’روشن خيالى‘ كے امريكى سرچشمے

زير نظر مضمون ان رپورٹوں كے ايك مختصر تعار ف پرمبنى ہے جو امريكى تهنك ٹینكس اپنى حكومت كو گاہے بگاہے پيش كرتے رہتے ہيں-ان تحقيقى اداروں ميں ’رينڈ كارپوريشن‘ نامى ادارہ بہت متحرك اور فعال ہے، خصوصاً نائن اليون كے بعد اس كى تحقیقى سرگرميوں ميں غيرمعمولى تيزى آئى ہے- ’نائن اليون كے بعد كى مسلم دنيا‘ كے نام سے 567صفحات پر مبنى ايك طويل اور جامع رپورٹ گذشتہ سال اس ادارہ كى طرف سے پيش كى گئى ہے جس ميں عالم اسلام كے كليدى مسائل اور اہم ممالك كے بارے ميں امريكى پاليسى سازوں كے لئے رہنما ہدايات وسفارشات شامل ہيں- ادارئہ محدث ميں يہ تمام رپورٹس موجو دہيں جن كا تفصيلى مطالعہ بہت سے فكرى اُفق كهولتا ہے ، البتہ ان رپورٹوں سے استفادہ كے لئے اہل مغرب كى اصطلاحات اور تصورات كو سمجھنا بہت ضرورى ہے- اہل مغرب اوّل تومسلمانوں كو ’آپس ميں لڑاؤ‘ كى پاليسى پر عمل كرتے ہيں، دوسرى طرف جس امر سے يہ اسلام دشمن سب سے زيادہ خوف زدہ ہيں وہ مسلمانوں ميں قرآن وسنت كى خالص تعلیمات كا احيا خصوصاً حديث ِنبوى كے ذوق كافروغ ہے- قرآن وسنت كى خالص تعلیمات سے جو اسلامى سوچ بيدار ہوتى ہے ، وہ اس روايتى اسلام كے بالمقابل مغرب كو زيادہ خطرناك دكهائى ديتى ہے جو عام اسلامى معاشروں ميں پايا جاتا ہے-كتاب وسنت پر مبنى اسلام اس مضبوط دينى اساس پر قائم ہے جس ميں كوئى تذبذب نہيں اور اس كے پيروكار مضبوط ايمان وايقان كے ساتھ كفر كے مقابلہ ميں زندگى كے مختلف ميدانوں ميں برسرپيكار ہيں- ايسے مسلمان جو زيادہ تر عملى يا فكرى كوتاہيوں كاشكار ہيں، امريكہ كو انہيں اپنانے ميں بڑى دلچسپى ہے جيساكہ اس رپورٹ سے بهى ظاہر ہوتا ہے تاكہ ان كے ذريعے وہ اسلام كے اندر كى جنگ لڑ سكيں- اس مختصر تعارف سے يہ بات بهى واضح ہوتى ہے كہ ذرائع ابلاغ پر جس مخصوص گروہ كو كچھ عرصہ سے خصوصى ترجيح دى جارہى ہے اور وہ مخصوص عقائد كے بارے ميں جس طرح اسلام كى نئى تعبیرات پيش كرنے كے لئے علمى ’جواہرريزے‘ جمع كر رہا ہے، ان كو ملنے والى يہ اپنائيت انہى امريكى مقاصد كى عكاسى كرتى ہے؟ ايسے ہى دينى مدارس سے وابستہ لوگ يا مذہبى روايات كے احيا واستحكام كے علمبردار ادارے كس طرح امريكى مفادات كے آگے بند باندہ رہے ہيں، ان كے كام كى قدر وقیمت كا اندازہ بهى ہوتا ہے- بہر حال يہ صرف چند اشارے ہيں، اصل رپورٹوں كا مطالعہ واقعتا ہر صاحب ِنظر كے لئے چشم كشا ہے، ادارہ محدث ان كے منتخب حصوں كے اُردو تراجم بهى كروا رہا ہے جسے شائقين طلب كرسكتے ہيں-


صدر مشرف نے ’روشن خيالى اور اعتدال پسندى‘ كا جو نام نہاد فلسفہ پيش كيا ہے، اس كا حقيقى سرچشمہ كيا ہے؟ كيا يہ ان كے ذہن ِرسا كا خيالى پيكر ہے يا ٩/ ستمبر كے بعد امريكہ نے عالم اسلام سے ’انتہا پسندانہ سوچ‘كو ختم كرنے كے لئے اسلام كو نرم بنانے كا جو منصوبہ بنايا ہے، جنرل صاحب كے روشن خيالى كے فلسفہ نے وہاں سے روشنى پائى ہے؟

ہمارا خيال ہے كہ ان دونوں عوامل یعنى ان كے فكرى رجحانات اور ان كى سوچ پر امريكى اثرات نے ان كى روشن خيال حكمت ِعملى كى آبيارى كى ہے- جنرل مشرف صاحب بذاتِ خود سيكولر ذہن كے مالك ہيں، انہوں نے 12/اكتوبر1999ء كو برسراقتدار آنے كے صرف ايك دن بعد اتاترك كو اپنا آئيڈيل قرار دے كر اپنے فكرى میلانات كابهرپور اظہار كرديا تها مگر بعد ميں صرف عوام اور اسلام پسندوں كے ردعمل كے خوف سے انہوں نے اتاترك كى بجائے قائداعظم كو اپنا آئيڈيل قرار دينے ميں عافيت سمجھى-

9/ ستمبر سے پہلے اُنہوں نے كئى مواقع پر مذہبى طبقوں كے رويوں كو تنقيد كا نشانہ بنايا، مگر ان كا انداز نپا تلا تها- اقتدار ميں آنے كے بعد سب سے پہلے اُنہوں نے سيرت النبى كے جلسہ سے خطاب كرتے ہوئے مذہبى لوگوں كے لئے ’انتہا پسندى‘ كے الفاظ استعمال كئے- اپنى پہلى كابينہ ميں اين جى اوز كى بهرپور نمائندگى سے اُنہوں نے كهل كر اپنے عزائم كا اظہار كرديا تها كہ وہ پاكستان كے سيكولر طبقے كو اپنا فطرى حليف اور قابل اعتماد ساتهى سمجهتے ہيں- وہ اس ملك كى روايتى اسلامى اقدار ميں انقلابى تبديلى لانے كے لئے اين جى اوز كے نيٹ ورك كو آگے بڑهانے ميں كوشاں رہے ہيں- حكومت كے مختلف شعبہ جات اور اہم عہدوں پر اين جى اوز كى سوچ ركهنے والے افراد كو فائز كيا- جنرل مشرف كے ’روشن خيالى‘ كے مظہر اقدامات كا جائزہ ہم فى الوقت كسى اور فرصت كے لئے اُٹها ركهتے ہيں، البتہ درج ذيل سطور ميں ہم بيان كرنا چاہتے ہيں كہ امريكہ نے اسلامى ممالك كو ’روشن خيال‘ بنانے كيلئے كس انداز ميں منصوبہ بندى كى ہے؟

امريكہ ميں مختلف پاليسياں وضع كرنے ميں ’تهنك ٹينك‘ (Think Tank) اہم كردار ادا كرتے ہيں- امريكى پاليسياں انہى ’ذ ہنى تالابوں‘ ميں پرورش پانے كے بعد امريكى سماج كے سمندر ميں پهيل جاتى ہيں - امريكہ ميں ’تهنك ٹينك‘ جس طرح كام كرتے ہيں، اہل پاكستان كے لئے ان كے طریقہٴ كار اور نيٹ ورك كے متعلق كوئى حتمى رائے قائم كرنا آسان نہيں ہے- يہ تهنك ٹينك بڑے بڑے شہ دماغوں كى خدمات بهارى معاوضے دے كر حاصل كرليتے ہيں، امريكى حكومت بهى انہيں بے تحاشا وسائل فراہم كرتى ہے- امريكى سٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور پنٹاگون كا ان اداروں سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے- امريكہ كے سب سے بڑے تهنك ٹينك كانام ’كميٹى آف 300‘ ہے- اس ميں امريكہ اور يورپ كے شاہى خاندانوں، صدور، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ، ملٹى نيشنل كمپنيوں، ارب پتى تاجروں اور يونيورسٹيوں كے قابل پروفيسر اور يہاں معاشى خارجہ پاليسى كو تشكيل دينے والے عظيم دماغ اس كے ركن ہيں- يہ اداره چهوٹے تِهنك ٹَينكس كے لئيفكرى قيادت كا فريضہ انجام ديتا ہے- امريكى ’ذ ہنى تالابوں‘ كے پس پشت حقيقى روحِ رواں يہودى دماغ ہے جو صديوں سے سازشوں كے جال بننے ميں مہارت ركهتا ہے-

9 ستمبر كے بعد امريكہ كے جن تھنك ٹینكس نے عالم اسلام ميں شدت پسندى كے خاتمے اور ’روشن خيالى‘ كى قدروں كو تيزى سے فروغ دينے كے لئے ’تحقیقى رپورٹوں‘ كے ذريعے امريكى پاليسى كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا ہے، ان ميں رينڈ كارپوريشن(RAND) كا نام سرفہرست ہے- RAND ہى وہ ادارہ ہے جس نے نائن اليون (9 /ستمبر2001ء) كے فوراً بعد پنٹاگون ميں ايك اہم بريفنگ دى تهى جس ميں من جملہ ديگر سفارشات كے يہ كہا گيا كہ امريكى حكومت القاعدہ كے خاتمہ كے لئے افغانستان پر بهرپور فوجى حملہ كرے- ايك دوسرى بريفنگ ميں RAND نے سفارشات پيش كيں کہ حكومت ِامريكہ سعودى عرب سے اپنے تعلقات پرنظرثانى كرے، كيونكہ 9/ستمبر ميں مبينہ طور پر ملوث 19 ’دہشت گردوں‘ ميں سے سولہ كا تعلق سعودى عرب سے تها- RAND نے اپنى رپورٹوں ميں ’اسلامى بنياد پرستى‘كو مغربى تہذيب كے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار ديا- 2003ء ميں RAND نے درج ذيل عنوان سے مفصل ’تحقيقى رپورٹ‘ پيش كى:

"Civil and Democratic Islam:
Partners, Resources and Strategies."

يعنى ”سول اور جمہورى اسلام: شركاے كار، وسائل اور حكمت ِعملى“

72 صفحات پرمبنى يہ رپورٹ اسمتھ رچرڈ سن فاوٴنڈيشن كے تعاون سے تيار كى گئى ہے جو ايك يہودى ادارہ ہے- رپورٹ كے شروع ميں RAND كا تعارف ان الفاظميں ملتا ہے :
"The RAND Corporation is a non-profit research organization providing objective analysis and effective solutions that address the challanges facing the public and the private sectors."
”رينڈ كارپوريشن ايك غير منافع بخش تحقيقى ادارہ ہے جو پبلك اور پرائيويٹ سيكٹر كو درپيش چيلنجوں كا معروضى تجزيہ اور ان كا موٴثر حل پيش كرتا ہے-“

’معروضى تجزيہ‘ كا دعوىٰ محض ايك ڈهونگ ہے، ورنہ يہوديوں كے سرمائے سے چلنے والے اس نام نہاد غيرمنافع بخش ادارے كى ہر رپورٹ عالم اسلام كے خلاف گہرے تعصب اور نفرت كا مواد لئے ہوئى ہے-

اس رپورٹ كے آغاز ميں اس كا مقصد ان الفاظ ميں بيان كياگيا ہے :
”واضح رہے كہ امريكہ، جديد صنعتى دنيا، اور بلا شبہ بين الاقوامى برادرى ايك ايسى اسلامى دنيا كو ترجيح دے گى جو كہ دنيا سے ہم آہنگ ہو، یعنى جمہورى، معاشى طور پر قابل عمل، سياسى طور پر مستحكم، سماجى طور پر ترقى پسند ہو، اور جو بين الاقوامى قدروں كى پيروى كرے“

گويا عالم اسلام كو مغرب كے رنگ ميں ڈهالنا امريكہ اور يورپ كى اوّلين ترجيح ہے، اس رپورٹ ميں مسلمان معاشروں كے مسلمانوں كو چار مختلف اقسام ميں تقسيم كيا گيا ہے :
(1) بنياد پرست                                              

(2) روايت پسند
(3) جديديت پسند(Modernists)

(4) لادينيت پسند(Secularists)

رپورٹ كے مرتبين كے مطابق فنڈا مينٹلسٹ وہ مسلمان ہيں جو
”جمہورى اقدار اور مغرب كى عصرى ثقافت كو مسترد كرتے ہيں- وہ استبدادى، مذہبى رياست كا قيام چاہتے ہيں جہاں وہ اسلامى قانون اور اخلاقيات كے متعلق اپنے انتہاپسندانہ نظريات كو نافذ كرسكيں- يہ بنياد پرست مغرب كے بالعموم اور امريكہ كے بالخصوص دشمن ہيں- وہ تہیہ كئے ہوئے ہيں كہ جمہوريت پسندانہ جديديت كو تباہ كركے ركھ ديں-“

رپورٹ ميں كہا گيا ہے كہ ”جديديت پسند اور سيكولر مسلمان مغرب كى اقدار اور پاليسيوں كے ذ ہنى طور پربے حد قريب ہيں- مگر وہ مالى وسائل كے اعتبار سے بنياد پرستوں سے پیچھے ہيں-“

رپورٹ ميں امريكہ اور مغرب كو مشورہ ديا گيا ہے كہ ”اسلامى دنيا ميں مثبت تبديلى كى حوصلہ افزائى كرنے، اس ميں جمہوريت اور جديديت لانے اور اسے بين الاقوامى ورلڈ آرڈر سے ہم آہنگ كرنے كے لئے امريكہ اور مغرب كو چاہئے كہ وہ احتياط سے جائزہ ليں كہ اسلامى دنيا كے اندر كون سے عناصر، گروہ اور طاقتیں ہيں جنہيں وہ مضبوط بنانے كاارادہ ركهتے ہيں، ان كے مقاصد اور نصب العين كيا ہے اور وہ ہمارا ايجنڈا آگے بڑهانے ميں وہ كيا كردار ادا كرسكتے ہيں-“

مندرجہ بالا مقاصد كے حصول كے لئے RAND كى رپورٹ ميں جو حكمت ِعملى تجويز كى گئى ہے، اس كا اوّلين نقطہ ہے: "Support the modern first."

يعنى ”سب سے پہلے جديديت پسندوں كى امداد كرو-“

ان كى امداد كے طريقے درج ذيل بتائے گئے ہيں :
”ان كے تصنيفى كاموں كو شائع كركے سستے داموں فروخت كريں-
*     ان كى حوصلہ افزائى كريں كہ عوام اور بالخصوصى نوجوانوں كے لئے لكھیں-
*     ان كے نظريات كو اسلامى ممالك كے تعليمى نصاب ميں شامل كرائيں-
*     ان كوپبلك پليٹ فارم مہيا كريں-
*     بنيادى مذہبى معاملات كے متعلق ان كى تعبيرات كو بنياد پرستوں كے مقابلے ميں عوام ميں متعارف كروائيں-
*     مسلمان نوجوانوں كے سامنے ’سيكولر ازم‘ اور ’ماڈرن ازم‘ كو اسلام كے مقابلے ميں ايك متبادل ثقافت اور نظريہ كے طور پر پيش كريں-
*     مسلمان ممالك كے ذرائع ابلاغ اور نصاب ميں اسلام سے پہلے كى غيرمسلم تاريخ كے متعلق زيادہ سے زيادہ آگاہى اور رغبت پيدا كريں-
*     غير سركارى اداروں NGOs كو آگے لانے ميں بهرپور تعاون كريں-“

RAND كى رپورٹ ميں دوسرى اہم حكمت ِعملى كا عنوان ہے :
"Support the traditionalists agaist the fundamentalists."
يعنى: ”بنياد پرستوں كے خلاف روايت پسندوں كى پيٹھ ٹهونكيں-“

اس حكمت ِعملى كے چند نكات ملاحظہ فرمائيے :
*     ” بنياد پرستوں كے متشددانہ طرزِ عمل كے خلاف روايت پسندوں كى تنقيد كو بڑها چڑها كر بيان كريں اور روايت پسندوں اور بنياد پرستوں كے درميان اختلافات كو ہوا ديں-
*     روايت پسندوں اور بنياد پرستوں كے درميان اتحاد كى حوصلہ شكنى كريں-
*     جديديت پسندوں اور روايت پسندوں كے درميان اتحاد كى حوصلہ افزائى كريں-
*     روايت پسندوں كو بنياد پرستوں كے ساتھ مباحثے اور مجادلے كرنے كے لئے تيار كريں-
*     روايتى قومى اداروں ميں جديديت پسندوں كى تعداد بڑهائيں-“

رپورٹ ميں بيان كيا گيا ہے كہ ’پوليٹيكل اسلام‘ كو كنٹرول كرنے كے لئے امريكى حكمت عملى كے تين اہداف ہيں يعنى
1-    امريكہ چاہتا ہے كہ وہ مسلم ممالك ميں انتہا پسندى اور تشدد كو روكے-
2-   ايسا كرنے ميں اسے چاہئے كہ وہ يہ تاثر نہ دے كہ امريكہ اسلام كے خلاف ہے-
3- طويل الميعاد ہدف يہ ہے كہ اسلامى انتہا پسندوں كے پس پشت معاشى، سماجى اور سياسى
محركات كا گہرائى ميں جائزہ لے اور اسلامى ممالك كوجمہوريت اور ترقى پسندى كى راہ پر لانے كے لئے حوصلہ افزائى كرے-“

رپورٹ كے پہلے باب ميں اسلامى ممالك كے جن كليدى معاملات Key Issues كو اُبهارنے كے لئے سفارش كى گئى ہے- ان ميں جمہوريت اور انسانى حقوق، كثير الازدواجى، اسلام كى وحشيانہ سزائيں (نعوذ باللہ)، اقلیتوں كے حقوق، عورتوں كا لباس (حجاب)، خاوندوں كا بيويوں پر تشدد وغيرہ كا خاص طور پر ذكر كيا گيا ہے اور اس طرح اسلامى معاشروں كى تاريك تصوير پيش كى گئى ہے-

دوسرے باب ميں ’جمہورى اسلام‘ كو فروغ دينے كے لئے لادينيت پسندوں، جديديت پسندوں، روايت پسندوں اور بنياد پرستوں كے مختلف معاملات كے بارے ميں نقطہ ہائے نظر پيش كركے متبادل صورتيں پيش كى گئى ہيں كہ ان طبقات كو كس طرح اپنے مقاصد كے لئے استعمال ميں لاياجاسكتا ہے- رپورٹ جو كہ تين ابواب پر مشتمل ہے، كے آخرى باب ميں مجوزہ حكمت ِعملى بيان كى گئى ہے-

مندرجہ بالا باتوں كے علاوہ چند ديگر نكات درج ذيل ہيں:
*     ” سيكولر ثقافتى اداروں اور پروگراموں كى بهرپور حوصلہ افزائى كريں-
*     بنياد پرستوں پر پورى قوت سے ضرب لگائيں، ان كى اسلامى اور نظرياتى بنيادوں كے كمزور پہلووٴں كو شدت سے نشانہ بنائيں، ان كے نظريات كو اس طرح بيان كريں كہ نہ تو وہ نوجوان طبقہ، نہ ہى روايتى عوام الناس كے لئے باعث ِكشش يا باعث ِتسكین ہوں- ان كى بدعنوانى، بربريت، جہالت، تعصب، عدم روادارى اور اسلام كے اُصولوں كے انطباق ميں غلطیوں كى نشاندہى بار بار كريں اور يہ باور كرائيں كہ وہ حكومت اور قيادت كے اہل نہيں ہيں-
*     جديد ذہن كے مالك مسلمان سكالرز كى نشاندہى كريں جو ويب سائٹ پر روزمرہ زندگى كے مسائل كے حل بيان كريں اور اسلامى قانون كى جديد تشريحات پيش كريں-“

اس رپورٹ كے ساتھ چار ضميمہ جات بهى منسلك كئے گئے ہيں- ضميمہ الف ميں "The Hadith wars"يعنى ’حديث كے متعلق جنگيں‘ كے عنوان سے رپورٹ پيش كى گئى ہے جس ميں كہا گيا ہے كہ حديث كى بنياد پر كسى مسئلے كاقابل اعتماد حل تلاش نہيں كياجاسكتا، اس رپورٹ ميں حديث كامقام گرا كر اس كے خلاف شكوك پيدا كرنے كو حكمت ِعملى كا حصہ قرار ديا گيا ہے-

اس ضمیمہ ميں حديث كے متعلق سينكڑوں سوالات پوچهے گئے ہيں- منكرين حديث كے تمام اشكالات اور اعتراضات كو جمع كرديا گيا ہے- اسلامى معاشرے ميں فكرى انتشار برپا كرنے كے لئے حديث كے خلاف محاذ قائم كرنے كى سازش كى گئى ہے- اس ميں سے ايك سوال ملاحظہ كيجئے جو ہمارے ہاں كے ايك جديد معتزلہ فرقہ كى طرف سے كيا جاتا ہے:
"Q. Is it the saying of the Prophet that is being reported or an action he performed,or both.?"
”سوال: جو كچھ روايت كياگيا ہے، كيا يہ نبى كريم ﷺ كا قول (حديث) ہے يا ان كا عمل (سنت) يا پهر دونوں؟“

اس ضميمہ ميں امام بخارى پر اعتراضات پيش كركے اُمت ِمسلمہ ميں ان كے مرتبے كو گهٹانے كى مذموم كوشش بهى كى گئى ہے-

رپورٹ كے ايك ضميمہ كا عنوان ہے:"Hijab: As a case study."
يعنى : ”حجاب؛ ايك مطالعہ“

اس رپورٹ ميں امريكى حكومت كو اُكسايا گيا ہے كہ وہ امريكہ ميں حجاب پھننے كى حوصلہ شكنى كرے اور اس كے لئے يورپ بالخصوص فرانس كى پاليسى اپنائے- سكارف كے متعلق اس رپورٹ كا يہ حصہ ملاحظہ فرمائيے :
”سكارف؛ جہادى عسكريت پسندوں كے عزائم كو ظاہر كرنے كى اہم علامت ہے- اسلامى انتہاپسندوں اور ان كے حاميوں كى سكارف كى وجہ سے بہت جلد نشاندہى كى جاسكتى ہے- 1979ء كے ايرانى انقلاب سے لے كر اب تك يہ بات ثابت ہوگئى ہے كہ سكارف كوئى ’اسلامى رواج‘ نہيں ہے، نہ ہى يہ كوئى ’چهوٹا سا ذاتى معاملہ‘ ہے بلكہ يہ بہت بڑا سياسى مسئلہ ہے، حقيقت ميں سكارف اسلامى جہادكے پرچم كى حيثيت ركهتا ہے-“ 1

قارئين! آپ نے ملاحظہ فرمايا كہ امريكى بزدل دانشور سكارف جيسے اسلامى شعائر كو ’اسلامى جہاد كا پرچم‘ قرا ردے كر امريكى حكومت اور اس كے حوارى لبرل مسلمان دانشوروں كو اس پر پابندى عائد كرنے كے لئے اُكسا رہے ہيں-

حجاب كے متعلق يہ سطور بهى ملاحظہ فرمائيں :
"It is correct that Hijab issue mirors. the broader debate. The Fundamentalists determined its signal value - just as a Junta takes over the radio stations as its first symbolic act. Fundamentalists signal their advances by immediatly imposing head scarf on women where they gain in strength and influence"
”يہ بات درست ہے كہ حجاب كا مسئلہ وسيع مباحثے كا متقاضى ہے- بنياد پرست اس كى علامتى اہميت كا تعین كرتے ہيں،جيسے ايك فوجى جنتا اقتدار كا پہلا قدم ريڈيو اسٹيشن پر علامتى قبضہ كركے كرتى ہے، بالكل اسى طرح بنياد پرست بهى جونہى اقتدار ميں آتے ہيں وہ فوراً ہى عورتوں پر حجاب مسلط كرديتے ہيں“

قارئين كرام! مندرجہ بالا سطور ميں Imposing یعنى ’مسلط كرنا‘ كو جنرل پرويز مشرف كے بيانات ميں تواتر سے ’مسلط‘ كے لفظ سے ملا كر پڑھیں اور پهر خود ہى غور فرمائيں كيا يہ محض حسن اتفاق، يا توارد ہے كہ RAND كى رپورٹ اور جنرل صاحب كے حجاب كے متعلق بيانات ميں اس قدر مماثلت ہے يا ان كے لاشعور ميں اس طرح كى كسى رپورٹ كے ايسے حصے خطاب كے دوران ان كى شعورى سطح پر آكر ان سے يہ بيانات دلواتے ہيں- اس رپورٹ كاعنوان تو Civil Islam ہے، حقيقت ميں يہ عنوان ہونا چاہئے تها، Civilizing Islam يعنى اسلام كو تہذيب كس طرح سكهائى جائے- پورى رپورٹ ميں يہى تاثر ديا گيا ہے كہ اسلام كو Civilze كركے مغرب كى اقدار سے ہم آہنگ كيا جائے!!

امريكہ ميں حاليہ صدارتى انتخابات كے بعد ان’ذ ہنى تالابوں‘ كى سطح پر زبردست ارتعاش پيدا ہوا- ہمارے اخبارات نے آئے دن ان كى رپورٹوں سے اقتباسات شائع كئے جس ميں 2005ء كے دوران صدر جارج بش كے لئے ہدايات تهيں كہ وہ پاكستان اور ديگر ممالك ميں انتہا پسندوں كے متعلق مزيد سخت پاليسى اپنائيں، وہاں كے دينى مدارس اور تعلیمى نصاب ميں اصلاحات كے لئے بهرپور جدوجہد كريں- دسمبر 2004ء ميں RAND كارپوريشن كى ہى ايك اور رپورٹ شائع ہوئى جس كا عنوان تها:"U.S strategy in the Muslim World after 9/11"يعنى ”نائن اليون كے بعد عالم اسلام ميں امريكى حكمت ِعملى-“ يہ رپورٹ RAND كى ويب سائٹ www.rand.org پر بهى پڑهى جا سكتى ہے-

اس رپورٹ ميں كہا گيا ہے : ”امريكہ كو عالم اسلام ميں پائے جانے والے فكرى و نظرياتى انتشار سے فائدہ اُٹهايا جانا چاہئے- دنيا ميں 15/فيصد شیعہ آبادى ہے- ايران ميں ان كى حكومت ہے جبكہ بحرين اور سعودى عرب ميں ان كا كوئى حصہ نہيں اور وہ مذہبى، سياسى آزادى كے لئے تگ و دو كررہے ہيں- اگر امريكہ شیعہ عناصر كے ساتھ ہم آہنگى پيدا كرلے تو نہ صرف انتہا پسند اسلامى تحريكوں كے سامنے بند باندها جاسكے گا بلكہ امريكہ كو مشرقِ وسطىٰ ميں قدم جمانے كا موقع بهى مل جائے گا- عراق ميں شيعہ حكومت كے قيام سے سعودى عرب كى شيعہ آبادى كو تقويت ملے گى جسے امريكہ سعودى عرب ميں آزادى اور جمہوريت وغيرہ كے ايجنڈے كيلئے استعمال كرسكتا ہے-“ رپورٹ ميں سفارش كى گئى ہے كہ ”اعتدال پسند مسلمانوں كا ايك بين الاقوامى نيٹ ورك قائم كيا جائے تاكہ وہ دنيا بهر كے مسلمانوں كو اعتدال پسندى كا درس دے سكيں- ايسے گروہوں كو ہر ممكن تحفظ فراہم كيا جائے- انہيں وسائل كى ضرورت ہو تو فراہم كئے جائيں- انتہا پسند گروہوں كو توڑ پهوڑ كر ان كى جگہ اعتدال پسندوں كو كنٹرول دياجائے- مدارس اور مساجد كى اصلاحات پر خصوصى توجہ دى جائے- مدارس كے نصابِ تعليم كو جديد تقاضوں كے مطابق ڈهالا جائے- اعلىٰ تعليم كے ايسے بورڈ قائم كئے جائيں جو سركارى اور غير سركارى تعلیمى اداروں كے نصاب كى مانيٹرنگ كريں اور ضرورى ہو تو اس پر نظرثانى كريں- مساجد ميں سركارى طور پر تنخواہ دار پيشہ ور اماموں اور خطيبوں كا تقرر كيا جائے تاكہ مغرب اور امريكہ كے خلاف جذبات اُبهارنے كى مہم روكى جاسكے-“

رپورٹ ميں ’سول اسلام‘ كا تصور پيش كرتے ہوئے كہا گيا ہے كہ
"Support of "civil Islam" Muslim civil society groups that advocate moderation and modernity- is an essential component of an effective U.S policy toward the Muslim world. Assistance in efforts to develop education and cultural activities by secular of moderate Muslim organizations should be a proireity" (Internet)
” سول اسلام‘ یعنى مسلم سول سوسائٹى گروہ جو اعتدال پسندى اور جديديت كى وكالت كرتے ہيں كى امداد كرنا امريكہ كى مسلم دنيا كے متعلق خارجہ پاليسى كا اہم جز ہے- سيكولر اور اعتدال پسند مسلم تنظيموں كى طرف سے تعلیمى اور ثقافتى سرگرميوں كے متعلق امداد فراہم كرنا ہمارى ترجيح ہونى چاہيے جبكہ انتہا پسندوں كے لئے وسائل كا حصول ناممكن بنا ديا جائے-“          

اس رپورٹ كے متعلق عرفان صديقى صاحب كا تبصرہ بهى ملاحظہ فرمائيے :
”رينڈ كارپوريشن كى يہ رپورٹ امريكى افكار، عزائم، اہداف اور مقاصد كا ايسا آئينہ ہے جس ميں اُمت ِمسلمہ بهى اپنا چہرہ ديكھ سكتى ہے- وہ اندازہ لگا سكتى ہے كہ اس كے اندر تفريق و تصادم كى دراڑيں ڈالنے كے لئے كن عوامل كوبطورِ ہتهيار استعمال كياجارہا ہے… اس سے بهى اندازہ ہوتا ہے كہ پاكستان ميں انگڑائياں لیتى روشن خيالى، اعتدال پسندى كا حقيقى سرچشمہ كہا ہے اور نظرياتى قلعوں سے كھیلتى فتنہ گر ہوائيں كہاں سے آرہى ہيں … اس رپورٹ كے تناظر ميں اس امر كا جائزہ بهى ليا جاسكتا ہے كہ روشن خيالى، اعتدال پسندى، دينى مدارس كى تراش خراش، تعلیمى اداروں كى نگرانى كرنے والے ايك عالى مرتبت بورڈ كا قيام، مساجد ميں پيشہ ور خطیبوں اور سركارى خطبوں كو رواج دينے كى تجويز، نصابِ تعليم كى اصلاح، ’انتہا پسندوں‘ كے خلاف یلغار، اعتدال پسند اين جى اوز كى سرپرستى، جيسے ’انقلابى اقدامات‘ كس افق سے طلوع ہورہے ہيں اور ان كى اصل منزليں مقصود كيا ہے؟ “


حوالہ جات
1. صفحہ 59