عربی زبان کی تعلیم کیلئے ایک تدریسی خاکہ
مشہور انگریز دانشور اور مترجم قرآن مارما ڈیوک پِکھتال جنہوں نے سالہا سال عرب ممالک کی سیاحت کرکے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھا اور پھر اسلام قبول کرکے اس کی قابل قدر خدمت کی، اپنے مقالات میں لکھتے ہیں کہ انگریزی زبان کے قواعد کی مثال عربی زبان کی وسعت کے مقابلے میں ایسی ہے گویا انگریزی کے قواعد کا وجود ہی نہ ہو۔عربی جیسی اعلیٰ زبان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام، اپنے نبی آخرالزماں اور ان کے صحابہ کرام کے لئے پسند فرمایا، اس کی وسعت اورگہرائی کی بے شمار مثالیں اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ دین اسلام کی حامل ہونے کے ناطے اس میں آسانی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے ۔ خود قرآن کہتا ہے کہ یہ قرآن نصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت آسان ہے۔ دورِ حاضر میں قرآن فہمی کے بڑھتے ذوق کی موجودگی میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ عربی زبان کی اہمیت باور کرانے کے ساتھ ساتھ عربی فہمی کے آسان اسالیب بھی وضع کیے جائیں۔ گذشتہ چند عشروں میں صرف اُردو زبان میں اس مقصد کے لئے ۳ درجن سے زائد اسالیب متعارف کرائے جاچکے ہیں اور ہر اُستاذ اپنے ذوق، تجربے اور مہارت کے مطابق اپنی سی کاوش کو اپنے حلقوں میں زیر استعمال لا رہا ہے۔انہی کاوشوں میں سے ایک اہم کو شش ہمارے محترم دوست ڈاکٹر عبد الکبیر محسن کی بھی ہے، جو زیر نظر صفحات میں پیش خدمت ہے۔ البتہ اس کی ضرورت صرف قرآن وحدیث سے زبان کا حجاب دور کرکے انہیں عام فہم بنانے اور مسلمانوں میں باہمی رابطہ کی زبان کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی قبیل سے ہے۔جہاں تک عربی دانی اور عربی لسانیات کا تعلق ہے، اُن کی ضرورت نہ صرف مسلمہ ہے بلکہ زبانوں میں یہ عربی زبان کا ہی طرئہ امتیاز ہے جس کی حفاظت اُس وقت تک ہمارا دینی وملی فریضہ ہے جب تک اس زبان میں قرآنِ کریم اور فرامین نبوی موجود ہیں۔
عربی زبان کی تعلیم کے سلسلہ میں سینکڑوں رسالے و کتابچے شائقین ِعربی کی دسترس میں ہیں، اسی طرح نحوو صرف کے قواعدکے بیان اور تشریح میں بھی متعدد تالیفات موجود ہیں۔ لِکُلِّ رَجُلٍ فِیْمَا یُحَاوِلُ مَذْھَب ٌکے مصداق ہر ایک فاضل موٴلف نے اپنے طور پر جس طریقہ کو بہتر سمجھا، اس کے مطابق اپنی کتاب کو ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ ہمارے دینی مدارس میں مسلسل کئی برس عربی نحو و صرف کی تعلیم دی جاتی ہے، ابواب الصرف کا رٹا لگایا جاتا ہے قواعد کو گویا گھول گھول کر پلایا جاتا ہے، ان سب کوششوں کے باوجود عمومی حالت یہ ہے کہ ہمارے مدارس کے فارغ یافتگان اس زبان میں اظہار کی قدرت نہیں رکھتے، نہ تحریری نہ تقریری صلاحیت؛ سرکاری جامعات و کلیات میں حالت اس سے بھی بری ہے!!
عربی زبان کو ایک سرکش گھوڑا سمجھ لیا گیا ہے اور یہ باور کرایا گیا ہے کہ اس پر سواری عجمیوں کے لئے نا ممکن یا کم از کم مشکل ضرورہے۔ اب یا تو تدریسی کتب نا موزوں ہیں یا طریقہ تعلیم غیر مناسب ہے، ورنہ جس زبان کو پڑھنے پڑھانے پہ کئی برس صرف کئے جاتے ہیں ، قواعد ازبر کرائے جاتے ہیں اور صبح وشام ایک کئے جاتے ہیں، منطقی طور پر اس زبان پر مہارت ہونا چاہیے تھی۔ اگر حضرت زید بن ثابت 15دن میں عبرانی زبان پڑھنے اور اس میں لکھنے کی صلا حیت حاصل کر سکتے ہیں تو اس امر کو ان کی کرامت قرار دینے کی بجائے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے ذوق وشوق کی فراوانی کے ساتھ ساتھ کوئی نہایت مناسب طریقہٴ تعلّم اختیار کیا ہوگا۔ ذوق و شوق کی فراوانی تو ہمارے طلبہ میں بھی ہے ،لیکن میرے خیال میں طریقہٴ تعلّم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
راقم الحروف گذشتہ کئی برس سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بطورِ ’معلم عربی زبان و ادب‘ خدمات انجام دے رہا ہے۔ یادرہے کہ اس جامعہ میں عربی زبان ہر شعبہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ ایک تو شعبہٴ عربی ہے جس میں بی اے ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مراحل میں ’عربی مع فنون و ادبیات‘ کی تدریس ہے۔ اس کے علاوہ باقی شعبہ جات مثلاً ایم بی اے، ایم ایس سی اکنامکس اور کمپیوٹر وغیرہ کے طلبا بھی عربی زبان (بطورِ مضمون) دو سمسٹر میں پڑھتے ہیں۔ ظاہر ہے شعبہ عربی کے طلبا تو آتے ہی عربی پڑھنے کے لئے لہٰذا اُنہیں ا س کے تمام فنون عمق اور گہرائی کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں جبکہ باقی طلبا عربی کو صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں، لہٰذا ان کے لئے عمق اور جزئیات کے ساتھ عربی کی تعلیم کی نہ ضرورت ہے نہ وقت!!
اسی قسم کے طلبہ کو کئی سال تدریس کا راقم الحروف کوموقع ملا جس کے دوران عربی زبان کی تعلیم کا ایک خاکہ ذہن میں بنتا گیا اور اسی کے مطابق تدریس کا تجربہ بھی کیا۔ اب کئی برس اس خاکہ کے استعمال اور اس کے مطابق عربی کی تدریس کرنے اور اسے مفید پانے کے بعد ’محدث‘ کے صفحات کے ذریعہ میں اسے جملہ متعلقین عربی کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ اس پر اہل علم اپنی آرا بھی دے سکیں اور بہتری کے لئے تجاویز بھی۔
اس خاکہ کا لب لباب یہ سوچ ہے کہ عربی زبان کی گہرائی اور عمق و جزئیات تک تو وہی حضرات رسائی حاصل کریں جو اس میں ایم اے یا پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہوں۔ عام طلبا کو سائنٹفک طریقہ سے اس کی بنیادی باتیں،خصوصاً اس کے الفاظ کی شناخت،جملہ کی ساخت اور صیغہ سازی یعنی علم الصَّرفکے عمل کو نہایت آسان بنا کر پیش کیا جائے۔ انھیں گھمبیر اصطلاحات، دقیق وثقیل قواعد از بر کرانے کی بجائے عربی الفاظ کی شناخت کے حوالے سے چند بنیادی باتیں بتا دی جا ئیں ، تاکہ ان کواساس بناکر باقی عمل وہ خو دکر سکیں۔
ان بنیادی باتوں کے بعد جن کی تد ریس راقم کے تجر بہ کے مطابق چار یا پانچ دن میں مکمل ہو جاتی ہے، صرف دو امر باقی رہ جاتے ہیں :
(1)ذخیرئہ الفاظ: جو طالب علموں نے خود اپنی ضرورت یا شوق کے مطابق یاد کرنا ہے۔
(2)اِعراب : چونکہ عربی زبان کی ایک اہم خصوصیت اعراب ہے ،یعنی زیر زبر پیش وغیرہ کا استعمال۔ اس کو سلجھانے میں کچھ وقت اور پریکٹس درکار ہو گی جو ایک مسلسل عمل ہے۔ اعراب کی بنیادی باتیں تو ایک دو دن میں سمجھائی جا سکتی ہیں، لیکن باقی گہری تفصیلات کا سمجھنا اور ان کا ادراک ایک مسلسل عمل ہے جو طالب علم جس قدر عربی کے ساتھ منسلک رہے گا، اس کایہ علم ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا۔
اس ساری سوچ کا ماحصل ذیل کا تدریسی خاکہ ہے جس کے ذریعہ کوشش کی گئی ہے کہ مطلوبہ ضروری مہارتیں یعنی لکھنا، پڑھنا،بولنااور سمجھناحاصل ہو جائیں۔واضح رہے کہ یہ صرف ایک نقطئہ آغاز ہے، عربی زبان کی تعلیم کا مکمل اور جامع ترین اسلوب نہیں۔ بعد ازاں ہر پڑھنے والا اپنی ضرورت یا شوقِ تحسین کے مطابق اپنے دائرئہ علم کو وسیع کرتا جائے گا۔
یہاں دوباتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں: ایک بورڈ کا استعمال اور دوسرا تطبیقی انداز
ہمارے دینی اداروں میں عربی کے زوال کا میرے خیال میں بڑا سبب یہی دو عیب ہیں کہ ہمارے اساتذہ بورڈ کا استعمال نہیں کرتے، صرف نظری تدریس سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے تجربہ میں آیا ہے کہ مثلاً آپ گردان سازی کے بارے میں آدھا گھنٹہ بولنے میں صرف کریں، اس کا کوئی ایسا فائدہ نہیں،اسے کوئی غور سے نہیں سنے گا یا کوئی اُن سنی کرے گا۔ اس کے مقابلہ میں آپ پانچ منٹ بورڈ کا استعمال کریں اور تطبیقی انداز اختیار کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ سب کی نظریں بھی بورڈ پر ہیں اور شوق کی فراوانی بھی ہے کیونکہ نظری انداز میں طالب علم ایک عضو ِمعطل ہے اور تطبیقی انداز میں وہ آپ کے عمل تدریس کا حصہ اور اس میں شریک کار ہے ۔ لہٰذا یہ طریقہ زیادہ دلچسپ ہے۔ اب وہ تدریسی خاکہ پیش خدمت ہے جس میں ہر معلم اپنی ضرورت کے مطابق رنگ بھر سکتاہے۔
تدریسی خاکہ
پہلا دن : دنیا کی ہر زبان کی طرح عربی زبان بھی لفظوں کو جوڑ کر بنتی ہے اور لفظوں کے مجموعہ کو ہی جُملہ کہتے ہیں۔ ہم لفظ سے آغاز کرتے ہیں :
لفظ کی تین قسمیں ہیں:
(1) حرف
(2)اسم
(3)فعل
حرف
یہ معدود ے چند ہیں جو عام طور پر مستعمل ہیں۔ ان کی تعداد اندازاً 30، 35 ہے۔ ان حروف کو معانی کے ساتھ یاد کروانے پر ہی اکتفا کیا جائے۔مثلاً حروف ِ جارہ
اب ’باوٴ تاوٴ کاف ولام …‘ والاشعر یاد کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ حروفِ جر پڑھائیں جو عام روز مرہ کے جملوں میں مستعمل ہیں مثلاً
مِنْ سے اِلیٰ تک ، کی طرف
علٰی اوپر ، پر فِيْ میں
ب اس کے زیادہ مشہور معانی یہ دو ہیں :
(1) ’کے ساتھ‘ اور
(2)’ کے ذریعہ‘
ل زیر اور زبر دونوں کے ساتھ، بمعنی ’کے لئے‘۔ اسی طرح جو حروف (اصطلاحی) قرآن پاک میں بار بار مستعمل ہیں، ان کی ایک لسٹ طلبہ کو مہیا کردی جائے۔ اب اس یاد دہانی کے ساتھ کہ ”ایک دفعہ ان کو پہچان لیں، اب کوئی ان میں ردَوبدل نہیں ہے“ مثلاً کلاَّ، مَعَ، وَ، أَو، لَا، مَا، لَيْسَ، إِنِّ، أَنَّ، ثُمَّ، لَيْتَ، لَعَلَّ، کَأَنَّ َّ(اصطلاحی طور پر یہ بھی حرف ہیں) وغیرہ بورڈ پر حروف اور ان کے معانی لکھئے اور باور کروائیے کہ یہ چند حروف بار بار اِنہی معانی کے ساتھ استعمال ہوں گے، ہوسکے تو قرآن پاک سے مثالیں لکھئے: بکی مثال بِسْمِ اللهِ، اورل کی مثال اَلْحَمْدُ للهِ بورڈ پر ان مثالوں کا تجزیہ کریں ۔
اسم
یعنی نام، شخص کا ہو یا کسی چیز کا،کائنات کی ہر چیز کا نام اسم کہلاتا ہے ۔اسی میں صفات بھی آجائیں گی ۔اس میں طالبعلموں کو بتانے کی بات یہ ہے کہ چیزوں کے مفرد نام تو آپ خود اخذ کریں گے مثلاً کِتَابٌ ، رَجُلٌ ،اِمْرَأَ ةٌ جبکہ معلم کا فرض یہ ہے کہ وہ بتائے کہ جس چیز کا نا م آپ نے اخذ یا یا د کیا ہے ، وہ ا گر تعداد کے لحاظ سے دو یا دو سے ز یا دہ ہو ں تو اس لفظ (اسم) کو کیسے بو لیں گے۔ پھر بتائیں کہ دو کو ’تثنیہ‘ اور زیا دہ کو ’جمع‘ کہتے ہیں۔
تثنیہ
ہر مفرد لفظ (اسم) کے آ خر میں ان یا ین لگا دیں تو وہ تثنیہ بن جائے گا مثلاً
کِتَابٌ کِتَابَا نِ یا کِتَابَيْنِ
رَجُلٌ رَجُلَانِ یا رَجُلَيْنِ
اِمْرَأَ ةٌ اِمْرَأَتَانِ یا إِمْرَ أَتَيْنِ
اس مرحلہ پر اس سے زیا دہ تفصیل میں نہ جائیں ۔
جمع
کم از کم تین افراد یا ان سے زیادہ پر جمع بو لا جا تا ہے۔
(1)وہ ا لفاظ جن میں ا نسا نو ں کی عا دا ت ،مذاہب اور پیشو ں کا بیا ن ہو تو جمع مذکر کے لئے مفر د لفظ کے آخر میں ون یا ین مثلاً
مُسْلِمٌ مُسْلِمُوْ نَ یا مُسْلِمِيْنَ
صَا دِ قٌ صَا دِ قُوْ نَ یا صَا دِ قِيْنَ
مُهَنْدِ سٌ مُهَنْدِ سُوْ نَ یا مُهَنْدِ سِيْنَ
اور جمع موٴنث کے لئے پہلے یہ بتلا ئیں کہ ہر لفظ کے آ خر میں ة لگا نے سے وہ ا سم موٴنث کیلئے بن جاتاہے مثلاً مُسْلِمٌ سے مُسْلِمَةٌ، صَادِقٌ سے صَادِقَةٌاورمُهَنْدِسٌ سے مُهَنْدِسَةٌ
جبکہ جمع بنانے کے لئے یہ ة ختم کر کے آ خر میں ا ت لگا دیں مثلاً مُسْلِمَةٌ سے مُسْلِمَا تٌ،صَا دِقَةٌ سے صَا دِقَا تٌ اور مُهَنْدِ سَةٌ سے مُهَنْدِسَاتٌ
انسانوں کے علا وہ تما م اشیا اور حیوا نا ت کی جمع بنی بنا ئی ہو تی ہے جن کا کو ئی ایک قا عدہ، علامت یا شکل نہیں مثلاً کِتَابٌکی جمع کُتُبٌ،قَلَمٌ کی جمع أَقْلَامٌ اور مَسْجِدٌکی جمع مَسَاجِدَ
اشیا کی جمع بنا نے کے در ج ذ یل طر یقے ہیں جو ز یا دہ تر ا لفا ظ کے لئے استعما ل ہوتے ہیں، ان میں سے عمو ماً ایک لفظ کے لئے ایک طر یقہ استعما ل ہو تا ہے :
(1)سہ حرفی مفرد الفاظ مثلاً عَيْنٌ،قَلْبٌ،فَنٌّ،نَقْدٌ،ذَنْبٌ،أَجْرٌ وغیرہ ، ان کی جمع آخری حرف سے قبل ولگانے سے ہو گی مثلاً عُيُوْنٌ،قُلُوْبٌ،ذُنُوْبٌ،أُجُوْرٌ،فَنُوْنٌ، نَقُوْدٌ وغیرہ
(2) بسا اوقات سہ حرفی مفرد الفاظ جیسے لَيْلٌ،رَجُلٌ،إِثْمٌ،مَوْتٌ،وَقْتٌ، شَخْصٌ،عَيْنٌ ،عِيْدٌ وغیرہ کی جمع آخر ی حرف سے قبل الف یا کئی دفعہ شروع میں بھی اور آخر ی حرف سے قبل بھی الف لگانے سے بن جاتی ہے مثلاً لَيَالٌ،آثَامٌ، أَمْوَاتٌ،رِجَالٌ، أَوْقَاتٌ، أَشْخَاصٌ، أَعْيَادٌ، أَعْيَانٌ
(3) چار حرفی مفرد الفا ظ جن میں آخری حر ف سے پہلے و یا ي ہے ، اس وکو ہٹا دینے سے جمع بن جاتی ہے مثلاً رَسُوْلٌ سے رُسُلٌ،طَرِيْقٌ سے طُرُقٌ
کوئی حرج نہیں اگر جمع قلت یا جمع کثرت کے عنوان سے جو اوزان کتب میں موجود ہیں، ان میں سے زیادہ متداول اوزان طلبہ کو نوٹ کروا دیے جائیں۔مذکورہ بالا تین طریقے روزمرہ کے عام الفاظ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
ا س پر پہلے دن کا لیکچرختم کر دیا جائے جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ ہو۔
کل کے مو ضوع یعنی فعل کے لئے طلبہ کو ذہنی طور پر تیا ر کر دیں اور بتا دیں کہ فعل اور اس کے متعلقات کا مو ضوع قدرے لمبا ہے، جس میں ایک سے زیادہ دن لگ جائیں گے۔
دوسرا دن
فعل/ افعال:
کسی کا م کے ہونے یا کرنے کا ایسا بیان جس میں زمانہ بھی پایا جائے۔
اہم باتوں کو درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے:
(1) حروف کی تعداد کے لحاظ سے فعل کی چا ر اقسام ہیں:
(1) ثلاثی (تین حرفی) (2) رباعی(چار حرفی)
(3) خماسی(پانچ حرفی) (4) سداسی( چھ حرفی)
(2) زمانے کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں:
(1) ما ضی: جو کا م ہوچکاہو، اس کابیان
(2) مضارع: تین معا نی دیتا ہے:
(1) کوئی کام کرتاہے
(2) کام کررہاہے
(3)کام کرے گا
’فعل ماضی‘ کاپہلا صیغہ(لفظ) دوسرے لفظوں میں ’ھو‘ کا صیغہ اصل اساس (بیس) ہے (یہاں مصادر کے اصل ہو نے کو نظراندا ز کرتا ہوں، ان کے مختلف اشکال و اوزان کی وجہ سے) اسی اصل صیغہ ،خواہ وہ ثلاثی ہو یا رباعی ، خماسی ہو یا سداسی کو لے کر ماضی کے 28 ممکنہ صیغے اور مضارع کے بھی 28 ( 14 معلوم اور 14 مجہول کے) امر کے 6 ، اسم فاعل کے 6 ، اسم مفعول کے 6 صیغے بنائیں گے ، اس عمل کو عربی میں صَرَف اور اردو میں گردان سازی کہتے ہیں۔
نوٹ: یہاں رٹے سے پرہیز کی اشد ضرورت ہے بورڑکا بکثرت استعمال ہونا چاہئے۔ ایسے ہی صیغوں کے اصطلاحی ناموں سے پرہیز بھی کرنا مناسب ہوگا یعنی بجائے یہ کہنے کے: صیغہ واحد مذکر غائب، یہی کافی ہے کہ ہُوَکا صیغہ، ھُمَا کا صیغہ … الخ کہا جائے۔
تدریسی خاکہ حسب ِذیل ہے۔سب سے پہلے یہ وا ضح کریں کہ ہم 14 یا 15قسم کے افرادکی بابت بات کرتے ہیں :
(1) جن سے ہم براہِ راست مخاطب نہیں ہوتے، یعنی غائب یا(Third person)، اس کے کل ۶ صیغے ہیں؛ان میں تین مذکر کے لئے ہیں ، یعنی پہلا صیغہ ایک فرد کے لئے ، دوسرا دوافراد کے لئے اور تیسرا دو سے زیادہ افراد کے لئے ہے ۔ ایسے ہی 3 صیغے موٴنث کے لئے بھی ہیں۔
(2) حاضر یا مخاطب(Second person) جن سیہم براہِ راست مخاطب ہو کربات کرسکتے ہیں،اس کے بھی غائب کی طرح 6 ہی صیغے ہیں، 3 مذکر کے لئے او ر3 موٴنث کے لئے
(3) تیسری اور آخری قسم متکلم یعنی((First person اس کے لئے دو صیغے ہیں:
* ایک (مذکر یا مونث) کے لئے : 1 صیغہ
* دو یا جمع (مذکریا موٴنث ) کے لئے : 1 صیغہ کل صیغے : 14
اس مر حلہ پر صرف یا گردان سازی کا عمل شروع ہو گا ،آپ بورڈپر14/ ضمائر ترتیب کے ساتھ لکھئے اور سمجھائیے کہ ہر ضمیر کے لئے ایک صیغہ مختص ہے۔
غائب مذکر غائب موٴنث حاضر مذکر حاضرموٴنث متکلم مفرد(موٴنث ومذکر) متکلم تثنیہ وجمع (موٴنث ومذکر)
هُوَ هِيَ أَنْتَ أَنْتِ أَ نَا نَحْنُ
هُمَا هُمَا أَنْتُمَا أَنْتُمَا
هُمْ هُنَّ أَنْتُمْ أَنْتُنَّ
اب آپ کو ئی ثلا ثی فعل کی مثال فعل ماضی کے لئے منتخب کریں اور اسے ھُوَکے سامنے لکھیں اور بتائیں کہ یہ تین بنیادی حروف (مثلاً کَتَبَ)آئندہ آنے والی تمام ضمیروں کے ساتھ استعمال ہوں گے ، جس میں درج ذیل خاکہ کے مطابق درج ذیل اضافے ہوں گے۔ … کی جگہ مطلوبہ فعل ماضی آئے گا۔
هُوَ اور کَتَبَ هِیَ … تْ أنتَ …تَ أَنْتِ … تِ
هُمَا … ا هُمَا … تَا أَنْتُمَا … تُمَا أَنْتُمَا … تُمَا
هُمْ … و هُنَّ … نَ أَنْتُمْ … تُمْ أَنْتُنَّ … تُنَّ
أَ نَا … تُ نَحْنُ … نَا
یہی عمل کسی رباعی، پھرخماسی اور پھر سداسی فعل کے ساتھ ھو کا صیغہ منتخب کر کے بار بار دہرایئے اوراضافے مت مٹائیں، اس طرح سائنٹفک اوراسپیلنگ اندازمیں اُنہیں باور کروائیے کہ آپ کو صرف ھوکا صیغہ درکارہو گا ، ثلاثی یا رباعی یا خماسی میں، البتہ باقی اضافے یہی رہیں گے۔ اس طرح ہمیشہ آپ فعل ماضی کی گردان مکمل کرتے رہیں گے۔
طالبعلم صرف ترتیب کے سا تھ اور ضمیروں کے تعلق کے ساتھ یہ اضافے ایک دفعہ ذہن نشین کر لیں گے اور پھر دو چار مر تبہ پریکٹس کے بعد ہمیشہ کے لئے فعل ما ضی بنانے پر دسترس حاصل کر لیں گے اوررٹے سے بھی ان کی جان چھوٹ جاے گی۔
تیسرا دن:
’فعل مضارع‘
تعریف میں آپ جان چکے ہیں کہ فعل مضارع تین معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے جن میں سے کسی ایک کا تعین سیا ق وسباق سے ہو گا۔ سبق کا آغاز کرنے سے قبل طلبہ سے ضمیروں کو ترتیب کے ساتھ دہرائیں اور یاد دہانی کرائیں کہ ماضی کا ھوکا صیغہ جسے اصل / اساس قرار دیا ہے ، اس کے ساتھ 3 یا 4 یا5 یا 6 حروف ہر ضمیر کے ساتھ استعمال ہوں گے ۔البتہ رباعی،خماسی،سداسی میں شروع کا الف مضارع میں حذف ہو جائے گا
کی جگہ بنیادی الفاظ رکھے جائیں مثلاً يَکْتُبُ يَکْتُبَانِ، يَکْتُبُوْنَ
هُوَ ، يَ … هِیَ، تَ … أَنْتَ ، تَ … أَنْتَ، ت … يْنَ
هُمَا، يَ … انِ هما ، تَ …انِ أَنْتُمَا ،تَ … ان أَنْتُمَا، ت … انِ
هُمْ ، يَ …وْنَ هُنَّ ، يَ … نَ أَنْتُمْ ،تَ… وْنَ أَنْتُنَّ، ت … نَ
أَ نَا ، أَ … نَحْنُ ، نَ …
ان شروع وآخرکے اضافوں کو ذ ہن نشین کرانے کے کئی انداز ہو سکتے ہیں۔ مختلف مثالوں کے ساتھ سمجھایئے کہ لفظ کوئی سا بھی ہو مثلاً أمَرَ،جَاهَد، اَحْسَنَ، زَلْزَلَ، اِحتَسَبَ، اِسْتَقْبَلَ، صَرَّف وغیرہ کے ساتھ یہی اضافے (لاحقے اور سابقے) لگا دیں ، مضارع بن جائے گا۔ مضارع بنانے کا مختصر فا رمولہ یہ ہے :
* ابتدائی تین اور چھٹے صیغے کے شروع میں ي،أنا کے صیغے کے شروع میں اَ
نحن کے صیغے میں ن اورباقی سب کے شروع میں ت لگا دیں ۔
* تثنیہ کے تمام صیغوں (4صیغے ) کے آخر میں انِ
* جمع مذکر کے دو صیغوں کے آخر میں وْنَ
* جمع موٴنث کے دو صیغوں کے آخر میں نَ
* أنتِکا صیغہ خاص طور پر قابل توجہ کہ اس کے آخر میں يْنَ
اعراب
اعراب کی گتھیوں کو اس مرحلہ میں سلجھانے کا آغاز کیا جاسکتا ہے مثلاً
* فعل ماضی کے هُوَکے صیغہ کے پہلے اورآخری حرف پر زبر ہو گی، البتہ خماسی اور سداسی افعال اس سے مستثنیٰ ہیں۔
* مضارع رباعی کے پہلے حرف (حروف اَتین) پر پیش،لیکن ثلاثی،خماسی اور سداسی پر زبر
* ایک عام فارمولہ یہ دیجئے کہ عموماً الف سے پہلے زبر، واوٴ سے پہلے پیش اور یا سے پہلے زیر ہوتی ہے، اس سے ان صیغوں کا اعراب کافی حد تک مکمل ہو جائے گا۔
* تثنیہ کے اَن میں نِ پر زیر اور جمع (مذکر و موٴنث) کے ون میں ن َ پر زبر ہو گی۔
اورتکرار کے ساتھ بتایئے کہ یہی اضافے لگا کرآپ کسی بھی ماضی کے ھُوَ کے صیغہ سے فعل مضارع بنا سکتے ہیں اس طرح لاکھوں الفاظ (افعال) کی معنی سمیت پہچان ہوگئی۔ یہاں کچھ اضافی معلومات بہم پہنچائی جاسکتی ہیں کہ ثلا ثی ماضی میں اگر ’الف‘ ہو (درمیان یا آخر میں) تو مضارع میں وہ الف عام طور پر و یا ي بن جاتا ہے مثلاً
قَالَ يَقُوْلُ،بَاعَ يَبِيْعُ، دَعَا يَدْعُو
کبھی وہ الف، الف ہی رہتاہے، مثلاً خَافَ يَخَافُ، اسی طرح رباعی کے اوزان/ اشکال میں سے ایک مندرجہ ذیل شکل ہے: أَقَامَ ،أَخَافَ، أضَاعَ یہ درمیان کا الف مضارع میں يمیں تبدیل ہو گامثلاً يُقيم،يُخيف،يُضيع وغیرہ
فعل امر
مختصر تعریف:آپ کسی کو مخاطب کر کے کسی کام کے کرنے کا امر (حکم) دیتے ہیں۔ ’مخاطب ‘کی شرط سے علم ہوا کہ فعل امر کے صرف ۶ صیغے درج ذیل ضمیروں کے بن سکیں گے :
امر مخاطب مذکر امر مخاطب موٴنث
أَنْتَ أَنْتِ
أَنْتُمَا أَنْتُمَا
أَنْتُمْ أَنْتُنَّ
طریقہ
(1) پہلا طریقہ ثلاثی ، خماسی اور سداسی کے لئے:
تمام 6صیغوں کے شروع میں الف لگے گا ۔ خماسی اور سداسی کے شروع میں اگر پہلے سے الف ہے تو اسے ہٹا دیں، مثلاً ماضی کا ھوکا صیغہ تمام ضمیروں کے ساتھ لکھئے۔ کَتَبَ کو خالی جگہ …پر رکھیں
أَنْتَ اُ… أَنْتِ اُ… ی
أَنْتُمَا اُ …ا أَنْتُمَا اُ… ا
أَنْتُمْ اُ …وْ أَنْتُنّ َ اُ… ن
اعراب:ثلاثی میں الف پر زبر یا پیش ہوگی (تفصیل ابھی نہ بتائیں) جبکہ خماسی و سداسی میں زیر۔ اس مرحلہ پر زیادہ مشق لفظ کی صورت اور اضافوں کی کرائیے، ادائیگی اور اعراب اپنے وقت پر صحیح ہو جائے گا۔
(2) دوسرا طریقہ رباعی کے لئے:
آپ ماضی ھُوَ کا صیغہ لیں مثلاً جَاهَدَ،أحْسَنَ، صَرَّ ف ، شروع میں کوئی اضافہ نہیں،آ خر کے اضافے وہی ہیں جو اوپرگزرے ہیں، آپ صرف آخری حرف سے پہلے حرف پر زیر اور آخری حرف پر جزم ڈال دیں، امر بن جائے گا۔جاهَدَ سے جَاهِدْ ،أَحْسَنَ سے أَحْسِنْ ، صَرَّفَ سے صَرِّفْ باقی گردان اُسی طرح ہی ہے ۔
(3)ثلاثی میں کچھ استثناء ات ہیں جو حسب ِذیل ہیں :
* اگر ثلاثی کے تین حرفوں میں سے ایک واو (جو عموماً شروع میں ہوگی) یا الف / ہمزہ (اگر شروع میں یا درمیان میں ہو )مثلاً وَعَدَ، أَمَرَ، سَأَلَ،قَالَ تو امر بناتے ہوئے اس و ا و اور الف کو ہٹادیں اور شروع میں الف لگانے کی ضرورت نہیں ، فعل امر کا أَنتَ کا صیغہ بن جائے گا مثلاً
وَعَدَ سے عُدْ أَمَرَ سے مُرْ
سَأَلَ سے سَلْ قَالَ سے قُلْ
باقی گردان کا وہی طریقہ اور وہی اضافے ہیں ۔میرے خیال میں اعراب اگر ابھی نہ بتلائیں تو بہتر ہے، پہلے لکھنا تو آئے ۔
* ثلاثی اگر مَدَّ طرز کا ہو،َّ یعنی بظاہر دو حروف اور دوسرے پر َشدّ جو اصل میں 3 حروف ہوئے تو اس قسم کے الفاظ محدود ہیں۔ کوئی 10 / 15 الفاظ ہوں گے جو زیادہ مستعمل ہیں مثلاً مَدَّ، قَدَّ، شَدَّ، قَصَّ، جَدَّ وغیرہ
اس سے امر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے حرف پر جو زبر ہے اُسے پیش بنا دیں ، شروع میں اور کسی اضافہ کی ضرورت نہیں ، باقی گردان کا وہی طریقہ اور وہی اضافے ہیں، مثلاً:
مَدَّ سے مُدَّ قَصَّ سے قُصَّ
درس کے اختتام پر، اس درس کا خلاصہ خود یا کسی طالبعلم کی زبان سے بیان کریں اور انہیں خوشخبری سنائیے کہ کل آپ اسی ماضی ھوکے صیغہ سے اسم فاعل و اسم مفعول بنائیں گے اور اس ایک لفظ سے اسم فاعل و اسم مفعول سے کم از کم 74 الفاظ بنانے کا عمل اختتام پذیر ہو گا۔ اس کے بعد کرنے کے صرف دو کام باقی ہوں گے: ایک ذخیرئہ الفاظ اور دوسرا اعراب جس کی گتھیاں سلجھانے میں وقت لگے گا۔
آپ ایک دفعہ اس عربی گھو ڑے کو سہلا کر اس پر سوار ہونے میں کامیاب ہوں، باقی مسئلہ کہ اسے دلکی چال چلانا ہے یا تیز رفتاری سے؟ جب لگام ہمارے طالبعلم کے ہاتھ میں آجائے گی اور اس کے دونوں پاؤں رکاب میں داخل ہو جائیں گے تو پھر جس کا جتنا شوق یا ضرورت ہو گی، اتنا وہ اسے کام میں لائے گا اور اس کے مختلف گوشوں تک رسائی حاصل کرے گا، کبھی مبالغہ کے صیغوں تک پہنچے گا توکبھی اسم آلہ و ظرف تک، خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں اپنے طالبعلموں کو ذَهَبْتُ إلَی الْحَدِيْقَةِ للنُّزه سکھلانا ہے ،تنزَّهْتُ فِيْ الْحَدِيْقَةِ کہنا وہ خود سیکھ جائیں گے۔
یہاں ایک واقعہ درج کرنا مناسب ہو گا جس سے عربی کی تعلیم کے سلسلہ میں ہماری موجودہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ۔اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران جب میں تعطیلات میں گھر گیا تو ایک دن مدرسہ کی ابتدائی کلاسوں کا ایک لڑکا کاغذ قلملے کر آیا کہ استاذ صاحب نے سائیکل پر مضمون دیا ہے کہ اس کو عربی میں ترجمہ کر لاؤ۔ و ہ مجھ سے ا س سلسلے میں مدد کا خواہش مند تھا۔مضمون کچھ اس طرح تھا :
”سائیکل کا ایک ہینڈل ہے، دو پیڈل ہیں اور ایک کاٹھی ہے۔ اس کے دو پہئے ہیں جن ان میں کُتے ہیں۔ “ پہیوں کے کتے سائیکل کاریگروں کی اصطلاح ہیں۔
میں نے کہا بھائی اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہونے کے باوجود مجھے سائیکل کے اجزائے ترکیبی کے نام تک نہیں آتے البتہ آخری جملہ ’ ان میں کتے ہیں‘کی عربی آتی ہے کہ کتوں کو عربی زبان میں کِلاَب کہتے ہیں ، لہٰذا ترجمہ ہو گا فیھما کلاب۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عربی کو اس کے آسان پہلووٴں سے پکڑ یے اور روز مرہ استعمال کے عام الفاظ سے آغاز کرایئے، شروعات ہو جائیں گی تو راستے وا ہوں گے، نئی منازل نمو دارہوں گی، چھوٹی کھائیاں سَر کرالیں تو چوٹیاں سر کرنے کے راستے خود سامنے آجا ئیں گے۔
چوتھا دن :
’ اسم فاعل‘
مختصر تعریف:کسی بھی کام کرنے والے کے بارے میں جو لفظ بتائے ، اس کو اسم فاعل کہتے ہیں۔ مثلاً لکھنے والا کَاتِبٌ، بولنے والا قَائِلٌ
اس میں زمانہ کا ذکر شامل معنی نہیں ہوتا۔ اور اس کے چھ صیغے ہوتے ہیں جو کہ 14 /ضمیروں کے ساتھ استعمال ہو سکتے ہیں، یعنی لکھنے والا
ایک (آدمی یا عورت) 2 صیغے
دو (آدمی یا عورتیں) 2 صیغے
تین (آدمی یا عورتیں) 2صیغے
چونکہ اس میں زمانہ نہیں ہوتا، نہ مخاطب یا غائب یا متکلم چنانچہ ہر صیغہ کو آپ تین تین ضمیروں کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
طریقہ:
اسم فاعل ومفعول بنانے کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ ثلاثی اسم فاعل و اسم مفعول بنانے کا ہے اور ایک رباعی + خماسی+ سداسی بنانے کا ہے ۔
ثلاثی سے اسم فاعل کا طریقہ: ہمیشہ کی طرح ماضی ہو کا صیغہ لیں، مثلاً کَتَبَ تو اس کے پہلے حرف کے بعد الف کا اضافہ کریں اورآخری سے پہلے حرف پر زیر لگا دیں تو کَاتِبٌ ہو ا۔ اب یہ صیغہ آپ :أَنا،هُو،أنتَ تینوں ضمیروں کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور 14کی بجائے 6سے کام چلے گا۔ تثنیہ کے لئے،ان کے آخر میں ان یا ین لگائیں ، جیسے کاتبان یا کاتبیناور جمع مذکر کے لئے ون یا ین مثلاً کَاتِبُوْنَ یا کَاتِبِيْنَ
موٴنث کے لئے مفرد مذکر والے صیغہ کے آخر میں ة لگائیں مثلاً کاتبة،تثنیہ کے لئے ة کے بعد ان یا ین اور جمع بنانے کے لئے ة ہٹا کر ات لگادیں مثلاً کَاتِبَات
گردان اس طرح ہو گی:
کَاتِبٌ کَاتِبَةٌ
کَاتِبَانِ / کَاتِبَيْنِ کَاتِبَتَانِ / کَاتِبَتَيْنِ
کَاتِبُوْنَ / کَاتِبَيْنَ کَاتِبَاتٌ
* ان میں سے ہر صیغہ تین تین ضمیروں کے ساتھ استعمال کیجئے ، مثلاً
أَنَا،هُوَ،اَنْتَ کیلئے کَاتِبٌ
نَحْنُ،هُمَا،اَنْتُمَا کیلئے کَاتِبَانِ
نَحْنُ،هُمْ کیلئے کَاتِبُوْنَ (یہ دو کے لئے آتا ہے)
أنَا،هِیَ،أَنْتَ کیلئے کَاتِبَةٌ
نَحْنُ،هُنَّ کیلئے کَاتِبَات (یہ بھی دو کے لئے آتا ہے)
ثلاثی سے اسم مفعول کا طریقہ: وہی هوکا صیغہ لیں۔ شروع میں م (زبر کے ساتھ) اور آخری حرف سے قبل و لگادیں ، جیسے کَتَبَ سے مَکْتُوْبٌ ، باقی گردان کا وہی طریقہ جو اسم فاعل میں استعمال ہوا ہے ۔
رباعی، خماسی اور سداسی وغیرہ سے اسم فاعل واسم مفعول کا طریقہ :
هُوَکا ماضی کا صیغہ لیں، اس کے شروع میں م (زبر کے ساتھ) لگا دیں، اسم فاعل بھی بن جائے گا اور اسم مفعول بھی باقی گردان کا وہی طریقہ ہے جو ثلااثی میں ہے ۔ اب رہا یہ سوال کہ اسم فاعل کا اسم مفعول سے فرق کیسے ہو گا؟ جواب نہایت آسان ہے کہ آخری سے پہلے کے حرف پر اگر زیر لگائیں تو اسم فاعل،اگر زبر لگائیں تو اسم مفعول ،مثلاً
ماضی کا صیغہ هُوَ اسم فاعل اسم مفعول
جَاهَدَ مُجَاهِد مُجَاهَد
أَحَسَنَ مُحْسِن مُحْسِن
واضح رہے کہ شروع کا الف مضارع میں کی طرح یہاں بھی ختم کردیا جائے گاجیسے
إحْتَسِبْ سے مُحتسِب و مُحتسَب
إسْتَقْبَلَ سے مُستقبِل و مُستقبَل
یہاں ایک دفعہ پھر یہ کہوں گا کہ اس سارے عمل میں بلیک بورڈ کی بہت اہمیت ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بنیادی باتیں نقش بر آب نہ بنیں اور رٹے سے بھی طالبعلوں کو بچایا جائے تو پھر آپ کو نرم مسندسے اُٹھنا پڑے گا اور چاک پکڑکربورڈ استعمال کرنا ہوگا، وگرنہ وہی حالت ہو گی: کَلَامُ اللَّيْلِ يَمْحُوْهُ النَّهَارَ ”رات گئی، بات گئی“
فعل مجہول
مختصر تعریف؛یہاں کام کرنے والے کا ذکر نہیں ہوتا۔ اس کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ لکھا گیا، جایا گیا، بجائے اس کے کہ وہ گیا یا اس نے لکھا…
ماضی و مضارع ؛
ثلاثی ،رباعی،خما سی و سداسی سے مجہول بنانے کا طریقہ: ماضی میں تو صرف اعرابی تبدیلیاں کرنے سے معلوم سے مجہول بن جاتا ہے ۔پہلے حرف پر پیش ڈال دیں اور آخری سے پہلے حرف پر زیر ، مثلا کَتَبَ سے کُتِبَ اور مضارع میں پہلے حرف پر پیش اور آخری سے پہلے حرف پر زبر ، مثلا يَکْتُبُ سے يُکْتَبُ یہ تو عام فارمولہہے البتہ یہاں بعض افعال میں کچھ مزید اعرابی و حرفی تبدیلیاں بھی ہوں گی جو درج ذیل ہیں:
نوٹ: یاد رہے کہ آپ ابتدا میں اور ابتدائی طالب علموں کے لئے ان درج ذیل باتوں سے احتراز بھی کر سکتے ہیں اورکچھ مشق کے بعد ان تفصیلات کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔
* خماسی و سد ا سی میں پہلے حرف کے علاوہ ماضی میں تیسرے حرف پر بھی پیش ہو گی
مثلاً اُحْتُسِبَ ، اُنْتُقِلَ
* اگر ماضی رباعی و خماسی میں درمیان میں الف ہو ، مثلاً قاتل،جاھد، تفاعل تو وہ مجہول میں واو بن جائے گا جیسے قَاتَل سے قُوتِل ، جَاهَدَ سے جُوهِد ، تَفَاعَلَ سے تُفُوعِل
* اگر ثلاثی میں الف ہو ،خواہ درمیان میں یا آخر میں تو وہ مجہول میں ي بن جائے گا
مثلاً قَالَ سے قِيْلَاور دَعَا سے دَعٰی
نہی اور نفی
سب سے پہلے آپ نہی اور نفی کا فرق بتلائیے …
نہی :یعنی منع کرنا، ظاہر ہے کہ براہ راست آپ صرف مخاطب افراد کو منع کریں گے ، لہٰذا یہ بھی مضارع کے چھ صیغوں میں ہی بنے گی۔ ان ضمیروں کے لئے :
مخاطب مذکر مخاطب موٴنث
أنتَ أنت
أَنْتُمَا أَنْتُمَا
أَنْتُمْ أَنْتُنَّ
نہی بنانے کا طریقہ: ان میں سے ہر ضمیر کا مضارع کاایک صیغہ لیں اور اس کے شروع میں لا لگا دیں ۔مفرد میں آخری حرف پر اب جزم ہو گا مثلاً (اَنْتَ) تَکْتُبْ سے لا تَکْتُبْ اس کے بعد مضارع کے تثنیہ و جمع مذکر میں جو ن ہے ،اس کو ہٹا دیں جیسے تَکْتُبَانِ / تَکْتُبُوْنَ سے لَا تَکْتَبَا / لَا تَکْتُبُوْ (أنتن)کا نون باقی رہے گا ،جیسے لاتکتبنَّ
نفی: کسی کام کے نہ کرنے یا کام کے نہ ہونے کی بابت بتلانانفی کہلاتا ہے اور یہ نفی ماضی اور مضارع دونوں میں ہو گی ۔
نہی بنانے کا طریقہ: یہ ہے کہ آپ ہر دو ، یعنی ماضی و مضارع (معلوم و مجہول)کے شروع میں لاَ یا مَا لگادیں، بس اور کوئی تبدیلی نہ ہو گی مثلاً
ماضی : کَتَبَ سے مَا کَتَبَ کُتِبَ سے مَا کُتِبَ
مضارع : يَکتُبُ سے لا يَکْتُبُ يَُکْتَبُ سے لاَ يُکْتَبُ
چو تھے دن کا درس اختتام پذیر ہوا ، اب ذخیرئہ الفاظ اور نحو واِعراب کی تفصیلات … میری نظر میں اعراب کی چند باتیں بتلانے سے ضرورت تو پوری ہو سکتی ہے،البتہ اگر کوئی طالبعلم شوق کی فراوانی رکھتا ہے، عربی زبان کی باریکیوں پر مطلع ہونا چاہتا ہے تو شوق کی کوئی ا نتہا نہیں اور اس زبان یا کسی بھی زبان کے علم کی بھی کوئی انتہا نہیں * فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
آئیے! نحوی موشگافیاں دیکھئے، بصری وکوفی اعرابی تفصیلات دیکھیں لیکن بنیادی ضرورتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس سے واسطہ بھی زیادہ تر ان لوگوں کو پڑھتاہے جوعربی بولنا یالکھنا چاہیں، البتہ عربی سمجھنے کے لئے اس کے بغیر بھی گزارا چل سکتا ہے۔ چونکہ اکثر مسلمانوں کی عربی فہمی کامقصد قرآن وحدیث نبوی کے مطالعے سے زبان کا حجاب دورکرنا ہوتاہے، اس لئے ان کو اس کی تفصیلات میں جانے کاخاص فائدہ نہیں۔ البتہ ترجمہ میں بعض علامتیں اس سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
اعراب کی بابت چند ضروری بنیادی قواعد
چونکہ عربی زبان میں الفاظ مرفوع (پیش والے)،مفتوح (زبر ) اور مجرور (زیر) ہوتے ہیں ، درج ذیل چند اہم باتوں کی وضاحت بورڈ کو استعمال کرتے ہوئے کی جاسکتی ہیں:
* حروف ِجر: یہ صرف اسما ء پر آتے ہیں ،(افعال پر نہیں ) اور ان اسما کے آخری حرف پر زیر ہوتی ہے مثلاً برجلٍ اگر اسم پر الف لام بھی ہو توایک زیر ہوگی مثلاً بِالرَّجُلِ
جیساکہ گزر چکا ہے کہ ہر اسم کا تثنیہ آخر میں ان اور ین کا اضافہ کرنے سے بنتا ہے،اب وضاحت کی جا سکتی ہے کہ ان کب اور ين کب استعمال ہو گا،مختصر وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ اگر تثنیہ کا لفظ مرفوع یا مجرور ہے تو ان کے ساتھ ہو گا مثلاً رَجُلَانِ ، اگر مفتوح یا مجرور ہے تو ين کے ساتھ یعنی رَجُلَيْنِ آپ لکھیں گے بِرَجُلَيْنِ جو ب کی وجہ سے مجرور ہے ۔
اسی طرح جمع مذکر کے بارے میں بتلایا تھا کہ واحد کے الفاظ کے آخر میں ون یا ين لگا دیں ، مزید تشریح یہ ہے کہ اگر جمع کا لفظ مرفوع ہے تو ون ، اگر مفتوح یا مجرور ہے تو ين کے ساتھ ہو گا۔میرے تجربہ کے مطابق اسی مختصر وضاحت یا علامت اِعراب کو آگے چلا کرإنَّ وأخواتها وکان وأخو اتها وليس ولا نافية للجنس وغیرہ اسی طرح مسند اور خبر ، فاعل و مفعول کے اعراب کی پریکٹس کروائی جا سکتی ہے ۔
مفرد الفاظ کا اعراب تو واضح ہوتا ہے۔تثنیہ و جمع کی بابت اس مختصر بات سے اور اس کی مناسب پریکٹس اور تطبیق سے طویل نظری تشریحات سے بچا جاسکتا ہے۔ افعال اور اسما کی شناخت کے حوالہ سے یہ علامت بھی بتائی جاسکتی ہے کہ ال اور تنوين ہمیشہ اسموں پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بنیادی ضرورتوں کے حوالہ سے صرف ذخیرئہ الفاظ اخذ و جمع کرنے کا کام باقی رہ جاتا ہے جو طالب علموں نے خود کرنا ہے۔ اس مرحلہ پر آپ ترجمہ کا کام بھی روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے آسان جملوں کے ساتھ شروع کرا سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عربی الفاظ و جملوں میں ساخت سمجھنے یا سمجھانے کے حوالہ سے مذکورہ باتیں کافی ہیں۔ جب طالب علم چلنے کے مرحلے میں آجائیں تو نازک موضوعات بھی چھیڑے جاسکتے ہیں۔
ہمارے نبی علیہ السلام کی ہمیں تلقین ہے ، يَسِّرُوْا وَلا تُعَسِّرُوْا مگر ہم نے نہ جانے کسی سوچ کے پیش نظر تعلیم عربی کے میدان میں مشکلات کو دعوت دی رکھی ہے اور اُنہیں مبتدی طلاب کا دردِ سر بنا رکھا ہے۔ اب کوئی بتلائے کہ شرح مائة عامل میں موضوع کے اعتبار سے کتنی آسان باتیں ہیں لیکن ہمارا طریق تدریس کیا ہے؟ترکیب کا سلسلہ تو ایک مشق تھی جسے ہم نے مقصد بنا لیا، اسی طرح کافیہ کا نفس مضمون سادہ پڑھا جائے، لفظی و منطقی باریکیوں کی خاردار جھاڑیوں میں اُلجھنے کی کیا ضرورت ہے؟آخری نصیحت یہ ہے کہ کتب ِنحو و صرف کی پرانی مثالوں کو چھوڑ کر قرآن پاک سے مثالیں جمع کریں، یہ کام نہایت آسان ہے۔ اور قرآں کریم سے ہر مثال مل جاتی ہے اور اس کی برکت سے آسانی بھی ہوگی۔ ان شاء اللہ
ذخیرئہ الفاظ کے لئے جس طرح انگریزی کی کتب میں فارموں کے عنوان سے ایک طویل لسٹ ہوتی ہے go, went, gone اسی طر ح آپ بھی افعال کی ایک فہرست دے سکتے ہیں۔ آپ صرف ھو کا صیغہ مع معنی لکھیں اور یاد دہانی کرائیں کہ اس ایک لفظ سے کم از کم 74الفاظ بنا ئے جاسکتے ہیں۔اسی لئے میرا خیال ہے کہ عربی انگریزی کی نسبت آسان ہے۔ الفاظ کی فہرست ملاحظہ ہو :
الفاظ معانی الفاظ معانی
عَلِم جاننا ذَهَبَ جانا
سَمِعَ سننا سَافَرَ سفرکرنا
نَظَرَ دیکھنا جَلَسَ بیٹھنا
کَتَبَ لکھنا قَامَ کھڑاہونا
أَکَلَ کھانا أَنفَقَ خرچ کرنا
شَرِبَ پینا