نومبر 2008ء

غامدی صاحب : علماء کی نظر میں

مصنّفین: مفتی ذیشان پنجوانی، مفتی فیصل خورشید جاپان والا، مفتی کمال الدین مسترشد
ضخامت:160 صفحات سالِ اشاعت:2008ء قیمت:200
ملنے کا پتہ: المصباح ناشرانِ قرآن و کتب ِاسلامیہ: 16؍ اردو بازار، لاہور
کتاب دیکھنے میں عمدہ اور ٹائٹل، کاغذ اور طباعت کا معیار اچھا ہے۔

کتاب کے مصنّفین تو ایک سے زائد ہیں لیکن ٹائٹل پر نا م صرف مفتی فیصل جاپان والا لکھا ہوا ہے حالانکہ مفتی فیصل صاحب نے اس کتاب کے تقریباً ۲۵ صفحات لکھے ہیں ۔اس کتاب کا اکثر و بیشتر حصہ مفتی ذیشان پنجوانی صاحب کا ہے جنہوں نے غامدی صاحب کے نظریات پر نقد کرتے ہوئے تقریباً 90 صفحات رقم کیے ہیں ۔یہ بات بہت ہی قابل تعجب ہے کہ مفتی فیصل جاپان والا کو، جن کے اس کتاب میں صرف ۲۵ صفحات ہیں ،کتاب کا محقق قرار دیا گیا ہے۔ پھر یہ امر بھی ناقابل فہم ہے کہ مفتی ذیشان صاحب،جن کا اس کتاب کے تحقیقی مواد میں سب سے زیادہ حصہ شامل ہے، ان کو مفتی فیصل صاحب کے معاونین کی فہرست میں داخل کیا گیا ہے۔

حق تو یہ تھا کہ اس کتاب کی نسبت مفتی ذیشان صاحب کی طرف کی جاتی اور ٹائٹل پر انہی کا نام ہوتا لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ مفتی فیصل صاحب نے اس تحقیقی پروجیکٹ کے سپر وائزر ہونے کا فائدہ حاصل کیا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پراب تک صرف پروفیسر حضرات اس حوالے سے بدنام تھے کہ وہ یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا سے مختلف موضوعات پر اپنی زیر نگرانی میں اسائن منٹس لکھواتے ہیں اور بعد میں اپنی سپروائزری کا حصہ وصول کرنے کے لیے طلبا کی اس تحقیق کو اپنے نام سے شائع کر دیتے ہیں ۔ اب تو لگتا ہے دارالعلوموں کے مفتیوں نے بھی یہی کام شروع کر دیا ہے۔

بہرحال ہم اس کتاب کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے بتایاہے کہ یہ کتاب تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے اور اگر ہم مواد کے اعتبار سے اس کو تقسیم کریں تو اس کتاب کے تقریباً 90 صفحات مفتی ذیشان پنجوانی صاحب' 25 صفحات مفتی فیصل جاپان والا' 17 صفحات مفتی کمال الدین مسترشداور 23 کے قریب صفحات مختلف تبصرہ نگاروں کے ہیں ۔اس ساری کتاب پر تبصرے کے لیے تو ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن فی الحال ہمارے پیش نظر اس وقت اس کتاب کے وہ صفحات ہیں جو کہ اس کتاب کے تحقیقی پراجیکٹ کے سپروائزر جناب مفتی فیصل جاپان والا نے تحریر فرمائے ہیں ۔اس کتاب میں جناب مفتی صاحب نے اس خواہش کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صاحب اس کتاب میں کوئی غلطی دیکھیں تو اس سے مطلع فرمائیں ۔ہم نے ایک خط جناب مفتی صاحب کو بھی اِرسال فرما دیا ہے اور بعض دوستوں کی خواہش پر اس کتاب کا تبصرہ عامة الناس کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔

سب سے پہلے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس کتاب کا عنوان ہی غلط ہے۔یعنی 'غامدی صاحب: علماء کی نظر میں ' کیونکہ علماء کرام کے فرمودات کوئی ایسی حتمی میزان اور یقینی کسوٹی نہیں ہیں جن کے اقوال کی روشنی میں کسی شخص کے اَفکار و نظریات کو پرکھا جائے اور ان کے حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے ۔خصوصاًجبکہ علما بھی ایسے ہوں ،جو دینی علوم میں بس اس قدر ہی پختگی رکھتے ہوں کہ ان کے پاس کسی دارالعلوم سے فراغت کی سند موجود ہو۔ در حقیقت اصل میزان 'کتاب و سنت ' ہیں ۔اگر اس کتاب کا تحقیقی پراجیکٹ یہ ہوتا کہ 'غامدی صاحب: کتاب و سنت کی روشنی' میں تو یہ ایک درست عنوان تھا۔

اس کتاب کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ غیر جانبدار ہو کر لکھی گئی ہے، حالانکہ کوئی بھی صاحب ِعلم جس نے غامدی صاحب کے افکار کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا ہو، اس کتاب کے صفحہ ۱۷ تا ۳۷ کے بارے میں یہ تبصرہ کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ یہ انتہائی جانبدارانہ تحریر ہے ۔اور اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
1 علما کی آرا کو غامدی صاحب کی آرا سے موافق بنانے کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔مفتی فیصل صاحب نے کہا کہ ''علما تصویر کوجائز کہتے ہیں اور غامدی صاحب بھی جائز کہتے ہیں لہٰذا اِختلاف کہاں ؟'' حالانکہ دونوں کے موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جن علماء کے نام مفتی صاحب نے بیان کیے ہیں ، اگرانہوں نے واقعتا ان علما کا موقف پڑھا ہوتا یا پڑھنے کے بعد ان کو سمجھ بھی آیاہوتا تو وہ یہ بات کبھی بھی نہ لکھتے ۔جن علما کی اُنہوں نے بات کی ہے، وہ کیمرے کی تصویر کوجائز قرار دیتے ہیں نہ کہ ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر یا مجسمہ سازی کو، جبکہ غامدی صاحب ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاویر اور مجسمہ سازی کو نہ صرف جائز قرار دیتے بلکہ بعض صورتوں میں مطلوب بھی خیال کرتے ہیں ۔

2 مردوں کا ٹخنے ڈھانکنا جائز ہے۔ اس بارے میں بعض عرب علماء کے موقف کامفتی صاحب نے تذکرہ کیا ہے لیکن ان کے حوالہ جات مذکور نہیں ہیں ۔ایک تحقیقی کتاب کا یہ خاصہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں بغیر کسی حوالے کے کوئی بات درج کر دی جائے جیسا کہ مفتی صاحب نے بعض مقامات پر ایسا کیا ہے ۔اسی طرح اگر کسی عالم کی طرف کسی بات کی نسبت کی بھی جائے تو اس عالم کی اصل عبارت نقل کی جائے تاکہ علما کو یہ معلوم ہو سکے کہ نام نہادمصنف و محقق کو کسی عالم کا نقطہ نظر سمجھنے میں کہاں غلطی لگی ہے ؟

3 مفتی صاحب کہتے ہیں کہ بعض علماے سلف کے نزدیک بھی عورت کا چہرہ پردہ میں شامل نہیں ہے اور غامدی صاحب بھی یہی کہتے ہیں تو فرق کیا ہوا؟حالانکہ مفتی صاحب اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ غامدی صاحب صرف چہرے کے پردے کی بات نہیں کرتے بلکہ سر کے دوپٹے کو بھی دینی حکم نہیں سمجھتے۔ دوسری بات جو مفتی صاحب نے متقدمین احناف اور علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھی کہ وہ چہرے کے پردے کے قائل نہ تھے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کو واجب نہیں سمجھتے جبکہ مستحب ہر حال میں قرار دیتے ہیں تفصیل کے شائق علامہ البانی کی کتاب الردّ المفحم علی من خالف العلماء وتشدد وتعصب وألزم المرأة بستر وجھھا وکفیھا وأوجب ولم یقتنع بقولھم: إنه سنة ومستحب' ملاحظہ فرمائیں ۔
علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب جلباب المرأة المسلمة کے مقدمے میں لکھا ہے کہ میں اپنی بیوی و بیٹی کے لیے چہرے کے پردے کو پسند کرتا ہوں اور اُنہیں اس کی تلقین بھی کرتا ہوں ۔کہاں علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کا یہ موقف اور کہاں مفتی صاحب کا علامہ البانی پر یہ بہتان کہ وہ چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں ۔ اسی طرح متقدمین احناف فتنے کے حالات میں اس کو واجب بھی قرار دیتے ہیں ۔تفصیل کے لیے 'چہرہ کا پردہ: واجب، مستحب یا بدعت' نامی کتاب ویب سائٹ www.tanzeem.org پر ملاحظہ فرمائیں ۔ واضح رہے کہ ہمیں علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کے اس موقف سے اتفاق نہیں ہے اور علامہ البانی رحمة اللہ علیہ اور ان کے متبعین کے دلائل کا جواب اپنی ایک کتاب میں مفصل طور پر دے دیاہے جو زیر طبع ہے۔

4 مفتی صاحب کا دعویٰ ہے کہ بعض علماے اہل سنت کے نزدیک بھی صاف ستھری موسیقی سننا جائز ہے، اور اپنی بات کو بناتے ہوئے اُنہوں نے حوالوں کے اضافے کے لیے خواہ مخواہ ایک منکر ِحدیث جعفر شاہ پھلواری کو مولانا کے لقب سے نواز دیا۔اس منکر ِحدیث کے تفصیلی افکار جاننے کے لیے اس کی کتاب 'مقامِ سنت' کو ملاحظہ فرمائیں ۔اس مسئلے میں اُنہوں نے د وحوالے پیش کیے ہیں : ایک امام غزالی کا اور دوسرا جعفر پھلواری کا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ امام غزالی کا موقف شاذ ہے اور صوفیت کی بنا پر امام غزالی میں اس مسئلے میں نرمی آئی ہے۔جبکہ مذاہب ِاربعہ کے فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موسیقی حرام ہے ۔اس موضوع پرمحدث العصر علامہ البانی کی کتاب تحریم آلات الطرب کامطالعہ مفتی صاحب کے لیے مفید رہے گا۔

5 داڑھی کے بارے میں مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے بھی تو داڑھی کے بارے میں کہا کہ''داڑھی کاٹنا جائز ہے اور رکھنا ثواب ہے۔''اور غامدی صاحب کا بھی یہی موقف ہے تو غامدی صاحب پر نقد کیوں ؟وہبہ زحیلی کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی رکھنا مستحب ہے اور استحباب حکم شرعی کی ایک قسم ہے یعنی داڑھی رکھنا ایک شرعی حکم ہے اور دین کاموضوع ہے۔کیا غامدی صاحب بھی داڑھی کے بارے میں یہی موقف رکھتے ہیں ؟

6 مفتی صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ غامدی صاحب کی طرح بعض اہل سنت بھی قراء ات کو نہیں مانتے ہیں اور جب مفتی صاحب نے ان علما کے نام پیش کیے جوکہ قراء ات کے منکر ہیں تو اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے خواہ مخواہ ان علما کا رتبہ بڑھاتے ہوئے ان کو ایسے القابات سے نوازا،جن کے وہ اہل نہیں ہیں ۔پس سبعہ قراء ات کے مسئلے میں ایک منکر ِحدیث جعفر شاہ پھلواری کو امام الصوفیا، منکر ِقرآن وحدیث اور ایک ملحد شخص تمنا عمادی کو محدث العصر اور ایک منحرف و گمراہ کن افکار کے حامل مولوی محمد اسحق صدیقی کو امام اہل سنت کے القاب سے نوازا گیا ۔اس نام نہاد محدث العصر کی میدانِ حدیث میں خدمات جاننے کے لیے اس کی کتاب 'تصویر کے دورخ: ابن جریر طبری اور ابن شہاب زہری' ملاحظہ فرمائیں ۔میرا یہ گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس محدث العصر کی تمام کتابیں پڑھنا تو کجا، مفتی صاحب نے دیکھی بھی نہ ہوں گی۔ تو اس شخص کو محدث العصر کا لقب اُنہوں نے کیسے نواز دیا؟ اسی طرح نام نہاد امام اہل سنت کے بعض گمراہ کن افکار کو جاننے کے لیے راقم کے ایک مضمون 'نزولِ عیسیٰ ابن مریم ایک افسانہ یا حقیقت' کامطالعہ محولہ بالا ویب سائٹ پر کریں ۔علاوہ ازیں عموماً ایسے علما کے نام پیش کیے گئے ہیں جنہیں ان کے مذہبی حلقوں میں ہی متجددین کی فہرستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

7 سنت کے مسئلے کومفتی صاحب نے کھینچ تان کر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔اس بارے میں شاہ صاحب کا حجة اللہ البالغہ کے مقدمہ میں صرف اتنی بات کہنا ہی کافی ہے کہ میری اس کتاب میں جو بات بھی اُمت کے اجماع اور جمہور علما کے موقف کے خلاف ہو گی، میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔شاہ صاحب کا نقطہ نظر جاننے کے لیے 'شاہ ولی اللہ کے اُصولِ فقہ' نامی کتاب کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ شاہ صاحب کاتصورِ سنت کیا تھا۔ آیا ان کا موقف وہ ہے جومفتی صاحب اور غامدی صاحب بیان فرما رہے ہیں یاوہ جو کہ تمام اُمت کا رہا ہے یعنی سنت سے مراد حدیث ہی ہے۔

8 مفتی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ سنت کے معنی و مفہوم میں صرف تعبیر کا فرق ہے۔ فقہاے احناف نے بھی سنت کے لفظ کو سنن الھدٰی اور سنن الزوائد کی صورت میں متعارف کروایا ہے۔غامدی صاحب کی بے جا تائید میں مفتی صاحب نے یا تو خلط مبحث سے کام لیاہے یاپھر اصل بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ غامدی صاحب نے سنت کی بحث کا تذکرہ بطورِ مصدرِ شریعت کیا ہے اور اس کی تعریف مصدرِ شریعت ہونے کے اعتبار سے بیان کی ہے ۔مفتی صاحب اس کا جواب دیں کہ سنت کو جب شاہ صاحب یا فقہاے احناف بطورِ مصدر شریعت بیان کرتے ہیں تو ان کی مراد سنن الھُدٰی ہوتی ہے یا آپؐ کا قول، فعل اور تقریر۔تفصیل کے لیے امام جصاص حنفی رحمة اللہ علیہ کی الفصول اور ابن امیر حاج حنفی رحمة اللہ علیہ کی التقریر والتحبیراور شاہ صاحب کی حجة اﷲ البالغة کا مطالعہ کریں ۔

 9مفتی صاحب کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کے نزدیک بھی حدیث حجت ہے لہٰذا ان کے نظریۂ حدیث پر نقد کیوں ؟ میں یہ کہتا ہوں کہ جمیع اہل سنت کے نزدیک حدیث مستقل بالذات ماخذ ِدین ہے اور غامدی صاحب حدیث کو مستقل بالذات ماخذ ِدین نہیں سمجھتے۔ اگر غامدی صاحب حدیث کو مستقل بالذات ماخذ دین سمجھتے ہیں تو ان سے یہ بات لکھوا کر دستخط کروالیں ۔ سارا تنازع ختم ہو جائے گا اور ہمارے نزدیک اختلاف محض لفظی رہ جائے گا۔ غامدی صاحب کے اُصول و مبادی کے پہلے صفحے کی جس عبارت کا حوالہ مفتی صاحب نے دیا ہے کہ جس کو پڑھ کروہ پریشان بھی ہو گئے تھے، اس عبارت کا حقیقی مفہوم کیا ہے اس کے لیے ہماری کتاب'فکر غامدی: ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ 'کے نئے ایڈیشن کا انتظار فرمائیں ۔ان شاء اللہ غامدی صاحب اور اہل سنت کی تعبیر میں فرق کے اعتبار سے ان کے معتد بہ علم میں اضافہ ہو گا۔

10 میرے خیال میں مفتی صاحب کو غامدی صاحب کی فکرسمجھنے کے لئے ابھی خاصا وقت درکار ہے اور اس سے بھی زیادہ وقت فقہاے اَحناف اور اہل سنت کے تصورات کو سمجھنے کے لیے درکار ہے۔مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اختلاف صرف تعبیر کا ہے اور غامدی صاحب اہل سنت میں شامل ہیں ۔ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ ہم غامدی صاحب کو اہل سنت سے خارج کریں ۔لیکن غامدی صاحب کسی نص کے فہم پر اُمت ِمسلمہ تو کیا، صحابہؓ کے اجماع کے بھی قائل نہیں ہیں ۔صحابہؓ کے جس اجماع کو وہ حجت مانتے ہیں ، وہ کسی چیز کے بطورِ دین ثابت ہونے پر صحابہؓ کا اجماع ہے نہ کہ کسی نص کے فہم پر۔صحابہؓ کے اجماع کو حجت نہ ماننے اور ان سب صحابہؓ کے اتفاقی موقف سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک شخص اہل سنت یعنی صحابہؓ کے منہج پر کیسے شمار ہو گا؟

11 مفتی صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ فطرت و شریعت کے حرام کردہ اُمور میں محض تعبیر کا اختلاف ہے تو ذرا مفتی صاحب فطرت کی بنیاد پر محرمات کی فہرست تو مرتب کر کے دکھائیں تومعلوم ہوجائے کہ تعبیر کا اختلاف ہے یانہیں ؟ غامدی صاحب نے فطرت کی بنیاد پر اُصول ومبادی پڑھاتے ہوئے مینڈک کے کھانے کو جائز قرار دیا ہے جبکہ سنن ابودوؤد کی ایک روایت کے مطابق مینڈک کو قتل کرنے سے آپ ؐ نے منع کیا ہے جس سے فقہا کرام نے اس کی حرمت پر استدلال کیا ہے ۔اگر واقعتا تعبیر کا ہی اختلاف ہے تو 'الشریعہ' کی ویب سائٹ پر میرا تقریباًایک سو دس صفحات کا مقالہ اس موضوع پر ملاحظہ فرمائیں اور اس میں بیان کیے گئے شرعی دلائل کی شافی وضاحت کریں ۔

12 ایک مسئلے میں مفتی صاحب نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ وہ تو متعہ کے بھی قائل تھے اور گدھے کی حرمت کے بھی انکاری تھے ۔علما کے شاذ اَقوال کو دلیل بنانا اور ان سے استدلال کرنا اہل سنت کے نزدیک اہل بدعت کامنہج ہے تفصیل کے لیے اس موضوع پر ماہنامہ' محدث' بابت اپریل ۲۰۰۵ء میں ایک عرب عالم دین شیخ فہد بن سلیمان العودة کا مفصل مقالہ بعنوان 'اجتہاد کا حق دار کون؟' مطالعہ فرمائیں ۔

13 حضرت عبد اللہ بن عباسؓ متعہ کے قائل تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓمعوذتین کو قرآن میں شمار نہیں کرتے تھے۔حضرت ابودرداؓ سونے چاندی کو اپنے پاس رکھنے یا جمع کرنے کو حرام قرار دیتے تھے۔ اسی طرح ابن عباسؓ گدھے کی حرمت کے قائل نہیں ہیں ۔امام مالک رحمة اللہ علیہ کے نزدیک شیر، چیتا، ریچھ، مگر مچھ، بلی، لگڑ بھگڑ، سانپ، بچھو، کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض وغیرہ سب حلال ہیں ۔امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ ایک بالٹی پانی میں ایک جگ پیشاپ اُنڈیل دیں تو پھر بھی اس کی پاکی کے قائل ہیں ۔متقدمین احناف نے مفقود الخبرشخص کی بیوی کو ۹۵ سال انتظار کرنے کا فتویٰ جاری کیاوغیرہ ذلک۔ امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے موسیقی کو جائز قرار دیا تو مولانا رومی نے اس کے ساتھ دھمال و رقص کو بھی دین کا حصہ بنا دیا۔ اس پر مستزاد آج کے بریلوی علما ہیں جنہوں نے شرک و بدعت کو سند ِجواز عطا کیا ہے حالانکہ ان کے پاس بھی اسی درسِ نظامی اور اِفتاء کورس کی سند ہے جو ان مفتی صاحب کے پا س ہے۔
اس قسم کے فتاویٰ وشاذ اقوال پر ایک کتاب مرتب کی جا سکتی ہے لیکن آپ ذرا غور فرمائیں ، اگر کوئی شخص علماء کے ان تمام شاذ اقوال کو جمع کر لے تو کیا اس کے مذہب اور قرآن وسنت کے بیان کردہ دین میں کوئی ذرا برابر بھی مماثلت باقی رہ جائے گی؟ اگر ان سب یعنی دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی علماء وغیرہ کے فتاویٰ ہی کو ایک شخص جمع کر کے ایک موقف بنا لے تو اس سے ایک نئی جماعت المسلمین تو مسلمان ثابت ہو سکتی ہے جو ان تینوں کے علاوہ ہولیکن یہ تینو ں گروہ نہیں ؟

14 مفتی صاحب نے علماء کی ایک فہرست بھی پیش کی ہے کہ جن کی ملاقات اُنہوں نے غامدی صاحب سے کروائی ہے اور ان علما نے بقول ان کے غامدی صاحب کے گمراہ نہ ہونے کی سند بھی عطا فرمائی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس زمانے سے ہم گزر رہے ہیں ، یہ قحط الرجال کا دور ہے ۔ اب مدارس کے طلبا اورفارغ علما و مفتی حضرات کا مبلغ علم وہ نہیں ہوتا جو آج سے ستر، اسی سال پہلے تھا۔جامعہ اشرفیہ کے ایک شیخ الحدیث فرماتے تھے کہ دوسو طلبہ دورئہ حدیث میں ہیں اور ان میں چار یا پانچ وہ ہیں کہ جن کو واقعتا کچھ آتا بھی ہے۔ اسی طرح جامعہ اشرفیہ کے ایک اُستاد مولانا سرفراز صاحب ایک دفعہ ایک مجلس میں فرمانے لگے کہ تخصص کے کورسز سب سے بڑی خرابی یہ لے کر آئے ہیں کہ گلی گلی مفتی پیدا کر دیے ہیں اور بغیر کسی رسوخ فی العلم کے وہ دھڑا دھڑ فتوے جاری کرتے ہوئے انتشارِ ذہنی بڑھا رہے ہیں ۔دوسری طرف درسِ نظامی میں اساتذہ کی ضرورت کا مسئلہ پیش آئے تو نامور دارالعلوموں سے فارغ التحصیل کئی مفتی حضرات جو کہ تین، تین سال سے 'کنز الدقائق' ،'الہدایہ' اور 'تفسیر جلالین' جیسی کتابیں پڑھا رہے تھے، ان کا جب امتحان لیا جاتا ہے تو تدریس کی مطلوبہ لیاقت کسی میں نہیں ہوتی۔ درسِ نظامی کے کئی فارغ التحصیل جب مزید تعلیم کے لیے کسی جگہ داخلہ حاصل کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا معیارِ علم کیا ہے؟ اس لیے جن علما سے آپ نے غامدی صاحب کی ملاقاتیں کروائی ہیں ، دنیا ان علما کو نہیں جانتی ۔دنیا تو جن کو علماء سمجھتی اور جانتی ہے، وہ مولاناتقی عثمانی ہیں یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب، ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر صاحب ہیں یا مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب ہیں یا مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب، مولانا زاہد الراشدی صاحب ہیں یا مولانامفتی زر ولی صاحب۔مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ہیں یا مولانا مبشر ربانی صاحب۔ ایسے علما سے آپ غامدی صاحب کی ملاقات کروائیں اور ان کی آرا لیں ، اس سے عوام الناس کو بھی فائدہ ہو گااور آپ کو بھی حقیقی فائدہ۔

15 آپ کی اس بات کی میں قدر کرتا ہوں کہ ہمیں غامدی صاحب کے بارے میں غیر جانبدار ہو کر سوچنا چاہیے لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ آپ کی سوچ و تحقیق غیر جانبدار ہے یانہیں ؟اسی طرح آپ کی یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ علماء کو غامدی صاحب کے بارے میں ان کو پڑھ کر کوئی رائے قائم کرنی چاہیے لیکن مفتی صاحب یہ جو تاثر دینا چاہتے ہیں کہ تمام علما غامدی صاحب کو پڑھے بغیر ہی ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں ، بالکل غلط ہے ۔ہم مفتی صاحب سے یہ پوچھتے ہیں کہ جن علماء نے غامدی صاحب کو پڑھ کر ان پر تنقید کی ہے، ان علما کی نقد کا مفتی صاحب کے پاس کیا جواب ہے؟جن میں مولانا رفیق چوہدری کی کتاب ' مذہب ِغامدی کیا ہے؟'مفتی ڈاکٹر عبد الواحد کی کتاب 'تحفۂ غامدیت'، مولانا زاہد لراشدی صاحب کی کتاب' ایک علمی و فکری مکالمہ' ،مولاناارشاد الحق اثری کی کتاب' موسیقی کی حرمت'،مولانا مبشر حسین لاہوری کی کتاب' موسیقی حرام نہیں ؟'، راقم الحروف اور حافظ طاہر الاسلام عسکری کی کتاب'فکر غامدی: ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ' ،مجلس تحفظ ِحدیث فاؤنڈیشن کراچی کی کتاب'اُصول و مبادی پر تحقیقی نظر' شامل ہیں ۔ ایسے ہی ماہنامہ ساحل،ماہنامہ محدث اور ماہنامہ الشریعہ میں مختلف علماء کی طرف سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالہ جات وغیرہ ۔کیا مفتی صاحب نے ان سب کتابوں و مضامین کا مطالعہ کرلیا ہے اور اگر کیا ہے تو ان کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے جو یہ علما غامدی صاحب پر وارد کرتے ہیں ۔کیا مفتی صاحب کے خیال میں یہ سب علماء غامدی صاحب کی کتاب کے حوالے جب اپنی تحریروں میں نقل کرتے ہیں تو اپنی جیبوں سے نکال کر نقل کرتے ہیں یا اُنہوں نے غامدی صاحب کو پڑھا بھی ہوتا ہے؟

16 میں نہ تو غامدی صاحب کی تکفیر کا مدعی ہوں اور نہ ہی ان کے منکر ِحدیث ہونے پر مصر، لیکن ان کے افکار گمراہ کن ضرور ہیں ۔ اور یہ افکار جس کے بھی ہوں کسے باشد ' وہ بھی گمراہ کن افکار کا حامل ہے۔آپ دیکھتے نہیں کہ امام غزالی نے اپنی شروع کی زندگی کے افکار ونظریات کے بارے میں المنقذ من الضلال یعنی گمراہی سے نکلنے والا، نامی کتاب لکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک بڑے عالم دین کو بھی کسی مسئلے میں غلطی لگ سکتی ہے۔
قراء اتِ قرآنیہ متواتر ہیں اور ان کا منکر اسبابِ کفر میں سے ایک سبب کا حامل ہے لیکن موانع اور شروط کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔آپ کہتے ہیں کہ فلاں عالم نے لکھا ہے کہ قراء ات متواتر نہیں ہیں ۔میں کہتا ہوں کہ مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ، سوڈان اور افریقہ کے تقریباً چالیس ممالک کے کروڑوں مسلمان روایت ِورش' روایت ِدوری اور روایت ِقالون میں قرآن پڑھ رہے ہیں ، کیا اب بھی قراء ات متواتر نہیں ہیں ؟کیا سورج کے طلوع ہونے کے بعد کوئی سر پھرا اس کا انکار کر دے تو اس کے انکار کو بطورِ دلیل نقل کر دینا چاہیے؟میں یہ کہتا ہوں کہ جن نام نہادعلما نے لکھا ہے کہ قراء ات متواتر نہیں ہیں ، وہ تواتر کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ تواتر کا حقیقی مفہوم جاننے کے لیے ہماری کتاب 'فکر ِغامدی' کا نیا ایڈیشن ملاحظہ فرمائیں ۔ اور اپنے محدث العصر کے نظریات جاننے کے لیے اور اس کے افکار کی تردید کے لیے حنفی عالم دین قاری محمد طاہر رحیمی رحمة اللہ علیہ کی 'دفاعِ قراء ات' نامی کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔ائمہ اربعہ رحمة اللہ علیہ اور ان کے متبعین رحمة اللہ علیہ ، ظاہریہ رحمة اللہ علیہ ، محدثین رحمة اللہ علیہ اور امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ و ابن قیم رحمة اللہ علیہ جیسے محققین کے علمی اتفاق کے بعد بھی آپ کو قراء ات کے قرآن ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا تو آپ کااللہ ہی حافظ ہے۔جن علماء نے قراء ات کا انکار کیا ہے تو وہ غلطی پر ہیں اور ان کے افکار گمراہ کن ہیں ۔تفصیل کے لیے' فکر غامدی 'کا نیا ایڈیشن ملاحظہ فرمائیں ۔

17 غامدی صاحب قراء ات کو قرآن نہیں مانتے، گویا قرآن کے ایک جز کے منکر ہیں ، حدیث کو مستقل بالذات ماخذ ِدین نہیں مانتے اور صحابہ و اُمت کے کسی نص کے فہم پر اجماع کو حجت نہیں سمجھتے۔یہ میرے نزدیک تین ایسی بنیادیں ہیں کہ جن پر جمیع اہل سنت ائمہ اربعہ، ظاہریہ اورمحدثین کا اتفاق ہے اور ان کے انکار کی وجہ سے غامدی صاحب اہل سنت کے منہج پر نہیں ہیں اور جس عالم دین میں بھی یہ تین یا ان میں سے کوئی ایک بنیاد پائی جاتی ہیں وہ اہل سنت کے منہج پر نہیں ہے ۔
مفتی صاحب سے باتیں تو بہت سی کرنے والی ہیں لیکن فوری طور پر یہی باتیں ان کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔مفتی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ لاہور کے ایک عالم دین مولانا محمد رفیق چوہدری، جاوید احمد غامدی کے بارے میں علماے دیوبند، علماے اہل حدیث اور علماے بریلویہ کے فتاویٰ جمع کر رہے ہیں ۔مفتی صاحب ان سے ضرور رابطہ کیجیے گا۔کیونکہ ان کا موضوع بھی یہی ہے یعنی 'غامدی صاحب: علماء کی نظر میں '۔اور وہ علما، ایسے ہیں جن کو دنیا علما کہتی ہے نہ کہ فارغ التحصیل کے ساتھ فارغ العلم مفتی حضرات بھی!!

کتاب کے دیگر حصوں پر ایک نظر
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کتاب کے بقیہ حصوں پر بھی تھوڑی بہت روشنی ڈال دیں ۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس کتاب کا پہلا حصہ مفتی فیصل جاپان والا کا ہے جو کہ ۲۵ صفحات پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ مفتی کمال الدین مسترشد کا ہے جو 18 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں مفتی صاحب نے غامدی صاحب کے نظریۂ فطرت پر نقد کی ہے۔
مفتی صاحب کی اس ساری بحث کا خلاصہ دو نکات پر مبنی ہے: پہلا نکتہ سلف صالحین اور ائمہ متقدمین سے جڑے رہنے کی تلقین اور ان کے اجماعی موقف سے انحراف کی مذمت پر مشتمل ہے کہ جس سے ہمیں کلی طور پر اتفاق ہے۔

جبکہ دوسرا نکتہ بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب نے اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے اور تقلید ِجامد پر اکتفا کرنے کو مسلمانوں کا اجماعی موقف قرار دیا ہے۔ بھلا کوئی مفتی صاحب سے یہ پوچھے کہ فطرت کی بحث کا تقلید ِجامد سے کیا تعلق ہے ؟مفتی صاحب نے اپنی بات کی دلیل کے طور پر علامہ ابن خلدون(متوفی 808ھ) کا ایک قول بھی نقل کیاہے کہ پوری دنیا کے مسلمان چار اماموں کی تقلید پر متفق ہیں ،حالانکہ وہ علامہ ابن خلدون کی عبارت کا صحیح مفہوم سمجھ نہ سکے۔
ایک طرف ایک مفتی فیصل صاحب اس انتہا پر ہیں کہ غامدی صاحب کے گمراہ کن نظریات کو علما کے شاذ اقوال کی چھتری کا سایہ فراہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مفتی کمال الدین صاحب ایک دوسری انتہا پر ہیں کہ غامدی صاحب کوائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلیدکا مشورہ فراہم کر رہے ہیں ۔مفتی صاحب ذرا یہ بتائیں کہ صحابہ و تابعین کے دور میں عامة الناس ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تقلید کرتے تھے؟میں تویہ کہتا ہوں کہ چودہ صدیوں میں کو ئی ایک سال بھی اُمت ِمسلمہ پر ایسا نہیں گزرا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں نے صرف ائمہ اربعہ ہی کی تقلید کی ہو۔
علامہ ابن خلدون (808ھ)کے دور سے پہلے امام ابن حزم(456ھ)، امام ابن تیمیہ( 728ھ) اور محدثین کی ایک بڑی جماعت غیر مقلد تھی اور ان کے متبعین آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں اہل الحدیث، سلفیہ اور اثریہ و غیرہ کے القاب سے موجود ہیں ۔

سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جو ہر دور میں تہذیب و تمدن کے ارتقا سے پیدا ہوتے رہے ہیں اور جن کی مثال تک متقدمین کے زمانے میں نہیں ہوتی تھی اور علماے احناف ان مسائل کا حل پیش کرتے رہے ہیں ۔یہ اجتہاد نہیں تو اور کیا ہے؟ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ مفتی حضرات فتویٰ کی زبان سے اجتہاد کا دروازہ بند کردیں یا تقلید ِجامد پر مجبور کر کے علماء کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیں ۔ درمیان کی راہ یہی ہے کہ سلف کے منہج، فہم اور اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا جائے اور کسی ایک مذہب کی تقلید پر اِصرارکرنے کی بجائے من جملہ سلف کی تمام معروف و مشہور آرا کے دائرے میں رہنے کی تلقین کی جائے اور اس دعویٰ میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ سواے برصغیر پاک و ہند کے حنفی علماء کی ایک جماعت کے سارے عالم اسلام میں اسی منہج پر کام ہو رہا ہے۔

آج سے تقریباً ۷۰، ۸۰ سال پہلے ہی مصر کے حنفی علما نے طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے میں امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی رائے کو اختیار کر لیا تھا اور اس کو مصر میں قانون کی شکل دے دی گئی تھی۔اس کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا، مراکش، الجزائر، افریقہ، یمن، قطر، سعودی عرب، کویت، اُردن، شام، تیونس، لیبیااور متحدہ عرب امارات وغیرہ میں بھی کسی امام کی تقلید پر زور دینے کی بجائے تمام ائمہ اسلاف کو اپنا علمی ورثہ سمجھتے ہوئے ان سے استفادہ کی فکر و منہج بہت تیزی سے علماء میں پھیل رہی ہے جس کی ایک بہترین مثال علما کے مختلف عالمی مجمعات اور ان کے فتاویٰ ہیں ۔ ان شاء اللہ برصغیر کے علما بھی عنقریب اسی منہج کی طرف آئیں گے۔

اس کتاب کا تیسرا اور بڑا حصہ وہ ہے کہ جس کے مؤلف جناب مفتی ذیشان پنجوانی صاحب ہیں ۔ اُنہوں نے اس کتاب میں تقریباً ۹۱صفحات میں غامدی صاحب کے اُصول ومبادی پر نقد کی ہے۔مفتی صاحب نے غامدی صاحب کے نظریۂ قراء ات، تصورِ سنت اورقرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے نقطہ نظر پر اپنی تحقیق پیش کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مفتی صاحب نے واقعتا اس حصے کی تالیف میں بڑی محنت صرف کی ہے۔ایک آدھ مقام پر مفتی صاحب نے غامدی صاحب سے اتفاق بھی کیا ہے جیسا کہ اُنہوں نے قرآن کی تعریف میں غامدی صاحب کی تعریف کودرست قرار دیاہے جبکہ اکثرو بیشتر مسائل میں اُنہوں نے غامدی صاحب کے برعکس علما کے عام نقطہ نظر ہی کی حمایت کی ہے اوراسے درست قرار دیا ہے۔

اس حصے کی بعض تحقیقات سے تو ہمیں اتفاق ہے جبکہ بعض کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ مصنف نے اصل بحث کو نہیں سمجھا جیسا کہ غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر نقد کرتے ہوئے مفتی ذیشان صاحب نے بھی مفتی فیصل صاحب کی طرح فقہا کی کتابوں سے حوالے پیش کرتے ہوئے سنت کا مفہوم متعین کرنا شروع کر دیا۔سنت کا جو معنی و مفہوم فقہ کی کتابوں میں بیان ہوا ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن وہ محل نزاع بھی نہیں ہے۔غامدی صاحب اور اہل سنت کے درمیان حقیقی محل نزاع تویہ ہے کہ سنت کا لفظ جب بطورِ مصدرِ شریعت استعمال ہوتا ہے تو اس کامعنی کیا ہوتاہے؟

غامدی صاحب نے 'میزان' میں سنت کے لفظ کو بطورِ مصدرِ شریعت بیان کرتے ہوئے اس کی ایک تعریف بھی کی ہے۔ اہل سنت جب سنت کے لفظ کو بطورِ مصدرِ شریعت بیان کرتے ہیں تو علم الفقہ کی کتابوں میں اس کا مفہوم نہیں بیان کرتے بلکہ اُصولِ فقہ کی کتابوں میں مصادرِ شریعت کی بحث کے تحت اس لفظ 'سنت' کا مفہوم واضح کرتے ہیں ۔جبکہ مفتی صاحب نے سنت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے اُصولِ فقہ کی کتابوں کے حوالے ہی نہیں دیے۔
کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصے کی تحقیق میں تقریباًغامدی صاحب کی ایک ہی کتاب یعنی 'میزان' ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔جبکہ جامع تحقیق کے لئے ان کی آڈیو،ویڈیو سی ڈیز، ٹیلی ویژن پروگرام، ماہنامہ اشراق اورغامدی صاحب کی ذاتی ویب سائٹ سے بھی استفادہ کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا، کیونکہ ان کے ذریعے غامدی فکر ونظریہ کو سمجھنا اور پرکھنا زیادہ آسان ہے۔

الغرض پوری کتاب کے مندرجات کو پیش نظر رکھیں تو اس سے غامدی صاحب کی حمایت کی بجائے علما کی مخالفت کے رجحانات اور اَقوال ہی زیادہ میسر آتے ہیں ۔ گویا مؤلفین کی اس میزان پر بھی غامدی صاحب پورا نہیں اُترتے اوریہی نتیجہ ظاہر ہوتا کہ اُمت ِمسلمہ کے کسی درجہ کے علماے کرام کی حمایت بھی اُنہیں حاصل نہیں ہے۔ جہاں تک کتاب وسنت ہیں تو اُن میں تو بہرحال غامدی صاحب کے پیش کردہ مسائل کی جابجا مخالفت ہی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ملت ِاسلامیہ کے نت نئے فتنوں کو سمجھنے او ران سے محفوظ رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

آخر میں ملک کے دو مؤقر دینی اداروں دار العلوم کراچی اور جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون کو یہ توجہ دلانا مناسب ہوگا کہ ان کے فضلا کی زیر نظر تصنیف کی علمی قدر وقیمت ان کے ناموں سے زیادہ ا ن اداروں سے سند ِفضیلت کی بنا پر ہے۔ قارئین ان نوجوان مفتیانِ کرام کے استدلال کی بجائے ان اداروں کی وقعت کی بنا پر ہی اس تجزیہ کو کچھ وزن دیں گے۔ دونوں محترم مدارس کے ذمہ داران سے گذارش ہے کہ اگر اُنہیں ان نوجوانوں کی اس نادر تحقیق سے اتفاق ہے تو ان کی تائید فرمائیں ، جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ بصورتِ دیگر اس نوعیت کے حساس موضوعات پر اپنے متعلقین کی درست رہنمائی کرکے دینی فریضے سے عہدہ برا ہوں اوراس کتا ب کے بارے میں اپنے ناقدانہ تجزیہ وتبصرہ سے بھی قوم کو مستفید فرمائیں ۔