حاملہ کی عدت،عورتوں کا بال اکھاڑنا،قرآنی آیات کو ڈھالنا
٭حاملہ کی عدت ٭ عورتوں کا اپنے چہرہ سے فالتو بال اتارنا ٭کسی شے کو مشروط وقف کرنا
٭ زیور پر کندہ لفظ ِجلالہ اور قرآنی آیات کو ڈھالنا ٭'السلام علیک اَیہا النبی' کہنا
سوال : کسی حاملہ عورت کو شوہر کی وفات کے چند دن بعد وضع حمل ہوجائے تو کیا اس کی عدت چار ماہ دس دن ہوگی یا وضع حمل تک؟ اگر عدت وضع حمل تک ہی ہو تو کیا نفاس کی حالت میں وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے ؟ (ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری مصطفی آباد لاہور )
جواب: وہ عورت جو خاوند کی وفات کے وقت حاملہ ہو اور چند دن بعد اسے وضع حمل ہوجائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے ۔چار ماہ دس دن عدت کے عام اُصول سے وضع حمل کی عدت مستثنیٰ ہے۔یہ عورت اگر بحالت ِنفاس نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے،لیکن شوہرسے مجامعت بحالت ِطہارت ہی ہوگی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ سبیعہ اسلمیہ کا خاوند قتل ہوگیا یامرگیا اوراس وقت وہ حاملہ تھی۔ چالیس دنوں بعد اسے وضع حمل ہوگیا۔ اس نے نکاح کرنا چاہا تو رسول اللہ ﷺنے اس کا نکاح کردیا۔( باب واُولات الا َحمال ... الخ)تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فتح الباری (۹:۴۷۴)
سوال : سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سورہٴ نور کی تفسیر میں یہ مسئلہ نظر سے گزرا کہ
"عورتیں چہرے سے اپنے فالتو بال نہ ہٹائیں، رسولِ کریم نے اس سے منع فرمایا ہے"۔
اس ضمن میں آپ سے دو باتیں سوال طلب ہیں:
1۔ بعض عورتوں کے چہروں پر فالتو بال بکثرت ہوتے ہیں جو انتہائی برے لگتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں کیاکرنا چاہئے؟
1۔ اگر کوئی عورت باقاعدگی سے 'تھریڈنگ' یعنی چہرے سے فالتو بال اکھاڑتی ہو تو اب وہ کیا کرے گی؟ کیونکہ ا ب چھوڑدینے کی صورت میں وہ بال دگنے ہوجائیں گے۔کیا ایسی صورت میں اس کے لئے تھریڈنگ کرناجائز ہے ؟ اگر جائز نہیں توکیا اس کے لئے کچھ گنجائش نکل سکتی ہے جیسا کہ بعض مسائل میں کچھ استثنائی صورتیں ہوتی ہیں۔ (ہادیہ ،پشاور)
جواب: مولانا مودودی رحمہ اللہ سورة النور کی تفسیر میں عورتوں کے لئے چند ممنوعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :" بال اکھاڑ اکھاڑ کر خاص وضع کی بھویں بنانا اور روئیں نوچ نوچ کر منہ صاف کرنا ممنوع ہے "۔ دراصل یہ اسی حدیث کا ترجمہ ہے جو صحیح بخاری میں باب المتنمصات کے تحت بیان ہوئی ہے۔
بعض نے اس کی تعبیر پلکوں کے بالوں کو باریک یا انہیں برابر کرنے سے بھی کی ہے۔ امام طبری فرماتے ہیں کہ "عورت زیب و زینت اور حسن کی خاطر اپنی خلقت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کرسکتی، ہاں البتہ اگر کوئی دانت بڑھا ہوا ہے ، کھانے میں تکلیف کا باعث ہے یا زائد انگلی دکھ کا سبب ہے تو اس کا اِزالہ جائز ہے"۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کو اگر داڑھی مونچھ یا بچہ داڑھی اگر آئے تو اس کا اکھاڑنا 'نماص' کے حکم میں داخل نہیں ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "یہ فعل خاوند کی اجازت اور اس کے علم سے ہونا چاہئے بصورتِ دیگر دھوکہ دہی کی بنا پر ممنوع ہے"۔ (فتح الباری: ۱۰/۳۷۸)
اس سے معلوم ہواکہ عورت کے لئے چہرے سے بلاوجہ بال اکھاڑنا درست نہیں، البتہ چہرے کے بگاڑ کے خدشہ سے بامرمجبوری تھریڈنگ کا جواز ممکن ہے ورنہ عام حالات میں اس سے احتراز کرنا چاہئے، سعودی عرب کے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
"خلاف ِ عادت اگر عورت کے چہرے پر بال اگ آئیں تو ان کواکھاڑنے میں کوئی حرج نہیں مثلاً مونچھ، داڑھی یا اس کے رخسار پر بال اگ آئیں تو ان کو لیناجائز ہے ، کیونکہ یہ بال خلافِ عادت ہیں جس سے عورت کے چہرے کے بگاڑ کا اندیشہ ہے"۔(فتاویٰ زینة المرأة: ص ۸۶)
سوال:محمد یوسف نے دو کنال زرعی رقبہ پہلے سے موجودمسجد کے لئے وقف کیا تو مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے کہا کہ اس رقبہ کو فروخت کرکے رقم مسجد پر لگا دی جائے۔ واضح رہے کہ نہ تو مسجد میں کسی توسیع کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی خاص مرمت کی۔ اب کیا محمدیوسف رقبہ کو فرو خت کرکے اس کی رقم مسجد کو دے یا فروخت نہ کرے اور اس رقبہ کی پیداوارمسجد کو ہرسال تاقیامت ملتی رہے۔ سائل کے لئے کون سا عمل آخرت میں اجر کے لحاظ سے بہتر ہے۔
اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے کہا تھا :میں نے اپنی خیبر کی زمین وقف کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی پیداوار وقف کرو۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تواس کی روشنی میں سوال کا جواب دیں۔ (ابوجابر محمد فاروق محمدی، خانیوال)
جواب: مذکورہ صورتِ حال کے پیش نظر بہتر یہ ہے کہ وقف کو اپنی اصلی حالت پر برقرار رکھا جائے اور اس کی آمدن مسجد پر خرچ ہو۔ سوال کے ضمن میں مذکور حضرت عمر کا قصہ صحیح بخاری باب الشروط فی الوقف میں موجود ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی تووہ مشورہ کرنے رسول اللہ ﷺکے پاس آئے ۔ کہنے لگے: یارسول اللہﷺ مجھے خیبر میں ایک زمین ملی ہے جس سے بڑھ کر عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا ۔اب مشورہ دیجئے کہ میں اس زمین کا کیا کروں ؟توآپ ﷺ فرمایا :اگرتم چاہو تو اصل زمین وقف کردو، اس کی آمدنی خیرات ہوتی رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کواس شرط پر وقف کردیا کہ وہ زمین نہ بیچی جائے ،نہ ہبہ کی جائے ، نہ کسی کو ترکہ میں ملے ۔ جو آمدنی ہو وہ محتاجوں ، ناطے والوں ، غلام لونڈیوں کو آزاد کرانے، اللہ کی راہ یعنی مجاہدین کی خدمت ، مسافروں اور مہمانوں میں صرف کی جائے اور جوکوئی اس زمین کامتولی ہو وہ اتنا کرسکتا ہے کہ دستور کے موافق اس کی آمدنی میں سے کھا ئے اور کھلائے مگر دولت نہ جوڑے۔
ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن سیرین سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ 'غیر متاثل مالا' کا معنی یہ ہے کہ اپنے لئے دولت اکٹھی نہ کرے۔حضرت عمر کے قصہ میں یہ ذکر ہے کہ وقف کرنے والا اگر وقف کو اپنی حفاظت میں رکھے تو تب بھی وقف درست ہے جبکہ مذکورہ بالاصورت اس طرح نہیں۔
سوال: آج کل جلسوں، کانفرنسوں میں نعرہ بازی اور مقرر کے لئے زندہ باد کے نعرے ، بالخصوص مسجد کے اندر ایسے نعروں کو بلند آواز سے لگانا کہاں تک درست ہے۔ کیا صحابہ کے دور میں ا س کی کوئی مثال ملتی ہے؟
جواب: اسلام میں تقریروں اور خطبوں وغیرہ میں نعرہ بازی کاکوئی تصور نہیں، اس سے بہرصورت احتراز ضروری ہے۔
سوال: میرے دوست جیولری کا کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایسازیور بھی بکنے کے لئے آجاتاہے جس پر اللہ تعالیٰ یا محمد ﷺ کا نام، آیت الکرسی اوردیگر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔کیا ہمارے لئے ان زیورات کو ڈھال کر کسی اور زیور کی شکل دینا جائز ہے ؟ اگر جائز نہیں توپہلے کی جانے والی ایسی کوتاہیوں کاکفارہ کیا ہوگا؟ (عبدالمجید،قصور)
جواب : جن زیورات پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوں،ان کو ڈھالنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عثمان کے عہد میں جب قرآن کریم کے بعض نسخوں میں تحریف کا پتہ چلا تو انہیں ضائع کردیا گیا۔(صحیح بخاری: باب جمع القرآن) اور اس عمل کے مرتکب پر کوئی کفارہ نہیں۔
سوال1: اگرکوئی آدمی چار رکعات والی نماز میں امام کے ساتھ تشہد کے بعد آخر ی دو رکعات پائے تو اب کیا ان دو فوت شدہ رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت پڑھے یا صرف سورة فاتحہ پڑھناکافی ہے۔ (گل مان شاہ ، نوشہرہ)
جواب:صحیح بخاری وغیرہ میں حدیث ہے" جتنی نماز امام کے ساتھ مل جائے پڑھ لو اور جتنی فوت ہوجائے پوری کرلو"۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ مسبوق (مقتدی) امام کے سلام پھیرنے کے بعد جتنی نماز پڑھتا ہے ،وہ اس کی باقی ماندہ نماز ہے اور جو امام کے ساتھ پڑھی ہے وہ اس کی پہلی نمازہے کیونکہ اس حدیث میں فوت شدہ کی بابت' مکمل کرنے' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی آخر سے پورا کرنے کے ہیں اورآخر سے پورا کرنا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جو نماز امام کی فراغت کے بعد پڑھے وہ اس کی آخری ہو ۔اور بعض روایتوں میں' اتمام '(مکمل کرنا )کی جگہ 'قضا 'کالفظ آیا ہے ، تویہ اس کے خلاف نہیں کیونکہ قضا کے معنی پورا کرنے کے بھی آئے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلوٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ...١٠ ﴾... سورة الجمعة "یعنی جب نماز پوری ہوجائے تو پھر روزی کی تلاش کے لئے زمین میں پھیل جاؤ" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دو لفظوں کے مطابق ہی جمہور کا عمل ہے ۔انہوں نے کہا:
«إن ما أدرك المأموم هو أول صلاته إلا أنه يقضی مثل الذي فاته من قراء ة السورة مع أمّ القرآن في الرباعية لکن لم يستحبوا به إعادة الجهر في الرکعتين الباقيتين وکان الحجة فيه قوله ما أدرکت مع الإمام فهو أول صلاتك واقض ما سبقك به من القرآن۔ أخرجه البيهقی وعن إسحق والمزني لا يقرأ الامام القرآن فقط وهو القياس» (فتح الباري: ۲/۱۱۹)
جمہور کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی جو دو رکعتیں بعد میں پڑھے، ان میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ مقتدی نما زکا جو حصہ امام کے ساتھ پائے وہ اس کی پہلی نماز ہے اور جوچیز قرآن سے فوت ہوجائے، اس کی قضادے تاہم اس میں جہری قراء ت نہیں۔ البتہ اسحق رحمہ اللہ اور مزنی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ صرف فاتحہ پڑھے کیونکہ قیاس کا تقاضا یہی ہے ۔لیکن مندرجہ بالا دلیل کی رو سے ترجیح پہلے مسلک کو ہے اور دوسرے کا صرف جواز ہے کیونکہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا ضروری نہیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے «وأن تزد علی أم القرآن أجزأت ... الخ»
"اگر تو فاتحہ کے ساتھ کوئی او رسورة ملائے تو کفایت کرجائے گی"۔(مرعاة المفاتیح:۱/۵۸۷)
سوال :ایک لڑکے اور لڑکی کا بچپن میں نکاح ہو ا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں لڑکے کا دماغی توازن درست نہ رہا ۔چنانچہ سن شعور کو پہنچنے پر لڑکی نے لڑکے سے اپنے نکاح کو مسترد کر دیا ۔ لڑکی کے والدین نے لڑکے کے والدین سے طلاق کے لئے رابطہ کیا ۔لیکن لڑکے نے طلاق دینے سے انکار کر دیا ۔ مجبوراً لڑکی کے والد نے عدالت سے رجوع کیا تو جج نے خلع کی بنیاد پر برنبائے خیار ِبلوغ نکاح فسخ کر دیا کہ لڑکا یہ تسلیم کرتا ہے کہ لڑکی اس سے نکاح کو فسخ کرتی ہے اور لڑکا بیوقوف ،احمق ، اور گنوارہے ۔اب لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شرعی طلاق نہیں ہوئی ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرمائیں ۔ (عطا رسول، خوشاب)
جواب: مندرجہ بالاصورت میں عدالتی فیصلہ نافذ العمل ہے۔ راجح مسلک کے مطابق عورت ایک ماہ عدت گزار کرولی کی اجازت سے جہاں چاہے نکاح کیا جاسکتاہے۔
میاں بیوی میں جمع اور تفریق کا عدالت کو اختیار ہے اس لئے کہ قرآنی آیت ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما...٣٥ ﴾... سورة النساء" کے اولین مخاطب 'حکام' ہیں۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نیل المرام فی تفسیر آیات الأحکام اورفتح الباری(۹/۴۰۳) میں ہے «فلما کان المخاطب بذلك الحکام وإن الإرسال إليهم دلّ علی أن بلوغ الغاية من الجمع أوالتفريق إليهم»
"چنانچہ جب ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما...٣٥ ﴾... سورة النساء" کے مخاطب حکام ہیں اور حَکم بھیجنے کا کام ان کے سپرد ہے تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حکام کوجمع اور تفریق کا اختیار بھی حاصل ہے۔"
مزید برآں عورت کو خیارِ بلوغت حاصل ہے، حدیث میں ہے کہ "بیوہ کا نکاح اس کے مشورہ سے کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے"۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکی بالغہ ہوکر نکاح فسخ کرا سکتی ہے کیونکہ نکاح کے لئے اس کی اجازت شرط ہے اور چونکہ وہ صغر سنی میں اجازت دینے کے قابل نہیں تھی، اس لئے ضروری ہے کہ سن شعور میں یعنی بعداز بلوغت وہ اپنا حق لے سکے ۔جس کی شکل یہ ہے کہ لڑکی کو فسخ کا اختیار ہو ۔قریباً سب علماء اس پر متفق ہیں کہ لڑکی بالغ ہو کر نکاح فسخ کرا سکتی ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں علیحدگی بلا تردّد درست ہے۔
سوال: بالفرض اگرایک بوڑھے آدمی کے چار صاحب ِاولاد بیٹوں میں سے ایک بیٹا فوت ہوجاتا ہے۔تو کیا ان یتیم پوتوں کو وراثت ملے گی جبکہ دادا ابھی حیا ت ہے؟ (حافظ محمد اشرف ساجد)
جواب: شریعت کا یہ اصول ہے کہ وراثت میت کے قریب ترین وارث کو ملتی ہے۔ اس بنا پر میت کے بیٹوں کی موجودگی میں یتیم پوتا دادا کی وراثت کا حقدار نہیں بنتا۔ (تفصیل کیلئے محدث : اپریل ۱۹۹۹ء)
سوال: کیا روزے کی حالت میں ٹیکہ لگوانا جائزہے؟( محمدبلال بن محمد عیسیٰ کمبوہ آف کچہ پکہ)
جواب: سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عام ٹیکہ لگایا جاسکتا ہے لیکن غذائی ٹیکہ لگوانا درست نہیں۔ میرے خیال میں ٹیکے سے کلی طور پر احتیاط کی جائے تو اولیٰ ہے۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
" حدیث میں بحالت ِروزہ وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا منع ہے جس کی وجہ یہ خطرہ ہے کہ کہیں پانی ناک کے راستہ حلق میں نہ اتر جائے حالانکہ عرفاً یہ پینے کے ضمن میں نہیں آتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی طرح کوئی چیز معدہ میں چلی جائے تواس سے روزہ کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ٹیکہ میں دوا کے لطیف اجزا کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ سانسوں کے راستے معدہ میں آجائیں اور روزہ خطرہ میں پڑ جائے ۔اس لئے روزہ کی حالت میں ٹیکہ نہ لگوانا چاہئے، احتیاط اسی میں ہے ۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۲/۵۶۳)
سوال: کیا قرآن پڑھنے کا ثواب اپنے مرحوم آباء و اجداد کو پہنچ سکتا ہے؟ میں نے 'صحیفہ اہلحدیث' میں پڑھا ہے کہ ا س کا ثواب مرحوم آباء و اجداد کو پہنچ جاتاہے؟
جواب: قرآن پڑھ کر ایصالِ ثواب کی شکل کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ میت کے لئے دعاءِ مغفرت کرنی چاہئے جس کی صراحت متعدد نصوص میں ہے۔
٭٭٭٭٭