ذو الحجة کے فضائل و احکامات
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت
(1) عن ابن عباس عن النبيﷺ أنه قال: (ما العمل في أيام (العشر) أفضل منها في هذا) قالوا: ولا الجهاد؟ قال: (ولا الجهاد ، إلا رجل خرج يخاطر وبنفسه وماله فلم يرجع بشيء) 1
“جناب عبداللہ بن عباس نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی دن میں عمل ان دس دنوں میں عمل کرنے سے بڑھ کر نہیں ہے، لوگوں نے عرض کیا: جہاد بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں مگر ہاں اس شخص کا جہاد کہ جس نے اپنی جان و مال کو (دشمن کے مقابلے )میں خطرے میں ڈال دیا اور ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ پلٹا (تو ایسا شخص یقینا اجر میں بڑھ جائے گا)۔”
(2) عن ابن عباس قال رسول اللهﷺ: (ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلی الله عزوجل من هذه الأيام يعني أيام العشر) قال قالوا: يارسول الله! ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: (ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله ثم لم يرجع من ذلک بشيء)(i)
“حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا: “کوئی دن جس میں عمل صالح اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو ان دس دنوں کے سوا نہیں ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کہ جو اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں لے کر نکلا اور پھر ان میں سے کوئی چیز بھی لے کر واپس نہیں پلٹا (تو یقینا یہ شخص اجر میں بڑھ جائے گا)۔”
(3) عن ابن عمر عن النبيﷺ قال: (ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه من العمل فيهن من هذه الأيام العشر فَأَکْثِرُوْا فيهن من التهليل والتکبير والتحميد)
ابن عمر نبی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”کوئی دن جس میں عمل صالح کرنا اللہ کے نزدیک بہت زیادہ عظیم اور سب سے زیادہ محبوب ہو، وہ ان دس دنوں کے سوا نہیں ہے پس ان دنوں میں بہت زیادہ تہلیل لا إله إلا الله، تکبیر الله أکبر اور تحمید الحمدلله کہو۔ “
اس روایت کی سند میں ایک راوی یزیدبن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف ہے اور جب وہ بوڑھا ہوگیا تھا تو اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا اور وہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا اور شیعہ بھی تھا۔ 2
(4) لیکن اس روایت کا ایک ’شاہد‘ صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہے جس کی وجہ سے یہ روایت حسن ہے۔ اس روایت کی سند یہ ہے :
حدثنی أبو يحيٰی عبدالله بن أحمد بن أبي مسرة،حدثنا عبدالحميد ابن غزوان البصري، حدثنا أبوعوانة، عن موسیٰ بن ابي عائشة، عن مجاهد، عن ابن عمر، قال: قال رسول اللهﷺ :ما من أيام أعظم عندالله ولا العمل فيهن أحب الله من هذه الأيام، فأکثروا فيها من التهليل والتحميد) يعني أيام العشر3
اس حدیث میں التکبيرکے الفاظ نہیں ہیں، لیکن صحابہ کرام کے عمل سے بکثرت تکبیرات کا کہنا ثابت ہے۔اس روایت کی سند میں امام ابن خزیمہ کے استاذ ابويحییٰ بن ابی مسرة ہیں جن کا نام عبداللہ بن احمد ہے۔ ان کے متعلق ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں: میں نے ان سے احادیث لکھی ہیں اور ’صدق‘ کا مقام رکھتے ہیں اور ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور عبدالحمید بن غزوان بصری کو ابو حاتم رازی نے ’شیخ‘ کہا ہے اور ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور باقی رواة بخاری و مسلم کے ہیں۔4
(5) ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر اور راتیں لیلة القدرکے برابر ہیں۔ 5
لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی مسعود بن واصل لین الحدیث اور دوسرے راوی النہاس بن قہم ضعیف ہیں۔ نیز یہ فضیلت دنوں کے لحاظ سے ہے جبکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی راتوں کی فضیلت لیلة القدر کی وجہ ہے اور سال کی کوئی دوسری رات رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
(6) عرفہ کے دن کا روزہ جس سے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 6
تکبیرات کہنے کے ایام
(7)قال ابن عباس: ﴿وَيَذْكُرُوا ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ...﴿٢٨﴾...سورۃ الحج﴾ أيام العشر ﴿فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْدُودَٰتٍ ۚ...﴿٢٠٣﴾...سورۃ البقرہ﴾ أيام التشريق7
جناب عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ أیام معلومات (الحج: 28) سے مراد ذوالحجہ کے دس دن (ایام عشر) ہیں اور أیام معدودات (البقرہ : 203۲۰۳) سے مراد ایام تشریق ہیں۔”
ایام تشریق سے مراد عیدالاضحی کے بعد کے تین دن یعنی ۱۱،۱۲ اور ۱۳ تاریخیں ہیں۔ ان دنوں میں اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا جائے اور بالخصوص تکبیرات کو کثرت سے پکارا جائے۔
(8) وکان ابن عمر وأبوهريرة يخرجان إلی السوق في الأيام العشر يکبران ويکبر الناس بتکبيرهما وکبر محمد بن علی خلف النافلة
“جناب عبداللہ بن عمر اور ابوہریرة ’ایام عشر‘ میں بازار کی طرف نکلتے اور تکبیرات پکارتے اور لوگ بھی ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیرات کہتے اور جناب محمد بن علی (امام محمد باقر) نفل نماز کے بعد بھی تکبیر پکارتے۔”8
(9) جناب محمد بن ابی بکر ثقفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب انس بن مالک سے پوچھا اور ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جارہے تھے کہ “لبیک پکارنا کیسا ہے اور تمہارا عمل نبی ﷺ کے ساتھ کیا تھا؟” انس نے فرمایا کہ “لبیک کہنے والا لبیک کہتا، اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا اور تکبیر کہنے والا تکبیر پکارتا اور اس پر بھی کوئی اعتراض نہ کرتا۔” 9
اس حدیث سے نویں تاریخ کو تکبیر کہنے کا ثبوت مرفوع حدیث سے ثابت ہورہا ہے۔
(10) عن أمّ عطية قالت کنا نوٴمر أن نخرج يوم العيد حتی نخرج البکر من خدرها حتی نخرج الحيض فيکن خلف الناس فيکبرن بتکبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون برکة ذلك اليوم وطهرته 10
“ اُمّ عطیہ فرماتی ہیں کہ ہم عورتوں کو عید کے دن (عیدگاہ کی طرف ) نکلنے کا حکم ہوتا یہاں تک کہ کنواری لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی نکالیں،پس وہ لوگوں کے پیچھے رہتیں۔ وہ مردوں کی تکبیرات کے ساتھ تکبیر کہتیں اور ان کی دعاوٴں کے ساتھ دعائیں مانگتیں اور اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرتیں۔”اس سے عیدگاہ میں اونچی آواز میں تکبیرات کہنے کا ثبوت مرفوع حدیث سے ثابت ہوا۔
(11) امام زہری بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ عید الفطر کی نماز کو نکلتے اور تکبیرات کہتے یہاں تک کہ عیدگاہ آجاتے۔ 11
لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ البتہ جناب عبداللہ بن عمر سے یہ عمل ثابت ہے۔ 12
اور صحابہ کرام اور تابعین کا یہی عمل تھا۔ 13
(12) امام بخاری نے باب قائم کیا ہے: “منیٰ کے دنوں میں تکبیرات کہنا” اور جب نویں تاریخ صبح کو عرفات جائے (تو تکبیرات کہے) اور جناب ابن عمر منیٰ میں اپنے ڈیرے (خیمے) میں تکبیر کہتے اور مسجد والے بھی تکبیر سن کر تکبیرات کہتے اور بازار والے بھی کہنے لگتے یہاں تک کہ ساری منیٰ گونج اُٹھتی اور ابن عمر ان دنوں میں منیٰ میں تکبیر کہتے اور نمازوں کے بعد اپنے بستر پر ،اپنے ڈیرے میں،اپنی مجلس میں اور راستے میں چلتے ہوئے ان سب دنوں میں (ہر وقت تکبیرات پکارتے) اور عورتیں مسجد میں ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے ایامِ تشریق میں مردوں کے ساتھ تکبیرات کہتیں۔14
۹/ ذوالحجہ کو نمازِ فجرکے بعد سے عصر ۱۳/ ذو الحجہ تک تکبیرات
(13) یومِ عرفہ (نویں تاریخ) کو صبح کی نماز کے بعد سے تیرہویں تاریخ کی عصر کی نمازکے بعد تک بھی بلند آواز سے تکبیرات کہنا صحابہ کرام سے ثابت ہے، جناب شفیق سے روایت ہے :
(i) کان علی يکبر بعد صلوٰة الفجر غداة عرفة ثم لا يقطع حتی يصلي الإمام من آخر أيام التشريق ثم يکبر بعد العصر 15
“جناب علی عرفہ کی صبح، فجر کی نماز کے بعد تکبیر کہتے۔ (ہر نماز کے بعد) برابر کہتے رہتے یہاں تک کہ امام ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز پڑھاتے اور وہ ہر نماز کے بعد تکبیر کہتے تھے۔”
(ii)اسی طرح کا عمل جناب عبداللہ بن عباس سے بھی ثابت ہے ۔ 16
(iii) جناب اوزاعی سے یومِ عرفہ کی تکبیرات کے متعلق سوال کیا گیا جو تیرہ تاریخ کی عصر کی نماز کے بعد پڑھی جاتی رہیں تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ تکبیرات عرفہ کی صبح سے (فجر کی نماز) کے بعد سے ۱۳ تاریخ کے آخر تک کہی جائیں گی جیسا کہ علی اور عبداللہ بن مسعود سے ثابت ہے۔
(iv)عمیربن سعید نے بھی عبداللہ بن مسعود کا یہی معمول بیان کیا ہے۔17
(v) عمر بن خطاب سے یومِ عرفہ سے ۱۳ کی ظہر کی نماز تک یہ عمل ثابت ہے۔ 18
تکبیرات کے الفاظ
(14) رسول اللہ ﷺ سے تکبیرات کے الفاظ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہیں، البتہ جناب عبداللہ بن عباس اور سلمان فارسی سے موقوفاً تکبیرات کے الفاظ ثابت ہیں:
(ا)عبدالله بن عباس کی روايت: الله أکبر کبيرا، الله أکبر کبيرا، الله أکبر وأجل الله أکبر ولله الحمد19
(ب) ابن عباس کی دوسری روایت کے الفاظ : الله أکبر، الله أکبر، الله أکبر ولله الحمد، الله أکبر وأجل،الله أکبر علی ما هدانا20
اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس یہ الفاظ یوم عرفہ کی فجر کی نماز کے بعد 13ذو الحجہ کی عصر کی نماز کے بعد تک کہتے تھے۔
(ج) سلمان فارسی کی روايت: الله أکبر ، الله أکبر کبيرا، اللهم أنت أعلی وأجل من أن تکون لك صاحبة أو يکون لك ولد أو يکون لك شريك في الملك أويکون لك ولي من الذُّل وکبِّره تکبيرا اللّٰهم اغفرلنا اللهم ارحمنا21
“اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! تو سب سے اعلیٰ اور بزرگی اور شان و شوکت والا ہے اور (آپ اس سے پاک ہیں کہ) آپ کے لئے کوئی بیوی ہو یا آپ کے لئے اولاد ہو یا آپ کا کوئی بادشاہی میں شریک ہو یا آپ کا عاجزی کی بنیاد پرکوئی دوست ہو اور اس (اللہ) کی خوب بڑائی بیان کرتے رہیے۔ اے اللہ! ہمیں بخش دے، اے اللہ! ہم پر رحم فرما۔”
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس اثر کو سب سے زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔ 22
عموماً اس تکبیر کے صر ف شروع کے الفاظ الله أکبر، الله أکبرنقل کئے جاتے ہیں اور بعد کے الفاظ کسی نے نقل نہیں کئے جبکہ یہ روایت کافی تلاش کے بعد مجھے مصنف عبدالرزاق میں ملی ہے۔ مسعود احمد بی ایس سی نے یہ اعتراض کیا کہ انہیں ’مصنف‘ میں یہ تکبیر نہیں مل سکی اور انہوں نے بھی صرف شروع کے الفاظ نقل کرنے ہی پر اکتفاکیا ہے۔
تکبیرات کے مشہور الفاظ کی حقیقت
(15) تکبیر کے مشہور الفاظ: الله أکبر، الله أکبر، لا إله إلا الله والله أکبر،الله أکبر ولله الحمد ہیں اور عموماً اُنہیں پڑھا جاتا ہے اور اس کی سند کی اصل حقیقت سے لوگ نا واقف ہیں۔اس سلسلہ میں جو مرفوع روایت دارقطنی (2/50) میں ہے، اس میں چار راوی ضعیف ہیں: اس میں ایک راوی جابر بن یزید جعفی ہے جو سخت ضعیف اور شیعہ ہے اور ان کے متعلق امام ابوحنیفہ کا یہ قول مشہور ہے کہ میں نے جابر بن یزید جعفی سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں دیکھا۔ دوسرے راوی عمرو بن شمر کو سعدی نے ’کذاب‘، الفلاس نے ’واہٍ‘ اور امام بخاری اور ابوحاتم رازی نے ’منکر الحدیث‘ کہا ہے۔23
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ رافضی تھا۔ صحابہ کرام کو گالیاں دیتا تھا اور ثقات سے موضوعات نقل کیا کرتا تھا۔ 24
اس سلسلہ کی دوسری روایت موقوف ہے جو عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے۔25
لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی ابواسحاق بیہقی ہے جو مکثر، ثقہ اور عابد ہونے کے ساتھ مدلس اور مختلط بھی ہے۔ حافظ صاحب ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ مشہور بالتدلیس 26
علامہ البانی نے اس اثر کو صحیح قرار دیا ہے۔ 27
لیکن اس مقام پر انہیں سخت وہم ہوا ہے،کیونکہ انہوں نے دوسرے مقامات پر ابواسحق کی روایات پر کلام کیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
“أبو إسحاق وهو البيهقي فقد کان اختلط مع تدليسه وقد عنعنه” 28
“ابواسحق بیہقی :انہیں اختلاط ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ مدلس بھی ہے اور انہوں نے عَن سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔”
ایک اور مقام پر ایک روایت پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
فقلت:وهذا إسناد رجاله ثقات کما تقدم عن الهيثمي،لکن ابواسحٰق وهو البيهقي مدلس وکان اختلط إلا أن ذلك لا يضر في الشواهد․والله أعلم
“میں (البانی) کہتا ہوں کہ اس اسناد کے رجال ثقات ہیں جیسا کہ ہیثمی کے کلام سے گزر چکا،لیکن ابواسحق بیہقی مدلس ہیں اور انہیں اختلاط ہوا تھا مگر اس طرح کی روایات کو شواہد میں ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ والله اعلم29
اس سے ثابت ہوا کہ ابواسحاق بیہقی نہ صرف مدلس ہیں بلکہ وہ اختلاط کا شکار بھی ہوئے اور علامہ البانی کی وضاحت سے ہی ثابت ہوگیا کہ یہ روایت ضعیف ہے، لیکن اس مقام پر البانی سے فروگذاشت ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔
(16) ایامِ تشریق (ذوالحجہ کی 11،12 اور 13 تاریخ) کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔ 30
یوم عرفہ، یوم نحر و رایامِ تشریق اہل اسلام کے عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ 31
وقال الألباني :صحیح وقال الحافظ زبیر علی زئي: إسنادہ حسن و أخرجه الترمذي وقال حسن صحیح 32
(17) قربانی کی دعا:
إِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضَ عَلی مِلَّةِ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ* إِنَّ صَلوٰتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ للهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ لاَ شَرِيْکَ لَه وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ * اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِه بِسْمِ اللهِ وَاللهُ أَکْبَرُ 33
“میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ میں ابراہیم کے دین پر ہوں جو یکسو اور مسلم تھا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانیاں میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمین میں سے ہوں۔ اے اللہ! یہ قربانی تیری عطا ہے اور تیرے لئے ہے اور یہ قربانی محمد ﷺ اور اس کی اُمت کی طرف سے ہے۔ اللہ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہوں) اور اللہ بہت بڑا ہے۔”
لفظ عَنْ کے بعد قربانی کرنے والا اپنا نام لے۔
شیخ شعیب الارناوٴوط حفظہ الله تعالیٰ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
“اس حدیث کی اسناد تحسین کا احتمال رکھتی ہے۔ ابوعیاش، ابن نعمان معافری مصری ہیں، ان سے تین راوی حدیث روایت کرتے ہیں۔ علامہ ذہبی ان کے متعلق لکھتے ہیں: وہ شیخ ہیں اور ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس حدیث کے باقی رجال ثقات ہیں اور صحیح کے رجال بھی، سوائے محمد بن اسحق اور وہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔ امام حاکم نے اسے عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبیہ کی سند سے روایت کیا ہے 34ابن ماجہ نے اسے اسماعیل بن عیاش کی سند سے روایت کیا ہے 35اور مزی نے ابوعیاش کے ترجمہ میں تہذیب الکمال36میں یزید بن ذریع کے طریق سے روایت کیا ہے کہ چار محدث محمدبن اسحق سے وہ یزید بن ابی حبیب سے اور وہ ابوعیاش سے روایت کرتے ہیں اور وہ اس اسناد میں خالد بن ابی عمران کا ذکر نہیں کرتے۔ اور ابن ماجہ نے المعافری کے بجائے ابوعیاش زرقی کا ذکر کیا ہے اور یہ وہم ہے، کیونکہ ابوعیاش زرقی مدنی ہیں اور یزید بن ابی حبیب مصری ہیں اور یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ انہوں نے ابوعیاش مدنی سے روایت کی ہو اور ابن ماجہ میں یزید سے اسماعیل بن عیاش روایت کرتے ہیں اور وہ شامیوں کے علاوہ دوسروں میں ضعیف مانے جاتے ہیں اور شاید یہ وہم اس کی طرف سے ہے۔ الخ 37
سو یہ حدیث صحیح ہے اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی اسے حسن قرا ردیا ہے۔ علامہ البانی نے اپنے قاعدہ کے مطابق کہ چونکہ ابوعیاش مقبول درجہ کا راوی ہے لہٰذا ان کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ روایت حسن ہے۔
(18) جو شخص قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ (نمازِعید کے بعد) اپنے بال اور ناخن کاٹ لے تو اسے بھی مکمل قربانی کا ثواب ملے گا۔38
وقال الحافظ زبير علی زئي وإسناده صحيح وأخرجه النسائي وصححه ابن حبان39
والحاکم40
والذہبی 41
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اس حدیث کے (راوی) عیسیٰ بن ہلال صدوق ہیں اور ابن حبان اور حاکم نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔” 42
البتہ علامہ البانی نے اپنے قاعدہ کے مطابق اس روایت کو بھی ضعیف قرا ردیا ہے۔
(19) عورتوں کی عید کی نماز میں حاضری ضروری ہے یہاں تک کہ اگر وہ حیض میں بھی مبتلا ہوں تو ایسی حالت میں بھی عید گاہ جائیں تاکہ عمل خیر اور مسلمین کی دعاوٴں میں شریک ہوں اور لوگوں کی تکبیرات کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعاوٴں کے ساتھ دعا کرتی رہیں اور اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی اُمید رکھیں۔43
(20) عید کے دن ملاقات کے وقت کہے:
تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا َومِنْکَ 44
ترجمہ: “اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے (اس عمل کو) قبول فرمائے۔”
(21)عید کی دعا: اللهم إنا نسألك عيشة نقية سخت ضعیف ہے۔ اس کا ایک راوی نہشل بن سعد متروک ہے 45
لہٰذا ایسی روایت کا بیان کرنا اور اس کی تعلیم دینا جائز نہیں ہے۔
(22) جس شخص کی عید کی نماز رہ جائے، وہ باجماعت دو رکعت پڑھے یا اکیلے ہی دو رکعت ادا کرلے 46
(23) عیدین کی نماز کی زائد تکبیروں میں رفع الیدین کرنا؟
حدثنا محمد بن المصفی الحمصي حدثنا بقية حدثنا الزبيدي عن الزهري عن سالم عن عبدالله بن عمر قال کان رسول اللهﷺ إذا قام إلی الصلاة رفع يديه حتی تکونا حذو منکبيه ثم کبَّر وهما کذلك فيرکع ثم إذا أراد أن يرفع صلبه رفعهما حتی تکونا حذومنکبيه ثم قال سمع الله لمن حمده ولا يرفع يديه في السجود ويرفعهما في کل تکبيرة يکبرها قبل الرکوع حتی تنقضي صلاته 47
“جناب عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر تک اٹھاتے۔ پھر تکبیر کہتے اور آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت تک اسی مقام پر ہوتے۔ پھر رکوع کرتے پھر جب پیٹھ کو اُٹھانے کا ارادہ کرتے تو دونوں ہاتھوں کو اُٹھاتے یہاں تک کہ انہیں مونڈھوں کے برابر کرلیتے پھرسمع الله لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کو سجود میں نہ اُٹھاتے اور رکوع سے قبل کی تمام تکبیرات میں بھی رفع الیدین کرتے تھے، یہاں تک آپ نماز کو مکمل فرماتے۔”
اس روایت کی سند میں ایک راوی بقیہ بن ولید ہے جو صدوق مدلس ہے ،لیکن اس مقام پر اس نے سماع کی تصریح کردی ہے، اس لئے تدلیس کا شبہ ختم ہوجاتا ہے، علاہ ازیں ابن اخی زہری نے بھی ان کی متابعت کررکھی ہے :
حدثنا يعقوب حدثنا ابن أخي ابن شهاب عن عمه حدثني سالم بن عبدالله أن عبدالله قال کان رسول الله ﷺإذا قام إلی الصلاة يرفع يديه حتی إذا کانتا حذومنکبيه کبر ثم إذا أراد أن يرکع رفعهما حتی يکونا حذو منکبيه کبر وهما کذٰلك رکع ثم إذا أراد أن يرفع صلبه رفعهما حتی يکونا حذو منکبيه ثم قال سمع الله لمن حمده ثم يسجد ولا يرفع يديه في السجود ويرفعها في کل رکعة و تکبيرة کبرها قبل الرکوع حتی تنقضي صلاته 48
“جناب عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ہاتھوں کو اُٹھاتے یہاں تک انہیں مونڈھوں کے برابر کرکے تکبیر کہتے پھر رکوع کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر کرکے تکبیر کہتے اور وہ دونوں ہاتھ رکوع میں وہیں ہوتے۔ پھر جب آپ اپنی پیٹھ کواٹھانے کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر اٹھاتے پھر سمع الله لمن حمدہ کہتے پھر سجدہ کرتے اور ہاتھوں کو سجود میں نہ اُٹھاتے۔ اور دونوں ہاتھوں کو ہر رکعت اور تکبیر میں اُٹھاتے جو تکبیر رکوع سے پہلے کہتے یہاں تک کہ آپ اپنی نماز مکمل فرماتے۔
محقق عالم شیخ شعیب الارنووط حفظہ الله تعالیٰ اس روایت کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“یہ حدیث صحیح ہے اور یہ سند ابن اخی ابن شہاب زہری کی وجہ سے حسن ہے، اور ان کا نام محمد بن عبداللہ بن مسلم ہے اور ان سے اگرچہ شیخان (بخاری و مسلم) نے احادیث نقل کی ہیں، یہ صدوق حسن الحدیث ہیں اور اس حدیث کے باقی رجال بھی شیخین کے رجال ہیں۔
اس حدیث کو ابن الجارود (178) اور دارقطنی نے سنن (1/289) میں یعقوب بن ابراہیم کے طریق اور اسی سند سے روایت کیا ہے۔ 49
علامہ البانی فرماتے ہیں:
“امام ابن منذر اور امام بیہقی نے اس حدیث سے احتجاج کیا ہے کہ جسے بقیہ نے زبیدی عن زہری کی سند سے روایت کیا ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں کہ ابن ترکمانی نے الجوہر النقي میں یہ اعتراض کیا ہے کہ بقیہ مدلس ہے اور اس نے عن سے اسے روایت کیا ہے ،لیکن اس نے ابوداوٴد (722) اور دارقطنی (108) میں سماع کی تصریح کررکھی ہے۔ لہٰذا تدلیس کا شبہ زائل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اسی حدیث کے بیان کرنے میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ابن اخی بن شہاب نے ان کی متابعت کررکھی ہے ۔میں کہتا ہوں کہ یہ سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور ابن اخی زہری کا نام محمدبن عبداللہ بن مسلم ہے۔ 50
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ ابوداود کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے، امام دارقطنی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔51
’بقیہ‘ صدوق اور مدلس ہے اور اس نے سماع کی تصریح کررکھی ہے اور زبیدی کا نام محمد بن ولید بن عامر ہے جو بالاتفاق ثقہ ہیں اور ابن اخی زہری نے ان کی متابعت کررکھی ہے۔ مسنداحمد (2/133،134)، ابن الجارود (178) وغیرہ اور اس حدیث کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور امام زہری نے بھی ان دونوں سندوں میں سما ع کی تصریح کررکھی ہے۔
یہ حدیث تکبیراتِ عیدین میں اور سجدئہ تلاوت کے وقت رفع الیدین کی مشروعیت کی دلیل ہے جو رکوع سے قبل ہیں اور اس حدیث سے سلف میں امام ابن منذر اور امام بیہقی وغیرہ نے بھی استدلال کیا ہے اور ان کا استدلال بالکل درست ہے اور اس کی مخالفت پر کوئی نص موجود نہیں ہے۔ آگے موصوف ایک اُصول کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: والعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی اعتبار عام لفظ کا ہوگا نہ کہ کسی خصوصی سبب کا۔ 52
یہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے، اس میں نما زکے شروع کا رفع الیدین پھر رکوع کو جاتے وقت (جیسا کہ مسنداحمد کی حدیث میں ہے اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع الیدین کا ذکر ہے اور پھر یہ بات ذکر ہے کہ رکوع کے قبل کی تمام تکبیرات کے ساتھ نبی ﷺ رفع الیدین فرمایا کرتے تھے، جس سے عیدین کی تکبیرات میں اور سجدئہ تلاوت کے وقت رفع الیدین کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
بعض لوگوں نے اس حدیث کی سند اور متن پر اعتراض کیا ہے، لیکن سند پر جن لوگوں نے اعتراض کیا ہے، ان کا طریقہ کار سلف اور محدثین سے ہٹ کر ہے اور متن پر یہ اعتراض ہے کہ عیدین کی نماز کے لئے الگ اور مستقل دلیل ہونی چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع الیدین آپ سے فرض نمازوں میں ثابت ہے۔ اب نفل، صلوٰةِ کسوف، جمعہ، عیدین وتر وغیرہ نمازوں میں بھی اسی رفع الیدین کو دلیل بنایا جائے گا اور ان کے لئے کسی الگ دلیل کی ضرورت نہ ہوگی۔
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں :
“عیدین کی نماز میں تکبیراتِ زوائد پر رفع یدین کرنا بالکل صحیح ہے ،کیونکہ نبی ﷺ رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ 53
اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے، بعض لوگوں کا عصر حاضر میں اس حدیث پر جرح کرنا مردود ہے، امام بیہقی اور امام ابن منذر نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔ 54
* عید والی تکبیرات کے بارے میں عطا بن ابی رباح (تابعی) فرماتے ہیں کہ
“نعم ويرفع الناس أيضًا” جی ہاں ان تکبیرات میں رفع یدین کرنا چاہئے، اور (تمام) لوگوں کو بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔ 55
* امام اہل شام اوزاعی فرماتے ہیں کہ : “نعم اِرْفَعْ يديک مع کلهن” “جی ہاں، ان ساری تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔ 56
* امامِ دارِہجرت مالک بن انس نے فرمایا: “نعم،ارفع يديك مع کل تکبيرة ولم أسمع فيه شيئا” “جی ہاں! ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرو اور میں نے اس (کے خلاف) میں کوئی چیز نہیں سنی۔ “ 57
اس صحیح قول کے خلاف مالکیوں کی غیر مستند کتاب مدونة میں ایک بے سند قول مذکور ہے (ج1/ص155) یہ بے سند حوالہ مردود ہے۔ مدونة کے ردّ کے لئے دیکھئے میری کتاب القول المتین في الجهر بالتأمین (ص۷۳) اسی طرح امام نووی کا حوالہ بھی بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ 58
* امام اہل مکہ شافعی بھی تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کے قائل تھے۔ دیکھئے کتاب الأم 59
* امام اہل سنت احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ”یرفع یدیہ في کل تکبیرة” (عیدین کی)ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنا چاہئے۔ 60
ان تمام آثارِ سلف کے مقابلے میں محمدبن الحسن شیبانی نے لکھا ہے کہ
“ولا يرفع يديه” “اور (عیدین کی تکبیرات میں) رفع یدین نہ کیا جائے۔ “61
لیکن یہ قول شاذ ہونے کی بنا پر ناقابل عمل ہے۔ “ 62
حوالہ جات
1. صحیح بخاری: 969
2. تقریب
3. 2/346 ح 3024، اتحاف المہرة 3/صدقہ 203 بحوالہ موسوعہ مسنداحمد :9/234
4. موسوعہ مسنداحمد:9/324
5. ابن خزیمہ: 2/246ح 3021
6. صحیح مسلم:2746
7. صحیح بخاري: کتاب العیدین باب فضل العمل في أیام التشریق
8. صحیح بخاری: ایضاً
9. بخاری: 970
10. بخاری: 971
11.مصنف ابن أبي شیبة بحوالہ ارواء الغلیل: 3/123
12. بیہقی: 3/279
13. ابن ابی شیبہ 2/71 بہ سند صحیح عن زہری
14. صحیح بخاری: ایضاً
15. مستدرک 1/299، بیہقی :3/314
16. مستدرک:1/299
17. مستدرک:1/300
18. ایضاً
19. مصنف ابن ابی شیبہ 2/74 و سندہ صحیح ،طبع بیروت
20. بیہقی:3/315
21. بیہقی: 3/316، مصنف عبدالرزاق: 11/295 و سندہ صحیح
22. فتح الباری
23. ارواء الغلیل:3/124، التعلیق المغنی: 2/49
24. المیزان: 3/268
25. ابن ابی شیبہ
26. طبقات المدلسین: ص 42
27. الارواء: 3/125
28. الضعیفة:1/295
29. الصحیحة:5/57
30. مسلم: 2677
31. ابوداوٴد: 2419، ترمذی:773، مسنداحمد:4/152،مستدرک: 1/434،بیہقی :4/298
32. تمہید: 23/69
33. مسنداحمد3/375، ابوداوٴد 2795، ابن ماجہ 3121، دارمی،مشکوٰة المصابیح :1461 وقال الحافظ زبیرعلی زئی:اسنادہ حسن (نیل المقصود في تعلیق علی سنن أبي داود :2795
34. 1/467،ابن خزیمہ :2899، دارمی :1946،طحاوی:4/177، بیہقی:9/287، ابوداوٴد :2790
35. 3121
36. 34/163،164
37. موسوعہ مسنداحمد: ۲۳/267، 268
38. ابوداوٴد ۲۷۸۹، النسائی ۴۳۶۵
39. 1043
40. 4/223
41. نیل المقصود: 2789
42. مشکوٰة 1479
43. بخاری: 971،980
44. فتح الباری:3/98 باسناد ٍحسن
45. مجمع الزوائد: 2/201
46.صحیح بخاری: کتاب العيدين باب إذا فاته العيد يصلي رکعتين
47. ابوداوٴد: 722
48. مسنداحمد: 7/134
49. موسوعہ مسنداحمد :10/315،316
50. ارواء الغلیل 3/112،113
51. ھق 2/83، سنة 571
52. ابوداوٴ:722
53. ابوداوٴد:ح722، مسند احمد:2/133، 134 ح6175، منتقیٰ ابن الجارود: ص69 ح178
54. دیکھئے التلخیص الحبیر:ج1،ص86 ح692 وسنن کبریٰ از بیہقی :3/292،293 و الأوسط از ابن منذر :4/282
55. مصنف عبدالرزاق:3/296ح 5699، و سندہ صحیح
56. احکام العیدین للفریابي: ح136 و سندہ صحیح
57. احکام العیدین: ح۱137،وسندہ صحیح
58. دیکھئے المجموع شرح المہذب:ج5/ ص26
59. ج1: ص237
60. مسائل أحمد رواية أبي داود ص:۶۰ باب التکبير في صلوٰة العيد
61. کتاب الاصل: ج1/ ص374،375 والاوسط از ابن منذر:ج4/ص282
62. ماہنامہ ’الحدیث‘: 3/18تا20
(i)٭ مسنداحمد:2241،ح 1968 و 3381ح 3139و 346ح4226، ابن ابی شیبہ 3480، ابن ماجہ :8727 والترمذی :757 و ابن حبان:324، ابوداود :2438 والبغوی:1125، مصنف عبدالرزاق: 812، طبری: 12326 و 12328،12436و بیہقی فی شعب الایمان:3749، 3752والدارمی:1774، مشکوٰة:1460 (اس حدیث کو صاحب ِمشکوٰة نے بخاری کے حوالے سے نقل کیا ہے جبکہ یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بخاری میں نہیں ہے)