نمونۂ سلف :حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی

دین اسلام کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے دعوت وتبلیغ کا کام جس قدر ضروری تھا، آج اُمت ِمسلمہ ا س قدر ہی اسے آگے پھیلانے میں سستی سے کام لے رہی ہے۔ انبیاے کرام ؑ کے دعوتی مشن کو فروغ دینے کے لئے ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے خوش نصیب بندے پیدا ہوئے جنہوں نے معاشرے کی اصلاح، شرک وکفر کے ردّ، ظلم وناانصافی، قتل وغارت گری، فحاشی و عریانی کے خاتمے اور تعلق باللہ میں رسوخ وپختگی کے لئے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کو فروغ دینے میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔

ایسے خوش نصیب حضرات میں ہمارے ممدوح متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر اور ادارة الاصلاح البدر، بونگہ بلوچاں نزد پھولنگر ضلع قصور کے بانی، ولی ٔکامل نمونۂ سلف حضرت حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی رحمة اللہ علیہ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ آپ نے دنیا ومافیہاسے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی کو اُمت ِمسلمہ کی اصلاح و تربیت کے لئے وقف کررکھا تھا۔ آپ کی شخصیت غیر متنازع اور ہرطبقے اور ہر فرد کے لئے قابل احترام تھی۔ آپ کو جس نے ایک بار دیکھا، وہ آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔ آپ کی آواز میں اللہ تعالیٰ نے ایسی حلاوت،گفتگو میں متانت اور اس قدر شرینی رکھی تھی، خصوصاً جب آپ اپنے مخصوص انداز میں قرآنِ مجید کی تلاوت فرماتے تو سخت سے سخت دل میں نرمی پیدا ہو جا تی تھی ۔ آپ کی شخصیت نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی آئینہ دار تھی۔کسی کو کافرکہنا،کسی کو منافق قراردینا،کسی کو بے دینی کی حدوں میں داخل کردینا یا کسی پر شرک کا فتویٰ لگانا ان کا شیوہ نہیں تھا۔ حتیٰ کہ آپ کسی کے بارے میں غیبت اور ناشائستہ گفتگو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔

خاندانی پس منظر
آپ کا تعلقراجپوت برادری سے تھا۔آپ کاخاندان عرصۂ درازسے ضلع قصور کے گائوں میر محمد میں آباد ہے۔گردونواح کے تقریباً تمام دیہات میں ان کے خاندان کا ہراعتبارسے احترام موجودہے۔ دیانت داری، تقویٰ،سنت ِرسول کی محبت، شرم وحیا،خیرخواہی، قرآن و حدیث کی تدریس جیسی خوبیوں سے اللہ تعالیٰ نے خاندانِ میر محمد کو نواز رکھا ہے۔آپ کے والد گرامی حضرت مولانا حافظ محمد عظیم کے بارے میں 'تذکرة الا برار' از ڈاکٹر عبدالغفور راشد کی کتاب سے چند باتیں ملاحظہ فرمائیں :

''حافظ محمد عظیم انتہائی متقی اور پرہیز گار شخص تھے۔ ایامِ طفولیت سے ان کا رجحان و میلان عجز وانکساری اور صالحیت اور اِتقا کی طرف ہو گیا جو تادمِ آخر قائم ودائم رہا بلکہ عرفان وسلوک میں اُنہوں نے ممتاز مقام حاصل کیا اور اسی عزت وتکریم کے ساتھ زندگی کے شب وروز بسر کردیئے۔ ان کا آبائی تعلق بھوجیان(بھارت)کے مردم خیز قصبے سے تھا،جہاں علم وعرفان کی ایسی قند یلیں اور شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے سر زمین ہندہی نہیں بلکہ بیرونِ ہند بھی تاریک وادیوں کو روشن کیا۔ حافظ محمد عظیم کا تعلق ایسے خانوادہ سے تھا جس کا رجحان اکثروبیشترجدال وخصام کی طرف رہا ہے لیکن ان کی بلند بختی کہ ان کے خاندان میں ان کے بڑے بھائی بلند خاں اور چچا مستقیم خاں نے، مولانا فیض اللہ خاں جو افغانستان سے بھوجیان (بھارت)آئے تھے، یعنی حضرت یحییٰ عزیز کے نانا جان ، ان کے ذریعے کتاب وسنت کا مسلک اختیار کیا جس کی بنا پر ان کے گھروں میں مروّجہ جاہلانہ طرزِ زندگی کی بجائے اُن اطوار کو اختیار کر لیا گیا تھا جن کا تقاضا کتاب وسنت نے کیا ہے۔ حافظ میر محمدی نے حفظ قرآن کے بعد ا خذ ِعلم کے لیے مدرسہ محمدیہ، لکھو کے اور مدرسۂ غزنویہ، امرتسر میں قیام کیا لیکن ان کا قلبی اور طبعی رجحان عرفان وسلوک کی طرف تھا۔ لہٰذا وہ مروّ جہ علومِ دینیہ میں کوئی زیادہ استفادہ نہیں کر سکے۔ اپنی تشنگی کی سیرابی کے لئے وہ زیادہ عرصہ سید محبوب علی شاہ لکھوی اور مولانا صوفی کمال الدین ڈوگر کی خدمت میں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان دوشخصیات کی صحبتوں کا رنگ ان کی قباے حیات پر غالب رہا۔ ان کے زہدو وَرع اور سلوک وعرفان کے بارے میں لوگوں نے کافی حکایات وروایات بیان کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صاحب ِکرامت بزرگ تھے۔

اس سلسلہ میں مولانا عبدالعظیم انصاری رحمة اللہ علیہ کی تحریر 'تذکرہ علماے بھوجیاں ' سے استفادہ کیا گیا ہے اور انہی کے ذرائع روایت پر ایقان واعتماد کیا گیا ہے۔ حافظ محمد عظیم کی اولاد واحفاد اور دیگر احباب واصحاب کے ہاں کئی ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انتہائی متوکل علیٰ اللہ اور مطمئن بذکراللہ شخص تھے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیوی رغبتوں اور لذتوں سے ناآشنا تھے۔ اُنہیں بیٹھتے اُٹھتے اور چلتے پھرتے ہوئے بس ایک ہی فکر دامن گیر رہتی کہ ہمارا ربّ ِکریم ہم پر را ضی ہو جائے اور ہماری اُخروی زندگی بہتر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ جوبندہ اللہ کا ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کا ہوجاتا ہے اور پھر اس کی تمام ضروریات واحتیاجات کا خود خیال رکھتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہو تا کہ مر حوم حافظ محمد صاحب آیت الکرسی پڑھ کر بغیر محافظ کے کھیتوں میں مویشی چھوڑآتے، ان کے مویشی محفوظ رہتے اور کبھی نقصان نہ ہوتا، حالانکہ ابتدا سے ہی میر محمد اورستوکی کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی کثرت رہی ہے اور قتل وغارت گری ان لوگوں کا روزمرہ معمول ہے۔

حافظ محمد کے علاوہ بھی اس خاندان کے کئی افرادتقویٰ وصالحیت میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے بھائی حافظ دوست محمد بھی بڑے خد ا ترس بزرگ تھے ۔ان کے شب وروز عبادتِ الٰہی میں بسر ہوتے۔ بڑے قانع ومطمئن اور صبرورضا کے پیکر، عجز وانکساری کا نمونہ اور خشیت ِالٰہی میں محو رہنے والے شخص تھے۔ نرم رو اور نرم خو اتنے کہ کسی انسان سے اُلجھنا اور جدال وخصام تو دور کی بات ہے، وہ جانور کو بھی نہیں مارتے تھے۔ کاشتکاری کے دوران جب ہل چلاتے تو بیلوں کو چھٹری سے نہیں بلکہ کپڑے سے ہانکتے تھے۔خصائل حمیدہ سے متصف اس عظیم انسان کا۱۹۴۰ء میں ارتحال ہو ااور اُنہیں میر محمد وستوکی کے درمیان سپردِ خاک کیا گیا۔

حافظ محمد کی اولاد میں دو بیٹے ہوئے: بڑے مولوی محمد یعقوب اور چھوٹے حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی۔ مولوی محمد یعقوب کچھ عرصہ دہلی میں حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے قائم کردہ مدرسہ میں زیر تعلیم رہے لیکن وہاں کا نصاب مکمل نہ کرسکے، پھر گائوں آکر کاشت کاری میں مصروف ہوگئے۔ ان دونوں بھائیوں پر نیکی اور تقویٰ شعاری میں بلاشبہ الولد سرّ لأبیہکی مثال صادق آتی ہے لیکن قدوقامت میں باپ کے ہم پلہ نہیں تھے۔ مولوی محمد یعقوب نے ۱۱؍جنوری۲۰۰۳ء کو اپنے گائوں میر محمد میں وفات پائی۔آپ کی اولادِ میں حافظ محمد طارق ، محمد اسحق اور چھ بیٹیاں شامل ہیں ۔

قار ئین کرام! یہاں میں حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمد ی رحمة اللہ علیہ کے دیگر حالاتِ زندگی سے قبل ان انٹرویوز کے بعض حصے پیش کرتا ہوں جو میں نے اُن سے اپنے غریب خانے میں 2004ء سے 2006ء کے دوران ریکارڈ کیے :
سوال :آپ اپنا نام، والد ِ گرامی اور دادا جان کا نام بتائیے؟
جواب:محمد یحییٰ عزیز میر محمدی بن حافظ محمد عظیم بن نواب خان بن روشن دین

سوال : آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب: 4 شوال 1345ھ بمطابق 12؍دسمبر 1927ء کو ضلع لاہور، حال قصور کے معروف گائوں میر محمد میں پیدا ہوا۔

سوال: جب آپ کی شادی ہوئی تو اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
جواب: عمرتقریباً 25 برس ہوگی ،میرے چچا حافظ دوست محمد میرے سسر ہیں ۔

سوال:آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟
جواب: والدین کی شرافت اور نیکی کے اثرات نے میری تربیت میں کافی مدد دی۔ بچپن ہی سے مجھے نیک کام کرنے اور بھلائی والے اعمال میں حصہ لینے کا شوق اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے ملا، گھر میں ہی رہتے ہوئے قرآنِ مجید کی تعلیم کا آغاز اپنے چچا حافظ دوست محمد سے کیا۔

سوال : کن کن مدارس میں زیر تعلیم رہے اوربالآخر کس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ؟
جواب: ابتدائی تعلیم میر محمد میں قائم مدرسہ میں حاصل کی، یہاں حفظ ِقرآن اور مشکوٰة شریف کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد امر تسر چلا گیا اور مدرسہ غزنویہ امر تسر میں زیر تعلیم ہی تھا کہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا ۔تقسیم ہند کے بعد کچھ عرصہ یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ بعدازاں پاکستان آکر اپنے نا نا جی کے شاگردِ خاص مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمة اللہ علیہ جو گوندلا نوالہ ضلع گوجرانوالہ میں تدریس پر مامور تھے، ان سے کچھ عرصہ اکتسابِ فیض کیا۔ پھر شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمة اللہ علیہ جو اس وقت ٹاہلی والی مسجد، گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے، ان کے حلقہ تدریس میں شامل ہو کر بخاری شریف ودیگر کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوا۔

سوال: دینی مدارس میں دورانِ تعلیم جن اساتذہ وعلماسے استفاہ کیا، ان کے اسماے گرامی ؟
جواب: مذکورہ بالا اساتذہ کے علاوہ حافظ دوست محمد رحمة اللہ علیہ ، حافظ محمد بھٹوی رحمة اللہ علیہ ، مولانا نیک محمد رحمة اللہ علیہ ، مولانا عبداللہ بھوجیانی رحمة اللہ علیہ ، مولانا عبدالرحیم بھوجیانی رحمة اللہ علیہ اور مولانا محمد حسین ہزاروی رحمة اللہ علیہ شامل ہیں ۔

سوال : دینی طلبا ء زیادہ مدارس کیوں تبدیل کرتے ہیں ؟
جواب: اس کی میری نظر میں دو وجو ہ ہیں : ایک تو ایسیطلبا جوزیادہ محنت کرنا پسند نہیں کرتے، اور دوسری وجہ: کسی لالچ کی خاطر

سوال : آپ کتنے بہن بھائی ہیں ؟
جواب: تین بہنیں اور ایک بھائی (اب صرف ہم شیر گان ہی حیات ہیں )

سوال : آپکے رفقاے مدارس میں سے ایسے افراد جواس وقت دین حنیف کی تبلیغ پر مامور ہیں ؟
جواب: شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف مہتمم دار الحدیث راجووال اوکاڑہ، مولانا ابوبکر صدیق سلفی صدر مدرّس مسجد نجم اہلحدیث لاہور، جبکہ حافظ بشیر احمد بھوجیانی رحمة اللہ علیہ اور مولانا محمد یحییٰ شرقپوری رحمة اللہ علیہ ودیگر وفات پا چکے ہیں ۔

سوال : زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو یاد رہتا ہو؟
جواب: بچپن میں ایک دفعہ سکول سے گھر آ رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جس نے بھاری گٹھڑی اُٹھا ئی ہوئی تھی۔ ضعیف العمری کی وجہ سے بڑی مشکل سے چل رہی تھی۔ تقریباًچار میل کے فاصلے پر میراسکول تھا جو میرے گھر سے دور تھا، میرے پوچھنے پر اس بوڑھی خاتون نے بتایا کہ میں نے گائوں میر محمد جانا ہے ۔ میں نے اس کا بوجھ اُٹھایا اور اس کے گھر تک پہنچایا ۔اس وقت بوڑھی عورت نے مجھے دعائیں دیں تو میں حیران رہ گیا کیونکہ میری نظر میں وہ اتنا بڑاکا رنامہ نہیں تھا جس کی مجھے اتنی زیادہ دعائیں مل گئیں ۔ اس وقت سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ خدمت ِخلق اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، اس لئے ہر دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ علماے کرام کو میر امشورہ ہے کہ وہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ خدمت ِخلق میں بھی حصہ لیا کریں ، کیونکہ ان کی تبلیغ بھی اُس وقت مؤثر ہوگی جب وہ ایک غریب وبے کس شخص کے ساتھ ہمدردی کریں گے، ورنہ ایسے افراد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیسے دعوت دینے والے علما ہیں جنہیں ہمارے د کھ وغم کا احساس ہی نہیں ۔

سوال : آپ اس سے قبل کن مقامات پر امامت وخطابت کی ذمہ دار ی ادا کرچکے ہیں ؟
جواب:اپنے والد ِگرامی کے جاری کردہ مدرسہ حفظ القرآن میر محمد، مدرسہ ضیاء السنہ راجہ جنگ قصور اور 1973ء سے لے کر اب تک مرکز البدر، ادارہ الاصلاح بونگہ بلوچاں ضلع قصو ر میں دعوت وتبلیغ کے ذریعے دین حنیف کی اشاعت وترویج میں مصروفِ کار ہوں ۔

سوال : قرآنِ مجید او رصحاحِ ستہ کے علاوہ کونسی کتب پسندیدہ ہیں ؟
جواب: قرآنِ پا ک پر ہر تفسیر ، سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، نیز امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ ،امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ اور حضرت العلام حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمة اللہ علیہ کی کتب وغیرہ۔

سوال : پاکستان سے فرقہ واریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
جواب: اگر یہ فریضہ حکومت ِپاکستان سرانجام دے تو بہت جلد اثر انداز ہوگا یا اُمت ِمسلمہ کے علماء آپس میں اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے عوام الناس کو کم ازکم قرآن پاک کا مکمل ترجمہ اور حدیث شریف کی کوئی نہ کوئی کتاب لازماً پڑھانا ہے توپھر اس کے نتائج دیکھیں ، کیسے آتے ہیں ۔ علماء زیادہ زور اپنے مسائل پر دینے کی بجائے قرآن وحدیث کی براہِ راست تعلیم پر توجہ دیں ،اس طریقہ سے کافی حد تک فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ !

سوال : آپ اپنے دور کے جن علماء وشیوخ سے بے حد متاثر ہیں ؟
جواب: شیخ الحدیث مولانا نیک محمد رحمة اللہ علیہ ، مولانا محمد عبداللہ بھوجیانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمة اللہ علیہ

سوال : آپ کی کوئی تصنیف؟
جواب: دعوت وتبلیغ کی مصروفیات کی بنا پر اس سلسلہ میں کوئی خاص کام نہیں ہو سکا، البتہ چند تحریریں درج ذیل ہیں جو کتابچوں کی شکل میں شائع ہوئیں :
1۔تبلیغ وتربیت کے پانچ اُصول 2۔تجوید کی پہلی آسان کتاب 3۔آسان قاعدہ وغیرہ
علاوہ ازیں قرآنِ کریم کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر 45 کیسٹوں میں ریکارڈ ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے۔

سوال: بدلتے ہوئے عالمی تناظر کو آپ کس نظرسے دیکھتے ہیں ؟
جواب : حقیت یہ ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو اس وقت بعض لوگ دین کو قائم رکھنے کے لئے خصوصی محنت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں پر رحم آتا ہے کیوں کہ ایسے افراد میں اخلاص زیادہ ہو جاتا ہے ۔ایسے لوگ جب قربانی دیتے ہیں توپھر اللہ تعالیٰ اس دور کو بدلتے ہیں ۔ موجودہ دور عارضی ہے جو اُمت ِمسلمہ کی قیادت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ منظر بہت جلد بدلنے والا ہے ۔

سوال :آپکی پوری زندگی دین کی تبلیغ میں گزری ہے۔ تبلیغ کے لئے کیسی مہارت ضروری ہے؟
جواب:ارشادِ ربانی ہے: اُدع الی سبیل ربک بالحکمة بعض دفعہ ایک کم علم بھی حکمت کے ساتھ بات کرتا ہے تولوگوں کو متاثر کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ ایک بڑا عالم دین حکمت کو نظر انداز کرتا ہے اور موقع کے مطابق بات نہیں کرتا تواُس کی بات کا اثر نہیں ہوتا، لہٰذاتبلیغ کے لئے علم سے زیادہ ضروری چیز حکمت ہے۔ تبلیغ دین کے لئے انسانی نفسیات کا ادراک بہت ضروری ہے۔ داعی کے اوصاف میں علم کے ساتھ حکمت اور باعمل ہونا اشد ضروری ہے ۔

سوال : پاکستان میں آج تک نفاذِ اسلا م کیوں نہیں ہو سکا؟
جواب: اس کی دو بڑی وجو ہ ہیں ۔ہر صاحب ِاقتدار پارٹی کی تمامتر توجہ اپنے مخالف فریق تک ہی محدوود رہتی ہے اور ا س کے لئے خلوصِ دل سے کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود اہل اسلام آپس میں گروہ بندی کا شکارہیں ۔

سوال : عالم اسلام کے خلاف امریکہ کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کے جواب میں ہمارا کیا کردا ر ہونا چاہیے ؟
جواب: بے اتفاقی سے مسلم ممالک نے اپنا بہت نقصان کر وا لیا ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس کے تمام اختلافات کو بھلا کر اسلام اور اُمت ِمسلمہ کی بھلائی کے لئے متحد ہو کر عالم کفر کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کر کے عالم اسلام کے رہنمااُٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کی کوئی باطل طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔

سوال: موجودہ سیاست سے اہل حدیث حضرات کو الگ تھلگ ہونا چاہیے یا آوازِ حق بلند کرنے کے لئے اس سے تعلق رکھنا چاہیے؟
جواب: تعلق رکھنا تو سیاسی ضرورت بن چکا ہے۔ البتہ تمام دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی اُمور کو پس پشت ڈال کر تمام کوششیں اس پر صرف کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے قبل ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے ۔

سوال:مسئلہ کشمیر کا حل کیسے ممکن ہے ؟
جواب: حکومت ِپاکستان کا فرض بنتا ہے کہ اس مسئلہ کو سیاسی طورپر حل کرنے کے لئے عالمی سطح پر اسے اُٹھائے اور عالمی برادری کی معاونت حاصل کر کے اس کا حل تلاش کرے تاکہ مظلوم کشمیری عوام کو آزادی مل سکے ، جنگ وجدل کی موجودہ صورتحال بالکل درست نہیں ۔

سوال : موجودہ لوگوں کی دین سے دوری کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
جواب : دنیاوی آسائش وآرائش کے حصول کے لئے مال کی بے جاحرص نے صالح اعمال اور آخرت کی تیاری کو بالکل بھلا دیا جوکہ مجرمانہ غفلت ہے ۔

سوال : تمام اہلحدیث جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لئے کوئی تجویز ؟
جواب: اس سلسلہ میں دو تجاویز ہیں : تمام جماعتوں کے اراکین مجلس شوریٰ ایک مشترکہ اجلاس منعقد کر کے جسے منتخب کر یں ، سبھی حضرات اسے اپنا امیر تسلیم کرلیں ۔ دوسری تجویزیہ ہے کہ کم از کم ہر جگہ کوئی تبلیغی واصلاحی جلسہ وغیرہ کا انعقاد ہو تو اس میں تمام جماعتوں کے اکابرین کو مدعوکیا جائے،اس طرح بھی سب ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں ۔

سوال : علماء کے ساتھ جو عوام کا رویہ ہے، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں ؟
جواب: اپنے علما کی قدراگر اُنہوں نے نہ کی جس طرح کرنے کا حق ہے تو پھر اور کون کرے گا، موجودہ رویہ قطعی درست نہیں ۔

سوال : دین کے موجودہ طالب ِعلم مطالعہ سے بہت کتراتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ درسِ نظامی کا نصاب پڑھ لیا، کافی ہے۔ کیا یہ طرزِعمل درست ہے ؟
جواب:مطالعہ سے علم میں اضافہ ہوتا ہے، بغیر مطالعہ کے انسان اپنا وقار گم کر بیٹھتا ہے جس قدر انسان کے پاس ذخیرئہ قرآن وحدیث ہو گا، اس قدر وہ عالم باعمل اور اس کا خطاب اثر انداز ہوگا۔

سوال : کیاعالمی دبائو میں آکر ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے؟
جواب: یہ امریکی سازش ہے۔ اگر حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جوکچھ اب تک اسرائیل نے مسلم ممالک کے خلاف کیا، وہ درست ہے۔ اس طرح ہم اپنا موقف چھوڑ کر اپنا وقار مزید خراب کریں گے۔

سوال :آپ کو دعوتی میدان میں کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ہے ؟اور اس راستے میں کون سی مشکلات کا سامنا ہے ؟
جواب:الحمد اللہ پورے پاکستان میں ہماراکام جاری ہے۔ جماعتیں دور دراز علاقوں تک جاتی ہیں ۔ پہاڑی علاقوں کا ہر سال ایک دورہ ہوتا ہے۔ مری، کالاباغ، ایبٹ آباد، نتھیا گلی، کوئٹہ اور اس کے مضافات میں بھی ہماری جماعتیں جاتی ہیں ۔ ادھر بڑی تعداد میں ہمارے بھائی موجود ہیں ۔ رہی بات اس مشن میں مشکلات کی وہ تو آپ کے علم میں ہے دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں ، بات صرف سمجھنے اور خلوص سے عمل پیرا ہونے کی ہے۔ ہم میں سے ہرشخص اپنی مجبوری اور خوشی وغمی کی خاطر سفر گوارا کرتا اور کاروبار بند کرلیتا ہے مگر دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں یہ کام ہم گوارا نہیں کرتے ۔حالانکہ دعوت وتبلیغ وہ عظیم مشن ہے جس کی لئے اللہ کریم نے انبیاے کرام کو معبوث فرمایا ۔اس دعوتی سلسلہ کو فروغ دینا ہر کلمہ گو کافرض ہے۔

خطبات وتقاریر کی روشنی میں آپ کی بعض خصوصیات اور نظریات
1 علماے کرام کی معاشی پر یشانی کے خاتمے کیونکر:آپ اپنے اکثر دروس میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے ائمہ وخطبا کی جو خدمت کرتے ہیں ، وہ مہنگائی کے اس دورمیں بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لئے ناکافی ہے۔ اگر مسجد کا ہر نمازی اپنے دل میں تہیہ کرلے کہ جو چیز میں اپنے بچوں کے لئے لے جائوں گا، اس میں سے کچھ حصہ اپنے خطیب کے گھرمیں دینا ہے، توآپ نے لازماً ہر روز کچھ نہ کچھ اپنے کھانے پکانے کا سامان لے جانا ہے ۔ایسی ضرورت خطیب وامام کو بھی ہر روز ہوتی ہے۔ جب ہم ان کی ضروریاتِ زندگی کا کما حقہ احساس یا ان کا اِزالہ نہیں کرتے تو وہ اس کمی کو پو را کرنے کے لئے کچھ اور ذریعہ تلاش کرتا ہے۔ اس روزگار پر جو وقت صرف ہوتا ہے، اس قدرہی دینی کا م کا نقصان ہو تا ہے۔جس طرح آپ اپنی صحت کا خیال کرتے ہیں ، اس طرح اپنے عالم یا خطیب کے لئے اگر آپ مناسب غذا کا بندوبست کر دیں گے تو اچھی خوراک سے علمی ودینی کام کرنے میں سہولت ہوگی۔

2 فضول خرچی سے اجتناب :وضو اور نہانے کے لئے آپ پانی اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے۔ عام نمازیوں کی طرح پانی کا ضیاع آپ کو سخت ناپسند تھا۔ ایک واقعہ ملاحظہ ہو :
سخت گرمی کے موسم میں چھا نگامانگا کے ضلعی امیر مولانا محمد شفیع اپنے دیگر رفقا کے ہمراہ آپ کے ہاں گئے تو آپ کمرے میں پنکھا بند کر کے ذکر ِ الٰہی میں مصروف تھے۔ مہمانوں نے پوچھا: کیا بجلی نہیں ہے؟ فرمانے لگے: بجلی توہے، اگر آپ کو ضرورت ہے تو چلا لیں ۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے پنکھا چلا لیا۔ آپ سے ہم نے پوچھا: کیاآپ نے سخت گرمی کے موسم میں بھی پنکھا نہیں چلایا۔ فرمانے لگے: میں نے سوچا کہ مسجد کے اخراجات میں کچھ کمی واقع ہوجائے ، میریپنکھا نہ چلانے سے کچھ تو بجلی کے بل میں کمی واقع ہوگی۔

3 سخاوت: اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے آپ ہمیشہصدقہ و خیرات کرتے رہتے۔بیماری کے دنوں کا واقعہ ہے کہ کوئی ضرورت مند خاتون آپ کے پاس حاضر ہوئی اور اُس نے کچھ تعاون کی درخواست کی تو آپ نے موجود رقم اس سائلہ کو دے دی۔ آپ کے پاس ہی کھڑا آپ کا پوتا کہنے لگا: ابا جان! آپ نے ان کو کتنی رقم دینی تھی۔ آپ خاموش رہے، اُس نے پھر کہا: آپ پھر خاموش رہے۔ بچے نے جب تیسری بار کہا کہ ابا جان آپ نے جو رقم دی ہے، وہ تو بہت زیادہ ہے۔ آپ اُسے تھوڑی رقم دے دیتے، سائل تو آتے رہتے ہیں ۔ جواب میں فرمانے لگے: بیٹا تجھے علم نہیں کہ اس بے چاری عورت کا اس رقم سے مہینے بھر کا خرچہ بھی پورا ہو گا یا نہیں ؟وہ رقم پانچ ہزار روپے تھی۔

4 تہجد کی پابندی :مرکزی جمعیت اہلحد یث ضلع قصور کے زیر اہتمام15؍نومبر 2008ء کو جناح ہال پتوکی میں حضرت حافظ صاحب کی دینی اورجماعتی خدماتِ جلیلہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا۔اس موقعہ پر آپ کے صاحبزادے حافظ محمد اسماعیل نے آپ کے حوالے سے سامعین کو یہ واقعہ سنایا کہ میری تربیت کے لئے والد محترم حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ بیٹا میری عمر تقریباًآٹھ،دس سال ہوگی جب مجھے آپ کے دادا جان نے نمازِ تہجد پڑھنے کی ترغیب دی۔ میں نے اُس وقت سے تا حال نہ صرف اُس کی سعادت حاصل کی بلکہ اُسے قضا بھی نہیں ہونے دیا۔

5 خوراک کا کم استعمال اور انکساری:ایک شخص نے آپ کے سامنے یہ بات کہی کہ آپ کی خوراک کچھ بھی نہیں جبکہ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمة اللہ علیہ کی خوراک تو اس سے کافی زیادہ تھی۔ فرمانے لگے کہ اگر وہ اتنی خوراک کھاتے تھے تو جو اُنہوں نے دینی خدمات سر انجام دی ہیں ، میں اُن کا مقابلہ کہاں کر سکتا ہوں ؟

6 وعدے کی پابندی: وعدے کی پابندی مؤمن کے اوصاف میں شامل ہے،مگر افسوس کہ وعدے کی پاسداری ہمارے معاشرے میں اس قدر نادر ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دین دارلوگ بھی اپنے وعدوں کی پروا نہیں کرتے۔مگر حافظ صاحب نے جس جگہ پہنچنے کا وعدہ کیا یا آپ سے جولوگ تقاریر کے وعدے لے کر جاتے، وہ خود بھول جاتے مگر آپ حسب ِوعدہ دعوت وتبلیغ کے لئے پہنچ جاتے۔ ان کی ڈائری میں شاید ہی کوئی تاریخ خالی ملتی، سال بھر اور زندگی بھر ان کی یہی صورت رہی ۔

7 شادی خانہ آبادی کے معاملے میں رہنمائی: ہمارے معاشرے میں مناسب رشتوں کا نہ ملنا اس دور کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں آپ ہمیشہ تعاون پر آمادہ رہتے اور فریقین کی آسانی کے لئے مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں خصوصی مدد کیا کرتے۔ پھر ایسے شادی بیاہ میں شمولیت سے بھی گریز کرتے تھے تا کہ کل کوئی فریق کسی قسم کا اعتراض نہ کر سکے۔ ازدواجی معاملے طے کروانے کی وجہ یہ تھی کہ اچھے لوگوں کواچھے رشتہ دار حاصل ہوجائیں اور کوئی شخص غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔

8 مرکز البدر میں ماہانہ جمعہ: ماہِ رمضان المبارک کا پورا مہینہ آپ مرکز ادارة الا صلاح بونگا بلوچاں میں قیام کرتے اور تمام خطباتِ جمعتہ المبارک کا فریضہ سرانجام دیتے جبکہ باقی گیارہ مہینوں میں صرف ہر چاند کا دوسرا خطبہ یہاں ارشاد فرماتے۔ باقی خطباتِ جمعہ مختلف مقامات پر جا کر دیتے جن کا لوگوں نے چھ ماہ قبل وعدہ لیا ہوتا تھا۔ ادھر مرکز ادارة الاصلاح میں مختلف علماے کرام کو پابند کر رکھا تھا جو ہر ماہ ایک خطبہ دیتے۔ان میں راقم الحروف کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا محمد عطاء اللہ حنیف ڈاہروی حفظہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ آپ نے بھی ایک عرصہ تک حافظ صاحب کی غیرموجودگی میں یہ فریضہ انجام دیا ہے۔

9 صفائی اور سادگی میں نمونہ:آپ کا لباس ہمیشہ معمولی قسم کالیکن صاف ستھرا ہوتا۔ صفائی کاخاص خیال رکھتے، اسی طرح مرکزادارة اصلاح کے باورچی خانے سمیت ہر جگہ کو خوب صاف رکھواتے، کسی جگہ کے بارے میں آپ کو کوتاہی کا علم ہو جاتا توبغیر کسی حیل وحجت یہ فریضہ خود سرانجام دیتے ۔ لوگوں نے اکثر دیکھا کہ مرکز الاصلاح کے غسل خانوں کو کئی دفعہ خود رات کو اُٹھ کر صاف کیا کرتے تھے۔ ان کی ساری زندگی سادگی، قناعت، شرافت، مروّت اور وضع داری میں گزری۔ اُنھیں دیکھنے سے اہل اللہ اور علماے سلف کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر ہر فرد اُن کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کی ۔ان کی شخصیت میں عجیب جلال وجمال تھا۔اُنھیں اپنے بلند منصب کا کبھی احساس نہیں ہوا تھا ۔اس لیے تو تکبراور احساسِ برتری جیسی مہلک بیماریاں ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں ۔

10 تلامذہ:آپ کے تلامذہ کی تعداد تو ملک اور بیرونِ ملک تک پھیلی ہوئی ہے۔ چند معروف شخصیات میں حضرت حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمة اللہ علیہ ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم رحمة اللہ علیہ سا بق صدر مدرّس جامعہ محمدیہ اوکاڑہ، مولاناقاری عبدالرحیم بونگا بلوچاں ،قاری محمد یحییٰ مدرّس جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ، قاری محمد یوسف میر محمدی اور اُستاذالقراء قاری محمد صدیق الحسن رحمة اللہ علیہ حبیب آبادی وغیرہ شامل ہیں ۔

11 طب سے دلچسپی : ہمارے تقریباًتمام مدارس میں پہلے طب کی بھی کچھ نہ کچھ کتابیں دورانِ تعلیم طلبا کو پڑھائی جاتی تھیں یا پھر بعض اساتذہ کرام جن کو طب سے دلچسپی تھی، وہ اپنے تلامذہ کی بھی اس سلسلہ میں رہنمائی کردیا کرتے تھے۔ دورانِ تعلیم آپ کے بعض اساتذہ نے اس علم کی طرف آپ کی بھی رہنمائی کی ۔اگرچہ آپ نے حکمت کا باقاعدہ پیشہ شروع نہیں کیا تاہم اپنے دروس میں گاہے بگاہے بعض نسخہ جات بتایا کرتے تھے، یا کوئی پوچھتا تب بھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔مجھے میرے دوست حکیم عبدالغفار قصور ی نے دو نسخے حضرت حافظ کے حوالے سے ذکر کئے جو اُنہوں نے جامع مسجد منیرہ، قصور میں دورانِ درس عوام کو بتائے:
I. پاگل کتے کے کاٹنے کا علاج: اگر ایسا کتا کسی شخص کو کاٹ لے تو اُس کے علاج کے لئے تخم دھتورہ سیاہ پیس کر خوراک تقریباً۴رتی صبح وشام ہمراہ دودھ لیا جائے۔
II. برائے اسقاطِ حمل خواتین: اونٹ کے بال لے کر جلا لیں ، اس کے برابر گیرولے کر ملالیں ۔جب دونوں کا سفوف بن جائے تو دوا تیا ر ہے ۔
خوراک :ایک ماشہ صبح ،دوپہر ،شام کچی لسی کے ہمراہ اور دودھ دیں ، اللہ شفا دے گا۔
میرے مطب پر 5مئی 2003ء کو جب حافظ صاحب تشریف لائے تو میں نے ان دونوں نسخہ جات کے بارے میں آپ سے پوچھا توآپ نے ان کی تصدیق فرمائی۔

12 بیرونِ ملک سفر:سعودی عرب میں بسلسلہ حج تین بار اور برطانیہ،متحدہ عرب امارات، دبئی اور کویت میں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں آپ کو جانے کا اتفاق ہوا ہے ۔
راقم نے اپنی بساط بھر آپ کی دینی، دعوتی اورجماعتی خدمات کی تھوڑی بہت وضاحت کی ہے۔ آپ کے چاہنے والوں کا وسیع حلقہ ملک اور بیرونِ ملک موجودہے ۔مجھے اُمید ہے کہ وہ بھی حافظ صاحب کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں اپنی یا داشتوں کو مرتب کریں گے ۔

13 آپ کی اولا د:آپ کی اولاد میں اکلوتا بیٹا صاحبزادہ حافظ مولانا محمداسمٰعیل میر محمدی اور دو بیٹیاں شامل ہیں جبکہ آپ کے اکلوتے بیٹے کے ہاں ایک بیٹا محمد عظیم اورپانچ بیٹیاں ہیں ۔
13 وفات اور نمازِ جنازہ: کچھ عرصہ سے آپ شوگر ودیگر امراض میں صاحب ِ فراش تھے۔ علاج معالجہ سے صحت میں کبھی کچھ بہتری آجاتی۔ بالآخر ربّ ِکریم کے اٹل فیصلے کی گھڑی یکم نومبر2008ء کو بعد نمازِ عشاء آپہنچی جس کے آگے ہر شاہ وگدا کو سرخم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون!
اگلے روز صبح11بجے مرکز البدر، بونگہ بلوچاں میں آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت مولانا عتیق اللہ عمر حفظہ اللہ نے کروائی۔ نمازِ جنازہ میں ملک بھر سے شیوخ اہلحدیث، علماے کرام، قراے عظام، دینی طلبہ اور دینی تنظیموں کے قائدین وکارکنان نے ہزاروں کی تعد اد میں شرکت کی۔ جنازے میں ہرآنکھ اشکبار تھی اور آپ کی مغفرت وبلندیٔ درجات کے لئے دعا گو۔
دوسری بار آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے آبائی گائوں میر محمد میں ادا کی گئی۔ وہیں پر آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔آپ کی نمازِ جنازہ کے دونوں مناظر تاریخی حیثیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دینی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو جنت ِفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین!