والدین کا مقام و مرتبہ اور موجودہ دور کی بے حسی
رمضان المبارک کی بابرکت اور پُررحمت ستائیسویں رات کی گھڑیوں میں مسلمان اپنے ربّ کی رحمتوں ، مغفرتوں اور برکتوں کو سمیٹ رہے تھے کہ انہی لمحات میں سرگودھا کے بدبخت نے اپنے باپ کوعید کی خریداری کے لیے پیسے نہ ملنے پر قتل کردیا۔
اسی طرح عید کے آٹھ روز بعد کراچی کے پوش علاقہ گلبرگ میں اعتزاز شاہ نامی شخص نے اپنے والدین ،بہن اور بھانجے کوموت کے گھاٹ اُتار دیا۔
2008ء کے گزرے 10 ماہ میں کچھ ایسے ہی والدین کے ساتھ بدسلوکی اور قتل کے واقعات سامنے آئے ہیں جو حقیقی طور پر مسلم معاشرے میں عدمِ برداشت،عدمِ احترام اور والدین کے ساتھ بدسلوکی کی واضح عکاسی کرتے ہیں ،حالانکہ اس سال بھی ۱۱؍ مئی کو ماؤں کا عالمی دن اور 15؍ جون کو فادر ز ڈے منایا گیااورپوری دنیا کے میڈیا پر مختلف انداز میں والدین کی اہمیت اور مقام اور مرتبے پر روشنی ڈالی گئی۔
والدین کے ساتھ بدسلوکی کے چند واقعات درج ذیل ہیں :
جولائی کے پہلے ہفتے میں ایک نہایت ہی افسوسناک خبر آئی کہ پنڈی کے رہائشی، سٹیشنری کا کاروبار کرنے والے حاجی یوسف نامی بدبخت نے اپنی ماں جیسی عظیم ہستی کے ساتھ ناروا سلوک کی انتہا کردی کہ چوراسی سالہ فالج زدہ کو ایک بدبودار اور بوسیدہ کمرے میں بند رکھا اور اس کی مناسب دیکھ بھال سے قصداً کنارہ کشی اختیار کی۔ ماں کے جسم کے مختلف حصوں میں کیڑے پڑ گئے۔یہ خبر پاکستان کے اُردو اور انگریزی ٹی وی چینلز پر نشرہوئی اور بعدمیں اخبارات میں بھی چھپی۔
17؍فروری 2008ء کو نوائے وقت میں یہ خبر چھپی کہ منڈی بہاؤالدین میں بیٹوں نے باپ کو دوسری شادی کرنے پرقتل کردیا۔ ایسے ہی ہارون آباد کی ایک بدبخت بیٹی عصمت بی بی نے جائیداد کے تنازعہ پر باپ کو ڈنڈے کے وار کرکے قتل کردیا۔
اسی طرح 3؍ فروری 2008ء کو نوائے وقت میں لکھا ہے کہ لاہور میں ایک بیٹے نے جیب خرچ نہ دینے پر ماں کو اس وقت قتل کردیا جب وہ اس کے لیے روٹی پکا رہی تھی۔24؍ فروری 2008ء فیصل آباد میں بیٹے نے بیوی سے مل کر ماں کو قتل کردیا۔اسی طرح ۱۰؍ جولائی کے دن اخبار میں دو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے ایک واقعہ میں بیٹے نے ماں کو اینٹ مار کر مار دیا اور دوسرے میں نافرمان بیٹوں نے جائیداد ہتھیانے کے لیے والدین پر تشدد کیا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں ۔یہ سینکڑوں واقعات میں سے چند ایک ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں اور بے شمار ایسے واقعات بھی ہیں جو بوجوہ رپورٹ نہیں ہوسکتے ۔
والدین انسان کے وجود کا ظاہری سبب ہیں اور ان کے بغیر نہ کوئی خاندان اور نہ ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ والدین مقدس رشتہ ہے اور والدین کے نہ صرف بہت سے اسلام نے حقوق متعین کئے ہیں ، ان کو احترام کا مقام دیاہے اوروالدین کی نافرمانی کو سنگین جرم قرار دیاہے بلکہ اسلام سے پہلے آسمانی مذاہب میں بھی احترام والدین کا تصورموجود ہے۔'عہدنامہ عتیق' کے باب خروج میں لکھا ہے :
''تو اپنے ماں باپ کو عزت دے تاکہ تیری عمراس زمین پر جوخداوندتجھے دیتا ہے، دراز ہو۔'' 1
اسی طرح بائبل والدین کی نافرمانی کو جرم قرار دیتی ہے اور اس پر کڑی سزا تجویز کرتی ہے۔ والدین کی اہمیت کے پیش نظر قرآن وسنت نے والدین کے مسئلہ کو بڑی تفصیل سے بیان کردیاہے اور حقوق کی ترتیب متعین کرتے ہوئے والدین کے حقوق کو سرفہرست قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے:
وَٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوابِهِۦ شَيْـًٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا﴿٣٦﴾...سورة النساء
''اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور پاس رہنے والے پڑوسی کے ساتھ اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور مسافر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ ہیں ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپسند نہیں کرتا ہے جواپنے کو بڑا سمجھتے اور شیخی مارتے ہوں ۔''
يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍۢ فَلِلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْر فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ ﴿٢١٥﴾...سورة البقرة
''لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپؐ فرما دیں کہ جو کچھ مال تم کو خرچ کرنا ہو تو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا، محتاجوں اور مسافر کااور جو نیک کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔''
ایک مقام پر والدین کو اُف تک کہنے سے اور جھڑکنے سے منع فرمایا، ارشادِ ربانی ہے:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِى صَغِيرًا ﴿٢٤﴾...سورة اسراء
''اور تیرے ربّ نے حکم دیا کہ تم صرف اس کی ہی عبادت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف نہ کہو (یعنی 'ہوں 'بھی مت کرنا) اورنہ ہی ان کوجھڑکنا اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت و محبت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرما جیسے اُنہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی۔''
قرآن نے تمام انبیاے کرام کے پیغامِ رسالت میں والدین کی برتر حیثیت کو بیان کیا ہے اور مطلق احکام کی صورت میں بھی والدین کو توحید کے بعد سب سے اونچا درجہ دیا ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَانًا...﴿٨٣﴾...سورة البقرة
''اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے قول و قرار لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرنا اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت کرنا۔''
قرآن مجید نے والدین سے حسنِ سلوک کا نہ صرف حکم الٰہی بیان کیاہے بلکہ حسن سلوک کے لیے عقلی دلیل بھی مہیا کی ہے:
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ إِحْسَـٰنًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَٰلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْضَىٰهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّيَّتِىٓ ۖ إِنِّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴿١٥﴾...سورة الاحقاف
'' اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیاہے۔ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اوربڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے)یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس برس کو پہنچتا ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار! مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی نعمتوں کاشکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطافرمائی ہیں اور میں نیک کام کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے لیے خیر پیداکردیجئے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتاہوں اور میں فرمانبردار ہوں ۔''
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے والدین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا خصوصی ذکر کیا: وَبَرًّۢا بِوَٰلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ﴿١٤﴾...سورة المریم
''اور وہ اپنے والدین کے خدمت گزار تھے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے نہ تھے۔''
عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بچپن میں جو گفتگو کی تھی، اس میں بھی والدہ سے حسنِ سلوک کا خاص تذکرہ ہے:
وَجَعَلَنِى مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَـٰنِى بِٱلصَّلَوٰةِ وَٱلزَّكَوٰةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴿٣١﴾ وَبَرًّۢا بِوَٰلِدَتِى وَلَمْ يَجْعَلْنِى جَبَّارًۭا شَقِيًّا ﴿٣٢﴾...سورة المریم
''اورمجھ کو برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا جب تک میں دنیا میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والا ہوں اور مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا۔''
والدین سے حسن سلوک پر احادیث ِ نبویہ ؐ
''حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہوئی۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ فرمایا جس نے ماں باپ میں سے ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایااور پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔'' 2
''حضرت مغیرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ نے تم پرحرام ٹھہرائی ہے ماؤں کی نافرمانی کرنے اور بیٹیوں کو زندہ دفنانے کو حرام ٹھہرایا ہے۔'' 3
''حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا کہ آدمی اپنے والدین کو کیونکر گالی دے سکتا ہے۔ تو جواب دیا کہ ایک شخص کسی آدمی کے والد کو گالی دیتا ہے ، جواباً وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔'' 4
ایک حدیث میں والد کی رضااور خفگی کو ربّ کی رضا اور خفگی قرار دیا گیاہے:
''حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ربّ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔'' 5
اور نیکیوں میں سے سب سے بڑی نیکی ان کے دوستوں سے تعلق کو قرار دیاگیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلا شبہ نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی باپ سے محبت رکھنے والوں سے اس کے چلے جانے کے بعد تعلق رکھنا ہے۔''6
قرآن و سنت کے مطالعہ سے والدین کی عظمت و حیثیتاور ان کے مقام و مرتبہ کاپتہ چلتا ہے۔ قرآن پاک میں توحید کے بعد والدین کو اونچا درجہ دیا گیاہے۔ ایسے ہی حدیث میں بھی اس کی عملی تشریح کی گئی ہے۔
اسلام نے والدین کو جو حقوق دیئے ہیں ،ان کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:
- اخلاقی
- .قانونی
1. اخلاقی حقوق
اخلاقی حقوق میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو اداکرکے ایک اچھامسلمان (i) کہلوایا جاسکتا ہے، اس میں تین چیزیں شامل ہیں :
حسن سلوک
اطاعت
نماز میں دُعا
اطاعت اور حسن سلوک کے بارے میں مذکورہ بالا آیات و احادیث شاہد ہیں ۔ اس میں سے ماں کا درجہ مقدم ہے جیسے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ
'' ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: تیری ماں ، پوچھاگیا پھر کون؟ فرمایا:تیری ماں ، پوچھا گیا پھر کون؟فرمایا: تیری ماں ، پوچھا گیا پھر کون؟ فرمایا:تیرا باپ7
والدین کی خدمت اور حُسنِ سلوک اور اطاعت جہاد سے بھی اولیٰ ہے :
''حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں جہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: تمہارے والدین ہیں ؟ جواب ملا، ہاں حیات ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ان کی خدمت میں جہاد کرو۔'' 8
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ہجرت اور جہادکے لیے بیعت کرناچاہتا ہوں اوراللہ سے اجر کی امید رکھتا ہوں ۔آپ نے فرمایا:کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں ! آپؐ نے فرمایا: کیا تو اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں ! آپؐ نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس جاکر ان کی خدمت کر۔''9
حسن سلوک کو حقوق والدین میں نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حُسن سلوک کے دائرے کو حقیقی والدین سے بڑھا کر رضاعی والدین تک وسیع کیاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ان کی رضاعی والدہ تشریف لائیں تو آپؐ نے چادربچھا دی اور اس پراُنہیں بٹھایا۔10
نماز میں یا ویسے بھی والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دیا ہے کہ اپنے پروردگار سے ان کے لیے دعا کرتے رہو :
''اے میرے ربّ! میرے والدین پر رحم فرما جیسے اُنہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم فرمایا (یعنی پالا پوسا)۔'' (بنی اسرائیل:24)
ایک اور مقام پر قرآن میں والدین کے لئے حضرت ابراہیم کی دعا یوں ذکر ہوئی ہے :
رَبَّنَا ٱغْفِرْ لِى وَلِوَٰلِدَىَّ...﴿٤١﴾...سورة ابراہیم '' میری اور میرے والدین کی مغفرت فرما۔''
قانونی حقوق
ان حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی اولاد پر لازم ہے اوراس میں کوتاہی قانوناً جرم ہے۔ اسلام ان حقوق کے تعین اورادائیگی کاپورا اہتمام کرتاہے جو درج ذیل ہیں :
میراث
نفقہ
والدین کی نافرمانی کی حرمت
میراث کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:
وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ...﴿١١﴾...
''اور ماں باپ، دونوں میں سے ہرایک کے لیے میت کے ترکہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ ہے۔''
b نفقہ کے بارے میں قرآنِ مجید میں ہے:
يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍۢ فَلِلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ ﴿٢١٥﴾...سورة البقرة
''لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ کیاچیز خرچ کریں ؟ آپ بتا دیں کہ جوکچھ مال تم کو خرچ کرنا ہو، ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کااور باپ کے بچوں کا، محتاجوں کا اور مسافر کا اورجو نیک کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔''
حدیث شریف میں حضرت عمروؓ بن العاص سے مروی ہے کہ
'' ایک شخص نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیاکہ میرے پاس مال ہے اور صاحب ِاولادہوں اورمیرا باپ حاجت مند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بھی اپنے باپ کا مال ہو اور تمہاری متاع بھی۔''11
اسی طرح ایک دوسری روایت ہے:
''عمرو بن شعیب روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرا والد میرے مال کا محتاج ہے تو آپؐ نے فرمایا: تم اور تمہارا مال، تمہارے والد کا ہے پھر آپؐ نے فرمایا: تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔'' 12
والدین کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو اولاد پر نان ونفقہ کا انتظام فرض ہے جس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مزید تفصیل کیلئے :'13
والدین کی نافرمانی : والدین کی نافرمانی کے بارے میں ایک روایت اس طرح ہے۔ حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، والد جنت کے دروازوں کادرمیانی حصہ ہے۔ اگر چاہے تو اس دروازے کو ضائع کردے یاحفاظت کرے۔ ''14
خلاصہ
موجودہ دورمیں معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہے اور مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے روز والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب ایک معمول بن چکاہے۔ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے بڑی نیکی والدین سے اچھا سلوک ہے جسے مسلمان آج فراموش کرچکے ہیں ۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حقوق العباد کے متعلق اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور خصوصاً والدین کے مقام و مرتبہ کے متعلق جو احکامات ہیں ، اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مختلف پروگراموں کے ذریعے عام کرے اورمعاشرے کے تمام طبقات اس معاملے میں اہم کردار اداکریں تاکہ مسلم معاشرہ میں والدین اور بزرگوں کو ان کا جائز مقام مل سکے۔
حوالہ جات
1. بائبل: خروج 20
2. صحیح مسلم:6511
3. صحیح بخاری:5975
4. صحیح بخاری:5973
5. سنن ترمذی: 1899
6. صحیح مسلم:6514
7. صحیح مسلم:6500
8. صحیح مسلم:6504
9. صحیح مسلم:6507
10. صحیح ابن حبان:4218
11. ابن ماجہ:2291
12. ابن ماجہ:2290
13. محدث 'جولائی اوراکتوبر 2008ء، ص 36 ،31
14. سنن ترمذی:1900
i. والدین کے بعض حقوق کو اخلاقی قرار دے کر اسے اچھا مسلمان بننے سے مشروط کردینا درست طرزِ فکر نہیں بلکہ والدین کی نافرمانی کو شریعت نے کبیرہ ترین گناہ قرار دیا ہے، اور مسلم حکومت کا یہ فرض ہے کہ معاشرے میں گناہوں کی روک تھام کرے، نہ کہ اس حق کو محض اخلاقی قرار دے کر آخرت پر اس کا معاملہ چھوڑ دیا جائے گا۔ یہی کیفیت والدین سے حسن سلوک کی بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت سامنے آنے پر اولاد کو اپنا رویہ بدلنے کی عملاً تلقین کی۔ غرض شرعی احکام کو اخلاقی حقوق قرار دے کر اس کو حکومتی کنٹرول سے نکالنا درست نہیں۔ اسلام میں منکر کی روک تھام تو حکومت سے بڑھ کر ہر مسلمان پر حسب ِاستطاعت فرض ہے۔حسن مدنی