جنازے کے بعد میت کے لیے دعا کرنا

٭ کیا میت کے لئے نمازِ جنازہ سے فراغت کے فوراً بعد دعا کرنا جائز ہے؟
٭ نکاح نامے پر دستخط کرکے زبان سے قبول نہ کرنے والے دولہا کانکاح

٭سوال: کیا نکاح چوری چھپے ہوسکتاہے؟ ( محمد اسلم رانا ، مدیر المذاھب)
جواب :چوری چھپے نکاح کرنا ناجائز ہے۔ حدیث میں ہے :''جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے''۔ مشکوٰۃ باب الولی فی النکاح اور دوسری روایات میں ہے کہ وہ عورتیں بدکارہیں جو گواہوں کے بغیر اپنا نکاح کرلیتی ہیں والأصح أنه موقوف علی ابن عباس(سنن ترمذی)
حضرت عمرؓ کے پا س ایک نکاح کامعاملہ پہنچا جس میں ایک مرد اور عورت گواہ تھے ، فرمایا: یہ پوشیدہ نکاح ہے ، میں اسے جائز نہیں سمجھتا، اگر مجھے پیشگی علم ہوجاتا تو میں رجم کر چھوڑتا کیونکہ اس نکاح میں گواہی مکمل نہیں ۔ واضح ہو کہ جمہور کے نزدیک نکاح میں کم از کم دو عادل گواہ ہونے ضروری ہیں۔ امام مالک فرماتے ہیں: وہ نکاح پوشیدہ ہے جس میں گواہوں کو چھپانے کی تلقین کی گئی ہو۔ (شرح الزرقانی ۳؍۱۴۵)
اور نبیﷺ کا فرمان ہے: «لا نکاح إلا بولي وشاھدي عدل»( احمد ،طبرانی ،بیہقی وغیرہ باسناد صحیح) یعنی ''ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا''
صاحب ِمشکوٰۃ نے متعدد احادیث بیان کیں ہیں جن میں اعلانِ نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
٭ سوال: نماز جنازہ سے فارغ ہوچکنے کے بعد میت کے لئے دعا مانگنا شرعاً کیسا ہے؟ کیا حدیث «إذا صلیتم علیٰ المیت فأخلصوا له الدعاء» (جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو اس کے لئے خصوصی طور پر دعائیں کرو)او رابن شیبہ کی حضرت علیؓ سے روایت کہ ''انہوں نے نماز جنازہ پڑھی پھرمیت کے لئے دعا'' کی ، سے اس کا جواز نکلتا ہے؟
جواب: بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا نماز جنازہ سے فارغ ہوچکنے کے فوراً بعد میت کے لئے دعا کی دعا کا جواز ہے یا نہیں؟...نمازِ جنا زہ کے بعد دعا مانگنے کی دلیل کے طور پر ، سوال میں مذکور دو روایات پیش کی جاتی ہیں لیکن درست بات یہ ہے کہ میت کے لئے دعا نماز جنازہ کے دوران مانگی جائے۔پہلی حدیث کی تشریح بقول علامہ مناویؒ یوں ہے :
'' میت کیلئے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کیونکہ اس نماز سے مقصود صرف میت کیلئے سفارش کرنا ہے جب دعا میں اِخلاص اور عاجزی ہوگی تو اسکے قبول ہونے کی امید ہے'' (عون المعبود: ۳؍۱۸۸)
اور مستدرک حاکم میں حضرت ابوامامہ کی روایت میں ہے: «ویخلص الصلاة في التکبیرات الثلاث» یعنی جنازہ کی تین تکبیروں کے دوران اِخلاص سے دعا کرے۔ مستدرک حاکم کی اس حدیث سے اس امر کی وضاحت ہوگئی کہ دعا کا تعلق خالصۃ ً حالت ِنماز کے ساتھ ہے نہ کہ بعد از نماز سے۔
اصو لِ فقہ کا معروف قاعدہ ہے کہ «الأحادیث یفسربعضھا بعضا» ''احادیث ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں''،اس بنا پر اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم نمازِ جنازہ پڑھنا چاہو تو میت کے لئے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔ یہ إقامة المسبب مقام السبب (سبب بول کر مسبّب مراد لینا)کی قبیل سے ہے، ارادہ سبب اور نماز مسبّب ہے۔ حدیث کے الفاظ فَاَخْلِصُوْامیں 'فاء' کے ترتیب و تعقیب بلامہلت ہونے کا یہی مطلب ہے...اگر مقصود یہاں نماز جنازہ سے فراغت کے بعد دعا ہوتی تو پھر فاء کی بجائے لفظ ثُمَّ ہونا چاہئے تھا جو عام حالات میں ترتیب اور تراخی کا فائدہ دیتا ہے۔ احناف کی یہ توجیہ غلط ہے کہ فاء تعقیب کا یہ مطلب ہے کہ نماز کے بعد دعا کی جائے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث سنن ابوداود اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ہے اور امام ابوداود نے اس حدیث کو جنازہ کے دوران دعا پڑھنے کے ضمن میں ذکر کیا ہے انہوں نے اس پر عنوان یوں قائم کیا ہے: باب الدعا للمیت اور اس حدیث پر امام ابن ماجہ کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں اور بار بار غور سے پڑھیں:
«باب ماجاء في الدعاء في الصلاة علی الجنازة» یعنی نمازِ جنازہ میں دعا کے بارے میں جو کچھ آیا ہے، ا س کا بیان ...اس سے معلوم ہوا کہ محدثین اور احناف کے فہم میں زمین آسمان کا فرق ہے لہٰذا ا س تحریف پر انہیں ندامت کا اظہار کرکے حق کی طرف رجوع کی فکر کرنی چاہئے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے ''مراجعة الحق خیر من التمادي في الباطل'' باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ آدمی حق کی طرف رجوع کرلے ۔ (إعلام الموقعین)
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے قرآنِ مجیدمیں ہے ﴿فَإِذا قَرَ‌أتَ القُر‌ءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطـٰنِ الرَّ‌جيمِ ٩٨ ﴾..... سورة النحل ''جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو''۔ ائمہ لغت زجاج وغیرہ نے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے
«إذا أردت أن تقرأ القرآن فاستعذ باللہ ولیس معناہ استعاذ بعد أن تقرأ القرآن» ''جب آپ قرآن کی تلاوت کا ارادہ کریں تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کریں، اس کا یہ معنی نہیں کہ تلاوت ِقرآن کے بعد أعوذ باﷲ پڑھا کرو'' ...ا سی کی مثل قائل کا قول ہے:«إذا أکلت فقل بسم اللہ» یعنی جب تو کھانے کا ارادہ کرے تو بسم اللہ پڑھ، اس کا قطعاً یہ معنی نہیں کہ کھانے سے فراغت کے بعد بسم اللہ پڑھنی چاہئے''...امام واحدیؒ فرماتے ہیں: ''فقہاء کرام کا اس بات پراجماع ہے کہ استعاذہ قرا ء ت سے پہلے ہے''۔ (تفسیر فتح القدیر: ۳؍۱۹۳)
بلاشبہ شرع میں دعا کی بالعموم تاکید ہے ۔غالباً اس بنا پر فقہاء حنفیہ نے جنازہ میں قراء ت سے استغنائی پہلو اختیار کرکے اس کا نام دعاء وثناء وغیرہ رکھا ہے۔ موطا ٔ امام محمد میں ہے «لا قراء ة علی الجنازة وھو قول أبي حنیفة» اور یہ قول المبسوط للسرخسیؒ میں بھی ہے (۲؍۶۴) ... البتہ محقق ابن الہمام فتح القدیر (۱؍۴۸۹) میں فرماتے ہیں :
''فاتحہ نہ پڑھے تاہم بہ نیت ِثنا پڑھی جاسکتی ہے۔کیونکہ قراء ت رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں''
علامہ ابن الہمام جیسے محقق کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے، اس لئے کہ فاتحہ کی قراء ت کا اثبات تو صحیح بخاری میں موجود ہے: باب قراء ة فاتحة الکتاب علی الجنازة۔ تو پھر کیا یہ بات معقول ہے کہ اثناء جنازہ میں اخلاصِ دعا کی تاکید تو نہ ہو، لیکن سلام پھیرنے کے بعد کہاجائے کہ اب اِخلاص سے دعا کرو۔ غالباًا س دھوکہ کے پیش نظر حنفی بھائی نمازِ جنازہ کا تو جھٹکا کرتے ہیں، بعد میں لمبی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔
اصولِ فقہ کا قاعدہ معروف ہے کہ ''عبادات میں اصل حظر (ممانعت)ہے، جواز کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے''۔ عہد ِنبوت میں کتنے جنازے پڑھے گئے، کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں  ہیکہ نبیﷺ نے نمازجنازہ کے بعد دعا کی ہو۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے
«من أحدث في أمرنا هذا مالیس منه فھو ردّ» '' جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے''
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: «علیك بالأثر وطریقة السلف وإیاك وکل محدثة فإنھا بدعة» ''آثار اور طریقہ سلف کو لازم پکڑو، اپنے آپ کو دین میں اضافہ سے بچائو وہ بدعت ہے'' (ذمّ التاویل از ابن قدامہ)
ابن الماجشون نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، وہ فرماتے تھے:
''جو دین میں بدعت ایجاد کرکے، اسے اچھا سمجھے تو گویا وہ یہباور کراتا ہے کہ محمدﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے،اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم﴾ جو شے اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی''
امام شافعی فرماتے ہیں:''جس نے بدعت کو اچھا سمجھا اُسنے نئی شریعت بنا لی'' (السنن والمبتدعات )
رہا حضرت علیؓ کا اَثر (فعل صحابی ) تو اس کا تعلق نمازِ جنازہ کے متصل بعد سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دفن میت کے بعد سے ہے کیونکہ مصنف نے اس اثر پرجو عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ جملہ آثار اسی بات پر دلالت کرتے ہیںکہ اس دعا کا تعلق تدفین میت کے بعد سے ہے ، عنوان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے''...«في الدعاء للمیت بعد مایدفن ویسوی علیه»'' قبر پر مٹی برابر کرکے میت کے لئے دعا کرنے کا بیان۔ اور تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا ثابت شدہ امر ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت میں ہے:
''میں نے رسول اللہﷺ کو عبداللہ ذی نجا دین کی قبر پردیکھا، جب دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر دعا کی'' (أخرجه أبوعوانة في صحیحه ، فتح الباری ،۱۱/۱۴۴)
تمام خیر سنت نبوی کی پیروی میں ہے ، اور بدعت میں شر ہی شر ہے ۔اللہ ربّ العزت جملہ مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین!
٭ سوال:اگر کوئی آدمی نکاح نامے پر دستخط کردے اور اپنی زبان سے اس بات کا اقرار نہ کرے جیسے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں: کیا آپ کو اس لڑکی کے ساتھ نکاح قبول ہے...آیا اس طرح کرنے سے اس کا نکاح ہوجائے گا یا نہیں؟
جواب: ظاہر ہے کہ نکاح نامہ پر دستخط نکاح کی طلب کے بعد ہی کئے گئے ہوں گے ۔ اندریں صورت یہ قبول کے ہی قائم مقام ہے...صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص کا آپﷺ نے قرآن پر نکاح کیا تھا( باب التزویج علی القرآن) کسی روایت میں نہیں کہ ایجاب کے بعد اس نے کہا ہو کہ مجھے قبول ہے۔ اس حدیث میں اس کی چاہت ہی کو قائمقام قبول قرار دے کر انعقادِ نکاح کو قابل اعتبار سمجھا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی عنوان بندی ان الفاظ میں ہے «باب إذا قال الخاطب للولي زوّجني فلانة فقال قد زوجتك بکذا وکذا جاز النکاح وإن لم یقل للزوج اَرَضِیْتَ اَوْ قَبِلْتَ»
''باب اس بارے میں کہ جب نکاح کرنے والا (لڑکا) ولی سے کہے کہ میرا فلاں لڑکی سے نکاح کردیں اور ولی جواب میں کہے کہ میں نے اتنے مہر او رفلاں شرائط پر تیرا نکاح کردیا تو نکاح ہوجائے گا ، اگر چہ وہ لڑکے سے پھر نہ پوچھے کہ کیا تو راضی ہے یا تو نے قبول کیا؟''
اس طرح مذکورہ حالت میں نکاح نامہ پر دستخط قبول کے ہی قائمقام ہے اور نکاح درست ہے۔ نیز شریعت میں بولنے کے علاوہ محض عمل کو بھی قابل اعتبار سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری باب الطلاق فی الاغلاق... الخ کے تحت حدیث ہے:
«إن الله تجاوز عن أمتي ماحدثت به أنفسھا، مالم تعمل أوتتکلم »
''نبیﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کی دل میں کی گئی باتوں سے درگزر فرمایا ہے جب تک کہ وہ ان کا اظہا ر نہ کردیں یا ان کو عملی جامہ نہ پہنائیں''
اس حدیث سے اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ طلاق تحریر میں آنے سے واقع ہوجاتی ہے۔ حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں «واستدل به علی أن من کتب الطلاق طلقت امرأته لأنه عزم بقلبه وعمل بکتابته وھو قول الجمهور» فتح الباری: ۹؍۳۹۴
''اس بات سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جو طلاق لکھ دیتا ہے تو اس کی بیوی کو طلاق ہوجاتی ہے کیونکہ اس نے دل سے اس کا ارادہ کیا،او رلکھ کر اس پر عمل کردیا... او ریہی جمہور کا قول ہے''
اسی طرح محض نکاح نامہ پر دستخط کرنے سے نکاح بھی نیۃً منعقد ہوسکتا ہے۔
٭سوال: ایک عورت جس کے نکاح کو پچاس سے زائد برس ہوچکے ہیں، صرف ایک سال اپنے شوہر کے ساتھ رہائش رکھنے کے بعد سے خاوند کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر ہے۔ اس دوران میاں بیوی کا میل جول جاری رہا لیکن وہ عورت اپنے خاوند کے گھر رہنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ شادی کے پہلے سال حمل کے نتیجے میں ایک بیٹا پیداہوا جس کی عمر بھی ۴۵،۵۰ برس ہے۔ خاوند نے بعد ازاں دو نکاح کئے ہیں جن میں سے پہلی بیوی وفات پاچکی ہے۔
مذکورہ عورت نے بعد میں کوئی شادی نہ کی ہے اور وہ بقول اپنے خاوند کے انتظار میں بیٹھی ہے۔اس دوران نان و نفقہ عورت خود پورا کرتی رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا عورت کے اس طرزِ عمل کا شریعت کی نظر میں جواز ہے یا عو رت کو اللہ سے توبہ کرکے اپنے خاوند کو راضی کرنا چاہئے، کیا اس عورت کے بیٹے کا اس موقع پر خاموش رہنا بھی شریعت کی نظر میں درست ہے؟(نذیراحمد ٹھیکیدار، بدوملہی)
جواب: ایسی صورت میں عورت کو بارگاہِ الٰہی میں معافی کی درخواست کرکے شوہر کو راضی کرنا از بس ضروری ہے اور عورت کے بیٹے کے لئے بھی ضروری ہے کہ صحیح سمت کی راہنمائی کرے، اس میں خیر و برکت ہے۔ شریعت جوڑنے کو پسند کرتی ہے توڑنے کو نہیں: فرمایا «أبغض الحلال إلی اﷲ الطلاق»
٭ سوال: 'الف' نے'ب' پر زنا کا الزام لگایا ، مگر ثبوت میں کوئی شہادت پیش نہ کرسکا۔ پھر'الف' نے 'ب' سے قرآن پاک پر حلف لیا کہ'ب' زنا کا مرتکب نہیں ہوا، 'ب' نے حلف اٹھالیا،اس صورت میں 'الف'
(i) قذف کی سزا کا مستوجب ہے؟ اگر ہے تو اس حد کا نفاذ موجودہ حالا ت میں ممکن ہے؟
(ii) مسجد کا مستقل امام بن سکتا ہے؟
جواب: اس صورت میں حد ِقذف قائم نہیں ہوتی کیونکہ مقذوف (جس پربہتان لگا)نے قرآن پر حلف کے ذریعہ اپنی صداقت کا اظہار کردیا ہے، الزام لگانے والے کو اس پر یقین کرلینا چاہئے۔ مقذوف جب معاف کردے تو حد ساقط ہوجاتی ہے او رحد کا قیام اس صورت میں ہوتا ہے جب مقذوف کی طرف سے مطالبہ ہو کیونکہ یہ اس کا حق ہے ۔(ملاحظہ ہو تفسیر اضوا ء البیان: ۶؍۱۰۱)
(ii) ایسے شخص کو مستقل طور پر مسجد کا امام مقرر کرنا درست ہے، عدمِ جواز کی کوئی دلیل نہیں۔
٭سوال:'الف' کا 'ج' سے جھگڑا ہوگیا۔ پھر دونوں نے قرآن پاک پر صلح کرلی۔ بعد میں 'الف' نقض عہد کا مرتکب ہوا تو کیا 'الف' اس صورت میں کسی کفارے ، سزا کا مستوجب ہے؟ اور کیا 'الف' مستقل امام بن سکتا ہے؟ ... (عبدالقیوم ، راولپنڈی)
جواب: اس صورت میں کفارئہ قسم ادا کرنا چاہئے جس کا ذکر ساتویں پارے کے شروع میں ہے۔ ایسے شخص کو مستقل امام مقرر کیا جاسکتا ہے، عدم جواز کی کوئی دلیل نہیں۔

٭٭٭٭٭