’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی حالیہ سفارشات کا جائزہ

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا آئینی ادارہ ہے۔ 1973ء کے دستور میں جب شق227 شامل کی گئی کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون کتاب وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائے گا تو عملاً اس کا باقاعدہ نظام وضع کرنے کی غرض سے اسی دستور میں ہی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں 'اسلامی نظریاتی کونسل' کے نام سے 20؍افراد پر مشتمل ایک آئینی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنریا اسمبلی کی اکثریت کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کی اسلامی حیثیت کا جائزہ لے کر 15؍ دن کے اندر اندر اُنہیں اپنی رپورٹ پیش کرنا تھا۔ شق نمبر 228 میں یہ قرار دیا گیا کہ اس کے اراکین میں جہاں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ضرور ی ہوگی، وہاں اس کے کم از کم چار ارکان ایسے ہوں گے جنہوں نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں کم وبیش 15؍برس صرف کئے ہوں اور اُنہیں عوامِ پاکستا ن کا اعتماد حاصل ہو۔1

اپنے یومِ وجود سے لے کر آج تک کونسل نے متعدد اہم مسائل پر حکومت ِپاکستان کو شرعی رہنمائی اور تجاویز مہیا کی ہیں ۔ کونسل کا ماضی اس حوالے سے بڑا تابناک رہا ہے کہ یہاں سے بالعمومکتاب وسنت کی ترجمانی اور قوم کوقیمتی سفارشات میسر آتی رہی ہیں اور عام مسلمانوں سے لے کر اہل علم ودین حضرات میں اس کی رائے کو قدرو وقعت سے دیکھا جاتا رہا ہے۔

مشرف حکومت نے جہاں وطنِ عزیز کو دیگر بہت سے سنگین مسائل سے دوچار کیا، وہاں اپنے مغربی افکار کی بدولت نظریاتی میدان میں بھی اُنہوں نے پاکستانی قوم کو تبدیل کرنے کی متعدد کوششیں کیں ، جن میں تعلیم اور میڈیا میں اسلام مخالف اِقدامات سرفہرست ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مشرف حکومت کے آخری سالوں یعنی 2006ء کی آخری سہ ماہی میں پاکستان میں حدود قوانین کی 'مزعومہ اصلاح' کے لئے ایک بھرپور مہم چلائی گئی تھی، اور اس کو بعض اربابِ ابلاغ نے اس طرح پاکستانی قوم کے ذہن پر سوار کردیا تھا کہ گویا اس دور کا سب سے سنگین ترین مسئلہ یہی سمجھا گیا جو بچے بچے کی زبان پر تھا۔ اس دور میں مختلف قومی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ حکومت کو چاہئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے، جو اس بحث کا اصل علمی اور آئینی پلیٹ فارم ہے، اس سلسلے میں رہنمائی حاصل کرے۔ لیکن مارچ 2006ء وما بعد ہونے والے کونسل کے متعدد اجلاسوں کے بعد کونسل میں ان قوانین کے خلافِ اسلام ہونے پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوسکا تھا اور حکومت کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اُسے یہاں سے شرعی واخلاقی تائید حاصل نہ ہو سکی تھی۔

انہی دنوں مشرف حکومت نے 'اسلامی نظریاتی کونسل' کی اس اسلام پسندی اور حکومت نوازی سے گریز پر قابو پانے کے لئے بعض 'روشن خیال' دانشوروں کو اس کونسل میں شامل کیا تاکہ اس کی رائے میں انتظامی طور پرتبدیلی لائی جاسکے۔ اس میں سب سے اہم تبدیلی تجدد پسند دانشور جاوید احمد غامدی کی بطورِ رکن نامزدگی تھی۔ حکومت کی اس دخل اندازی کا یہ نتیجہ تو برآمد ہوا کہ کونسل اپنے اسلامی تشخص سے محروم ہوکر اپنا سابقہ اعتماد واِعزاز کھو بیٹھی اور نظریاتی کونسل کے متعدد ممبران(مثلاً حاجی محمد حنیف طیب اورمظہر سعید کاظمی وغیرہ) نے اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا، لیکن باضمیر ممبران نے مشرف حکومت کو یہاں سے حدود قوانین کی کلی تائید حاصل نہ ہونے دی۔

اراکینِ کونسل کے استعفیٰ کے دنوں میں اخلاقی برتری کے لئے جاوید احمد غامدی نے بھی کونسل کی رکنیت سے عین اسی طرح استعفیٰ دے دیا جیسے چوہدری شجاعت حسین نے پارلیمنٹ سے نمائشی استعفیٰ دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دیگر مخلص ممبران سے تو آج تک کونسل محروم چلی آرہی ہے، لیکن جاوید غامدی صاحب نہ صرف اسی شان وشوکت سے بلکہ اپنے دیگر حواریوں کے آنے کے بعد زیادہ آب وتاب سے وہاں براجمان ہیں ۔ یاد رہے کہ کونسل کے موجودہ اَراکین کی غالب اکثریت تجدد پسند دانشوروں پر مشتمل ہے مثلاً رشید جالندھری، ڈاکٹر منظور احمد، سید افضل حیدر اور سرفہرست جناب صدرنشین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب۔

اس وقت کونسل میں ایک ہی شخصیت ہیں جنہیں معروف معنی میں عالم دین قرار دیا جاسکتا ہے او روہ ہیں جناب عبد اللہ خلجی صاحب، جو گاہے بگاہے ان تجدد پرستوں کے درمیان اپنے اختلافات کا دَبے لفظوں میں اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ اس بنا پر کونسل کی موجودہ ہیئت اس اعتبار سے خلافِ آئین بھی ہے کہ شق 228 ؍ اے کی رو سے یہاں تمام مسلمہ مکاتب ِفکر کی نمائندگی موجود نہیں اور اس اعتبار سے بھی کہ شق 228؍ سی کی روسے کم ازکم چا رعلماے کرام ممبران میں سے فی الوقت صرف ایک شخصیت مولانا عبداللہ خلجی صاحب موجود ہیں ۔

کونسل میں مذکورہ بالا حکومتی تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلاکہ کونسل نے اپنے تابناک ماضی کے برعکس یو ٹرن لیا۔ گذشتہ دو برس کی سفارشات کا ایک سرسری مطالعہ اس دعویٰ کی کافی دلیل ہے کہ غامدی صاحب کے آنے کے بعد کونسل ان کے منحرف آراء وافکار کا مرکز ومحور بن گئی۔ وہ مباحث جو اس سے قبل غامدی صاحب کے مجلہ 'اشراق'، ان کی کتاب 'میزان' اور'المورد' کی ویب سائٹ پر ملتی تھیں ، بعد میں 'اسلامی نظریاتی کونسل' کے معتبر نا م سے پیش ہونے لگیں ۔ یوں تو کونسل کے موجودہ اراکین اپنے تفردات اوراسلام کے بارے میں عجوبہ روزگارخیالات کے حوالے سے پاکستان کے اہل علم حضرات میں پہلے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن جاویدغامدی صاحب کی شکل میں اُنہیں ایسا نفسِ ناطقہ میسر آیا جو کتاب وسنت سے من چاہا استدلال کرنے اور اُن سے اپنی بات کہلوانے کی جراء تِ رندانہ کا حامل تھا۔ اس پر مستزاد جاوید غامدی کے مختلف ذرائع ابلاغ میں پھیلے ہوئے شاگرد(i) ہیں جو کونسل کی غلط سفارشات کی ترجمانی اور تائید کے لئے ہردم کمربستہ رہتے ہیں ۔ طبقہ علما میں سے صرف ایک شخصیت کی موجودگی اورمغرب نوازوں کی کثرت کے بعد کونسل کی سفارشات کو اسلام کی ترجمانی کی بجائے 'جدت پسندی'نہ سمجھا جائے تو کیا کہا جائے؟ اگر موجودہ کونسل کو' اسلامی نظریاتی کونسل' کی بجائے 'تجدد زدہ دانشوروں کا مرکز' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

غامدی صاحب کے منحرف افکار سے اس وقت بہت سے اہل علم بخوبی آگاہ ہیں ۔ محدث میں ان کے افکار پر مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہے ہیں ( جن میں ایک مضمون اس شمارہ میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے) اور ان کے افکار کے جو سنگین اثرات مسلم فکر و نظر پر سامنے آنا شروع ہوئے ہیں ، اس سے ہر محب ِدین شخص متفکر نظر آتا ہے۔ غامدی صاحب کی کاوشوں کاایک مرکز تو ٹی وی سکرین ہے، جہاں وہ آئے روز دین کے نام پر نت نئے خیالات پیش کرتے رہتے ہیں ۔ ان کا دوسرا مرکز 'اسلامی نظریاتی کونسل' ہے۔ ایک معتمد آئینی ادارے کو اُنہوں نے اپنے غلط افکار کا زینہ بنا رکھا ہے،جہاں حکومتی وسائل بھی ان کے نظریات کے فروغ کے لئے صرف ہورہے ہیں ۔

اپنے 'نادر' اَفکار کو معاشرے میں پروان چڑھانے کے لئے موجودہ نظریاتی کونسل نے گذشتہ برس ایک اور خطرناک قدم یہ اٹھایا ہے کہ اپنی ۳۵ سالہ تاریخ کے برعکس، جب کہ کونسل کی تمام سفارشات حکومت کے لئے مخصوص ہوتی تھیں ، ایک سلسلہ وار سہ ماہی مجلہ 'اجتہاد' کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ اور مختصر مدت کے بعد مجالس بھی منعقد کرنا شروع کی ہیں ۔'اجتہاد'کا تیسرا شمارہ ابھی حال میں شائع ہوکرسامنے آیا ہے۔ ہماری نظر میں اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ مجلہ 'اجتہاد' متجددین کے اَفکار کا مرکز ہے جس کے ذریعے اُنہیں حکومتی اور آئینی پلیٹ فارم سے قوم میں اپنے نظریات پھیلانے کا سنہرا موقع ہاتھ آیا ہے۔

مجلہ 'اجتہاد' کے موضوعات ومشمولات کی ایک جھلک اور افکار پر ایک تبصرہ تو پھر کبھی سہی، سردست موجودہ نظریاتی کونسل نے جو نیا 'کارنامہ 'انجام دیا ہے، اس نے ملک بھر کے علمی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور پاکستان کے ممتاز علما نے ایک بار پھر شدت سے یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ نظریاتی کونسل کو از سر نو تشکیل دیا جائے اور اس میں آئینی طور پر ماہرین شریعت کی مطلوبہ تعداد کو پورا کیا جائے ، نیز تما م مکاتب ِفکر کو نمائندگی دی جائے۔ یاد رہے کہ کونسل اس وقت حدود قوانین کے حادثہ کے سبب محض ۹ ممبران پر ہی اکتفا کررہی ہے، جبکہ ممبران کی کل تعداد ۲۰ تک ہے۔

کونسل کی تازہ سفارشات کا متن
15؍ نومبربروز ہفتہ کو کونسل نے بعض عائلی مسائل پرچند نئی سفارشات منظور کی ہیں جن کے بارے میں ملک بھر کے دینی وعوامی حلقوں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ پہلے وہ سفارشات ملاحظہ فرمائیں ، پھر علماے پاکستان کا احتجاج اور آخرمیں ان سفارشات پر ہمارا تبصرہ۔ یا د رہے کہ درج ذیل سفارشات کا متن اسلامی نظریاتی کونسل کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ ہے، اور اُردو ترجمہ بھی کونسل کا ہی جاری کردہ ہے :

  1. یہ قانون بنا دیا جائے کہ بیوی اگر کبھی تحریری طور پر طلاق کا مطالبہ کرے گی، تو شوہر۹۰ دن کے اندر اُسے طلاق دینے کا پابند ہوگا۔ وہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو یہ مدت گزر جانے کے بعدطلاق واقع ہو جائے گی، اِلا یہ کہ بیوی اپنا مطالبہ واپس لے لے۔ اس کے بعد شوہرکے لیے رجوع کا حق نہیں ہوگا اور بیوی پابند ہوگی کہ مہر اور نان نفقہ کے علاوہ اگر کوئی اَموال واَملاک شوہر نے اسے دے رکھے ہیں اور اس موقعہ پر وہ اُنہیں واپس لینا چاہتا ہے، تو فصل نزاع کیلئے عدالت سے رجوع کرے یا اس کا مال اسے واپس کردے۔
  2. طلاق کے مؤثر ہوجانے کے بعد مطلقہ عورتیں اگر چاہیں تو عدالت شوہر کے معاشی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے قرآن کے مطابق عطا کردہ حق متاع کی مقدار متعین کرنے کا حکم صادر کرسکتی ہے، جو یک مشت بھی ہوسکتی ہے اور ماہ بہ ماہ بھی، جب تک مطلقہ عورت کی اگلی شادی نہ ہوجائے۔
  3. طلاق کی رجسٹریشن کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور اس کی رجسٹریشن بھی اسی طرح ہونی چاہیے جس طرح نکاح کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔
  4. مجوزہ طلاق نامہ فارم پر غور کرتے ہوئے کونسل نے فیصلہ کیا کہ اس مجوزہ فارم کے ساتھ ایک تعارفی پیرا گراف بھی دیا جائے کہ طلاق کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے جو مفاسد پیدا ہو رہے ہیں ، ان کی وجہ سے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ نکاح نامہ کی طرز پر ایک طلاق نامہ فارم بھی تجویز کیا جائے۔
  5. مہرعورت کا حق ہے، اسے کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا۔ تاہم عدالت اگر چاہے تو تحائف اور فوائد کے سلسلے میں مصالحت کراسکتی ہے۔ کونسل نے عائلی عدالتوں کے قانون مجریہ ۱۹۶۴ء کی دفعہ۱۰کی ذیلی دفعہ۴ میں لفظ حق مہر کو شادی کے عوض دیئے گئے تحائف اور فوائد سے تبدیل کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا اور اسے قانون کا حصہ بنانے کی سفارش کی۔
  6. کونسل نے محرم کے بغیر خواتین کے سفر حج کے بارے میں فیصلہ دیا۔ دستورِ پاکستان اور دیگر ملکی قوانین کے تحت خواتین آزادی سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سفر کرسکتی ہیں ۔ اسپر کوئی قدغن نہیں ہے۔سعودی عرب کے قوانین کونسل کے دائرئہ اختیار میں نہیں آتے۔
  7. خالص سائنسی طریقے سے مکہ مکرمہ کو مرکز بنا کر چاند کی ولادت کے لحاظ سے پوری دنیا کے لیے ایک ہجری کیلنڈر بنا دیا جائے او ر تمام مذہبی تہوار اس کے مطابق منائے جائیں ۔
  8. کونسل نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور انتہا پسندانہ رجحانات کے پیش نظر ایک خصوصی رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کیا جس کی روشنی میں حکومت کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سفارشات پیش کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں کونسل نے اس بات پر بھی توجہ دی ہے کہ دہشت گردی کی صورت میں ایک عام آدمی کو کیا کرنا چاہیے؟
  9. کونسل نے نادار اَقربا کی کفالت کے لیے قانون سازی کی سفارش کی اور اس کے لیے اپنے تیار کردہ 'آرڈیننس براے نادار اقربا' کے مسودے کو حکومت کے سامنے دوبارہ پیش کرنے کی سفارش کی۔ کونسل نے نفاذِ شریعت کے حوالے سے کچھ رہنما اُصول منظور کیے ہیں جنہیں نفاذِ شریعت پر ہونے والی آئندہ کانفرنسوں میں علما کرام کے سامنے رکھا جائیگا۔


یہ تو تھا کونسل کے 171 ویں اجلاس کی سفارشات کا مکمل متن جس کے اہم نکات کو روزنامہ 'جنگ' نے اگلے روز یعنی 16 ؍ نومبر2008ء کو کونسل کے چیئرمین کی زبانی یوں رپورٹ کیا :
''شوہر کو تحریری طلاق کامطالبہ کرنے والی بیوی کو 90روز کے اندر طلاق دینے کا قانونی پابند بنایا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں معینہ مدت کے بعد نکاح فسخ قرار پائے گا۔ کونسل نے نکاح نامے کی طرح طلاق نامہ بھی تجویز کیا ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ نکاح کی طرح طلاق کی رجسٹریشن بھی کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس ہفتے کو کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود کی صدارت میں ہوا جس میں کونسل نے رؤیت ِہلال کے مسئلے کو غیر متنازع بنانے کے حوالے سے تجویز کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کو مرکز بناکر تمام مذہبی تہوار اسی کے مطابق منائے جائیں ۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر خالد مسعود نے صدرِ مملکت سے ملاقات میں کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کی طرف توجہ مبذول کروائی تو اُنہوں نے پارلیمانی اُمور کے وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان کی سربراہی میں کونسل کی رپورٹوں کے جائزے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کونسل کے تمام اَراکین نے صدر کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ اب کونسل کی سفارشات کو بہت جلد بحث کے لئے پیش کیا جاسکے گا۔ ''

پاکستان کے ممتاز ومعتمد علماے کرام کا شدید احتجاج
کونسل کی ان تجاویز کو اخبارات میں شائع ہوئے ابھی ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ اس بارے میں ہر مکتب ِفکر کا شدید احتجاج سامنے آیاہے۔ پاکستان کے جید اہل علم اور ممتاز دینی ادارے اِن کی مخالفت میں یک زبان ہیں ۔ اِن سفارشات کے غلط ہونے میں کہیں دو رائے موجود نہیں اور اِنہیں شریعت میں کھلم کھلا تحریف قرار دیا جارہا ہے ، مثلاً:
''اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین شریعت میں تحریف کی کوششوں سے باز رہیں ۔ ان خیالات کا اظہار 'عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت' اور 'جامعہ علوم اسلامیہ،بنوری ٹاؤن' کے رہنمائوں نے کراچی دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس میں کیا۔ 'عالمی مجلس تحفظ ِ ختم نبوت' کے نائب امیر اور جامعہ علوم اسلامیہ کے رئیس ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ، نائب مدیر سید سلیمان یوسف بنوری، عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کراچی کے امیر مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا امداد اللہ اور مفتی عبدالمجید دین پوری نے اجلاس میں موجود شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین خالد مسعود دین و شریعت اور منصوصاتِ اسلام میں تحریف و تنسیخ سے باز رہیں ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ شریعت اور احکامِ شریعت آج سے۱۴سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمادیئے ہیں جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔

اُنہوں نے کہا کہ اسلام اور شریعت میں ہر دور اور طبقے کے لئے احکامات موجود ہیں ، اس میں کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کا مشورہ دینا مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

اُنہوں نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ مغرب زدہ ان نام نہاد اسکالروں کو اس اہم منصب سے برطرف کیا جائے اور ان کی جگہ مستند علماے کرام کو اس منصب پر فائز کیا جائے۔ اجلاس سے متعدد اہل علم اور دینی شخصیات نے خطاب کرتے ہوئے اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔

کونسل کی ان سفارشات کے بعد مختلف اہل علم حضرات کا مطالبہ متفقہ طور پر سامنے آیا ہے کہ نظریاتی کونسل کی تشکیلِ جدید کی جائے، وگرنہ ملکی سطح پر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ موجودہ اَراکین اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اسلام کی ترجمانی کا اہم فریضہ انجام دے سکیں ۔ ان سفارشات کے بعد بے چینی اس قدر پھیل گئی کہ' جیو ٹی وی چینل' نے اپنے پروگرام 'عالم آن لائن' میں ملک بھر کے ممتاز علماکو مدعو کرکے ان سے مختلف سوالات کئے ، جن کے جواب میں

''ممتاز عالم دین اور' مرکزی رؤیت ِہلال کمیٹی' پاکستان کے چیئرمین پروفیسر مفتی منیب الرحمن نے صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اگر اسلامی نظریاتی کو نسل کی سفارشات کو اہمیت دیتے ہوئے اُنہیں نافذ کر نے کی کوشش کی تو علما پورے ملک میں بھرپور تحریک چلائیں گے اور شریعت کے تحفظ کے لئے ہر آئینی، قانو نی اور اخلاقی اِقدام بلاکسی تامل اُٹھائیں گے۔ جیو کے معروف پروگرام 'عالم آن لائن' میں اسلامی نظریاتی کونسل کی متنازعہ سفارشات پر ممتاز اسکالر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو فی الفور تحلیل کیا جائے اور اسلام کو سمجھنے اور اس کی تعلیم دینے والوں کو اس اہم آئینی ادارے کا رکن بنایا جائے۔

اُنہوں نے زور دیکر کہا کہ موجو دہ اسلامی نظریاتی کو نسل دراصل پرویز مشرف کا لگایا ہوا پودا ہے اور اس کی سفارشات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک متو ازی شریعت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اگر حکومت نے بروقت اس کا توڑ نہ کیا تو باجوڑ اور مالاکنڈ میں اُٹھنے والی لہر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

'جامعہ بنوریہ العالمی' کے مہتمم اور ممتاز عالم دین مفتی محمد نعیم نے کہا کہ اسلامی امور میں پی ایچ ڈی کرنے والے ہر شخص کے بارے میں یہ تصور کرلینا کہ وہ اسلامی اُمور کا بھی ما ہر ہے، صریحاً غلط ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کو نسل میں شامل تمام افراد نااَہل ہیں جن کا کام صرف تنخواہیں لینا اور مرا عات حاصل کرنا ہے، اُنہیں نہ دین کی سمجھ ہے، نہ دنیا کی۔

جمعیت علماے اسلام کے رہنما مولانا اسعد تھانوی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو براہِ راست شریعت سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے ایک انتہائی غیر معقول اقدام قر ار دیا۔

'جمعیت اہل حدیث پاکستان' کے سربرا ہ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ مجھ سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن نے کہا کہ ہم نے ایسی کوئی سفارشات پیش نہیں کی ہیں اور میڈیا والے یونہی بات کا بتنگڑ بنادیتے ہیں لیکن وہیں پر موجود اسلامی نظریاتی کونسل میں کام کرنے والی ایک اہم شخصیت نے کہا کہ موصوف جھوٹ بول رہے ہیں ، یہ سارا کیا دھرا اِن ہی کا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا مگر جب اَراکین ہی اتنے جھوٹے ہوں تو سفارشات کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے مستعفی رکن اور مقامی ہسپتال میں زیر علاج حاجی محمد حنیف طیب نے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے استعفیٰ ہی دراصل اسی لئے دیا تھا کیو نکہ اسلامی نظریاتی کونسل کا ایجنڈا نیک نہیں تھا اور میرے ساتھ موجودہ وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کے بڑے بھائی مظہر سعید کاظمی بھی ان ہی وجوہات کی بنا پر مستعفی ہوئے تھے۔

پروگرا م کے میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے پروگرام کے دوران کئی مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف جاننے کی کوشش کی، تاہم چیئرمین کے سیکرٹری نے یہ کہہ کر بات کرانے سے انکار کردیا کہ وہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کر نا چاہتے، ان کا کام سفارشات پیش کرنا تھا اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ اسے منظور کرے یا ردّ، وہ فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔ اس موقع پر بعض دیگر اَر اکین سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی، تاہم کوئی بھی ان سفارشات کا دفاع کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔''2

جماعت ِاسلامی پاکستان نے ان سفارشات پر اپنا ردّ ِعمل ان الفاظ میں پیش کیا:
'' ممتاز دینی وسیاسی رہنمائوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جاری کردہ سفارشات کو شرعی احکام کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے ردّ کردیا ہے اور کہا ہے کہ نکاح اور طلاق کے احکام اور قواعد و ضوابط طے شدہ ہیں ، اُنہیں مغربی تہذیب اور کلچر کو رواج دینے کے لیے ختم یا ان میں مجوزہ قسم کی ترامیم کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔ موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے شرعی احکام میں ترمیم کر رہی ہے۔ امیر جماعت ِاسلامی پاکستان قاضی حسین احمد ، نائب امیر جماعت ِاسلامی پاکستان چوہدری محمد اسلم سلیمی ایڈووکیٹ ، اسد اللہ بھٹو امیر جماعت ِاسلامی سندھ ، حافظ محمد ادریس ڈائریکٹر ادارہ معارفِ اسلامی لاہور ، شیخ القرآن والحدیث مولانا عبدالمالک صدر جمعیت اتحاد العلما پاکستان، مولانا عبدالجلیل نقشبندی صدر جمعیت اتحاد العلما پنجاب ، مولانا عبدالرؤف صدر جمعیت اتحاد العلما کراچی ، شیخ الحدیث آغا محمد منصورہ سندھ ، مولانا سید محمود فاروقی اور شیخ الحدیث دارالسلام گزری نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہاکہ عورت کی تحریری درخواست پر اس کے کیس کی سماعت ہو سکتی ہے اور عدالت شرعی احکام کی روشنی میں فیصلہ کر سکتی ہے لیکن ایسی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جس میں محض عورت کی تحریری درخواست پر شوہر کو طلاق کا پابند کر دیا جائے اور اس کے لیے مدت مقرر کردی جائے۔ عورت مظلوم ہو ، طلاق کی حقدار ہو تو عدالت ہر کیس کی نوعیت کو دیکھ کر فیصلہ دے گی۔ شوہر ظالم نہ ہو، عورت کے حقوق ادا کرتاہو تو عورت کی درخواست خارج کر دی جائے گی اور مصالحت کرائی جائے گی۔ اسی طرح طلاق کی رجسٹریشن بھی غیر شرعی ہے، زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت اس پر گواہ ہے۔ آج تک زبانی طلاق ہی نافذ ہوتی رہی ہے۔ محرم یا عورتوں کی جماعت کا تحفظ سفر کے لیے ضروری ہے۔ اگر دستورِ پاکستان نے کوئی پابندی عائد نہیں کی تو یہ ایک خلاہے۔ اس خلا کو حجت بنا کر شرعی حکم کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ خلا کو شریعت کے مطابق پر کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ان سفارشات کوہم مسترد کرتے ہیں اور اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں ۔'' 3

ملک کی معروف دینی درسگاہ دار العلوم کراچی نے ان سفارشات پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے قرا ردیا :
''جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر مفتی رفیع عثمانی، نائب صدر مفتی تقی عثمانی، مفتی محمود اشرف، مفتی عزیز الرحمن اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے اپنے مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ دستور کے تقاضوں کے مطابق معتمد علماے دین پر مشتمل نئی اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی جائے اور اُمت کو انتشار سے بچانے اور فتنے سے محفوظ رکھا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے جبری طلاق اور بغیر محرم کے حج کرنے سے متعلق جو سفارشات پیش کی ہیں وہ علم دین سے واقفیت رکھنے والے ہر شخص کے لئے حیرتناک، قابل مذمت اور فتنہ انگیز ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودہ ہیئت نہ دستور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے اور نہ ہی اس کو عوام اور اہل علم کا اعتماد حاصل ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی نام نہاد روشن خیالی کے نام پر اس کی تشکیل دی تھی اور اس وقت ارکان کی تعداد کے لحاظ سے بھی وہ نامکمل ہے اور مستند و معتمد علماے دین میں سے کوئی بھی اس کی رکنیت میں شامل نہیں ہے۔'' 4

کونسل کی مذکورہ بالا سفارشات آنے کے بعد مختلف علماے کرام اور دینی تنظیموں نے اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا، قومی اخبارات احتجاج سے بھرے پڑے ہیں ۔ علما کے اس شدید احتجاج کی تائید کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی اُمور نے بھی اطمینان دلایا اور یہ قرار دیا کہ کونسل کی ان سفارشات کی موجودہ حالت میں کبھی توثیق نہیں کی جائے گی:

''حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر نظرثانی کرائے گی جو ایک نا مکمل کونسل نے جاری کی ہیں ، موجودہ کونسل میں 8؍ارکان ہیں جبکہ اس کی کل تعداد 20ہے۔ تمام مکاتب ِفکر کے ممتازعلما کو شامل کرنے کے بعد سفارشات پر نظرثانی کی جائے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات کی موجودہ حالت میں توثیق نہیں کی جائے گی۔ وفاقی وزیر مذہبی اُمور علامہ حامد سعید کاظمی نے یہ یقین دہانی منگل کے روز قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے کرائی ہے۔ قبل ازیں اپوزیشن کی طرف سے صاحبزادہ فضل کریم نے نکتہ اعتراض پر معاملہ اُٹھایا تھا۔ اُنہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی سفارشات کو غیر شرعی قرار دیا اور کہا کہ یہ سفارشات موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔

حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر مذہبی اُمور غلام حامد سعید کاظمی نے ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات باضابطہ طو رپر اِرسال نہیں کی گئی ہیں ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کی کل تعداد 20ہے، سابق حکومت نے 8؍ارکان سے ہی کام چلایا ہے، ہماری حکومت باقی ارکان کی نامزدگی کرے گی جس میں ممتاز علما کرام شامل ہو ں گے جن کا تمام مکتبہ ہاے فکر سے تعلق ہو گا، اس کے بعد ان سفارشات پر نظرثانی کی جائے گی۔ تب قانون سازی کا مرحلہ آئے گا، ان سفارشات کی موجودہ حالت میں توثیق نہیں کی جائے گی۔

وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے موقف اختیار کہا کہ سفارشات وزارت کو موصول نہیں ہوئی ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر علما کرام نے جو تحفظات کااظہار کیا ہے، وہ جلد بازی میں کیا جا رہا ہے، کونسل کی سفارشات پر قانون سازی قومی اسمبلی کا معاملہ ہے۔ جب سفارشات ایوان میں پیش کی جائیں گی تب ارکانِ اسمبلی اس میں ترامیم پیش کرسکتے ہیں ۔ اُنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ خلافِ اسلام کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔ وفاقی وزیر پارلیمانی اُمور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ایسی کوئی سفارشات تیار نہیں کرائی ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات تیار کر کے ایوانِ صدر بھجوائی ہے جس کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی سربراہی ان کے پاس ہے۔ ادھر ایک بیان کے مطابق مرکزی جمعیت علماے پاکستان کے مرکزی صدر فضل کریم نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے اسلامی اُصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو جو سفارشات عورت کے طلاق کے سلسلے میں پیش کیں وہ غیر شرعی ہیں اور عوامِ اہلسنّت، ارکانِ مرکزی جمعیت علماے پاکستان مذکورہ چیئرمین کے خلاف قانونی اور سیاسی اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔''5

علماے کرام کے احتجاج کی وضاحت
علما کے اس شدید احتجاج کے جواب میں کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود کو بھی دفاعی انداز اختیار کرتے ہی بنی اور اُنہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ اُنہوں نے قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کو صرف سفارشات دی ہیں ، کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا، البتہ اپنے موقف کی تائید میں اُنہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ

''نئی سفارشات کا مقصد عورت کو طلاق کا حق دینا نہیں بلکہ خلع کے قانون کو آسان بنانا اور طلاق کی رجسٹریشن کو لازمی بنا کر کئی قانونی پیچیدگیوں سے بچنا ہے۔ ان خیالات کااظہار اُنہوں نے گزشتہ روز 'آن لائن' کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ کونسل نے ڈیڑھ سال کی تحقیق اور تمام ممالک کے اسلامی قوانین کا جائزہ لینے کے بعد طلاق کی رجسٹریشن اور عورت کی طرف سے طلاق کے تحریری مطالبے پر تین ماہ میں خود بخود طلاق واقع ہو جانے کے لئے قانون کی سفارش کی ہے۔ اس سلسلے میں کونسل کے نو ممبران میں سے آٹھ نے اس کی حمایت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان سفارشات کا مقصد عورت کو طلاق کا حق دینا نہیں بلکہ خلع کے قانون کو آسان بنانا اور طلاق کی رجسٹریشن کو لازمی بنا کر کئی قانونی پیچیدگیوں سے بچنا ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ ان سفارشات کے بعد کچھ علما کرام اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے میری ذات اور کونسل کے خلاف تنقید کا ایک طوفان اُٹھایا جا رہا ہے ۔کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا بلکہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مکمل تحقیق کے بعد طلاق جیسے حساس مسئلے پر حکومت کو قانون سازی کے لئے سفارشات پیش کی ہیں ، کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ اسلام نے عورتوں کو مکمل حقوق فراہم کئے ہیں اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسے علیحدگی اختیار کرنے اور طلاق لینے کا حق حاصل ہے۔ اگر عورت اپنا مہر چھوڑ دے یا اس سے کچھ کم یا زیادہ مال شوہر کو دے کر طلاق طلب کرے تو شوہر طلاق دینے کا پابند ہے جبکہ طلاق کو رجسٹر کرنے سے کئی قانونی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔''6

معاملہ کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے 25؍ نومبربروز پیر کو حکومت نے اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ اسلام میں عورت کو طلاق کا حق حاصل ہے،لیکن ہم کونسل کی سفارشات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے :
''حکومت ملک میں خواتین کے تحفظ، بچوں کی کفالت اور ان کی حفاظت سمیت خواتین کے حقوق کی بہتری کے لئے قانون سازی کرنا چاہتی ہے لیکن یہ تمام قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق اور اس کے دائرہ کے اندر ہو گی اور جہاں ضرورت پڑے گی، ہم دیگر علماے کرام سے بھی مشاورت کریں گے۔ پیر کو وزارتِ قانون وانصاف میں منعقدہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے طلاق اور دیگر سفارشات کی تفصیل طلب کی ہے تاکہ آئین کے تحت ان کا جائزہ لیا جا سکے۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا کے حوالہ سے غور کیا گیا اور اس میں طلاق، نان نفقہ اور بچے کی تحویل سے متعلقہ اُمور پر گفتگو ہوئی۔

آئین کی شق۲۲۷کے تحت لازم ہے کہ تمام قوانین کو اس دستوری شق کے تحت دیکھا جائے کیونکہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون ملک میں نہیں بن سکتا۔ طلاق کے مؤثر ہونے کے موضوع پر خاصا تبادلہ خیال ہوا۔ اِجلاس میں اس سوال پر بھی غور ہوا کہ طلاق کے بعد کیا عورت کا شوہر کی جائیداد میں حق ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ طلاق کے بعد بچوں کو نان نفقہ دینے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے اجلاس کو بتایا کہ آئندہ اجلاس میں قرآن و سنت کے تحت تجاویز پیش کریں گے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کی پارلیمان پر پابندی کے حوالہ سے سوال پر وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل230کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے کام کے حوالہ سے صراحت موجود ہے۔ آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے کم از کم ارکان کی تعداد 8اور زیادہ سے زیادہ 20ہے، اس وقت کونسل کے ارکان کی تعداد 10ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کونسل کی تشکیل درست ہے۔ کونسل کا کام سفارشات مرتب کرنا اور یہ جائزہ لینا ہے کہ قوانین قرآن و سنت کے منافی تو نہیں ۔ یہ سفارشات تجویز کی حد تک ہیں ، رپورٹ پارلیمان میں پیش کی جاتی ہے جس پر پارلیمان کو 2سال کی مدت میں قانون سازی کرنا ہوتی ہے۔ ایک سوال پر اُنہوں نے کہا کہ عورت مرد سے علیحدگی(خلع)مانگ سکتی ہے۔ ایک خاتون کو ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ 1954ء کے تحت فیملی عدالت میں درخواست دینا ہوتی ہے جس کے تحت عدالت اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کے اندر خاتون کے مرد کے ساتھ گزر اوقات نہ ہونے کی صورت میں اسے خلع؍ طلاق کی اجازت دیتی ہے۔

اسلام نے واضح طور پر عورت کو طلاق کا حق دے رکھا ہے جسے طلاقِ تفویض قرار دیا جاتا ہے، نکاح نامے کے اندر بھی یہ شق نمبر 18موجود ہوتی ہے جس کے تحت عورت کو مرد کی جانب سے طلاق کا حق دینے اور اس کی شرائط کا ذکر موجود ہے۔ اجلاس مں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔''7

کونسل کی سفارشات کا شرعی جائزہ
کونسل کی سفارشات پیچھے گزر چکی ہیں ، جن پر مختلف دینی رہنمائوں اور جماعتوں کا تبصرہ بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ نظریاتی کونسل کی ان سفارشات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کے ایک جائزے سے قبل یہ واضح رہنا چاہئے کہ کونسل کی زیر نظر سفارشات مشہور منکر ِحدیث غلام احمد پرویز کے نظریات بالخصوص نظریۂ مرکز ِملت سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ِوقت کو شریعت میں ترمیم وتنسیخ کرنے کا حق حاصل ہے۔

٭ چنانچہ منکر ِحدیث غلام احمد پرویز کے نزدیک شریعت کی انوکھی تعریف ملاحظہ فرمائیے:
''اس قرآن کے اُصول محکم اساس پر مبنی ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ لیکن ان اُصولوں کی جزئیات مختلف حالات کے تقاضوں کے ساتھ اَدلتی بدلتی رہتی ہیں ۔ ان بدلنے والی جزئیات کو' شریعت' کہا جاتا ہے۔'' 8
''قرآن میں جہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد امامِ وقت یعنی مرکز ِملت کی اطاعت ہے۔ جب تک رسول اللہ اُمت میں موجود تھے، ان کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت تھی، او رآپ کے بعد آپ کے زندہ جانشینوں (مسلم حکمرانوں ) کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت ہوگی۔''9

٭ طلوع اسلام کے ایک رکن ڈاکٹر عبد الودود' مرکز ِملت' کی تفسیر یوں کرتے ہیں :
'' رسول کی زندگی کے بعد فیکم رسول سے مراد ملت کی مرکزی اتھارٹی ہے جورسول کا فریضہ یعنی امربالمعروف اور نہی عن منکر ادا کرتی ہے۔ اور یہ کہ رسول کے بعد صرف مرکز ِملت کو یہ حق حاصل ہے کہ دینی اُمور میں فیصلہ کرے۔''10

٭ مزید واضح الفاظ میں پرویز صاحب فرماتے ہیں :
'' غور فرمائیے کہ دنیا میں کوئی نظامِ حکومت کیا اس طرح سے قائم بھی رہ سکتا ہے کہ جس میں یہ حالت ہو کہ حکومت ایک قانون نافذ کرے اور جس کا جی چاہے،اس کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے اور قرآن وحدیث کی کتابیں بغل میں داب کر مناظرہ کا چیلنج دے دے۔ اس آیت مقدسہ کا مفہوم بالکل واضح ہے جس میں اللہ اور رسول سے مراد ہی مرکز ِملت ہے، اور اولی الامر سے مفہوم افسرانِ ماتحت۔ اس سے مطلب یہ ہے اگر کسی مقامی افسر سے کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو بجائے اس کے کہ وہیں مناقشات شروع کردو، امر متنازع فیہ کو مرکزی حکومت کے سامنے پیش کرو۔ اسے مرکزی حکومت کی طرف ریفر کردو۔ مرکز کا فیصلہ سب کے لئے واجب التسلیم ہوگا۔''11

طلوع اسلام کو حکومت ِوقت کو یہ اختیار دینا سراسر غلط ہے اور اس کا مقصد حکومت وقت کو شریعت سازی کا اختیار دینا ہے جو قرآنِ کریم کی رو سے صریحاً حرام ہے:
ٱتَّبِعُوا مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوامِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ۗ...﴿٣﴾...سورةالاعراف

''اپنے ربّ کی طرف سے نازل کردہ وحی کی ہی پیروی کرو اور اس کے ماسوا دیگر ذمہ داروں کی اتباع مت کرو۔''
اس آیت ِکریمہ کی روسے مسلمانوں کو صرف ما اُنزل' یعنی وحی الٰہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور یہی بات دیگر تین آیات میں بھی کہی گئی ہے کہ

مسلمانوں کو ما أنزل اﷲ کے علاوہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔اور جو ایسا کرے وہ ظالم، کافر اور فاسق ہے۔ (المائدة : 44)

اس فکری اشتراک اور بنیاد کی طرف اتنا اشارہ کرنا ہی کافی ہوگا کیونکہ مزید تفصیلات اور اس نظریہ کی تردید مستقل مضمون کی متقاضی ہے۔ سردست اس غلط بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان سفارشات کا ایک جائزہ ملاحظہ فرمائیں :
سفارش(1) : یہ قانون بنا دیا جائے کہ بیوی اگر کبھی تحریری طور پر طلاق کا مطالبہ کرے گی، تو شوہر90 دن کے اندر اُسے طلاق دینے کا پابند ہوگا۔ وہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو یہ مدت گزر جانے کے بعدطلاق واقع ہو جائے گی، اِلا یہ کہ بیوی اپنا مطالبہ واپس لے لے۔ اس کے بعد شوہرکے لیے رجوع کا حق نہیں ہوگا اور بیوی پابند ہوگی کہ مہراور نان نفقہ کے علاوہ اگر کوئی اَموال واملاک شوہر نے اسے دے رکھے ہیں اور اس موقعہ پر وہ اُنہیں واپس لینا چاہتا ہے، تو فصل نزاع کے لئے عدالت سے رجوع کرے یا اس کا مال اُسے واپس کردے۔

جائزہ: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بڑی انوکھی اور مغرب کے نظریۂ مساواتِ مرد وزَن پر ایمان لانے کا نتیجہ ہے۔ یہاں عورت کو بھی اسی طرح طلاق کا حق دیا جارہا ہے جیسے یہ حق مرد کو حاصل ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہے، آیت ِکریمہ ہے:
أَوْ يَعْفُوَا ٱلَّذِى بِيَدِهِۦ عُقْدَةُ ٱلنِّكَاحِ ۚ...﴿٢٣٧﴾...سورة البقرة
''یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔''

آیت ِکریمہ میں شوہر کو عقد ِ نکاح کا مالک قراردیا گیا ہے، اور سنن دار قطنی میں بھی واضح الفاظ میں نبی کریمؐ کا یہ فرمان موجود ہے کہ (ولي عقدة النکاح: الزوج) 12
''عقد ِنکاح کا ذمہ دار ؍ مالک شوہر ہے۔''
اسی طرح قاضی شریح رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے مجھ سے پوچھا کہ بیدہ عقدة النکاح سے کون مراد ہے؟ میں نے کہا کہ لڑکی کا ولی۔ تو حضرت علیؓ نے جواب دیا: نہیں بلکہ اس سے مراد شوہر ہے: ''لا بل ہو الزوج''13

اسلام کا یہ مسلمہ نظریہ ہے کہ نکاح میں مردکو عورتوں پر انتظامی برتری دی گئی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے کہ ''مرد عورتوں پر نگران ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو فضیلت دی ہے او ر مرد ان کی کفالت کرتے ہیں ۔'' ( النساء:34)
اور آیاتِ طلاق کے سیاق میں بھی قرآنِ کریم نے ا س امر کی صراحت کردی ہے کہ
وَلِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٢٨﴾...سورة البقرة
'' اور مردوں کو عورتوں پر یک گونہ درجہ حاصل ہے اور اللہ غالب وحکمت والا ہے۔''

مردوں کی یہ اَزدواجی برتری ان کی جسمانی ساخت اور زندگی میں ان کے فرائض سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ مرد کو تو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت ہے لیکن مساواتِ مرد وزن کے قائل بھی یہ مساوات قائم کرنے کے داعی نہیں ہوسکتے کہ عورت کو بھی مرد کی طرح بیک وقت چارشوہر رکھنے کی اجازت ہونی چاہئے یا یہ کہ مساوات کی بنا پر شریعت میں اس کی گنجائش پیدا کی جائے۔

اس اساسی تصو رکے بعد نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا سفارش جہاں مرد وعورت کو طلا ق میں غیر شرعی مساوات دینے کی کوشش پر مبنی ہے، وہاں مذکورہ بالا سفارش شریعت ِاسلامیہ سے ایک استہزا اور کھلواڑ کے بھی مترادف ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں مردوزَن کاازدواجی تعلق صرف نکاح کے ذریعے ہوتا ہے اور جدائی طلاق، لعان یا خلع کے ذریعے جن کے مسلمہ اُصول شریعت میں واضح کردیے گئے ہیں ۔ جبکہ زیر نظر سفارش میں نہ تو خلع کے اُصول پیش نظر رکھے گئے ہیں اور نہ ہی طلاق کے، اس بنا پر یہ واضح ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ خلع ہے یا طلاق؟ چنانچہ

اگر اس تجویز کو طلاق قرار دیا جائے تواس میں شوہر کو طلاق دینے کا پابند کرنے کی کیا توجیہ کی جائے جبکہ طلاق توشوہر اپنی مرضی سے دیتا ہے۔
اگر اس کو خُلع سمجھا جائے تو خلع میں بیوی کو حق مہر سے دستبردار ہونا پڑتا ہے، جبکہ یہاں بیوی کا حق مہر اس کے لئے ہی برقرا ر رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

طلاق کی مذکورہ بالا تجویز عجیب وغریب ہے جو نامعلوم کس شریعت سے ماخوذ ہے۔ یہ نہ تو خلع ہے اور نہ ہی طلاق۔ اس کا تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ
اگر کوئی شخص چند ماہ کے بعد اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ گھومتا پھرتا پائے تو اس کی بیوی یہ کہہ سکتی ہے کہ کیا میں نے فلاں تاریخ کو تمہیں طلاق کا نوٹس نہیں دیا تھا جس کے ۹۰ دن بعد از خود طلاق واقع ہوگئی تھی اور اس کے بعد میں نے اس شخص سے شادی رچا لی ہے۔ کونسل کی اس سفارش کی موجودگی میں شوہر اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا۔

اس بنا پر بعض اہل علم کا یہ کہنا درست ہے کہ اس تجویز کے ذریعے شوہر کو طلاق پر مجبور کیا جارہا ہے اور عقد ِنکاح کو اس کے ہاتھ سے نکال کر بیوی کے ہاتھ میں بھی تھمایا جارہا ہے جو قرآن کے الفاظ سے براہِ راست متصادم ہے۔
 یہاں یہ نکتہ واضح رہنا چاہئے کہ نکاح و طلاق اور رشتہ داریوں کے معاملے دراصل براہِ راست حقوق اللہ میں سے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں من جملہ دیگر ہدایات کے عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
(فاتقوا اﷲ فِي النِساء فاِنکم أخذتموهن بِأمانِ اﷲِ واستحللتم فروجهن بِکَلِمة اﷲِ) 14
'' اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم نے اللہ کی امان پر اُنہیں اپنے عقد میں لیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو تم نے اللہ کے کلمہ کی بنا پر حلال کیا ہے۔الخ''

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح وطلاق اور رشتہ داریاں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خاص اُمور ہیں جن مںپ کسی قسم کی ترمیم شریعت سازی اور اللہ کے نظام میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔
اسی طرح قرآنِ کریم کی سورة الاحزاب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رشتہ داریوں کا ایک نظام دیا ہے اورکسی کے بیٹا کہہ دینے سے کوئی دوسرے شخص کا حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ۚ ذَ‌ٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَ‌ٰهِكُمْ ۖ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى ٱلسَّبِيلَ ﴿٤ ٱدْعُوهُمْ لِءَابَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِ ۚ...﴿٥﴾...سورة الاحزاب
''اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنادیا، یہ تو تمہارامحض اپنے منہ سے کہہ دینا ہے، حالانکہ اللہ ہی حق بات کہتا اور راہِ راست کی ہدایت دیتا ہے۔ ان منہ بولوں کو ان کے ماں باپ کے نام سے ہی پکارو، یہی اللہ کے ہاں زیادہ قرین انصاف ہے۔'' (الاحزاب: 4)

اس بنا پر نکاح وطلاق کے نظام میں دخل اندازی کرتے ہوئے کسی کو 90 دن بعد طلاق کا پابند کردینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی عورت کسی شخص کی بیوی ہو اور اس کو خود ساختہ قانون کے تحت اس کے حبالہ عقد سے خارج کردیا جائے، جبکہ اللہ کے ہاں اسی شخص کی بیوی ہی ہے۔ یہ اللہ کے نظام میں مداخلت اور دین سے اِستہزا ہے جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو شرمسار ہونا چاہئے۔

سفارش(2) : ''طلاق کے مؤثر ہوجانے کے بعد مطلقہ عورتیں اگر چاہیں تو عدالت شوہر کے معاشی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے قرآن کے مطابق عطا کردہ حق متاع کی مقدار متعین کرنے کا حکم صادر کرسکتی ہے، جو یک مشت بھی ہوسکتی ہے اور ماہ بہ ماہ بھی، جب تک مطلقہ عورت کی اگلی شادی نہ ہوجائے۔''
تبصرہ:کونسل کی یہ سفارش مغربی نظریات سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ چند برس قبل ہندوستان میں یہی مسئلہ شاہ بانو کیس کی صورت میں اُٹھا تھا جس میں ہندوستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ جب تک مطلقہ عورت آگے شادی نہ کرلے، اس وقت تک اس کے سابقہ شوہر کو اس کی حیثیت کے مطابق نان نفقہ دینے کا پابند کیا جائے۔ دلچسپ بات ہے کہ جو نکتہ ایک ہندو ملک کی عدالت کو سوجھا تھا، پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے قرآنِ کریم کی بھی منشا قرار دے لیا جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس فیصلہ کے خلاف اس قدر بھرپور تحریک چلائی کہ راجیو گاندھی کو بھارتی پارلیمنٹ سے اس قانون کو ختم کرانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور آخر کار یہ قانون بھارت سے ختم کردیا گیا۔

اس سفارش کا مقصدبیوی کو شوہر کے مال میں شریک کرنا ہے، چنانچہ ارشاد احمد حقانی نے 18؍نومبر کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں اس شق کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے کہ
'' کونسل نے یہ سفارش کی ہے کہ خاوند پہلی شادی کی صورت میں اپنی جائیداد اور اثاثہ جات کی تما م تفصیل شادی کے وقت لکھ کردینے کا پابند ہوگا۔ اگر وہ دوسری شادی کررہا ہے تو اس میں پہلی بیوی اور اس کے بچوں کی تمام تفصیلات بھی درج کرے گا۔''

یہ تجویز مغربی ممالک کے قانونِ ازدواج سے متاثر ہوکر شامل کی گئی ہے، جیسا کہ برطانیہ کا مشہور قانون ہے کہ شوہر مطلقہ بیو ی کو اپنی جائیداد میں سے نصف حصہ دینے کا پابند ہوگا، اور عدالت اس کا تعین شوہر وبیوی کے ذمہ دارانہ رویے اور دیگر متعدد وجوہ کی بنا پر کرے گی، مطلقہ کو ملنے والا یہ حصہ بعض صورتوں میں نصف سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ 15

اسی قانون کی بنا پر چند برس قبل آغا خانی فرقہ کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خاں نے، جو برطانوی شہریت رکھتا ہے، جب اپنی فرانسیسی بیوی کو طلاق دی تو اس کے ۲ بلین ڈالر کے اثاثہ جات میں سے ایک بلین ڈالر اس کی بیوی کو محض مطلقہ ہونے کی بنا پر حاصل ہوگئے۔ قابل توجہ امر ہے کہ ایک روحانی پیشوا کی جمع کردہ دولت جو دراصل اس کے بجائے، فرقے کے لوگوں کے نذرانوں اور عطیات وغیرہ پر مشتمل تھی، کس طرح ایک غیرمسلم عورت کے ہاتھ لگ گئی...!!

اسی سے ملتے جلتے اَزدواجی قوانین برطانیہ اور یورپ میں بعض سرکار نوازمسلم تنظیمیں 'مسلم میرج ایکٹ' کے نام حکومت سے پاس کروانے کے لئے کوشاں ہیں جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ مسلمان یورپ وغیرہ میں الگ تشخص کی بجائے یورپی اقوام میں گھل مل کر رہنا چاہتے ہیں ۔

جہاں تک اس تجویز کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی آیت اور مفسرین وفقہا کا موقف ملاحظہ فرمائیے، سورة البقرة کی آیت نمبر236 کے الفاظ ہیں :
وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى ٱلْمُوسِعِ قَدَرُ‌هُۥ وَعَلَى ٱلْمُقْتِرِ‌ قَدَرُ‌هُۥ مَتَـٰعًۢا بِٱلْمَعْرُ‌وفِ ۖ...﴿٢٣٦﴾...سورة البقرة
''تم اُنہیں بوقت ِطلاق فائدہ پہنچائو، کشائش والا اپنی قدرت کے مطابق اور تنگ دست اپنی گنجائش کے مطابق، معروف طریقے سے فائدہ پہنچانا۔''

اس آیت ِکریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں اَزدواجی نا ہمواریوں کا انجام باہمی نفرت وعداوت کی بجائے اس طرح ہونا چاہئے کہ مرد اپنی مطلقہ بیوی کو حسنِ سلوک اور مالی تحائف وغیرہ دے کر رخصت کرے کیونکہ ا س سے عورت کو نفسیاتی تسکین حاصل ہوگی، آخر کار وہ اس مرد کی انتہائی قریبی شخصیت رہ چکی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی ہے، تاکہ مستقبل میں دونوں کی باہمی رنجش و مخالفت سے اگلی نسل حتیٰ الامکان کم سے کم متاثر ہو۔

جہاں تک مطلقہ عورت کو ساز وسامان دینے کا تعلق ہے تو امام شافعی رحمة اللہ علیہ وجمہور علما رحمة اللہ علیہ کے بقول یہ محض مستحب امرہے جس پر شوہر کو مجبورنہیں کیا جاسکتا۔ امام شعبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سازوسامان واجب ہوتا تو اس کی بنا پر عدالتیں لوگوں کو پابند کیا کرتیں ، لیکن آج تک کسی عدالت نے اس بنا پر شوہر کو قید وغیرہ نہیں کیا۔ دراصل یہ سازوسامان ایسی مطلقہ عورت کے حق میں تو ضروری ہے جس کو ہم بستری سے قبل طلاق دی گئی ہو جیسا کہ حضرت عمرؓ نے اس کو حق مہر کا متبادل قرار دیا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں اگر باہم اتفاق نہ ہو تو نصف حق مہر ادا کرنا ہوگا، جیسا کہ اگلی آیت میں اس کی صراحت بھی آگئی ہے۔
الغرض شریعت ِاسلامیہ میں اس امر کو مستحب قرا ردیا جاسکتا ہے کہ مطلقہ عورت کو خوش اُسلوبی اور تحائف وغیرہ کے ساتھ رخصت کیا جائے لیکن عدالتی سطح پر اس کو واجب قرار دینا شریعت سازی ہے اور مغرب نوازی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

سفارش:طلاق کی رجسٹریشن کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور اس کی رجسٹریشن بھی اسی طرح ہونی چاہیے جس طرح نکاح کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔
اس سفارش کا مقصد یہ پیش کیا گیا ہے کہ اس طرح ایک مجلس کی تین طلاقوں میں کمی آئے گی، ہر طلاق علیحدہ رجسٹر ہونے کے بعد دوسری طلاق علیحدہ دی جائے گی۔ کونسل کی سفارش کا یہ پہلو اگرچہ درست ہے، لیکن یاد رہنا چاہئے کہ نکاح وطلاق کے منعقد ہونے کا انحصار ان کے شرعی تقاضوں کی تکمیل پر ہی موقوف ہے۔ جہاں شرعی تقاضے پورے ہوجائیں وہاں نکاح وطلاق واقع ہوجاتے ہیں ، اس تجویز کی حیثیت مزید تلقین سے زیادہ نہیں اور نکاح وطلاق کو اس پر منحصر قرار دینا شرعی نظام میں اضافہ اور مداخلت ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ۔

سفارش: ''کونسل نے محرم کے بغیر خواتین کے سفر حج کے بارے میں فیصلہ دیا۔ دستورِ پاکستان اور دیگر ملکی قوانین کے تحت خواتین آزادی سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سفر کرسکتی ہیں ، اسپر کوئی قدغن نہیں ہے۔سعودی عرب کے قوانین کونسل کے دائرئہ اختیار میں نہیں آتے۔''
جائزہ: اس سفارش کے پس پردہ یہ گمراہ کن تصور موجود ہے کہ زمانہ کی ترقی کے باعث شریعت میں تبدیلی ہونی چاہئے اور حکومت کو اس امر کا اختیار ہونا چاہئے کہ وہ حالات کی رو رعایت سے شریعت میں ترمیم کرسکے۔ جبکہ دراصل شریعت کے اس حکم میں غایت درجہ حکمت موجود ہے، اس میں مردوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ دورانِ سفر کی صعوبتوں اور پریشانیوں سے نمٹنے کے لئے وہ اپنی خواتین کے ہمراہ موجود ہوں ۔ اسلام میں زندگی کے کسی مرحلہ پر بھی نہ تو عورت پر اپنی مالی کفالت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور نہ ہی اپنی حفاظت کی۔ بلکہ ہمیشہ سے یہ دونوں ذمہ داریاں ان کے انتہائی قریبی مرد حضرات کے ذمے ہیں ، کیونکہ جب بھی عورت کو اپنی مالی ضروریات یا جسمانی تحفظ کے لئے کسی غیرمحرم مرد کا محتاج ہونا پڑے گا، ایسی صورت میں عورت کو خود استحصال اور حرص وہوس کا نشانہ بننا ہو گا۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے مذکورہ بالا سفارش کے ذریعے دراصل اسلام کے تصورِ اختلاطِ مرد و زَن کی ممانعت کو سمجھے بغیر مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کا راستہ کھولا ہے۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ دورِجدید کی ترقی کے باوجود دوصنفوں کی یہ باہمی کشش اور کشمکش پہلے سے کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ عورت کے اسی تحفظ کے لئے اللہ تعالیٰ نے مبارک ترین سفر حج وعمرہ میں بھی محرم مرد کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مقدسہ بالکل واضح ہیں جنںیب ہماری کونسل تبدیل کرنے کی نامراد سعی کررہی ہے :

(لا یحل لامرأة تؤمن باﷲ والیوم الآخر أن تسافر مسیرة یوم ولیلة لیس معها حُرمة ) 16
'' کسی عورت کو جائز نہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو کہ وہ ایسی حالت میں ایک دن رات کا سفر کرے کہ اس کے ساتھ محرم مرد موجو دنہ ہو۔''

(لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم ولا یدخل علیها رجل إلا ومعها محرم،فقال رجل: یا رسول اﷲ! إني أرید أن أَخرج في جیش کذا وکذا، وامرأتي ترید الحج۔ فقال : اُخرج معها ) 17
'' کوئی بھی عورت اپنے محرم مرد کے بغیر سفر ہرگز نہ کرے۔ اور اس کے پاس کوئی غیرمرد نہ آئے اِلا یہ کہ عورت کے ساتھ اس کا محرم مرد بھی موجود ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ میں فلاں فلاں لشکر میں جانا چاہتا ہوں اور میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے، تو آپ نے فرمایا: اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جائو۔''
معلوم ہوا کہ محرم رشتہ داروں کا بھی فرض ہے کہ افضل ترین اعمال پر بھی اپنی خواتین کی سفری ضروریات کو ترجیح دیں کیونکہ مرد و زَن کے آزادانہ اختلاط کی ممانعت کی یہ بنیادی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزید فرامین موجود ہیں ، مثلاً

 (لا یخلونَّ رجل بامرأة إلا کان ثالثهما الشیطان) 18
''کوئی بھی غیرمحرم مرد کسی عورت کے ساتھ علیحدگی میں نہیں ہوتا، مگران کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔'' (جو اُنہیں برے کام کی تلقین کرتا ہے)
یہ مسئلہ پوری ملت ِ اسلامیہ کا اجماعی مسئلہ ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں :
اتفق الفقهاء علی أنه یحرم علی المرأة أن تسافر بمُفردها وأنه لا بد من وجود محرم أو زوج معها 19
''فقہاے عظام کا اتفاق ہے کہ عورت کے لئے اکیلے سفر کرنا حرام ہے ، اور اس کے ساتھ سفر میں کوئی محرم یا شوہر ہونا ازبس ضروری ہے۔''

فرامین نبویہؐ کی صراحت او رحکمت روز ِروشن کی طرح واضح ہے، اور سعودی حکومت کا سفر حج میں محرم کو لازمی کرنے کی شرعی وجہ یہی ہے،لیکن ہمارے نام نہاد شرعی ماہرین پاکستانی حکومت کو اس حکم شرعی میں ترمیم کی تلقین کرکے قوم کوباور کرا رہے ہیں کہ شریعت میں اس قسم کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔

سفارش:''خالص سائنسی طریقے سے مکہ مکرمہ کو مرکز بنا کر چاند کی ولادت کے لحاظ سے پوری دنیا کے لیے ایک ہجری کیلنڈر بنا دیا جائے اور تمام مذہبی تہوار اسکے مطابق منائے جائیں ۔''
جائزہ:کونسل کی یہ سفارش بھی سراسر فرامینِ نبویہؐ سے متصادم ہے۔دراصل کونسل کا مطمع نظر اسلام کی ترجمانی نہیں بلکہ ایسی سفارشات کونسل کے تجدد زدہ اراکین کی مغرب سے مرعوبیت کا برملا اظہار ہے جومغربی میڈیا کے بے جا اعتراضات کا جواب دینے کی اہلیت سے توعاری ہیں ، نتیجتاًاسلام کو توڑ موڑ کر اس کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں ۔

دنیا بھر میں مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے مذہبی تہوار ایک دن کیوں نہیں ہوتے، ایک قوم ہوتے ہوئے مختلف خطہ ارضی میں عیدین اور رمضان وغیرہ کا آغاز واختتام مختلف کیوں ہوتا ہے؟ دراصل یہ اعتراض بودا اور مغالطہ آمیزہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تما م مسلمان ایک ہی دن یعنی یکم شوال کو عید الفطر اور 10؍ ذی الحجہ کوعید الاضحی مناتے ہیں ۔ جہاں بھی یہ تہوار منائے جاتے ہیں ، وہاں یکم شوال ہی ہوتی ہے۔ اگریہ اعتراض اہل مغرب پر کیا جائے کہ وہ دنیا بھر میں کرسمس اور ایسٹر ایک ہی دن کیوں نہیں مناتے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ بعض ممالک میں کرسمس ہجری تقویم کی ایک تاریخ کو ہوتی ہے اور بعض میں اس سے اگلی یا پچھلی تاریخ کو۔ دراصل بنیادی سوال یہ ہے کہ بنیادی، فطری اور سائنسی تقویم کس کو قرار دیا جائے؟ قرآنِ کریم، فرامینِ نبویہ، تاریخ اقوام اورزمینی حقائق کی رو سے یہ حیثیت صرف ہجری تقویم کو حاصل ہے اور وہی حقیقی مطلوب تقویم الٰہی ہے۔ موضوع تفصیل طلب ہے، اس لئے راقم کے مستقل مضمون کی طرف رجوع فرمائیے۔

پھر یہ امر واقعہ ہے کہ سائنسی اعتبار سے بھی دنیا بھر میں نہ تو ایک ہی حقیقی وقت میں عید ہوسکتی ہے اور نہ ہی کرسمس۔بلکہ اعتباری یا فرضی طورپر ہی اُنہیں ایک وقت میں منعقد کرنا ممکن ہے ۔ چنانچہ پاکستان میں جس وقت (7 بجے شام) چاند طلوع ہوتا اور نئے رات و دن کا آغازہوتا ہے، دنیا کے بعض خطوں (میکسیکو) میں اس وقت صبح کے 10 بج رہے ہوتے ہیں ۔ اس لحاظ سے فوری اطلاع مل جانے کے بعد بھی نہ تو وہاں روزہ رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی نمازِ عید پڑھی جاسکتی ہے۔ غرض طبعی حقائق کی روشنی میں یہ امر ناممکن ہے کہ حقیقی طورپر ایک ہی دن تہوار منائے جاسکیں ۔ اسی طرح دنیا بھر میں بعض ممالک میں کرسمس کا آغاز ہورہا ہوتا ہے اور بعض میں یہ ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ چنانچہ عملاً ایک ہی حقیقی وقت میں تہوار منعقد کرنے کا نظریہ حقائق سے لاعلمی اورایک جذباتی ڈھکوسلا ہے۔ البتہ اعتباری طورپر ایسا کرنا ممکن ہے، اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ یکم شوال کو ہی دنیا بھر میں عید الفطر ہوتی ہے جس طرح ۲۵؍دسمبر کو ہی اوقات کے کئی گھنٹوں کے فرق کے باوجود دنیا بھر میں کرسمس منائی جاتی ہے۔

اس طبعی حقیقت کا اِدراک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وحی کی روشنی میں حاصل تھا، لیکن آج کے ترقی یافتہ اور باشعور ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور اس بنا پر اسلام میں تبدیلی کا تقاضا کرنے والے اس سے نابلد ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسیوں فرامین میں روزہ کو چاند کی رئویت بصری پر منحصر قرار دیا ہے اور اس کو کسی سائنسی حساب پر منعقد نہیں کیا، کیونکہ سائنس لاکھ دعووں کے باوجود آج تک اسلامی تقاضوں کے مطابق درست ہجری تقویم تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال چھپنے والی تمام ڈائریوں میں ہجری تقویم میں لازماً خرابی مشاہدہ میں آتی ہے۔ اگر اس کا کوئی سائنسی نظام وضع کرلیا گیا ہے تو پھر اس کے مطابق چند سال درست طورپر پیش کرنے توبہر حال ضروری ہیں ۔

یہ تو سائنسی حساب پر اکتفا کرنے کا نظریہ ہوا، جس کے خلاف اُمت ِمسلمہ کا قدیم سے بقولِ علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ اجماع چلا آرہا ہے۔ علاوہ ازیں کونسل کا یہ قرار دینا کہ چاند کی ولادت پر قمری مہینے کا آغاز کیا جائے ، یہ بھی درست نہیں ۔ کیونکہ شرعی اعتبار سے قمری ماہ کا آغاز ولادتِ قمر کی بجائے رؤیت ِقمر سے ہوتا ہے۔ ولادتِ قمر تو محض ایک سائنسی حقیقت ہے جبکہ رؤیت قمرایک روزمرہ معمول ، واضح رہے کہ دین ہردور اور ہرفرد کیلئے ہے نہ کہ صرف سائنسدانوں کے لئے!
جہاں تک مقا م کے لحاظ سے مکہ مکرمہ کورؤیت میں مرکزی حیثیت دینے کی بات ہے تو یہ نظریہ بھی خلافِ اسلام ہے کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کریب رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام کی بجائے اپنی (یعنی مدینہ منورہ کی) رؤیت کا پابند بنایا ہے: ''ہهکذا أمرنا رسول اﷲ'' 20

اس موضوع پر مزید احادیث بھی موجود ہیں ، حدیث کی ہرکتاب میں اس موضوع کو زیر بحث لاکر یہی ثابت کیا گیا ہے کہ تمام دنیا تو کجا، عالم اسلام میں بھی ایک دن عید اور تہوار منعقد کرنا درست نہیں ۔ صرفکتب ِاحادیث کے عناوین ملاحظہ فرمائیے:
جامع ترمذی کا باب : باب ما جاء لکل أہل بلد رؤیتہم
صحیح مسلم میں باب بیان أن لکل بلد رؤیتهم وأنهم إذا رأوا الهلال ببلد لا یثبُت حکمه لما بَعُد منهم
صحیح بخاری رحمة اللہ علیه میں باب لکل بلد رؤیتهم (معروف نسخہ میں یہ باب نہیں )
سنن نسائی رحمة اللہ علیه میں باب اختلاف أهل الآفاق في الرؤیة
سنن ابوداود رحمة اللہ علیہ میں باب إذا رء ي الهلال في بلد قبل الآخرین بلیلة
صحیح ابن خزیمہ رحمة اللہ علیہ میں باب الدلیل علی أن الواجب علی کل أهل بلد صیام رمضان لرؤیتهم لا لرؤیة غیرهم
منتقی الأخبار میں باب الهلال إذا رأوہ أهل بلد هل یلزم بقیة البلادالصوم ( امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے)
'جامع الاصول' میں باب اختلاف البلد في الرؤیة (علامہ ابن اثیر رحمة اللہ علیہ )
مصنف ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ میں في القوم یرون الهلال ولا یرون الآخرون

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ بالا باب کے تحت کریب رحمة اللہ علیہ کی روایت کردہ حدیث ِابن عباسؓ کو ذکرکرکے فرمایا ہے : ''ابن عباسؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔''
سابقہ مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی اُمت ِمسلمہ کا متفقہ اجماعی موقف ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عبد البر رحمة اللہ علیہ نے اس پر اجماع ذکر کیا ہے کہ اَندلس اور خراسان کی رؤیت ایک دوسرے کے لئے قطعاً معتبر نہیں ہے۔21

علماے احناف میں سے علامہ زیلعی رحمة اللہ علیہ اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمة اللہ علیہ نے اختلافِ مطالع کو معتبر تسلیم کیاہے اور ندوة العلما، لکھنؤ کی مجلس تحقیقاتِ شرعیہ نے ۳،۴ مئی ۱۹۶۷ء کو اپنے فیصلہ میں اختلافِ مطالع کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ
''محققین احناف اور علماے اُمت کی تصریحات اور ان کے دلائل کی روشنی میں مجلس کی متفقہ رائے یہ ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطلع معتبر ہے۔'' 22

گویا بلادِ بعیدہ کی رؤیت کا باہمی اعتبار شریعت ِمطہرہ میں نہیں ہے،کجا یہ کہ دنیا بھر کو ہی ایک ہی رؤیت ِمکہ مکرمہ کا تابع کردیا جائے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے دنیا بھر میں نمازوں کے اوقات وہی کردیے جائیں جو مکہ مکرمہ کے ہیں تاکہ عالمی وحدت حاصل ہوجائے۔ جبکہ نمازوں اور تہواروں کے اوقات وایام مختلف ہونے میں ، جہاں مظاہر قدرت سورج اور چاند کو معیار ٹھہرایا گیا ہے، وہاں یہ بھی حکمت ہے کہ ہردن اور ہروقت میں دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا ہوتی رہے او رکرۂ ارضی کا کوئی لمحہ بھی اس دعا و مناجات سے خالی نہ جائے۔

اس موضوع پر راقم کا تفصیلی مضمون جس میں ہر پہلو سے دلائل جمع کردیے گئے، ملاحظہ فرمائیں : 23
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عبادات سے لے کر زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بے انتہا نظری عقائد وتصورات اور عملی اَحکام و شرائع موجود ہیں ۔ لیکن جمہوریت کے لازمے 'سیکولرزم' کو جاری وساری کرنے کے نتیجے میں آج مسلم ممالک میں عملاً اجتماعی، سماجی یا 'معاشرتی اسلام' کی بساط تقریباً لپیٹی جا چکی ہے او رعملاً ان جملہ معاشرتی میدانوں میں مغربی نظریات کی کارفرمائی ہی نظر آتی ہے۔مسلمانوں کی بطورِ قوم ذلت کی وجہ بھی مسلم ریاستوں کے اسی ظلم میں پوشیدہ ہے کہ اُنہوں نے ترقی کے نام پر اسلام کے نظامِ سیاست و عدالت، نظامِ معاشرت و معیشت اور نظامِ تعلیم واِبلاغ کو معطل کررکھا ہے۔ جب کسی میدان میں مسلم احکام ونظریات زیر عمل ہی نہ ہوں تو اس قوم کی کامیابی وکامرانی کی اُمید کرنا کارِ عبث ہے۔

ان معاشرتی نظاموں میں سے اکثر مسلم ممالک میں خاندانی نظام ہی ایسا واحد پہلو بچا ہے جس پر آج بھی جزوی طورپرعمل ہورہا ہے۔ اور اسلام پر عمل کرنے کے سبب یہی وہ واحد اجتماعی نظام ہے جس کی بنا پر آج ہم مطمئن وسرخرو ہیں اور اہل مغرب ہم پر رشک کرتے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو جس میدان میں بھی حقیقی طور پر نافذ کیا جائے گا،اس میں مسلمان دیگر اقوام کے لئے ایک قابل اتباع نمونہ قرار پائیں گے۔
لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ ایک ایسا خاندانی نظام جو آج ہماری لئے کافی حد تک باعث افتخار ہے، اس میں بھی ہم ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو اس کے جوہر کو ختم کرکے ہمیں مغرب کے ٹوٹے پھوٹے خاندانی ڈھانچے کے قریب تر لے آئے۔ نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا سفارشات کازیادہ ترتعلق خاندانی نظام سے ہی ہے جس میں ایسی 'اصلاحات' تجویز کی گئی ہیں جو دنیا میں غالب نظامِ کفر سے ممکنہ مماثلت حاصل کرنے کا مذموم ہدف رکھتی ہیں ۔

مزید برآں مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کی ممانعت اور دونوں کو اپنے اپنے دائرئہ کار میں کام کرنے کی تلقین بھی اسلام کے نظامِ معاشرت کا اساسی تصور ہے۔ ایسے ہی ہجری کیلنڈر کو عیسوی کیلنڈر کی طرح خود ساختہ اُصولوں پر اُستوا رکرنا بھی شریعت کے احکاماتِ صریحہ میں مداخلت ہے۔یاد رہے کہ تقویم بھی مسلم نظامِ معاشرت کا ایک مرکزی تشخص ہے۔ کونسل کی اکثر سفارشات اسی بچے کچھے مسلم نظامِ معاشرت کی مزعومہ اصلاح سے تعلق رکھتی ہیں ۔
الغرض مسلمانوں کے خاندانی نظام میں اہل مغرب کے تصورات کو پروان چڑھانا اور معاشرتی نظام میں سیکولر نظریات کو فروغ دینا نظریاتی کونسل کا ایسا سیاہ کارنامہ ہے جو اس کے مقام ومرتبہ پر کسی بد نما دھبے سے کم نہیں ہے!

اوپر ذکر کردہ دس میں سے پانچ سفارشات کے مختصر جائزہ سے واضح طورپر یہ علم ہوجاتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارشات شریعت ِاسلامیہ میں تحریف اور دخل اندازی کی موجب ہں ۔ یہ سفارشا ت اسلامی نظریاتی کونسل کی بجائے کسی اِلحادی ادارے یا فرد سے صادر ہوتیں تو مناسب ہوتا۔ ان حالات میں حکومت ِوقت کا فرض ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ایسے مغرب نواز سکالروں سے پاک کرکے، شرعِ متین کی حقیقی ترجمانی کرنے والے اہل علم کو یہاں متعین کرے، تاکہ ماضی کی طرح یہ ادارہ قوم اور حکومت کو شرعی اُمورمیں درست رہنمائی دے سکے۔
ان سفارشات کے مذکورہ بالا جائزہ کی روشنی میں پاکستان بھر کے دینی حلقوں اور اہل علم کا یہ مطالبہ سوفیصد درست ہے کہ کونسل کی تشکیل نو کی جائے، آئینی مطالبے پورے کئے جائیں اور اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک میں اسلام کے نام پر تہذیب ِافرنگ کے فروغ کا مذاق بند کیا جائے۔


حوالہ جات
1.شق 228 اے ، سی
2. روزنامہ جنگ: 20؍نومبر
3. 16؍نومبر
4. روزنامہ جنگ: 21؍نومبر
5. روزنامہ جنگ :19؍نومبر
6. جنگ: 21؍نومبر
7. 25؍نومبر
8. طلوعِ اسلام: اکتوبر 1950ء ص 26
9. مقامِ حدیث': ص 130
10. طلوع اسلام: جون 1959ء
11. معراجِ انسانیت: ص625، 626
12. سنن دار قطنی  3؍280
13. سنن دارقطنی: 3757
14. صحیح مسلم: 1218
15. دیکھئے برطانوی قانون Matrimonial Causes Act 1973 کی دفعہ 25
16. صحیح بخاری: روایت حضرت ابوہریرہؓ: رقم 1088
17. صحیح بخاری: 1868
18. جامع ترمذی:1171
19. الموسوعة الفقہیة : 25؍37
20. صحیح مسلم:1819
21. الاستذکار: 10؍30
22. جدید فقہی مسائل: 1؍ 89 تا94
23. ہجری تقویم اور مسئلہ رؤیت ِہلال' شائع شدہ 'محدث': ستمبر 2007ء

 


 

i. بطورِ مثال حالیہ سفارشات کے حق میں غامد ی صاحب کے شاگردِ رشید خورشید ندیم کے روزنامہ 'جنگ' میں دو کالم اورروزنامہ پاکستان میں جناب افضال ریحان کا تین قسطوں پر مشتمل تفصیلی مضمون ملاحظہ کریں۔