مروّجہ اسلامی بینکاری کی چند خرابیاں

ادارہ محدث میں مروّجہ' اسلامی بینکاری' کے شرعی جائزے کے لئے جملہ مکاتب ِفکر کے جلیل القدر علما اور بینکاری ماہرین کا ایک وسیع اوربھرپور اجلاس 20؍ جولائی 2008ء کو منعقد ہوا تھا۔ دن بھر جاری رہنے والے اس اجلاس میں نمائندہ علما اور اسلامی بینکاری کے ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کردی گئی تھی جس کے بعد ازاں دفتر محدث میں باضابطہ طورپر مزید دو طویل اجلاس منعقد ہوچکے ہیں ۔ ان مجالس میں بیسیوں اُمورپر شرعی آرا اور ماہرین کا تبادلہ خیال ہوا، جنہیں مرتب کرکے' محدث' میں گاہے بگاہے شائع کیا جاتا رہے گا۔ کمیٹی کا آخری اجلاس رمضان المبارک سے قبل لاہور کی معروف علمی شخصیت حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ اس مجلس میں جہاں بہت سے قیمتی مباحث پیش ہوئے، وہاں ڈاکٹر صاحب کی اس موضوع پر تازہ ترین نظر ثانی شدہ تصنیف کے بھی متعدد اقتباسات پڑھ کر سنائے گئے۔ زیر نظرمضمون اسی کتاب سے ماخوذ ہے، یہ کتاب ادارئہ محدث عنقریب شائع کرکے منظر عام پر لارہا ہے۔


اس دور میں مولانا تقی عثمانی مدظلہ اور ان کے صاحبزادے مولوی عمران اشرف عثمانی سلمہ کی کوششوں سے پاکستان میں اسلامی بینکاری کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔دوسرے مسلمانوں کی طرح الحمد للہ ہم بھی اسلامی بینکاری کے خواہش مند ہیں ، لیکن چاہتے ہیں کہ یہ نظام خالص اسلامی ہو اور اس میں سود کی اور دیگر غیر اسلامی اُمور کی آمیزش نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائج کردہ اسلامی بینکاری نظام نہ سو فیصد اسلامی ہے اور نہ ہی سو فیصد سود سے پاک ہے۔ جس کا یہ فائدہ تو ہے کہ جو لوگ پہلے سو فیصد سود میں ملوث تھے، وہ اگر اپنے مالی معاملات اور سودی بینکوں کو چھوڑ کر صرف اسلامی بینک میں اپنی رقم رکھیں تو وہ 100 فیصد کی بجائے مثلاً چالیس فیصد سود پر آ جائیں گے، لیکن دوسری طرف اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ اپنی دینداری اور اپنی احتیاط کی وجہ سے سود وغیرہ کے صفر درجہ (Zero Level) پر تھے، وہ بھی لامحالہ اسلامی ہونے کے دعویدار بینکوں کو اسلامی سمجھتے ہوئے جزوی طور پر ہی سہی، لیکن سودی بینکنگ میں ملوث ہوجائیں گے اور اس طرح وہ بھی سود کے چالیس فیصد لیول پر آ جائیں گے اور یقینا یہ ایک بڑا نقصان ہے۔
مولوی عمران اشرف عثمانی نے انگریزی میں Meezan Bank's Guide to Islamic Banking یعنی 'اسلامی بینکاری کے لئے میزان بینک کی راہنما' نامی کتاب لکھ کر شائع کی اور دارالعلوم کراچی کے استاد مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی نے اپنی کتاب 'اسلامی بینکاری؛ ایک حقیقت پسند جائزہ' شائع کی۔ ان کتب کی بنیاد پر ہم نے اس بینکاری کی درج ذیل چند خرابیاں لکھی ہیں :


شرحِ سود کو معیار بنایا جاتا ہے !
کسی شے کی قیمت یا کرایہ طے کرنے کے لئے مروّجہ اسلامی بینک ایک متبدل (Floating) ریٹ ذکر کرتے ہیں جس میں بنیادی اہمیت Kibor یعنی Karachi Inter Bank Offered Rate کو حاصل ہوتی ہے جو کہ بینکوں کے آپس کے لین دین کی شرحِ سود ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس شرحِ سود کی بنیاد پر قیمت یا کرایے کی کا تعین کیا جاتا ہے اور اس کی تبدیلی سے قیمت یا کرایہ بدلتا رہے گا۔ اس میں دو خرابیاں ہیں :
قیمت یا کرایہ کے طے کرنے میں شرحِ سود کو معیار بنانے اور اس کو ذکر کرنے میں اسلام کے غیر سودی نظام سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔
اس سے یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کسی وقت اسلامی بینک کو سرمایہ کی ضرورت ہو تو وہ بھی دوسرے بینکوں سے قرض لیتا ہے اور ان کو Kibor کے حساب سے سود ادا کرتا ہے۔
دارالعلوم کراچی کے مدرّس مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی اس بارے میں جو صفائی پیش کرتے ہیں ، وہ ہمارے اسی اندیشہ کی تائید کرتی ہے۔ لکھتے ہیں :
''ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ موجودہ حالات میں اسلامی بینک شرحِ سود کو کیوں معیار بناتے ہیں اور اس کا متبادل تلاش کرنے میں اُنہیں فی الحال کن مشکلات کا سامنا ہے؟
بینکوں کے باہمی شرحِ سود کا پس منظر یہ ہے کہ عام طور پر مختلف بینک ایک جیسے حالات میں نہیں چل رہے ہوتے۔ بعض بینک ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ضرورت سے زائد رقم ہوتی ہے جب کہ بعض بینکوں کے پاس فنانس کے لئے رقم کم ہوتی ہے تو جن بینکوں کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں جن کے پاس رقم زائد ہوتی ہے۔ قرضہ دینے والا بینک ایک مخصوص شرحِ سود پر قرض دیتا ہے۔ اسے Inter Bank offered rate کہا جاتا ہے یعنی بینکوں کے باہمی معاملات میں پیش کیا گیا شرح سود۔ اس کا مخفف Ibor ہے۔ پاکستان میں عام طور پر کراچی کے بینکوں کا شرحِ سود بطورِ پیمانہ استعمال ہوتا ہے جسے کائبور یعنی Karachi Inter Bank Offered Rate کہتے ہیں ۔
اگر پاکستان میں اسلامی بینک کائبور کو چھوڑ کر کوئی اسلامی معیار بنانا چاہیں توظاہر ہے کہ اس کیلئے اسلامی بینکنگ کی ایک بڑی مارکیٹ کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ الحمدللہ پاکستان میں بھی آہستہ آہستہ یہ مارکیٹ ترقی کر رہی ہے۔'' 1

مالی جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو سود ہے
مولوی عمران اشرف عثمانی صاحب ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ بینک اگر کسی کے ساتھ مرابحہ کا معاملہ کرے تو اس کے بروقت ادائیگی نہ کرنے پر نہ تو قیمت میں تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ بینک کے لئے یہ ہدایت بھی جاری کرتے ہیں کہ وہ گاہک جو ایک ماہ کی مہلت ملنے کے باوجود کسی معقول عذر کے بغیر جان بوجھ کر ادائیگی نہیں کرتا تو اس نے بینک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اس کے تدارک کے لئے اس سے اتنی رقم وصول کی جائے۔
دیکھئے عمران اشرف عثمانی صاحب ایک طرف جرمانہ کے ناجائز ہونے کو لکھتے ہیں :
Another issue with Murabahah is that if the client defaults in payment of the price at the due date, the price cannot be changed, nor can penalty fees be charged.
''مرابحہ میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر گاہک مقرر تاریخ پر ادائیگی نہیں کرتا تو نہ تو قیمت تبدیل کی جا سکتی ہے اور نہ کوئی جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔''
لیکن پھر دوسرے ہی لمحہ وہ یہ فیصلہ جاری فرماتے ہیں :
"In order to deal with dishonest clients who default in payment deliberately,they should be made liable to pay compensation to Islamic bank for the loss suffered on account of default."2
''بد دیانت گاہک جو جان بوجھ کر بروقت ادائیگی نہیں کرتے ان کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے اسلامی بینک کو جو نقصان ہوا ہے، اس کے تدارک کے لئے کچھ رقم دیں ۔''
کوئی جناب عمران اشرف صاحب سے پوچھے کہ نقصان کے تدارک کے طور پر لی جانے والی رقم جرمانہ نہیں تو اور کیا ہے اور جرمانہ اس وجہ سے منع تھا کہ وہ سود بنتا تھا لہٰذا بینک تدارک کے نام پر در حقیقت سود ہی وصول کرتا ہے۔


کار لیزنگ اور ہوم فنانسنگ میں انشورنس یا تکافل
اسلام کی رو سے انشورنس یقینا ناجائز ہے اور اس میں سود، جوئے اور غرر کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ یہی تینوں باتیں تکافل یعنی اسلامی انشورنس میں بھی پائی جاتی ہیں جیسا کہ تکافل کے موضوع پر ہم مستقل لکھ چکے ہیں ۔ لہٰذا مروّجہ تکافل بھی غیر اسلامی طریقہ ہے۔
کار میں بینک اپنے ہی نام پر انشورنس یا تکافل کراتا ہے اور گھر میں بینک اور گاہک خود اپنے اپنے حصوں کے بقدر کراتے ہیں ۔ اس میں مندرجہ ذیل باتیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں :
گاہک جو کار لیزنگ یا ہوم فنانسنگ کرواتا ہے وہ بینک کے انشورنس یا تکافل میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے اور چونکہ اس کو علم ہے کہ بینک ایسا ضرور کرے گا اور محض اس کی وجہ سے کرے گا تو اس بنا پر وہ بھی گناہگار ہوتا ہے۔
کار اجارہ سکیم میں میزان بینک کی جاری کردہ Provisional Rental Calculation Sheet (کرایہ کی عبوری تشخیص) میں درج ہے کہ پہلے ماہ کا کرایہ رجسٹریشن اور باربرداری کے اِخراجات کو بھی شامل ہے اور باقی مہینوں کے کرائے انشورنس (یا تکافل ) کی رقم کو بھی شامل ہیں ۔
مثلاً ایک گاڑی جس کی قیمت 3,44,000 روپے ہے۔ اس کے پہلے ماہ کا کرایہ 31,487 روپے ہے جو بشمول رجسٹریشن، کرایہ اورباربرداری اخراجات Inclusive of Registration, Rent and Freight charges ہے۔جب کہ اگلے ہر ماہ کا کرایہ 11,487 روپے ہے جو انشورنس کی رقم سمیت ہےInclusive of insurance ہے۔
اگرچہ یہ تشخیص نامہ عبوری (Provisional) ہے، لیکن بینک کی دستاویزات میں شامل ہے اور گاہک کو بھی دکھایا جاتا ہے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کار اِجارہ میں بینک خود اپنی طرف سے انشورنس کراتا ہے اور خود اپنی طرف سے پریمیم ادا کرتا ہے۔ چنانچہ گاہک کی طرف سے غیراسلامی انشورنش کے اخراجات ادا کرنا اس کوگناہگار کرتا ہے۔

یومیہ سرمایہ کی بنیاد پر نفع کی تقسیم (On the basis of daily products)
کھاتہ داروں کو جب اور جتنی بھی رقم ہو، جمع کرانے پر آمادہ کرنے کے لئے مروّجہ بینکوں نے یومیہ سرمایہ کی بنیاد پر نفع دینے کی سکیم نکالی ہے۔ عمران اشرف صاحب اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
"Many financial institutions finance the working capital of an enterprise by opening a running account for them from where the clients draw different amounts at different intervals, but at the same time, they keep returning their surplus amounts. Thus the process of debit and credit goes on upto the date of maturity, and the interest is calculated on the basis of daily products. Can such an arrangement be possible under the musharakah or mudarabah modes of financing 3
If such an arrangement is agreed upon between the parties, it does not seem to violate any basic principle of the musharakah. ----practically, it means that the parties have agreed to the principle that the profit accrued to the Musharakah portfolio at the end of the term will be divided based on the average capital utilized per day, which will lead to the average of the profit earned by each rupee per day. The amount of this average profit per rupee per day will be multiplied by the number of days each investor has put his money into the business, which will determine his profit entitlement on daily product basis."4
''بہت سے مالیاتی ادارے کسی کاروباری ادارے کے زیر گردش سرمایہ کو اس طریقے سے ترتیب دیتے ہیں کہ اس کا ایک رواں کھاتہ کھول دیتے ہیں جس میں سے عمیل مختلف اوقات میں مختلف رقمیں نکالتے ہیں اور ساتھ ہی فاضل سرمایہ جمع بھی کراتے رہتے ہیں ۔ غرض رقمیں جمع کرانے اور نکالنے کا عمل تاریخ انتہا تک چلتا رہتا ہے اور یومیہ بنیادوں پر سود کا حساب لگایا جاتا ہے۔ کیا ایسا معاملہ مشارکہ اور مرابحہ کی سرمایہ کاری میں بھی کیا جا سکتا ہے؟
اگر پارٹیوں کے درمیان ایسے معاملہ پر اتفاق ہو جائے تو اس سے مشارکہ کے کسی بنیادی ضابطہ کی مخالفت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹیوں نے اس قاعدہ و ضابطہ پر اتفاق کر لیا ہے کہ مشارکہ کے کھاتے میں مدت کے آخر میں جو نفع جمع ہو، وہ اس بنیاد پر تقسیم ہو گا کہ اوسطاً فی یوم کتنا سرمایہ استعمال ہوا ہے۔ اس سے فی یوم فی روپیہ حاصل ہونے والا نفع معلوم ہو گا جس کو ان ایام کے عدد سے ضرب دیں گے جن میں ہر سرمایہ کار نے اپنا سرمایہ کاروبار میں لگایا ہے۔ اس سے یومیہ بنیادوں پر نفع کی تعیین کی جا سکے گی۔''
اس پر عمران اشرف صاحب نے پھر خود ہی ایک اعتراض وارد کر کے اس کا جواب دیا ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ شراکت میں تو شریکوں کے راس المال کا علم ہوتا ہے جب کہ اس نظام میں کھاتہ دار رقمیں نکالتے اور جمع کراتے رہتے ہیں ، اس لئے مشارکہ میں داخل ہوتے وقت ان کے سرمایہ کی مقدار مجہول ہوتی ہے اور اس جہالت سے مشارکہ باطل ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جہالت مُفضي إلی النزاع (جھگڑے کا باعث) نہیں ہے، کیونکہ جب سامان خریدا جاتا ہے تو مقدار کا علم ہو ہی جاتا ہے۔ لکھتے ہیں :
"But the proposed running account of musharakah where the partners are coming in and going out every day, nobody has undertaken to contribute any specific amount. Therefore the capital contributed by each partner is unknown at the time of entering into Musharakah which should render the musharakah invalid. The answer to the above objection is that the classical scholars of Islamic fiqh have different views about whether it is necessary for a valid Musharakah that the capital is pre-known to the partners. The Hanafi scholars are unaminous on the point that it is not a pre-condition. Al-kasani, the famous hanafi jurist writes:
"According to our hanafi school, it is not a condition for the validity of musharakah that the amount of capital is known, while it is a condition according to Imam Shafi. Our argument is that jahalah (uncertainty) in itself does not render a contract invalid, unless it leads to disputes. And the uncertainty in the capital at the time of musharakah does not lead to disputes, because it is generally known when the commodities are purchased for the musharakah, therefore it does not lead to uncertainty in the profit at the time of distribution." 5
''لیکن مشارکہ کا مجوزہ رواں کھاتہ جس میں شریک روزانہ داخل اور خارج ہوتے رہتے ہیں کوئی بھی شریک اس میں متعین رقم جمع کرانے کی ذمہ داری نہیں لیتا ہے۔ اس لئے مشارکہ شروع کرنے کے وقت ہر شریک کے راس المال (سرمایہ) کی مقدار نامعلوم ہے جس کی وجہ سے مشارکہ فاسد ہو جانا چاہئے۔
مذکورہ بالا اعتراض کا جواب یہ ہے کہ فقہ اسلامی کے قدیم محققین کا اس بارے میں اختلافِ رائے ہے کہ مشارکہ کے جواز کے لئے آیا شرکا کے راس المال کا پہلے سے معلوم ہونا شرط ہے یا نہیں ؟ حنفی علما کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ شرط نہیں ہے۔ مشہور حنفی فقیہ علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ہمارے حنفیہ کے مطابق مشارکہ کے جواز کے لئے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ راس المال کی مقدار معلوم ہو، اگرچہ امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہ شرط ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ جہالت بذاتِ خود عقد کے لئے موجب ِفساد نہیں ہوتی بلکہ صرف اسی وقت ہوتی ہے جب وہ نزاع کا باعث بنے۔ اور مشارکہ کے شروع میں راس المال کے بارے میں جہالت نزاع کا باعث نہیں ہوتی کیونکہ (مشارکہ کے تحت) جب سامان خریدا جاتا ہے تو اس کا علم ہو جاتا ہے لہٰذا نفع کی تقسیم میں وہ جہالت کا باعث نہیں ہوتی۔''
ہمیں افسوس ہے کہ علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ کی عبارت کا جو مطلب مولوی عمران اشرف صاحب نے بتایا ہے، ہم اس سے اتفاق نہیں کر سکے۔ علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ کی عبارت یوں ہے:
ولنا أن الجھالة لا تمنع جواز العقد لعینھا بل لإفضائھا إلی المنازعة وجھالة رأس المال وقت العقد لا تفضي إلی المنازعة لأنه یعلم مقدارہ ظاهرًا وغالبًا لأن الدراهم والدنانیر توزنان وقت الشراء فیعلم مقدارھا فلا یؤدي إلی جھالة مقدار الربح وقت القسمة 6
''ہماری دلیل یہ ہے کہ جہالت بذاتِ خود عقد کے جواز کے مانع نہیں ہوتی بلکہ مُفضي إلی المنازعة ہونے کی وجہ سے مانع ہوتی ہے۔ اور عقد کے وقت راس المال کی مقدار کی جہالت مُفضي إلی المنازعة نہیں ،کیونکہ عام طور سے سامان کی خرید کے وقت چونکہ دراہم ودنانیر کو تولا جاتا ہے، اس لئے اس وقت اس کی مقدار معلوم ہو جاتی ہے لہٰذا نفع کی تقسیم کے وقت نفع کی مقدار بھی مجہول نہیں رہتی۔''


علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ عقد کے وقت سرمایہ کی مقدار کا تفصیلی علم ہونا شرط نہیں ۔ یہ کہناکہ عقد کے وقت مقدار کا اِجمالی علم بھی شرط نہیں ہے، بلا دلیل ہے۔ دیکھئے علامہ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ خریداری کے وقت چونکہ دراہم و دنانیر کا وزن کیا جاتا ہے تو اس وقت ان کی مقدار کا علم جو کہ تفصیلی علم ہے، ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ دراہم و دنانیر ہیں جو عقد کے وقت سامنے رکھ دیئے گئے کہ ان کے ساتھ مشارکت ہو گی۔ غرض عقد کے وقت دراہم و دنانیر سامنے ہونے کی وجہ سے یا ان کی طرف اشارہ ہونے کی وجہ سے ان کی مقدار کا اجمالی علم تو ضرور ہوا جبکہ یومیہ بنیاد کے مسئلہ میں عقد کے وقت سرمایہ کی مقدار کا نہ تو اِجمالی علم ہے اور نہ تفصیلی علم ہے۔
آخر شرکت ِعنان بالا موال کی حقیقت یہی تو ہے کہ کم از کم دو فریق اپنے متعین سرمائے اس عقد میں متفق علیہ مدت تک کے لئے مخصوص کر لیں اور ان کی بنیاد پر (اور ضرورت ہو تو عمل کی وجہ سے بھی) اپنے لئے نفع کی شرح طے کریں ۔ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کے دور میں یومیہ بنیاد (Basis of daily products) کا تو وجودہی نہیں تھا، لہٰذا کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں دو آدمی آپس میں مشارکہ کا عقد تو کریں ، لیکن عقد کے وقت نہ تو ان کو سرمایہ کی مقدار کا کچھ اندازہ ہو اور نہ ہی نفع کی کوئی شرح طے کریں ۔ غرض علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی عبارت کو عمران اشرف صاحب اپنے حق میں لائیں ، یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔
مزید برآں یومیہ بنیاد (Basis of daily products) پر عمران اشرف صاحب نے خود ہی ایک اور اعتراض نقل کیا ہے جو یہ ہے :
"Some contemporary scholars do not allow this method of calculating profits on the ground that it is just a conjectural method which does not reflect the actual profits really earned by a partner of the musharakah. Because the business may have earned huge profits during a period when a particular investor had no money invested in the business at all or had a very insignificant amount investsd, still, he will be treated at par with other investors who had huge amounts invested in the business during that period. Conversely, the business may have suffered a great loss during a period when a particular investor had huge amounts invested in it. Still, he will pass on some of his loss to other investors who had no investment in that period or their size of investment was insignificant.
''چند ہم عصر علما نفع کی تعیین کے اس طریقے کو جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ایک محض تخمینی طریقہ ہے جس سے مشارکہ میں کسی شریک کا کمایا ہوا حقیقی نفع معلوم نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کاروبار میں بہت زیادہ نفع ان دنوں میں ہوا ہو، جب ایک شریک کا سرے سے یا تو سرمایہ ہی موجود نہ ہو یا ہو تو اتنا تھوڑا کہ قابل ذکر ہی نہ ہو۔ اس کے باوجود اس کو ان دوسرے شرکا کے برابر سمجھا جائے گا جنہوں نے اس مدت میں بہت بڑی مقدار میں سرمایہ لگایا ہو۔ اس کے برعکس صورت میں یہ ممکن ہے کہ کاروبار کا اس مدت میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہو جب ایک شریک کا بہت زیادہ سرمایہ لگا ہو۔ اس کے باوجود اس کا کچھ نقصان ان دیگر شرکا کو منتقل کر دیا جائے گا جن کا اس مدت میں کچھ بھی سرمایہ نہ ہو یا ہو تو بہت تھوڑا جو ناقابل ذکر ہو۔''
اس اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اس طریقے سے کسی شریک کے واقعی نفع کی صحیح مقدار معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ فرض کریں مشارکہ کی کل مدت ایک سو دن ہے۔ مدت کے شروع ہی میں عمر نے پانچ ہزار اور بکر نے دس ہزار جمع کرائے اور پوری مدت میں کچھ رقم نہ نکلوائی۔ ان کے مقابلہ میں زید نے شروع میں پانچ ہزار جمع کرائے اور دس دن بعد وہ نکلوا لئے۔ آخر کے دس دنوں میں پانچ ہزار روپے پھر جمع کرا دیئے۔
ان سو دنوں کا کل سرمایہ ہوا ... سولہ لاکھ
یعنی عمر کے 5000 روپے 100 x دن = 5,00,000 (5 لاکھ)
اور بکر کے 10,000روپے 100 x دن = 10,00,000 (10لاکھ)
اور زید کے 5,000 روپے 20 x دن 100,000= (1 لاکھ)
100 دن میں کل 16 لاکھ روپے استعمال میں رہے تو ایک دن میں 16 ہزار روپے استعمال میں رہے۔ اگر کل نفع 8000 روپے ہو تو یومیہ بنیاد کے حساب سے عمر کا نفع ہوا 2500 روپے اور بکر کا ہوا 5000 روپے اور زید کا ہوا 500 روپے۔ اب یہ ممکن ہے کہ 8000 روپے کا نفع درمیان کے انہی دنوں میں ہوا ہو اور شروع و آخر کے دس دس دنوں میں کچھ بھی نفع نہ ہوا ہو۔ زید کو بلاوجہ دوسروں کے سرمایوں پر ہونے والے نفع میں سے 500 روپے مل گئے۔ ایسے ہی نقصان کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

عمران اشرف صاحب اس اعتراض کا جواب یوں دیتے ہیں :
"This argument can be refuted on the ground that it is not necessary in a musharakah that a partner should earn profit on his own money only. Once a musharakah pool comes into existence all the participants, regardless of whether their money is or is not utilized in a particular transaction earn the profits accruing to the joint pool. This is particulary true of the hanafi school, which does not deem it necessary for a valid musharakah that the monetary contribution of the partners are mixed up together. 7
''ان علماء کی دی ہوئی دلیل کو اس بنیاد پر ردّ کیا جا سکتا ہے کہ مشارکہ میں یہ توضروری ہے ہی نہیں کہ شریک صرف اپنے سرمایہ پر نفع کمائے۔ جب ایک دفعہ مشارکہ طے ہو جاتا ہے تو تمام ہی شرکا اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ کسی خاص عقد میں ان کا سرمایہ استعمال ہوا ہے یا نہیں مشارکہ سے حاصل ہونے والے نفع میں حصہ دار ہوتے ہیں ۔ یہ بات خاص طور پر حنفیہ کے نزدیک زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ ان کے یہاں مشارکہ کے جواز کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ تمام شرکا کے سرمایوں کو مخلوط کر دیا جائے۔''
عمران اشرف صاحب کے اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ مشارکہ میں یہ ضروری نہیں کہ ہر شریک صرف اپنے سرمایہ پر نفع حاصل کرے۔ شراکت کے بعد اگرچہ صرف ایک شریک کا سرمایہ استعمال ہوا ہو، لیکن نفع میں دیگر شرکا بھی شریک ہوتے ہیں ۔
عمران اشرف صاحب نے مشارکہ کا ضابطہ تو بتادیا لیکن وہ اس کا تجزیہ نہیں کر پائے کہ زید نے جب دس دن کے بعد اپنی رقم نکلوالی تو آیا شریعت کی نظر میں شراکت باقی بھی رہی یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس طرح سے تو شراکت ہی ختم ہو جاتی ہے خصوصاً جب کہ Sleeping partner (غیر عامل شریک) ہو اور وہ اپنا کل سرمایہ Active partner (عامل شریک) سے واپس لے لے۔ اگر کل سرمایہ واپس نہ لے نصف واپس نکلوا لے تب بھی سابقہ شراکت تو باطل ہو گئی کیونکہ سرمایوں کے نئے تناسب (ratio) سے نئے عقد کی ضرورت ہو گی۔
غرض عمران اشرف صاحب کے تمام دلائل بے بنیاد ہیں ۔ البتہ آخر میں وہ ایک اور دلیل دیتے ہیں جو آدمی کو غور کرنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک جدید صورت ہے اور حدیث اَلْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِھِمْ کے تحت مسلمان اگر اس پر اتفاق کر لیں تو جب کہ کسی حرام کی تحلیل اور حلال کی تحریم لازم نہیں آتی، اس کے اختیار سے کوئی مانع نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
"In the proposed system, all the partners are treated at par. The profit of each partner is calculated on the basis of the period for joint pool. There is no doubt that the aggregate profits accrued to the pool is generated by the joint utillization of different amounts contributed by the participants at different times. Therefore, if all of them agree with mutual consent to distribute the profits on daily products basis, there is no injunction of shariah which makes it impermissible, rather it is covered under the general guidelines given by the Holy Prophet ﷺ in his famous hadith, as follows: "Muslims are bound by their mutual agreements unless they hold a permissible thing as prohibited or a prohibited thing as permissible."
''مجوزہ نظام میں تمام شرکا سے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے۔ ہر شریک کا نفع اس مدت کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے جس میں اس کا سرمایہ مشترکہ کھاتہ میں جمع رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشارکہ میں کل نفع مختلف اوقات میں جمع کرائی گئی مختلف رقموں کے استعمال سے حاصل ہوا ہے۔ اس لئے اگر سب کی اس پر باہمی رضا مندی ہو کہ وہ یومیہ سرمایہ کی بنیاد پر آپس میں نفع تقسیم کریں گے تو شریعت کی کوئی نص ایسی نہیں ہے جو اس کو ناجائز قرار دیتی ہو بلکہ یہ تو نبی 1 کی ایک مشہور حدیث کہ مسلمان اپنی طے کی ہوئی شرطوں کے پابند ہیں جب تک وہ کسی حلال چیز کو حرام نہ کر لیں اور کسی حرام چیز کو حلال نہ کر لیں سے ثابت شدہ ضابطہ کے تحت داخل ہے۔''
لیکن ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ اس نظام کے تحت کسی اور کا حاصل کیا ہوا نفع دوسرے کو دے دیا جاتا ہے اور کسی اور کو ہونے والے نقصان کا کچھ حصہ دوسرے کے سر بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ بات یقینا جائز نہیں ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ صورت کو حدیث اَلْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِھِمْ کا مصداق سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔
آخر میں عمران اشرف صاحب نہ جانے کیوں بینکوں اور بینکاروں سے مرعوب ہو کر لکھتے ہیں :
"If distribution on daily products basis is not accepted, it will mean that no partner can draw any amount nor can he inject new amounts to the joint pool. Similarly, no body will be able to subscribe to the joint pool except at the paticular dates of the commencement of a new term. This arrangement is totally impracticable on the deposit side of the banks and financial institutions where the accounts are debited and credited by the depositors many times a day. The rejection of the concept of the daily products will compel them to wait for months before they deposit their surplus money in a profitable account. This will hinder the utilization of savings for development of industry and trade, and will keep the wheel of financial activities jammed for long periods. There is no other solution for this problem except to apply the method of daily products for the calculation of profits, and since there is no specific injunction of Shariah against it, there is no reason why this method should not be adopted."
''اگر یومیہ سرمایہ کی بنیاد پر نفع کی تقسیم کو قبول نہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ نہ تو کوئی شریک کوئی رقم نکلوا سکتا ہے اور نہ ہی مشترکہ فنڈ میں کوئی نئی رقم شامل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کسی کے لئے بھی ممکن نہ ہو گا کہ وہ مشترکہ فنڈ میں رقم جمع کرا سکے، سواے نئی میعاد کے شروع ہونے کی مقررہ تاریخوں میں ۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں بچت جمع کرانے کے اعتبار سے یہ طریقہ سرے سے ناقابل عمل ہے جہاں بچت کنندگان ایک دن میں کئی کئی بار پیسے جمع کراتے اور نکلواتے ہیں ۔ یومیہ سرمایہ کے تصور کو ردّ کر دینے سے بچت کنندگان مجبور ہوں گے کہ کسی نفع بخش کھاتہ میں فاضل سرمایہ جمع کرانے سے پہلے وہ مہینوں انتظار کریں ۔ یہ بات صنعت و تجارت کی ترقی کے لئے بچتوں کے استعمال سے مانع ہو گی اور اس طرح سے مالیاتی جدوجہد کے پہئے طویل مدتوں کے لئے بالکل جام ہو کر رہ جائیں گے۔ اس مسئلہ کا اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے کہ نفع کو معلوم کرنے کے لئے یومیہ سرمایہ کے طریقہ کو اختیار کیا جائے اور چونکہ اس کے خلاف شریعت کی کوئی نص موجود نہیں ہے لہٰذا اس کو اختیار نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔''
اوپر یہ دکھانے کے بعد کہ یومیہ بنیادوں کا نظام واضح طور پر شریعت کے خلاف ہے ہمیں عمران اشرف صاحب کی اس انوکھی تقریر پر کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں سواے اس کے کہ
''یہ کسی عام بینکر کی زبان کے الفاظ تو ہو سکتے ہیں ، ایک عالم دین اور اسلامی بینکر کے نہیں ۔''

شیئرز کی خرید و فروخت
اپنے مستقل مضمون میں شیئرز کی خرید و فروخت کے بارے میں ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں کہ وہ ناجائز ٭ہے، لیکن مولوی عمران اشرف صاحب مرابحہ کے تحت کمپنیوں کے حصص (Shars) کی خرید و فروخت کو بھی جائز قرار دیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
"Th shars of a lawful company can b sold or purchasd on Murabahah basis bcaus according to th principls of Islam, th shars rprsnt ownrship into assts of th company providd all othr basic conditions of th transaction ar fulfilld." 8
''مرابحہ کی بنیاد پر کسی باقاعدہ کمپنی کے حصص خریدے اور فروخت کئے جا سکتے ہیں ، کیونکہ اسلامی اُصولوں کی رو سے جب کہ عقد کی دیگر تمام بنیادی شرائط پوری کی جا رہی ہوں یہ حصص کمپنی کے اثاثہ جات میں ملکیت کی دلیل ہیں ۔''
"In an quity or mutual fund (unit trust) th amounts ar invstd in th shars of joint stock companis. Th profits ar mainly drivd through th capital gains by purchasing th shars and slling thm whn thir prics ar incrasd. Profits ar also arnd through dividnds distributd by th rlvant companis."9
''کسی ایکویٹی یا مشترکہ فنڈ سے جائنٹ سٹاک کمپنیوں کے حصص میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ عام طور سے انہی حصص کو خرید کر اور جب ان کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو ان کو فروخت کر کے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کمپنیاں جو نفع دیتی ہیں وہ بھی حاصل ہوتا ہے۔''

اسلامی بینک کا اپنے وکیلوں اور نمائندوں پر اندھا اعتماد
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے مںا غلط بیانی کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ جعلی رسیدیں اور وائوچرز بنانا عام معمول کا حصہ ہے۔ ان حالات میں ایک اہم اور انقلابی نظام کو ایسے لوگوں کے سہارے پر چھوڑ دیا جائے تو اس نظام کی شکل کے بننے سے پہلے ہی بگڑنے کا قوی اندیشہ ہے جو قریب قریب یقین کے ہے۔ بلکہ موجودہ حالات میں توبینک کے نمائندے کی تصدیق پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی شخص کی جیب میں پانچ سو یا ہزار کا نوٹ ڈالا جائے تو وہ دستخط کیوں نہ کرے یا کب تک نہ کرے ؟ میزان بنک اور البرکہ بینک اور دیگر اسلامی بینکوں میں جس قسم کا عملہ موجود ہے وہ City Bank (سٹی بینک) یا Hong Kong Bank (ہانگ کانگ بینک) سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی وضع قطع اور اس کی ہیئت سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا کہ وہ کوئی مشنری (Missionary) جذبہ رکھتا ہے جب کہ انقلابی قسم کے کاموں کی کامیابی کا انحصار ان لوگوں پر ہوتا ہے جو انقلابی ذہن اور مشنری جذبہ رکھتے ہوں ۔ محض Profssionals (پیشہ وروں ) سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اور اگر بالفرض تصدیق کنندہ دیانتدار بھی ہو، تب بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عمیل نے سابقہ پڑا ہوا مال نہ دکھا دیا ہو یا کسی سے وقتی عاریت کے تحت لے کر نہ دکھا دیا ہو۔
مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے دارالعلوم میں 'مجلس تحقیق مسائلِ حاضرہ' نے مرابحہ مؤجلہ کے ذریعہ سرمایہ کار ی کے تحت یہ تجویز دی :
''مثلاً ایک کاشتکار بینک سے ٹریکٹر کی خریداری کے لئے قرض لینا چاہتا ہے تو بینک اس کو قرض دینے کے بجائے خود ٹریکٹر خرید کر بصورتِ مرابحہ مؤجلہ فروخت کر دے گا۔
بینک کے لئے از خود تمام مطلوبہ اشیا کی خریداری براہِ راست مشکل ہے، اس لئے وہ مطلوبہ اشیا کی خریداری کے لئے خود عمیل کو اپنا وکیل بنا دے گا اور یہ عمیل پہلے وہ چیز مثلاً ٹریکٹر بینک کے وکیل کی حیثیت سے خرید کر قبضہ میں لے لے گااور خریداری کی تکمیل پر بینک کو مطلع کر دے گا کہ میں نے وکالت کی بنیاد پر آپ کے لئے ٹریکٹر خرید کر اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور اب میں وہ ٹریکٹر آپ سے اپنے لئے خریدنا چاہتا ہوں ۔'' 10
مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمة اللہ علیہ نے اس پر حاشیہ لکھا :
''مجلس نے یہاں یہ اضافہ بھی کیا تھا جو غالباً سہواً تحریر سے رہ گیا ہے۔ بینک عمیل کے قبضہ کی تصدیق کیلئے اپنا کوئی نمائندہ بھیجے گا جو قبضہ ثابت ہونے پر اس کا سر ٹیفکیٹ دے گا۔'' 11
لیکن اسلامی بینک ایسے کسی تحفظ کا تکلف اُٹھانے کو تیار نہیں اور وہ اپنے عمیل کو کھلا موقع دیتا ہے۔ خود عمران اشرف عثمانی صاحب اپنی کتاب میں اس تحفظ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"An agncy agrmnt is signd by both partis in which th institution appoints th clint as his agnt for purchasing th commodity on its bhalf.
Th clint purchass th commmodity on bhalf of th institution and taks possssion as th agnt of th institution. Th clint informs th institution that h has purchasd th commodity and simultanously maks an offr to purchas it from th institution." 12
''دو پارٹیاں (یعنی بینک اور عمیل) ایک وکالت نامہ پر دستخط کریں گے جس کے تحت بینک عمیل کو بینک کے لئے سودا خریدنے کی خاطر اپنا وکیل مقرر کرتا ہے۔ عمیل بینک کے لئے وہ سامان خریدتا ہے اور بینک کے وکیل کے طور پر اس سامان پر قبضہ کرتا ہے۔ پھر عمیل بینک کو اطلاع دیتا ہے کہ اس نے سامان خریدلیا ہے اور ساتھ ہی بینک سے اس کو خریدنے کی پیش کش بھی کرتا ہے۔''
مذکورہ بالا قوی خطرات کے ہوتے ہوئے موجودہ حالات میں اسلامی بینک کی اس عملی شق پر ظاہر ہے کہ اطمینان نہیں کیا جا سکتا۔

ہنڈی (Bill of xchang) پر قرض کی شرط
عمران اشرف صاحب لکھتے ہیں :
"Th xportr with th bill of xchang can appoint th bank as his agnt to collct rcivabl on his bhalf. Th bank can charg a f for this srvic and can pvovid intrst fr loan to th xportr which is qual to th amount of th bill, and th xportr will giv his consnt to th bank that it can kp th amount rcivd from th bill as a paymnt of th loan.
Hr two procsss ar sparatd and thus two agrmnts will b mad. On will authoriz th bank to collct th loan on his bhalf as an agnt for which h will charg a particular f. Th scond agrmnt will provid intrst fr loan to th xportr, and authoriz th bank for kping th amount rcivd through bill as a paymnt for loan.
Ths agrmnts ar corrct and allowd according to Shariah bcaus collcting f for srvic and giving intrst fr loan is prmissibl." 13
''برآمد کنندہ جس کے پاس ہنڈی ہے، وہ بینک کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے تا کہ وہ اس کی طرف سے رقم وصول کرے۔ اس کام کے لئے بینک اُجرت وصول کرسکتا ہے اور ساتھ ہی برآمد کنندہ کو اتنی رقم کا غیر سودی قرضہ جاری کرسکتا ہے جو ہنڈی کی رقم کے برابر ہو، نیز برآمد کنندہ بینک کو اپنی یہ رضا مندی دے سکتا ہے کہ وہ ہنڈی کی رقم وصول ہونے پر اس کو قرض کی واپسی میں شمار کرلے۔
یہاں دو جدا جدا عمل ہیں لہٰذا معاہدے بھی دو ہوں گے۔ ایک معاہدے کے تحت بینک کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ہنڈی کی رقم برآمد کنندہ کے لئے وصول کرے اور اس پر مخصوص اُجرت لے۔ دوسرے معاہدے کے تحت بینک برآمد کنندہ کو غیر سودی قرضہ مہیا کرے گا نیز بینک کو اختیار ہوگا کہ وہ ہنڈی کی رقم اپنے قرض کی واپسی میں رکھ لے۔
یہ معاہدے شریعت کی رو سے درست اور جائز ہیں کیونکہ کسی خدمت پر اجرت لینا بھی جائز ہے اور غیر سودی قرضہ دینا بھی جائز ہے۔''
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ ہنڈی یعنی Bill of xchang کو مثلاً برآمد کنندہ بینک کے پاس لے جائے جو رقم کی وصولی کے لئے برآمد کنندہ سے اپنی فیس وصول کرے۔ البتہ بینک برآمد کنندہ کو علیحدہ سے بل کی رقم کے برابر غیر سودی قرضہ بھی دے۔ یہ دو معاملات علیحدہ علیحدہ کئے جائیں ۔
یہ تدبیر بالکل غیر مناسب ہے کیونکہ ان دو معاملات کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے باوجود ان میں وہ خرابی موجود رہتی ہے جو ان کے اکٹھے ہونے میں سمجھی گئی ہے۔ وہ اس طرح سے کہ بینک کی پالیسی کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس پر اس کا مؤاخذہ ہوسکتا ہے لہٰذا برآمد کنندہ جب اپنے بل کی وصولی کے لئے فیس اور اُجرت دے گا تبھی قانونی طور پر بینک سے قرضہ وصول کرسکتا ہے، گویا قانونی اعتبار سے اجارہ قرضہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ یہ شرط اس طرح کی نہیں جس پر فریقین نے پہلے سمجھوتہ کرلیا ہو اور عقد میں اس کو ذکر نہ کیا ہو کیونکہ اس شرط کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں المعروف کالمشروط کا قاعدہ بھی یہاں چلتا ہے، لہٰذا اجارہ فاسد ہوگا۔

بینک کا عملہ و ماحول
چھٹی خرابی بیان کرتے ہوئے ہم نے لکھا تھا کہ
''اسلامی بینک میں جس قسم کا عملہ موجود ہے وہ Bank City (سٹی بینک) یا Hong Kong Bank (ہانگ کانگ بینک) سے مختلف نہیں ۔ اس کی وضع قطع اور اس کی ہیئت سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا کہ وہ مشنری جذبہ رکھتا ہے جب کہ انقلابی قسم کے کاموں کی کامیابی کا انحصار ان لوگوں پر ہوتا ہے جو انقلابی ذہن اور مشنری جذبہ رکھتے ہوں ۔ محض Profssionals (پیشہ وروں ) سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔''
دارالعلوم کے مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
''ایک اہم بات جس کی شکایت بہت سے لوگوں کو کرتے دیکھا ہے یہ ہے کہ اسلامی بینکوں میں کام کرنے والے افراد کا لباس اور وضع قطع بھی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح کنوینشنل بینکوں میں کام کرنے والے افراد کی ہوتی ہے، اسی طرح کنوینشنل بینکوں کی طرح اسلامی بینکوں میں بے پردہ خواتین کام کرتی ہیں ۔ بلاشبہ یہ دونوں پہلو توجہ طلب ہںل اور اسلامی بینکوں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میں ممکنہ جلدی کے ساتھ مثبت قدم اُٹھائیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسلامی بینک کے ساتھ معاملہ کرنے والے ڈیپازیٹرز اور کلائنٹس مناسب طریقے سے ان پر دبائو ڈالیں تو اس کے بہت مفید اثرات سامنے آ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک مذکورہ تبدیلی عملی طور پر نہیں آ جاتی اس وقت تک انہیں اسلامی بینک کہنا ہی جائز نہیں ۔صحیح بات یہ ہے کہ انہیں اسلامی بینک کہنے کا مطلب صرف اور صرف اتنا ہے کہ ان میں ہونے والے مالی معاملات شرعی اصولوں سے متصادم نہیں ۔


اس وقت پاکستان سمیت کتنے ہی اسلامی ملکوں میں اسلامی یونیورسٹیوں یا عام یونیورسٹیوں کے کلیہ معارفِ اسلامیہ میں پینٹ شرٹ میں ملبوس اَفراد اور بے پردہ خواتین نظر آتی ہیں لیکن آج تک کسی مفتی صاحب کا ان یونیورسٹیوں کو غیر اسلامی یونیورسٹیاں یا ان کلیات کو غیر اسلامی کلیات قرار دینے کا فتویٰ احقر کی نظر سے نہیں گذرا۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان اداروں کو اسلامی کہنے کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ان میں اسلامیات سے متعلق نصاب کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ ان اداروں میں پڑھنے والے ہر فرد کی وضع قطع بھی شریعت کے مطابق ہے۔ اگر ان اداروں کو اسلامی کہنے کی گنجائش ہے تو ان بینکوں کو بھی اسلامی کہنا ناجائز نہیں ۔'' 14
ہمیں ان کو اسلامی بینک کا نام دینے پر بڑا اعتراض نہیں کیونکہ نام دینے میں کلی مناسبت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ جزوی مناسبت بھی کافی ہوتی ہے البتہ صمدانی صاحب کے غور کے لئے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی اور کراچی کے دارالعلوم میں فرق کیا صرف اتنا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے لڑکے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں اور لڑکیاں بے پردہ رہتی ہیں اور دارالعلوم کے لڑکے کرتا شلوار پہنتے اور ٹوپی اوڑھتے ہیں ؟ ظاہری وضع قطع تو ایک مظہر ہے جو دکھاتا ہے کہ دونوں اداروں کی اساسی فکر ، تعلیم و تربیت اور نصاب کے مزاج و نظام میں خاصا فرق ہے جس کی وجہ سے اسلامی یونیورسٹی کا کوئی طالب علم اپنی غیر اسلامی وضع قطع کے ساتھ دارالعلوم کے ماحول میں نہیں سما سکتا۔


انسان کی وضع قطع ہی عام طور سے اس کے رجحانات و میلانات کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے تو یونیفارم پر زور دیا جاتا ہے اور یورپ اور ترکی میں عورتوں کا سکارف معرکہ آرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی لیے جب کسی اسلامی بینک میں غیر اسلامی وضع قطع والے عملہ کو دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والا یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہاں اسلامی یونیورسٹی کا سا ماحول ہے۔ اور جیسے اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم و تربیت کا نظام و نصاب خالص اور کھرا اسلامی نہیں جیسا کہ دارالعلوم کا ہے، اسی طرح اس اسلامی بینک کا بینکنگ نظام بھی خالص اور کھرا اسلامی نہیں ہو سکتا اس میں ضرور کچھ آمیزش ہے۔


غرض اسلامی بینکوں کے مالک اور ان کا عملہ جب غیر اسلامی وضع قطع کا حامل ہے تو عام سمجھ بوجھ والا آدمی بھی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ ان لوگوں نے اسلامی بینکنگ کو مشنری جذبہ سے نہیں لیا بلکہ ایک خالص پیشہ ور کی حیثیت سے لیا ہے جیسا کہ برطانیہ میں بھی غیر مسلموں نے اسلامی بینکنگ کو اختیار کیا ہے اور یہ اپنے مفادات کے تابع ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ کسی بھی وقت یہ اپنے نظام میں من چاہی تبدیلی کر لیں ۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو مروّجہ اسلامی بینکنگ کو مشتبہ بنا دیتا ہے کہ آخر ان لوگوں نے کہ جو اپنے وجود پر اسلام نافذ کرنے کو تیار نہیں ، اسلامی بینکنگ کو کیوں اختیار کیا ہے اور ہماری جس حکومت نے غیر سودی بینکنگ کے حق میں فیصلہ دینے کی وجہ سے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کو شرعی عدالت سے نکال دیا تھا، اس کے وزیروں نے کچھ ہی مدت بعد اسلامی بینکنگ کی اذانیں کیسے دینی شروع کر دیں ۔ اورامریکہ جو ہمارے ہاں کی نصاب کی کتابوں سے ان آیتوں کو نکلواتا ہے جن سے طلبہ کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاتے تھے، صرف ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اتنے اہم اسلامی نظام کو کیسے برداشت کر رہا ہے...؟


حوالہ جات
1. اسلامی بینکاری ایک حقیقت پسند جائزہ، ص 54
2. p.129
3. (Meezan Bank's guide. P.177)
4. (Meezan Banks' guide p.178)
5. (Meezan Banks' guide: pp. 179-180)
6. بدائع الصنائع:6؍63
7. (Meezan Banks' guide. p.178)
8. (p. 130)
9. (p. 210)
10. احسن الفتاویٰ: 7؍119
11. ایضاً
12. (Islamic Banking: p.127)
13. (Mzan Banks' guid: pp 198-199)
14. اسلامی بینکاری: ایک حقیقت پسندانہ جائزہ ص 63