عید الفطر فلسفہ اور اَحکام
عید ... دوسری اَقوام میں!
عہد قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال بھر میں ایک یا ایک سے زیادہ دن ایسے ہونے چاہئیں جن میں لوگ روز مرہ کاروبارِ حیات کومعطل کرکے عمدہ لباس پہن کر کسی مرکزی جگہ اکٹھے ہوں اور مختلف تقریبات منعقد کرکے اپنی حیثیت و شوکت کی نمائش کریں۔ایسے تہواروں کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور تاریخ و دن کاتعین قوموں نے اپنی تاریخ کے اہم واقعات کی یادتازہ رکھنے کے لئے کیا ہے۔ مثلاً ایرانیوں کی ایک عید یاتہوار کا نام مہرجان ہے جو فریدون بادشاہ نے اپنی ایک فتح عظیم کی یادگار کے طور پر منانے کا حکم دیا تھا۔اہل عرب بھی ایرانیوں کے زیراثر یہ عید منایا کرتے تھے۔
بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کی ہدایت پر فرعون کے مظالم سے یومِ نجات کو یومِ عید قرار دیا۔ حضرت موسیٰ اس دن روزہ رکھتے اور عبادت میں مصروف رہے۔ رات کوعید کے دوسرے تقاضے یعنی خوشی و مسرت وغیرہ پورے کرتے۔اَکل و شرب میں توسع فرماتے۔آنحضرتﷺکی مدینہ منورہ میں آمد تک یہ عید منائی جاتی تھی۔ قریش بھی اس دن کی عزت کرتے اور کعبہ پر غلاف چڑھاتے۔ لیکن جس طرح حضرت موسیٰ کی اُمت نے ان کی شریعت کا ستیاناس کردیا تھا،اسی طرح اس عید کی حقیقی روح کوختم کردیاتھا۔
غیرمسلم اور قدیم اقوام چونکہ اپنے سامنے کوئی نظریہ نہ رکھتی تھیں۔ اس لئے ان کی یہ عیدیں سوائے لہو و لعب کے اور کچھ نہ ہوتیں۔ مثال کے طور پر اہل مصر جو عہد قدیم سے عیدیں مناتے چلے آرہے تھے، ان کی عید نو روز جسے قرآن نے یوم الزینة سے تعبیر کیا ہے، ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا، دور دور سے لوگ رقص و تماشا میں حصہ لینے کے لئے آتے۔عورتیں بن سنور کر خوشبوئیں لگا کراور بھڑکیلے لباس زیب تن کر کے میلے میں شریک ہوتیں اور مردوں کواپنی طرف مائل کرنے کے لئے اپنے جسم کے بعض حصوں کو عریاں رکھتیں۔
اس طرح جناب ابراہیم کی قوم اپنے شہر وں میں بڑی شان و شوکت سے اپنی عید مناتی۔ ساری قوم شہر کے باہر ایک جگہ جمع ہوجاتی۔مردوزَن کامخلوط اجتماع ہوتا اور بے حیائی اور بت پرستی اپنی انتہا پر پہنچ جاتی۔ایسی ہی ایک عید کے موقع پر حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے بت خانہ کے بتوں کو پاش پاش کیا تھا۔
اسلام دین فطرت ہے لہٰذا اس نے بھی اپنے نام لیواؤں کے فطری تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے خوشی و مسرت کے دو تہوار عنایت کئے ہیں جن کو عربی میں عید کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔ ان اسلامی تہواروں کی اپنی جداگانہ اور امتیازی شان ہے۔ غیر مسلم اَقوام اپنے ایامِ عید میں اعتدال کی حدوں کوپھاند کرلہوولعب، عیش و طرب، اَکل و شرب میں مشغول ہوجاتی تھیں کیونکہ ان کے نزدیک حاصل زندگی بس یہ کچھ ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تہوار، اسلامی فلسفہ حیات کی عملی تفسیر پیش کرکے ہمیں اس ضابطے کے ساتھ پوری زندگی وابستہ رہنے کا سبق دیتے ہیں۔
عید ... عہد ِ نبوت میں !
آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت عرب کے اس خطہ میں وہ ساری برائیاں موجود تھیں جوکسی مٹنے والی قوم میں ہوسکتی ہیں۔ ان میں بت پرستی موجود تھی، وہ شرک پر مصر تھے۔ ان کی بداخلاقیاں اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ وہ خود ان سے تنگ آچکے تھے۔ان کے اخلاق میں دوگونہ غلامی کے اثرات تھے۔ابراہیمی کہلانے کے باوجود خوشی اور غمی کے ایام میں عادات واَطوار میں وہ دوسروں کے نقال اور مقلد تھے۔ ایک طرف ان پر رومن امپائر اثر انداز تھی، دوسری طرف فارسی شہنشاہیت، اور یہودی ساہو کاروں کے اثرات اس کے علاوہ تھے۔ عید کے معاملہ میں وہ مجوسی عیدوں کے پابند تھے۔ کسی قوم کی ذلت کی یہ انتہا ہے کہ وہ غم اور خوشی میں دوسروں کی نقال ہو، اس کی اپنی قوم اور اپنی تاریخ اس معاملہ میں کوئی راہنمائی نہ کرے یاقومی مآثر کو ویسے ہی چھوڑ چکی ہو۔
آنحضرتﷺ کی بعثت
آنحضرت ﷺفداہابی وامی کی بعثت نے عرب میں ایک ایسا انقلاب برپا فرمایا جس سے زندگی کے تمام گوشے متاثر ہوئے۔شرک کی جگہ توحید نے لے لی۔بت پرستی کی جگہ ایک اللہ کی عبادت کا ذوق پیداہوا۔ غلامی کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگیں۔حتیٰ کہ فارسی عیدوں کو کوبھی خیر باد کہہ دیا گیا۔نوروز کے اثرات سے ذہن پاک ہوگئے۔ آنحضرت ﷺکے ارشادِ گرامی کے ایک ایک فقرہ پر غور فرمائیے کہ آپ نے صنادید ِعرب کو کس قدر استقلال بخشا اور انہیں ذہنی استقلال سے کس قدر اونچا کردیا کہ جن کے وہ نقال تھے، ان کے مقتدا بن گئے۔
«عن أنس بن مالك قال کان لأهل الجاهلية يومان في کل سنة يلعبون فيهما فلما قدم النبيﷺ المدينة قال کان لکم يومان تلعبون فيهما وقدأ بدلکم الله بهما غيرا منها يوم الفطر ويوم الأضحى»سنن نسائی: ص۱۸۶ ج۱
"حضرت انس فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب نے سال میں عید کے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں کھیلتے اور خوشی کرتے تھے۔آنحضرتﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آنحضرت ﷺنے فرمایا: ان دو دنوں کی بجائے، جن میں تم عید سمجھ کرکھیلتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دوسرے دو دن بدل دیئے: عیدالفطر اور عیدالاضحی"
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں :
۱۔خوشی اور مسرت زندگی کا جزو ہے۔ چہرہ میں عبوست(تیوری) اور مزاج کی خشکی، نہ دیانتداری اور تقویٰ کی نشانی ہے، نہ ہی اسلام نے زندگی کے اس انداز کو پسند فرمایا ہے۔ آنحضرت ابے حد خوش مزاج تھے۔ بچوں تک سے مذاق فرماتے، بوڑھوں سے خوش طبعی کی باتیں کرتے۔پھرعجیب یہ ہے کہ اس مذاق میں نہ فحش ہوتا نہ جھوٹ۔بظاہر خوش طبعی اور مذاق ہوتا اور مقصد صحیح ہوتا۔ ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے سواری کے لئے اونٹ طلب کیا تو آنحضرت ﷺنے فرمایا :
«لأحملنك علی ولد الناقة» "میں تمہیں اونٹ کے بچے پرسوار کروں گا" سائل پریشان ہوا اور اس نے کہا: حضرت! میں بچے کوکیاکروں گا۔ حضرت نے فرمایا: «هل تلد الجمل إلا الناقة» اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہوتاہے۔
ایک ابو عمیر نامی بچے کی چڑیا مرگئی، آپ نے مزاحاً فرمایا: «يا أبا عمير ما فعل النغير»
"ابوعمیر! تمہاری چڑیا کوکیا ہوا ؟"
ہمارے بعض علماء اور صوفی حضرات چہرے کی عبوست کانام تقویٰ اور زہد سمجھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ بہت خوش مزاق تھے، اس کے ساتھ طبیعت کا رجحان فحش کی طرف قطعاً نہ تھا:« لم يکن فاحشا ولا متفاحشا» (شمائل) "نبی کریمﷺ فحش گو نہیں تھے ......"
۲۔دوسری قوموں کی نقالی قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے یہ بات حدیث شریف کے اَلفاظ «قدأبدلکم الله بهما خيرا» سے بخوبی ظاہر ہے۔ آنحضرتﷺنے سابق رواج کو یکسر بدل دیا۔ قوی استقلال کے لئے ضروری ہے کہ غیر مسلم قوموں کی نقالی اور فساق و اہل فجور کی مشابہت سے بچا جائے۔ یہی ایسا مقام ہے جہاں عصبیت کی ضرورت ہے، قومیں اسی طرح قوموں کوہضم کرجاتی ہیں۔آج ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور یورپ زدہ طبقہ اسی نقالی کامریض ہے۔ کوئی فیشن کتنا قبیح کیوں نہ ہو، ہمارے نوجوان اور ہماری مستورات فوراً اس پر لپکتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس جدت پسندی نے اسلامی رسوم و عقائد کے ساتھ وابستگی کم کردی ہے اور اس عصبیت کا فقدان ہمیں اسلام کی روح سے بھی ناآشنا کر رہا ہے۔
ہمارے ایک خاص فرقہ نے ملک میں کئی بدعتیں ایجاد کی ہیں۔ اسلام اور ائمہ اسلام کے اُسوہ میں اس کی کوئی سند نہیں، اس لئے وہ غیر مسلم اَقوام کی سنت سے استناد کرتے ہیں۔ حالانکہ غیر مسلم قوموں کی عادات ہمارے لئے قطعاً اقتدا اور استدلال کے قابل نہیں۔ شب ِبرأت کی چراغاں، آتش بازی اور میلاد کے جلوس کسی دینی اساس پر مبنی نہیں اور اب تو یہ عادات تفاحش اور بے حیائی کی حد تک پہنچ رہے ہیں۔ اگر اس تفاحش کو بروقت نہ روکا گیا تو یقینا مزید خطرات کا موجب ہوگا۔
۳۔جاہلیت کی عیدوں میں عبادت اور ذکرالٰہی کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ زیادہ سے زیادہ اس میں شاعری کی راہ سے زبان کی خدمت ہوتی تھی اوروہ بھی آئندہ جنگ کاپیش خیمہ ہوتاتھا۔ آنحضرت ﷺ فداہ ابی و امی نے عید کے موقع پرمختصر سی عبادت و ذکر الٰہی کا التزام فرمایا۔ مردوں اور عورتوں کو تاکید فرمائی کہ وہ عید کے اجتماع میں شریک ہوجائیں لیکن اس اجتماع کو بھی جاہلی جلوسوں سے ممتاز رکھا۔بلکہ ہر آدمی انفرادی طور پر مقامِ عید پرپہنچ کرنماز میں شریک ہو۔نماز سے فارغ ہو کرانفرادی طور پر واپس گھر پہنچ جائے نہ جلوس نکلنے کے لئے مقام کا تعین فرمایا،نہ جلوس کے اختتام کے لئے کوئی میدان مقرر فرمایا گیا۔ اجتماع کو صرف عبادت تک محدود رکھا۔ «اللهم صل وسلم علیه» ... پورے دن کی مسرت، لباس، خوراک ،خوش طبعی کی انفرادی مجالس تک محدود ہوگئی اور ہنگامہ بپا نہ کیا گیا۔
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی بچیاں پرانی جنگوں کے واقعات کو اَشعار اور نظموں کی صورت میں خوش الحانی سے پڑھتی تھیں۔ اس میں بھی مبالغہ آمیزی، غلو اور فحش گوئی ممنوع تھی۔ ایک لڑکی نے آنحضرت ﷺ کی تعریف میں فرمایا: وفينا نبی يعلم ما في غد "ہمارے نبی کل کی باتیں جانتے ہیں" تو اسے روک دیا۔چھوٹے بچے، نابالغ بچیاں اپنے قومی محاسن اور مشاعر کو نظموں میں پڑھیں، خوش آوازی سے پڑھیں، اس میں کچھ حرج نہیں۔ملی ذہن کو عبوست اور بدمزاجی سے بچانا چاہئے۔ یہی عید کی روح ہے۔
ایک عید بھوک کی یادگار ہے۔رمضان المبارک خوراک کے عادت سے ہٹ کرجاری نظام کے ساتھ ختم ہوا۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ایک دن مسرتوں کے لئے وقف ہوگیا۔ دوسری عید میں حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت ہاجرہ کی جفاکشی اور ہجرت اور ان مصائب میں کامیابی پر مسرت فرمائی گئی۔ اس پاکیزہ خاندان کی وفاداریوں، اور صبرآزمایوں کو تاریخی حیثیت عنایت فرما کربقاءِ دوام عطا فرمایا گیا ﴿وَتَرَكنا عَلَيهِ فِى الءاخِرينَ ١٠٨ سَلـٰمٌ عَلىٰ إِبرٰهيمَ ١٠٩ ﴾.... سورة الصافات
ملت کو اَغیار کی نقالی سے بچایا اور اپنی تاریخ کوعملاً زندہ فرما دیا گیا۔ اَکابر کی قربانیاں آنے والوں کے لئے اُسوہ اور زندگی کا پیغام بن گئیں۔ عید کے موقع پر اظہارِ مسرت کے لئے جنگی مشقوں کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تھوڑے عرصہ کے لئے یہ مشقیں صحن مسجد کی زینت بنیں او رجہاد اور دفاع کے پیش نظر مرد تو اسے دیکھتے ہی تھے۔ عورتوں کو بھی اجازت دی گئی کہ اگر وہ پسند کریں تو اس دلنواز منظر کوملاحظہ کریں۔ مجاہد پیدا کرنے والی مائیں جہا دکی عملی تربیت اور دفاع کی کارگزاریوں سے دلشاد ہوں اور اس انداز سے کہ اس کااخلاق پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔
ضرورت ہے کہ آج کی عید کوزندہ عید کی صورت دی جائے۔ ہمارے ہاں عید کی خوشی میں خباثت اور بداخلاقی کے دفترکھل جاتے ہیں۔ دن میں کئی کئی شو ہوتے ہیں۔ اخلاقی انارکی سے نوجوان ذہن ماؤف ہوتا ہے۔ عیاشی کی راہ سے طبائع پر وہن اور جبن کا استیلاء ہوتا ہے۔ نوجوان جرأت و شجاعت کی بجائے ذلیل حرکات پراُتر آتے ہیں۔جوکچھ ان شیطانی گھروندں میں دیکھتے ہیں، اسے عملی صورت دے کر اپنے لئے موت او رماں باپ کے لئے شرمساری کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ یہ معکوس ترقی ہے جس کی طرف اکابر ملت اور قیادتِ کبریٰ کوجلد سے جلد توجہ دے کر اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ معلوم ہے کہ یہ کام نہ علماء کا ہے، نہ عوام کا۔ عوام کے اَخلاق کی حفاظت کے لئے حکومت کو قانون بنانا چاہئے اور ایک اسلامی مملکت کی تشکیل ناممکن ہے جب تک اس میں اخلاق کے تحفظ کو لازمی مقام نہ دیا جائے۔
عیاش حکومتیں چونکہ حظوظِ نفس کے لئے قائم ہوتی ہیں۔ وہ اس کی تکمیل کے لئے اپنی مشینری کو حرکت میں لاتی ہیں۔ ان کا پورا قانونی ڈھانچہ اسی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ جو حکومت اسلام کے نام پر قائم ہو، اس کا پورا مزاج اسلامی ہونا چاہئے۔ نہ وہ غم میں غیر مسلموں کی نقل کرے، نہ وہ خوشی میں اپنے مزاج اور معیارِ اخلاق کو بدلے۔ اسے پہلے بھی مسلم ہونا چاہئے اور آخر میں بھی مسلم۔ اس کے تمام انسانی حقوق کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے ارشادات پر پورے اُتریں اور خدا تعالیٰ کی اطاعت اورآنحضرتﷺکے اتباع میں ہر کام کریں۔
مسائل عید الفطر
تکبیراتِ عید: الله أکبر الله أکبر لاإلهٰ إلا الله والله أکبر الله أکبر ولله الحمد
عید کی رات: یہ بھی عبادت کی رات ہے۔حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں:
«من قام ليلة العيد إيمانا واحتسابا لم يمت قلبه حين تموت القلوب»(قیام اللیل)
"جو عید کی رات ایمان کے طور پر اور ثواب کی طلب کے لئے قیام کرے گا۔ تو اس کا دل قیامت کی ہولناکیوں میں مطمئن رہے گا" بعض سلف اس رات بھی چالیس رکعت ادا فرماتے تھے۔
غسل: عید کے دن غسل مستحب ہے،صحابہ و تابعین عید کے دن غسل فرمایا کرتے تھے۔
کپڑے: عید کے لئے نئے کپڑے پہننے چاہئیں۔ اگریہ میسر نہ ہوں، تو دھلے ہوئے پہنے۔
خوشبو: حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم فرمایا :
" ہم عید کے دن عمدہ خوشبو استعمال کریں"
ناشتہ: عیدالفطر کے دن کچھ کھا کرنماز کے لئے جاناسنت ہے (ابن ماجہ)... کیونکہ اس دن روزہ رکھنا شیطانی فعل ہے۔ بہتر یہ ہے کہ میٹھی چیز ہو۔آنحضرتﷺاس دن کھجوریں کھانے میں طاق کا خیال رکھتے تھے۔ ہم لقموں میں طاق کی خیال رکھ سکتے ہیں۔
فطرانہ : نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے۔ یہ صدقہ صرف مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ نوکر ہو یا مالک، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، روزہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، آزاد ہو یا غلام، مسافر ہو یا مقیم سب کو اَدا کرنا چاہئے کیونکہ روزے میں بعض کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ صدقہ فطران کا کفارہ بن جاتا ہے۔
وزن: صدقہ فطر ایک مدنی صاع (مدینہ کا پیمانہ)ہے جو ہمارے وزن کے مطابق دو سیر گیارہ چھٹانک ہے۔ فی کس اتنی گندم یا اس کی قیمت ادا کرنا چاہئے۔
اجتماعیت: صدقہ فطر اَدا کرتے وقت اجتماعیت کو قائم رکھنا چاہئے۔ تمام مسلمانوں سے جمع کرکے تقسیم کرنا چاہئے۔ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں اس کی وصولی کا سرکاری انتظام تھا۔ حضرت عمر بھی خود تقسیم کرنے کی بجائے اجتماعی کھاتہ میں جمع کروا دیتے تھے۔انفرادی طور پر دنیا پسندیدہ نہیں ہے۔
پیدل جانا: نماز عید کے لئے عیدگاہ کی طرف پیدل جانا بہتر ہے۔ آنحضرت ﷺ سے اس سلسلے میں متعدد احادیث آئی ہیں۔ اکثر صحابہ کا بھی یہی مسلک اور عمل ہے۔
تبدیلی راستہ: رسول اکرم ﷺ ایک راستہ سے جاتے تھے اور دوسرے سے واپس تشریف لاتے اور راستہ میں تکبیراتِ عید کہتے۔
عورتیں بھی جائیں: حضور اکرم ﷺنے عورتوں کے عید گاہ جانے پر بھی زور دیا ہے حتیٰ کہ کسی عورت نے نماز نہ پڑھنی ہو تو بھی جائے۔ صرف خطبہ سن لے اور اجتماعی دعا میں شامل ہوجائے۔ لیکن عورتوں کو سادہ لباس پہن کر جانا چاہئے۔ بھڑکیلے لباس سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے۔ پاؤں کے جوتے بھی سادہ ہوں، خوشبو لگاکر ہرگز نہ جائیں۔
نماز کا وقت اور جگہ: طلوعِ آفتاب سے قبل زوال تک نمازِ عید کا وقت ہے۔ لیکن اول وقت میں ادا کرنا بہتر ہے۔ نماز شہر سے باہر کھلے میدان میں ادا کرنا چاہئے۔ آنحضرتﷺ نے صرف بارش کے موقع پر مسجد میں نمازِ عید ادا کی ہے ۔ عیدگاہ میں منبر نہیں ہونا چاہئے۔
اذان اور اقامت: آنحضرت ﷺنے نماز عید کیلئے کبھی اذان و اقامت نہیں کہلوائی (بخاری)
نماز کا طریقہ : عید کی نماز دو رکعت ہے اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ ۱۲ تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ قراء ت سے پہلے کہنی چاہئیں۔
پہلے نماز پھر خطبہ: عیدگاہ جاکر امام پہلے نماز ادا کروائے پھر خطبہ دے۔ آنحضرت ﷺ اور خلفاءِ راشدین کا یہی دستور رہا ہے۔
سورتیں : آنحضرت ﷺ سورة فاتحہ کے بعدپہلی رکعت میں سورة الاعلیٰ اور دوسری میں سورة الغاشیہ، بعض اوقات پہلی میں سورة ق اور دوسری میں سورة القمر اور اسی طرح بعض دفعہ پہلی میں سورة الانبیاء اور دوسری میں سورةالشمس پڑھا کرتے تھے۔
نفلی نماز نہیں: عید کے دن نما زِعید سے پہلے یا بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے۔
خطبہ عید : امام مالک فرماتے ہیں:« لا ينصرف حتی ينصرف الإمام» (موطأ)
یعنی "خطبہ عید سنے بغیر کوئی آدمی عید گاہ سے نہ جائے"
مبارکباد: عید کے روزصحابہ کرام آپس میں ملتے تو یہ کہتے: «تقبل الله منا ومنك» (فتح الباری) یعنی اللہ تعالیٰ ہم، تم سب سے قبول فرمائے۔
نماز کی قضا: اگر عید کی نماز رہ جائے تو دوسری نمازوں کی طرح اس کی قضا دی جاسکتی ہے (بخاری)
عید کے بعد چھ روزے: حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لئے، اس کو سال بھر کے روزوں کا ثواب ہے"
٭٭٭٭٭