دینی مقاصد کیلئے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال
محدث کے تصویر نمبر کی اشاعت کے بعد بعض اہل علم نے اپنے موقف ارسال کئے۔ زیر نظر شمارہ میں اس نوعیت کے تین مضامین بالترتیب شائع کئے جارہے ہیں ، جن میں باہم متضاد موقف بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں پیش کردہ بعض دلائل کا تصویر نمبر میں بھی جائزہ لیا جا چکا ہے۔ اس بحث میں جو اہل علم مزید حصہ لینا چاہیں ، ان کے لئے 'محدث' کے صفحات حاضر ہیں ۔ چند شماروں میں ان تکمیلی مضامین کی اشاعت کے بعد ان شاء اللہ ان پر ایک جامع تبصرہ پیش کیا جائے گا تاکہ قارئین انتشارِ فکری کی بجائے ایک واضح نتیجہ تک پہنچ سکیں ۔
مختلف اخبارات میں اے پی پی کے حوالہ سے خبر شائع ہوئی ہے کہ گزشتہ دنوں مکہ مکرمہ میں 'انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ' کے سربراہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں تحفظ ِختم نبوت کے حوالہ سے ٹی وی چینل کے اِجرا کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کے ا نتظامات کی تیاری ہو رہی ہے۔
دینی مقاصد کے لیے ٹی وی چینل کی ضرورت ایک عرصہ سے اس پس منظر میں محسوس کی جا رہی ہے کہ یہ آج کے دور میں اِبلاغ کا سب سے مؤثر اور وسیع ذریعہ ہے اور مسلمانوں اور مغرب کے درمیان نظریاتی اور تہذیبی کشمکش میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل استعمال ہونے والا سب سے زیادہ مؤثر اور خوفناک ہتھیار ہے جس کے ذریعے اسلام کے عقائد واحکام کے خلاف نفرت انگیز مہم دن بدن وسیع ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں بالخصوص دینی حلقوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہتھیار کا جواب ہتھیار سے ہی دیا جا سکتا ہے اور جنگ کامسلمہ اُصول ہے کہ دشمن کے پاس جو ہتھیار موجود ہو، اس سے زیادہ مؤثر ہتھیار حاصل کرنا یا کم از کم اس درجے کا ہتھیار مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔
چند سال قبل ہم نے بھی 'ورلڈ اسلامک فورم' کے تحت اس کے لیے کوشش کی تھی کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور تحفظ ودفاع کے لیے عالمی سطح پر کوئی ٹی وی چینل قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے لندن میں متعدد سیمینار منعقد کیے اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف نے متعدد دیگر علماے کرام کے ساتھ مل کر اس کے لیے لابنگ کی، باقاعدہ اس کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی اور مسلسل مہم چلائی، مگر ہم وسائل اورانتظامات کے تقاضے پورے نہ کر سکنے کی وجہ سے اس میں کامیاب نہ ہوئے، اس لیے اب اگر مولانا عبدالحفیظ مکی اور ان کے رفقا اس کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں اس پر بے حد خوشی ہے اور ہم ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں ۔ آمین یاربّ العالمین!
جن دنوں ہم 'ورلڈ اسلامک فورم' کے تحت اس کے لیے کوشش کر رہے تھے تو بہت سے دوستوں نے ٹی وی کے جواز اور عدم جواز کے حوالہ سے سوال اُٹھایا تھا مگر اس وقت ہم نے یہ عرض کیا کہ جہاں اجتماعی ضروریات کی بات ہو اور خاص طور پر حالت ِجنگ کا مرحلہ ہو تو ضروریات کا ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جہاں فقہاے کرام الضرورات تبیح المحظورات کے اُصول کے تحت جواز اور عدمِ جواز سے چشم پوشی کر لیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ اسلام نے جہاد وقتال اور جنگ کے جو اُصول وضوابط اور احکام وقواعد وضع کیے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جو واضح ہدایات دی ہیں ، ان کی روسے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کا کوئی جواز نہیں بنتا اور بلاتفریق پوری آبادی کو تہس نہس کر دینے والے یہ ہتھیار اسلام کے اُصول جنگ سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے، لیکن چونکہ یہ ہتھیار دشمن کے پاس موجود ہے اور ان سے بچائو کے لیے ہمارے پاس بھی اس قسم کے ہتھیاروں کی موجودگی ضروری ہے، اس لیے پوری دنیاے اسلام جواز اور عدمِ جواز کی بحث میں پڑے بغیر ایٹمی قوت کو بطورِ ہتھیار اختیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور کہیں سے بھی یہ آواز نہیں اُٹھ رہی کہ چونکہ ایٹمی ہتھیار اسلام کے اُصولِ حرب اور جناب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات کے معیار پر پورے نہیں اُترتے، اس لیے ان کے حصول کی کوشش ترک کر دی جائے بلکہ دینی حلقے عالم اسلام اور مسلم ممالک پر ایٹمی قوت بننے کے لیے زیادہ زور دے رہے ہیں ۔
اسی طرح اگر ٹی وی اسکرین کو بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ اور سب سے مؤثر طور پر استعمال ہونے والا ایک ہتھیار سمجھ لیا جائے تو میرے خیال میں جواز اور عدم جواز کی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، کیونکہ آج کے دور میں فقہاے کرام کے مسلمہ اُصول الضرورات تبیح المحظورات کے اطلاق کا اس سے زیادہ صحیح محل اور مصداق شاید اور کوئی معاملہ نہ ہو۔
مگر چونکہ ان دنوں علمی حلقوں میں ٹی وی اسکرین کے جواز اور عدم جواز کی بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے اصحابِ علم اور اربابِ فتویٰ اس کے بارے میں اپنا اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ، اس لیے ہم بھی اس حوالے سے چند 'طالب علمانہ گزارشات' اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں ، اس اُمید پر کہ اصحابِ علم ودانش خالصتاً علمی بنیاد پر اور ملی ضروریات کے پیش نظر ان معروضات کا جائزہ لیں گے اور اس بحث کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
ٹی وی اسکرین کے عدمِ جواز پر اصولی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ تصویر ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کو صراحتاً حرام قرار دیا ہے، اس لیے یہ بھی تصویر کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے۔ یہاں دوباتوں پر غور ضروری ہے: ایک یہ کہ تصویر کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور دوسری یہ کہ کیا ٹی وی اسکرین پر دیکھی جانے والی انسانوں کی نقل وحرکت واقعتا تصویرکے حکم میں ہے؟
1 جہاں تک تصویر کامسئلہ ہے، اس میں کوئی کلام نہیں کہ تصویر حرام ہے اور اُمت کے اہل علم کا کوئی طبقہ بھی اُصولی طور پر اس کے جواز کاقائل نہیں ہے، لیکن کیا تصویر کی اس کی حرمت کا اطلاق تصویر کی تمام صورتوں پر ہوتا ہے؟ اس میں بہرحال اختلاف موجود ہے اور یہ اختلاف حضرات صحابہ کرامؓ کے دور سے چلا آ رہا ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت زید بن خالد جہنیؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد روایت کیا کہ جس گھر میں تصویر ہو، اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے، لیکن بسر بن سعیدؓ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت زید بن خالد جہنیؓ بیمار ہوئے اور ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو ان کے دروازے پرلٹکے ہوئے پردے پر تصویریں تھیں ۔ میں نے وہاں موجود اُمّ المومنین حضرت میمونہؓ کے ربیب حضرت عبیداللہ سے دریافت کیا کہ حضرت زیدبن خالد جہنی نے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہم سے یہ بیان کیا تھا، پھر یہ تصویروں والا پردہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم نے حضرت زید بن خالد ؓ سے مذکورہ ارشادِ نبوی سنتے وقت یہ جملہ نہیں سنا تھاکہ إلا الرقم في الثوب یعنی وہ تصویر جو کپڑے میں نقش ہو، وہ ممانعت سے مستثنیٰ ہے۔
اسی طرح ترمذی شریف میں روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعد، حضرت ابوطلحہ انصاری کی بیمار پرسی کے لیے گئے تو اُنہوں نے وہاں موجود ایک صاحب سے کہا کہ ان کے نیچے جو گدا بچھا ہوا ہے، اسے وہ نکال دے۔ حضرت سہلؓ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ اس میں تصویریں ہیں ۔ حضرت سہل نے فرمایا کہ کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کی حرمت بیان کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا تھا کہ إلا الرقم في الثوب کہ کپڑے پر نقش تصویر اس سے مستثنیٰ ہے؟ توحضرت ابوطلحہ انصاریؓ نے کہا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو تھا، مگر میں اپنے لیے زیادہ بہتر صورت پسند کر تاہوں ۔
بخاری شریف کی مذکورہ روایت کے حوالہ سے حاشیہ میں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمة اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں مختلف فقہاے کرام کے اقوال ومذاہب نقل کیے ہیں اور قاضی ابن العربی رحمة اللہ علیہ کایہ تجزیہ بھی نقل کیا ہے کہ تصویروں کے بارے میں احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ
جسم رکھنے والی صورتیں یعنی مجسّمے تو اُمت کے اجماع کی رو سے حرام ہیں ، لیکن کپڑے یا کاغذ پر نقش تصویروں کے بارے میں فقہاے کرام کے چار اقوال ہیں :
ایک یہ کہ وہ بھی مطلقاًممنوع ہیں ، دوسرا یہ کہ مطلقاً جائزہیں ، تیسرایہ کہ اگر تصویر کی ہیئت وشکل باقی ہے تو حرام ہے اور اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہے اور اجزا الگ الگ کر دیے گئے ہیں تو جائز ہے اور چوتھا قول یہ ہے کہ اگر تصویر کو احترام کے ساتھ رکھا گیا ہے تو ناجائز ہے اور اگر اس کی تعظیم وتکریم نہیں ہوتی تو جائز ہے۔
قاضی ابن العربی رحمة اللہ علیہ نے ان چاروں میں سے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے کہ اگر تصویر کی شکل وہیئت تبدیل کر دی جائے تو جائز ہے، ورنہ نہیں لیکن مولانا احمد علی سہارنپوری موطاامام محمد رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے احناف کا موقف امام محمد رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں :
'' ہم اس قول کولیتے ہیں کہ اگر تصویر بسترپر یا چٹائی پر یا تکیے پر ہو جس کا احترام نہیں کیا جاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں جو تصویر سیدھی کھڑی کی گئی ہو یا پردے پر لٹکی ہوئی ہو تو وہ مکروہ ہے۔ یہ قول حضرت امام ابوحنیفہ کا ہے اور ہمارے یعنی احناف کے عام فقہا کا قول بھی یہی ہے۔''
بخاری شریف کے حنفی شارح حضرت علامہ بدرالدین عینی رحمة اللہ علیہ نے بھی 'عمدة القاری' میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمة اللہ علیہ ، امام شافعی رحمة اللہ علیہ ، امام سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ اور امام ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے۔
دلائل کی تفصیل میں جائے بغیر ہم نے یہ چند حوالے صرف اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے پیش کیے ہیں کہ تصویر کی حرمت پر اُصولی طور پر پوری اُمت کا اجماع واتفاق موجود ہونے کے باوجود مختلف شکلوں پر اس کے اطلاق کے حوالے سے اختلاف صحابہ کرامؓ کے دور سے چلا آ ٓرہاہے اور یہ اختلاف دو حوالوں سے ہے:
1۔ ماہیت کے حوالے سے کہ کاغذ یا کپڑے پر نقش تصویر پر حرمت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟
2۔ مقصد کے حوالے سے کہ جو تصویر احترام کے پہلو سے خالی ہے اور اس کا ادب واحترام نہیں کیا جاتا، وہ حرمت میں شامل ہے یا نہیں ؟
جب کہ اس سلسلہ میں احناف کا موقف یہ ہے کہ وہ ادب وحرمت کے پہلو سے فرق ملحوظ رکھتے ہیں اور جس تصویر میں اَدب وحرمت کا پہلو نہیں پایا جاتا، وہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ فقہاے متقدمین کے درمیان پائے جانے والے اس واضح اختلاف کی موجودگی میں بھی اس معاملے میں اس قدر سختی کی کوئی گنجائش ہے کہ عدمِ جواز کے قول پر 'حرمت ِقطعیہ' کا حکم صادر کر دیا جائے۔
2 اس مسئلہ میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والی نقل وحرکت پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک تکنیکی اور فنی بحث ہے اور بہرحال اجتہادی مسئلہ ہے جس میں مفتیانِ کرام کے لیے دلائل اور مصالح کے حوالے سے دونوں طرف گنجائش موجود ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کم وبیش اسی طرح کی بحث ہے جیسا کہ نماز میں لائوڈ اسپیکر کے استعمال کے جواز اور عدمِ جواز پرکم وبیش نصف صدی تک بحث جاری رہی ہے۔ لائوڈ اسپیکر جب نیا نیا آیا تو ہمارے علمی حلقوں میں یہ بحث چل پڑی کہ اس کا نماز میں استعمال جائز ہے یا نہیں ؟ اور جو مقتدی صرف لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر امام کی اقتدا کر رہا ہے، اس کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ اس اختلاف کی بنیاد اس نکتہ پر تھی کہ لائوڈ اسپیکر سے آنے والی آواز امام کی اصل آواز ہے یااس کی صداے بازگشت ہے۔ اگر اصل آواز ہے تو نماز درست ہے اور اگر وہ اس سے مختلف نئی آواز ہے تو اس آواز پر امام کی اقتدا کرنے والے مقتدی کی نماز درست نہیں ہے۔
اب جن مفتیان کرام کی تحقیق یہ تھی کہ امام کی اصل آواز لائوڈ اسپیکر کے ذریعے بلند اور وسیع ہو کر سامعین تک پہنچ رہی ہے، ان کے نزدیک نماز میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال جائز تھا اور جن کی تحقیق میں لائوڈ اسپیکر کی آواز امام کی آواز سے مختلف تھی، وہ عدمِ جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔
خود ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ہمارے بزرگ اور محترم اور مخدوم حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب رحمة اللہ علیہ عدمِ جواز کے قائل تھے اور جمعتہ المبارک کے اجتماع میں لائوڈ اسپیکر استعمال کرنے سے منع کیا کرتے تھے، لیکن ان کے نائب کے طور پر 1970ء میں جب میں یہاں آیا تو میں نے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ تک حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک درمیان کی راہ نکالی کہ وہ لائوڈ اسپیکر کے ساتھ ساتھ دوتین مکبرین بھی کھڑے کر دیتے تھے، لیکن میرے خیال میں اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے رفتہ رفتہ وہ بھی ختم ہو گئی۔ ہمارے تبلیغی جماعت کے حضرات ابھی تک رائے ونڈ کے اجتماع میں نماز کے دوران لائوڈ اسپیکر استعمال نہیں کرتے، لیکن عمومی طور پر اب کم وبیش ہر جگہ لائوڈ اسپیکر کا نماز میں استعمال ہو رہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک لطیفے کی بات ذکر کرنا بھی شاید مناسب نہ ہوکہ چند سال قبل مانسہرہ (ہزارہ) میں 'سائنس اور مذہب' کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا جس کا اہتمام ہمارے فاضل دوست پروفیسر عبدالماجد صاحب نے کیا تھا جو مذہب اور سائنس کے درمیان ڈائیلاگ کے موضوع پر باقاعدہ ایک ادارہ قائم کر کے عالمی سطح پر کام کر رہے ہیں ۔ اس سیمینار کی ایک نشست میں مجھے 'مہمانِ خصوصی' کا اعزاز بخشا گیا۔ اس موقع پر ایک نوجوان نے بڑے تند وتیز لہجے میں سوال کیا کہ مولوی صاحبان کا کیا ہے، وہ تو کل تک لائوڈ اسپیکر کے استعمال کو بھی حرام کہتے رہے ہیں اور اب کوئی مولوی لائوڈ اسپیکر کے بغیر نماز نہیں پڑھاتا۔
میں نے اس کے جواب میں عرض کیاکہ لائوڈ اسپیکر کے استعمال کو کبھی کسی مولوی نے حرام قرار نہیں دیا، البتہ نماز میں اس کے استعمال میں اختلاف رہا ہے اور اس میں بھی مولوی صاحبان کا کوئی قصور نہیں ہے، اس لیے کہ مسئلہ تکنیکی نوعیت کا تھا جس کی وضاحت کے لیے علماے کرام نے اصحابِ فن سے رجوع کیا۔ اب جن اصحاب فن نے یہ بتا یا کہ لائوڈ اسپیکر کی آواز بولنے والے کی اصل آواز ہوتی ہے، ان کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے علماے کرام کے ایک گروہ نے جواز کا فتویٰ دے دیا اور جن کو یہ بتایا گیا کہ اصل آواز نہیں ہوتی، اُنہوں نے عدمِ جواز کا فتویٰ دے دیا۔ اس لیے اصل اختلاف تو اصحابِ فن کا تھا جو مفتیانِ کرام کے فتووں میں اختلاف کا باعث بن گیا، اس میں مولوی صاحبان کا کیا قصور ہے؟
ٹی وی اسکرین کے بارے میں اختلاف بھی میری طالب علمانہ رائے میں اسی نوعیت کا ہے۔ جن اصحابِ علم کی رائے یہ ہے کہ یہ تصویر ہے، ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک یہ حرا م ہی ہوگی، لیکن جو حضرات اسے تصویر نہیں سمجھتے، وہ اس کے جواز کی بات کریں گے۔
ہم اس سلسلے میں زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ کے چند فتاویٰ کا حوالہ دینا چاہیں گے جن کے نزدیک ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والی نقل وحرکت پر تصویر کا اطلا ق نہیں ہوتا۔ کفایة المفتي جلد نہم میں تصویر اور اسکرین دونوں کے حوالے سے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ کے متعدد فتاویٰ موجود ہیں جن کا اہل علم کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم ان میں سے تین چار کا ذکر کریں گے :
جہاں تک تصویرکا تعلق ہے، حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کا موقف وہی ہے جو جمہور علما کا ہے، چنانچہ ایک فتوے میں وہ فرماتے ہیں کہ
''تصویر کھینچنا اور کھنچوانا ناجائز ہے، خواہ دستی ہو یا عکسی۔ دونوں تصویریں ہیں اور تصویر کا حکم رکھتی ہیں ۔ تصویر سے مراد جاندار کی تصویر ہے، خواہ انسان کی ہو، خواہ حیوان کی، البتہ مکانات کے نقشے اور درختوں کی تصویریں ناجائز نہیں ہیں ۔''
جبکہ دوسرے فتوے میں تصویر کے بارے میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ :
''تصویر بنانے کا حکم جداگانہ ہے اور تصویر رکھنے اور استعمال کرنے کا حکم جداگانہ ہے۔ تصویر بنانے اور بنوانے کا حکم تو یہ ہے کہ وہ مطلقاً حرام ہے، خواہ چھوٹی تصویر بنائی جائے یا بڑی، کیوں کہ علت ِممانعت دونوں میں یکساں پائی جاتی ہے اور علت ِممانعت مضاہاة لخلق اﷲ ہے اور تصویر رکھنے اور استعمال کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر تصویر چھوٹی اور غیر مستبین الاعضاء ہوتو اس کو ایسے طور پر رکھنا کہ تعظیم کا شبہ نہ ہو، جائز ہے یا ضرورت کے وقت استعمال کی جائے جیسے سکہ کی تصویر، توجائز ہے۔ باقی بڑی تصویریں بلاضرورت استعمال کرنا یا ایسی ضرورت میں رکھنا کہ تعظیم کا شبہ ہو، ناجائز ہے۔''
لیکن جب حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ سے سینما کی اسکرین کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اُنہوں نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ
''سینما اگر اخلاق سوز اور بے حیائی کے مناظر سے خالی ہو اور اس کے ساتھ گانا بجانا اور ناجائز امر نہ ہو تو فی حدذاتہ مباح ہوگا، لیکن ہمارے علم میں کوئی فلم کسی نہ کسی ناجائز امر سے خالی نہیں ہوتی۔''
جب کہ ایک اور فتویٰ میں ان کا ارشادِگرامی یہ ہے کہ
'' سینما میں بہت سی باتیں غیر مشروع شامل ہو جاتی ہیں ، مثلاً گانا بجانا، غیر محرم صورتیں ، رقص، عریاں مناظر اور ان باتوں کی وجہ سے اس کی مجموعی کیفیت کہ لہوولعب اور تہیجِ شہواتِ نفسانیہ اس کا ادنیٰ نتیجہ ہے۔ ان وجوہ سے سینما دیکھنا ناجائز ہے، بعض صورتوں میں حرام اور بعض میں مکروہ ہے۔''
تصویر اور اسکرین دونوں کے بارے میں حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ وہ تصویر اور اسکرین دونوں کو الگ الگ سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسکرین پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا اور اگر دیگر ممنوعہ اُمور سے خالی ہو تو اسکرین' فی حدذاتہ مباح' کا درجہ رکھتی ہے۔
ہماری ایک اور برگزیدہ علمی شخصیت اور جامعہ اشرفیہ لاہو رکے سابق صدر مفتی حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کا موقف بھی یہی ہے جیسا کہ ماہنامہ 'نور علیٰ نور' فیصل آباد نے شوال المکرم ۱۴۲۹ھ کے شمارے میں اس مسئلے میں حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کا ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس کے آخر میں اس کے خلاصہ کے طور پر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمة اللہ علیہ خود یوں فرماتے ہیں کہ
''خلاصہ یہ ہے کہ ٹی وی اور وی سی آر اُن آلات میں سے نہیں ہیں جو صرف لہو ولعب یا گانے بجانے اور کسی گناہ کے لیے بنائے گئے ہیں بلکہ ریڈیو، ٹیلی فون، تار کی طرح آواز اور شکلوں کو دور تک پہنچانے کے لیے ہیں ، خواہ ان سے اچھے کاموں میں یہ کام لیا جائے یا برے کاموں میں ، جائز میں یا ناجائز میں ۔ ان کا حکم آلاتِ لہو ولعب اور گانے کے آلات کا نہیں ہو سکتا کہ جس پر نیک کاموں کی بے حرمتی بنتی ہو۔ ان میں ہر مباح کام بھی جائز اور نیک کام بھی جائز ہے۔ قاعدہ فقہیہ یہ ہے کہ جس کے استعمالات بعض حلال، بعض حرام ہوں یا کچھ حلال اور بہت کچھ حرام بھی ہوں تو حلال صورت کی وجہ سے اس کا رکھنا، مرمت کرنا، خرید کرنا، فروخت کرنا سب جائز ہے۔ اسی قاعدہ سے خشخاش کی کاشت، افیون کی بناوٹ، ان کا خریدنا، فروخت کرنا اور بلانشہ کی دواؤں میں استعمال سب جائز ہوگا لیکن نشہ کی چیز کا استعمال حرام ہے اور باقی جائز ہے۔ ایسے ہی یہاں لہو ولعب، گانے بجانے اور سب ناجائز کام حرام وگناہ ہیں ، باقی مباحات، طاعات اور عبادات سب جائز ہیں ۔''
جبکہ اُستاذ العلماء حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں ان کے ایک شاگرد اور آزاد کشمیر کے معروف مفتی حضرت مولانا مفتی محمد رویس خان صاحب آف میرپور نے ایک بار بتایا کہ حضرت کاندھلوی رحمة اللہ علیہ سے ٹی وی اسکرین کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے فرمایا کہ
''میاں ! یہ چاقو ہے۔ اس سے خربوزہ کاٹو گے تو جائز ہے اور کسی کا پیٹ پھاڑو گے تو ناجائز ہے۔''
اس کا مطلب واضح ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک سینما یا ٹی وی اسکرین کا حکم تصویر اور فوٹو سے مختلف ہے اور وہ اس کے جواز یا عدمِ جواز کی بات ماہیت کے حوالے سے نہیں ، بلکہ مقاصد کے حوالے سے کرتے ہیں جیسا کہ خود تصویر کے بارے میں بھی حضرت امام محمد رحمة اللہ علیہ کے بقول احناف کا ذوق یہی معلوم ہوتا ہے۔
اس لیے ہماری طالب ِعلمانہ رائے میں اس قسم کے اجتہادی مسائل میں ، جہاں دونوں طرف گنجائش موجود ہو، زیادہ سختی سے کام نہیں لینا چاہیے اور دلائل کے ساتھ ساتھ ملی مصالح اور ضروریات کا لحاظ بھی رکھنا چاہیے۔ ہم نے ایک جگہ پڑھا تھا اور اپنے ایک مضمون میں اس کا حوالہ بھی دیا تھا کہ مزارعت (یعنی بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینا) کو حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ناجائز کہتے ہیں اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد رحمة اللہ علیہ اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ اس پر معروف حنفی محدث وفقیہ حضرت ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے دونوں طرف کے دلائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے فرمایا تھاکہ دلائل کے حوالے سے حضرت امام صاحب رحمة اللہ علیہ کاموقف قومی ہے، لیکن چونکہ مصلحت ِعامہ صاحبین کے قول میں ہے، اس لیے فتویٰ صاحبین کے قول پر دیاجاتا ہے۔
اسکرین کے مسئلہ پر ہمارے خیال میں مصلحت ِعامہ کا تعلق دونوں طرف ہے۔ ایک جانب عام مسلمانوں کو بے حیائی، عریانی، گانے بجانے اور فحاشی کے ماحول سے بچانے کا جذبہ ہے اور مسلم معاشرہ میں دینی ماحول کا تحفظ مقصود ہے جو ظاہر ہے کہ بہت مبارک جذبہ ہے اورمفتیانِ کرام کی دینی ذمہ داریوں میں سے ہے، لیکن دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا اِزالہ، اسلامی عقائد اور احکام کا دفاع اور مسلمانوں کے عقائد ونظریات کا تحفظ بنیادی ہدف ہے اور یہ بھی ہماری ملی اور دینی ضروریات میں سے ہے۔ عام مسلمانوں کی مصلحت ومفاد کا تعلق دونوں طرف ہے اور دلائل بھی یقینا دونوں طرف موجود ہیں ، اس لیے دلائل اور ترجیحات کی بحث میں پڑے بغیر ہم اربابِ دانش اور اصحابِ فتویٰ سے یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ دونوں طرف سے دلائل اور مصالح عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسا متوازن اور باوقار راستہ نکالنے کے لیے اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں کہ ''سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔'' یہ آج کے دورمیں ہمارے اربابِ علم وفضل کی اجتہادی صلاحیت وبصیرت کا امتحان ہے اور ہمیں اُمیدہے کہ ہمیشہ کی طرح ہمارے آج کے مفتیانِ کرام بھی اُمت کی علمی وفکری راہنمائی کا کوئی متوازن اور عملی راستہ نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ان شاء اللہ !