اکیسویں صدی اور اُمت ِمسلمہ

(زیر نظر مضمون میں اپنے موضوع کو ایک مختلف انداز میں پیش کیا گیاہے جس سے اتفاق تونہیں کیا جاسکتا بالخصوص اس میں پیش کردہ حل میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے لیکن مستشرق مقالہ نگار کی تجزیاتی صلاحیت اور مربوط پیش کش کی بنا پر اس مقالہ کو محدث میں شائع کیا جارہا ہے کیونکہ اس میں موضوع سے متعلقہ بہت سے مخفی پہلو نمایاں ہورہے ہیں، جس کے مطالعے سے قارئین میں عالمی معاملات کو ایک جامع انداز سے دیکھنے کا طرزِ فکر اور نظر میں وسعت پیدا ہوگی۔ (حسن مدنی)
۲۰۰۰ء میں مسلم دنیا کی حالت پر غور کرنے کے لئے اس کا پچھلی دو صدیوں کی ابتدا کی صورتحال سے موازنہ مفید ثابت ہوگا ...
اُنیسویں صدی کے شروع میں مسلم دنیا کے وہ ایک ہزار سال ختم ہوگئے تھے، جن میں یہ طاقت کا سرچشمہ تھی۔ اس زمانے میں ایک عالمی اسلامی نظام موجود تھا جس کی بنیاد وہ طویل تجارتی شاہراہیں تھیں جو ایشیا سے افریقہ تک اور سمندروں کو پار کرتی ہوئی بحیرہٴ احمر سے بحیرہٴ چین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ انہی شاہراہوں پر علما اور صوفیا بھی سفر کرتے تھے ، وہی کتابیں ہر جگہ مطالعہ کی جاتی تھیں اور علم کی ایک ہی زبان تھی جو مراکش اور اندلس سے وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا تک پڑھی اور بولی جاتی تھی۔ اس ہزار سالہ دور میں مسلم دنیا تہذیب کی رہبر تھی۔
۱۸۰۰ء میں مسلم دنیا کا زوال اس وقت شروع ہوا جب سلطنت ِعثمانیہ کو بعض علاقے روسیوں اور آسٹریا ہنگری کی مملکت کے حوالے کرنے پڑے۔ دو کلیدی سال تھے: ایک ۱۷۹۸ء، جس میں نپولین نے مصر پر حملہ کیا اوردوسرا۱۷۹ء، جس میں میسور کی مسلمان سلطنت نے انگریز ولزلی سے شکست کھائی۔ یہ دو اہم ناکامیاں ایک ایسی صدی کا نقطہ آغاز تھیں جس میں مسلمانوں کو پے در پے یورپ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے...
۱۹۰۰ء تک حالات اور بھی بگڑ گئے تھے، یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ مسلمانوں کی آخری قابل ذکر طاقت، خلافت ِعثمانیہ حکومت کابچا کچھا ڈھانچہ یورپ کی توسیعی یلغار کے سامنے کھڑا نہ رہ سکے گا۔ ۲۰ سال کے عرصے میں یہ حکومت اناطولیہ میں اپنی بقا کی جنگ میں مصروف تھی۔ ایران پر برطانوی اثرورسوخ کا غلبہ تھا۔ شمالی یمن ، عرب اور افغانستان کو چھوڑ کر تقریباً تمام مسلم دنیا کسی نہ کسی شکل میں یورپ کی محکوم تھی، مسلم دنیا کے خواص و اَشراف اسلامی علوم کی جگہ یورپی علوم کو ترقی کا زینہ سمجھنے لگے تھے، یورپ کا طرزِ زندگی اور طرزِ فکر مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں سرایت کررہا تھا۔
اکیسویں صدی شروع ہوئی تو صورتِ حال پچھلی دو صدیوں کے مقابلے میں زیادہ روشن نظر آرہی تھی، آج تقریباً تمام مسلم معاشرے آزاد ہیں، بعض نے اپنی آزادی کومحدود ہوجانے کی کوششیں ناکام بنا دی ہیں جیسے ایران اور عراق۔ خواص کو یہ بھی احساس ہے کہ اگر انہوں نے کسی صورت میں اپنی آزادی کا سودا کیا تو انہیں اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی، خصو صاً اسلامی شدت پسندی کی تحریکوں کی شکل میں۔ اس کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ بعض ملکوں میں ان کی آزادی ان معاہدوں سے متاثر ہوئی ہے جو ان کے خواص نے مغربی ممالک کے ساتھ کئے ہیں۔ بعض میں ایسا محض اس اندیشے سے ہوا ہے کہ کہیں مغربی فوجی طاقت ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
بہت سے علاقوں میں بعض معاشرے ایک اور خطرے سے دوچار ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں مغربی اقدار اور صافی ثقافت(Consumerist Culture)کی یلغار اتنی شدید ہے جتنی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ خصوصاً وہ جو برقیاتی (Electronic) ذرائع سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ بعض معاشروں میں جہاں اسلامی شدت پسندی نے چند نازیبا حرکتیں کی ہیں، لیکن وہیں اس یلغار کو روکنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ فی الحال معاشی اور اقتصادی طاقت کی کنجی مغربی معاشرے کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے برعکس، تیل اور گیس کے بیشتر ذخائر مسلمان ملکوں میں ہیں اور مغربی ممالک اب تک وہ تباہی نہیں بھولے ہیں جو ۱۹۷۰ء کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے انہیں سہنا پڑی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت مغرب کو مسلم دنیا کے متعلق باقی دنیا کی رائے تشکیل دینے میں ایک بلندی کا درجہ حاصل ہے، بلکہ یوں بھی ہے کہ خود مسلم دنیا کو اپنے آپ کو سمجھنے کے لئے مغربی معاونت کی اہمیت واضحہے، اس کے برعکس، جمہوریت کا وہ طاقتور ہتھیار اور زمینوں کو ہموار کرنے والا آلہ 'انٹرنیٹ' تمام مسلم دنیا میں مسلم تنظیموں کو یہ اہلیت بخش رہا ہے کہ وہ اپنا علم کھلے میدان میں بلند کریں اور اپنے مقاصد، اپنے تخیلات، اپنی تشریحات ان لوگوں کے لئے واضح اندا زمیں بیان کریں جو ان کا مطالعہ کرنا پسند کریں۔ اس اہلیت سے علم اور تحقیق پر مغربی شکنجہ تو نرم نہیں ہوسکتا، لیکن یہ ایک پشتے کا کا م ضرور دے سکتی ہے!!
مغرب کے اس بلند درجے کے باوجود مسلم دنیا کے متعلق مغرب کا دوہرا اور دوغلہ معیار اور بہت سی صورتوں میں صریح لاعلمی، نہایت اہم موضوع ہے۔ اکثر فلسطینیوں، کشمیریوں اور چیچن کے لئے ایک قانون ہے اور ان پر ظلم و تشدد کرنے والوں کے لئے دوسرا۔ اس کے باوجود یہ آثار ہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی خیالات اور رجحانات میں یکسانیت اور یک رخی کم ہوئی ہے۔ اب یورپ نے امریکہ کے مقابلے میں بین الاقوامی مسائل پر وضاحت سے اپنی علیحدہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے خیالات کی حمایت میں وہ اپنی مسلسل ردّ عمل کی قوت بھی استعمال کریں۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اس فورس کو یورپ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرے گا۔ یہ بھی یقینی بات ہے کہ تمام یورپی ممالک میں اس امر میں مکمل اتفاق نہ ہو کہ یہ مفادات کیا ہیں؟ اس کے باوجود ۱۹۹۹ء میں، یورپ ہی نے کوسووو (Kosovo) میں پہل کی اور فلسطینی مسئلے پر بھی یورپ(جیسا کہ ان کے اخبارات سے ظاہر ہے) امریکہ کے مقابلے میں زیادہ متوازن رائے رکھتا ہے۔
اس رائے کی حمایت میں کہ مسلم دنیا کی ترقی کا امکان ۲۰۰۰ء میں ۱۸۰۰ء یا ۱۹۰۰ء کی نسبت زیادہ ہے، بعض عوامل پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دو مزید عوامل ایسے ہیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی صدی میں مسلمان ملکوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ پہلا تو یہ ہے کہ پچھلے پچاس سال میں مسلمانوں نے مغربی ملکوں میں اس طرح اپنی جگہ بنائی ہے کہ عثمانیہ اَدوار میں بھی ایسے نہیں ہوا تھا۔ معاشی کشمکش اور بہتر زندگی گزارنے کی خواہش کے زیر اثر مسلمان بڑی تعداد میں یورپ اور شمالی امریکہ نقل مکانی کررہے ہیں۔ یہ مسلمان نہ صرف اسلام اور جدیدیت کے متعلق نئے خیالات منظر عام پرلاسکتے ہیں1 جو مسلمان معاشروں کے لئے ایک خمیر کا کام دیں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی موجودگی سے مغربی ممالک کی حکومتیں بھی مسلمانوں کی تشویش اور دنیا کے متعلق ان کے خیالات سے زیادہ متاثر ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے صہیونی عنصر کے اثر ورسوخ میں کمی ہوجائے۔ مثال کے طور پر یہ مسلمان ضرور بارسوخ عہدوں پر فائز ہوں گے اور اس طرح مغربی معاشرہ ان کے خیالات پر زیادہ توجہ دے گا۔ البتہ اس دوہرے عمل میں دیر لگ سکتی ہے اور اس پر قطعی فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے۔
دوسرا غور طلب امر یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔ بہت سے مسلمان ملکوں میں ۲۵ سال سے کم عمر کے باشندے کل آبادی کا دو تہائی ہیں جیسے کہ ۱۹۷۰ء میں ایران میں ہوا۔ عمر کا یہ تناسب انقلابی نتائج پیدا کرسکتا ہے اور اگر یہ نتائج اسلامی نظریے سے ہم آہنگہوں تو اس سے دنیا کے معاملات میں اسلامی خیالات کا فروغ ہوسکتا ہے۔ مسلمان جو آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں، مستقبل قریب میں ایک چوتھائی کے قریب ہوسکتے ہیں۔ آبادی کے اس اضافے سے بہت سی مشکلیں بھی پیدا ہوں گی لیکن امکان یہی ہے کہ آنے والی صدی میں اسلام کے ماننے والوں کی تعداد عیسائیوں، ہندوؤں اور چینیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔2
(۱) اکیسویں صدی کے اس معمول سے امید افزا سیاق و سباق میں اسلام اور مسلم معاشرے کیباہمی تعلقات کے موضوع پر چند معقول سوا ل پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے اول تو یہ اختیار و اقتدار (یعنی شریعت کی تعبیر کا اختیار کسے ہو اور اس ضمن میں کس کی رائے کو وقعت دی جائے) کامسئلہ ہے۔ اسلام کے نام پر کس کو فیصلہ کرنے کااختیار اور حق ہے؟ انیسویں صدی تک اس موضوع پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہ اختیار علما کے پاس تھا، بے شک علما کے درمیان اختلافات بھی تھے، لیکن تمام مسلم دنیا میں علما کے طریقہٴ تعلیم میں ایک قسم کی یکسانیت تھی، اکثر ایک ہی قسم کی کتابیں استعمال ہوتی تھیں۔ علما ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سیکھتے تھے۔ ان کے اختلافات کے باوجود ان کا مستقبل کا تصور مشترک تھا۔ بعض اوقات حاکم ان کی رائے سے ناخوش بھی ہوتے تھے جیسے جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی اور صفوی شاہ، سلطان حسین اور مجلسی وغیرہ۔ لیکن اس معاملے میں کسی کو شبہ نہیں تھا کہ دینی تشریح و تفسیر کا اختیار کس کا ہے۔ بلاشبہ، زبان اور مہارت کی بنا پر صرف علماء ہی کو اسلام کی تشریح کا حق تھا۔
دو تبدیلیاں ایسی ہوئیں، جن کی وجہ سے مستند تشریح کا معاملہ بالکل بدل گیا، ایک تو وہ نمایاں فرق ہے جو اسلام میں پچھلی دو صدیوں میں مسلم حاکمیت کے زوال اور مغرب کی غالب حیثیت کے پس منظر میں پیدا ہوا۔ اس سے اصلاح اور اِحیا کی تحریک پیدا ہوئی۔ عقیدے اور عمل کی دنیا سے بے نیازی اور کسی روحانی رہبر کی وساطت سے اللہ سے رشتہ قائم کرنے کی بجائے اللہ سے کسی وسیلہ کے ذریعے رشتہ استوار کرنے کوبرا سمجھا گیا اور نجات حاصل کرنا انسان کے اپنے ضمیر سے منسلک کیا گیا۔ اس زمین پر اللہ نے انسان کو کچھ مقاصد حیات دے کر بھیجا ہے اوریہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خوفِ خدا کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دے۔ ڈاکٹر اقبال انسان سے اللہ کی بارگاہ میں یوں عرض کراتا ہے: " اللہ تو نے رات بنائی، میں نے چراغ جلایا، تو نے مٹی بنائی، میں نے پیالہ تشکیل دیا۔" اس طرح اسلام کی دنیاوی ضروریات کی تاکید کی گئی۔
دوسری تبدیلی تھی، انیسویں صدی میں چھپائی (طباعت) کا رواج۔ قرآن، حدیث اور متعلقہ علوم کا مقامی زبانوں میں ترجمہ اور تعلیم کی توسیع، اس طرح اسلام کے مآخذ ہر شخص کو حاصل ہونے لگے۔ اور تشریح و تفسیر پر علما کی اِجارہ داری ٹوٹ گئی3۔ نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں نے زیادہ تعداد میں علما کے فتوے پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا دین خود سمجھنے کی کوشش کی۔ اجتہاد عام لوگوں کو میسر آگیا۔ اس میں وہ اسلام پسند بھی شامل تھے، جن کی تعلیم علما کے مدارس کے باہر ہوئی تھی۔ مسلمانوں نے اپنی آواز صرف مدارس سے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے ماحول میں بلند کرنی شروع کی، جیسا کہ اقبال نے اشارہ کیا ہے۔ اب 'اجماع' علما کی بجائے عوام کے پاس آگیا،4 پچھلے پچاس سال میں اس تاریخی تبدیلی سے یہ سوال پیدا ہوا کہ اس صورتِ حال میں اس تبدیلی کو حکومت کے اداروں کے ذریعے کیسے عمل میں لایاجائے۔ جیساکہ پاکستان کے آئین کی تبدیلیوں کی مثال سے واضح ہوتا ہے، پاکستان میں اور پاکستان سے باہر یہ موضوع آنے والی صدی میں لوگوں کی ہمت اور جستجو کا مرکز بنا رہے گا۔
(۲) دوسرا اور پہلے سے منسلک موضوع استناد، بھروسے اور اعتبار کا ہے، شروع ہی سے جب مسلمانوں نے دیکھا کہ وہ یورپ کے محکوم ہوگئے ہیں یا یورپ ان کا رقیب بن گیا ہے تو ان کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ وہ یورپی تہذیب کی کونسی باتیں اپنا سکتے ہیں، جس سے وہ نہ تو نقالی کا گناہ کریں اور نہ ہی اسلام کی روح قربان ہو، لہٰذا انیسویں صدی میں ہی مسلمان یہ غور کررہے تھے کہ کیا یورپ کے کھانے اور لباس کے طریقے، تصویریں کھینچنا اور مسجدوں میں بجلی استعمال کرنا ان کے لئے صحیح ہے یا نہیں۔ کیا اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کوئی یورپی زبان (جیسے انگریزی) سیکھیں؟
جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسلمانوں نے اپنی اس تشویش کا حل نکال لیا اور ان کی توجہ زیادہ بنیادی مسئلوں پر مرکوز ہوگئی، مثلاً کیا جمہوریت کی یورپی شکل قبول کرنا ممکن ہے، جب کہ اس میں عوام کی حاکمیت لازمی ہے اور مسلمان صرف ایک اللہ کی حاکمیت میں ایمان رکھتا ہے۔ کیا مغربی قوانین اور قانونی ضابطے نافذ کرنا ممکن ہیں جب کہ مسلمانوں کے لئے اللہ کے اَحکامات موجود ہیں؟ کیا مغربی معاشی نظام اپنانا ممکن ہے جو شریعت کے اَحکام کے منافی ہے؟ کیا علم حاصل کرنے کے مغربی انداز مناسب ہیں، جن کی بنیاد اسلامی اقدار سے غیر متعلق ہے؟ کیا انسانی حقوق کا مغربی اندازِ فکر نافذ کرنا ممکن ہے، جب کہ وہ بھی صریحاً ہر اسلامی مقصد سے خارج ہے؟ جب سے مسلمانوں نے مغربی تسلط سے سیاسی آزادی حاصل کی ہے۔ ان کی تمام تر کوششیں 'استناد' کے ان موضوعات کا حل تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔5
قابل اعتبار ترقی کے سیکولر (Secular) اور مذہبی مستقبل کے تصورات کے درمیان ایک مکالمہ جاری ہے۔ بیسویں صدی کے تین عظیم انقلاب، روس اور چین کے علاوہ ایرانی انقلاب کے مستحکم ہونے پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ جدیدیت کا ایک کامیاب اسلامی تصور ممکن ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ایرانی انقلاب سے تمام مسلم دنیا میں اسلامی تحریکوں کی ہمت افزائی ہوئی اور ترقی کے سیکولر حامیوں کو دھچکا لگا، البتہ یہ بھی صحیح ہے کہ ایرانی نظامِ حکومت کے اندر جو کشمکش جاری ہے، اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جدیدطرز پر اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے طریقوں پر وہاں کافی اختلافات ہیں۔ آنے والی صدی میں معتبر، مستند اور اسلامی جدیدیت کا موضوع تمام مسلم دنیا میں اہم ترین مسئلہ رہے گا۔
(۳) اس مسئلے کے ساتھ ساتھ کہ مسلم معاشرے کس نظام کو مستند سمجھتے ہیں، ایک تیسرا موضوع ہے جو اس مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی وہ کشمکش جو تمام مسلم دنیا میں اسلام 'پرست' جن کی طاقت کا سرچشمہ شہری اوسط درجے اور کم اوسط درجے کے طبقے کے لوگ ہیں اور اَشراف و خواص جو عموماً نو آبادی نظام کے وارث اور اکثر (ہمیشہ نہیں) مغرب سے قربت کی بنا پر طاقت اور وسائل حاصل کرتے ہیں، کے درمیان جاری ہے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ ان اسلامی گروہوں کی رہبری مغرب کے تعلیم یافتہ پیشہ ورانہ اہلیت کے لوگ کرتے ہیں اور ان کا انتظام یونیورسٹی کے طلبہ کے پا س ہے۔ انہوں نے وہ خلا پر کیا ہے جو مقامی سطح پر شہروں اور قصبوں میں حکومتی نظام کی ناکامی سے پیدا ہوا ہے۔ شہری آبادی میں جو انتشار، جدید ریاستی نظام اور بین الاقوامی معاشیات سے پیدا ہوا ہے، اس سے نمٹنے اور اس آبادی کی ضرورتیں ایک حد تک ان گروہوں نے سکول، شفاخانے، بہبود کے مرکز اور نفسیاتی اِمداد مہیا کرکے پوری کی ہیں۔ نواحی علاقوں سے جو لاکھوں لوگ شہروں کی طرف آئے ہیں، ان کے لئے بھی ان گروہوں نے کشش پیدا کی ہے۔ یہ سب کومعلوم ہے کہ ان تحریکوں کی تقریریں اور خطبے مغربی ثقافت اور مغربی طاقت کی سخت مخالفت سے پر ہیں۔ ان کا مقصد سرمایہ داری یا اشتراکیت (Socialism) کے مقابلے میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے اور وہ اپنا مقصدمرکزطاقت(حکومت)تک پہنچکرحاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایران اور سوڈان میں اسی طرح کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
آنے والے عشروں میں اسلامی گروہوں اور ان کے مدمقابل خواص کے درمیان کشمکش کی کہانی سامنے آئے گی۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ہی اس مستند اور معتبر شکل کا فیصلہ ہوگا جو سیاسی نظام اپنائے گا۔ یہ امید کرنی چاہئے کہ ایرانی انقلاب کے بعد مغرب نے سبق سیکھ لیا ہوگا اور وہ خواہ مخواہ ایسی صورت پیدا کرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے جس کے نتیجے میں نئی اسلامی ریاستیں وجود میں آجائیں۔ البتہ اگر اس قسم کی تبدیلی سعودی عرب میں آجائے جس کا لازمی اثر خلیج کی ریاستوں پر بھی ہوگا، تب تک امیدافزا ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے وسائل دنیا کی معیشت کے لئے مرکزی اہمیت کے ہیں اور کوئی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ مغرب، خصوصاً امریکہ، میں دانشمندی کا مظاہرہ ہوگا۔لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اسرائیل دانشمندی کا مظاہرہ کرے گا کیونکہ اس کے لئے اس قسم کی تبدیلی اس کی نظر میں اس کی سا لمیت کے لئے ایک خطرہ ہوگی۔
(۴) مسلم معاشرے میں اسلامی تحریکوں کی توسیع سے چوتھا موضوع سامنے آتا ہے: مسلم معاشرے میں عورت کا مقام۔ احیاءِ اسلام اور مغرب کے اقتدار کی پچھلی دو صدیوں میں معاشرے میں عورت کا صحیح مقام اور کردار گرما گرم بحث کا موضوع بنا رہا ہے۔ غیرملکی تسلط کے دوران، جب مغربی اقدار تمام ماحول پرچھائی ہوئی تھیں تو مدرسوں، مزاروں اور مسجدوں سے باہر کے علاقوں میں مسلمان عورتیں اپنے گھروں کی چاردیواری میں اسلامی طرز زندگی کی مالک بن گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کی ہدایت کے لئے 'بہشتی زیور' لکھی تاکہ عورتوں کواسلام کے متعلق اتنا علم ہو کہ وہ اپنے اور اپنے کنبے کے لئے اسلامی معیار قائم رکھ سکیں۔ جب بعض مسلم حکومتوں نے جیسے مصطفی کمال کے ترکی اور رضا شاہ پہلوی کے ایران میں سیکولر طرزِ زندگی اپنانے کی کوشش کی تو عورتیں تبدیلی کا نشان اس طرح بن گئیں کہ انہیں ماحول میں حجاب سے روکا گیا۔ اور جب اسلامی حکومتیں وجود میں آئیں تو عورتوں پر حجاب کی پابندی عائد ہوگئی۔ لیکن بنیادی طور پر اسلام بھی جدید معاشی نظام اور ریاستی نظام میں عورت کا اپنا مقام حاصل کرنے کے مخالف نہیں ہے۔
ہر چند کہ الجیریا میں اسلامی جماعت (FIS) عورتوں کے گھر سے باہر کام کرنے کے خلاف ہے اور ایرانی انقلاب کے فورا ً بعد عورتوں کو سرکاری دفتروں سے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ وہ اسلامی اقدار جو اسلامی تحریکیں پھیلا رہی تھیں، ان کا تقاضا یہی تھا کہ عورتیں اپنے گھر سے باہر آزادی سے حرکت کریں اور جدید معاشی نظام میں کام کریں۔ آج کل جو شخص بھی ایران، خصوصاً تہران جاتا ہے، اس سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ عورتیں معاشی نظام میں ہر سطح پر کافی تعداد میں موجود ہیں۔ اس میدان میں دلچسپ اِمکانات ہیں، مسلم معاشروں کا علم کی بنیاد پر معاشی نظام کی تشکیل سے فرار ممکن نہیں ہے اور اس کے لئے انہیں تمام آبادی کی ذہنی صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی، آدھی آبادی اس سے خارج نہیں ہوسکتی*۔ ان کے لئے لازمی ہوگا کہ عورتیں پوری طرح سے اس میں حصہ لیں، اسلامی تحریک کے حمایتی ضرور اس ترقی کی شرائط طے کریں گے لیکن ان کو اس میں آسانیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ یہ بات قابل بحث ہے کہ یہ اسلامی اشخاص ایک ایسے عمل میں اِمداد کریں گے جن میں عورتوں کی مخصوص ضروریات اور ان کی ترجیحات میں وسعت پیدا ہو۔ اسلام میں عورتوں پر زیادہ تحریر و تقریر کے اِمکان پر نظر رکھئے، اسلامی نسوانی تحریک (Feminine) پر نظر رکھئے۔
(۵) احیاءِ اسلام کے جاری اثرورسوخ اور توسیع کی وجہ سے اکیسویں صدی کے سامنے ایک اور موضوع ابھرتا ہے جس میں ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے: انفرادیت اور قوم کے مطالبات کے درمیان کشا کش ... جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، اٹھارہویں صدی کے اَواخر سے اِحیا اور اصلاح کا مقصد، مسلم طاقت کے تناظر میں، قوم کو نیچے سے اُبھارنا تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس کا طریق کار یہ تھا کہ ہر مسلمان فرد کے ضمیر پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے کہ وہ ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دے اور اس کے لئے ہر مرد اور عورت کو اتنی تعلیم دی جائے کہ وہ یہ ذمہ داری پوری کرنے کا اہل ہوجائے۔ ذاتی ذمہ داری کو اتنی اہمیت دینے سے چند غیر متوقع نتائج رونما ہوتے ہیں۔ اس سے خود انحصاری کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ اس سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ ہر فرد بذاتِ خود ایک فعال، تخلیقی نمائندہ ہے۔ اس نظریے کی یہ بھی مانگ ہے کہ مرد اور عورتیں آزادی سے خود فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔ یہ نظریہ ا س با ت کی تاکید کرتا ہے کہ عام دنیاوی زندگی میں جن باتوں کی قدروقیمت ہے۔ جیسے کنبہ، رشتے، احساسات، جنسی تعلقات، ان میں ہرانسان کو اپنا کردار خود ادا کرنا، یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ خود اعتمادی اور غوروفکر کے ذریعے ہر ذمہ دار مسلمان کو اپنے اَعمال کا خود جائزہ لینا ہے کہ وہ کس حد تک اللہ کی ہدایتوں پر عمل کررہا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتاہے کہ یہ تبدیلیاں جو اِحیا کے عمل سے رونما ہوئی ہیں، مسلمانوں میں انفرادیت کو سہارا دے رہی ہیں۔ ایک احساس ہے طاقت کا، جو اس علم سے پیدا ہوتا ہے کہ یہ دنیا انسانیت سے تشکیل پاتی ہے، وہ احساس جو ذاتی آزادی اور انفرادی امکانات کے ساتھ اس علم سے پیدا ہوتا ہے کہ فرد خود انتخاب کرتا ہے، زندگی کے اصل معنی اور اس کے نشانات... اور غوروفکر سے خودی کی ترقی میں ایک اضافی اہمیت پیدا ہوتی ہے۔ انسانی تکمیل کے امکانات وسیع ہوتے ہیں اور انفرادی راستہ اختیار کرنے کا تصور زیادہ واضح ہوتا ہے۔
لہٰذا طنزیہ ہے کہ احیاءِ اسلام (جو قوم کو جگانے کی تحریک تھی) نے ان خیالات اور رویوں کی ہمت افزائی کی جو قوم کو للکار رہے تھے۔ ا س میں ترقی کا اور بھی امکان ہے اگرمسلم معاشروں میں سرمایہ داری نظام زیادہ آزادی سے کام کرے6، آنے والے عشروں میں ہمیں یہی توقع کرنا ہوگی کہ احیاءِ اسلام کی دنیاوی شکل کا سہارا لئے ہوئے، انفرادیت کی یہ بڑھتی قوت اور ملت اسلامی کی اقدار کے درمیان شدید کھچاؤ پیدا کرے گی۔ اس کے علاوہ، اس بات کے پیش نظر کہ اِحیا کی توقعات کا زیادہ خمیازہ عورتوں کے حصے میں آتا ہے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کھچاؤ بھی انہی کے لیے زیادہ پریشان کن ہوگا۔
تو یہ ہیں وہ پانچ نمایاں موضوع جن سے مسلم معاشرے کو آنے والی صدی میں نمٹنا ہوگا، پہلا، اللہ کی ہدایت اور شریعت کی تعبیر و تشریح کا اختیار، دوسرا مسلم معاشروں کے لئے صحیح راستہ مقرر کرنے میں استناد کا مسئلہ، تیسرا طاقت کے حصول کے لئے 'اسلام پرستوں' اور نوآبادی نظام کے وارثوں میں مقابلہ ، چوتھا معاشیات اور ریاست کی ترقی میں عورتوں کا کردار، پانچواں بڑھتی ہوئی انفرادیت اور ملت ِاسلامیہ کی اقدار میں کشمکش۔
پچھلی دو صدیوں میں مسلم معاشروں کو انہی اہمیت کے مسئلوں سے نمٹنا پڑا تھا۔ یا تو نو آبادی نظامِ حکومت کی پابندیوں کے ماحول میں اور یا نو آبادی نظام کے خاتمے کے فورا ً بعد مداخلتی پدرانہ نظام میں، تجربے یا آزاد خیالی کے لئے یہ حالات بالکل خوش آئند نہیں تھے۔ اس وقت ایک انجانے خوف کی کیفیت کا سماں تھا اور ظاہرہے کہ خوف زدہ لوگ تعمیری یا تخلیقی خیالات کے اہل نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس اکیسویں صدی میں بظاہر مسلم معاشروں کو تجربے کرنے کے لئے زیادہ آزاد ماحول حاصل ہوگا، جو کہ ایک نیک شگون ہے!!


 

نوٹ

1. یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ معیارِ زندگی کی تلاش میں باہر جانے والے مسلمان میں غالب اکثریت ایسوں کی ہے جو صرف اسلامی گھرانوں میں پیدا ہونے کی بنا پر مسلمان ہیں، وگرنہ انہیں اپنی تہذیب اور اسلامی علمی ورثہ یا اسلامی تصورات سے بھی خاص آگاہی نہیں۔ کیونکر ممکن ہے کہ وہ وہاں جاکر مؤثر قوت بننے کے بجائے خود متاثر نہ ہوجائیں۔ اس نقل مکانی کے متعدد پہلو ہیں جن میں سردست خیر کی بجائے شر کے امکانات زیادہ ہیں، باقی اللہ کی تدبیر اور  اسکے فیصلے سب پر غالب ہیں۔ (حسن مدنی)

2.  اسی پریشانی کے مداوے کیلئے عالمی ادارے مسلمانوں میں فیملی پلاننگ کی ہرممکنہ سرپرستی بلکہ اِمداد کو اس سے مشروط قرار دے رہے ہیں کہ جس پریشانی اور نوجوان نسل کی کمیابی کے مسئلے سے وہ  دوچار ہیں، مسلمان بھی ہوجائیں۔(حسن مدنی)

3.   یہ دعوی کہ دو عوامل (ترجمہ اور اشاعت کی فراوانی )سے اسلام کی تشریح سے مسلمان علماء کی اسلام سے اجارہ داری ختم ہوگئی، بھی محل نظر ہے۔موصوف کے اس دعوے کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ شریعت ایک مستقل اور وسیع علم ہونے کی بجائے صرف عربی زبان سے آگاہی کا نام ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو عربی زبان جاننے والے تمام عرب شریعت کے بہت بڑے علما بھی ہوتے جب کہ ایسا نہیں۔خود تمام صحابہ کرام جو بڑے فصیح اللسان تھے  اور انہوں نے لسانِ نبوتؐ سے دین کو سنا تھا لیکن شریعت کے ماہر اور عالم نہیں تھے۔کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی زبان جاننے والے سب لوگ انجینئر اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔جب ایسا نہیں تو شریعت جیسے فلاح انسانیت کے علم کو کیوں ایسے تصور کیاجاتا ہے۔
یہ مغالطہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں بھی بکثرت پایا جاتاہے کہ اگر وہ عربی زبان جان لیں گے تو شریعت ِاسلامیہ کا علم بھی انہیں حاصل ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ عربی زبان کے شارٹ کورسز میں بڑی دلچسپی سے شرکت کرتے ہیں۔ اس امر میں شبہ نہیں کہ عربی زبان کی مہارت کے بغیر اسلامی شریعت کو گہرائی سے سمجھا نہیں جاسکتا، کیونکہ شریعت کے تمام بنیادی مصادر وماّخذعربی زبان میں ہیں لیکن شریعت عربی زبان سے بڑھ کر ایک مکمل، جامع اوربڑا وسیع علم ہے جو بڑی گہرائی،سمجھ بوجھ ، محنت اور سیکھنے کا  محتاج ہے۔
اسی طرح موصوف کادوسرا دعویٰ (اشاعت کی فراوانی )بھی درست نہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ علماء اسلام نے دینی کتب یا احکام اسلامیہ لوگوں سے چھپا کررکھے تھے، وسائل اشاعت عام ہونے سے جب کتب کی دستیابی عام ہو گئی تو شریعت بھی علماکے ہاتھوں سے نکل کر عوام کی دسترس میں آگئی۔ غالباً مقالہ نگارکو عیسائی ؍یہودی علما کا تجربہ ہے جو وہ اسی کو مسلم علما پر بھی منطبق کررہے ہیں۔ انہیں غالباً لاکھوں شرکاء اور تلامذہ کے ان اجتماعات کا بھی علم نہیں جو صرف سماعِ حدیث کے لئے محدثین کے پاس جمع ہوتے تھے۔ تعلیم وتہذیب کے اسلامی اَدوار میں مسلمان علماء نے جس قدر ذخیرئہ علم وفن مسلمانوں کے لئے تحریر کیا جس سے یورپ بھی آج مستفید ہوتا ہے، وہ اشاعت ِعلم کے لئے ہی تھا۔ مقالہ نگار کے اس دعوے کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کوئی بھی لائبریرین یا بک سٹور کا نگران بہت بڑا عالم ہوتا ہے ، جب کہ علم کتابوں کے ہونے کا نام نہیں بلکہ اس کے مطالعے اور اس میں وقت صرف کرنے  اور اس میں محنت کرنے سے ہی ملتا ہے۔(حسن مدنی)

4.  ان مسائل پر مقالہ نگار کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت کی تعبیر کاحق اور استناد اسلامی معاشرے میں علماء کو آج بھی حاصل ہے، عوام مسلمان ان کی آراء پر ہی اعتماد کرتے ہیں لیکن مغربی ذرائع ابلاغ اپنی مختلف کوششوں اور گرے ہتھکنڈوں کے ذریعے اسلامی معاشرے کو علما کے اثر سے نکالنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ان روایتی ؍حقیقی علماء کے بجائے ایسے دانشوروں کی سرپرستی کی جو انہی کے نظامِ تعلیم کے پروردہ تھے۔اس سب کے باوجود وہ علماء کے اثر کو معاشرے سے ختم کرنے میں کامیاب نہیںہوسکے۔جوں جوں جدید ’ترقی یافتہ معاشرے‘ میں جائیں جہاں مغربی قوتوں کی کارفرمائی زیادہ ہو  توں توں علماء پر مسلمان عوام کا اعتماد متاثر ہوتا نظر آتاہے۔
گو کہ علما نے بھی دورِ جدید کے بعض تقاضوں کو پہچاننے میں کوتاہی کی ہے لیکن اس کے پس پردہ بھی جائیں تویہ سب بھی مغربی استعمار کی اثر ونفوذیت اور سیاسی غلبے کی بدولت ممکن ہوا کہ علما کو اس قدر مطعون کرکے معاشرے میں ان کے کردار کو ختم کرنے کی گھنائونی کوششیں کی گئیں، وسائل  ان سے چھین لئے گئے، نتیجتاً علماء کے لئے دین کے تحفظ کے سوا چارہ نہ رہااور انہوں نے اس بے سروسامانی کے عالم میںبھی اصل دین کو محفوظ رکھاگو کہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اس کی شکل وصورت زیادہ سنوار نہ سکے۔علماء اسلام کا اپنے دین کی حفاظت کا یہ کردار ایسی عظیم الشان قربانیوں سے عبارت ہے  جس کی مثال شاید تاریخ اقوام میں کہیں اور نہ مل سکے۔         (حسن مدنی)

5.  خواتین کے کردار کے بارے میں بھی مقالہ نگار کی توجیہ اور رہنمائی  سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ عورت کو گھر سے باہر نکال کر منڈی کی صنعت بنانا یا ملکی ترقی میں اس طور شریک کردینا کہ وہ مردانہ کاموں میں شانہ بشانہ شریک ہوں، دواصناف میں کارہائے حیات کی تقسیم اور اس کیلئے ودیعت کردہ مخصوص صفات کے اسلامی نقطہ نظر سے متصادم ہے۔ آج مغرب  اپنی اسی کوتاہی کو اپنی تہذیب کی خرابی اور بے سکونی کی وجہ قرار دیتا ہے جس کی طرف مقالہ نگار ترغیب دے رہے ہیں  بقولِ شاعر
    فسادِ قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب    کہ روح اس میں مدنیت کی نہ رہ سکی عفیف!              (حسن مدنی)

6. ادارہ اختلاف کا حق محفوظ رکھتا ہے۔