئی دشمن نہیں ہے اور اس کی نفسیاتی ضرورت یہ ہے کہ اگراس کا کوئی دشمن نہیں ہے تو ایک دشمن تخلیق کیا جائے۔ چنانچہ زیادہ آسانی سے جو دشمن تخلیق کیا جاسکتا ہے وہ مسلم دنیا ہے کیونکہ یہ مغرب کی عوامی اور مذہبی ذہنیت او رپس پردہ یہودی مفادات کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔
(۵) یہاں ممکن ہے کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر واحد سپرپاور امریکہ کو ایک مدمقابل دشمن کی تلاش ہی ہے تو بھی قرعہ فال مسلم دنیا کے نام ہی کیوں نکلے؟ یہ دشمن کوئی اور بھی تو ہوسکتا ہے، آخر مسلمان ہی کیوں؟ ا س کا ایک جواب تو اوپر ذکر ہوچکا۔ ایک دوسرے پہلو سے اس کا جواب دینے کے لئے ہم آپ کو اُردو زبان کا ایک زبان زد عام لطیفہ سناتے ہیں۔ ایک ہندو اور مسلمان آپس میں لڑ پڑے۔ اتفاق یہ کہ ہندو نوجوان ہٹا کٹا تھا اور مسلمان سوءِ اتفاق سے دھان پان سا تھا۔ ہندو نے جوشِ غضب میں آکر مسلمان کو چت گرا لیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا لیکن کچھ دیر بعد وہ از خود ہی رونے لگا۔ قریب سے گزرتے ہوئے ایک آدمی نے اسے تعجب سے دیکھا اور کہا : میاں! تم نے تو اسے گرایا ہوا ہے، پھر روتے کیوں ہو ؟ بنیاکہنے لگا: رو اس لئے رہا ہوں کہ جب یہ نیچے سے اٹھے گا تو مجھے مارے گا!!
یہی حال امریکہ اور مغرب کا ہے۔ اس نے مسلمانوں کے ساتھ اتنا ظلم کیا ہے، اتنی زیادتیاں کی ہیں کہ اسے صاف نظر آرہا ہے کہ جب بھی مسلمان اس کے نیچے سے اٹھیں گے تو وہ اسے ماریں گے۔ تو اس میں قصور کمزور، مجبور، مظلوم اور مقہور مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ یہ تو ظالم کا ظلم ہے جواسے اندر سے ڈرا رہا ہے کہ مظلوم جب اٹھ کھڑا ہوگا تو وہ بدلہ لے گا۔ لہٰذا پو ری کوشش سے اسے دباؤ رکھو، اسے اٹھنے ہی نہ دو اور اس کے جنگ و جدل کے مصنوعی قصے گھڑ گھڑ کے سناتے رہو تاکہ رائے عامہ اس کو دشمن سمجھتی رہے،اس سے نفرت کرتی رہے اور تہذیبی و قومی غلبے کی اس جدوجہد میں ان (مغربی حکمرانوں) کا ساتھ دے۔
جہاں تک مزعومہ تہذیبی تصادم میں مسلمانوں کے کردار کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کوئی صحیح دماغ مسلمان کسی تہذیبی تصادم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ مسلمان تو اپنے تہذیبی اُصولوں پر خود کاربند نہیں، وہ اسے کیا برآمد کریں گے؟ انہیں تو اپنی بقا اور سلامتی کا مسئلہ درپیش ہے۔ وہ تو ابھی سیاسی استحکام کے متلاشی ہیں، وہ تو مسلم عوام کی دو وقت کی روٹی کے لئے فکر مند ہیں، انہیں تو ابھی اپنے مسائل سے نمٹنے کی فرصت نہیں، وہ کسی اور کو کیا چیلنج کریں گے اور کسی کے لئے کیا خطرہ بنیں گے؟15 مغرب اس کا خطرہ اگر محسوس کرتا ہے تو وہ اپنے رویوں پر خود نظرثانی کرے۔ مغرب اگر عالم اسلام سے اچھے اور دوستانہ روابط استوار کرلے، اگر وہ ان کے خلاف سازشیں کرنا چھوڑ دے، ان کے داخلی معاملات میں مداخلت ترک کردے اور ان کے مسائل حل کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ عالم اسلام کے دل نہ جیت لے اور اپنے اس طرزِ عمل کے نتیجے میں جب وہ خود کومسلمانوں کا سچا خیر خواہ اور مخلص دوست ثابت کردے گا تو وہ بھی جواباً اس سے محبت اور دوستی کریں گے اور پھر مغربی دانشوروں او رحکمرانوں کو یہ واہمے بھی نہیں ستائیں گے کہ مسلمان ان کے دشمن ہیں اور کل کلاں ان کے مدمقابل آسکتے ہیں۔ کاش مغربی دانشور اور حکمران اس پہلو سے بھی معاملے پر غور کرسکیں!!


 

نوٹ

٭  دین اگر شریعت کے معنی میں ہو تو پہلی شریعتوں کا نسخ معروف ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ محمد ﷺ نے پچھلی تمام شریعتیں منسوخ کردیں لیکن اگر دین سے مراد اساسی فکر وعقیدہ ہے تو وہ تمام انبیاء کا ایک ہی دین ہے۔ حدیث میں ہے کہ انبیاء آپس میں علاتی (جن کا باپ ایک او رمائیں مختلف ہوتی ہیں) بھائی ہیں۔اسی طرح آپ نے نبوت کو ایک عمارت سے تشبیہ دے کر خود کو اس کی آخری اینٹ قرار دیا لہٰذا اس اعتبار سے آپ پہلے انبیا کے سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہیں اور قرآنِ کریم میں بھی آپ کو ان کی اقتدا کا حکم ملا ہے {فبہداہم اقتدہ} (الانعام:۹۰)     (محدث)

حوالہ جات
1.  سہ ماہی ’مغرب اور اسلام‘ شمارہ جولائی، دسمبر ۲۰۰۰ء، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز ، اسلام آباد
2.  سہ ماہی ’مغرب اور اسلام‘ ص :۲۵
3. سید ابوالاعلی مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، ص :۷، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۲ء
4.  Porf. Samuel P.Huntington, Clash of Civilization, P258, Simon & Schuster,      New York, 1996.
5.  Clash of Civilization, P89-90
6.  The Military Balance 2000-2001, The International Institute for Strategic
                 Studies, London, S.V. Relevant Countries.            
7.  Time, May, 25, 1998.
8.  Clash of Civilization, P-258
9.  عبدالرشید ارشد، آخری صلیبی جنگ، النور ٹرسٹ، جوہر آباد، ۲۰۰۰ء
10. Edward Saeed, Orientalism, P-203, New York, 1978.
11. نجیب العقیقی، المستشرقون، ج۱ ص ۳۹۴، دارالمعارف، القاہرہ، ۱۹۶۴ء
12.  Encyclopaedia of Islam (2nd Edition) Leiden, S. V. Muhammad (PBUH)
13. تفصیل کے لئے دیکھئے اردو دائرہ معارف اسلامیہ، درتکملہ بذیل مادہ ’’استشراق و سیرت نگاری‘‘
14.  Time, August, 23-30, 1974.
15. مقالے میں ہم نے جو اسلامی نقطہ نظر پیش کیا ہے اس کے تفصیلی مطالعے کے لئے دیکھئے :
1. Paul Findley, They Dare to Speak Out, Lawrence Hill & Co. USA, 1987,
(اردو ترجمہ بعنوان شکنجہ یہود از سعید رومی، صفہ پبلشرز، لاہور ۱۹۹۹ء بھی دستیاب ہے)      
2.       Gai Eaton, Islam and the Destiny of Man, Suhail Academy, Lahore, 1977.
3.       H.A.R Gibb, Studies on the Civilization of Islam, Islamic Book Service, Lhr '87
4.       Shaukat Ali, Dimensions and Dilemmas of Islamist Movements, Sang-e- Meel Publications, Lahore, 1998.
5.       Iqbal S.Hussain, Islam and Western Civilization, Adbistan, Lahore,2000.
6.       John L. Esposito,The Islamic Threat, Myth or Reality, New York, 1992.
7.       Dr. S.Hossein Nasr, Traditional Islam in the Modern World, NewYork,1987.
8.       Ideals and Realities of Islam, Suhail Academy, Lahore, 1994.
9.       Mohammad Mohaddesin, Islamic Fundamentalism, The New Global Threat, Washingtion D.C, 1993.
10. Benrard Lewis, Roots of Moslim Rage, New York, 1997.
۱۱۔عباس محمود العقاد، حقائق الاسلام و اباطیل خصومہ، القاہرہ، ۱۹۸۲ء     ۱۲۔ سید قطب ، السلام العالمی والاسلام، القاہرہ، ۱۹۹۱