قرآن مجید کے حقوق اور سورة العصر کی تفسیر

﴿وَالعَصرِ‌ ١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ٣ ﴾... سورة العصر
"زمانہ کی قسم ! بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین او رصبر کی تلقین کرتے ہیں۔"
سورة العصر اور اسی جیسی چھوٹی چھوٹی سورتیں عام طور پر نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن پڑھنے اور سننے والوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا مطلب کیا ہے، ان کا ترجمہ کیا ہے اوران کے ہم سے تقاضے کیا ہیں؟ حلال کیا ہے؟ حرام کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو کیا کام پسند ہیں اور کیا ناپسند ؟... خاص سورة العصر ہی کیا پورا قرآن مجید ہم پڑھتے رہتے ہیں لیکن اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
قرآن مجید کے حقوق
قرآنِ مجید کا پہلا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کراطمینان کے ساتھ پڑھا جائے۔ رمضان میں آپ جب تراویح میں قرآنِ مجید سنتے ہیں تو بہت سے حافظ اسے اس طرح پڑھتے ہیں کہ صرف آیت کے آخری الفاظ ہی سننے میں آتے ہیں اور کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کیا پڑھا گیا۔ حالانکہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَرَ‌تِّلِ القُر‌ءانَ تَر‌تيلًا ٤ ﴾... سورة المزمل "کہ آپ قرآن مجید کوٹھہر ٹھہر کر،اطمینان کے ساتھ پڑھئے " اور دوسری آیت میں فرمایا: ﴿وَقُر‌ءانًا فَرَ‌قنـٰهُ لِتَقرَ‌أَهُ عَلَى النّاسِ عَلىٰ مُكثٍ وَنَزَّلنـٰهُ تَنزيلًا ١٠٦ ﴾... سورة الاسراء
" ہم نے اس قرآن مجید کو اتار اکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھیں۔"
(۱) یہ قرآن کا پہلا حق ہے۔ اس کے ادب اور احترام کا تقاضا ہے کہ اسے انتہائی عاجزی اورانتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ یہ سمجھ کرپڑھا جائے کہ یہ ربّ العٰلمین اوراحکم الحاکمین کاکلام ہے۔ اس ہستی کا کلام ہے جس کے قبضہ میں آسمان و زمین ہیں اورجوساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اس کے کلام کو پڑھتے ہوئے آدمی کے جسم پر لرزہ اور کپکپی طاری ہوجانی چاہئے ، نہ کہ یہ کیفیت ہو کہ آدمی قرآنِ مجید پڑھے اور اسے معلوم ہی نہ ہو کہ کیا پڑھا ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ قاری حضرات خصوصاً مصری قاری جب قرآن مجید پڑھتے ہیں تو لوگ اس طرح داد دیتے ہیں اور بعض اوقات تالیاں بجاتے ہیں جیسے مشاعرہ ہو رہا ہو۔ حالانکہ قرآن مجید سننے کے بعد دل کانپ اُٹھنے چاہئیں، ڈر جانے چاہئیں جیسا کہ سورة انفال میں فرمایا: ﴿الَّذينَ إِذا ذُكِرَ‌ اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَإِذا تُلِيَت عَلَيهِم ءايـٰتُهُ زادَتهُم إيمـٰنًا وَعَلىٰ رَ‌بِّهِم يَتَوَكَّلونَ ٢ ﴾... سورة الانفال
"اور جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، اور جب ان پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ "
لیکن جب آپ اسے سن کر داد دیں گے، تالیاں بجائیں گے، جس طرح شعراء کو داد دی جاتی ہے۔ جب آپ اسے مشاعرہ بنا دیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ ایمان بڑھے گا کہاں، گھٹ جائے گا#۔ تو قرآن مجید کا پہلا حق یہ ہواکہ اسے اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ چاہے آپ اسے تراویح میں پڑھیں یا ویسے ہی تلاوت کریں، بہرحال جلدبازی سے پرہیز کیا جائے۔
(۲) قرآنِ مجید کا صرف پڑھ لینا ہی کافی نہیں بلکہ ہم پر اور تمام مسلمانوں پراس کا دوسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ اس کے ہم سے تقاضے کیا ہیں؟ وہ ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ جیسا کہ فرمایا ﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ مُبـٰرَ‌كٌ لِيَدَّبَّر‌وا ءايـٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ‌ أُولُوا الأَلبـٰبِ ٢٩ ﴾سورة ص "ہم نے برکت والی کتاب اس لئے اُتاری ہے کہ ا س سے عقل والے لوگ نصیحت حاصل کریں اور اس کی آیات میں تدبر اور غور وفکر کریں۔"
تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا کام پسندیدہ ہے اورکون سا ناپسندیدہ ہے، کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام ہے؟ یہ ساری باتیں قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں۔ انہیں معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے، اسی لئے ایک اور آیت میں فرمایا:
﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها ٢٤ ﴾... سورة محمد
"کیاوہ قرآن مجید میں غور نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔"
قرآن مجید بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسے سمجھاجائے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کو سیکھا جائے ورنہ ترجمہ سے اس کو سمجھا جائے۔ بہرحال اس کا علم حاصل کرنا، اس کو سمجھنا اور سمجھانا یہ قرآن مجید کا ہم پر دوسرا حق ہے۔
(۳) جب قرآنِ مجید کو سمجھ لیا تو اس کا تیسرا حق ہم پر یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ ہمارے تمام فیصلے قرآن مجید کے مطابق ہوں اور قرآن مجید کی اس تفسیر کی روشنی میں ہوں جورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ اس لئے کہ حدیث و سنت قرآن مجید کی تفسیر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ مجید نازل ہوا تو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مطلب بیان فرمایاہے اوراس کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے یا آپ کے صحابہ نے آپ سے سن کرآگے بیان کیا ہے، وہی تفسیر درست اورقابل عمل ہے اور درحقیقت ا سی کا اہتمام ہونا چاہئے، اسی کو جاننے اور اسی کے حصول کے لئے ہماری کوششیں وقف ہونی چاہئیں۔ سورہٴ نساء میں فرمایا: ﴿إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ لِتَحكُمَ بَينَ النّاسِ بِما أَر‌ىٰكَ اللَّهُ...١٠٥ ﴾... سورة النساء
" بے شک ہم نے تیری طرف کتاب حق کے ساتھ اُتاری ہے ( اس میں باطل کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔ ساری کتاب حق ہی حق ہے) تاکہ آپ لوگوں کے درمیان ان احکام کی روشنی میں فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلائے ہیں۔"
سورة حم سجدہ میں فرمایا: ﴿لا يَأتيهِ البـٰطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ ۖ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ٤٢ ﴾... سورة فصلت"یہ اللہ کی کتاب ہے، ا س کے نہ آگے سے باطل آسکتا ہے، نہ پیچھے سے، اس لئے کہ اس ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو حکمت والی اور لائق ستائش ذات ہے۔" جب یہ کتاب حق کے ساتھ اُتاری گئی ہے، ا س میں حق ہی حق ہے، سچ اور صداقت ہیتو پھر ایک مسلمان کے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اس کتاب کوپڑھے لیکن اس پر عمل نہ کرے؟ قرآنِ مجید جس چیز کو حلال ٹھہرائے، اسے حرام سمجھے اور جسے حرام قرار دے، اسے حلال ٹھہرائے۔ اس لئے قرآنِ مجید کا تیسرا حق ہم پر یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔
پہلا حق تو یہ ہوا کہ انسان اسے ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھے۔ لیکن اس سے بھی پہلے ایمان بالقرآن ہے یعنی قرآن مجید پر ایمان لایا جائے۔ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور بڑی عظمت والی ہے۔ زبان سے تو ایمان سب ہی لاتے ہیں۔ لیکن دل سے ایمان لانا بھی مطلوب ہے۔ تو قرآن کا ہم پر پہلا حق ہوا: اس پر دل سے ایمان لانا۔ دوسرا ٹھہر ٹھہر کرتلاوتِ قرآن، تیسرا حق ہے اس کوسمجھنا، اس پر تدبر کرنا اور چوتھا حق اس پر عمل کرنا اور اپنے تمام جھگڑوں اور نزاعات میں اس کو 'حَکم' اور جج ماننا ۔ قرآن حکیم کے ادب اور اس کے احترام کا یہ تقاضا ہے کہ جب آپ نے اس کو سمجھ لیا، ا س پر عمل کرلیا تو یہ قرآن حکیم بہت بڑی نعمت ہے پھر اس نعمت کو دوسروں تک بھی پہنچایا جائے۔ فرمایا: ﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ٤٤ ﴾... سورة النحل " ہم نے آپ کی طرف ذکر کو نازل کیا (قرآن مجید کا ایک نام 'ذکر' بھی ہے) تاکہ آپ اسے دوسروں تک پہنچائیں، دوسروں کے سامنے کھول کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے، اور تاکہ وہ غور وفکرکریں۔"
قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد
لیکن افسوس کہ قرآن مجید سے روز بروز ہمار اتعلق کٹتا جارہا ہے۔ ہم قرآن مجید کے حقوق کوبھولتے جارہے ہیں۔ اب تو قرآن کے ساتھ ہمارا تعلق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ اسے عدالتوں میں حلف اٹھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، حلف چاہے سچا ہو یا جھوٹا۔ یا پھر چور پکڑنے کے لئے قرآنِ مجید کی آیات کو دیکھا جاتاہے۔ کہیں سفر پر جارہے ہوں تو جانے / نہ جانے کے لئے اس سے فال نکالی جاتی ہے یا پھر اس سے تعویذ گنڈے کئے جاتے ہیں۔ نزلہ ، زکام، کھانسی، بخار اور دوسرے ظاہری و باطنی امراض کے لئے تعویذ گنڈے دیئے جاتے ہیں جن کی باقاعدہ فیس مقرر ہے۔ پیروں فقیروں کا کاروبار خوب چل رہا ہے۔ کوئی تعویذ پانچ روپے کا ہے، کوئی دس کا، کوئی بیس کا۔ ہر چیز کی قیمتوں کے ساتھ تعویذوں کی قیمتیں بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔
لوگوں نے قرآنِ مجید پراس قسم کی کتابیں بھی لکھ ڈالی ہیں کہ اس کی فلاں آیت کی فلاں خاصیت ہے، اور فلاں کی فلاں!...اس سے انکار تونہیں کہ قرآن مجید سے ظاہری امراض کو بھی شفا نصیب ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ القُر‌ءانِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ...٨٢﴾... سورة الاسراء "ہم قرآن میں ایسی آیتیں اُتارتے ہیں جن میں شفا ہے" لیکن شفا کس چیز کی؟ اصل شفا اس بات کی ہے کہ ہمارے دلوں کی جوبیماریاں اور روگ ہیں، وہ دور ہوں۔ ا س لئے فرمایا: ﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ قَد جاءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّكُم وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ‌ وَهُدًى وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ٥٧ ﴾... سورة يونس "اے لوگو! تمہارے پاس ربّ کی طرف سے نصیحت آگئی اور اس میں شفا ہے، سینوں کی بیماریوں کا علاج ہے، اور یہ موٴمنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ "
سینے میں دل ہوتا ہے، ا س لئے دل میں جو کھوٹ اور غلط میلانات ہیں،غلط محبتیں،غلط نفرتیں ،غلط خواہشات اورغلط عقیدے ہیں، ان کو مٹانے اور ان کی اصلاح کے لئے قرآن مجید کونازل کیا گیا ہے۔ سینوں اور دلوں میں جو بیماریاں ہیں ان کے لئے قرآن 'شفا' ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن کریم پڑھنے سے نزلہ نہیں جائے گا، سر کا درد نہیں جائے گا، سرکا درد اور نزلہ بھی جاسکتا ہے لیکن کہنے کا مقصود یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد یہ نہیں ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ 'ٹوپی' جو سر پر رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ بازار گئے اورآپ نے دیکھا کہ لیموں بک رہے ہیں، آپ نے لیموں خریدے۔ پاس کوئی تھیلا نہیں تھا، آپ نے وہ لیموں ٹوپی میں ڈال لئے۔ اب دیکھئے اس سے آپ کا کام تو چل گیا لیکن ظاہر ہے کہ ٹوپی سر پر رکھنے کے لئے بنائی گئی ہے، لیموں رکھنے کے لئے تو نہیں۔
یا 'توپ' کی مثال لیجئے اس کے بنانے کا مقصد تو یہ ہے کہ اس کے استعمال سے دشمن کو ختم کیا جائے۔ آپ اگر اس سے مچھر اور مکھی مارنا چاہیں گے تو وہ مرتو جائیں گے، لیکن ظاہر ہے کہ توپ مچھر اور مکھی مارنے کے لئے تو نہیں بنائی گئی۔ ا س کا مقصد تو یہ ہے کہ ایک مسلمان مجاہد ا سے اسلام کے دشمنوں کے خلاف استعمال کرے۔
اسی طرح قرآن حکیم تعویذ گنڈوں کے لئے نازل نہیں کیا گیا۔ جاہلوں میں یہ چیز عام ہے ۔ پھر جہاں تعویذ گنڈے ہوتے ہیں وہاں عورتوں کا زیادہ ہجوم ہوتا ہے۔ کسی کو بچے کی طلب ہے، کسی کا کوئی اور مقصد ہے۔ ایک عورت جاتی ہے اورپیر صاحب سے کہتی ہے کہ مجھے ایسا تعویذ دو کہ میری بہو ٹھیک ہوجائے، اور میری تابع ہوجائے۔ دوسری جاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کو ایسا تعویذ دیاجائے کہ ا س کا شوہر اپنی ماں سے متنفر ہوکراس کا غلام بن جائے۔ ایسے اُلٹے سیدھے تعویذ بھی قرآن سے بنا لئے جاتے ہیں۔
بعض پیر نقوش بناکر دیتے ہیں جیسے نقش سلیمانی۔ اس طرح قرآن مجید کی آیات کو ایک کھیل بنا لیا گیا ہے۔ کوئی بیمار ہو، سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کردو، اللہ شفا دینے والا ہے ،اس سے انکار نہیں ہے لیکن اس کو سمجھو توسہی۔ اس کے علاوہ قرآن مجید ایصالِ ثواب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، جس کا عام رواج ہے۔ مردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے پڑھا جاتاہے، خواہ اس نے پوری عمر قرآن نہ پڑھا ہو اورکھول کر بھی دیکھنے کی توفیق نہ ہوئی ہو، مگر مرنے کے بعد اس کے لئے قرآن خوانی ضرورہوگی۔
میں کہتا ہوں کہ قرآن خوانی کے ساتھ قرآن دانی بھی ضروری ہے۔اب قرآن خوانی تو ہوتی ہے ، قرآن دانی نہیں ہوتی۔ ابھی ہمارے ایک عزیز کا انتقال ہوا، وہاں پر ہم گئے۔ ایک صاحب نے کہاکہ مرحوم کے لئے گیارہ قرآن ختم کئے گئے۔ میں نے کہاکہ گیارہ قرآن تو ختم کرلئے مگر قرآن میں اُترا ہے: ﴿اَقِيْمُوْا الصَّلوٰة﴾ تو اس پر بھی عمل ہوا کہ نہیں؟ تو معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید ختم کرنے والے ۱۰۰/افراد میں سے بمشکل گیارہ آدمی نماز پڑھنے والے ہوں گے۔ تو یہ قرآن مجید بس مردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے رہ گیا ہے، زندوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ موت والے دن، 'سوئم' میں، دسویں اور چالیسویں میں اسے پڑھ دو، برسی کے موقع پر اسے پڑھ دو اور بس معاملہ ختم۔ حالانکہ قرآنِ مجید کے نزول کامقصد تو یہ تھا کہ اس کو سمجھ کرپڑھا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے، زندہ چلتے پھرتے انسانوں کے مردہ دلوں کو زندہ کیا جائے۔ ان کے اخلاق، عقیدے اورعمل کی اصلاح کی جائے، افسوس کہ اس مقصد کو فراموش کردیا گیا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیا گھر بنایا جائے یا نئی دکان کھول لی جائے تو اس میں برکت کے لئے قرآن خوانی ہوتی ہے۔ لیکن دکان میں کاروبار کس طرح کا ہوگا، اس سے کسی کوکوئی غرض نہیں۔ بعض لوگ تو غضب کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے شراب خانہ کھولا تو اس کے افتتاح کے موقع پر قرآنِ مجید کی تلاوت کرادی حالانکہ وہاں تو یہ آیت صادق آتی ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ٩٠ ﴾... سورة المائدة
"اے ایمان والو! یہ شراب اور جوا، یہ آستانے او رپانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاسکو۔"
اسی طرح رمضان المبارک ،عید الفطر یا عید الاضحی کے مبارک ایام سے فحش فلموں کا سینماؤں میں افتتاح کرنا بھی ہمارے ہاں روزمرہ کا معمول ہے۔ لوگوں نے قرآنِ مجید کا مذاق بنا رکھا ہے۔ یہاں پر اگر قوالی ،کوئی مشاعرہ یا فلم ہوتی تو آپ دیکھتے کہ لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے، لیکن قرآنِ مجید کا بیان ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت یا آپ کی سیرت کا بیان ہو تو بس دو چار اللہ کے بندے آجاتے ہیں۔ یہ ہمارا حال ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں آتا ہے کہ قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے بارے میں یوں شکوہ کریں گے: ﴿وَقالَ الرَّ‌سولُ يـٰرَ‌بِّ إِنَّ قَومِى اتَّخَذوا هـٰذَا القُر‌ءانَ مَهجورً‌ا ٣٠ ﴾... سورة الفرقان "رسول کہے گا: اے میرے پروردگار! میری قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا (اِس پر عمل کرنا ترک کردیا تھا)۔"
اب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگ بچوں کو ناظرئہ قرآن بھی نہیں پڑھاتے، حفظ کرانا تو بڑی بات ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کون حفظ کرائے، حفظ کرانے میں چار سال لگیں گے۔ چار سال میں تو بچہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ میٹرک کرنے میں سولہ سال لگتے ہیں (یعنی سولہ سال کی عمر میں بچہ میٹرک پاس کرلیتا ہے) حفظ کرائیں گے تو کہیں بیس سال میں جا کر کرے گا۔ کچھ لوگوں نے تحقیق کی کہ کالجوں میں اخلاق و کردار کے لحاظ سے کون سے لڑکے اچھے ہوتے ہیں تو سروے کے بعد معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے بچپن میں قرآنِ مجید ناظرہ پڑھا تھا، کالج میں بھی وہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ یہ قرآن مجید کی برکت ہے۔ اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو یہ بڑی بات ہے۔ لیکن اگر ناظرہ ہی پڑھ لیا جائے تو اس میں بھی برکت ہوتی ہے، اور انسان کا اپنے ربّ کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق ہوجاتا ہے۔
یہ معاملہ اب گھٹتا جاتا ہے۔پہلے بچے نہ صرف ناظرہ پڑھتے تھے، بلکہ حفظ کرتے تھے، انہیں اس کا شوق ہوتا تھا۔اب وہ زمانہ لدگیا۔ اب نہ حفظ کا وہ چرچا ہے ، نہ پہلے جیسے قرآن مجید پڑھنے والے ہیں۔ پہلے عورتیں تک قرآنِ مجید حفظ کرتی تھیں، وہ حافظہ ہوتی تھیں، ان میں باہم ایک دوسرے سے مقابلہ ہوتا تھا۔ اب مقابلہ اس کانہیں ہوتا کہ اللہ کے دین کا کتنا علم حاصل کیا، قرآن کتنا پڑھا۔ اب مقابلہ کھیلوں کا ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے ساتھ ہمارا یہ سلوک نہایت افسوسناک ہے!!
بعض لوگوں میں حفظ ِقرآن بھی رواج او رفیشن کے طورپر چل نکلا ہے۔ حفظ ِقرآن ایک قابل تعریف امر ہے لیکن حافظ ِقرآن کا صرف حفظ پر اکتفا کرلینا اور قرآن کریم کے ترجمے اوردینی تعلیم وتربیت کے حصول سے صرف ِنظر کرنے کا رویہ مناسب نہیں۔ ایسا حفظ جس پر نہ عمل کیا جائے اور نہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں ، روزِ قیامت وبالِ جاں ہوگا، اللہ تعالیٰ بچائے۔حفظ قرآن دراصل ایک سیڑھی ہے جو اگر دینی تعلیم اور دینداری کی طرف لے جائے تو کیا کہنے ، وگرنہ آج بعض حافظ ِقرآن فلموں میں اداکاری کرتے یا برے پیشے اپناتے بھی مل جائیں گے۔ایسے حفظ قرآن کا کوئی فائدہ نہیں جوحافظ کو اسلام سے غافل کردے۔

تفسیر سورة العصر

قرآنِ مجید کے ساتھ ہمارا تعلق کیسے قائم ہو اور اس کو کس طرح ہم سمجھیں؟ اس سلسلہ میں، میں نے ابتداء میں سورة العصر پڑھی تھی جو نمازوں میں اکثر پڑھی جاتی ہے۔ دو سطروں میں لکھی جانے والی یہ سورت اتنی جامع ہے کہ گویا سمندر کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔اَلفاظ تھوڑے ہیں لیکن معانی و مطالب بہت وسیع ہیں۔ فرمایا: ﴿وَالعَصرِ‌ ١﴾... سورة العصر "قسم ہے زمانہ کی"۔ اللہ تعالیٰ نے زمانہ کوبطور گواہ کے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کوئی قسم بیان فرماتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے گواہ بناتے ہیں۔ یعنی بعد میں جس با ت کو بیان کرنا ہوتا ہے، اس کے لئے پہلے اپنی مخلوق میں سے کسی کو گواہ بنا لیتے ہیں، یعنی جو بات آگے بیان کی جارہی ہے، جو دعویٰ پیش کیا جارہا ہے۔ اس دعویٰ کی سچائی اور صداقت پر زمانہ گواہ ہے۔ شروع سے لے کر اب تک کی تاریخ گواہ ہے، قوموں کی تاریخ پڑھ جایئے تو معلوم ہوگا کہ تمام انسان گھاٹے میں ہیں مگر وہ جنہوں نے چار اصول اپنا لئے، جنہوں نے چار باتوں پر عمل کیا، وہ گھاٹے سے پاک ہوگئے۔ یہ گویا قرآن مجید کا دعویٰ ہے۔
عَصرکے معنی عربی زبان میں 'نچوڑنے' کے آتے ہیں۔ جیسا کہ سورة یوسف میں فرمایا: ﴿إِنّى أَر‌ىٰنى أَعصِرُ‌ خَمرً‌ا...٣٦ ﴾... سورة يوسف "میں دیکھ رہا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں۔" ع ص ر (عصر) ا س کا معنی نچوڑنا ہوا۔ زمانہ کو عصر(نچوڑنا) سے تعبیر اس لئے کیا گیا ہے کہ جیسے عرق آپ نے نچوڑ لیا تووہ واپس نہیں جاسکتا۔ اگر آپ لیموں کا عرق نچوڑ کر چاہیں کہ عرق پھر واپس لیموں میں چلا جائے تو یہ ناممکن ہے۔ سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے لیکن اب تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو گنے سے نکلے ہوئے رس کو واپس گنے میں ڈال دے اور گناہ پھر تازہ ہوجائے۔ گنے کا رس گنے میں واپس نہیں جاسکتا، لیموں کا عرق دوبارہ لیموں میں واپس نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح زمانہ ہے کہ جو گذر گیا واپس نہیں آسکتا۔
زمانہ کو عصر اسی لئے کہتے ہیں کہ زمانہ گویانچوڑا ہوا رَس ہے جو واپس نہیں آسکتا۔اسی طرح بوڑھے آدمی کی جوانی واپس نہیں آسکتی۔ جو جوان ہیں، ان کا بچپن واپس نہیں آسکتا۔ جو گزر گیا، سو گزرگیا۔ کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے *

ليت الشباب يعود يومًا       فأخبرہ بما فعل المشيب
"کاش! جوانی لوٹ آتی تو میں اسے بتاتا کہ بڑھاپے نے مجھ پر کیا ستم ڈھائے ہیں..."

جھریاں پڑگئی ہیں، دانت ٹوٹ گئے ہیں، معدہ خراب ہوگیا ہے، کھانا ہضم نہیں ہوتا، بری حالت ہوگئی ہے، مگر جوانی تو واپس نہیں آسکتی، وہ کیسے واپس آئے گی۔ تو معلوم ہواکہ گیا بچپن واپس نہیں آسکتا، گئی جوانی واپس نہیں آسکتی، ادھیڑپن کی گئی عمر واپس نہیں آسکتی ، اسی طرح بڑھاپا آگیا تو واپس نہیں جاتا․
بڑھاپے کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک بڑھاپا تو وہ ہے جب انسان چل پھر سکتا ہے اور دوسرا بڑھاپا وہ ہے جب وہ صاحب ِفراش ہوجاتا ہے کہ بس پلنگ پر پڑا ہوا ہے، خدا اس سے بچائے!۔ حقیقت میں بڑھاپا بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔ تو فرمایا ﴿وَالْعَصْرِ﴾ "قسم ہے زمانہ کی!" اِنَّ کا معنی ہے بے شک، جو تحقیق کے معنی میں آتا ہے۔ ﴿الانسان﴾ ال کے معنی یہاں 'تمام' کے ہیں۔ عربی میں 'ال' کی ایک صورت ، انگریزی کے لفظThe سے ملتی جلتی ہے جو 'خاص' (معرفہ بنانا)کا معنی دیتی ہے اور عربی 'ال' کی ایک اور صورت انگریزی کے All کے معنی میں آتی ہے جس کے معنی 'تمام' (استغراق) کے ہوتے ہیں۔ اس جگہ دوسرا 'ال' (استغراقیہ) مراد ہے۔
زمانہ گواہ ہے کہ بے شک تمام انسان گھاٹے میں ہیں، خسارے میں ہیں: ﴿إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا﴾ مگر جو لوگ ایمان لے آئے۔ 'ایمان' کے معنی یقین کے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کے رسولوں پر ایمان، بالخصوص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، آپ کی رسالت پر ایمان، آپ کی نبوت پر ایمان، آپ کے خاتم النّبیین ہونے پر ایمان، جو کچھ بھی آپ لائے ہیں اور جو کچھ بھی آپ نے فرمایا ہے اس پر ایمان ، آپ کے سچے ہونے پر ایمان، آپ کے امانتدار ہونے پر ایمان، آپ کے حیادار ہونے پر ایمان۔ غرضیکہ جتنے بھی اچھے اخلاق ہوسکتے ہیں، اس بات پر ایمان لانا کہ ان سب سے آپ متصف تھے۔
ایمان تین ہیں: اوّل اللہ تعالیٰ پر ایمان، دوم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات قرآن مجید اور جوحدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان پرایمان، سوم آخرت پر ایمان۔ یہ تینوں ایمانیات بنیادی ہیں۔ اسی لئے آپ مکی سورتوں میں دیکھیں گے کہ ایمان کے ضمن میں عقیدہٴ توحید اور آخرت کا اکثر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ جب تک یہ پختہ نہ ہوں، ان کے مطابق دل و دماغ کی اصلاح نہ ہو، اس وقت تک صحیح معنوں میں اچھا عمل ہو نہیں سکتا کیونکہ عمل کی بنیاد بھی ایمان ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے ایک انگارہ سامنے رکھا ہوا ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ آگ جلاتی ہے، انگارے کو ہاتھ لگائیں گے تو ہاتھ جل جائے گا جھلس جائے گا۔ اس لئے آپ اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے، لیکن ایک چھوٹا سا معصوم بچہ ہے، اسے پتہ نہیں یہ انگارہ کیا چیز ہے۔ اس کے لئے تو وہ کھلونے کی مانندایک چمکدار چیز ہے۔ وہ اسے اٹھانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھائے گا۔ اگر آپ نہ روکیں گے تو وہ ہاتھ جلا بیٹھے گا۔ بس اس یقین کا نام ایمان ہے کہ آگ جلا دیتی ہے۔ اسی طرح جن کا ایمان دوزخ پر ہے وہ ایسے کام کیوں کریں گے جو دوزخ کی آگ میں لے جانے والے ہیں۔ اب جن کا ایمان نہیں ہے، وہ ہر کام کرلیتے ہیں، انہیں جنت و دوزخ کی پرواہ نہیں ہوتی، تو جزا وسزا پر ایمان ہونے یا نہ ہونے کا فرق یہ ہے۔ ان کا انجام وہی ہے جو کافروں اور منکرین کا انجام ہوتا ہے اور جو اس بچہ کا انجام ہوتا ہے جو انگارہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور اپنا ہاتھ جلا لیتا ہے۔ اس لئے فرمایا گیا ہے: ﴿إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا﴾" مگر وہ جو ایمان لے آئے"۔
(۱) ایمان باللہ : بنیادی معاملہ عقیدئہ ایمان کا ہے۔سب سے پہلے ایمان باللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر ایمان، اس کی ذات پر ایمان، اس کے اختیارات پر ایمان، اس کے حقوق پرایمان ، یہی دراصل توحید ہے اور یہی ایمان باللہ کے معنی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں۔ اله واحد: اللہ ایک ہی ہے۔ اس کے ساتھ کسی اور کو الٰہ ماننا شرک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان لانا ضروری ہے جو توحید کی صفات کہلاتی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں وہ بندوں بلکہ کسی بھی مخلوق میں نہیں مانی جاسکتیں۔ حتیٰ کہ انبیاءِ کرام اور اولیاءِ کرام میں نہیں مانی جاسکتیں، جو اللہ کی صفات ہیں وہ اسی کے لئے خاص ہیں۔ مثلاً وہ حی و قیوم ہے، وہ زندہ رہنے والا ہے، ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی شریک نہیں۔ باقی سب کے لئے فنا ہے، اس کے لئے فنا نہیں ہے( لم يزل، لا يزال)۔ اللہ تعالیٰ کی ایک اور صفت قرآن مجید میں عالم الغیب والشهادة بیان ہوئی ہے کہ وہ ظاہر اورپوشیدہ ہرایک کی خبر رکھتاہے جبکہ کسی دوسرے کو کچھ خبر نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے :
﴿وَما تَدر‌ى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا ۖ وَما تَدر‌ى نَفسٌ بِأَىِّ أَر‌ضٍ تَموتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ‌ ٣٤ ﴾... سورة لقمان "کسی جان کو معلوم نہیں کہ کل اس کے ساتھ کیا ہوگا اور اسے نہیں معلوم کہ اس کی موت کہاں آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ خبر رکھنے والا، جاننے والا ہے!"
حدیث میں آتا ہے کہ ایک شادی میں ایک لڑکی شعر پڑھ رہی تھی (چھوٹی بچیاں گیت گارہی ہوں گی) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ بچی نے یہ مصرعہ پڑھا: «فینا نبي یعلم ما في غد» "ہمارے درمیان ایسا نبی ہے جو جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا۔" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "خبردار! ایسا نہ کہو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے!" قرآن کریم میں ہے ﴿إِنَّمَا الغَيبُ لِلَّهِ...٢٠ ﴾... سورة يونس "غیب کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے!" وہ کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے، وہی قادرِ مطلق ہے۔ رحمن، رحیم اور مالک ہے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر صفات اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں او راس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا۔
(۲) ایمان بالرسول: اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سب سے اونچی ہے۔ آپ سب سے افضل اور سب سے اعلیٰ ہیں۔ کوئی کتنا ہی متقی، نیک، زاہد، عابد اور صوم و صلوٰة کا پابند ہو۔ کوئی کتنی ہی عبادت کر لے ، ریاضت کرلے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن جو صفات خاص اللہ تعالیٰ کی ہیں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں، کسی نبی اور ولی میں نہیں پائی جاسکتیں۔
اللہ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہ نہیں: مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ بخشنے والا اورمعاف کرنے والا ہے، وہ 'رحمن' و'رحیم' ہے، اس کی رحمت بے پایاں ہے۔ جبکہ 'رحیم' کالفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے لیکن یہ رحمت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اور اس کی مخلوق ہے۔ جبکہ اللہ کی رحمت لامحدود ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت محدود ہے، اس لئے اصل رحمت کی صفت اللہ کی ہے۔
توحید کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جو بندوں کی صفات اور ان کی کمزوریاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت نہ کی جائیں۔ اگر آپ نے یہ ثابت کردیا تو یہی شرک ہوگا۔ مثلاً باپ ، بیٹا ، شوہر یا بیوی ہونا انسانوں کی صفات ہیں۔ایسا مخلوق میں ہی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے : ﴿لَم يَلِد وَلَم يولَد ٣ وَلَم يَكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ٤ ﴾... سورة اخلاص "نہ وہ کسی کا بیٹا ہے، نہ کسی کا باپ ہے، نہ کوئی اس کا ہمسر ہے، وہ سب سے بالاتر ہے(نہ اس کی بیوی ہے، نہ اس کے بچے ہیں!)"
معلوم ہوا کہ بندوں کی صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرنا اصل توحید کے خلاف ہے۔ اسی طرح خاص اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندوں کے لئے ماننا، خواہ وہ کتنے ہی اونچے درجہ کے انسان ہوں، یہ بھی توحید کے خلاف ہے۔ تو پہلا ایمان' ایمان باللہ' ہے یعنی اس کی ذات پر ایمان، اس کی صفات پر ایمان، اس کے اختیارات پر ایمان، اس کے حقوق پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ کامل ہے، وہ رحیم وخالق اورقادرِ مطلق ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن لوگ پریشان ہوں گے، اُمتیں پریشان ہوں گی، امت ِمحمدیہ بھی پریشان ہوگی۔ اس پریشانی کے عالم میں لوگ مختلف انبیاءِ کرام کے پاس جائیں گے۔ حضرت آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، سب کے پاس جائیں گے۔ سب یہی کہیں گے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ تو سب کے سب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے، اور کہیں گے کہ آپ ہماری شفاعت کیجئے تو آپ فرمائیں گے: اُمّتی، اُمّتی! ہاں میں سفارش کروں گا۔ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجودہے کہ میں اپنے ربّ کے سامنے سجدہ میں گر جاؤں گا اور طویل سجدہ کروں گا۔ اپنی اُمت کو بخشوانے کے لئے اپنے ربّ سے التجائیں کروں گا، گنہگاروں کو بخشوانے کے لئے ان کی شفاعت کی دعائیں کروں گا، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: «يَا مُحَمَّد اِرْفَعْ رَأسَکَ سَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ» "یا محمد! اپنا سر اٹھائیے اور مانگئے، آپ کو دیا جائے گا۔ اور شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔"یہی توحیدہے ،ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کچھ فرما رہے ہیں، اور رسول اللہ کچھ کہہ رہے ہوں ، اور رسول اللہ کا ارشاد اللہ تعالیٰ کے حکم پر غالب آجائے اور اللہ کو وہی کرنا پڑے جو رسول اللہ کی مرضی ہو۔ یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ کا حکم ہر حال میں غالب رہے گا۔ قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿وَلا يَشفَعونَ إِلّا لِمَنِ ار‌تَضىٰ...٢٨ ﴾... سورة الانبياء "نہیں شفاعت کریں گے مگر ان کے لئے جنہیں اللہ نے پسند کرلیا ہے، اور اس کی اجازت کے بغیرکوئی شخص بھی شفاعت نہیں کرسکے گا۔"یہ وہ حقیقت ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اگر قرآن کو اس طرح سمجھا جائے تو اصل توحید نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔
اللہ پر ایمان لانے کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاناہے۔ ہمیں قرآن مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملا ہے، کیونکہ آپ نے یہ بتایا کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ جب تک ہم آپ کو سچا نہیں مانیں گے اور آپ کی رسالت او رنبوت پر ایمان نہیں لائیں گے، ہماری نجات نہیں ہوسکتی۔ کوئی شخص کتنا ہی اللہ پر ایمان لے آئے، لیکن اگر وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر، آپ کے پیغمبر ہونے پر، آپ کے سچے نبی ہونے پر ایمان نہیں لاتا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نجات نہیں ہوسکتی۔اسے کیسے خبر ہوئی کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تب ہی معلوم ہوا، اور آپ کو رسول کیسے مانا؟ اس لئے کہ آپ سچے اورامین تھے۔ مشرکوں ، کافروں اور دشمنوں نے بھی اس کی گواہی دی۔ جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ جھوٹے ہیں، کافروں نے بھی یہ نہیں کہا کہ آپ جھوٹے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صادق اور امین ہیں :
﴿فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرً‌ا مِن قَبلِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ ١٦ ﴾... سورة يونس
"میں نے تمہارے اندر ایک لمبی مدت گزاری ہے، پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے!"
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ چالیس برس تک اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، خیانت اوربے ایمانی نہیں کی اور چالیس برس ہونے کے بعد ہی جب کہ انسان زیادہ سنجیدہ ہوجاتا ہے، اس میں اتنی جرأت آگئی کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اورکہتا ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ دلیل اپنی پچھلی زندگی پیش کی کہ میں نے تم میں ایک لمبی مدت گزاری ہے۔ پھر تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ کیا تم میں عقل نہیں ہے؟ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ کی وہ صفات جو قرآنِ مجید اور صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں کہ آپ مبشر ومنذر ہیں، آپ نذیر اور سراجِ منیر(روشن چراغ ،روشن آفتاب)ہیں۔ان تمام صفات پرایمان لانا بھی ایمان کی ایک شاخ اوراس کا اہم حصہ ہے۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، خواہ وہ بروزی ہو، خواہ مستقل ہو، خواہ غیر مستقل۔ حضور کی صفت خاتم النّبیین قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے: ﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِ‌جالِكُم وَلـٰكِن رَ‌سولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ...٤٠ ﴾... سورة الاحزاب "محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں"۔ یعنی تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں، آپ نے تمام نبیوں کی آمد پر مہرلگا دی۔ اب آپ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا، قیامت تک اب آپ کی نبوت چلے گی۔ اب کوئی نبی نہیں آسکتا جو آپ کی نبوت کو ختم کردے یا اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرے یا آپ کا ظل اور بروزی بن کر اپنا کاروبار چمکائے۔
(۳) ایمان بالآخرت : ایمان باللہ اور ایمان بالرسالہ کے بعد تیسرا ایمان بالآخرت ہے۔ آخرت پر ایمان کامطلب یہ ہے کہ دنیا میں اگر ہم اچھے کام کریں گے تو اس کا بدلہ آخرت میں اچھا ملے گا، اور اگر یہاں برے کام کریں گے تو آخر میں برے بدلے سے ہمکنار ہوں گے۔ایمان بالآخرت کے بغیر ہماری دنیا نہیں سنورسکتی۔ ایمان لانے سے جنت تو ملے گی، لیکن اگر لوگ آخرت پر صحیح معنوں میں ایمان لے آئیں تو دنیا بھی ملے گی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رات کو گھوم رہے تھے۔ یہ آپ کی عادت تھی کہ آپ خلافت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے بے چین رہتے تھے۔ راتوں کو گھوم کررعایا کو دیکھتے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا، کوئی یتیم تو نہیں رو رہا، کوئی بیوہ تو بے چین وبے قرار نہیں ہے۔ اپنا خادم ساتھ لیتے اور رات کو شہر کا گشت لگاتے تھے۔ چنانچہ اس رات گھومتے گھومتے ایک گھر کے پاس سے گذرے۔ صبح کا وقت قریب تھا، اذان ہونے والی تھی، ایک بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی: بیٹی دودھ میں پانی ملا دو تاکہ زیادہ فائدہ ہوسکے۔بیٹی سمجھدار تھی، اس نے کہا کہ خلیفہ کا حکم ہے ،میں تو نہیں ملاتی۔ بڑھیا نے کہا کہ کون سا عمر دیکھ رہا ہے، ملا دے نا! کیونکہ حضرت عمر فاروق کا بڑا رعب داب تھا او رپھر ان کے پاس کوڑا اور دُرّہ تھا۔ لڑکی نے جواب دیا: ہاں عمر تو نہیں دیکھ رہا مگر عمر کا اللہ تو دیکھ رہا ہے، وہ عالم الغیب ، احکم الحاکمین اور ربّ العالمین دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر فاروق کو لڑکی کا یہ جواب بہت پسند آیا۔ آپ نے اپنے خادم سے کہا کہ اس گھر پر نشان لگا دو، کل ہم اس گھر میں اپنے لڑکے کے لئے رشتے کا پیغام بھجوائیں گے۔ تو یہ تھی لڑکی جو حضرت عمر فاروق کی بہو بنیں اور حضرت عمر  بن عبدالعزیز کی نانی ہوئیں۔ اس زمانہ میں لڑکی کے انتخاب کا معیاریہ تھا، آج معیار بدل چکے ہیں۔ بہرحال ایمان بالآخرة آپ کے لئے اس دنیا میں خالص دودھ اور گھی ملنے کا ذریعہ بن جاسکتا ہے۔
اگر گھی دودھ اور مصالحے و غیرہ بیچنے والے آخرت پر ایمان رکھتے ہوں تو ملاوٹ اوربے ایمانی ختم ہوجائے، ہر چیز خالص ملنے لگے، رشوت کابازار ختم ہو۔ رشوت یہاں لوگ دیتے بھی ہیں اورکھاتے بھی ، اس لئے کہ آخرت پر ایمان نہیں ہے، ایمان بالغیب نہیں ہیبلکہ صرف ایمان بالشہود ہے۔ ایمان بالشہود کے معنی ہیں جو چیز سامنے نظر آرہی ہے ، صرف اسی پر ایمان لاؤ۔ اگر کوئی شخص ہزار روپے رشوت دے رہا ہو تو یہ سامنے کی چیز ہے، لے لی جائے گی، آخرت کی خبراللہ جانے، جب آئے گی تودیکھا جائے گا۔ جہنم کا عذاب اور آگ کے شعلے تو دور کی باتیں ہیں، اس وقت تو ہزار روپے مل رہے ہیں، انہیں لے کر مزے کرو۔ لیکن اگر آخرت پر ایمان ہو تو یہ نہیں ہوسکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لعن الله الراشي والمرتشي والرائش» "لعنت ہے راشی پر یعنی رشوت دینے والے پر والمرتشی اور رشوت قبول کرنے والے پر اور جو ان دونوں کے درمیان دلالی کرتا ہے!" بڑے افسر خود تو رشوت نہیں لیتے، ان کے دلال اور ایجنٹ یہ سب کام کرا دیتے ہیں اور رشوت وصول کرکے افسر تک پہنچا تے ہیں۔ اس میں خود ان کا اپنا حصہ بھی ہوتا ہے۔ اب اگر آخرت پرایمان ہے تو پھر یہ دھندے نہیں چل سکتے، یکلخت سب ختم ہوجائیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ یہودیوں کے پاس گئے تھے۔ یہودیوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوچکا تھا کہ باغ میں جو پھل آئیں گے اس کا نصف وہ رکھیں گے اور نصف حصہ مسلمانوں کا ہوگا۔ تو مسلمانوں کانصف حصہ وصول کرنے کے لئے وہ صحابی  پہنچے۔ یہودیوں نے انہیں رشوت دینا چاہی کہ وہ مسلمانوں کا حصہ کم وصول کرلیں۔ مثلاً کھجوریں اگر حصہ میں ساٹھ من آتی تھیں تو کہا ہوگا کہ چالیس من لے جاؤ، بقیہ کے بدلے میں ہم سے کچھ رقم لے لو۔ آج کل کے لوگ ہوتے تو فوراً قبول کرلیتے۔ اپنا فائدہ دیکھتے، چاہے مسلمانوں کا بیت المال بالکل خالی ہوجائے۔ لیکن انہوں نے کہاکہ ایساکبھی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ساری کھجوروں کے برابر برابر دو حصے کردیئے اور یہودیوں سے کہا کہ ایک حصہ وہ لے لیں اور دوسرا حصہ انہوں نے بیت المال میں جمع کرا دیا۔ دل میں اگر خوفِ آخرت ہو تو کوئی طمع انسان کو راہِ راست سے نہیں ہٹاسکتی۔ دنیا میں اگر امن کا بول بالا ہوسکتا ہے، عدل و انصاف قائم ہوسکتا اور راحت حاصل ہوسکتی ہے تو اس کی ایک ہی شکل ہے کہ اللہ تعالیٰ پراس کی صفات کے ساتھ ایمان، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آخرت پر ایمان پختہ اور یقینی ہو۔ اگر یہ نہیں ہے تو پھر یہ دنیا جہنم ہے۔ چاہے آپ کتنے ہی مارشل لا لگا دیں، کتنے ہی کوڑے ماریں اور کچھ ہی کیوں نہ کرڈالیں۔ اگر دل میں ایمان نہیں اُترا تو لوگ حیلے نکال لیتے ہیں۔
اب مثلاً حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ شادی بیاہ میں بیس سے زائد آدمیوں کو کھانا نہ کھلایا جائے۔ لیکن کل میں ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوا تو وہاں تقریباً پانچ سو آدمیوں کو کھاناکھلایاجارہا تھا۔ حیلہ یہ کیا گیا کہ ولیمہ کی جگہ عقیقہ کانام دے دیا ، دراصل تو ولیمہ تھا لیکن ظاہر عقیقہ کیا گیا۔ اس لئے کہ ولیمہ میں افراد پر پابندی ہے جبکہ عقیقہ میں نہیں۔ ایمان دل میں نہ ہو تو قانون کی پابندی سے بچنے کے لئے سینکڑوں حیلے تراش لئے جاتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں ایک بہت ہی نیک مجاہد فوجی تھا جس کے کپڑے پھٹے، پیوند لگے تھے اورکمبل بھی پرانا لپٹا ہوا تھا۔ اس کو کسریٰ کا تاج پڑا ملا، بہت ہی قیمتی موتی، ہیرے جواہرات سے مرصع۔ وہ اسے اپنے پھٹے پرانے کمبل میں لپیٹے رات کی تاریکی میں لے کر اپنے سپہ سالار کے پاس آیا او رکہا کہ یہ تاج مجھے پڑاملا ہے، آپ وصول کرلیجئے اور مدینہ بھیج دیجئے، یہ مسلمانوں کا حق ہے ، بیت المال میں جمع کرا دیجئے۔اگر وہ چاہتا تو تاج کی کسی کو خبر نہ دیتا، پورا تاج ہضم کرجاتا یا اس میں سے کچھ قیمتی موتی چرا لیتا لیکن جیسا اس کو ملا تھا، ویسا ہی اس نے حوالے کردیا او رکمال یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں کمبل میں چھپا کر خاموشی سے لے گیا۔ وہ اس لئے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بڑا ایماندار ہے۔
ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر ذرا سا سماجی کام کردیں تو اتنی رقم اس کام میں خرچ نہ کریں گے جتنی اس کام کی نمائش میں اور تشہیر میں اڑا دیں گے۔غریبوں کی مدد کرنے یا سیلاب زدگان کو کوئی عطیہ دینے جارہے ہوں تو فوٹو گرافروں کو ساتھ لے جائیں گے۔ ذرا سا نیکی کا اگر کوئی کام کیا تو اس کی شہرت ہوگئی۔ اخبار میں خبر شائع ہوگئی، کسی غریب کو کوئی عطیہ دیتے ہوئے فوٹو شائع ہوگیا کہ یہ ہیں وہ صاحب جنہوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ہے۔ وہ جو کسی نے کہا (غالباً حضرت عمر فاروق  نے کہا تھا) کہ ہمارے مجاہد تو بڑے امانتدار ہیں۔ انہیں کسریٰ کا تاج ملا اور فوراً سپہ سالار کے حوالے کردیا تو جواب میں حضرت عمر کے ساتھی ایک صحابی نے کہا کہ بات یہ ہے عمر! تم امانتدار ہو تو یہ بھی امانتدار ہیں۔ تم دیکھتے ہو کہ یہ جائز ہے، وہ ناجائز ہے، یہ حلال ہے وہ حرام ہے، تو تمہاری رعایا بھی ، تمہارے فوجی اورمجاہد بھی غلط کاموں سے بچے ہوئے ہیں اور جائز اور ناجائز ، حلال وحرام کی تمیز روا رکھتے ہیں۔ جب ایسا ایمان ہوگا تو اس کا نتائج اور ثمرات بھی ویسے ہی ہوں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق
﴿وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ "اس کاپھل نیک عمل ہیں۔" یہ ناممکن ہے کہ دل ایمان سے لبریز ہو، اور اس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا خوف رچا بسا ہواور ساتھ رسول اللہ کی محبت بھی دل میں جاگزین ہو اور پھر عمل صالح دل میں نہ ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آدمی جھوٹ بھی بولتا رہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کا دعویٰ بھی کرے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کا بوڑھا باپ بیمار ہو، بیٹا کہتا ہے: ابا جان! مجھے آپ سے محبت ہے جو بڑی شدید ہے، میں آپ کی محبت میں مرا جارہا ہوں، آپ کی بیماری دیکھ دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہورہی ہے، کاش! آپ کی جگہ میں مرجاؤں اور آپ زندہ رہیں۔ آپ میرے بڑے محسن ہیں، بہت کرم فرما ہیں، منہ پر بے حد تعریف کرتاہے۔باپ کہتا ہے:بیٹے! میں اس وقت شدید تکلیف میں ہوں، تم ڈاکٹر کے پاس جاکر میرے لئے دوا لے آؤ، بیٹا کہتاکہ تھوڑی دیر کے لئے صبر کیجئے، ایک بڑی شاندار فلم آرہی ہے، میں ذرا اسے دیکھ لوں اس کے بعد دوا لے آؤں گا۔ چاہے اتنے عرصے میں باپ قبرستان پہنچ جائے۔ تو ایسی ہی ہماری محبت کا حال ہے۔ ہم زبان سے کہتے تو ہیں کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے بڑی محبت ہے۔ لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو صاف طرح دے جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تو یہ تھا کہ نماز کے لئے بیماری کی حالت میں بھی مسجد آتے تھے او رجماعت سے نماز نہیں چھوڑتے تھے۔دو آدمیوں کے کاندھوں پرہاتھ رکھ کر آپ کے قدم لکیر کھینچتے آتے تھے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خراٹے لیتے رہتے ہیں او راس وقت سو کر اٹھتے ہیں جب سورج طلوع ہوچکتا ہے اور پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے بڑے چاہنے والے اور محب ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حق یہ ہے کہ آپ سے محبت ہونی چاہئے، آپ کی محبت دل میں گھر کر جائے۔ حدیث میں آتا ہے:« لاَ يُوٴْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِه وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ»کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ اور دنیا بھر کی مخلوق سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔"
آپ کادوسرا حق یہ ہے کہ آپ کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی عظمت اور بڑائی بھی تسلیم کی جائے۔ محبت تو انسان اولاد سے بھی کرتا ہے، بیوی سے بھی اور دوستوں سے بھی لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت ہونی چاہئے کہ جس کے ساتھ عظمت بھی ہو، بڑائی اورتعظیم بھی ہو، کیونکہ اگر تعظیم نہ ہو تو وہ محبت بیکار ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا حق ہے: آپ کی اطاعت، آپ کا اتباع اور آپ کی سنت کی پیروی۔ آپ کہتے ہیں محبت تو بہت ہے لیکن اگر اطاعت نہیں ہورہی تو یہ کیسی محبت ہے۔ زبان سے تو آپ محبت محبت بہت کہیں لیکن اصل چیز ہے آپ کے احکام اور اس شریعت کی اطاعت جسے آپ لے کر آئے ہیں۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جسے آپ نے حلال ٹھہرایا ہے،اسے حلال سمجھا جائے جسے حرام قرا ردیا ہے، اسے حرام سمجھا جائے۔ جسے آپ نے پسند یا ناپسند کیا ہے، وہی ہماری بھی پسند یا ناپسند ہو۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے، محبت کا دعویٰ غلط ہے۔ اب یہ ہے کہ اطاعت کیسے ہوگی اور محبت کس چیز کا نام ہے اور تعظیم کسے کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ٦٥ ﴾... سورة النساء
"قسم ہے تیرے ربّ کی یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ آپ کو ان تمام معاملات میں حکم اور جج نہ بنائیں جن میں یہ جھگڑتے ہیں اور آپ کے فیصلے کو سن کر کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ خوشی خوشی اس فیصلے کومان جائیں۔"
مطلب یہ کہ آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوجائیں اور دل بھی باغ باغ ہوجائے۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کردیں، چاہے اس سے بظاہر کتنا ہی نقصان نظر آرہا ہو، یہی ﴿إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ...٣ ﴾... سورة العصر"کا مطلب ہے۔ صٰلحٰت کے سلسلے میں ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ الصلحت کے معنی ہیں خاص قسم کی نیکیاں۔ اس میں جو 'ال' کے معنی وہی ہیں جو انگریزی میں The کے ہوتے ہیں۔ The Book کے معنی خاص کتاب۔ الصلحتکے معنی ہیں خاص نیکیاں۔ وہ نیکیاں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے نیکی قرار دیا ہے۔ کوئی مولوی صاحب، کوئی پیر صاحب یا کوئی حاکم کسی کام کو نیکی قرار دے دیں تو وہ نیکی نہیں بن سکتا، جب تک کہ اس کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی شہادت موجود نہ ہو، اسی طرح کوئی اسمبلی کسی کام کو 'نیکی' قرار دے دے تو وہ اس وقت تک نیکی قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اللہ اور اس کے رسول کی سند اس کے ساتھ نہ ہو۔ کتنی ہی باتیں مسلمانوں میں رائج ہیں جن کا کوئی ثبوت اللہ کی کتاب یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اوراحادیث سے نہیں ملتا۔ چنانچہ ان کا شمار صالحات میں نہیں ہوگا، چاہے انہیں کتناہی ثواب کی نیت سے کیا جائے۔ انسان کا عمل وہی قبول ہوگا جس میں ا خلاص ہو، جو صرف اللہ کے لئے ہو، اور ساتھ ہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق ہو۔
جب آپ ایمان بھی لے آئے ، نیک عمل بھی آپ نے کئے تو 'ایمان' اور' عمل صالح' دونوں نعمتیں آپ کو مل گئیں۔ اب یہ نعمت آپ کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ متعدی ہونی چاہئے۔ آپ کے گھر والوں کی طرف، آپ کے پڑوسیوں میں، آپ کے رشتہ داروں میں، آپ کے دوستوں میں، جہاں تک ہوسکے یہ متعدی ہو، جیسے بیماری متعدی ہوتی ہے، اسی طرح نیکی بھی متعدی ہوتی ہے۔ وہ آگے بڑھنی چاہئے۔ اگر ہم خود نیک ہوں، اوراولاد نیک نہیں ہے، وہ نماز نہیں پڑھتی۔ تویہ نیکی متعدی کہاں ہوئی، یہ تو ایک جگہ پر ٹھہر گئی۔
﴿وَتَواصَوا بِالحَقِّ﴾ "وہ آپس میں حق کے ساتھ وصیت کرتے ہیں " یعنی نیکی کو پھیلایا جائے... لیکن نیکی کو پھیلنے سے قبل ہمیں اس کا شعور ہونا چاہئے کہ نیکی کیاہے اور بدی کیا۔ پھر وصیت ِخیر کرتے وقت نرمی ہو، نصیحت لٹھ مارنہ ہو۔ بڑی نرمی اور محبت سے سمجھایا جائے اور جب آپ نے نیکی کو آگے پھیلانے کا کام کیا تو اب اگر کوئی مخالفت کرتاہے، طعنہ دیتا ہے کہ بڑا ملا آگیا ہے نصیحت کرنے کے لئے، تو ان کی باتوں پر صبر کرنا چاہئے: ﴿وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ٣ ﴾... سورة العصر "وہ آپس میں صبر کی تلقین کرتے ہیں "
یہ سورة العصر کی تفسیرہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ صحیح معنوں میں قرآن مجید کو سمجھیں اور سمجھائیں اور اس پر عمل کریں اور اپنے تمام انفرادی و اجتماعی کاموں میں اسی کو حکم (جج) بنائیں۔ ﴿وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ٣ ﴾... سورة العصر"کی تفسیر پوری تفصیل کے ساتھ نہیں پیش کی جاسکی۔ کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔ اِن شاء اللہ العزیز!!
«أقول قولي هذا واستغفر الله لی ولکم ولسائر المسلمين والمسلمات واٰخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العلمين»

٭٭٭٭٭