بین الاقوامی اِسلامی کانفرنس ... مختصر روداد
بہت طویل عرصہ کے بعد عالم اسلام کے نامور دانشوروں کا ایک زبردست اجتماع شہر لاہور میں منعقد ہوا۔ لاہور جسے چوتھی اسلامی سربراہی کانفرنس (۱۹۷۳ء) کی میزبانی کا شرف حاصل ہے، انٹرنیشنل اسلامی کانفرنس (۲۰۰۰ء) کے مندوبین کی میزبانی کا اعزاز بھی اسے میسر آیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس اگر اسلامی ریاستوں کے سربراہوں کی کہکشاں کا منظر پیش کر رہی تھی تو انٹرنیشنل اسلامی کانفرنس عالم اسلام کے منتخب حکمت و دانش کے روشن ستاروں کی شرکت پر بجا طور پرناز کرسکتی ہے۔اس کانفرنس کا انعقاد ملت ِاسلامیہ کے اتحاد کے عظیم علمبردار حکیم الامت علامہ اقبال کے نام پر قائم ہونے والے عظیم تہذیبی و ثقافتی مرکز 'ایوانِ اقبال' میں موٴرخہ ۳ تا ۵ نومبر ۲۰۰۰ء کو کیا گیا۔
یہ عظیم کانفرنس مجلس التحقیق الاسلامی کے شعبہٴ رابطہ 'فلاح فاؤنڈیشن ' کے زیر اہتمام منعقد کی گئی۔ فلاح فاؤنڈیشن کے سرپرست صدرِ پاکستان، وائس چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) خلیل الرحمن خان اورمینیجنگ ڈائریکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی (مدیر اعلیٰ ماہنامہ محدث) ہیں۔ تین روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے روزانہ دو سیشن ہوتے رہے، ہر سیشن کا دورانیہ تقریباً پانچ گھنٹوں پر محیط تھا۔ انٹرنیشنل اسلامی کانفرنس کا مرکزی موضوع 'نئے ہزاریئے میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش چیلنج' تھا۔ بیس اسلامی ملکوں کے نامور دانشوروں کے علاوہ پاکستان سے بھی کثیر تعداد میں منتخب نابغہ روزگار شخصیات نے مختلف موضوعات پر مقالات پیش کئے۔ تین دنوں میں تقریباً تین درجن دانشوروں نے انگریزی، عربی اور اُردو زبان میں علمی و فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔ ان مقررین کے فکر انگیز مقالات کو سننا اہل ذوق کے لئے حد درجہ روحانی مسرت کا باعث تھا۔
ان تمام خطبات کی وڈیوکیسٹس تیار کر لی گئی ہیں اور پروگرام یہ ہے کہ ان کو عربی، انگریزی اور اردو زبان میں کتابی شکل میں شائع کیا جائے، اسکے ساتھ مجلس التحقیق الاسلامی کے آرگن ماہنامہ محدث میں اس کانفرنس کے منتخب مقالہ جات ، انگریزی او رعربی سے ترجمہ کرا کے شائع کئے جاتے رہیں گے۔ اردو کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں پڑھے جانے والے مقالہ جات کے ترجمہ وتدوین کا کام شروع کردیا گیا ہے۔اگر عالم اسلام کے فاضل علماء وحکماء کے خیالات زیورِ طبع سے آراستہ ہوجاتے ہیں تو راقم الحروف کے خیال میں یہ کانفرنس نہ صرف اتحادِ ملت ِاسلامیہ کے نصب العین کو آگے بڑھانے کے لئے ایک عظیم دستاویز کا کام دے گی، بلکہ عالم اسلام کی فکری قیادت کے لئے مینارہٴ نور بھی بنے گی۔ ان شاء اللہ
راقم الحروف کو مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز میں شریک ہونے کا بارہا موقع ملا ہے۔ آج کل این جی اوز نے سیمینار منعقد کرنے کا ایک مخصوص کلچر بھی پروان چڑھایا ہے۔ مگر ان کا سارا زورِ خطابت پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں مغربی تہذیبی اقدار کو فروغ دینا اور مغربی ثقافتی استعماریت کے تسلسل کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ این جی اوز'انسان دوستی'کا پرچار تو بہت کرتی ہیں، مگر ان کے کسی سیمینار میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش مسائل اور ملت ِاسلامیہ کے اتحاد جیسے موضوعات کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس انٹرنیشنل اسلامی کانفرنس میں شریک ہونے والے ہر فرد کا احساس تھا کہ مسلمان ملت ِواحدہ ہیں، ان کے مسائل مشترکہ ہیں، ان کی تاریخ، کلچر اور اَقدار کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ مسلسل تین روز تک اِسلامی اُخوت، بھائی چارے اور اتحاد کے روح پرور مناظر نگاہوں میں گھومتے رہے اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر اُتر کر عجیب سرشاری کی کیفیات پیدا کرتے رہے۔
مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے مہمانوں کے لباس مختلف تھے، ان کی زبان بھی ایک نہیں تھی، رنگ و نسل کا فرق بھی اپنی جگہ تھا مگریہ سب باتیں ان کے لئے قطعا ً اہم نہیں تھیں، وہ ایک دوسرے پر مسلسل خلوص و محبت نچھاور کر رہے تھے، ان کے قلوب کی دھڑکن ایک تھی، کیونکہ ان کی نظریاتی اَساس ایک ہی ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے دوران بار بار راقم الحروف کے ذہن میں دو مختلف مناظر گردش کر تے رہے۔ ایک طرف پاکستان کے کوتاہ اندیش، کم ظرف قوم پرستوں کی تازہ خرافات کا تصور ہی ذہن پر کوڑے برساتا رہا اور دوسری طرف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مسلمان شرکاء کے اتحاد انگیز اُخوت کی جہانگیری کا عملی نمونہ پیش کرنے والے مناظر بہار بن بن کر قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترتے رہے۔ اس کانفرنس کا ایک ایک لمحہ اس یقین محکم کو فکری غذا دیتا رہا کہ رنگ، نسل یا لسانی تعصبات بنی نوع انسان کو انتشار میں مبتلا تو کرسکتے ہیں، اتحاد کا باعث نہیں بن سکتے۔ اصل میں نظریہ ہی وسیع تر بنیاد کی واحد اور قابل اعتماد بنیاد بن سکتا ہے اور وہ نظریہ ہے امن وسلامیت کا، جس کا دوسرا نام 'اسلام' ہے۔
جی تو چاہتا ہے کہ اسلامی کانفرنس کے تمام مقررین کے افکار کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے ، مگر اس کے لئے جس قدر ذہنی کاوش درکار ہے، بوجوہ اس کا بروئے کار لانا ایک دشوار امر ہے۔ البتہ درج ذیل سطور میں اس کانفرنس کے چند مقررین کے خیالات کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔ یہ تلخیص راقم کے ان نوٹس کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے جو اس نے کانفرنس کے دوران لئے تھے، یا بعض نکات یادداشت کی بنیاد پر نقل کئے گئے ہیں۔ جن مقررین کے خیالات کو قلم انداز کیا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ تاثر لینا درست نہ ہوگا کہ ان کے مقالات کا علمی درجہ کم تھا، وہ بھی اپنی جگہ بلندعلمی مرتبہ کے حامل ہیں۔
(۱) بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا افتتاح صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ صاحب نے کیا۔ انہوں نے اپنے افتتاحی خطبہ میں ارشادفرمایا:
"آج ہم عالم اسلام پر نگاہ ڈالتے اور مختلف شعبہٴ ہائے حیات میں اپنی کارکردگی کا موازنہ مادّی طور پر ترقی یافتہ اور خوشحال دنیا سے کرتے ہیں تو ایک حوصلہ شکن تصویر سامنے آتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ ظلم کی سیاہ رات ہے کہ ڈھلنے میں نہیں آرہی اور اکیسویں صدی کا سورج بے بسی سے انسانیت سوز مظالم کا یہ دلدوز منظر دیکھ رہا ہے۔ اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان مسائل اور مصائب کے بارے میں امت ِمسلمہ پوری طرح ہم آواز اور ہم قدم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کی کشمکش محض ایک مناظرہ نہیں ہوتی جس میں دلیل اور جوابی دلیل کی قوت کو ہی کافی سمجھ لیا جائے۔ تہذیبوں کا عروج و زوال ایک ہمہ گیر سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمی سے عبارت عمل ہے جو برس ہا برس کے بعد تشکیل پاتا ہے۔ آج مغربی تہذیب کے پھیلاؤ اور قوتِ تسخیر کا بنیادی سبب دراصل جدید علوم اور سائنس کی اس پرگرفت ہے۔ سلطنت ِعلم کی فرماں روائی سے محرومی، مسلمانوں کے سیاسی زوال کا پیش خیمہ بنی۔
انہوں نے فرمایا: امت کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے ہمیں یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری دنیوی اور اُخروی فلاح کا حقیقی راز قرآن و سنت کی تعلیمات کو انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ بنانے میں ہے۔ انہوں نے کہا: مادّی، سیاسی اور اقتصادی طور پر شکستہ حال قومیں پھر سے فتح مند ہوسکتی ہیں، لیکن ذہنی،فکری اور روحانی اعتبار سے شکست کھا جانے والی اَقوام دولت ِ'خودی' سے محروم ہوکر تاریخ کے ظلمت کدوں میں کھو جاتی ہیں۔ میں اس نمائندہ اجتماع کے ذریعے اس حقیقت کا اظہار ضروری خیال کرتا ہوں کہ مسائل کی سنگینی، مصائب کے ہجوم اور مشکلات کی کثرت کے باوجود فرزندانِ اسلام کا مستقبل روشن اور تابناک ہے...! "
جناب محمد رفیق تارڑ کی جانب سے یہ طویل ترین خطبہ تھا جو انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں آج تک ارشاد فرمایا ہے۔ (صدرِ مملکت کی تقریر کا مکمل متن بھی شامل اشاعت ہے)
(۲) اس کانفرنس میں سعودی عرب کی نمائندگی خادم حرمین شریفین کی حکومت کے وزیر عدل وانصاف ڈاکٹر شیخ عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آلِ شیخ نے کی۔ وزیر موصوف نے اُمت ِمسلمہ کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے، اُمت میں عدمِ اتحاد کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے اعلیٰ اخلاقی، روحانی اور فکری اُصولوں کی بنیاد پر اُمت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی کانفرنس کا انعقاد خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرا ر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بجاطور پر امت ِمسلمہ کی فکری قیادت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ پاکستان اور مملکت ِسعودی عرب محبت، اُخوت کے لازوال اسلامی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عالم اسلام کے مختلف خطوں بالخصوص کشمیر کے مسلمانوں پرروا رکھے جانے والے ظلم وستم کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امت ِمسلمہ کو ان مسائل کے حل کے لئے مشترکہ کوشش کرنی چاہئے۔
(۳) کانفرنس کے پہلے روز ہی شام کو ہونے والے دوسرے سیشن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان نے کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
"امت ِمسلمہ کے فکری قائدین یہاں اس غرض کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ وہ قانون کی حاکمیت اور بالادستی کے عملی نفاذ کے لئے قابل عمل حکمت ِعملی مرتب کرسکیں اور بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام کے لئے تجاویز پیش کرسکیں۔ انہوں نے کہاکہ مسلم دنیا فطری اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے مگر عالمی اداروں میں ان کے وسائل کے تناسب سے انہیں شرکت میسر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ امت مسلمہ کو بھی جی۔ ایٹ کی طرز پرایک بلاک قائم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جہالت کے خاتمہ کے لئے بھی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔"
(۴) کویت کے سابق وزیر اوقاف شیخ یوسف ہاشم الرفاعی نے عربی زبان میں طویل خطاب فرمایا۔ اس کا ساتھ ساتھ اُردو میں ترجمہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اُمت مسلمہ مختلف طبقات میں تقسیم ہے او ریہ طبقات باہم دست و گریباں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ خیال غلط ہے کہ مسلمانوں کوایک دوسرے کے مسائل میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر ایسی سو چ رہے گی تو مسائل کیسے حل ہوں گے؟ مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ان کے مسائل کوئی باہر سے آکر حل نہیں کرے گا۔ انہوں نے قرآن و سنت سے حوالہ جات دیتے ہوئے زور دیا کہ مسلمان آپس میں بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ عالم کفر ملت ِواحدہ ہے۔ قرآنِ مجید نے یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنانے کی ہدایت کی ہے۔ ہمیں امریکہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے ان کی طرف دیکھنا بہت بڑی غلطی ہے۔
جناب یوسف الرفاعی نے بڑی دردمندی سے کہا کہ روس نے چیچنیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، اسلامی حمیت کا تقاضا تھا کہ روس سے تعلقات ختم کردیئے جاتے۔ افغانستان میں ۹۰ فیصد علاقوں پر طالبان کی حکومت قائم ہے، مگر بے حد افسوس ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی مسلم ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے حکمران افغانستان سے مشترکہ دفاعی معاہدہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ میں خیر خواہی کے جذبہ سے گذارش کرتا ہوں کہ پاکستان کے دیوبندی، بریلوی او راہل حدیث آپس میں اتفاق پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی قتل و غارت اسلام کونقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ یہاں اتوار کی بجائے جمعہ کو چھٹی ہونی چاہئے۔
انہوں نے ۱۹۷۴ء میں سربراہی کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ امام کعبہ محمد بن عبداللہ السبیل کے ساتھ بھٹو صاحب سے ملے تھے۔ انہوں نے چار مطالبات پیش کئے تھے جن میں ایک مطالبہ جمعہ کی چھٹی کا تھا۔ بھٹو صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جمعہ کی چھٹی کا اعلان کریں گے، جو بعد میں انہوں نے پورا کردیا۔
جناب یوسف الرفاعی نے کہا: ہم سب ایک ہی وحدت ہیں۔ عرب دنیا کو مشرقِ وسطیٰ کی بجائے اسلامی خطہ لکھنا اور کہنا چاہئے۔ اسرائیلی حکومت کی بجائے یہودی حکومت لکھا جائے کیونکہ قرآن میں ان کو یہودی کہا گیا ہے۔ انہوں نے عرب دنیا پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو مالیاتی بحران سے نکلنے میں مدد دے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسئلہ فلسطین کو اسلامی مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے۔مسلمانوں کو چاہئے کہ اِبلاغیات کا نظام ایجاد کریں۔ اسلامی دنیا کے امیر ممالک اس سلسلے میں آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مسلمان ممالک کے لئے مستقل نشست ہونی چاہئے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ مسلمان ملکوں کو روس پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ چیچنیا کے مسلمانوں پر ظلم بند کرے...شیخ یوسف ہاشم الرفاعی پاکستان میں کئی دفعہ آچکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُردو زبان کو بھی کافی حد تک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے کئی مرتبہ اپنی تقریر کا اردو میں ترجمہ کرنے والے صاحب کو کہا کہ فلاں بات کا بھی ترجمہ کریں۔
(۵) ڈاکٹرمحمدا لحبشدمشق سے تشریف لائے تھے۔ ان کے فکر انگیز مقالے کا عنوان تھا : "اسلامی آزادیٴ فکر اوراور مذہبی تنگ نظری1کے درمیان کس طرح مفاہمت پیدا کی جائے؟" انہوں نے کہا کہ اختلاف فطری امر ہے۔ انہوں نے کہا :اسلامی اتحاد کی دعوت دینا بلاشبہ ایک عظیم مقصد ہے مگر عالم اسلام میں جو مختلف فکری موجیں موجود ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے امام مالک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب بعض عباسی خلفاءِ عباسیہ نے کتاب وسنت کی بجائے فقہ مالکی نافذ کرنی چاہی تو امام مالک نے انہیں منع کردیا کیونکہ وہ دوسرے فقہا پر اپنی رائے تھوپنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں آزادی ٴ اظہار کوبہت اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہاکہ حضرت عمر کا قول :تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ہے جبکہ خدانے انہیں آزاد پیدا کیا ہے،اسلامی لبرل ازم کی دلیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ کے نامور سائنسدانوں اور علماء مثلاً ابن سینا، ابن قیم، ابن طفیل وغیرہ میں اختلافات موجود تھے مگر وہ سب حریت ِفکر کے علمبردار تھے۔ اسلامی فلاسفر انسانی تہذیب کے انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرمحمداقبال اسلامی دنیا کے مجدد ہیں۔ وہ حریت ِفکر کے ذریعہ مشرق و مغرب میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے تھے۔ میں گذارش کروں گا کہ فکر اقبال کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال امت ِمسلمہ کے بہترین فکری قائد ہیں۔ الدکتور محمد الجش نے کلامِ اقبال سے متعدد منظوم ترجمہ شدہ عربی اشعارپڑھ کر سنائے جن سے حریت ِفکر کا درس ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو "لبرل ازم اور فنڈامینٹل ازم" (اسلامی آزادیٴ فکر او ردینی وفکری حمیت) کے درمیان صلح کی صورت نکالنی چاہئے۔ مگر جب تک ہم اصل دین (کتاب وسنت )کی طرف واپس نہیں آئیں گے، بات نہیں بنے گی۔
(۶) شام ہی سے تعلق رکھنے والے عالم اسلام کے معروف ادیب الدکتور عبدالقدوس ابوصالح صدر 'رابطہ الادب الاسلامی'کا خطبہ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار تھا۔ ان کا خطبہ سن کر اہل عرب کے مایہ ناز شاعروں کے واقعات ذہن میں گھومنے لگے جو اپنے سامعین میں شعلہ بیانی سے آگ لگادیتے تھے۔ ڈاکٹرعبدالقدوس کا شمار برصغیر پاک و ہند کے عربی زبان کے مایہ نا زادیب سید ابوالحسن علی ندوی کے دوستوں میں ہوتا ہے۔ عالم عرب میں سیکولر ادیبوں کے مقابلے میں انہوں نے ادبِ اسلامی کا پرچم بلند کر رکھا ہے۔ ڈاکٹرعبدالقدوس نے ارضِ فلسطین پر ناپاک یہودیوں کے ظلم و ستم کا اس قدر جذباتی انداز میں نقشہ کھینچا کہ ایوانِ اقبال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگوں کو شاید ان کی زبان پوری طرح سمجھ نہ آتی ہو، مگر ان کا کلام، فصاحت وبلاغت کا ایک سیل رواں تھا جو سامعین کو تنکوں کی طرح اپنے ساتھ بہاتے چلا جارہا تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے قرب میں سٹیج سیکرٹری پروفیسر عبدالجبار شاکر کی آنکھیں بھی نم ناک تھیں۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ اس خوبصورت تقریر کا اردو زبان میں ترجمہ نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹرعبدالقدوس نے مسلمان ادیبوں پر زور دیا کہ وہ اسلامی ادب کے ذریعے غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کاملی فریضہ انجام دیں۔ آج امت ِمسلمہ پر سخت وقت آن پڑا ہے۔ ملت کے نوجوان مغرب کی گمراہ فکر سے متاثر ہو کر اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ قلم کی آبرو کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ایسے بحرانی وقت میں اگر ہمارے قلم حرکت میں نہ آئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی دنیا میں بے حسی طاری ہے۔ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان کے غم کا احساس نہیں کرتا۔ اسی عدم اتحاد کی وجہ سے کفار ہم پر غالب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ادب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی آفاقی اقدار کو فروغ دینے کا باعث بنے۔
ڈاکٹرعبدالقدوس جب اپنی تقریر کرکے واپس اپنی نشست پر آئے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور سٹیج پربیٹھے ہوئے افراد نے فرداً فرداً انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ سیشن کے اختتام پر میں نے دیکھا کہ حاضرین نے ڈاکٹرعبدالقدوس کا گھیراؤ کیاہوا ہے۔ ہر شخص ان سے مصافحہ کرنے اور نوجوان آٹوگراف لینے کے لئے تگ ودو کررہے تھے۔ خودسننے والے خوش نصیب کان عالم عرب کے اس دلوں کوگرما دینے والے اَدیب کی تقریر کا لطف شاید کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔
(۷) ڈاکٹر صہیب حسن صاحب تقریباً تیس برس سے لندن میں قیام پذیر ہیں، انہوں نے قرآن و سنت کی دعوت دینے کے لئے وہاں مختلف اِدارے بھی قائم کر رکھے ہیں۔ اس ضمن میں سعودی عرب کی حکومت نے بھی انہیں 'خصوصی سفیر' کے طور پر ذمہ داری سونپ رکھی ہیں۔ ان کے والد ِگرامی مولانا عبدالغفار حسن مدظلہ، جماعت ِاسلامی کے بانی راہنماؤں میں سے ہیں، جو ۱۹۵۷ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے اختلافِ فکر کے نتیجے میں الگ ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر صہیب حسن کا غائبانہ تعارف حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کی زبانی سن رکھا تھا کہ وہ برطانیہ کی شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ مدنی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹر صہیب حسن صاحب کو بارہا گذارش کی کہ وہ پاکستان واپس تشریف لائیں۔ انہیں پاکستانی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ عدلیہ میں اہم عہدوں کے لئے بھی کہا گیا۔
اسلامی کانفرنس میں وہ جب مہمان مقرر کے طور پر تشریف لائے تو ان سے شرفِ باریابی ملا۔ ڈاکٹر صہیب حسن نے "مغربی میڈیا میں اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ" کے موضوع پر اظہارِ خیال فرمایا۔ اگرچہ وہ اس موضوع پر جامع مقالہ عربی میں لکھ کر لائے تھے، مگر منتظمین کی درخواست کے پیش نظر انہوں نے اسے انگریزی زبان میں پیش کیا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے علمی مقالہ کا صرف خلاصہ ہی پیش کرسکے۔ (ڈاکٹر صاحب کے مکمل عربی مقالہ کا ترجمہ ادارئہ محدث میں کیا جارہا ہے، ادارہ)
انہوں نے کہا کہ مغرب 'اسلاموفوبیا' Islamo Phobia (اسلام سے خو ف) کا شکار ہے۔ مغربی میڈیا میں اسلام کی مسخ شدہ تصو یر پیش کی جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت کے حقوق، بنیاد پرستی اور اسلامی شعائر کے حوالہ سے اسلام کا ذکر بے حد اہانت آمیز انداز میں کیا جاتا ہے۔یورپی اخبارات میں اسلام کے بارے میں شر انگیزی پر مبنی مضامین شائع کرائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل وہاں بی بی سی نے ایک مذاکرہ کرایا جس میں ایک نام نہاد مسلمان مقرر نے پرجوش انداز میں کہا کہ حجاب اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ یورپ میں بھی ہزاروں عورتیں نقاب اوڑھتی ہیں مگر ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ لندن میں ایک ادارے نے ایک مسلمان خاتون کو محض اس بنا پر ملازمت سے چھٹی کرا دی کہ اس نے نقاب اُتارنے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ'ارینجڈ' (خاندان کی طے کردہ) شادیاں بھی ایک متواتر زیر بحث رہنے والا موضوع ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی اپنی بچیوں کے رشتے پاکستان میں کرتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان ثقافت یا تعلیم وتربیت کے اعتبار سے چونکہ بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے عموماً اس طرح کی شادیاں طلاق پر منتج ہوجاتی ہیں۔ انگلینڈ میں عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے کچھ ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں کہ جس میں اس طرح کی شادیوں پر پابندی عائد کی جاسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا اسلامی ممالک میں 'غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل' کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ ایسے واقعات کے بیان کرنے کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کو وحشی اور غیر مہذب معاشرے کے طور پر پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بنیاد پرستی کے معاملے میں بھی مغربی میڈیا اسلام کو مطعون ٹھہراتا ہے۔ دین اسلام کو 'دہشت گردوں کے مذہب' کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو وحشی بناکر دکھایا جاتا ہے حالانکہ اسلام رواداری کا مذہب ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی مثال ہمارے سامنے ہے، مگر ایسی مثالوں کا مغربی میڈیا میں ذکر نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے بتایا کہ قانون توہین رسالت(Blasphemy) بھی مغربی ذرائع اَبلاغ کا مرغوب موضوع ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وہاں کے ایک اخبار میں مضمون شائع ہوا جس میں مضمون نگار نے لکھا کہ توہین رسالت کی سزا اسلام میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جواباً اپنے اعتراضات لکھ بھیجے۔ انہوں نے اس کے کچھ حصے تو شائع کردیئے مگر اس پر تنقید بھی کی۔ جب میں نے دوبارہ خط کے ذریعے سے اس کی وضاحت کی، تو انہوں نے وہ وضاحت شائع کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ ایک متعصّب انگریز نے میرے خلاف لکھا کہ "تم اپنے ملک واپس چلے جاؤ!"
ڈاکٹر صہیب حسن اردو زبان کے علاوہ عربی اور انگریزی پر حیران کن حد تک عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس کانفرنس میں اپنی تقریر کے علاوہ کئی سیشنوں میں دیگر مقررین کے ترجمان (Translator) کے فرائض بھی انجام دیئے۔ انہوں نے عرب سکالرز کی تقاریر کو جس خوبی سے ساتھ ساتھ انگریزی میں اور اُردو اور انگریزی تقاریر کو عربی زبان میں ڈھال کر پیش کیا، وہ ان کی زبانوں میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کانفرنس میں چونکہ انتظام تھاکہ حاضرین 'ہیڈ فون' کے ذریعے یہ رواں ترجمانی سن سکتے تھے۔ اس لئے مختلف زبانیں بولنے والوں کے لئے ڈاکٹر صہیب حسن صاحب کی ترجمانی نے پل کا کام کیا۔ راقم الحروف نے ہیڈفون کے ذریعے ان کی رواں ترجمانی سنی تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ مقرر کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ لفظ بہ لفظ اسی اسلوب میں ترجمہ کرتے جانا کہ اصل تقریر کا گمان ہو، ایک بے حد مشکل فن اور فریضہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے کیونکہ مسلسل ارتکاز توجہ کے ساتھ فوری طور پر ترجمہ کرنا آسان امر نہیں ہے۔ مگر ڈاکٹر صہیب حسن اور ان کے برادرِ خورد ڈاکٹر سہیل حسن نے اکٹھے جس خوبی سے یہ فرض نبھایا، وہ انہی کا خاصہ تھا۔ میں نے کے ایم اعظم صاحب سابق مشیر اقتصادیات ا قوامِ متحدہ کو یہ کہتے سنا کہ اس ترجمہ کا معیار اقوامِ متحدہ کی کانفرنسوں سے بھی بہتر تھا۔ لاہورمیں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی کانفرنس میں ہیڈ فون کے ذریعے فوری ترجمہ سنا جاسکے۔جنا ب ایس ایم ظفرنے بھی اپنی تقریر میں اس معیاری ترجمہ پر تعریف کی۔
ڈاکٹر صہیب حسن صاحب سے آواری ہوٹل میں جہاں وہ قیام پذیر تھے، ایک طویل نشست بھی ہوئی۔ انہوں نے برطانیہ میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ راقم الحروف نے ان سے یورپ میں بیٹھ کر اسلام اور مغرب کے حوالہ سے تحقیقی کام کے اِمکانات اور صورتوں پربھی تبادلہ خیال کیا۔
(۸) بوسنیا ہرزوگوینا کے صدر عالی جاہ عزت بیگووچ خود تو تشریف نہ لاسکے، البتہ ان کے نمائندے ڈاکٹر نجیب ساچروی نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پر مصائب کے ٹوٹ پڑنے والے پہاڑ کا بے حد درد انگیز لہجے میں ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ امت ِمسلمہ نے بوسنیا کے مسلمانوں کے متعلق سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بوسنیا کے مسلمان اپنی جدوجہد کی بنا پر اپنا قومی تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں نے بے پناہ ظلم وستم سہ کر اپنا وجود قائم رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظالم سربی اَفواج بوسنیا کے مسلمانوں کو مکمل طور پر صفحہٴ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہیں مگر ان کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا : بوسنیا کی قیادت نے قرآن و سنت کی روشنی میں سربوں کے خلاف جہاد برپا کر رکھا ہے۔ قرآنی تعلیمات ہی بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوجائیں۔
(۹) بحرین سے آنے والے دانشور ، جمعیت التربیة الاسلامیہ کے چیئرمین الشیخ عبدالرحمن جاسم المعاودہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی اور تحفظ اُمت ِمسلمہ کا حساس ترین مسئلہ ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان ایمان باللہ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے موٴثر اِقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بعض مسلم ممالک میں شادی، طلاق اور وراثت جیسے اہم اُمور کے متعلق قرآنی تعلیمات پیش کرنے پر پابندی عائد ہے۔ اُمت ِمسلمہ قرآن کی جامع تعلیمات سے بے خبر ہوتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی عملی زندگیوں سے اسلام آہستہ آہستہ خارج ہورہا ہے۔ انہوں نے تجاویز پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہی مسلمانوں کے مسائل کا صحیح حل ہے۔ انہوں نے سفارش کی کہ مسلمان ممالک اُمت ِواحدہ کی صورت میں باہم تعاون کریں۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ امت کی قیادت صالح اور متقی افراد کے ہاتھ ہو۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس کانفرنس کے اختتام پر ایک کمیٹی بنائی جائے جو مسلمان ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات کرکے انہیں عملی اِقدامات اٹھانے پر تیار کرے۔
(۱۰) شیخ ڈاکٹر حسن الشافعی، صدراِسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد کے مقالہ کا عنوان تھا:"مادّیت اور روحانیت کے درمیان انسان کا مستقبل"... یہ موضوع خالص فلسفیانہ بحث سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے فاضل مقرر کا اُسلوب بھی فلسفیانہ رنگ لئے ہوئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا پیغام عقلی، عملی اور روحانی اُمور کے متعلق توازن کے قیام پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں نئی روحانیت جنم لے رہی ہے جس کی بنیاد اسلام کے خوفِ خدا کے تصور پر ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ پیغمبر علیہ السلام محض مفکر نہیں ہیں، وہ اپنے خیالات پر پہلے خود عمل کرتے ہیں، بعد میں دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلام کے روحانی پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں مسلم معاشرے میں روحانی و اخلاقی ترفع کے حصول کے لئے 'مجاہدہ' کے اصول پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اجتہاد، جہاد اور مجاہدہ ہی ہماری حکمت ِعملی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور مذہب باہم یکجا ہوسکتے ہیں، ان میں بالفعل کوئی تضاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے بغیر سائنس، انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت نہیں کرسکتی۔ آج دنیا ایک نئے مرحلہ میں داخل ہورہی ہے جہاں نئی اَقدار جنم لے رہی ہیں، مگر مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے خطبہ کے آخر میں ڈاکٹر اقبال کی کتاب 'جاوید نامہ' سے چند اشعار پیش کئے، جو انسان کو اپنی خودی کی پہچان کی ترغیب پر مبنی ہیں۔
(۱۱) جماعت ِاسلامی کے راہنما مولانا گوہر رحمن نے 'اکیسویں صدی میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش چیلنجز' کے موضو ع پر خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ اکیسویں صدی میں اُمت ِمسلمہ عالمی مسائل میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت کو درپیش چیلنجز کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور ان کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اُمت کے زعما کو پانچ محاذوں پر حکمت و تدبر اور توازن کے ساتھ کام کرنا ہے۔ وہ پانچ چیلنجز یہ ہیں :
(۱) دین کے جامع تصور سے لاعلمی
(۲) امریکہ کے عالمی استحصالی نظام اور اسلام کے عالمی تعمیری نظام کے درمیان نظریاتی جنگ
(۳) افتراقِ امت اور انتشارِ ملت
(۴) مادّی قوت اور ٹیکنالوجی میں سامراجی قوتوں کی برتری
(۵) امت ِمسلمہ کے نااہل حکمران
انہوں نے کہا کہ امت ِمسلمہ کے مسائل کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ صحیح راستہ سے بھٹک چکی ہے۔ امت ِمسلمہ کا اصل مشن اور مقصد ِتشکیل پوری انسانیت کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینا ہے، اپنے قول و عمل سے حق اور عدل و انصاف کی شہادت دینا ہے اور اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم اور غالب کرنے کے لئے اور دنیا سے ظلم و استحصال اور فساد و بگاڑ کو مٹانے کے لئے جہاد کرنا ہے لیکن سب سے بڑا المیہ اور لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں قائم ہیں، ان میں بھی اسلامی نظام قائم نہیں ہے بلکہ یہ حکومتیں اسلامی تہذیب کی بجائے غیر اسلامی تہذیب کو فروغ دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "اللہ کے نافرمانوں اور طاغوت کے فرماں برداروں کو مسلمانوں کی قیادت و سیاست سے ہٹانا ایک دینی فریضہ ہے اور یہی امت ِمسلمہ کو درپیش بڑا چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنا علماءِ دین اور اُمت کے رہنماؤں کا فرض ہے۔ لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لئے دینی و سیاسی تنظیموں، اسلامی تحریکوں اور تمام دینی قوتوں کا متحد ہونا ضروری ہے"
(۱۲) کانفرنس میں اسلامی معاشیات سے متعلق موضوعات پر بھی خاصے فکر انگیز اور وقیع مقالہ جات پڑھے گئے۔ ان میں سے اہم ترین مقالہ عالمی شہرت یافتہ ماہر قانون سید شریف الدین پیرزادہ کا تھا۔ سید شریف الدین پیرزادہ جو 'او آئی سی'کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں، کے مقالہ کا موضوع "اسلامی مشترکہ مارکیٹ" تھا جس میں انہوں نے فاضلانہ انداز میں مسلمان ممالک کی معیشت ، اور مروّجہ مالیاتی نظاموں کا بھرپور تجزیہ پیش کرتے ہوئے تجویز کیا کہ معاہدئہ روم کی طرز پر مسلمان ممالک "اسلامک کامن مارکیٹ" کا قیام عمل میں لائیں۔ ان کے مقالہ میں یہ بھی سفارش کی گئی تھی کہ مالدار مسلمان ممالک یورپی بنکوں سے اپنا سرمایہ نکال کر اس مشترکہ مارکیٹ کے قیام کے لئے استعمال میں لائیں۔ اسلامی دنیا اس وقت شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ مشترکہ ایمان کی بنیاد پر مشترکہ اقتصادی مارکیٹ قائم کی جائے، اقتصادی اتحاد کے بغیر سیاسی اتحاد کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
جناب شریف الدین پیرزادہ چونکہ خود تشریف نہ لاسکے لہٰذا ان کے انگریزی زبان میں لکھے ہوئے مقالہ کی تلخیص پنجاب کے وزیرقانون جناب خالد رانجھا نے پیش کی۔ راقم نے پیرزادہ صاحب کے مقالہ کا مکمل مسودہ پڑھا ہے، جوبے حد فکرانگیز اور متاثرکن ہے۔ کاش ان کی تجاویز کو مسلم دنیا عملی جامہ پہنا سکے۔ (محدث کے کسی قریبی شمارہ میں اس مقالہ کا اُردو ترجمہ شامل اشاعت ہوگا ، ادارہ اِن شاء اللہ)
(۱۳) اَقوامِ متحدہ کے سابق مشیر اقتصادیات جناب کے ایم اعظم نے 'اسلامی معاشیات' کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔ انہوں نے کہا: اسلامی اقتصادیات کی بنیاد تصورِ توحید پر قائم ہے۔ اسلام کا اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی نظام توازن کے اُصول پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ہر معاملے میں توازن (Moderation) کا درس دیتا ہے۔ 'اقتصاد' کا لغوی مطلب بھی 'اعتدال' ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام نے انسانی لالچ کی جبلت کو اُ خروی حیات سے متعلق کرکے متوازن کردیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلام میں ربو ٰ کی ہر شکل حرام ہے۔ یہ بنیادی طور پرگناہ ہے اور جرمبھی کیونکہ قرآن میں اِسے اللہ سے جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام ناکام ہوچکے ہیں۔ اسلام تمام دنیاوی اَعمال کو بھی اخلاقی اَعمال قرار دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زکوٰة کا صحیح معنوں میں نفاذ اقتصادی خوشحالی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اسلام ذخیرہ اندوزی کے خلاف ہے۔ اسلامی معاشی ماڈل میں Collatoralکو Equity کے ساتھ مربوط کردیا گیا ہے۔ کے ایم اعظم صاحب نے اپنے طویل مقالے کے آخر میں مفصل سفارشات پیش کیں، جن کا اِحاطہ کرنا مشکل ہے۔ (مکمل اُردو ترجمہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ)
(۱۴) ان کے علاوہ جناب ارشد زمان نے "اقتصادی اتحاد و یکجہتی کے لئے پالیسیاں" کے عنوان سے انگریزی میں مقالہ پڑھا۔ انہوں نے مسلمان ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لئے چند قابل قدر سفارشات پیش کیں۔
(۱۵،۱۶،۱۷) اِقتصادیات کے موضوع پر وفاقی وزیر خزانہ کے مشیر خاص ڈاکٹر طارق حسن کا مقالہ بھی خیال اَفروز تھا۔ ان کا موضوع تھا: "عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات پر انحصار کیسے کم کیا جائے؟" انہوں نے پاکستان کے بین الاقوامی قرضہ جات پر مفصل اَعدادوشمار پیش کرنے کے بعد خیال ظاہر کیا کہ یہ قرضہ جات پاکستان کو ترقی کی بجائے تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے استحصالی نظام سے نجات اُمت مسلمہ کی اقتصادی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی صاحب نے بھی "بیرونی قرضہ کے مسائل اور آئی ایم ایف پر انحصاریت کا خاتمہ" کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے مفصل سفارشات پیش کیں۔ جناب انجینئر عبدالودود نے 'غیر سودی بینکاری'کے موضوع پر مخصوص نقطہ نظر سے اظہا رِخیال کیا۔
(۱۸) پنجاب کے سابق گورنر جناب شاہد حامد نے کانفرنس کے ایک اِجلاس کی صدارت فرمائی۔ اپنے صدارتی خطبہ میں انہوں نے کہا کہ مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ۲۰ فیصد ہیں، ان کا ماضی شاندار ہے۔ اور وہ ایک عظیم الشان تہذیب کے وارث ہیں۔ ابتدائی پانچ سو سالوں میں وہ سائنس و فنون کے تمام شعبہ جات میں قیادت پر فائز رہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک کی تمام تر معاشی، سیاسی، تمدنی ترقی مسلمان سائنس دانوں کی عرق ریزی کی مرہونِ منت ہے۔ آج مسلمان جس آزمائش سے دوچار ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی قابل فخر روایات سے منحرف ہوچکے ہیں۔ مسلم دنیا بے تحاشا وسائل کے باوجود اپنا وجود منوانے سے قاصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُمت ِمسلمہ کو اپنی سوچ اور اَہداف میں تبدیلی لانا ہوگی۔ OIC ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے مسلم اتحاد کوفروغ دیا جاسکتا ہے۔ اس اِدارے کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اجتماعی مسائل کے لئے ایک خودکار نظام تشکیل دیا جانا چاہئے۔ مسلم ممالک کو اقوامِ متحدہ میں علیحدہ نشست کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ جس طرح یورپ میںG-8 کی میٹنگ ہوتی ہے، مسلمان ممالک بھی اس طرح کا فورم قائم کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بیرونی اِمدا دکی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، ایران، سعودی عرب اور پاکستان اُمت ِمسلمہ کی راہنمائی کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی میڈیا میں مسلمان ممالک کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے سفارش کی کہ علاقائی سطح پر مسلمانوں کا مشترکہ نظامِ اطلاعات قائم کیا جائے۔ انہوں نے باہمی معاشی اور مالیاتی تعاون کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ دیرپا خوشحالی کے لئے تعلیم پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ پوری اُمت کو جہالت کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں کہیں ممکن ہو، ہمیں مسلمانوں کی آپس میں لڑائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ممالک کو باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کرنے کے لئے ایک مشترکہ ثالثی کونسل تشکیل دینی چاہئے۔ مزید برآں مسلمان ممالک کو ایک عالمی مسلم عدالت بھی قائم کرنی چاہئے۔
(۱۹) اسلامی معاشیات کے حوالے سے معروف دانشور اورجماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر خورشیداحمد نے بھی کانفرنس میں فکر انگیز خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ اپنے وسائل پر کنٹرول حاصل کرے اور ایک ایسی قیادت کو سامنے لائے جو استعماری قوتوں کا جرأت مندانہ مقابلہ کرتے ہوئے ملت ِاسلامیہ کے مسائل کا حل پیش کرے۔ پروفیسر خورشید احمد نے اَعدادوشمار کی روشنی میں مسلمان اور غیرمسلم ممالک کے درمیان معاشی عدمِ مساوات کی بے حد متاثر کن تصویر کشی کی۔ انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو امت ِمسلمہ کے لئے بے حد اہم قرار دیا۔ ان کے خیال میں مسلم ذرائع ابلاغ کی جدید پیمانوں پر اُستواری وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ انہوں نے مغرب کے متعصّب میڈیا کو مذمت کا نشانہ بنایا۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ معاشی استحکام امت ِمسلمہ کے سیاسی استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔
(۲۰) ذرائع ابلاغ اور اسلامی دنیا کے حوالہ سے متعدد مقررین نے اپنے خیالات کا اظہا رکیا۔ اس میں نمایاں ترین خطاب شعبہٴ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مقالہ کا عنوان تھا 'عالمگیریت کا چیلنج او رمیڈیا'... انہوں نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ متعدد نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ سیاسی بھی ہیں، فکری، معاشی او رنفسیاتی بھی۔ ان کا عالمی سطح پر مقابلہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے بھرپور استعمال سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا میڈیا مغربی اقدار کے تابع ہے۔ وہ اسلام کے قدری نظام کو اس کا صحیح مقام نہیں دیتا۔ مسلمانوں کا ابلاغی استحصال کیا جارہا ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہئے کہ وہ اپنا مشترکہ میڈیا نیٹ ورک قائم کریں ، جو اسلام کی آفاقی اقدار کی تشہیر او رابلاغ کا اہم فریضہ ادا کرسکے۔
(۲۱) انگریزی روزنامہ 'دی نیشن' کے ایڈیٹر جناب عارف نظامی نے 'ڈس انفارمیشن کی بلا اور مخالف میڈیا' کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا : اسلامی دنیا میں روز بروز یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ مغربی میڈیا اسلام کے خلاف سخت تعصب کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا مسلمانوں کے لئے ایک لگی بندھی اور تعصب سے بھرپور ابلاغی مہم برپا کئے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کے لئے دہشت گرد، بنیاد پرست اور جنونی کے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا عراق کے خلاف پابندیاں، مسئلہ کشمیر ہو یا طالبان یا اسامہ بن لادن کا معاملہ، ہر معاملے میں تعصب کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ مغربی میڈیا ہمیشہ امریکہ اور یورپی یونین کی جارحانہ پالیسیوں کا جواز پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ عراق کے خلاف پابندیوں کے بھیانک نتائج کی نشاندہی کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ مسلم اقلیتوں کی آزادی کی تحریکوں کو حق خودارادی کی جدوجہد کی بجائے دہشت گردی کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلمان اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
جناب عارف نظامی نے کہا کہ جب تک امت ِمسلمہ قوت حاصل نہیں کرتی اور نئے ادارے قائم نہیں کرتی، وہ مغربی دنیا کے غلبہ اور تسلط سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جوابی صحافیانہ حملوں کے لئے نیٹ ورک قائم کرنا چاہئے۔
(۲۲) روزنامہ 'جنگ' کے کالم نگار، کہنہ مشق صحافی اور نامور دانشور جناب اِرشاد احمدحقانی کی گفتگو کا موضوع تھا: "مغربی میڈیا اور عالم اسلام" ...جناب حقانی نے مغرب اور عالم اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ مغرب اور عالم اسلام کا توازن دو تین صدیوں سے بگڑا ہوا ہے۔ انیسویں صدی میں مغرب نے نوآبادیاتی تسلط قائم کیا، بیسویں صدی کے نصف میں عالم اسلام آزاد ہوا، لیکن عدم توازن جوہری طور پر دور نہیں ہوا۔ بلکہ مغرب ملت ِاسلامیہ کے مقابلے میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے میدان میں مغرب کی برتری ہمارے مفادات پر منفی طور پر اثر انداز ہورہی ہے۔ جدید میڈیا کی پہنچ اتنی وسیع ہے کہ اس سے عالمی رائے عامہ کو ایک رُخ پر ڈالنا آسان ہوگیاہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا رویہ تاریخی تعصب اور غیر معقولیت کا آئینہ دار ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشمکش میں مغربی میڈیا نے بے حد جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ فلسطین کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو تشدد پسند بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کو ہر جھاڑی کے پیچھے اُسامہ بن لادن نظر آتا ہے۔
حقانی صاحب نے کہاکہ دنیا کے متعدد ممالک میں اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں، ان میں سے کچھ انتہا پسند بھی ہیں، مگر مغربی میڈیا سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ کسی ولن کو ہیرو اور ہیرو کو ولن بنا دینا مغرب کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک ایک موٴثر اسلامی نیوز ایجنسی تک نہیں بناسکے تو ہم مغربی میڈیا کی ڈس انفارمیشن کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔مغربی میڈیا کے مخالفانہ حملوں کا توڑ اس وقت غیرمعمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ لوہے کو کاٹنے کے لئے لوہا پیدا کیا جائے۔ ورنہ اذہان کی جنگ میں ہم اسی طرح شکست کھاتے رہیں گے۔
(۲۳) پروفیسر عبدالجبار شاکر اس کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض نبھاتے رہے۔ مختلف زبانوں میں تقریر کرنے والے مقررین کا تعارف جس خوبصورت اور متین انداز میں شاکر صاحب نے کروایا، وہ انہی کا ہی خاصہ ہے۔ سٹیج سیکرٹری شپ کے علاوہ دانش و حکمت کے اس عالمی میلے میں شاکر صاحب نے فکری موتی بکھیرنے میں بھی برابر کا حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بعض نادر سفارشات کیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ عالم اسلام میں مختلف شعبوں کے ماہرین پرمشتمل Expert city قائم کئے جائیں جو امت ِمسلمہ کے لئے تھنک ٹینک کا فریضہ انجام دیں۔ انہوں نے کہاکہ وقت آگیا ہے کہ عالم اسلام استحصالی یورپ سے اپنے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کا حساب مانگے۔ پورے دو سوسال تک مغربی استحصالی طاقتیں عالم اسلام کے وسائل لوٹ کر اپنے خزانے بھرتی رہی ہیں، امت ِمسلمہ کو یورپ سے ان لوٹے ہوئے وسائل کی واپسی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ عالمی سطح پر اسلامی معاشیات کے موضوع پر تحقیقی انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے۔
(۲۴) راجہ ظفرالحق صاحب پاکستان مسلم لیگ کے کنوینر اورپاکستانی سیاست کی قابل قدر شخصیت ہیں۔ اسلامی دنیا میں بھی انہیں احترام کے نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ راجہ صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ موٴتمر اسلامی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کشمیر کی صورتحال کے متعلق عالم اسلام کی طرف سے بے پروائی پر سخت افسوس کااظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ستر ہزار سے زائد بے گناہ کشمیری ہندوستانی اَفواج کے ہاتھوں شہید کئے جاچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج فلسطینی مسلمانوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔ چیچنیا، بوسنیا، اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسلیں ختم کرنے کی وحشیانہ پالیسی پر عمل ہو رہا ہے، مگر مسلمان ملکوں کی طرف سے اس صورت ِحال کے خلاف مطلوبہ ردّ عمل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلمان ملکوں میں اسلامی روح بیدار کرنے کے لئے موٴثر اقدامات کئے جائیں۔ امت ِمسلمہ کودرپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے۔
(۲۵) جنرل (ریٹائرڈ) کے ایم عارف، جنرل ضیاء الحق کے دست ِراست تو تھے ہی، دانشور بھی کم درجہ کے نہیں ہیں۔ عسکری پس منظر کے لحاظ سے وہ واحد شخصیت ہیں، جنہوں نے اس کانفرنس میں خطاب کیا۔ جنرل خالد محمود عارف نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے اور مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک مسلمانوں کی ۵۶ ریاستیں ہیں، مگر مسلمان بے حد پسماندہ ہیں۔ اسلامی دنیا علم، ٹیکنالوجی اور سائنس کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ مغرب ان کا استحصال کر رہا ہے۔ نازیوں کے خاتمے اور کمیونزم کے زوال کے بعد، مغرب تہذیبی اعتبار سے اسلام کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ذرائع اَبلاغ نے اسلام کے لئے نئی اصطلاحات وضع کر رکھی ہیں مثلاً"اسلام کی واپسی"، "اسلامی بنیاد پرستی"، "اسلامی دہشت گردی" اس طرح رائے عامہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بعض مسلمان دانشور بھی مغربی میڈیا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ بھی یہ زہریلی اصطلاحات مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ مغرب تیل کی فراہمی میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کے امکان کو ختم کرنے کے لئے تیل پیدا کرنے والے مسلمان ملکوں کو دباؤ میں رکھے ہوئے ہے۔ مغرب کی تمام تر صنعت مسلمانوں کے تیل پر انحصار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: مغربی میڈیا پاکستان کے نیوکلیئر بم کو'اسلامک بم' کانام دیتا ہے، لیکن وہ کبھی نہیں کہتے کہ یورپ کے پاس جو بم ہیں، وہ مسیحی بم ہیں یا بھارت کے پاس ہندو بم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اگرچہ سیاسی طور پر آزاد ہیں، مگر معیشت اورٹیکنالوجی ، فو جی سازوسامان اور دیگر میدانوں میں وہ ابھی تک آزاد نہیں ہیں۔ مسلمان ملکوں کو اتحاد، معاشی خوشحالی اور صنعتی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔
(۲۶) کانفرنس کے آخری سیشن کا صدارتی خطبہ جناب محمود احمد غازی، وفاقی وزیربرائے مذہبی امور، حکومت ِپاکستان نے ارشاد فرمایا۔
مندرجہ بالا سطور میں انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس میں پڑھے جانے والے اہم مقالہ جات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ بعض مقالہ جات کے محض چند نکات پیش کرنے تک ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ طوالت کے خوف کے پیش نظر چند مقررین کی طرف سے پیش کئے جانے والے مقالہ جات کے عنوانات پیش کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض علمی اعتبار سے اتنے اہم ہیں کہ ان پر مختصر روشنی ڈالی جانا ضروری تھا:
۱۔ پروفیسر ڈاکٹرعبدالرؤف ظفر انچارج ، سیرت چیئراسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
"نئے ہزاریے میں امت مسلمہ کو درپیش معاشرتی چیلنجز"
۲۔ پروفیسر نگہت یاسمین ہاشمی اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور
"نئے ہزاریے میں امت مسلمہ کو درپیش تعلیمی چیلنجز"
۳۔ امام محمدذکی الدین شرفی ڈائریکٹر جنرل، انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ، اسلام آباد
"عالم اسلام او رپاکستان کو درپیش مسائل، مستقبل کی امکانی صورتیں" (انگریزی)
۴۔ ڈاکٹر عبدالجلیل "اسلام کی نشاة ثانیہ کا کام کیسے ہو؟"
۵۔ ڈاکٹر عبدالرشید "اتحادِ امت ِمسلمہ... اِمکانات و مشکلات"
یہاں میں ڈاکٹر سہیل حسن، صدر شعبہٴ قرآن وحدیث، ادارئہ تحقیقاتِ اسلامیہ،اسلام آباد کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر سہیل ، مولانا عبدالغفار حسن کے منجھلے صاحبزادے ہیں۔ عربی زبان سے خاص شغف رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھا بلکہ چند عربی تقاریر کا رواں ترجمہ بھی کیا۔ ڈاکٹر سہیل صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال کاموقع بھی ملا، بے حد شریف النفس اور علم دوست شخصیت کے مالک ہیں۔
ان کے علاوہ استاد محمد ہاشم مجددی افغانستان سے آئے ہوئے تھے، انہوں نے بے حد فصیح عربی زبان میں خطاب کیا۔ ان کی تقریر کا مرکزی نقطہ اِتحادِ امت تھا۔ کچھ اور مقررین بھی تھے جن کے اسماءِ گرامی کا ریکارڈ یہ تبصرہ لکھتے ہوئے میرے سامنے نہیں ہے، اسی لئے انکا تذکرہ صرفِ قلم کرنا پڑ رہا ہے۔
اگرچہ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا انعقاد ایوان اقبال میں کیاگیا۔ مگر اس سہ روزہ کانفرنس کے دوران شہر لاہور میں متعدد تقاریب منعقد ہوئیں جن میں کانفرنس کے شرکا نے شرکت کی۔ کانفرنس کے مہمانوں کے اعزاز میں جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے منصورہ میں پرتکلف عشائیہ دیا۔ جامعہ اشرفیہ میں بھی لنچ کا اہتمام کیا گیا۔
شیخ قمر الحق صاحب جو جامعہ لاہور الاسلامیہ کی نگران باڈی کے ممبر،فلاح فاؤنڈیشن کی مجلس عاملہ کے رکن اور معروف صنعت کار ہیں، نے بھی عرب مہمانوں کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا۔ موٴخر الذکر ضیافت اس اعتبار سے قابل ذکر ہے کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے زیر اہتمام ہونے والی اس ضیافت میں عرب شیوخ و علماءِ کرام کے علاوہ سعودی عرب کے سفیر احمد العجلان اور کمانڈر شیخ ابو عبدالعزیز محمود باحاذق بھی شریک ہوئے۔ پوری دنیا میں جہادی تحریکوں کی سرپرستی کے حوالے سے کمانڈر ابوعبدالعزیز کا نام بہت اہم ہے۔ افغانستان، بوسنیا اور کشمیر میں جاری جہاد میں انہوں نے اربوں روپے خرچ کئے ہیں۔ ان کی آمدورفت کو عموماً خفیہ رکھا جاتاہے۔ عالم اسلام کے اس عظیم مجاہد کو دیکھ کر روحانی خوشی ہوئی۔یاد رہے کہ ابو عبدالعزیز کے آباؤ اجداد سندھ سے نقل مکانی کرکے سعودی عرب میں آباد ہوئے تھے۔
اس سلسلہ میں ایک عظیم الشان تقریب جامعہ لاہور الاسلامیہ میں بھی منعقد ہوئی۔ یہ تقریب تکمیل صحیح بخاری شریف، تجوید و قرآت کانفرنس اور تقسیم اسناد کے حوالہ سے منعقد ہوئی۔ عالم اسلام اور عرب ملکوں کی ممتاز شخصیات نے اس تقریب کو رونق بخشی۔ چند نمایاں مہمانانِ گرامی میں سعودی عرب کے وزیرعدل و انصاف ڈاکٹر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ، سعودی عرب کے مفتی شیخ صالح بن غانم السدلان، بحرین کی جمعیت التربیة الاسلامیہ کے چیئرمین عادل بن عبدالرحمن جاسم، سعودی عرب کے نامور عالم دین شیخ عبداللہ بن حمد ا لجلالی، مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کے سینئر رکن شیخ ڈاکٹرعبداللہ مطلق، تبوک ہائی کورٹ کے قاضی ڈاکٹر ابراہیم البشر، جماعت الدعوة الی القرآن والسنہ کے امیر مولانا سمیع اللہ (افغانستان)، سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر شیخ احمد العجلان اور دیگر غیر ملکی شخصیات شامل ہیں۔
ا س کے علاوہ جامعہ کی مجلس تاسیسی (مجلس التحقیق الاسلامی) کے صدر دفتر میں جامعہ کی 'مجلس اُمناء' (گورننگ باڈی)کے اِجلاس بھی کانفرنس سے پہلے او رکانفرنس کے دوران جاری رہے۔ جن میں بعض اجلاسوں میں 'مجلس' کے زیر اہتمام عہد ِنبوت سے لے کر عصر حاضر تک شریعت کے حوالہ سے اسلامی قاضیوں کے فیصلوں پر مبنی انسائیکلو پیڈیا کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے بھی جامعہ کے مختلف شعبوں کے سربراہان کے علاوہ کانفرنس کے ممتاز سکالرز شریک ہوتے رہے۔شریک ہونے والوں میں سعودی عرب، کویت ،دوبئی اوربحرین وغیرہ سے جامعہ کے ٹرسٹیز شامل ہیں۔
اس کانفرنس کے شرکا کے اسماءِ گرامی اور اس میں پڑھے جانے والے مقالہ جات کی فہرست دیکھ کر اس بین الاقوامی کانفرنس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس طرح کی کانفرنس اگر کسی عرب ملک میں منعقد کی جاتی تو وہاں کے ذرائع اِبلاغ اس پر خصوصی ایڈیشن اور ضمیمہ جات شائع کرتے، ٹیلی ویژن پراس کو خوب تشہیر دی جاتی۔ مگر صد افسوس پاکستان میں منعقد ہونے والی یہ عظیم الشان کانفرنس پاکستان کے میڈیا میں بہت زیادہ جگہ نہ پاسکی۔ ارشاد حقانی صاحب اور عارف نظامی صاحب نے مغربی میڈیا کے اسلام کے خلاف تعصب کا اپنی تقاریر میں ذکر کیا، مگر وہ اپنے ملک کے سیکولر میڈیا کے دینی تنظیموں کے خلاف تعصب کو فراموش کرگئے۔
بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کو سوائے روزنامہ نوائے وقت اور 'انصاف' کے کسی دوسرے اخبار نے کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ ارشاد حقانی صاحب جس کثیر الاشاعت اخبار (جنگ) میں کالم لکھتے ہیں، اس نے تو اس کانفرنس کے دوسرے روز کی کارروائی کے متعلق ایک کالمی خبر تک شائع نہ کی۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی اُردو صحافت کا کثیر الاشاعت اخبار جو غدار الطاف حسین کا چھ صفحات پر انٹرویو چھاپنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرکے باقاعدہ ایک ٹیم کو لندن روانہ کرتا ہے، یہی اخبار اسلام دشمن یہود و ہنود کی ایجنٹ عاصمہ جہانگیر کا انٹرویو سنڈے میگزین کے پانچ صفحات پر پھیلا کے شائع کرتا ہے، مگر اس کے سیکولر ذہن رکھنے والے صحافیوں کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ بین الاقوامی کانفرنس کے عالمی سطح کے سکالر شرکاء میں سے کسی ایک کا انٹرویو شائع کرے۔ ہمارے انگریزی اخبارات کے لئے تو یہ کانفرنس کوئی خاص واقعہ ہی نہیں تھا۔ یہی اخبارات جو فلمی اداکاروں کی قد آدم تصاویر چھاپ کر اپنے اخبارات کو کالاکرتے ہیں او راین جی اوز کے معمولی پروگراموں کو صفحہٴ اول پر جگہ دیتے ہیں، وہ اس قدر عظیم الشان بین الاقوامی کانفرنس کے بارے میں کتنے شدید تعصب کا اظہار کرتے ہیں!... ہمارے صحافیوں کو سنجیدہ علمی موضوعات سے کتنی دلچسپی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس سہ روزہ کانفرنس میں صحافیوں کے لئے مخصوص نشستیں تقریباً ًخالی ہی رہیں۔ اس کانفرنس میں اجتماعی طور پر شرکا کی تعداد بھی کانفرنس کے شایانِ شان نہیں کہی جاسکتی ۔
ایوانِ اقبال سے چند گز کے فاصلہ پر الحمرا ہال میں پیش کئے جانے والے بیہودہ اور لچر ڈراموں میں اس قدر رَش ہوتا ہے کہ ٹکٹ نہیں ملتا، مگر ایک علمی اور اعلیٰ پائے کی کانفرنس میں شرکت کرنے والے ایک ہزار افراد بھی نہ ہوں تو ا سے امت ِمسلمہ کے علمی زوال کا نوحہ ہی لکھنا چاہئے۔
ان معروضات کے باوجود انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد ایک بہت قابل تحسین اقدام تھا۔ لاہور میں ہونے والی کانفرنس میں منظور کی جانے والی بہت سی قراردادوں کو دوحہ (قطر) کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شامل کرلیا گیا۔ ٭٭
نوٹ1. مروجہ مغربی اصطلاحات LIBERALISM اور FUNDAMENTALISM دین اور سیکولر ازم کے تناظر میں تو مذہب سے آزادی اور مذہبی تشدد کے مفہوم میں ہی استعمال ہوتی ہیںلیکن جب انہیں اسلامی دائرہ میں مثبت اور منفی رجحانات کی بحث میں استعمال کیا جائے تو لبرل ازم کا روشن پہلو آزادی ٔ فکر اور بنیاد پرستی کا مذہبی عصبیت مراد ہوسکتا ہے جن کا تطابق مقصود ہے لیکن اسلامی معاشرے اب جن خرابیوں کے شکار ہیں ان کے پیش نظر دونوں مذکورہ اصطلاحات لامذہبیت اور گروہی رجحانات کے تنائو کی نشاندہی کرتی ہیں، جن کا امالہ کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ فاضل مقرر اسی کی وضاحت کر رہے تھے۔ محدث