پاکستان میں اَقلیتیں ... ایک نظر میں!
مذاہب ِعالم کا مطالعہ محمد اسلم رانا کا خاص موضوع ہے جس پر آپ ملک بھر میں امتیازی حیثیت اور مجاہدانہ شان رکھتے ہیں آپ 'المذاہب' کے نام سے ایک ماہنامہ بھی نکالتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کے لئے لکھے جانے والے زیر نظر مقالے میں پاکستان میں اقلیتوں کو ملنے والی مراعات ، ان کے مطالبے اور ان کی سرگرمیوں کی ہوشربا رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ آخری صفحات میں عالمی منظرنامے میں اقلیتوں کے حالات کی بھی منظر کشی کی گئی ہے اورعیسائی چرچ کی سرگرمیوں پر بھی اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔مقالہ نگار کا انداز معروضی ہے اور زیادہ سے زیادہ مواد پیش کرنے کی غرض سے صرف اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مختصر صفحات میں معلومات سے اس قدر لبالب اس مقالہ میں جن اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، عموماً وہ ہمارے اہل نظر حضرات کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اس مضمون کے مطالعے میں اشارات کے پیش نظر قارئین کو اپنی توجہ بہت مرکوز کرنا پڑے گی تب وہ اس کے اصل جوہر تک پہنچ سکتے ہیں۔ (حسن مدنی)
اقلیتیں مقدس امانت ہیں!
اس عالم آب و گل میں اقلیتی معاملات کا سلجھاؤ کچھ ٹیڑھی سی کھیر ہے۔ لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ اقلیتوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک مقدس امانت سمجھا اور ان کی حفاظت و نگہداشت کا حق ادا کیا۔الحمدللہ کہ وطن عزیز پاکستان میں اقلیتوں کو تمام مسلمہ شہری حقوق حاصل ہیں اور وہ ان سے بہرہ ور بھی ہیں۔ انہیں رہنے سہنے، جینے بسنے، جان مال کے تحفظ، نقل و حرکت، اپنی جائدادیں بنانے، اپنی بستیاں بسانے، خریدنے، بیچنے، پیشے اپنانے، اپنے دینی اور عام تعلیمی اور رفاہی اداروں کی تعمیر و قیام اور ملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ، اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات میں شرکت و بلاروک ٹوک کامیابی، پولیس، فوج اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری محکموں اور اِداروں میں کوٹہ اور میرٹ کی بنا پر ملازمت کی مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں۔ اقلیتی طلبہ کو اندرون و بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے خصوصی اقلیتی وظائف ملتے ہیں۔
اقلیتوں کو اپنے مذہبی جرائد، لٹریچر اور کتابِ مقدس کی طباعت اور سرعام تقسیم و اشاعت، فروخت اور خط و کتابت و دینی سکول چلانے تک کی کھلی چھٹی ہے۔اقلیتی عبادت گاہوں، مڑہیوں، مرگھٹوں، قبرستانوں کے لئے زمینیں مہیا کرنے اور چاردیواریوں تک کی تعمیر سرکاری خرچہ پر ہونے کی مثالیں موجود ہیں۔ اپنی عبادات، جلسے اور کانفرنسیں منعقد کرنے، سرعام مذہبی اور سیاسی جلوس نکالنے، پبلک مقامات پر نعرے مارنے اور ٹریفک روک کر چوراہوں میں تقریریں کرنے میں بھی وہ آزاد ہیں۔
بے نظیردور میں ان کے مذہبی جلسوں کا انعقاد سرکاری اہتمام اور افسروں کی زیر نگرانی بھی ہوتا رہا۔ اس سلسلہ میں اکثریت (مسلمانوں)کے مذہبی جذبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔ چنانچہ یہ لوگ سڑکوں پر اسلامی عقائد کے خلاف بینرز لگاتے ہیں، صلیبیں لہراتے، فتح صلیب کے نعرے مارتے، اسلامی قوانین کے خلاف لٹریچر بانٹتے اور عیسائی مجمع اور پاکستان کو صلیب سے کھلے عام برکت دیتے ہیں۔
اندرونِ سندھ جہاں ہندوؤں کی آبادی معتدبہ ہے، ان کے جذبات کے احترام میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی ممانعت ہے اور خنزیرکا گوشت ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے کلو عام بکتا ہے۔
جداگانہ انتخابات کی بدولت اقلیتی افراد کو سرکاری کمیٹیوں اور کونسلوں میں لیا جاتا ہے۔ انہیں ووٹ دینے اور بلدیاتی اداروں، مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے ووٹوں سے، اپنی پسند کے، اپنے ہم مذہب، ہم مسلک اور ہم خیال نمائندے بھیجنے کے حقوق میسر ہیں۔ انہیں صوبائی اور مرکزی وزراء ، مشیران اور پارلیمانی سیکرٹری بھی مقرر کیا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی کے اقلیتی ممبران کو باقاعدہ 'حج کوٹہ' ملتا ہے جس سے عیسائی کرسمس منانے 'روم' جاتے ہیں۔۱۹۹۵ء میں ایسٹر کے تہوار پر دس عیسائیوں کو روم بھیجا گیا تھا جن پر ۴ لاکھ ۷۲ ہزار روپے خرچہ اٹھا تھا۔ جمہوری حکومت نے ۱۹۹۶ء سے ۵۰ عیسائی سرکاری ملازموں کو سرکاری اخراجات پر ایسٹر منانے روم بھیجنا منظور کیا تھا۔
قومی اسمبلی کے دس اقلیتی ممبران کو ہر برسراقتدار پارٹی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی، ان کی ناز برداریوں میں سبقت لے جاتی اور انہیں اور اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیتی ہے۔ اکثریتی ممبران کے برابر اقلیتی ممبران کو بھی ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں جن سے وہ اقلیتی علاقوں میں نالیوں، سڑکوں، پلوں، گلیوں، گوردواروں، گرجوں، قبرستانوں اور ان کے گرد چاردیواریوں کی مرمت و تعمیر پر حسب ِمنشا خرچ کرتے ہیں۔
اپنے تعلیمی اِداروں میں عیسائی اپنی مرضی سے نصابِ تعلیم مقرر کرتے ہیں جو بالعموم سیکولر ہوتا ہے، طلبہ کا لباس اور ثقافت مسلمانوں سے متصادم ہوتی ہے۔طلبہ، اساتذہ اور افراد کو سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور سکولوں کو ویگنیں تحفہ میں ملتی ہیں۔بیواؤں کو سلائی مشینیں اور بیٹیاں بیاہنے کے لئے رقوم دی جاتی ہیں۔ ہر سال قومی تہوار پراقلیتی ادیبوں، اداکاروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایوارڈز دیئے جاتے ہیں جن میں مبلغ پچاس ہزار کی نقدی بھی شامل ہوتی ہے۔ اقلیتی مریضوں کو علاج کے لئے اِمداد اور وظیفہ ملتا ہے۔ اقلیتی تہواروں پر سرکاری ملازمین کو رخصت ملتی ہے۔کرسمس پر مسلمانوں کے برابر دو چھٹیاں ہوتی ہیں۔ کرسمس پر وزیراعظم کی طرف سے نقد رقم کا تحفہ دیا جاتا ہے جو مبلغ ۲۵ لاکھ روپے سے کم نہیں ہوتا۔ اقلیتی تہواروں کو ریڈیو اور ٹی وی پرنمائندگی ملتی ہے، گورنر ہاؤس میں اقلیتی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور ان کے تہوار بھی منائے جاتے ہیں۔
غرض کہ پاکستان میں اقلیتیں واقعی مقدس امانت ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اقلیتوں کو وہ حقوق ومراعات اور آزادیاں میسر نہیں ہیں جو انہیں پاکستان میں دی گئی ہیں۔ زیادہ تر سندھ میں بسنے والے ۱۶۰,۷۶,۱۲ ہندو پاکستان کی دوسری بڑی اقلیت ہیں، وہ ملکی سرگرمیوں میں بس واجبی سا حصہ لیتے اور خاموشی سے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔ دیگر اقلیتی فرقوں کی آبادی ناقابل التفات ہے۔ اندریں حالات اقلیتوں کی نمائندگی اور اقلیتی حقوق کی حفاظت و حصول کا ذمہ عیسائیوں نے ہی اُٹھا رکھا ہے۔
عیسائی برادری پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ ۱۹۸۱ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی کل آبادی ۴۲۶,۱۰,۱۳ ہے۔ اکثریت پنجاب میں رہتی ہے۔ عیسائی اقلیت بڑی ہوشیار و زیرک، چاک وچوبند، مستعد اور فعال ہے۔ حالات کا گہرا وسیع مطالعہ کرتی اور گردوپیش پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ قدم قدم پر انسانی حقوق، بنیادی حقوق، اقلیتی حقوق اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں منظور کردہ حقوق کے حوالہ سے اپنی موہومہ محرومیوں اور مظلومیتوں کا ڈھنڈورا پیٹنے اور انسانی اَقدار کی پامالی کے شکوے نشرکرنے میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔ یہ لوگ فن پراپیگنڈہ کے رُموز و اَسرار سے کماحقہ واقف اور اس سے کام لینے کا سلیقہ رکھتے ہیں، بات بات پر اپنی مفروضہ بے بسی اور مظلومیت کو اُچھالتے اور کسمپرسی کا شور مچاتے، چیخ چیخ کر دنیا کو سر پر اُٹھالیتے اور بہ آواز بلندرورو کر اَقوامِ عالم کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں اور اپنی بات منوا کر چھوڑتے ہیں۔ دیارِ مغرب کی عیسائی طاقتیں بالخصوص امریکہ ان کا سرپرست ہے۔ انسانی حقوق اور اقلیتی حقوق کے عالمی ادارے ،تنظیمیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اس کی پشت پر ہیں۔
قومی شناختی کارڈ میں مذہب کاخانہ رکھنا ایک عام اور معمول کا امر تھا لیکن جس مذہب کے لئے یہ لوگ مرمٹنے کو تیار ہیں، جومذہب ان کی پہچان ہے، اس کا شناختی کارڈ میں اندراج انہیں گوارا نہیں تھا۔ اس کی مخالفت میں ان لوگوں نے جلسے منعقد کئے، جلوس نکالے، فقرہ زنی کی، مظاہرے کئے، ذاتی اور قومی اَملاک کی وہ توڑ پھوڑ کی اورعالمی سطح پراتنی دہائی دی کہ حکومت پاکستان کو اپنا ارادہ ترک کرتے ہی بن پڑی! اسی طرح ملکی اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت توہین رسالت ا کے دو مجرموں سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو لاہور ہائی کورٹ سے باعزت بری کرایا، انہیں دس دس ہزار ڈالر نقد عطا کئے اور بحفاظت ِتمام جرمنی پہنچایا۔ ملزمان جیل میں تھے تو اسلام آباد سے ان کی خبرگیری کی ہدایات آتیں اور شاہی مہمانوں کا سلوک کرنے کی تاکیدیں کی جاتیں۔ اعلیٰ حکام او رانسپکٹر جنرل پولیس تک ان کی خیریت دریافت کرتے اور حال چال پوچھتے رہے۔
القصہ پاکستان میں عیسائی اقلیت، مسلم اکثریت پر بھاری اور حاوی ہے، اس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اقلیتی مسائل ہی کیا، عام ملکی معاملات پر بھی حکومت اس کی رائے کو ترجیحی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے جس سے عیسائیوں کے رویہ میں مزید سختی اور طرزِ عمل میں شدت آگئی ہے۔ اب صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ عیسائی اقلیت کل آبادی کا محض 1.56 %ہونے کے باوجود پاکستان کو بوسنیا بنانے اور خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں دیتی اور پاکستان کونازی جرمنی کا حشر یاد دلاتی ہے۔
"مولویوں کے یہ فتوے سوئے ہوؤں کو جگا کر خون کی ہولی کھیلنے پر مجبور نہ کردیں جو ملک و قوم کے حق میں بہتر نہ ہوگا"
"آج کا مسیحی تلوار چلانا جانتاہے، خون بہانا جانتا ہے اور خون دینا بھی جانتا ہے"
"اب کے اگر ... مسیحیوں کی طرف کسی پارٹی نے اُنگلی بھی اٹھائی تو وہ انگلی کاٹ دی جائے گی"
باغیانہ تقاریر
۱۱/ اگست ۱۹۹۵ء کو پارلیمنٹ چوک، اسلام آباد میں عیسائیوں کا ایک اجتماع ہوا۔ مقررین نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا :
"بے نظیر، چیئرمین سینٹ اور نوازشریف بھی ضیاء الحق ایسے لعنتی ہیں، ہمیں قوم کے ان غداروں کو مٹانا ہے"
"یہ زرداری خریداری کچھ نہیں ہے"
"بے نظیر یہاں آکے دیکھ لے، یہ میری ماؤں او ربہنوں کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے"
"میں اس شہر کوباطلوں کا شہر تصور کرتاہوں"
"ہم آئین کے باغی ہیں"
"جداگانہ انتخابات کو نہیں مانتے"
"ہم ۱۴/ اگست کو یوم آزادی نہیں منائیں گے"
پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر، اسلام کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ گذشتہ چند برسوں سے اس سمت میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے تو عیسائی اَقلیت چراغ پاہوئے جارہی ہے۔ اس کی اسلام دشمنی طشت ازبام ہورہی ہے۔ یہ لوگ اسلامی قوانین کو'کالے قوانین'، 'انسان کو انسان سے جدا کرنے اور نفرتوں و کدورتوں کی دیوار کھڑی کرنے والے'، 'ملک میں آزاد سوچ، جمہوریت اور مساوات کی نفی'،'غیر انسانی'، 'انسانی حقوق کی پامالی' اور توہین رسالت ایکٹ کو 'قاتل قانون'، 'جان اور ایمان کا دشمن' اور' قباحتوں سے بھرا ہو"، 'اقلیت آزار اور انسان دشمن'،'معاشرہ میں عدم رواداری کا ثبوت'،'اقلیتوں سے مذہبی آزادی چھیننے کی سازش'، 'انسانی حقوق کی خلاف ورزی'، 'ناانصافی پر مبنی'، 'غیر منصفانہ'،'بنیادی حقوق کے منافی'،'امتیازی'، 'غیر جمہوری'، 'غیر انسانی' اور 'انسانیت کی تذلیل کرنے والا' کہتے ہیں۔
"آج جس قدر قوانین شریعت کے نام پر بنائے گئے ہیں، وہ سب کے سب اقلیتوں کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ جداگانہ طریق انتخاب کے بطن سے ہی شاتم رسول کے قانون نے جنم لیا"
"شریعت بل کے نفاذ سے پارلیمنٹ کی برتری اور آئین کی بالاتری ختم ہوجائے گی۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی طرف سے شرکا نے مختلف بینزر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر "ساڈی شریعت، ساڈا خدا، ملاں توں نہ رولا پا"... "شریعت بل نامنظور کے نعرے درج تھے"
آئین میں آٹھویں ترمیم جس نے اسلامی دفعات اور جداگانہ انتخاب کو تحفظ دیا ہے، اسے 'غلاظت' پکارا جاتا ہے۔ماہنامہ 'مکاشفہ' فروری ۱۹۹۶ء کا 'مہمان اداریہ' پڑھ کر محسوس ہوگا کہ عیسائی اقلیت کس قدر دیدہ دلیر، منہ زور اور اکثریت کے مذہبی جذبات روندنے میں کتنی بے باک ہے، ایک پورے صفحہ پر درج ہے :
مہمان إداریہ
"کالے قوانین کا خاتمہ اور ... خصوصاًتعزیراتِ پاکستان ۲۹۵۔سی کا فوری خاتمہ پاکستان کے مسلم اور غیرمسلم لوگوں کی بہتری اور خوشحالی ہے"(ڈاکٹر جان جوزف، بشپ آف فیصل آباد)
مغرب سے گستاخِ رسول ایکٹ کی حمایت
جاننا چاہئے کہ اِن دنوں جب کہ پاکستان کے عیسائی گستاخِ رسول ایکٹ کے بدرجہ انتہامخالف ہیں، مغربی دنیا بھی ان کی ہم نوا دکھائی دیتی ہے۔ دیارِ مغرب کا ایک دانشور طبقہ اس ایکٹ کا موٴید ہے۔ لیکن بی بی سی ٹیلیویژن کے ایک پروگرام سے ظاہر ہے کہ بی بی سی ناظرین معقولیت پسند ہیں۔ وہ گستاخِ مسیح ایکٹ کے حامی ہیں او راسے مزید سخت بناناچاہتے ہیں تاکہ کسی لحاظ سے بھی گستاخی مسیح کی ذرا بھر بھی گنجائش نہ رہے اور مجرم کی کماحقہ گرفت کی جاسکے۔ یہ روداد لندن کے مشہور ہفت روزہ 'میتھوڈسٹ ریکارڈر' بابت ۱۷/ مارچ ۱۹۹۶ء میں جریدہ کے مستقل کالم نگار میلکم مور کی ترتیب دی ہوئی ہے۔
بی بی سی کے ناظرین اور اہالیانِ برطانیہ کے رویہ سے گستاخِ رسول ایکٹ کی حمایت کا خوش کن پہلو عیاں ہے۔ واضح ہو کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں حیاتِ مسیح پر بننے والی فلموں کا خاصا حصہ قابل اعتراض اور دل آزار ہوتا ہے جس کی مخالفت میں مسلمانوں کا پیش پیش ہونا قابل فخر ہے۔معقولیت پسند اور سلیم الطبع عیسائی بھی ایسے احتجاجی جلوسوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ مذکورہ روداد یہ ہے:
گستاخِ مسیح ایکٹ
"لوگ ٹی وی پروگراموں میں گستاخی ٴ مسیح پر بہت نالاں ہیں، بی بی سیI نے پوچھا کہ کیا متعلقہ قانون کو سخت بنایا جائے؟"
"یہ سوال اس طرح پیدا ہوا کہ ۱۹۸۹ء میں بنائی گئی ایک فلم Visionog Ecstasy کو برطانوی فلم سنسر بورڈ نے گستاخی مسیح کی بنیاد پر ردّ کردیا تو فلمساز نے انسانی حقوق کے یورپی کمیشن کے ہاں اپیل کردی۔ مختلف مسیحی و مسلم افراد سے رائے لی گئی"
"نارمن پائپر نے فلم دیکھ کر کہا کہ ایک مسیحی ہونے کے ناطہ سے اسے "سخت صدمہ پہنچا ہے"۔ اس کی رائے میں ہر مذہب کے لوگ اسے دل آزار قرار دیں گے۔ ایک مسلمان عورت نورجہاں نے فلم کو جذبات مجروح کرنے والی قرار دیا او رکہاکہ فلم کے کچھ حصے ناقابل نمائش تھے، میں تو آنکھیں بند کرلیتی تھی"
"سلمان رُشدی پر فتویٰ سے متعلق مسلمانوں کے جذبات کے احترام میں او رحال ہی میں ایک لباس پر ڈینرائنر کی طرف سے قرآنی الفاظ کو ٹی وی اور پریس میں دکھائے جانے پر اس دلیل نے وسعت پکڑی کہ مسلمان جس چیز کو دل آزار سمجھیں، اس پر بھی کنٹرول سخت کیا جائے"
"بی بی سی پروگرام کا نقطہ عروج یہ تھا کہ ایک طرف تو آزادیٴ اظہار ہے او دوسری طرف قدیم اور کبھی کبھار استعمال کیا جانے والا گستاخی مسیح کا قانون"
"پروگرام میں سوال پیدا ہوا کہ اگر حکومت مخالفت کو دبانے کے لئے قانون بنائے تو عیسائی زیادہ ناراض ہوں گے یا فلم کی نمائش سے؟"
"اس طرح گستاخی مسیح کا قانون سنسر شپ کے مناظرہ میں آگیا۔ایک مسلمان نے زیادہ پابندیوں کی دلیل دیتے ہوئے کہاکہ اس کا اس ملک کے لوگوں کی معاملہ فہمی پر یقین ہے جیسا کہ ایک قانونی عدالت میں جیوری کے فیصلہ سے ظاہر ہے کہ معاشرہ کو کیا قبول ہے!"
"بحث یہاں آکر رکی کہ پبلشروں اورمصنّفین کو حساس معاملات میں محتاط رہنا چاہئے۔ آکسفورڈ کے دینی رہنما نے کہاکہ اگر آرٹسٹ اورمصنّفین ایسے معاملات میں خود احتسابی کریں تو یہ برا نہ ہوگا۔ اس کا اپنا خیال تھا کہ اگرچہ گستاخی مسیح کا موجودہ قانون بعض معنوں میں غیر معیاری ہے لیکن اسے ختم کرنے کا مطلب یہ منفی اشارہ ہوگاکہ ہماری سوسائٹی میں مذہب کو کچھ مقام حاصل نہیں ہے"
"اکثر عیسائیوں کی رائے بھی یہی ہے"
عیسائی دہشت گردی
لاہور میں قائم عیسائی اِدارہ 'سالویشن آرمی' افغان جہاد میں براہِ راست ملوث تھا۔ ا س نے افغان خانہ جنگی میں مختلف دھڑوں کی مدد کی۔
۳۶ عیسائی نوجوانوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرکے افغان مجاہدین کی دو تنظیموں سے تربیت حاصل کی۔ اب انہوں نے طالبان کی طرز پر اپنی تنظیم 'کرسچین طالبان' تشکیل دے لی ہے جو پاکستان میں عیسائیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا توڑ کرے گی۔ یہ ان انتہا پسند نوجوانوں پر مشتمل ہے جو بندوقوں اور بموں کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
صحافیوں کے کام میں رکاوٹ ڈالنا سراسر غنڈہ گردی ہے۔ شہباز کلیمنٹ بھٹی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جریدہ 'کرسچین ٹائمز' کے چیف ایڈیٹر پر قاتلانہ حملہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ ہم دہشت گرد ہیں اورملک میں خوف وہراس کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۵۰۶،۴۵۲،۱۳۹،۱۴۸ کے تحت مقدمات درج ہوئے۔ یہ کرسچین لبریشن فرنٹ کے سربراہ وہی شہباز بھٹی ہیں جنہوں نے کلنٹن کے پاک بھارت دورہ سے قبل انہیں خط لکھا تھا کہ پاکستان مسلم دہشت گردوں کا ملک ہے جس میں عیسائیوں کا برا حال ہے، یہاں آکر ان پر دباؤ ڈالیں!
سینٹ انتھونی چرچ، لاہو رمیں دورانِ عبادت تین مسیحی افراد نے مسلح ہو کر چرچ کی بے حرمتی ، مذہبی کتب کی توہین کی اور شرکاءِ عبادت کو ہراساں کیا۔ان دہشت گردوں کے خلاف پہلے بھی متعدد سنگین قسم کے مقدمات درج ہیں۔
دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والی مدرٹریسا نے اپنے آخری ایام کلکتہ (بھارت) میں گزارے تھے۔ وشواہندوپریشد کے جنرل سیکرٹری جی کشور کا کہنا ہے کہ
"مدرٹریسا اپنے وطن البانیہ میں دہشت گردی کو سپورٹ کرتی رہی ہیں"
ملتان کا بشپ موساد کا ایجنٹ نکلا:ملتان کے سابق بشپ سموئیل دنی چند جرمن سفارت کار کے ذریعے اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتے رہے۔ ان کا برطانوی سفارت خانہ میں بھی آنا جانا تھا۔ بشپ سموئیل نے یروشلم میں یکم سے چار فروری ۱۹۹۴ء تک ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔ وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے سائرس پہنچا۔جہاں سے وہ خصوصی پاسپورٹ پر اسرائیل گیا۔ یہ باتیں ملتان کی پولیس اور سول انتظامیہ کے نوٹس میں لائی گئیں لیکن انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔
انسانی حقوق
کیا ترقی یافتہ، کیا ترقی پذیر، سبھی ممالک میں انسانی حقوق کی چمپئن شپ عیسائیوں کے پاس ہے؟ پاکستان میں ان لوگوں کی اپنے حلقہ اثر (تعلیمی اداروں، ہسپتالوں) میں مقدور بھر کوشش ہوتی ہے اور حکومت سے بھی زبردست مطالبہ ہے کہ مجوزہ ضلعی حکومتوں کے نظام میں عورتوں کو ۵۰ فیصد نمائندگی دی جائے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں مرد عورت امتیاز اور پردہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے۔ جس سے مسلم معاشرہ کی بربادی ظاہر و باہر ہے۔ جبکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ عیسائی عورتیں اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتیں بلکہ وہ مجبور ہوتی ہیں کہ جس نمائندہ کو برادری تسلیم کرے گی، وہ بھی اسے ووٹ دیں، ورنہ ان کا نکاح منسوخ ہوجائے گا۔ عیسائی اقلیت کی نسوانی حقوق کے ضمن میں یہ تضاد روی حیرت انگیز ہے!
پوپ جان پال نے دورہ ٴبھارت کے دوسرے روز ایشیا میں لوگوں کو تبدیلی ٴمذہب پر آمادہ کرنے کے حق کی پرزور وکالت کی او رکہا کہ تبدیلی مذہب کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کسی ملک کو مذہب کے عقائد کے بارے میں زور و زبردستی نہیں کرنی چاہئے۔
ادھر پاکستان میں عیسائی اقلیت ، عیسائیوں کو یہ حق دینے پر تیار نہیں۔ مقتول عالم کی اہلیہ نورین بی بی آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ دونوں نے ایک سال قبل اسلام قبول کرکے شادی کی تھی جس پر ان کے خاندان اور عیسائی برادری ان سے ناراض تھی۔ دونوں کو چک میں واپس آنے پر ایک عیسائی خاندان نے پتھروں سے ہلاک کردیا، یہ المیہ ضلع سرگودھا میں پیش آیا۔
اقلیتی حقوق
عیسائیوں کے مطالبات کی فہرست شیطان کی آنت اتنی لمبی ہے ۔ مثلاً یہ کہ اقلیتی اَفراد کو کلیدی آسامیوں پر فائز کیا جائے۔ صوبائی کابیناؤں، مرکزی وزارتوں ، بلدیاتی اداروں، غیر ممالک میں بھیجے جانے والے وفود، کھیلوں کی ٹیموں، ہائیکورٹ کے ججوں کی آسامیوں میں اقلیتوں کو نمائندگی دی جائے، اقلیتی اَفراد بھی صوبائی وزراءِ اعلیٰ، گورنر، وزیراعظم اور صدرِ مملکت منتخب کئے جائیں۔ اقلیتی اکثریتی امتیاز کا خاتمہ ہو۔ لفظ اقلیت سے امتیاز کی بو آتی ہے لہٰذا اس کا استعمال ترک کردیا جائے۔ اسلامی قوانین منسوخ کئے جائیں۔ آئین سے قراردادِ مقاصد کی بالادستی ختم کی جائے،اسلامی نظریاتی کونسل توڑ دی جائے۔ طریق انتخاب رائج کیا جائے، ملک کا اسلامی تشخص ختم کرکے پاکستان کو سیکولر سٹیٹ ڈکلیئر کیا جائے۔ عیسائی بچہ پیدا ہونے پر اس کا پانچ صدر روپے وظیفہ لگنا چاہئے۔ حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے سکولوں میں سرکاری خرچ پر عیسائی اساتذہ مقرر کئے جائیں جو عیسائی بچوں کو بائبل کی باقاعدہ تعلیم دیں۔ میٹرک کے امتحان میں حافظ ِقرآن کے لئے ۲۰ نمبروں کی خصوصی رعایت ختم کی جائے یا عیسائی بچہ اپنی مذہبی تعلیم کا سر ٹیفکیٹ پیش کر دے تو اسے بھی امتحان میں ۲۰ نمبر اضافی دیئے جائیں۔ موجودہ امتیازی حیثیت ناقابل برداشت ہے۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی ۵۰ نشستیں ہوں تاکہ یہ مضبوط و متحدہ گروپ اقلیتوں کے خلاف کوئی حکومت نہ بننے دے اور اقلیتی مفادات کے خلاف کوئی قانون پاس نہ ہونے دے۔
اتنے کثیر اور گرانقدر مطالبات پورے کرنے سے یہ کہیں آسان تر ہے کہ ملک کی باگ ڈور عیسائیوں کے حوالہ کردی جائے۔
نے تیر کماں میں ہے، نے صیاد کہیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے!
مسیحی اقلیت اور پاکستان کے اربابِ اقتدارسطور بالا سے عیسائی اقلیت کا بے لگام ہونا اظہر من الشمس ہے۔ ان کی سماج و ملک دشمن سرگرمیوں کی گرفت تو کجا، ان کا نوٹس لینے والا بھی کوئی نہیں۔ علماءِ کرام اس مسئلہ کا کچھ بھی مطالعہ نہیں رکھتے۔ عوامی دلچسپی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک کے ایلیٹ طبقہ پر عیسائی پراپیگنڈہ کا جادو چل چکا ہے۔ وہ انہیں واقعی مظلوم سمجھتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ حقائق جاننے کا خواہشمند بھی نہیں ہے۔ آپ یہ سن کر شائد حیران ہوں گے کہ میں نے ایک محفل میں اپنی تالیف بعنوان "صدر کلنٹن کے نام مسیحیوں کا مراسلہ اور اس کا جواب" سابق وزیراعظم ملک معراج خالد کو پیش کی تو وہ لاپرواہی سے بولے:چائے کے وقفہ میں مجھے دینا۔ ہر دور حکومت میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے والے افراد عیسائیوں کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اِداروں کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان سے اس ضمن میں قومی سوچ کی توقع رکھنا عبث ہے۔ چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف سینٹ پیٹرک ہائی سکول میں تشریف لے گئے۔ اپنے زمانہ کی عمر رسیدہ استانی سے مل کر خوش ہوئے اور سکول کو مبلغ بیس لاکھ روپے کی گرانقدر گرانٹ عنایت فرمائی۔ ا س سلسلے میں عالمی اداروں اور مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کا دباؤ بے حدوحساب ہے۔
گذشتہ برس مجھے جناب محمد رفیق تارڑ، صدر مملکت خداداد پاکستان سے ملاقات کا موقع ملا۔ میں بڑا مسلح ہوکر گیا تھا۔ دورانِ گفتگو میں اپنے بیگ کی طرف جو لپکا تو صدر مملکت نے اسے نہ کھولنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہم سب کچھ جانتے ہیں، مگرہم مجبور ہیں!"
مختصر یہ کہ پاکستان میں جو حقوق و مراعات اور آزادیاں اقلیتوں، بالخصوص عیسائیوں کو حاصل ہیں خود عیسائی ممالک میں رہنے والے عیسائی اقلیتی فرقے ان کا خواب دیکھنے کو بھی تڑپتے ہیں۔
اقلیتیں ...عالمی منظر میں!
۱۶ کروڑ عیسائیوں کی نمائندہ تنظیم 'ورلڈ ایونجیلی کل' کی ایک رپورٹ کے مطابق اقلیتیں دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت اورامتیاز کا شکار ہیں۔ ملازمت، رہائش و سماج، مذہب کے انتخاب، مذہبی اور ذاتی جائیداد کی بربادی یا قبضہ سے محرومی، گرفتاری، جبری مشقت، پھانسی اور قتل ان کا مقدر ہے۔ بعض قوانین بین الاقوامی معیاروں پر پورے نہیں اُترتے، مذہب تبدیل نہیں کرنے دیتے۔ مشرقی اور وسطی یورپ میں اقلیتی مذہبی گروپ موٴثر یا کلیةً مذہبی آزادی سے محروم ہیں۔ مغربی یورپ میں غیر حکومتی فرقوں کو قانونی اقلیتی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ مذہبی آزادی او رانسانی حقوق کو خطرہ وہاں ہوتا ہے جہاں حکومتیں مذہبی معاملات میں "بہت زیادہ اثر انداز ہوں"۔
برطانیہ میں سیاہ فاموں اور دوسرے اقلیتی گروپوں میں بے روز گاری زیادہ ہے۔ نسلی بنیادوں پر تشدد عروج پر ہے۔ سیاہ فام، پولیس تشدد سے مرتے ہیں، تعلیم میں بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ پاکستانی نژاد عیسائی چیختے ہیں کہ ان کے ہم مذہب ہونے کو وقعت نہیں دی جاتی او ررنگ کی بنا پر ان سے تعصب برتا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کو 'پاکی' کہہ کر مذاق اڑایا جاتاہے۔
برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹک، لیبر اور کنزرویٹو پارٹیوں کے لیڈروں نے مذہبی رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی کے امیدوار یا ممبر کو" فوراً ردّ کردیں گے" جو رہائشی، غیر ملکی یا پناہ کے متلاشیوں کو رنگ یانسل کی بنا پر ان سے نفرت کی حمایت یا چشم پوشی یا حوصلہ افزائی کرے گا۔
حالیہ مہینوں میں نسل اور پناہ کے متلاشیوں سے متعلق سیاسی بیانات میں ایسی زبان اورلہجہ اختیار کیا جارہاتھا جس سے متفکر ہو کر آرچ بشپ آف کنٹربری اور آرچ بشپ آف یارک نے پارٹی رہنماؤں کو خطوط لکھے تھے۔
انسانی حقوق والوں نے میکسیکو کے کیتھولک صدر سے درخواست کی: جناب پروٹسٹنٹ فرقوں پر ترس کھائیے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے ، ہم غور کریں گے، تاہم ہم پر بیرونی دباؤ بھی بہت زیادہ ہے!
ارجنٹائن میں رومن کیتھولک حکومت ہے۔ وہاں ۳۵ ملین آبادی کے پروٹسٹنٹ فرقوں کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ وہ اپنا وجود منوانے کے لئے ریلیاں کرتے اور جلوس نکالتے ہیں۔
بلغاریہ میں آرتھوڈکس چرچ کو 'ریاستی مذہب'کا درجہ حاصل ہے۔ نئے قوانین کے تحت ریاستی مذہب کو مزید حقوق اور آزادیاں ملیں گی جبکہ دیگر فرقوں او رمذہبوں کی شامت آئے گی۔ جس کی ایک مثال عرض ہے کہ حکومتی فرقہ نے میتھوڈسٹ عیسائیوں کا گرجا چھین کر اسے پتلی گھر میں تبدیل کردیا۔ وہ اپنا گرجا تعمیر کرنے کے لئے پلاٹ مانگتے تو جواب ہوں ہاں تک محدود رہتا۔ مرپیٹ کر انہوں نے خود ہی ایک پلاٹ تلاش کیا تو کسی شرارتی نے شور مچا کر بے چاروں کو خاموش کردیا۔
چند برس پیشتر لاس اینجلس کے نسلی فسادات نے امریکہ بہادر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبردار امریکی سفید فام، سیاہ فام امریکی باشندوں کو برداشت نہیں کررہے۔ اسی بنیاد پر محمدعلی باکسر بنا تھا۔ وہاں آج بھی مسلم مساجد امریکی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
سیکولر بھارت میں ۵۳ برس سے مسلمانوں پر ہر قسم کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ ان کی مساجد مسمار، گھر نذرِ آتش، مردوں کو قتل اور عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی جارہی ہے۔ حاملہ عورتوں کے پیٹوں پر بیٹھ کر بچے پیدا کئے جاتے ہیں۔ ان کی جائیدادیں ہندوؤں کے لئے تر نوالہ ہیں۔
گذشتہ ۱۴ برس سے سکھ اقلیت، ہندو مظالم کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔ ان کے دربار صاحب کی جی بھر کر بے حرمتی کی گئی۔ سکھ نوجوانوں کو تلوار کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ اچھوت قتل وغارت گری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ گھوڑے پر سوار ہوجائے تو اچھوت دولہا کی پٹائی کی جاتی ہے۔ ہندوانہ عبادات میں انہیں آگ کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
گذشتہ دو برس سے ہندوانہ ظلم و ستم کی توجہ عیسائیوں کی طرف بھی مبذول ہوئی ہے۔ ان کے گرجے، سکول، مرد، عورتیں، راہبات سبھی غارت گری کی زد میں ہیں۔ آسٹریلیا کا ایک پادری بمعہ بال بچے زندہ جلا دیا گیا ہے۔ ہندو برملا کہتے ہیں کہ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں ، کسی بھی غیر ہندو کے واسطے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندوستان میں رہتا ہے تو ہندو بن کر رہو!
برہما میں بدھ مت کے پیروکاروں اور فوجی حکومت کے ہاتھوں اراکان کے روہنگیا مسلمان سخت آلام و مصائب میں مبتلا ہیں۔ انہیں لوٹا، پیٹا اور مارا جاتا ہے۔ ان کی مساجد برباد اور گھر مسمار کئے جاتے ہیں۔ شعائر اسلام پر پابندیاں عائد ہیں۔ نوجوانوں کی داڑھیاں نوچی جاتی ہیں۔ مسلم خواتین پردہ سے محروم ہوتی ہیں۔ ان کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں۔ قربانی کرنے کے لئے جانور کی قیمت سے ٹیکس دینا پڑتاہے۔ بیگاریں بھگتتے ہیں۔ بنگلہ دیش بھاگیں تووہاں بھی ان کے لئے جگہ نہیں ہے۔غریب ملکبنگلہ دیش انہیں سوائے بھوک ننگ کے اور دے بھی کیا سکتا ہے۔ بے نواؤں کی طرف عالمی اداروں اور حکومتوں کی توجہ بھی نہیں ہے۔ عیسائی تنظیمیں بھی خاموش ہیں۔
برہما میں کیرن عیسائیوں کا حال بھی برا ہے لیکن وہ اُٹھ کر تھائی لینڈ میں چلے جاتے ہیں۔ وہاں وہ باقاعدہ زندگی گزارتے ہیں۔ بانس کے بنے ہوئے جھونپڑوں میں رہتے ہیں۔ سبزیاں او رپھل اُگاتے اور چاول کھاتے ہیں۔ مرغیاں، سور، سیل مرغ اور بطخیں پالتے ہیں۔ جنگلوں سے بھی خوراک حاصل ہوجاتی ہے۔ان کے بچے والی بال اور فٹ بال کھیلتے ہیں۔ نرسری، پرائمری ، مڈل اور ہائی سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اس پر بھی عیسائی تنظیمیں ان کی حالت ِبد پر مضطرب ہیں اوران کی حالت ِزار پر کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔
ایسٹ تیمور کے عیسائیوں کی تکالیف کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ریورنڈ آئر ینیو کنہیا نے کہا "میں حیران ہوں کہ مسیح کے پیروکار کب تک خاموشی اختیار کئے رکھیں گے؟" اس کی انگیخت پر برطانوی چرچوں کی کانفرنس منعقد ہوئی جس نے سرکارِ برطانیہ پر، اقوامِ متحدہ کو مجبور کرنے کی غرض سے، زور دیا کہ اقوامِ متحدہ، ایسٹ تیمور کے لئے حق خود اختیاری ممکن بنائے۔ ریورنڈ کنہیا نے کہا: ایسٹ تیمور ایسا ملک ہے جس میں انصاف، آزادی، امن اور انسانی وقار کی عزت کے لئے لڑائیاں لڑی اور کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ چنانچہ عسکری تنظیم کی سرپرستی کرنے والے مقامی عیسائی رہنما کارلوس زیمنس کو امن کانوبل پرائز دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اَقوامِ متحدہ کی اَفواج کی زیر نگرانی ریفرنڈم ہوا اور فقط ۲۵ سالہ جدوجہد کے نتیجہ میں ایسٹ تیمور انڈونیشیا کے تسلط سے آزاد ہوگیا۔
بس اگر نظر نہیں آتے تو سات لاکھ بھارتی فوجی درندوں کا شکار کشمیری مسلمان کسی کو نظر نہیں آتے، بے کس و بے نوا کشمیری مدتِ مدید سے اغوا، اجتماعی عصمت دری، قتل و غارت، لوٹ مار، اور آتشزدگی کی زد میں ہیں۔ اب اگر انہوں نے ہندو اَفواج کے ظلم و استبداد کے خلاف جہاد شروع کیا ہے تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر عالمی ہمدردیاں حاصل کرنے کی مساعی جاری ہیں۔
عیسائی دہشت گردیاںکولمبیا میں دو عیسائی تنظیمیں دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ فوج نے ایک حملہ میں ان کے دس آدمی مارے تو اس حقیقت پر سے پردہ اٹھا۔
وٹیکن سٹی کے موجودہ سربراہ کے خلاف کچھ عرصہ پیشتر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اورانہوں نے سوڈان کے جنوب میں عیسائی آبادی کو مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت پرآمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ پولینڈ میں امریکی عزائم کو آگے بڑھانے کے لئے بھی کام کیا۔ رپورٹ کے مطابق بی بی سی نے ایک دستاویزی فلم دکھائی ہے جس سے پوپ کے خلاف اس الزام کی تصدیق ہوگئی ہے کہ سی آئی اے نے وائٹ ہاؤس کے کہنے پر پوپ کو متعدد مواقع پرامریکہ کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔
عیسائی فخریہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی جنگ ِآزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔بچے کچھے پاکستان میں عیسائیوں نے پراپیگنڈہ کا طوفان کھڑا کر رکھا ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان کے دوران بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔
عیسائیوں کی عالمگیر تبلیغی سرگرمیاںمغربی ممالک میں قائم مضبوط تنظیموں، چرچوں، اداروں، انجمنوں، حکومتوں اور اقوامِ متحدہ کے فنڈز کے سہارے عیسائی مبلغین دنیا بھر میں عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت میں مگن ہیں او رانہیں معقول پذیرائی مل رہی ہے جس کی دو وجوہات ہیں :
عیسائی تورات کی شریعت کو لعنت گردانتے ہیں جس سے ان کے ہاں نیک اعمال کا تصور ختم ہوا۔ اب عیسائیت میں نیکی سے مراد معذوروں، بیماروں، غریبوں، محتاجوں، بے سہاروں، بچوں، مصیبت زدوں، بیواؤں، حاجت مندوں، گروں پڑوں کی مالی امداد اور مادّی معاونت کا تصور ہی باقی ہے۔ وہ لوگ یہ کام خلوص اور لاجواب تبلیغی جذبہ سے کرتے ہیں۔اس کے لئے دومثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :
دو انگریز جزائر نیوگنی کے پہاڑی قبائل میں جاملے۔ ان کی بول چال، رہن سہن، کھانا پینا، چلنا پھرنا، مذہب، معاشرت، تہذیب، ثقافت ، رسوم و رواج کا ۳۰ برس تک ان میں رہ کر مطالعہ کیا۔پھر واپس انگلستان جاکر ان کی بولی کے لئے حروفِ تہجی ایجاد کئے۔ زبان دانی کے قواعد ترتیب دیئے اور بالآ خراس نئی زبان میں انجیل کا ترجمہ کیا۔ نیپال کے ایک گاؤں میں عیسائی خواتین مشنریوں نے لڑکیوں کے لئے سکول کھولا ہے جو پختہ سڑک سے ایک دن کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔
یعنی عیسائی مشنریوں کی امدادی سرگرمیاں اور خلوص ان کا سرمایہٴ کار ہے۔ الحمدللہ کہ میں نے قریباً ًنصف صدی مذاہب ِعالم کا مطالعہ کیا ہے اور تمام کے تمام غیر اسلامی مذاہب کی بنیاد بت پرستی پائی ہے۔ ان میں سے عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا اور ٹھیٹھ بت پرست مذہب ہے۔ عیسائی صلیب کا بت ہروقت گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں۔ اسی وجہ سے بت پرست مذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی عیسائیت کو قبول کرنا آسان ہے اور وہ پرانے آبائی مذاہب اور بتوں کو چھوڑ کر مسیح، مریم ، صلیب اور اولیا کے بت پوجنے لگ گئے۔
دیارِ مغرب کے مبلغین نے جب مشرقی ممالک میں تبلیغ عیسائیت شروع کی تو ان کے دائیں ہاتھ میں اِمدادی اشیاء ، رفاہی سرگرمیاں اور بائیں ہاتھ میں بائبل ہوتی تھی۔ وہ سکول، ہسپتال اور رفاہِ عامہ کے ادارے قائم کرتے اور مغربی ممالک کے مفادات کے محافظ ہوتے تھے۔ ان کے ذہنوں میں سفید فام اَقوام کی برتری قائم تھی۔ افریقہ میں کہتے کہ سفید فاموں کی خدمات میں تکالیف جھیلو گے تو تمہیں اگلی دنیا کی راحتیں ملیں گی۔ وہ سامراجیت کے محافظین تھے۔ انہوں نے افریقی حبشیوں پر لرزہ خیز مظالم کے پہاڑ توڑے۔۱۵۰۰ء تا ۱۸۰۰ء کے درمیان قریباً ایک کروڑ سیاہ فام غلام زنجیروں میں جکڑ کر مغربی ممالک میں ڈھوئے گئے۔ عیسائی مشنریوں کی ایسی کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلاکہ افریقی باشندے ان سے الرجک ہوگئے یہاں تک کہ وہ انہیں قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔آپ حضرات یہ سن کر شائد حیران ہوں گے کہ زمبابوے کی جنگ ِآزادی میں ورلڈ کونسل آف چرچز کے مشنریوں کا ایک خاص مقام تھا۔ دسمبر ۱۹۷۶ء سے فروری ۱۹۸۰ء کے درمیان قریباً ۲۵ مشنری لقمہ اجل بنے، ۱۸ کو دیس نکالا ملا۔
اس پر عیسائی مشنریوں نے اپنی تکنیک بدلی، طریقہ تبلیغ تبدیل کیا، رویہ بدلا، سفید فام اَقوام کی ایجنٹی ترک کی بلکہ ان کی مخالفت پر کمر باندھی۔ سو اب یہ لوگ اِمدادی سرگرمیوں، ویڈیو فلموں اور رفاہی اداروں کے قیام کی طرف متوجہ ہیں۔ متاثرین کے دلوں میں ان کے لئے خواہ مخواہ ہی نیک خیالات ، احترام، نرمی و ملائمت اور خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ پھر تعلیمی اداروں اور تعلیم بالغاں پروگراموں کی وساطت سے آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقوں سے ان کی برین واشنگ کرکے ان تک عیسائیت پہنچائی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں برطانیہ کی ممتاز ترین رفاہی تنظیم کی ۲۵ سالہ کارگزاریوں کا مختصر جائزہ زیر نظر سطور میں ملاحظہ فرمائیے:
مصیبت زدگان کے لئے امدادی فنڈ Tear Fund کا تعارف'ٹیئر فنڈ' برطانیہ کی سب سے بڑی امدادی اور ترقیاتی ایجنسی ہے۔ اس پروگرام کے تحت دنیا بھر میں امدادی اشیا تقسیم کی جاتی ہیں اورمسیح کی خوشخبری پہنچائی جاتی ہے۔ ۶۰۰ مبشرین افریقہ، یورپ ، مشرقِ وسطیٰ، ایشیا او رجنوبی امریکہ کے ۱۰۰ ممالک میں مصروفِ کار ہیں۔ اس تنظیم نے ۲۵ برسوں کے دوران غربت اور تکالیف کے خلاف لڑنے پر 12,38,92,126 کروڑ پونڈ خرچ کئے۔ پہلے سال ۳۴ ہزار پونڈ جبکہ ۹۳/۱۹۹۲ء میں 2,16,05,000 کروڑ پونڈ کے عطیات موصول ہوئے۔
1اس امدادی ایجنسی کی رپورٹ ۹۳/۱۹۹۲ء کا عنوان ہے :
"دنیا بھر میں انجیل پھل دے رہی ہے او رپھل پھول رہی ہے"
کون سے شعبوں پر یہ رقم خرچ ہوئی ، اس کے اعداد وشمار حسب ِذیل ہیں :
تبلیغ انجیل اور بچوں کی تعلیم پر ۸فیصد مصیبت زدگان کی امداد پر ۱۹ فیصد
سمندر پارکارکنوں پر خرچ پر ۵فیصد ترقیاتی کام پر ۳۹ فیصد
سمندر پار پروگراموں کی مدد پر ۵ فیصد بچوں کی حفاظت پر ۱۶ فیصد
برطانوی مذہبی فنڈپر ایک فیصد انتظامیہ پر ۷ فیصد
تعلیم و ترقی پر ۱۰ فیصد
اس قسم کی سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ :
"عیسائیت دنیا میں تیز ترین رفتار سے پھیلنے والا مذہب ہے۔"
"عیسائیت دنیا کی آبادی سے تین گنا رفتار سے پھیل رہی ہے"
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۵۰ برس پیشتر کوئی بھی نیپالی عیسائی نہیں تھا۔ اب نیپال بھر میں عیسائی موجود ہیں، گرجا گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ ۱۹۹۲ء میں رومانیہ میں ۱۰۰۰ نئے گرجے تعمیر کئے گئے، مسیحیوں کی تعداد میں اضافہ اور مسیحیت کی بڑھتی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ بہت بڑی تعدادمیں گرجاگھر تعمیر کئے گئے حتیٰ کہ ۹۰ فیصد گرجوں میں پادری او رمعاون عملہ بھی دستیاب نہیں ہورہا۔
تنزانیہ کے شہر کنڈوآ میں صرف ۱۸ مہینوں میں دس ہزار سے زائد افراد حلقہ بگوش عیسائیت ہوئے۔
۲ ہزار سے زائد افراد فنڈ کی دعائیہ مہم میں شریک ہیں۔
اِمدادی سرگرمیوں کی تفصیل٭ عیسائیوں کے اس تنظیم نے ۶۷ ممالک میں ۵۹۲ پروجیکٹوں کی مدد کی۔ ۱۸۴۷۲ بچے مستفید ہوئے۔ بچوں کے حفاظتی پروگراموں میں ۲۵ ہزار بچوں کو اِمداد دی گئی۔
٭ ہنگامی بنیادوں پر بوسنیا، صومالیہ، پیرو، سوڈان، بیروت، چین، ویت نام، ایتھوپیا، عراقیوں، کردوں، یوگنڈا، جنوبی افریقہ، موزمبیق، روانڈا، برونڈی، کینیا میں قحط، سیلاب زدگان اور جنگ کے متاثرین کی مدد کی گئی ۔ ہوائی جہازوں نے بھی اِمدادی اشیا پہنچائیں۔
٭ کروشیا، سربیا، بوسنیا میں قومیت و مذہب سے قطع نظر اِمداد ی کام کرنے والے ۲ مشنوں کو صرف ۹۳/۱۹۹۲ء میں ۴ لاکھ ۵۵ ہزار پونڈ دیئے گئے۔
٭ متعدد ممالک میں شیر خوار بچوں کی شرح اَموات نصف ہوگئی۔ اب وہاں ۷۵ فیصد بچے سکول جاتے ہیں جبکہ ۱۹۶۰ء کے دہائی میں یہ تعداد نصف تھی۔
٭ کولمبیا اور بولیویا میں قریباً نصف آبادی ۱۶ سال سے کم عمروں پر مشتمل ہے۔ ہزار ہا لڑکیاں سڑکوں پر دن رات کام کرتی ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں 'ٹیئر فنڈ' نے ایسی لڑکیوں اوران کے خاندانوں کی نفسیاتی، عملی اور قانونی امداد کرنے پر 29,710 پونڈ خرچ کئے جس سے آج جنوبی امریکہ کی ۲۷ فیصد آبادی عیسائی ہے۔
٭ سوڈان کے آوارہ گرد قبائل کو ان کی زبان میں کتب ِمقدسہ فراہم کی گئیں۔
یہ لوگ دہلی کے گندے محلوں ، میکسیکو کے جھونپڑیوں پرمشتمل قصبات، نیپال کے پہاڑوں اورافریقہ کے میدانوں میں انجیل کی خوشخبری اور صحت پہنچانے کی غرض سے سخت محنت کر رہے ہیں۔
تبلیغ عیسائیت کا ایک عالمی منصوبہاسلام کو مغلوب کرنے کے عیسائی منصوبہ کا انکشاف ہوا ہے۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے ۷۰ لاکھ مبلغین اور ۸۷۰ اَرب ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ اور اس کے لئے ۱۰ ہزار مواصلاتی چینل کام کریں گے۔ اس خوفناک منصوبہ میں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہزارہا عیسائی تنظیمیں اَربوں ڈالر، کروڑوں انجیل کے نسخے اور دوسری مذہبی کتابیں مبلغین کی فوج کے ذریعے تقسیم کریں گی۔ تمام دنیا کے ۲۴ ملین پتوں پر ۳۶۰ زبانوں میں ترجمہ کرکے عیسائیت سے متعلق لٹریچر بھیجا جائے گا۔ ہر سال اس موضوع پر ۹ لاکھ مختلف کتابیں شائع ہوں گی۔ اس تسلسل کے ساتھ ۶۵ ہزار ۵۷۱ مختلف کتابیں صرف حیاتِ مسیح کے بارے میں ہوں گی۔
اس وقت دنیا میں تقریباً ۵۱ لاکھ، ۵۱ ہزار افراد خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہالینڈ کی ایک عیسائی تنظیم کا کام صرف تارکین وطن کے فلیٹوں اور گھروں میں جاکر' مسیح کا پیغام' سنانا ہے۔
لندن یونیورسٹی میں ڈچ مستشرقین نے سات سو سال قبل ایک عربی و اسلامی انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد دین اسلام سے متعلق نئے نئے فتنے کھڑے کرنا اور مسلمانوں کی نئی نسل میں فکری تشکیک کی فضا پیدا کرنا تھا۔ وہاں پر ہونے والے ایک مذاکرہ میں لاہور سے جانے والے نمائندہ کو ایک خطرناک مسلمان صحافی سمجھ کر شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ قاہرہ میں ایک مدرسہ ہے جس میں عیسائی مناظرین تیار کئے جاتے ہیں جو انگریزی، عربی او راردو میں یکساں روانی سے گفتگو کرتے ہیں۔
اگر میری اس کاوش سے آپ کے ذہنوں میں عیسائیوں کے عزائم اور ان کی تکمیل کا کچھ خاکہ بن گیا ہو تو میری اس تحریر کا مقصد پورا ہوگیا ، اللہ ہم مسلمانوں کو سمجھنے اور اسلام کے عالمی پیغام کو دوسروں تک پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔
(وآخردعونا أن الحمدلله رب العٰلمين)
نوٹ1. دنیا میں کسی مشن کی بھر پور تکمیل کے لئے جہاں انسانی کاوشوں اور جذبے کی بڑی اہمیت ہے اور وہ اصل کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مادّی وسائل سے بھی صرف ِنظر کرنا ممکن نہیں گو کہ اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ جب ہم عیسائیت کی تبلیغ کی عالمی تحریک کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں یہ امرواضح طو رپر دکھائی دیتا ہے کہ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مادّی کشش اور مال وزر کی قوت سے بہت زیادہ کام لیا گیا ہے جیسا کہ وسیع بنیادوں پر اِمدادی، رفاہی کام ؍ ہسپتال اور تعلیمی اداروں کا قیام اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس مطالعہ میں یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ عیسائیت میں دینی خدمات ایک مخصوص پیشہ کے طور پر موجود ہے جبکہ اسلام میں تبلیغ ودعوت کسی مخصوص گروہ کی اِجارہ داری نہیں ہے۔ عیسائی پادریوں نے اپنی آسانی کے لئے عیسائیت میں تحریف کرکے مال وزر کے بدلے گناہ معاف کروانے کا تصور ایجاد کیا جبکہ اسلام میں زکوۃ وعشر، خراج اور خمس ومال غنیمت وغیرہ وصول کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے ، جن کی نہ ہی یہ نوعیت ہے نہ اس کے ذریعے دعوت وتبلیغ پر کسی طبقہ کی اجارہ داری ہوسکتی ہے۔ یہ اسلام کا ایسا متوازن پہلو ہے جس کے ذریعے دین کے کاموں کو اسلامی حکومت اور مسلمان عوام دونوں میں پھیلا دیا گیاہے، اللہ مسلمان حکومتوں کو اسلام کو پھیلانے کے لئے ملنے والے مال کو اسلام کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بخشے۔آمین!
عیسائیت کی تبلیغ میں اس قدر مال وزر کا استعمال جیسا کہ آپ اعداد وشمار میں دیکھ رہے ہیںدر اصل اسی امر کا مرہون منت ہے کہ عیسائی کلیسا مال وزر کے بدلے گناہ معاف کرانے کا تصور دے کر اس قدر مال دار ہوچکا ہے کہ ویٹی کن سٹی میں سونے کے انبار موجود ہیںاور آج بھی دنیا بھر میں عیسائی مشنریوں کی تنخواہیں، مالی معاونتیں، پروگرام وسیمینارز کیلئے فراخی کے ساتھ وہاں سے فنڈز ملتے ہیںجبکہ مسلمان مبلغین اور اسلامی تبلیغی پروگرام عموماً مادی وسائل کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ کسی مقالہ میں ان عوامل پر بھی تقابلی تحقیق پیش کی جائے ۔(حسن مدنی)