رمضانُ المبارک کے اَحکام ومسائل
صیام، قیام اللیل، احکام وتر، لیلۃ القدر، اعتکاف، صدقۃ الفطر
صوم کا لغوی اور شرعی معنی:صَوْم جسے اُردو زبان میں روزہ سے تعبیر کرتے ہیں، کالغوی معنی رک جانا ہے اور اس کا شرعی معنی طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک تمام مُفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں) سے بحالت ِایمان اجر و ثواب کی نیت سے رُک جاناہے۔
روزہ کامقام:اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر استوار کی گئی ہے، ان میں ایک روزہ ہے جومرتبہ کے اعتبار سے چوتھے درجہ پرہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اسلام کی بنا ان پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: (۱) کلمہ توحید کا اقرار (۲) نماز کی پابندی(۳) زکوٰة کی ادائیگی (۴) رمضان کا روزہ (۵) بیت اللہ کا حج" (صحیح مسلم)
فضائل روزہ
(۱) تمام اعمالِ صالحہ میں صرف روزہ ایسا مبارک عمل ہے جس کی جزا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بنفس نفیس عطا فرمائیں گے (احمد،مسلم، نسائی از ابوہریرہ مرفوعاً)
(۲) روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۳) روزہ دار کو دو وجہ سے دوفرحتیں حاصل ہوتی ہے: ایک تو افطار کے وقت روزہ، چھوڑنے سے اور دوسرے ربّ سے ملاقات کے وقت جزاءِ روزہ کی وجہ سے (احمد ، مسلم، نسائی از ابوہریرہ مرفوعاً)
روزہ کی مشروعیت کا فلسفہ
روزہ جن بہترین مقاصد کے تحت مشروع قرار دیا گیاہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
(۱)گناہوں سے اجتناب (۲) شہواتِ نفسانی سے تحفظ (۳) آتش دوزخ سے نجات
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اے ایمان والو! تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر تھا تاکہ تم (معصیت ِخداوندی،شہواتِ نفسانی اور جہنم کی آگ سے ) بچ جاؤ" (البقرہ : ۱۸۳)
نیز آنحضرت ﷺ کے درج ذیل فرامین ہیں:
«الصيام جُنَّة» " روزہ ڈھال ہے" (مسلم، احمد، نسائی از ابوہریرہ )
«الصيام جنة من النار» "روزہ جہنم سے ڈھال ہے" (ترمذی، از ابوہریرہ بسند حسن غریب)
"جوشخص عدمِ استطاعت کی وجہ سے شادی نہ کر پائے تو اسے روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ یہ اس کی نفسانی خواہشات کو توڑ دے گا"۔ (بخاری و مسلم از عبداللہ بن مسعود)
(۴) صبر و ضبط کی تمرین اور مشق (۵) باہمی ہمدردی اور جذبہ ایثار کا پیدا کرنا
روزہ کے فوائد و ثمرات
۱۔صحت ِبدن: آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے :«صُوْمُوْا تَصَحُّوْا» "روزہ رکھو، صحت مند رہو گے "
۲۔ قوتِ حافظہ کی افزائش (طبرانی ا زابوہریرہ بسندقوی)
۳۔ روح کی بالیدگی
روزہ کی اقسام
روزہ کی دو قسمیں ہیں:
(۱) مشروع: جس کے رکھنے سے شرعاً ممانعت نہ ہو
(۲) غیر مشروع: جس کے رکھنے سے شرعا ً ممانعت ہو
پھر مشروع مزید دو قسم پر ہے : (۱) واجب (۲) نفل ... پھر واجب بھی دو طرح پر ہے :
(۱) واجب بالشرع : جسے اللہ نے انسان پرفرض قرار دیا ہے جیسے رمضان اور کفارات کے روزے
(۲) واجب بالنفس: جسے انسان نے خود اپنے اوپر لازم کرلیا ہو جیسے نذر کا روزہ۔
واجب کی طرح نفل بھی دو طرح پر ہے: (۱) مرغب فیہ: جس کے رکھنے پر شرعاً ترغیب موجود ہو جیسے شوال کے چھ روزے ، عرفہ اور عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ
(۲) غیر مرغب فیہ: جس کارکھنا جائز ہو مگر اس کے بارے میں کوئی شرعی ترغیب نہ ہو۔
غیر مشروع بھی دو قسم پر ہے:حرام، جیسے یومِ عید کا روزہ اور ایامِ تشریق یعنی ذوالحجہ کی گیارہ، بارہ اور تیرہ کا روزہ۔اورمکروہ جیسے صرف جمعہ کے دن کا یا رمضان سے پہلے ایک یا دودن کا روزہ رکھنا۔
روزہ کے اَرکان
روزہ کے دو اہم اَرکان یہ ہیں : (۱) نیت (۲) مفطّرات سے اجتناب
نیت کاحکم: روزہ ایک بہترین عمل ہے اور ہر عمل کی صحت کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کافرمان ہے:«إنما الأعمال بالنيات »اعمال کا دارومدار نیت یعنی دل کے اِرادوں پر ہے۔ (بخاری و مسلم از عمر بن خطاب)
نیت کے مسائل
نیت کا تعلق دل سے ہے، اس لئے زبان سے بولنا شرط نہیں بلکہ علما نے اسے بدعت قرار دیا ہے لہٰذا ہمارے ہاں جو بالفاظ نویت بصوم غد کہہ کر نیت کی جاتی ہے ، یہ خلافِ سنت ہے۔
۱۔ فرض روزہ کی نیت رات کو ضروری ہے (ابن خزیمہ ،ابن حبان از حفصہ مرفوعاً بسند صحیح)
۲۔ فرض روزہ کی نیت غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ فجر تک رات کے کسی حصہ میں کی جاسکتی ہے۔
۳۔ رات کو نیت اسی شخص پر ضروری ہے جو اس پر بوقت ِشب قادر ہو لہٰذا اگر کوئی بچہ ماہِ رمضان کے دن بالغ ہوجائے یا دیوانہ صحت یاب ہوجائے یا کافر اسلام لے آئے یا دن کوپتہ چلے کہ آج رمضان کا روزہ ہے تو ان صورتوں میں دن کو ہی نیت کافی ہوگی۔
۴۔ نفلی روزہ کی نیت اگر رات کو نہ ہوسکے تو دن میں کسی حصہ میں بھی کفایت کرے گی بشرطیکہ نیت سے پہلے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس سے روزہ ٹوٹ جائے۔ (مسلم و ابوداود از عائشہ مرفوعاً)
مفطّراتِ صوم (روزہ توڑنے والی چیزیں)
مفطرات دو قسم کی ہیں: (۱) جن سے روزہ کا بطلان اور قضا لازم ہو۔
(۲) جن سے روزہ کا بطلان اور قضا کے علاوہ کفارہ بھی لازم آئے۔
قسم اوَل کی انواع درج ذیل ہیں :
۱۔ عمداً کھانا پینا... (متفق علیہ)
۲۔ عمدا ً قے کرنا (احمد، ابوداود، ترمذی، وغیرہم از ابوہریرہ بسند صحیح)
۳۔ حیض و نفاس اگرچہ غروب ِآفتاب سے ایک لحظہ پہلے آئے۔
۴۔ استمنا، یعنی مادہ منویہ کاعمداً نکالنا۔
۵۔ ٹیکہ جو غذائیت کے کام آئے۔
۶۔ سعوط، یعنی ناک میں دوائی وغیرہ ڈالنا۔
7- حجامت یعنی سنگی لگانے یا لگوانے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے مگر راجح بات یہی ہے کہ کمزور آدمی حجامت سے پرہیز کرے۔1
8- اگر کوئی شخص یہ گمان کرکے کہ سورج غروب ہوگیا ہے، روزہ چھوڑ دے یا ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی، کھاتا پیتا رہے مگر بعد ازاں پتہ چلاکہ گمان غلط تھا، اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے مگر محققین2 کا مذہب یہی ہے کہ روزہ صحیح ہے اور اس کی کوئی قضا نہیں۔
قسم دوم:جس کی وجہ سے روزہ کا بطلان اور قضا کے علاوہ کفارہ بھی لازم آئے، وہ صرف عمداً جماع ہے۔یادرہے کہ اگر کوئی شخص قضاءِ رمضان یا کفاروں کے روزوں میں عمداً جماع کرے یا رمضان ہی میں بصورتِ اِکراہ یانسیان جماع کرے تو اس پر کفارہ کوئی نہیں۔
شرائط ِروزہ
۱۔غیبت نہ کرنا ۲۔جہالت اور حماقت نہ کرنا
۳۔جھوٹ اور بہتان نہ باندھنا ۴۔بے ہودہ بات نہ کرنا (متفق علیہ از ابوہریرہ)
مباحاتِ روزہ
۱۔ نہانا یا سر پرپانی ڈالنا (صحیحین از عائشہ، احمد، مالک، ابوداود، نسائی)
۲۔ آنکھ میں سرمہ یا دوائی ڈالنا۔3(انس موقوفاً بسند ِجید)
۳۔ بوسہ بشرطیکہ شہوت نہ بھڑکائے (اَحمد و مسلم از عائشہ)
۴۔ حجامت (سنگی لگانا یا لگوانا) بشرطیکہ آدمی طاقتور ہو (بخاری از انس ، نسائی ، ابن خزیمہ، دارقطنی)
۵۔ فصد: جسم کے کسی حصہ سے خون نکلوانا ، اس کاحکم بھی حجامت کاسا ہے۔ (از سعید خدری بسند صحیح)
۶۔ حقنة : وہ دوائی جسے بیمار کے مقعد سے فضلہ نکالنے کے لئے چڑھایا جائے۔
۷۔ مضمضہ اور استنشاق یعنی کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا بشرطیکہ دونوں میں مبالغہ نہ کرے۔4 (ابوداود، ترمذی، از لقیط بن صبرہ مرفوعاًبسند صحیح)
۸۔ مکھی، مچھر و دیگر حشرات الارض اور ذرّات کا حلق سے اُترنا۔
۹۔ خوشبو سونگھنا
۱۰۔ دہنیات و روغنیات مثلاً گھی اور تیل کا بدن پر ملنا۔
۱۱۔ جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرنا (احمد،مسلم، ابوداؤد از عائشہ)
۱۲۔ اِحتلام ہونا
۱۳۔ خونِ حیض اور نفاس رک جانے کے باوجود صبح تک غسل نہ کرنا
۱۴۔ طلوعِ فجر میں شک کی صورت میں کھاتے پیتے رہنا
۱۵۔ مسواک کرنا
۱۶۔ مامومہ: وہ زخم جو دماغ تک سرایت کرے۔
۱۷۔ جائفہ : وہ زخم جو پیٹ تک پہنچ جائے۔
مامومہ اور جائفہ دونوں میں شرط ہے کہ ان میں وہ دوائی نہ استعمال کی جائے جو غذائیت رکھتی ہو۔
۱۸۔ کھانا وغیرہ کا ذائقہ معلوم کرنا، بشرطیکہ اِسے نگلا نہ جائے۔
آداب ِروزہ سحری
۱۔ سحری کا حکم:سحری کھانامستحب ہے اور اگر کسی وجہ سے نہ کھا سکے تو کوئی حرج نہیں۔ (متفق علیہ از انس مرفوعاً)
۲۔ سحر ی کی مقدار: سحری کی کم از کم مقدار ایک گھونٹ پانی ہے۔ (احمد از ابی سعید الخدری بسند صحیح)
۳۔ سحری کی فضیلت: اللہ کے رسول ﷺ نے اسے برکت5 قرار دیا ہے(متفق علیہ از انس مرفوعاً)
۴۔ سحری کی اہمیت: مسلمانوں اور اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے روزہ کے درمیان سحری حد ِفاصل ہے۔ (مسلم وغیرہ از عمرو بن العاص مرفوعاً)
۵۔ سحری کا وقت نصف رات سے لے کر طلوعِ فجر تک ہے۔
۶۔ سحری کا مستحب وقت طلوعِ فجر سے کچھ پہلے ہے (متفق علیہ از زید بن ثابت، احمد عن ابی ذر بسند صحیح)
افطار
۱۔تعجیل فطر: روزہ کے افطار کرنے میں جلدی کرنا افضل ہے اور اس میں تاخیر یہود و نصاریٰ کا شیوہ ہے۔ (متفق علیہ از ابن عمر و سہل بن سعد مرفوعاً... ابوداود، نسائی، ابن ماجہ از ابوہریرہ مرفوعاً بسند صحیح)
۲۔افطاری کاطریقہ: طاق اور تر کھجور سے افطاری مستحب ہے اور اگر یہ میسر نہ آئے تو پانی کے چند گھونٹ سے کرے۔ (احمد، ابوداود، ترمذی، حاکم بسند صحیح اَو حسن)6
۳۔ دعائے افطار:« اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ» (ابوداود از معاذ بن زہرہ مرسلا ً)7
مگر حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت میں دعاءِ مذکور کے بعد یہ زیادتی بھی موجود ہے:« ذهب الظمأ وابتلّت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» (ابوداود، نسائی، حاکم، دارقطنی وغیرہ)8
رمضان کے روزہ کا حکم
رمضان کاروزہ فرض ہے، چنانچہ قرآنِ کریم اور حدیث نبوی میں ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ.....١٨٥﴾..... سورة البقرة
"تم میں سے جو شخص رمضان کامہینہ پالے تو وہ اس کے روزے رکھے"
۲۔ نبی ﷺنے فرمایا :«جعل الله صيامه فريضة» (بیہقی، شعب الایمان از سلمان فارسی مرفوعاً)
"اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض قرار دیئے ہیں۔"
رمضان کے روزے بروز سوموار ۲/ شعبان المعظم ۲ ھ کو فرض ہوئے۔
رمضان کے فضائل و برکات اور خصائص
۱۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں جملہ شیاطین اور سرکش جن پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ از ابوہریرہ مرفوعاً)
۲۔ جہنم کے دروازے بند اور جنت کے تمام دَر کھول دیئے جاتے ہیں (متفق علیہ ازابوہریرہ مرفوعاً)
۳۔ رمضان کے مہینہ میں ایک نفل، فرض کے برابر اور ایک فرض کاثواب ستر گنا بڑھ جاتاہے۔ (بیہقی، شعب الایمان از سلمان فارسی مرفوعاً)
۴۔ ا س مہینہ میں کسی روزہ دار کی افطاری9 کروانا گناہوں کی مغفرت ، جہنم سے نجات اور افطاری کرنے والے کے برابر ثواب کاموجب ہے۔(ایضاً)
۵۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلا دے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے محبوب کے حوض سے ایک ایسا گھونٹ نصیب فرمائیں گے کہ جس سے جنت میں داخلہ تک پیاس محسوس تک نہ ہوگی۔ (ایضاً)
رمضان کی فضیلت:جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس سے اجر و ثواب کی طلب کی بنیاد پر رمضان کا روزہ رکھے، اس کے پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (متفق علیہ از ابوہریرہ مرفوعاً)
رمضان کے روزہ کے ترک پر وعید:رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: تین چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں،جو شخص ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دے تو اس کا خون مباح اور حلال ہے اور وہ یہ ہیں: (۱) کلمہ توحید کا اقرار (۲) فریضہ نماز (۳) روزئہ رمضان (ابویعلی، دیلمی از ابن عباس مرفوعاً بسند صحیح)10
رمضان کے متفرق مسائل
۱۔ رمضان میں عمداً جماع کا کفارہ تین چیزوں میں سے ایک ہے۔
(i) عتق رقبة (گردن کا آزاد کرنا)
(ii) دو ماہ کے متواتر روزے
(iii)ساٹھ مسکینوں کا کھانا (متفق علیہ از ابوہریرہ)
۲۔ جمہور علماء کے نزدیک مذکورہ کفارہ میں ترتیب واجب ہے لہٰذا اگر گردن آزاد نہ کرسکے تو پھر روزے رکھے اور بصورتِ عجز ساٹھ مساکین کوکھانا دے۔
۳۔ جمہور کے نزدیک (رقبہ)غلام سے مراد مسلمان غلام (رقبہ موٴمنہ) ہے۔
۴۔ جمہور کے نزدیک ساٹھ مساکین کوکھانا کھلانا ضروری ہے گویا کہ ساٹھ کا عدد معتبر ہے اوریہی صحیح ہے
۵۔ جمہور کے نزدیک ہر مسکین کے کھانے کی مقدار ایک مد (۵۳)ہے۔
۶۔ جمہور کے نزدیک صرف عمداً جماع کی صورت میں کفارہ واجب ہے۔
۷۔ جمہور کے نزدیک کفارہ عورت پربھی واجب ہے بشرطیکہ وہ روزہ کی حالت میں مجامعت پر رضا مندہو
۸۔ جمہور کے نزدیک صرف جماع کی صورت میں کفارہ مذکورہ لازم ہوگا۔
۹۔ جمہور کے نزدیک کفارہ ہر صورت واجب ہے۔
۱۰۔ اگر کوئی شخص رمضان میں عمداً جماع کرے اور اس کا کفارہ نہ دے پھر دوسرے دن دوبارہ عمداً جماع کرے تو جمہور کے نزدیک دو کفارے لازم ہوں گے۔
۱۱۔ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اور کفارہ دے دے ۔ پھر دوسرے دن دوبارہ عمداً کرے تو بالاتفاق ایک کفارہ لازم آئے گا۔
۱۲۔ اگر کوئی شخص ایک دن میں دو دفعہ جماع کرے او رپہلے جماع کا کفارہ دے دے تو جمہور کے نزدیک دوسرے کا کفارہ نہیں ہوگا۔
۱۳۔ عمداً جماع میں کفارہ کے ساتھ قضا بھی لازم ہے۔
۱۴۔ جو رمضان کا ایک روزہ عمداً چھوڑ دے، عمر بھر روزہ رکھنے سے اسکی قضا نہ ہوگی(ابوداود از ابوہریرہ)
۱۵۔ جمہور علما ءِ سلف و خلف اور ائمہ اربعہ کے نزدیک رمضان کے روزوں کی قضا، شعبان سے موٴخر نہیں ہوسکتی۔ (سنن ابوداود از عائشہ)... اگر شعبان کے گزرنے سے پہلے فوت ہوجائے اور اس کی قضا پر قادر تھا تو بالاتفاق اس کے ترکہ سے ہر دن ایک مد کھانا دیا جائے گا۔
۱۶۔ اگر کوئی شخص رمضان کے روزے عذر کی وجہ سے چھوڑے، پھر عاجز ہوگیا اورکوئی روزہ نہ رکھ سکا اور مرگیا تو اس پر کوئی روزہ نہیں اور نہ قضا ہوگی اور نہ ہی کھانا کھلانا (عون المعبود)
۱۷۔ جو شخص رمضان کی قضا دینا چاہے تو علی الترتیب پے در پے روزے رکھنا مندوب ہے اور متفرق رکھنا بھی جمہور کے نزدیک جائز ہے۔ (فتح الباری)
۱۸۔ اگر کوئی شخص رمضان موٴخر کرے حتیٰ کہ دوسرا رمضان داخل ہوجائے اور اسے طاقت بھی ہو تو وہ دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے بدلے کھانا کھلائے اور بعد میں روزے رکھے یہی مذہب جمہور کا ہے۔(بخاری ، ابوہریرہ مرسلا / فتح الباری ابوہریرہ و ابن عباس موصولاً)
۱۹۔ اگر کسی شخص پر رمضان کے فرضی روزے ہوں اور وہ کوئی نفلی روزہ رکھنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ پہلے فرضی روزے رکھے۔
۲۰۔ حیض و نفاس والی عورت رمضان کے روزے چھوڑ دے اور بعد میں قضا دے (متفق علیہ از عائشہ)
۲۱۔ جو شخص مرگیا اور اسکے ذمہ روزہ تھا تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے (متفق علیہ از عائشہ)
۲۲۔ جمہور کے نزدیک بچہ پر بلوغت سے پہلے روزہ واجب نہیں بعض ائمہ سلف نے مستحب قرار دیا ہے،ماں باپ یا دیگر اولیاء کو چاہئے کہ وہ بچوں کو روزہ رکھوائیں ۔(بخاری از الربیع بنت معوذ)
۲۳۔ بوڑھا مرد اور عورت یا دائم المرض روزہ افطار کریں اور ہر روز ایک مسکین کوکھانا دیں اور ان پرکوئی قضا نہیں۔ (دارقطنی و حاکم از ابن عباس موقوفاً)
۲۴۔ حاملہ اور مرضعہ (بچے کو دودھ پلانے والی عورت) اگر خود اپنے یا بچہ کے بارے میں خطرہ محسوس کریں تو روزہ چھوڑ دیں۔
۲۵۔ مسافر روزہ چھوڑسکتا ہے مگر بعد میں قضا دے گا۔ (جماعۃ از عمرة ابن عمر والا سلمی مرفوعاً)
نوٹ:سبل السلام میں کھانا کھلانے کی مقدار نصف صاع گندم مذکور ہے مگر شوکانی کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے مقدارکے بارہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔البتہ حضرت ابوہریرہ سے عطاء کی روایت میں ایک مد کا ذکر ہے او رمجاہد کی روایت میں نصف صاع گندم کا ذکر ہے۔ (فتح الباری)
(۲) قیام اللیل کا لغوی اور شرعی معنی
قیام اللیل کا لغوی معنی رات کے وقت کھڑاہونا ہے اور شرعی معنی نمازِ عشا کے بعد سے لیکر طلوعِ فجر کے دوران نفلی نماز کاادا کرنا ۔ قیام اللیل کو کتاب و سنت اورکتب ِفقہ میں ان ناموں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے :
۱۔ تراویح: جو کہ رمضان میں نمازِ تہجد کا دوسرا نام ہے۔
۲۔ تہجد: جو رمضان یا غیر رمضان میں بوقت ِشب سات تا گیارہ یا تیرہ رکعت تک پڑھی جاتی ہے۔
۳۔ وِتر: نماز وِتر کا اطلاق کبھی قیام اللیل کے علاوہ اس نماز پربھی ہوتا ہے جو ایک یا تین یا پانچ رکعتوں کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔
قیام اللیل کی مشروعیت و فضیلت
رمضان میں قیام اللیل یعنی رات کا قیام مستحب ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے رمضان کے دن کے روزے فرض اور اس کی راتوں کا قیام نفل ٹھہرایا ہے" (بیہقی شعب الایمان از سلمان فارسی مرفوعاً) ... اور اس کی فضیلت میں امام الانبیاء ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے :
"جوشخص اللہ تعالیٰ پرایمان اور اس سے اجروثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کی راتوں کا قیام کرے، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ از ابوہریرہ)
باجماعت قیام کی مشروعیت
رمضان کی راتوں میں قیام باجماعت سنت ہے اور فرداً فرداً قیام سے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں رمضان کی ۲۳ ویں، ۲۵ویں اور ۲۷ ویں رات باجماعت قیام(۱۱) فرمایا اور اسے صرف اس لئے چھوڑا کہ کہیں فرض(۱۲) نہ ہوجائے۔اور جب بوجہ وفات نزولِ وحی کی بندش کی وجہ سے فرضیت کا خطرہ ٹل گیا تو پھر قیام باجماعت کا دوبارہ احیاء و اجراء(۱۳) عین منشا رسول تھا۔
عورتوں کے لئے قیام باجماعت
حضرت ابوذر کی طویل روایت میں آنحضرت ﷺکے ساتھ ستائیسویں شب عورتوں کا قیام بھی ثابت ہے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ عورتوں کے لئے کوئی الگ امام بھی مقرر کردیا جائے جیسا کہ حضرت عمر فاروق نے صرف عورتوں کے لئے سلیمان بن ابی حثمہ اور حضرت علی (نے عرفجہ ثقفی کو مقرر فرمایا تھا ۔
نوٹ: عورتوں کے لئے جداامام کا تقرر تب ہوسکتا ہے جبکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور نہ ہی دونوں اماموں کی آواز باہم ٹکرائے۔
رکعاتِ قیام کی مسنون تعداد:رمضان میں قیام اللیل یعنی نمازِ تراویح کی رکعات کی مسنون تعداد گیارہ تک ہے چنانچہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے :
ما کان رسول الله ﷺ يزيد في رمضان ولا في غيره علی إحدى عشرة رکعة
"آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ قیام نہ فرماتے"
ایک استفسار اور اس کا جواب:اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ کی پیش کردہ حدیث عائشہ سے تو یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نمازِ تہجد یا تراویح گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے حالانکہ بعض صحیح روایات میں تیرہ رکعت (۱۵)کاذکر موجود ہے تو اس کا جواب کئی انداز سے دیا گیا ہے: ۱۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی مذکورہ روایت میں گیارہ کاذکر اغلبیت کی بنیاد پر ہے۔ ورنہ بعض اوقات بصورتِ نادر آپ سے تیرہ اور پندرہ کا بھی ذکر ہے۔
۲۔ نمازِ عشاء کے بعد دو رکعت کو نمازِ تہجد میں شمارکرلیا گیا ہے۔
۳۔ تہجد سے پہلے دو ہلکی پھلکی رکعت کو بھی شمار کیا گیا ہے۔
۴۔ صبح کی دو رکعت کو شمار کیا ہے چنانچہ اس کی صراحت صحیح مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ سے موجود ہے: فقالت کانت صلاته في شهر رمضان وغيره ثلاث عشرة رکعة بالليل منها رکعتا الفجر
"آپ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی رمضان اور غیر رمضان میں نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی اور ان میں سے صبح کی دو رکعت بھی شامل تھیں"
نوٹ: حضرت عائشہ کی مذکورہ گیارہ رکعت والی روایت میں یہ بھی ارشاد ملتا ہے کہ آپ گیارہ سے زائد تو نہیں البتہ کم بھی پڑھتے تھے چنانچہ بعض روایات میں سات اور نو کا بھی ذکر ہے مگر بیس رکعت نماز تراویح کا ثبوت کسی مرفوع اور صحیح روایت میں نہیں بلکہ متعدد حنفی علماء اس امرکی تصدیق کرچکے ہیں۔ البتہ حضرت عمر کی طرف منسوب کردہ وہ روایت جس میں بیس رکعت کا ذکر ہے، کئی وجہ سے قابل استدلال اور عمل نہیں مثلاً
۱۔ وہ روایت شاذ ہے یعنی اکثر ثقہ راویوں نے اس روایت کے ضعیف راوی کے اُلٹ بیان کیا ہے۔
۲۔ شاذ ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے۔
۳۔ اگر بالفرض اس کی صحت تسلیم بھی کرلی جائے تو بھی اس قابل نہیں کہ اسے رسول عربی علیہ الصلوٰة والسلام کی سنت ِصحیحہ ثابتہ کے مقابلہ میں لاکھڑا کردیا جائے۔ بلکہ یہ حضورِ اقدس ﷺکی توہین کے مترادف ہے۔
۴۔ حضرت عمر کی طرف منسوب کردہ مذکورہ روایت کے برعکس آپ سے یہ روایت بھی (۲۰)موجود ہے کہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے اُبی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم فرمایا۔
الغرض حضرت عائشہ صدیقہ کی مذکورہ ناقابل تردید و انکار روایت کی بنا پر بعض محقق حنفی علما یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سنت تراویح صرف گیارہ رکعت ہیں اور اس سے زائد تعداد کاسنت ہوناثابت نہیں۔چنانچہ شیخ ابن ہمام جو حنفیہ میں بڑے پائے کے بزرگ اہل علم گزرے ہیں، شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:
فحصل من هذا أن قيام رمضان سنة إحدى عشرة رکعة بالوتر في جماعة فعله عليه السلام(۲۱)
"اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا مسنون قیام وتر سمیت گیارہ رکعت ہے اور اسے آنحضرت ﷺنے باجماعت بھی ادا فرمایا ہے "
قیام باجماعت کا حکم
قیام باجماعت اکیلے قیام کرنے سے افضل ہے۔چنانچہ حضرت عمر کا تمام لوگوں کو مقرر کردہ ائمہ، قراء کی اقتدا میں باجماعت قیام کا حکم دینا اس کی افضلیت کی واضح دلیل ہے۔
قیام کے آداب
قراء ت:(الف) نبی ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں قیام کی قراء ت کے بارے میں کوئی ایسی مقررہ حد ثابت نہیں کہ جس سے کمی و بیشی نہ ہوسکتی ہوبلکہ آپ کبھی لمبا قیام فرماتے اور کبھی چھوٹا
(ب) اگر کوئی شخص امام ہو تو اسے نماز میں تخفیف کرنی چاہئے۔ اکیلا ہونے کی صورت میں حسب ِمنشا قرا ء ت لمبی کرسکتا ہے۔ (متفق علیہ از ابوہریرہ)
(ج) اگر مقتدی امام کی قرا ء ت میں لمبی نماز کوپسند کریں تو جائز ہے۔
(د) کوئی شخص خواہ امام ہو یا مقتدی، اپنی نفلی نماز اتنی لمبی نہ کرے کہ صبح کی نماز فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو یاپھر دن کی خیروبرکات سے محرومی لازم آئے۔
البتہ کبھی کبھی پوری رات کا قیام بھی جائز ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺکی عادتِ مبارکہ تھی۔
۲۔ حسن و طول: قیام اللیل کو لمبا اور اچھے طریقہ سے ادا کرنا مستحب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ آنحضرت ﷺکے قیام کے حسن و طول کو بیان فرماتی ہیں۔ (متفق علیہ از عائشہ)
۳۔ وقت قیام: (ا) نمازِ عشا کے مابعد سے لے کر طلوعِ فجر تک قیام کا وقت ہے۔ (احمد وغیرہ از ابی بصرہ مرفوعاً بسند صحیح)
(ب) رات کے آخری حصہ میں قیام افضل ہے۔ (مسلم وغیرہ مرفوعاً)
(۳) صلوٰة ِوتر
آپ گذشتہ صفحات میں یہ معلوم کرچکے ہیں کہ صلوٰةِ وتر کا اطلاق کبھی پوری نمازِ تہجد پر جو کہ سات تا گیارہ یاتیرہ رکعت ہے او رکبھی ایک یا تین یا پانچ رکعت پر ہوتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔
نماز وتر کا حکم اور رکعات کی تعداد
حضرت ابوایوب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وتر ہر مسلمان پر لازم ہے۔ پس جو شخص پانچ رکعت پڑھنا پسندکرے پانچ پڑھ لے، جو تین تو تین اور جو ایک تو ایک پڑھ لے (ابوداؤد، نسائی(۲۴)، ابن ماجہ)
جمہور علماءِ امت کے نزدیک نمازِ وتر سنت موٴکدہ(۲۵) ہے۔
تین یا پانچ وتر پڑھنے کاطریقہ
تین یا پانچ وتر پڑھنے کے دو طریقے ہیں:
۱۔ ایک ہی تشہد اور سلام سے ادا کرنا۔
۲۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا اور پھر آخری رکعت کو الگ پڑھنا اور یہ افضل ہے ۔
مگر تین رکعت وِتر اکٹھے ادا کرتے وقت یہ شرط ہے کہ دوسری رکعت پرتشہد نہ بیٹھے ورنہ نماز مغرب سے مشابہت لازم آئے گی اور یہ شرعاً ممنوع ہے۔
آداب ِوتر
قراء ت (الف) اگر ایک یا پانچ رکعت وتر ادا کرنا ہو تو اس میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی مخصوص قراء ت اور اس کی مقررہ حد ثابت نہیں ، البتہ اگر تین رکعت ادا کرنے ہوں تو اس میں زیادہ ترآپ کی سنت مطہرہ یہ تھی کہ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ، دوسری میں قل يٰأيها الکافرون اور تیسری میں قل هوالله أحد پڑھتے۔(۱۔ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ از ابن عباس مرفوعاً بسند صحیح... ۲۔ احمد، ابوداود، نسائی، ابن ماجہ از ابی بن کعب مرفوعاً بسندصحیح)
(ب) اس کے علاوہ کبھی کبھی آپ ا تیسری رکعت میں معوذ تین بھی ملا لیتے۔ (ترمذی، ابوداود از عائشہ بواسطہ ابن جریج بسند ضعیف وبواسطہ عمرة بسند صالح)
اکثر علماء تیسری رکعت میں صرف قل هو الله أحد پڑھنے کے قائل ہیں کیونکہ ابن عباس اور ابی ابن کعب کی روایت میں جو کہ زیادہ صحیح ہے، معوذتین کاذکر نہیں۔
(ج) آپ سے ایک دفعہ تیسری رکعت میں سورة نساء کی سو آیات پڑھنا بھی ثابت ہے (نسائی، احمد بسند صحیح)
قنوت کا شرعی معنی
لفظ قنوت گو متعدد معانی کے لئے مستعمل ہے مگر یہاں نماز میں قیام کے کسی مخصوص مقام پر دعا کرنامراد ہے۔(فتح الباری)
قنوت کی دو اقسام
(۱) قنوتِ نازلہ:کسی مصیبت، جنگ یا حادثہ کے وقت دشمن کے خلاف یا مسلمان کے حق میں پنج وقتہ(۳۰) نماز یا کسی (۳۱)ایک نماز میں رکوع سے پہلے یا بعد دعا مانگنا ہے۔
نوٹ: حضرت انس سے قنوتِ نازلہ کے مقام و محل کے بارے میں تین طرح کی روایات ثابت ہیں: (۱) قبل الرکوع (۲) بعد الرکوع (۳) قبل الرکوع و بعد الرکوع
علماء/ محققین کے نزدیک گو رکوع سے قبل اور بعد ہر دو طرحجائز ہے۔ مگر بعد از رکوع اولیٰ اور اقویٰ ہے۔
قنوتِ نازلہ کاطریقہ
رکوع کے بعد اللهم ربنا لک الحمد پڑھ کر بآوازِ بلند دعاءِ قنوت پڑھے، دونوں ہاتھوں کودعا کے لئے اٹھالے اور مقتدی صرف آمین کہیں۔
دعا سے فراغت کے بعد اللہ اکبر کہہ کرسجدہ میں چلا جائے۔
نیزیاد رہے کہ آنحضرت ﷺ نے قنوتِ نازلہ پر دوام نہیں فرمایا۔
دعاءِ قنوتِ نازلہ
اَللّٰهمَّ قَاتِلِ الْکَفَرَةَ الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِکَ وَيُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَلاَيُوٴْمِنُوْنَ بِوَعْدِکَ وَخَالِفْ بَيْنَ کَلِمَتِهِمْ وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِهِمْ الرُّعْبَ وَ اَلْقِ عَلَيْهِمْ رِجْزَکَ وَعَذَابَکَ اِلٰه الْحَقِّ "اے اللہ، کفار کو ہلاک فرما، جو تیرے راستے میں نکلنے سے روکتے ہیں، تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں او رتیرے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اے اللہ ان کی جمعیت میں تفریق اور ان کے دلوں میں خوف ڈال دے، ان پر اپنا غصہ او راپنا عذاب نازل فرما ، یا اللہ، سچے معبود!"
دعا ءِ مذکورہ کے بعد: (۱) درودہ شریف پڑھ لے
(۲) مسلمان کے لئے دعا خیر کرے
(۳) موٴمنوں کے لئے دعائے مغفرت کرے
(۴) اور درج ذیل دعا پڑھے
اَللّٰهُمَّ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّيْ وَنَسْجُدُ وَإِلَيْکَ نَسْعَیٰ وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْ رَحْمَتَکَ رَبَّنَا وَنَخَافُ عَذَابَکَ إِنَّ عَذَابَکَ لَمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ
"اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتیرے لئے ہی نمازپڑھتے اورسجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف دوڑتے اور جلدی کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں او رتیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، بے شک تیرا عذاب تیرے دشمنوں کو ملنے والا ہے"
(۵) پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں چلا جائے۔
نوٹ: قنوتِ نازلہ میں دونوں ہاتھوں کا دعا کے لئے اُٹھانا مشروع ہے جیسا کہ احمد اور اسحق کا مذہب ہے مگر ہاتھوں کا چہرے سے لگانا سنت نہیں۔
قنوتِ وتر اور اس کا محل
صرف نمازِ وتر میں رکوع سے قبل یا بعد دعا کرنا۔وتروں میں دعاءِ قنوت رکوع سے پہلے یا پیچھے ہر دو طریق پرجائز ہے۔ مگر علماء کے مابین اختیار اور افضلیت میں اختلاف پایا جاتاہے چنانچہ بعض علماء رکوع سے قبل قنوت کو مختار اور افضل جانتے ہیں اور بعض دیگر محققین رکوع کے بعد قنوت کی افضلیت کے قائل ہیں۔
قنوتِ وتر کی دعا
ترمذی اور ابوداود وغیرہ میں حضرت حسن سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وترو ں کی قنوت میں پڑھتا ہوں اور وہ یہ ہیں
اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِيْمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِيْ فِيْمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِيْ فِيْمَنْ تَوَلَّيتَ، وَبَارِکْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ،فَإِنَّکَ تَقْضِيْ وَلاَ يُقْضَي عَلَيکَ، إِنَّه لاَ يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ، وَلاَ يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ، لاَمَنْجَا مِنْکَ إِلاَّ إِلَيْکَ وَصَلّٰي اللّٰهُ عَليٰ النَّبِيِّ
قنوتِ وتر سے متعلق مختلف مسائل
۱۔ قنوتِ وتر واجب نہیں، یہی مذہب جمہور کا ہے۔
۲۔ قنوت کبھی پڑھنا او رکبھی نہ پڑھنا سنت ہے۔
۳۔ قنوتِ وتر کورمضان کے نصف ِثانی میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
۴۔ قنوتِ وتر کے ساتھ قنوتِ نازلہ ملائی جاسکتی ہے۔
۵۔ قنوتِ وتر کی دعا کا بعض روایات میں صبح کی نماز میں بھی پڑھنا ثابت ہے۔
۶۔ قنوتِ وتر میں ہاتھ اُٹھانے کے بارہ میں اگرچہ کوئی صحیح روایت موجود نہیں البتہ حضرت عمر، ابن مسعود، ابن عباس، ابوایوب، ابوخیثمہ، احمد ، اسحق، ابن ابی شیبہ اور بیہقی کے نزدیک جائز ہے مگر ہاتھوں کا چہرے پر پھیرنا ثابت نہیں۔
نمازِ وتر کے آخر میں دعا
سلام پھیرنے سے پہلے یا بعدمیں اس دعاکا پڑھنا بھی ثابت ہے :
اَللّٰهمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَاُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْکَ کَمَا اَثْنَيْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ (ابوداود، احمد، نسائی بسند صحیح)
"اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں، تیری خوشی کی تیرے غصے سے او رتیرے بچاؤ کی تیرے عذاب سے اور پناہ مانگتاہوں تیری تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا جیسی تو نے خوداپنی تعریف کی ہے"
فراغت ِوتر کے بعد کے کلمات
تین بار... سبحان الملک القدوس کہے ، آخر ی بار بآوازِ بلند۔
۱۔ وتروں کے بعد دو رکعت کا پڑھنا بھی احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے۔ آنحضرت ﷺنے یہ دو رکعت خود پڑھیں۔ (مسلم، احمد، بیہقی از ام سلمہ، ابی امام و عائشہ)
نیز پڑھنے کا حکم فرمایا (ابن خزیمہ، دارمی بسندصحیح)
۲۔ پہلی رکعت میں سورة إذا زلزلت الأرض اور دوسری میں قل يا أيها الکٰفرون پڑھے۔ (احمد و بیہقی از ابوامامہ ... دارقطنی از انس ... ابن خزیمہ از عائشہ و انس)
ایک شبہ اور اس کا حل
اگر کوئی کہے کہ نمازِ وتر کے بعد دو رکعت کا پڑھنا آنحضرت ﷺکے اس فرمان کے مخالف ہے:اجعلوا اٰخر صلوتکم بالليل وترا "وتر رات کی نماز (نمازِ عشاء) کے آخر میں پڑھو" تو اس کاجواب دو طرح پر دیا گیا ہے :
۱۔ یہ دو رکعت سنت کے قائم مقام ہیں اور وتر کا تکملہ ہیں جیسا کہ نماز مغرب کے بعد دو سنت بطورِ تکملہ پڑھی جاتی ہے۔
۲۔ دو رکعت کا پڑھنا آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص تھا اور آنحضرت کبھی پڑھتے اور کبھی نہیں۔
(۴) لیلۃ القدر
لیلۃالقدر کی فضیلت و برکت کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس سے طلب ِثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ اور آئندہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ( متفق علیہ از ابوہریرہ مرفوعاً ... احمد از عبادة بن صامت مرفوعاً)
لیلۃ القدرکا تعین
لیلۃ القدر (شب ِقدر) کے تعین کے بارے میں علماء سے متعدد اَقوال منقول ہیں۔ چنانچہ ابن حجر نے فتح الباری میں پینتالیس اَقوال ذکر کئے ہیں اور ان میں سے راجح ترین قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک ہے۔ (بخاری از عائشہ مرفوعا/ مسلم از ابن عمر مرفوعاً)
مگر بعض اہل علم نے روایات کی کثرت کی بنا پر ستائیسویں رات کا تعین کیا ہے۔ (مسلم ، ابو داود، ترمذی از ابی بن کعب مرفوعا، ... ابوداود از معاویہ بن سفیان مرفوعا،... احمد از ابن عباس، ابن عمرو ابن کعب مرفوعاً)
لیلۃ القدرکی علامات
۱۔ رات کے وقت آسمان کا ابرآلودنہ ہونا، روشن اور صاف ہوناگویا کہ چاند کی چاندنی ہے۔
۲۔ فضا کا پرسکون ہونا۔
۳۔ موسم کا معتدل ہونا۔
۴۔ رات کے وقت فرشتوں کا زمین پر سنگریزوں سے بھی زیادہ کثرت سے ہونا۔
۵۔ صبح کے وقت سورج کا شعاعوں کے بغیر طلوع ہونا۔
۶۔ سورج کا طشت کی طرح ہونا۔
۷۔ شیطان کاطلوع کے وقت سورج سے دور ہونا۔
۸۔ رات کو ستارے کا نہ ٹوٹنا وغیرہ وغیرہ (احمدازعبادہ بسند صحیح، مجمع الزوائد... احمد، ترمذی، مسلم، ابوداؤد از ابی بن کعب)
لیلۃ القدرکی دعا
اللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي (احمد، ترمذی، ابن ماجہ از عائشہ مرفوعاً بسندصحیح)
"اے اللہ تو معاف کرنے والاہے، معافی کو پسند کرتا ہے، مجھے معاف فرما دے"
(۵) اعتکاف
لغوی اور شرعی معنیٰ:اعتکاف لغت میں بند رہنے کا نام ہے اور شرعاً مسجد میں مخصوص طریقہ سے بیٹھنے کا نام ہے...اعتکاف سنت نبوی ہے، آپ رمضان اور غیر رمضان میں اعتکاف بیٹھتے۔ غیر رمضان کی نسبت رمضان میں اور پہلے دو عشرہ کی نسبت آخر عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے۔
اعتکاف کی فضیلت:اگر کوئی شخص صرف اللہ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن اعتکاف بیٹھ جائے اللہ تعالیٰ اس کے اور آگ کے درمیان تین ایسی خندقیں بنا دیتے ہیں جن میں ہر ایک کادرمیانی فاصلہ مشرق و مغرب سے زیادہ ہوتا ہے۔ (طبرانی بسند حسن)
اعتکاف کی شرائط و اَحکام
۱۔ اعتکاف کے لئے مسجدشرط ہے، بعض علماء نے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔
۲۔ اعتکاف یا روزہ مشروع ہےشرط نہیں۔
۳۔ اعتکاف ایک دن یا رات بھی ہوسکتا ہے بلکہ اس سے کم بھی (بخاری ا زعمر... عبدالرزاق از یعلی بن امیہ ) (فتح الباری)
محرماتِ اعتکاف
۱۔ جماع... حسن بصری اور زہری نے اس پر کفارہ بھی مقرر کیا ہے۔
۲۔ عیادت نہ کرے۔
۳۔ عورت سے بوس و کنار اور معانقہ وغیرہ سے پرہیز کرے کیونکہ آنحضرت سے اعتکاف کے دوران یہ ثابت نہیں۔ (زاد المعاد)
۴۔ سوائے ضرورتِ انسانی کے مسجد سے باہر نہ نکلے۔
۵۔ جنازہ میں شرکت نہ کرے۔ (ابوداود از عائشہ موقوفاً)
۶۔ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہ بیٹھے۔ (ابوداود از عائشہ)
مباحاتِ اعتکاف
۱۔ نہانا، خوشبو یا تیل وغیرہ لگانا (بخاری از عائشہ )
۲۔ سر کا مونڈنا، ناخن وغیرہ کاٹنا۔
۳۔ مسجد میں وضو کرنا ۔(بیہقی بسند جید)
۴۔ خیمہ لگانا (متفق علیہ از عائشہ و ابوسعید خدری)
۵۔ بستر یا چارپائی بچھانا (ابن ماجہ، بیہقی از ابن عمر باسناد قریب من الحسن)
۶۔ عورت کا خاوند کی زیارت اور خاوند کا مسجد کے دروازے تک الوداع کرنا (متفق علیہ از حفصہ)
۷۔ عورت کا خاوند کے بالوں کی کنگھی کرنا۔ (بخاری از عائشہ)
۸۔ معتکف ضروری بات کرسکتاہے۔ (بخاری از صفیہ)
۹۔ معتکف کے لئے مخصوص جگہ کا انتخاب جائز ہے بشرطیکہ نمازیوں کو دقت نہ ہو۔ (ابوداود از عائشہ)
۱۰۔ مستحاضہ عورت بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہے (متفق علیہ از عائشہ)
۱۱۔ عورت اکیلی یا خاوند کے ساتھ مل کر اعتکاف بیٹھنے کی مجاز ہے۔ (بخاری، ابوداود از عائشہ)
جائے اعتکاف میں داخلہ
رمضان کے آخری نو یا دس دن کیلئے اعتکاف بیٹھنا ہو تو اکیسویں تاریخ فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف گاہ میں داخل ہوجائے(۷۴) اور شوال کا چاند نظر آنے تک بحالت ِاعتکاف رہے (بخاری،مسلم، ابوداود)
شوال کے چھ روزے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جوشخص رمضان کے پورے روزے رکھ کر شوال کے چھ روزے بھی رکھ لے، وہ گویا سال بھر روزہ دار رہا (مسلم وغیرہ از ابوایوب انصاری) یہ روزے اکٹھے یا علیحدہ علیحدہ شروع شوال یا درمیان یا آخر میں بھی رکھے جاسکتے ہیں۔
(۶) صدقۃالفطر
۱۔ صدقہ فطر ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا بچہ ، آزاد ہو یاغلام ہر ایک سے واجب ہے۔
۲۔ صدقہ فطر کے لئے صاحب ِنصاب ہونا ضروری نہیں۔
۳۔ صدقہ فطر نمازِ عید پڑھنے سے پہلے غریبوں اور مسکینوں کو دینا چاہئے۔
۴۔ صدقہ فطر ہر خوردنی جنس سے ایک صاع فی نفر دینا چاہئے۔
۵۔ غلہ کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔
۶۔ صدقہ فطر عید سے دوچار روز پہلے جمع کرنا چاہئے۔
۷۔ صاع کی مقدار پانچ رطل اورایک رطل کا تہائی حصہ ہے جوکہ سوا دوسیر بنتا ہے ۔
۱۔یہی امام مالکؒ ، شوکانی ؒ وغیرہ کی رائے ہے۔
۲۔ مثلاً ابن حزم، داود، حسن بصری او رابن تیمیہ وغیرہ۔
۳۔ نبی کریم ا سے سرمہ ڈالنے کی بابت کوئی مرفوع حدیث مروی نہیں البتہ ابوداود نے حضرت انسؓ کا فعل ذکر کیا ہے اورحافظ ابن حجرؒ نے اس کی سند کو درست قرار دیا ہے۔
۴۔ یاد رہے کہ روزہ دار کے لئے کلی اور ناک میںپانی ڈالنے میں مبالغہ کرنامکروہ ہے اور اگر غلطی سے پانی پیٹ میں چلا جائے تو امام مالکؒ اور شافعی ؒکے ایک قول کے مطابق روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر امام احمدؒ اور اوزاعی ؒوغیرہ کے نزدیک نہیں ٹوٹتا اور یہی راجح ہے۔
۵۔ برکت کامعنی : اجروثواب یا قوت و نشاط ہے۔ ۶۔ امام ترمذی نے اسے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔
۷۔ مرسل وہ حدیث جسے تابعی آنحضرتؐ سے روایت کرے۔ ۸۔ امام دارقطنی ؒنے اسے حسن قرار دیا ہے۔
۹۔ افطاری خواہ ایک گھونٹ دودھ یالسی یاپانی یا کھجور سے کروائے۔
۱۰۔ ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ ۵۳۔ مد کی مقدار تقریبا ً گیارہ چھٹانک ہے ۔(سبل السلام)
۵۴۔ کیونکہ ابوداود میں صم یوما مکانه اور موطا ٔمیں وصم یوما مکان ما أصبت کے الفاظ موجود ہیں۔
۵۵۔ دارقطنی از بن عمر مرفوعاً... بخاری از ابن عباس موقوفاً
۵۶۔ البتہ ابراہیم نخعی ؒاو رامام ابوحنیفہ صرف قضا کے قائل ہیں اور ان کی دلیل {فَعِدَّۃٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَر} ہے، مگر احادیث میں قضا و اِطعام کا بھی ذکر ہے۔
۵۷۔ مسند عبدالرزاق میں ابوہریرہؓ کا قول ہے کہ پہلے فرض رکھے، حضرت عائشہؓ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن ابی شیبہ میں سند صحیح سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ اسے مستحب سمجھتے تھے۔(فتح الباری)
۵۸۔ جمہور کے نزدیک روزہ رکھنا واجب نہیں بلکہ کفارہ ہے یعنی ہر روز ایک مسکین کاکھانا، البتہ اہل ظاہر کے نزدیک روزہ رکھنا ضروری ہے۔ ۵۹۔ ابن سیرین، زہری ، شافعی
۶۰۔ ائمہ کا حاملہ اور مرضعہ کے اِطعام وقضا کے بارے میں شدید اختلاف ہے کیونکہ احادیث میں اِطعام اورقضا کا ذکر نہیں اوزاعی، زہری اور امام شافعی (ایک قول میں) صرف قضا کے قائل ہیں( نیل الاوطار) مگر بعض صحیح روایات میں قضا کی بجائے اِطعام (فدیہ) کا حکم ہے۔ (بزار، دارقطنی از ابن عباس موقوفاً)
۱۱۔ جیساکہ اصحابِ سنن وغیرہ نے حضرت ابوذر سے صحیح سند سے مرفوعاً روایت کیاہے۔
۱۲۔ جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔
۱۳۔ اسی وجہ سے حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میںباجماعت قیام دوبارہ شروع کروا دیا تھا۔ (بخاری وغیرہ)
۱۴۔ نووی ۲؍ ۴۹۴
۱۵۔ بلکہ نووی نے شرح مسلم میں پندرہ رکعت کا بھی ذکرکیا ہے۔
۱۶۔ امام نووی ،شرح مسلم اور اسے صاحب ِسبل السلام نے اختیار کیا ہے۔
۱۷۔ نووی ۱۸۔ نووی
۱۹۔ مسلم:باب صلوٰۃ اللیل والوتر
۲۰۔ موطا مالک، قیام اللیل مروزی ۲۱۔ فتح القدیر
۲۲۔ یہی مذہب امام ابوحنیفہ، احمد، جمہور شافعیہ اور بعض مالکیہ کا ہے۔ صرف امام مالک، ابویوسف اوربعض شافعیہ گھر میں فردا ً فرداً پڑھنے کوافضل سمجھتے ہیں۔ (حواشی المصابیح فی صلوٰۃ التراویح للسیوطی)
۲۳۔ چنانچہ آپ سے کبھی تو ہر رکعت میں سورۃ مزمل کی مقدار برابر، کبھی پچاس آیات برابر، کبھی رات بھر میں سورۃ بقرہ، آل عمران، نسائ، مائدہ، انعام، اعراف اور توبہ اور کبھی ایک ہی رکعت میں بقرہ، نساء اور آلِ عمران کا آہستہ آہستہ پڑھنا صحیح احادیث میں ثابت ہے۔
۲۴۔ طحاوی اور حاکم نے بھی سند صحیح سے روایت کیا ہے۔
۲۵۔ چنانچہ ابن ماجہ میں حضرت علی سے روایت ہے: إن الوتر لیس بحتم ولا کصلاتکم الفریضة ''وتر نہ واجب ہے اور نہ فرض نماز کی طرح ہے اورابن منذر نے الوتر حق کے بعد لیس بواجب کے اَلفاظ بھی ذکر کئے ہیں۔
۲۶۔ بلکہ بعض صحیح روایات میںتین رکعت وتر پڑھنے سے مطلق روکا گیا ہے تاکہ نمازِ مغرب سے کسی اعتبار سے ہی مشابہت نہ ہو۔ جیسا کہ دارقطنی میں حضرت ابوہریرہ سے بسند صحیح مروی ہے لیکن چونکہ دوسری روایات میں خود آنحضرت ا سے پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، اس لئے دونوں میں یہ تطبیق ہوگی کہ تین رکعت وتر اکٹھے پڑھتے وقت دوسری رکعت پر تشہد نہ کرے تاکہ نمازِ مغرب اور وتر کی ہیئت ادا میں فرق پیدا ہوجائے۔
۲۷۔ نسائی کی مندرجہ روایت میں عبدالعزیز بن خالد مقبول ہے اور باقی سب راوی ثقہ ہیں۔ نیز نسائی کی روایت میں ولا یسلم إلا في اٰخرھن کی زیادتی موجود ہے ( نیل الاوطار) ۲۸۔ سورۃ الفلق والناس
۲۹۔ امام ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ کی حدیث جو بواسطہ ابن جریج ہے کوحسن غریب کہا ہے مگر اس میں دو وجہ سے کلام ہے:
۱۔ سند میں ابن جریج کا سماع حضرت عائشہؓ سے نہیں۔
۲۔ سند میں خصیف مُختلط ہے۔ مگر حضرت عائشہؓ کی دوسری روایت جس کی طرف امام ترمذی نے ارشاد فرمایا ہے اور جو ابن جریج کی بجائے عمرۃ سے مروی ہے او رجسے امام دارقطنی ، طحاوی، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیاہے نیز ابن حجر نے تلخیص میں اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور عقیل نے اسے صالح الاسناد کہا ہے، اس کی مؤید ہے ۔نیز ابن السکن اپنی صحیح میں عبدالعزیز بن سرحیس سے بسند غریب شاہد لائے ہیں۔ (تحفۃ الاحوذی ونیل الاوطار)
۳۰۔ جیسا کہ ابوداود اور احمد میں ابن عباس سے بسند صحیح مروی ہے کہ آپ ا نے ایک مہینہ پانچ نمازوں میںقنوت فرمائی۔ (زاد المعاد)
۳۱۔ حضرت ابوہریرہؓ سے صحیح روایت ہے کہ آپ نے نماز عشاء اور فجر میں پورا مہینہ قنوت فرمائیـ( زادالمعاد) ... نیز صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے،اور صحیح مسلم میں براء سے فجر اور مغرب کا ذکربھی ہے۔ (زادالمعاد ، بخاری)
۳۲۔ بخاری، کتاب المغازی از انسؓ موقوفاً ۳۳۔ بخاری، کتاب المغازی از انس وابن عمرؓ مرفوعا ً
۳۴۔ ابن ماجہ از انس موقوفا ً بسند قوی (فتح الباری، کتاب الوتر)
۳۵۔ جواز کی وجہ، ابن ماجہ کی مشارالیہ روایت اور صحابہ کا اختلاف ہے۔
۳۶۔ مثلا احمد اور ابن جر وغیرہ ۳۷۔ بخاری، احمد ۳۸۔ بخاری، احمد، مگر دعائے قنوت سرا بھی جائز ہے۔
۳۹۔ احمد، طبرانی بسند صحیح ۴۰۔ ابوداود ، حاکم نے اس کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور ذہبیؒ نے اس کی موافقت کی ہے۔
۴۱۔ نسائی، احمد، ابویعلی نے بسند جید روایت کیا ہے، قیام رمضان از شیخ الالبانی
۴۲۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: زادالمعاد
۴۳۔ یہ وہ دعا ہے جسے حضرت عمرؓ کے مقرر کردہ ائمہ نصف رمضان تا آخر پڑھتے تھے۔ ۴۴۔ صحیح، ابن خزیمہ
۴۵۔ ابن ماجہ میں حضرت انسؓ کا یہ قول مروی ہے: کنا نفعل قبل وبعد۔ حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو قوی کہا ہے(فقہ السنہ) ...آنحضرت ا سے مختلف روایات اور صحابہ کے اختلافِ عمل کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ قنوتِ وتر رکوع سے قبل یا بعد میں ہر دو طریق پرپڑھی جاسکتی ہے۔ اختلاف صرف افضل میں ہے نہ کہ جواز میں لہٰذا جو احباب ایسے مسائل میںتشدد سے کام لیتے ہوئے دوسروں کی نماز کے بطلان و فساد کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں، تفقہ في الحدیث سے عاری ہوتے ہیں۔
۴۶۔ مثلاً حضرت عمرؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، سفیان ثوریؒ، ابوحنیفہ، اصحاب الرائے، ابن مبارکؒ، اسحق ؒ، ابن حجرؒ کے علاوہ دورِحاضر کے محدثِ شہیر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہکی بھی یہی رائے ہے اور ان حضرات کے دلائل دو طرح پر ہیں:
۱۔ احادیث ِمرفوعہ، جنہیں ابوداود اُبی ابن کعب ؓسے اورابن ابی شیبہ و دارقطنی ابن مسعود ؓسے روایت کرتے ہیں۔
۲۔ حضرت انسؓ کے متعدد اَقوال جو کہ بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔
۴۷۔ جیسا کہ امام شافعی، احمد، اسحق، بیہقی، مروزی، عراقی، شوکانی، علامہ عبدالرحمن مبارکپوری صاحب ِتحفۃ الاحوذی اور مولانا شمس الحق صاحب ِعون المعبود و دیگر علماء کا خیال ہے نیز خلفائِ اربعہ کا بھی اسی پر عمل ہے ۔انکے دلائل بھی دو طرح کے ہیں
(الف) اَحادیث ِمرفوعہ صحیحہ: (۱) محمد بن نصر مروزی حضرت انسؓ سے لائے ہیں، عراقی نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ (۲) بخاری کتاب المغازی میں ابوہریرہؓ اور ابن عمرؓ سے لائے ہیں۔
(ب) اَقوال انسؓ : جو کہ صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہیں۔ جو حضرات بعد از رکوع قنوت کے قائل ہیں، وہ دوسرے اَصحاب کا ردّ یوں کرتے ہیں کہ فریق مخالف کی احادیث ِمرفوعہ سب کی سب ضعیف ہیں کیونکہ جو روایت ابن مسعود کی ہے اس کی سند میں ابان ابن ابی عیاش ضعیف ہے نیز عراقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اسی طرح ابوداود میں جو اُبی بن کعب کی روایت ہے، ابوداود نے کئی وجوہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ باقی رہے حضرت انسؓ کے اَقوال تو وہ آپس میں متعارض ہیں۔ (نیل الاوطاروغیرہ) ...الغرض بعد از رکوع کے مرجحات درج ذیل ہیں:
(i) احادیث ِصحیحہ مرفوعہ جو کہ بخاری،مروزی او ربیہقی وغیرہ لائے ہیں
(ii) خلفائِ اربعہ کا عمل
(iii) بیہقی کا یہ کہنا : رواة القنوت بعد الرفع أکثروأحفظ (تحفۃ الاحوذی)
''بعد از رکوع قنوت کے راوی قبل از رکوع قنوت کے مقابلہ میں تعداد اور ضبط میں بڑھ کر ہیں''
مگر علامہ ناصرالدین البانی نے صفۃ الصلوٰۃ کی تعلیقات کے ضمن میں ابن ابی شیبہ ، ابوداود، نسائی (السنن الکبریٰ) ، احمد، طبرانی، بیہقی اور ابن عساکر کی روایات کوسندا ً صحیح قرار دیا ہے۔
۴۸۔ ترمذی کی روایت میں فاء ہے ، ابو داود میں نہیں۔ ۴۹۔ ترمذی اور ابودائود میں وائو بھی موجود ہے۔
۵۰۔ ابوداود، بیہقی اور طبرانی میں یہ زیادتی موجود ہے، حافظ ابن حجر نے تلخیص میں اس کی صحیح قرار دیا ہے۔
۵۱۔ ترمذی میں اس سے پہلے سبحانک بھی ہے۔
۵۲۔ یہ زیادتی نسائی میں ہے مگر ابن حجر، قسطلانی اور زرقانی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ بعض اصحابِ شافعی اور قسطلانی کے نزدیک درود کاپڑھنا افضل ہے۔ (مدارک الصیام للقسطلانی) ...یہ زیادتی ابن خزیمہ اور ابن شیبہ میںبھی موجود ہے (صفۃ الصلوٰۃ) ۵۳۔ محقق حنفی ابن ہمام نے فتح القدیر میں اسے حق قرار دیا ہے۔
۵۴۔ کیونکہ آپ کے صحابہ میں سے صرف اُبی بن کعبؓ نے قنوت کو نقل کیا ہے، اگر آپ ہمیشہ پڑھتے تو دوسرے صحابہ بھی نقل کرتے ۔ (صفۃ الصلوٰۃ) ... لیکن اگر کوئی شخص اس پر دوام کرے یا ترک کرے تو قابل ملامت نہ ہوگا۔ (زادالمعاد)
۵۵۔ جیساکہ ابوداود میں ابی ابن کعبؓ سے اور ترمذی میں حضرت علیؓ سے مروی ہے۔
۵۶۔ امام احمد سے جب قنوت ِوتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا: صبح کی نماز میں چونکہ آنحضرت ا نے ہاتھ اٹھائے ہیں اس لئے اس پرقیاس کرکے اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ نیز زادالمعاد میں حضرت ابوہریرہؓ سے بواسطہ عبداللہ بن سعیدمقبری قنوتِ وتر میں ہاتھ اُٹھانے کی روایت موجود ہے۔ ابن قیم نے عبداللہ کو ضعیف قرار دیا ہے مگر حاکم نے یہی روایت جو کہ بواسطہ احمد بن عبداللہ مزنی لائے، صحیح قرار دیا ہے۔ (زاد المعاد)
۵۷۔ نسائی کی ایک روایت میں نماز کے بعد کی صراحت موجود ہے۔
۵۸۔ جیسا کہ ابن قیم کا خیال ہے۔ (زاد المعاد) ۵۹۔ یہ قول شوکانی کا ہے۔ (نیل الاوطار)
۶۷۔ یہ حدیث بیہقی میں بھی ہے۔ مناوی ؒنے اسے ضعیف او رحاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے۔ (ترغیب و ترہیب)
۶۸۔ اس پر سب علماکا اتفاق ہے سوائے محمد بن عمر مالکی کے۔ عائشہؓ اور حذیفہؓ کا قول ہے: لااعتکاف إلا في مسجد جامع (أو مسجد جماعة) (ابوداود، مجمع الزوائد) اگر جمعہ سے کم اعتکاف کا ارادہ ہو تو ہرمسجد میں بیٹھ سکتا ہے (عون المعبود)
۶۹۔ بعض علما جیسے ابن عباسؓ، ابن عمرؓ، مالکؒ، اوزاعیؒ، ابوحنیفہؒ، ابن تیمیہؒ اور ابن قیم ؒکے نزدیک اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے او ران کی قوی ترین دلیل حدیث ِعائشہؓ ہے: ولااعتکاف إلا بصوم (ابوداود) مگر حضرت علیؓ، ابن مسعود، حسن بصری، شافعی، احمد ،ابن حجر، شوکانی وغیرہ کے نزدیک شرط نہیں اور یہی راجح ہے۔
۷۰۔ چنانچہ مجاہد سے دو دینار منقول ہیں۔
۷۱۔ اگر بایں سبب اِنزال ہوجائے تو بعض علماء کے نزدیک اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔
۷۲۔ ضرورتِ انسانی سے مراد پیشاب، پاخانہ ہیں، بعض نے خوراک کو بھی شامل کیا ہے۔ فصد، قے، حجامت( سنگی لگوانا ) وغیرہ کو بھی حاجت ِانسانی میں شمار کیا گیا ہے۔ (فتح الباری ؍ سبل السلام)
۷۳۔ حضرت علی ؓ نخعی اور حسن بصری سے مروی ہے کہ ''اگر معتکف جنازہ میں حاضر ہو یا عیادت کرے یا جمعہ کے لئے نکلے تو اس کا اعتکاف باطل ہوگا''
۷۴۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک بیسویں تاریخ غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں قیام کرے اور نماز فجر کے بعد معتکف میں جاگزیں ہوجائے مگر احادیث صحیحہ ان کے خلاف شہادت دے رہی ہیں۔