جب تصویر کی آفت نہ تھی!

علم قیافہ وفراست کا عجیب واقعہ
ہادئ برحق جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوعِ انسان کی دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیے جوشرعی، اخلاقی اور معاشرتی اُصول و ضوابط پیش فرمائے ہیں ،اُنہیں 'عقل عیار' پر پرکھ کر بے قیمت بنا دینا بہت بڑی ضلالت اور گھاٹے کاسودا ہے۔ لوگ اس راہ اور اس ضابطہ سے اِعراض کر کے کسی صورت بھی امن و سکون نہیں پاسکتے، خواہ مادی اعتبار سے کتناہی مال کیوں نہ جمع کرلیں ، یااسلحہ کے زور پرقوموں کوفتح کرلیں یافکری اعتبار سے کیسے ہی فلسفے بھگارلیں !
ان تعلیمات میں سے ایک ارشاد آپ علیہ الصلوٰة والسلام کا تصویر کے بارے میں ہے کہ ہر ذی روح شے کی تصویر سے آپ نے صراحت کے ساتھ منع فرمایاہے۔جس جگہ میں تصویر ہو، وہاں رحمت کافرشتہ نہیں آتا۔ یہ کسب اور کاروبار لعنت کا کام ہے۔

ان شرعی احکام و مسائل پر عمل پیرا ہونا اُن بندوں کے لیے بے حد آسان ہے جن میں اپنے اللہ کے ربّ ہونے، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی اور رسول ہونے اور اسلام کے دین حق ہونے کا یقین ہو۔ اور یہ کہ فرشتے بھی کوئی چیز ہیں ، ان کی اپنی اہمیت ہے اور ہمیں ضرورت ہے کہ وہ ہم پر، ہمارے گھروں اور دکانوں میں نازل ہوں اور اگر خدانخواستہ ایمان کی یہ بنیاد کمزور ہو تو پھر حیلے بہانے سے ان تعلیمات کو 'روشن خیالی' سے منور کرنے کی سو راہیں نکل آتی ہیں ۔ ونسأل اﷲ العافیة... اور پھر منفی نتائج کی ذمہ داری سو فیصد ہم حیلہ باز لوگوں ہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کسی طرح بھی ظالم نہیں !!

تصویر کے بارے میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی کتاب اللباس میں پورے دس باب ذکر کئے ہیں ۔(1) معلوم کیا جانا چاہئے کہ تصویر کی ضرورت کے اسباب جو آج ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں یاکردیئے گئے ہیں ، کیاکل ماضی میں نہ تھے؟ قانون اور معاشرتی ضروریات یقینا پہلے بھی ایسی ہی تھیں تو لوگ اپنی یہ ضروریات کس طرح پوری کرتے تھے جبکہ تصویر نہ تھی؟ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ 'علم قیافہ اور علم فراست' سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور پر یہ چیزیں ان کے مقاصدپورا کرتیں ۔

جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی ...أھون البلیتین... کے طور پر ھنیئًا مریئًابنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی علم فراست کو ان میں سے اُٹھا لیا۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری کی کتاب المغازي میں باب قتل حمزة بن عبد المُطلب(2)میں آیا ہے بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک، دانا اور صاحب ِفراست ہوتے تھے۔

حضرت معاویہؓ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کے عبیداللہ بن عدی غزوئہ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر ے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں ، وہ یہیں کہیں رہتا ہے اور اس سے شہادتِ حمزہؓ کا قصہ براہِ راست معلوم کریں گے۔(3) ہم پوچھتے پوچھتے آگے بڑھے تو ہمیں ایک آدمی نے بتایا کہ وہ اپنے محل کے سائے میں بیٹھا ہے اور دیکھنے سے ایسے لگتا ہے جیسے کہ پانی کی کوئی سیاہ مشک ہو۔(4) ہم جلدی ہی اس کے پاس جا پہنچے، ہم نے سلام کہا اور اس نے سلام کا جواب دیا۔
عبید اللہ نے کہا: وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟
عبید اللہ نے جب ان سے یہ سوال کیا تو اس وقت اُنہوں نے ڈھاٹے سے اپنا سر اور منہ لپیٹا ہوا تھا اور وحشی ان کی صرف آنکھیں یا پاؤں ہی دیکھ سکتا تھا۔ وحشی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: نہیں ، البتہ اتنا یاد پڑتا ہے کہ مکہ میں عدی بن خیار نے ابوالعیص کی بیٹی اُمّ قتال نامی ایک عورت سے شادی کی تھی۔ اس عورت نے ایک بچے کو جنم دیا تو مجھے کوئی دایہ ڈھونڈھنے کاکہا گیا۔چنانچہ جب دایہ آئی تو میں نے اس کابچہ اٹھا کر اس دایہ کے حوالے کیاتھا۔ مجھے لگتا ہے کہ تیرے یہ پاؤں اسی جیسے ہیں ۔ گویا اس نے مجھے بخوبی پہچان لیا اور ٹھیک پہچانا۔(5) پھر عبیداللہ نے اپنے سر اور منہ سے اپنی پگڑی ہٹا لی اور پوچھا کہ کیا تم ہمیں حمزہؓ کے قتل کی تفصیل بیان کرسکتے ہو؟ ... اس نے کہا:کیوں نہیں ؟

اس نے تفصیل بتائی کہ مکہ کے طعیمہ بن عدی کوجناب حمزہؓ نے بدر میں قتل کیا تھا۔ میرے مالک جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا:اگر تو میرے چچا کے بدلے حمزہؓ کو قتل کردے تو تو آزاد ہوگا۔ چنانچہ عینین یعنی اُحد کے سال جب قریشی جنگ کے لیے نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ میدان میں جب صفیں آمنے سامنے ہوئیں تو قریش کی طرف سے سباع بن عبدالعزیٰ خزاعی نے مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا تو حمزہؓ بن عبدالمطلب اس کے مقابلے میں نکلے، اور بولے: ارے سباع! اوئے ابن اُمّ انمار کے بیٹے، جو عورتوں کی فرجیں کاٹتی ہے(6) تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتاہے۔چنانچہ حمزہؓ نے ایسا وارکیا کہ وہ گذشتہ کل (یعنی قتل ) ہوگیا اور میں حمزہؓ کی گھات میں ایک چٹان کے نیچے چھپا ہوا تھا۔

جب حمزہ میرے قریب آئے تو میں نے اس کی ناف کے نیچے کانشانہ لے کر اپنا بھالا دے مارا جو ان کی رانوں کے درمیان سے آرپار ہوگیا، اور یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات تھے۔ اور پھر میں لشکر گاہ میں اطمینان سے جابیٹھا، کیونکہ میرا مقصد پورا ہوگیا تھا اور مجھے آزادی مل گئی۔ پھر قریشی مکہ واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ آگیا۔ پھر میں مکہ ہی میں رہنے لگا حتیٰ کہ فتح مکہ کے موقعہ پر یہاں اسلام کی اشاعت ہوگئی تو میں طائف چلا گیا۔

بہت حیران پریشان تھا، سوچتا تھاکہ شام یایمن وغیرہ کی طرف نکل جاؤں ۔ میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھے کہا:تجھے افسوس! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کی قسم! جو کوئی اس کے دین میں داخل ہوجائے اور حق کی شہادت کااقرار کرلے تو وہ اسے کسی طرح قتل نہیں کرتے۔

چنانچہ اہل طائف نے اپنا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا اور مجھے بتلایاگیا کہ محمدؐ قاصدوں کے درپے آزار نہیں ہوتے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ چلا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ جب آپؐ نے مجھے دیکھا تو بولے:وحشی ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ۔ پوچھا: کیاتو نے حمزہ ؓ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا:بات ایسے ہی ہے جیسے آپ کو پہنچی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تو اپنا چہرہ مجھ سے چھپا نہیں سکتا؟

پھر میں وہاں سے نکل آیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب نے خروج کیا تو میں نے اپنے دل میں کہا: کیوں نہ ہو کہ میں اس کی طرف نکلوں ، اور ہوس کے تو اسے قتل کردوں شاید اس طرح میرے سنگین جرم قتلِ حمزہ کی کوئی تلافی ہوجائے۔

چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک ٹوٹی ہوئی دیوار میں کھڑا ہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی سیاہی مائل اونٹ ہو، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، تو میں نے اس کی چھاتی کا نشانہ لے کر اپنابھالا مارا جو اس کے کندھوں کے آرپارہوگیا اور پھر قریب سے ایک انصاری اُچھلا اور اس نے تلوار سے اس کی کھوپڑی تن سے جدا کردی (اور یہ ابودجانہؓ تھے) پھر ساتھ کے گھر پر سے ایک لونڈی نے پکار لگائی۔ ہائے افسوس امیرالمؤمنین! ایک کالے غلام نے اسے قتل کرڈالا۔ وحشی نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کے ایک بہترین بندے کو قتل کیا تھا تو پھر سب سے بدترین آدمی کا کام بھی میں نے ہی تمام کیا ۔

ہمارااستدلال اس واقعہ سے ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام اور ناجائز ٹھہرایا ہے، اس کا بدل بلکہ نعم البدل حلال اور پاکیزہ صورت میں یقینا مہیا فرمایا ہے۔ اب لوگوں کاانتخاب ہے کہ وہ حلال کی طرف راغب ہوتے ہیں یا حرام کی طرف۔

صحابہ میں سیدنا عمر بن خطابؓ کے متعلق آتا ہے، بہت بڑے صاحب ِفراست اور صاحب قیافہ تھے اور یہودیوں میں مجزز مدلجی کا واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ اس نے سیدنا زیدؓ اور اسامہؓ کے پاؤں دیکھ کر کہہ دیا تھاکہ إن ھذا الأقدام بعضھا من بعض۔ یہ قدم ایک دوسرے میں سے ہیں حالانکہ حضرت زیدؓ گورے رنگ کے اور جناب اُسامہؓ کی رنگت سیاہ تھی۔

یاد رہے کہ تصویر سے بھی زیادہ آج کے دور میں جس شے پر کسی فرد کی شناخت میں اعتبار کیا جاتا ہے وہ فنگر پرنٹس (انگلیوں کے نشانات) ہیں اور لازمی و ضروری کاغذات میں انہی کی بنا پر شہادت ثبت کی جاتی ہے، بلکہ شناختی علامات میں سے سب سے بڑھ کر قابل اعتماد یہی علامت ہے۔ اگر اس علم اور فن کا اِحیا کیاجائے تو مسلمان مرد اور خواتین تصویر کی قباحت سے یقینا بچ سکتے ہیں ۔ وصلَّی اﷲ علی النبي محمد وعلی آله وصحبه أجمعین


حوالہ جات

1. کتاب اللباس: باب التصاویر،باب عذاب المصّورین، باب نقض الصُور، باب ماوطٔ من التصاویر، باب من کرہ القعود علی الصُور، باب کراھیة الصلاة في التصاویر، باب لاتدخل الملائکة بیتًا فیه صورة، باب من لم یدخل بیتًا فیه صورة، باب من لعن المصّور، باب من صّور صورة ... احادیث نمبر 5949 تا 5963
2. حدیث 4072... نیز البدایہ والنہایہ ج4 ص17
3. محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جو بات اُنہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنی اور معلوم کی جائے جو صاحب ِواقعہ ہو۔
4. البدایہ والنہایہ میں ہے: 'گدھ' کے مشابہ بیان کیا گیاہے۔
5. اور یہ بچہ اس نے تقریباً پچاس سال پہلے دیکھا تھا۔ (فتح الباری)
6. یعنی وہ لڑکیوں کے ختنے کرتی ہے اور یہ عمل عرب میںہوتا ہے اور اسلام نے بھی اسے باقی رکھا ہے۔