قانونِ توہين رسالت ميں ترميم كے مضمرات
مملكت ِ خداداد ِ پاكستان كے صدر جنرل پرويز مشرف نے 21/ مئى 2000ء ميں اعلان كيا تها كہ توہين رسالت كے قانون كا غلط استعمال ہورہا ہے، اس لئے اس كے ضابطہ كار (Procedural Law) كو تبديل كرنا چاہئے- راقم نے اس تجويز سے اختلاف كرتے ہوئے اس پر گہرى تشويش كا اظہار كيا تها كہ موجودہ طريق كار ميں تبديلى توہين رسالت كے قانون كو غير موٴثر بنانے كى ناروا كوشش ہے- شروع ہى سے اس كے پس پردہ امريكہ اور يورپ كى متعصب عيسائى ذہنيت كار فرما رہى ہے اور ايسى كوشش قومى اشتعال انگيزى كا باعث ہوگى- چنانچہ يہى ہواكہ پاكستان كى دينى اور سياسى جماعتوں نے اس ترميم كى مخالفت كرتے ہوئے اس كے خلاف ملك بهر ميں احتجاجى مظاہرے شروع كرديے-
اس دوران جنرل موصوف بيرون ملك دوروں پر تهے، وہاں اُنہيں اس بگڑتى ہوئى صورتِ حال سے آگاہ كيا گيا، اس لئے انہوں نے اشك آباد سے واپسى پر ايئرپورٹ ہى سے قوم سے خطاب كرتے ہوئے بتلايا كہ يہ حكومت كے چند اہل كاروں كى طرف سے صرف ايك تجويز تهى جو نادانستہ طور پر پيش ہوگئى- قوم اگر اسے ناپسند كرتى ہے تو ہم اس قانونِ رسالت ميں يا اس كے طريق كار ميں كسى قسم كى تبديلى كيسے كرسكتے ہيں؟ چنانچہ يہ تجويز فورى طور پر واپس لے لى گئى-
امريكہ اور يورپ يہ جانتے ہوئے بهى كہ جنرل مشرف نے يہ بات مصلحتاً كہہ دى ہے، اسے بهى وہ برداشت نہ كرسكے- امريكہ كى نيوكون (نئى قدامت پرست عيسائى) گورنمنٹ كے اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ڈيموكريسى اور ہيومن رائٹس بيورو كے حوالے سے سال 2003ء ميں جوانٹرنيشنل رپورٹ تيار كى، سال 2004ء ميں پورى طرح منظر عام پر آئى ہے- اس ميں پاكستان كے قانونِ توہين رسالت كا سختى سے محاسبہ كيا گيا ہے كہ اس كى وجہ سے مذہبى آزادى اور حقوقِ انسانى سلب ہورہے ہيں- ان كى زندگى ،جان اور مال پاكستان ميں غير محفوظ ہيں- اگرچہ ساتھ ہى يہ بهى كہا گيا ہے كہ اس قانون كے سال 1991ء سے نافذ ہونے كے بعد سے اب تك ہائى كورٹ، فيڈرل شريعت كورٹ اور سپريم كورٹ سے كسى شخص كو سزائے موت نہيں دى گئى اور نہ كوئى سزا ياب ہوا ہے- ليكن اس قانون كے تحت ملك بهر ميں67 مقدمات زيرسماعت ہيں- يہ صورتِ حال بهى رپورٹ ميں تشويش ناك بتلائى گئى ہے-
مشرف حكومت كو ہمہ مقتدر صدر امريكہ جارج ڈبليو بش كى دست ِراست مس كنڈو ليزا رائس نے پہلے ہى وارننگ دى ہوئى ہے كہ اگر پاكستان نے امريكن گورنمنٹ كے خلافِ مرضى كوئى كام كيا تو امريكى ضرب المثل كے مطابق گاجر كى تواضع ختم ہوگى، پهر چهڑى (Stick) سے اسے راہ راست پر لايا جائے گا- چونكہ صدر مشرف امن پسند اور صلح جو جنرل ہيں، ا س لئے انہوں نے امريكہ كى اس رپورٹ يا انتباہ پر نہايت پهرتى سے يوٹرن ليا اور توہين رسالت كے قانون كے اپنے پہلے بيان كے خلاف اُلٹى زقند لگائى- ايسى زقند وہ پہلے بهى كنڈوليزارائس كے پيش رو كولن پاول كى ايك كال پر لگا چكے ہيں- اس مرتبہ كے يوٹرن پرمئى 2004ء ميں جنرل صاحب نے ضابطہ كار سے بهى آگے بڑھ كر قانونِ توہين رسالت پرنظرثانى كا اعلان داغ ديا- اس پرمسلمان عوام، ان كے قائدين اور دينى رہنما حكومت كى مخالفت پر كمربستہ ہوگئے- دوسرى طرف وزيروں اور مشيروں كى فوج ظفر موج بهى ميدان ميں اُتر گئى- سيكولر دستے تو پہلے ہى سے ان كى مدد كے لئے موجود تهے مگر مصلحت ِوقت كے تقاضوں كے پيش نظر يہ تجويز سامنے لائى گئى كہ تمام اسلامى قوانين پر نظرثانى كى بجائے قانونِ قصاص و ديت كى دفعہ 299 ميں ترميم كى جائے- ترميم كا يہ پرائيويٹ بل قومى اسمبلى ميں پيش كيا گيا- پہلے اس ميں قانونِ توہين رسالت كى ترميم شامل نہ تهى-
يہاں اس بات كا ذكر بے محل نہ ہوگا كہ پاكستان كے ايك غير سركارى ٹى وى چينل نے 13/ مئى 2004ء كے ايك معروضى پروگرام ميں ’توہين رسالت ميں ترميم‘ كے اہم موضوع پر راقم كو اظہارِ خيال كى دعو ت دى- اس مذاكرے ميں راقم كے ساتھ وزيرمذہبى اُمور جناب اعجاز الحق، ركن قومى اسمبلى (پى پى پى) مسز فوزيہ وہاب اور مسٹر محبوب صدا ڈائريكٹر كرسچين سٹڈيز شريك ِگفتگو تهے- اس ميں يہ امور زير بحث آئے :
كيا توہين رسالت كے قانون ميں طريق كار كى تبديلى سے اس قانون كا غلط استعمال رك جائے گا؟ كيا سزائے موت كا خاتمہ فيڈرل شريعت كورٹ كے فيصلہ كى خلاف ورزى ہوگا؟ اور كيا حكومت امريكہ كے دباوٴ پر قانونِ توہين رسالت تبديل كرنا چاہتى ہے؟
مسز فوزيہ وہاب ايم اين اے اور كرسچين ليڈر كى رائے ميں توہين رسالت كے قانون كو ختم كيا جانا چاہئے- پاكستان كى باختيار پارليمنٹ كو ايسا كرنے كا حق حاصل ہے- مسز فوزيہ وہاب نے متبادل تجويز بهى پيش كى جس كے مطابق اس جرم كى سزا زيادہ سے زيادہ سزا سات سال ہونا چاہئے- جب ان سے پوچها گيا كہ تنسيخ يا ترميم كے مطالبہ كا كيا جواز ہے؟ فرمايا: قرآن عفو اور درگزر كا حكم ديتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ايذا دينے والے اور ان كى توہين كرنے والوں كو معاف كرديا تها- مزيد دريافت پر كہ كيا وہ قرآن كى رو سے يا مدينہ ميں اسلامى رياست كے قيام كے بعد كا كوئى ايسا واقعہ بتلا سكتى ہيں جب گستاخِ رسول ﷺ مجرم كو معاف كيا گيا ہے- اس پر اُنہوں نے كہا كہ اس بارے ميں ان كا مطالعہ اتنا وسيع نہيں كہ اس وقت اس كا جواب دے سكيں-
كرسچين كميونٹى كے نمائندہ ليڈر مسٹر محبوب صدا كى توجہ اس طرف دلائى گئى كہ بائبل ميں پيغمبروں كى توہين كى سزا موت ہے- خود امريكہ اور برطانيہ ميں جو سيكولر ہونے كے دعويدار ہيں وہاں بهى سزائے موت موقوف ہونے كے بعد توہين مسيح كى سزا عمر قيد كردى گئى ہے- اس پر موصوف نے جواب ديا كہ بائبل كى سزا يا اس كا قانون دنيا ميں كہيں لاگو نہيں- ہمارا امريكہ اور يورپ سے كوئى تعلق نہيں، ہم يہاں پاكستان كى بات كررہے ہيں كہ اس قانون كے غلط استعمال سے يہاں كى اقليتيں خوف زدہ اور غير محفوظ ہيں- مگر انہوں نے بهى يہ تسليم كيا كہ پاكستان ميں ابهى تك كسى كو توہين رسالت كے تحت سزا نہيں دى گئى-
وزير مذہبى اُمور جناب اعجاز الحق نے برملا اعتراف كيا كہ پارليمنٹ كو توہين رسالت كى سزا ميں كمى يا تنسيخ كا كوئى اختيار حاصل نہيں اور نہ ہى حكومت كا ايسا كوئى ارادہ ہے- ليكن چونكہ اس قانون كا غلط استعمال ہورہا ہے، اس لئے حكومت چاہتى ہے كہ اصل قانون ميں كسى تبديلى كے بغير صرف طريق كار يعنى ’پروسيجر‘ ميں تبديلى كى جائے-كيسى تبديلى؟ كے جواب ميں انہوں نے بتلايا كہ اگر كسى نے توہين رسالت كے قانون كا غلط استعمال كيا يا غلط مقدمہ درج كرايا تو اسے سزاے موت دى جائے -
اس پر ميں نے ہارون الرشيد كے دور كا مشہور واقعہ سنايا كہ متنبى اس كے دربار كا بہت بڑا قصيدہ گو شاعر تها- مگر تها بلا نوش رند بهى- اس كے دورِ حكومت ميں ايك محتسب اعلىٰ (Ombudsman) كا تقرر ہوا جو نشہ كى حالت ميں پكڑے جانے والے شخص كو موقع پر ہى سزا ديا كرتا تها- اس پر متنبى نے خليفہ كو كو لكھ بهيجا كہ ان حالات ميں وہ دربار ميں حاضر ہونے سے قاصر ہے- ہارون الرشيد كے لئے مشكل يہ آن پڑى كہ شراب نوشى كى سزاے حد كو معطل كرنا اس كے بس كى بات نہ تهى- دوسرى طرف اس كا دربارى قصيدہ گو ايسے سخت گر محتسب كى موجودگى ميں اس تك پہنچ نہيں سكتا تها-
بادشاہ كى اس پريشانى كو دور كرنے كے لئے اس كے وزير انِ باتدبير نے اسے مشورہ ديا كہ اگر قانون كے طريق كار ميں تبديلى كى جائے تو يہ پيچيدہ مسئلہ حل ہوسكتا ہے وہ اس طرح كہ شراب نوشى كى 80 كوڑوں والى سزا بهرصورت برقرار رہے گى ليكن طريق كار ميں ترميم كركے شرابى كے خلاف رپورٹ كرنے والے كو 100 كوڑے مارے جائيں، مگر اس زمانہ كے لوگ معلوم ہوتا ہے كچھ انتہا پسند تهے جو اس ترميم كے خلاف بهى اُٹھ كهڑے ہوئے جس پر حكمرانِ وقت كو يہ ترميم واپس لينا پڑى-
اس مذاكرے ميں فيصلہ كن مرحلہ اس وقت پيش آيا جب وزير مذہبى اُمور سے پوچها گياكہ اگر بدنام زمانہ رشدى ان كے سامنے آجائے تو وہ كيا كريں گے؟ تو انہوں نے وہى جواب ديا جومسلمانوں كى قومى نفسيات كى ترجمانى كرتا ہے- يہ ان كے لاشعور ميں دبى ہوئى خواہش تهى جو ’شيطانى آيات‘ كے مصنف كا نام سنتے ہى بے اختيار ان كى زبان پر آگئى-
اب رہ گيا يہ سوا ل كہ كيا توہين رسالت كے قانون كے طريق كار ميں ترميم سے اس قانون كا غلط استعمال رُك جائے گا؟
موجودہ طريق كار ميں ترميم سے پہلے ضابطہ فوجدارى كى دفعہ 156 كى رو سے پوليس اسٹيشن كے انچارج افسر كو دوسرے قابل دست اندازى پوليس جرائم كى طرح توہين رسالت كے جرم كى اطلاع پر ملزم كو گرفتار كركے تفتيش كى كارروائى شروع ہوجاتى- اس طريقہ كار سے ملزم پوليس كى حراست ميں آجانے سے قاتلانہ حملہ يا وارداتِ قتل سے محفوظ ہوجاتا ہے- علاقہ يا ملك سے فرار ہونے كے راستے بند ہوجاتے- دفعہ 156/اے كے ضابطہ فوجدارى ميں اضافى ترميم كے ذريعہ توہين رسالت كے جرم 295/سى تعزيرات كى تفتيش كا اختيار صر ف اعلىٰ پوليس آفيسر (ايس پى) كو ديا گيا ہے- ظاہر ہے كہ ايس پى صاحبان كواپنے ہيڈ كوارٹر آفس سے عليحدہ كركے ملك بهر كے شہروں اور ديہاتوں كے تهانوں كے اندر لاكر تو بٹهايا نہيں جاسكتا- جبكہ مدعى اپنے قريبى تهانے ميں براہ راست شكايت پيش كرسكتا ہے- ويسے بهى ايس پى حضرات صدر، گورنر، وزيروں، مشيروں اور افسرانِ سركار كے جان و مال كے تحفظ كے لئے شب و روز مصروفِ كار ہوتے ہيں- ايسے ہمہ گير مصروفِ اعلىٰ پوليس افسروں كو توہين رسالت كے ملزموں كے خلاف رپورٹ كى انكوائرى كى فرصت كب ہوگى- توہين رسالت كا مدعى جس كے دل ميں رسول كريم ﷺ كى عزت اپنى جان ومال اور ہر شے سے بڑھ كر ہوتى ہے، ايس پى صاحبان كى تلاش كى تگ و دو كے بعدان كے دفتروں كے چكر لگاتے پهرنے كے لئے صبر ايوب كہاں سے لائے گا- تاريخ كے واقعات كا تسلسل بتلاتا ہے كہ اگر توہين رسالت كا قانون موجود نہ ہو يا اسے غير موٴثر كرديا گيا ہو تو پهر جس مسلمان كے سامنے اس گهناؤنے جرم كا ارتكاب ہوگا، وہ طريق كار كے طويل، صبر آزما چكروں كو چهوڑ كر قانون كو اپنے ہاتھ ميں لے گا اور مجرم كوموقع واردات پر ہى سزا دے گا جس سے قانون كا مقصد ہى فوت ہوجائے گا-
قانونِ توہين رسالت ہونے كے باوجود ايسے سرفروش لوگوں كى كمى نہيں جو گستاخِ رسول كو موقع پاتے ہى جان سے مار ديتے ہيں- ہمارے ہى ايك مقدمہ كے قيدى يوسف كذاب جسے عدالت سيشن نے سزائے موت دى تهى كو جيل كے اندر ايك قيدى نے گولى مار كر ہلاك كرديا اور خود اقرارِ جرم كرليا- چند ماہ قبل لبنان كى ايك گلوكارہ كو جس نے حضور ﷺ كى شان ميں توہين آميز گانے گائے، اس كے شوہر نے اس كا گلا كاٹ كر ہلاك كر ديا- ملكى اور عالمى حالات كے تناظر ميں قانونِ توہين رسالت كو ضابطہ كار ميں ترميم كے ذريعہ غير موٴثر كرنے كى كوشش ملك و قوم كے لئے انتہائى خطرناك ہوگى-
غلط مقدمات كے سدباب كے لئے موٴثر قانونِ تعزيرات موجود ہے- قانونِ تعزيرات كى دفعہ 194 كى رو سے اگر كوئى شخص كسى بے گناہ كو سزائے عمرقيد يا سزائے قتل دلانے كے ارادے سے غلط بيانى كرے يا جهوٹى شہادت دے تو اس كو عمر قيد كى سزا مقرر ہے- اور اگر كسى شخص پر سزائے موت لاگو ہوجائے اور بعد ميں ثابت ہو كہ اس كى وجہ جهوٹى شہادت تهى تو ايسے جهوٹے گواہ ياگواہوں كو سزائے موت دى جائے گى- اگر قانونِ توہين رسالت كا غلط استعما ل ہوتا ہے تو معلوم نہيں كيوں گورنمنٹ يہاں اس تعزيراتى قانون پر عمل درآمد سے گريزاں ہے- عدالت بهى از خود نوٹس لے كر ايسے افراد كو قرارِ واقعى سزا دے سكتى ہے جو توہين رسالت كے نام پر جهوٹے مقدمات ميں لوگوں كو ملوث كرتے ہيں-
جب يہ تعزيرى قانون پہلے ہى سے ملك ميں موجود ہے تو پهر صرف قانونِ توہين رسالت كے طريق كار ميں ترميم كا كيا جواز ہے؟ دوسرے سنگين جرائم كا بهى ملك ميں جهوٹے مقدمات كے ذريعہ غلط استعمال ہورہا ہے- ان كے طريق كار ميں كوئى ترميم كيوں نہيں؟ صرف توہين رسالت كے جرم كے طريق كار ميں يہ ترميم كيوں مسلط كردى گئى ہے- پاكستان كے مسلمان يہ سوچنے پر مجبور ہيں كہ سارى كارروائى امريكہ اور يورپ كے دباوٴ كا نتيجہ ہے!!