بیع سَلَم کے اُصول اور اسلامی بنک
بعض اسلامی بینکوں میں تمویلی سرگر میو ں کے لئے بیع سلم کا استعمال بھی جاری ہے۔ سَلَم ایک معروف شرعی اصطلاح ہے جس سے مراد لین دین اور خرید وفروخت کی وہ قسم ہے جس میں ایک شخص یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ وہ مستقبل کی فلاں تاریخ پر خریدار کو ان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرے گا ۔شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وَالسَّلَمُ شَرْعًا بَیْعٌ مَوْصُوْفٌ فِي الذِّمَّة1
''سلم کا شرعی معنی : ایسی چیز بیچنے کی ذمہ داری اُٹھانا ہے جس کی صفات بیان کر دی گئی ہوں ۔''
اس کو سَلَف بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس میں بیچی گئی چیز کی قیمت معاہدے کے وقت ہی ادا کر دی جاتی ہے۔یعنی یہ بیع کی وہ قسم ہے جس میں قیمت تو فوری ادا کر دی جاتی ہے مگر چیز بعد میں فراہم کی جاتی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بیع کی یہ صور ت بھی رائج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کلیّةمنع کرنے کی بجائے بنیادی اصلاحات کر کے اس کو باقی رکھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کر تے ہیں :
قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِینَة وَهُمْ یُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَیْنِ وَالثَّلاَثَ، فَقَالَ: (مَنْ أَسْلَفَ فِيْ شَيء فَفِيْ کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَّوَزْنٍ مَعْلُوْمٍ، إِلیٰ أَجَلٍ مَعْلُومٍ)2
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجوروں میں دو اور تین سال کے لئے بیع سلم کرتے تھے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا :جو شخص بیع سلم کرنا چاہتا ہے، وہ متعین پیمانے اوروزن میں متعین مدت کے لیے کرے۔''
دوسری جگہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :
أَشْهَدُ أَنَّ السَّلَفَ الْمَضْمُوْن إِلیٰ أَجَل مُسَمًّی قَدْ أَحَلَّهُ اﷲُ فِيْ کِتَابه وَأَذِنَ فِیه ثُمَّ قَرَأَ {يَآ أَيُهَا الَّذِينَ آمَنُوْا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَينٍ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّی فَاكتُبُوْهُ}3
''میں گواہی دیتا ہوں کہ مقررہ مدت تک ضمانت دی گئی سلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب جائز قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے۔ پھر اُنہوں نے قرآن حکیم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
''اے ایمان والو!جب تم آپس میں مقررہ وقت تک اُدھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔''
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓکہتے ہیں :
إِنَّا کُنَّا نُسْلِفُ عَلیٰ عَهدِ رَسُوْلِ اﷲِ وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَة وَالشَّعِیْرِ وَالزَّبِیْبِ وَالتَّمْرِ4
''ہم رسول اللہ ؐ،ابو بکر ؓاور عمرؓکے دور میں گندم ،جو ،کھجور اور منقیٰ میں بیع سلم کرتے تھے۔ ''
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فتح الباری میں فرماتے ہیں :
وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلیٰ مَشْرُوعِیَّتِه إِلَّا مَا حُکِيَ عَنْ ابْنِ الْمُسَیِّبِ 5
''سعید بن مسیب ؓکے علاوہ تمام علماء اس کے جواز پر متفق ہیں ۔''
سلم کی اجازت کا فلسفہ
بعض کسانوں اور مینو فیکچرز کے پاس ضرورت کے مطابق مثلاً بیج ، کھاد، آلات ، خام مال خریدنے اور لیبر کے لئے رقم نہیں ہو تی۔ ایسے لوگوں کو اسلام نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ حصولِ رقم کی خاطر اپنی فصل یا پیداوار قبل از وقت فروخت کر سکتے ہیں تاکہ قرض کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے رہیں ۔ یاد رہے کہ یہ اجازت شریعت کے اس عام اصول سے استثنا ہے کہ معدوم شے کی بیع حرام ہے، اور اس استثنا کی دلیل خود فرمانِ نبویؐ ہے۔
اس اجازت کا اِضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی چیز بیچنے کے لئے گاہگ تلاش کرنے کی فکر سے آزاد ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کا سودا پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ اس سے خریدار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سلم میں طے کردہ قیمت ان چیزوں کی اس قیمت سے کم ہوتی ہے جو نقدادا کی جانی ہو ۔ نیز اگر چیز آگے بیچنا چاہتا ہو تو مارکیٹنگ کے لئے بھی مناسب وقت مل جاتا ہے ۔
کیا سلم خلافِ قیاس ہے؟
جیسا کہ گزر چکا ہے کہ شرعی اُصول کے مطابق انسان کو وہی چیز بیچنے کی اجازت ہے جو نہ صرف وجود میں آچکی ہو بلکہ اس کی ملکیت اور قبضہ میں ہوجبکہ سلم میں عقد کے وقت چیز کا وجو د ہی نہیں ہوتا۔اس بنا پر بعض فقہا نے کہا ہے کہ سلم بیع معدوم کی ایک استثنائی صورت ہے۔مگر امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ اس سے متفق نہیں ہیں ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
وأما السلم فمن ظن أنه علی خلاف القیاس وتوهم دخوله تحت قول النبيﷺ:(لا تَبع ما لیس عندك) فإنه بیع معدوم والقیاس یمنع منه والصواب أنه علی وفق القیاس فإنه بیع مضمون في الذمة موصوف مقدور علی تسلیمه غالبًا وهو کالمعارضة علی المنافع في الإجارة وقد تقدم أنه علی وفق القیاس 6
''اس کا مطلب ہے کہ جو حضرات سلم کو خلافِ قیاس سمجھتے ہیں ، وہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ''جو چیز تیرے پاس موجود نہیں ، اس کو فروخت نہ کر ۔''میں داخل سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ قیاس کے مطابق ہے۔کیونکہ یہ ایسی بیع ہے جس میں انسان ایسی چیز جس کو عام طورپر حوالے کر سکتا ہو، کو طے شدہ صفات کے مطابق بیچنے کی ذمہ داری اُٹھاتا ہے۔ اور اس کی مثال اِجارہ میں منفعت کا معاوضہ لینے جیسیہی ہے۔اور جیسا کہ پہلے گزر چکاہے کہ اجارہ قیاس کے مطابق ہے۔''
بیع سلم کی شرطیں
اس میں ان تمام پابندیوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو شریعت نے عام بیع کے لئے مقرر کی ہیں ، تاہم معاملہ کو غرر (دھوکہ) سے پاک رکھنے کے لئے کچھ خاص شرطیں بھی رکھی گئی ہیں ۔مثلاً
جس چیز کا سودا کیا جا رہا ہو معاہدے کے وقت اس کی نوعیت، اوصاف، مقدار، تعداداور مالیت کا تعین پہلے سے کیا جاسکتا ہو۔جن چیزوں میں ایسا ممکن نہ ہو ،ان میں بیع سلم جائز نہیں ہوتی جیسے قیمتی موتی، جواہرات اورنوادرات ہیں ، کیونکہ ان کی اکائیاں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتی ہیں ۔
جو چیز بیچی اورجوقیمت میں دی جا رہی ہو، دونوں کا تعلق ان اَموال سے نہ ہو جن میں فوری قبضہ کی شرط ضروری ہے جیسے چاندی کے عوض سونے کی بیع یاگندم کے بدلے گندم کا سودا کیونکہ اس قسم کے تبادلہ میں فرمان نبوی کے مطابق موقع پر قبضہ شرط ہے۔
مکمل قیمت معاہدہ کے وقت ہی ادا کر دی جائے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(مَنْ سَلَّفَ فِيْ تَمْرٍ فَلْیُسْلِفْ فِيْ کَیْلٍ مَعْلُوْم وَّوَزْنٍ مَعْلُوْمٍ)7
''جو کھجوروں میں بیع سلف کرے وہ معلوم پیمانے اور معلوم وزن میں کرے۔''
سلف' سلم' کا ہی دوسرا نام ہے اوراس کو سلف اس لئے کہا جاتا کہ اس میں قیمت پیشگی ادا کر دی جاتی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں یعنی پیشگی قیمت کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگائی ہے ۔اور اگر پوری قیمت پہلے ادا نہ کی جائے تو یہ ادھار کا اُدھار کے ساتھ تبادلہ ہو گا جو شرعاً ممنوع ہے ۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وَاتَّفَقُوا عَلَی أَنَّهُ یَشْتَرِط لَهُ مَا یَشْتَرِط لِلْبَیْعِ وَعَلَی تَسْلِیم رَأْس الْمَال فِي الْمَجْلِس 8
''علماء اس پر متفق ہیں کہ اس کی بھی وہی شرطیں ہیں جو عام بیع کی ہیں اور اس پر بھی متفق ہیں کہ اسی مجلس میں راس المال حوالے کرنا ضروری ہے۔''
امام شوکانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
هذا الشرط لابد منه ولا یتم السلم إلا به وإلا کان من بیع الکالي بالکالي وقد قدمنا النهي عنه 9
''یہ شرط ضروری ہے، اس کے بغیر سلم مکمل نہیں ہوتی ورنہ یہ اُدھارکی ادھارکے ساتھ بیع ہوگی اوراس کی ممانعت ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔''
مدتِ حوالگی پوری طرح واضح ہو ۔اگر اس میں کسی قسم کا ابہام پایا جائے تو بیع سلم درست نہ ہو گی۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اﷲِﷺ نَهی عَنْ بَیْعِ حَبَلِ الْحَبَلَة۔وَکَانَ بَیْعًا یَتَبَایَعُهُ أَهلُ الْجَاهلِیَّة کَانَ الرَّجُلُ یَبْتَاعُ الْجَزُوْرَ إِلیٰ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَة ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِي فِيْ بَطْنِهَا 10
''بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔( نافع کہتے ہیں کہ) بیع کی یہ صورت زمانۂ جاہلیت میں رائج تھی ۔آدمی اس وعدہ پر اونٹ خریدتا کہ جب اونٹنی جنے، پھر وہ بڑی ہو کر جنے ، میں تب قیمت دوں گا ''
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
لَا تَبَایَعُوْا إلَی الْحَصَادِ وَالدِّیَاسِ وَلَا تَتَبَایَعُوْا إلَّا إلیٰ أجَلٍ مَعْلُوْمٍ 11
''فصل کاٹنے یا گاہنے تک بیع نہ کرو بلکہ متعین مدت تک کرو۔ ''
ان دونوں صورتوں میں چونکہ مدت میں ابہام ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہیں ۔
خصو ص باغ یا زمین کے مخصوص قطعہ کی پیداوار میں بیع سلم نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس میں غرر پایا جاتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ باغ پھل نہ دے یا قطعہ زمین میں فصل ہی نہ ہو۔ زید بن سعنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
هَلْ لَکَ أَنْ تَبِیْعَنِيْ تَمْرًا مَعْلُومًا إِلیٰ أَجَل مَعْلُوْمٍ مِنْ حَائِط بَنِيْ فُلانٍ قَالَ: لَا أَبِیْعُکَ مِنْ حَائِطٍ مُسَمًّی، بَلْ أَبِیْعُکَ أَوْسُقًا مُسَمَّاة إِلیٰ أَجَلٍ مُسَمًّی12
''کیا آپ مجھے بنو فلاں کے باغ سے متعین مدت کے لیے متعین کھجوریں فروخت کریں گے۔ آپ نے فرمایا: متعین باغ سے نہیں بلکہ متعین وسق متعین مدت کے لیے فروخت کرتا ہوں ۔''
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
وَنَقَلَ اِبْن الْمُنْذِرِ اِتِّفَاقَ الْأَکْثَرَ عَلیٰ مَنْعِ السَّلَمِ فِیْ بُسْتَانٍ مُعَیَّنٍ لِأَنَّهُ غَرَرٌ
''ابن منذر نے متعین باغ میں سلم کی ممانعت پر اکثر کا اتفاق نقل کیا ہے ۔'' 13
ڈاکٹر علامہ محمد سلیمان اشقرلکھتے ہیں :
''دورِ حاضر میں اس کی بعض صورتوں میں نظر ثانی ہونی چاہے، کیونکہ بعض بڑی بڑی فیکٹریاں ایسی ہیں جن کی مصنوعات بہت زیادہ پھیلی ہو ئی ہیں اور ان کی مصنوعات میں ایسی خوبیاں ہیں جو دوسری فیکٹریوں کی مصنوعات میں نہیں پائی جاتیں ۔ جیسے مرسڈیز کمپنی کی گاڑیاں یا توشیبا کے ٹیلی ویژن ہیں ۔اگر کوئی مرسڈیز گاڑی کے ماڈل نمبر200 کو 1994ء میں سلم کرنا چاہے تو یہ جائز ہونی چاہیے بلکہ میرے نزدیک گاڑیوں میں اس وقت تک سلم درست نہیں جب تک فیکٹری کا نام ذکر نہ کیا جائے۔صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ گاڑی پانچ سیٹوں والی اور فلاں سال کا ماڈل ہو، کیونکہ قیمتوں کے فرق کی وجہ سے اس میں جہالت پائی جاتی ہے جو نزاع کا باعث بن سکتی ہے۔ گاڑیوں کے علاوہ دوسری بڑی فیکٹریوں جن کی پیداواربازاروں میں عام ہے، کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ مخصوص زرعی فارم اور محدود پیداوار کے حامل کارخانے کا یہ حکم نہیں کیونکہ اس کی پیداوار بند بھی ہو سکتی ہے ۔'' 14
علامہ سلیمان اشقر کے خیال میں بعض مالکی فقہا جیسے ابن شاس اور ابن الحاجب کے کلام سے بھی اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے ۔اُنہوں نے متعین باغ کے پھل میں سلم ناجائز ہونے کے ساتھ یہ شرط لگائی ہے کہ '' وہ باغ چھوٹا نہ ہو۔ ''اور جانوروں میں یہ قید لگائی ہے کہ '' ان کا تعلق ایسی نسل سے نہ ہو جو کم پائی جاتی ہو۔ ''اس کا مطلب ہے کہ باغ اگر بڑا اور جانور کی نسل زیادہ پائی جاتی ہو تو اس میں سلم غیر متعین کی طرح ہی ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ بعض فقہا کے اس کلام کہ ''بڑی بستی کے پھل میں سلم جائز ہے، لیکن اگر چھوٹی ہو تو پھر جائز نہیں ۔ ''سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے۔ 15
نوٹ: شیئرز کے سودوں میں چونکہ کمپنی کانام ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے جس سے اس کی حیثیت متعین چیز میں سلم کی ہو جاتی ہے جو ناجائز ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ جب سپردگی کا وقت آئے تو مارکیٹ میں اس کمپنی کے شیئرز دستیاب ہی نہ ہوں لہٰذاشیئرز میں بیع سلم درست نہیں ۔
سَلَم اور اِسْتِصْنَاع میں فرق
استصناع کا معنی ہے: آڈر پر کوئی چیز تیار کروانا۔ اہل حدیث علما کی رائے میں یہ سلم کی ہی ایک ذیلی قسم ہے جس کا تعلق ایسی اشیا سے ہے جو آڈر پر تیار کروائی جاتی ہیں اور اس میں پابندیاں قدرے نرم ہیں ۔مثلاً اس میں پوری قیمت پیشگی ادا کرنا ضروری نہیں ۔
ڈاکٹر علی احمد سالوس رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
الاستصناع عند المالکیة والشافعیة والحنابلة جزء من السلم لا یصح إلا بشروطه وهو عند الحنفیة عدا زفر عقد مستقل له شروطه وأحکامه الخاصة 16
''مالکیوں ،شافعیوں اورحنبلیوں کے نزدیک استصناع سلم کی ہی ایک قسم ہے جو سلم کی شرطوں کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ البتہ امام زفر کے علاوہ باقی حنفیوں کے نزدیک یہ ایک مستقل عقد ہے جس کی اپنی شرطیں اور خاص احکام ہیں ۔''
سلم میں رَہن اور ضمانت طلب کرنا
بیع سلم میں بیچی گئی چیز چونکہ فروخت کنندہ کے ذمہ اُدھار ہوتی ہے لہٰذا خریدار حوالگی یقینی بنانے کے لئے رہن یا گارنٹی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ہم اوپر حضرت عبداللہ بن عباسؓکے حوالے سے بیان کر آئے ہیں کہ سورة البقرة کی آیت نمبر۲۸۲ :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ...﴿٢٨٢﴾...سورة البقرة
''اے ایمان والو!جب تم آپس میں مقرر وقت تک ادھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ ''
میں بیع سلم بھی شامل ہے جبکہ اس سے بعد والی آیت میں اُدھار میں رہن کی اجازت دی گئی ہے ۔یعنی سلم میں رہن کا جواز قرآن سے ثابت ہے ۔امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس کے حق میں بایں الفاظ بَابُ الرَّہْنِ فِي السَّلَمِ ''سلم میں رہن کا ثبوت'' عنوان قائم کیا ہے اور یہ روایت ذکر کی ہے کہ اعمش رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں :
تَذَاکَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِیمَ الرَّهنَ فِي السَّلَفِ فَقَالَ حَدَّثَنِي الأَسْوَدُ عَنْ عَائِشَة أَنَّ النَّبِيَّﷺ اشْتَرٰی مِنْ یَهُودِيٍّ طَعَامًا إِلیٰ أَجَلٍ مَعْلُومٍ، وَارْتَهنَ مِنْهُ دِرْعًا مِنْ حَدِیْدٍ 17
''ہم نے ابراہیم کے پاس سلم میں رہن کے متعلق گفتگو کی تو اُنہو ں نے فرمایا: مجھے اَسود نے حضرت عائشہؓ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے متعین مدت کے لئے غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھی۔ ''
سلم میں قبضہ کی مدت
چونکہ حدیث و سنت میں بیع سلم میں قبضہ کی کم از کم مدت کے متعلق کوئی صراحت نہیں ملتی اسلئے اس بارے میں فقہا میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ایک گھڑی کی مہلت بھی کافی ہے جبکہ بعض نصف یوم، بعض دو یا تین اور بعض پندرہ دن کے قائل ہیں ۔ 18
علامہ ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ کی رائے میں کم از کم اتنی مد ت ہونی چاہے جس کا قیمتوں پر مناسب اثر پڑتا ہو اور وہ مدت ایک مہینہ یا اس کے قریب ہے۔ 19
صحیح بات یہ ہے کہ فریقین کو باہمی رضا مندی سے کوئی بھی مدت مقررکرنے کا اختیار ہے ۔
ایک تو اس لیے کہ ذخیرئہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم از کم مدت کے متعلق کوئی روایت منقول نہیں ۔
دوسرا اس لیے کہ سلم کی اجازت کا مقصد لوگوں کو سہولت دینا ہے اور یہ مقصد تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب مدت کی پابندی نہ ہو ۔
حوالگی میں تاخیر پر جرمانہ
سلم میں بیچی گئی چیز چونکہ فروخت کنندہ کے ذمے دَین (اُدھار) ہوتی ہے جس میں تاخیر پر جرمانہ صریح سود شمار ہوتا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے :
مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلاَ یَشْتَرِطْ إِلاَّ قَضَاء ہُ 20
''جو بیع سلم کرے، وہ ادائیگی کے علاوہ کوئی شرط عائد نہ کرے۔''
اسلامی بینکوں کی رہنمائی کے لئے مرتب کردہ شریعہ سٹینڈرز میں ہے :
لَا یَجُوْزُ الشَّرَطُ الْجُزَائِيْ عَنِ التَّأْخِیْرِ فِيْ تَسْلِیْمِ الْمُسْلِمِ فِیْهِ 21
''جس چیز میں سلم کا سودا ہوا ہو، اس کی تاخیر پر شرطِ جزائی جائز نہیں ۔ ''
صفحہ ۱۷۰ میں ممانعت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جس چیز کا سودا ہواہے، وہ بیچنے والے کے ذمہ دَین ہے جس پر اضافہ کی شرط سود شمار ہوتی ہے۔ اگر فروخت کنندہ تنگ دستی کی وجہ سے بروقت چیز مہیا نہ کر سکے تو اس کو آسانی ہونے تک موقع دیا جائے گا۔
اگر مطلوبہ چیز کی پیداوار کم ہونے یا بازار میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بائع کے لئے بر وقت سپردگی ممکن نہ ہو تو خریدارکے پاس اختیارہے کہ وہ :
بازار میں آسانی سے دستیاب ہونے کا انتظار کرے ۔
سودا ختم کر کے اپنی رقم وصول کر لے ۔ 22
اگر عمداً تاخیر ی حربے استعمال کرے تو خریداراس کی گارنٹی بیچنے کا حق رکھتاہے، ایسی صورت میں خریدار کے پاس دو ہی اختیار ہوں گے:گارنٹی سے حاصل شدہ رقم سے اس قسم کی چیز بازار سے خرید لے۔یا اپنی اصل رقم وصول پالے۔
لیکن اضافی رقم خواہ جرمانے کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، وصول نہیں کی جاسکتی۔بعض حضرات کی رائے میں اگر جرمانہ کی رقم قرض خواہ یااُدھار دینے والے کی آمدن کاحصہ نہ بنے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔لیکن یہ رائے صائب نہیں ،کیونکہ شرعاً قرض یا اُدھارپرمشروط اضافہ سود کے زمرہ میں داخل ہے، اس میں آمدن کا حصہ بننے یا نہ بننے کی شرط نہیں ۔
قبضہ سے پہلے بیچنا
سلم کے ذریعے خریدی گئی چیز جب تک خریدار کے قبضہ میں نہ آجائے، اس کو آگے فروخت کر نا منع ہے ۔کیونکہ یہ دَین ہے جس کو بیچنا شرعاً درست نہیں ۔ علاوہ ازیں احادیث میں قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت ہے ۔چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
أَمَّا بَیْعُ الْمُسْلَمِ فِیهِ قَبْلَ قَبْضِهِ فَـلَا نَعْلَمُ فِي تَحْرِیمِهِ خِلَافًا، وَقَدْ نَهی النَّبِیُّ ﷺ عَنْ بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ قَبْضِهِ وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ یُضْمَنْ وَلِأَنَّهُ مَبِیعٌ لَمْ یَدْخُلْ فِي ضَمَانِهِ،فَلَمْ یَجُزْ بَیْعُهُ کَالطَّعَامِ قَبْلَ قَبْضِهِ 23
''سلم کے ذریعے خریدی گئی چیز کو قبضے سے قبل فروخت کرنے کی حرمت میں ہم کسی اختلاف کا علم نہیں رکھتے۔بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضے سے قبل غلے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔اور اس چیز کے نفع سے بھی منع فرمایا ہے جس کا رِسک نہ اُٹھایا گیا ہو۔اور یہ چیز تو ابھی اس کے رسک میں نہیں آئی لہٰذا ا س کی بیع جائز نہیں جس طرح کے غلے کی بیع قبضے سے قبل جائز نہیں ۔''
نوٹ:اس چیز کی فروخت کا ایسا وعدہ جس کی پابندی دونو ں یا کسی ایک فریق کے لئے لازمی ہو، وہ بھی اس ممانعت میں شامل ہیں ۔
تجارت میں سلم کا استعمال
کیا سلم کی اجازت صرف کاشتکاروں اور اشیا تیار کرنے والوں کو ہے یا سپلائرز بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ؟اس بارے مںں دو نقطہ نظر ہیں :
اکثر علماء کی راے میں یہ رعایت تاجروں کے لئے بھی ہے ۔امام بخاری رحمة اللہ علیہ بھی اسی نقطہ نظرکے حامی ہیں چنانچہ اُنہوں نے اس کے حق میں باب السلم إلی من لیس عندہ أصل ''ایسے شخص سے سلم کا معاملہ کرناجس کے پاس اس چیز کی اصل نہ ہو'' کے عنوان سے ایک مستقل باب باندھا ہے اور استدلال کے لیے ذیل کی روایت لائے ہیں :
قَالَ عَبْدُ اﷲِ: کُنَّا نُسْلِفُ نَبِیْطَ أَهلِ الشَّأْمِ فِي الْحِنْطَة وَالشَّعِیْرِ وَالزَّیْتِ، فِیْ کَیْلٍ مَعْلُوْمٍ إِلیٰ أَجَلٍ مَعْلُوْمٍ قُلْتُ: إِلیٰ مَنْ کَانَ أَصْلُهُ عِنْدَہُ قَالَ: مَا کُنَّا نَسْأَلُهُمْ عَنْ ذَلِکَ 24
''حضرت عبداللہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں :ہم شام کے کاشتکاروں کے ساتھ گندم،جو اور تیل میں متعین پیمانے اور متعین مدت کے لئے سلم کا معاملہ کرتے:( محمد بن ابی مجالد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں ) میں نے پوچھا :کیا ان سے جن کے پاس ان چیزوں کی اصل ہوتی ؟اُنہوں نے فرمایا :ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے تھے ۔''
حضرت عبداللہ رحمة اللہ علیہ کا مطلب ہے کہ ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ تمھارے پاس گندم یاجو کی فصل ہے یا نہیں ؟
اس نقطہ نظر کے حق میں دوسری روایت یہ پیش کی جاتی ہے :
کُنَّا نُسْلِفُ فِيْ عَهدِ رَسُولِ اﷲ ﷺ وَأَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَة وَالشَّعِیْرِ وَالزَّبِیْبِ أَوِ التَّمْرِ شَکَّ فِي التَّمْرِ وَالزَّبِیْبِ وَمَا هُوَ عِنْدَهُمْ أَوْ مَا نَرَاہُ عِنْدَهُمْ 25
''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکرؓ اور عمرؓکے دور میں گندم ،جو اور منقی یا کہا کہ کھجوروں میں (یعنی راوی کو یہ شک ہے کہ کھجور کا لفظ بولا یامنقیٰ کا ) بیع سلم کرتے حالانکہ وہ چیز ان کے پاس نہیں ہوتی تھی یا کہا: ہم وہ ان کے پاس نہیں دیکھتے تھے۔ ''
اس نقطہ نظر کے قائلین کہتے ہیں کہ یہ روایات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ سلم کی اجازت سپلائر کے لئے بھی ہے ۔
دوسری رائے یہ ہے کہ سلم کی اجازت صرف کاشتکاروں اور مینوفیکچرز کو ہے ۔ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ کاشتکار اور چیز تیار کرنے والا جب سلم کے ذریعے چیز بیچتا ہے توغالب گمان یہی ہوتا ہے کہ مدتِ حوالگی کے وقت وہ چیز اس کے پاس موجود ہو گی یا اس کو دوسرے سے خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، گویا وہ اپنی ملکیتی چیز بیچ رہاہے۔ اس کے بر عکس سپلائر جب سلم کا معاہدہ کرتا ہے تو وہ چیز اس کے پاس موجود نہیں ہوتی۔ جبکہ شریعت نے غیر ملکیتی چیز کا سودا کرنے پر پابندی لگائی ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں :
سَأَلْتُ النَّبِيّﷺ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اﷲِ! یَأْتِینِي الرَّجُلُ فَیَسْأَلُنِي الْبَیْعَ لَیْسَ عِنْدِي أَبِیْعُهُ مِنْهُ ثُمَّ أَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ؟
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہمجھے کوئی شخص ایسی چیز بیچنے کو کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس کو بیچ دوں پھر وہ بازار سے خرید کر اس کو دے دوں ؟''
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لاَ تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ)26
''جو چیز تیرے پاس نہیں ، وہ فروخت نہ کر۔ ''
ان حضرات کے خیال میں حضرت حکیم ؓ کا سوال تجارت میں سلم کے متعلق ہی تھا مگر آپ نے اس کی اجازت نہ دی اور نہ ہی آپ ؐنے یہ فرمایا کہ اگر اس کی صفات بیان کردی گئی ہو ں تو پھر جائز ہے۔ ان حضرات کی تحقیق میں جو روایات اوّل الذکر فریق نے پیش کی ہیں ، وہ ان کے موقف کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں ۔ پہلی روایت کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ خریدار کو فروخت کنندہ سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے پاس کھیتی یا باغ ہے یا نہیں ؟27
ان حضرات کی طرف سے دوسری روایت کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ جو چیز سلم میں فروخت کی جا رہی ہے، اس کا معاہدے کے وقت پایا جانا ضروری نہیں جیسا کہ بعض فقہا کی رائے ہے کہ وہ چیز معاہدہ طے پانے کے دن سے قبضہ کے دن تک بازار میں دستیاب ہو ۔
جو حضرات سپلائرز کو سلم کی اجازت دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ''جو چیز تیری ملکیت میں نہیں ، اس کو فروخت نہ کر '' سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تاجر سلم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ۔ اس ارشاد کا معنی صرف یہ ہے کہ ایسی متعین چیز فروخت نہ کر جو تیرے قبضہ میں نہ ہو بلکہ غیر کی ملکیت ہو ۔چنانچہ امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ اس کی تشریح میں رقم طراز ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ النَّبِیِّ ﷺ لِحَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ (لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ) فَیُحْمَلُ عَلَی مَعْنَیَیْنِ: أَحَدُهُمَا أَنْ یَبِیعَ عَیْنًا مُعَیَّنَة وَهِيَ لَیْسَتْ عِنْدَہُ بَلْ مِلْکٌ لِلْغَیْرِ، فَیَبِیْعُهَا ثُمَّ یَسْعٰی فِيْ تَحْصِیلِهَا وَتَسْلِیْمِهَا إلیٰ الْمُشْتَريْ وَالثَّانِيْ أَنْ یُرِیْدَ بَیْعَ مَا لَا یَقْدِرُ عَلیٰ تَسْلِیْمِهِ وَإِنْ کَانَ فِي الذِّمَّة
''حکیم ؓبن حزام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرماناکہ '' جو چیز تیری ملکیت میں نہیں وہ فروخت نہ کر۔'' اس کو دو معنوں پر محمول کیا جائے گا :
انسان ایسی متعین چیز بیچے جو اس کے پاس موجود نہ ہو بلکہ غیر کی ملکیت ہو ۔آدمی پہلے اس کو بیچے پھر حاصل کر کے مشتری کے حوالے کرنے کی کوشش کرے۔ایسی چیز کا سودا کرے خواہ ذمہ داری اٹھائے جس کو (مشتری کے) حوالے نہ کر سکتا ہو۔'' 28
بیع سلم میں دونوں باتیں نہیں ہو تیں ، کیونکہ یہاں تو صرف بیان شدہ صفات کے مطابق ایک چیز فروخت کرنے کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے ۔
اسلامی بینکوں میں سلم کا استعمال
بلا شبہ سلم ایک بہترین غیر سودی طریقہ تمویل ہے جو عصر حاضر میں بھی لوگوں خصوصاًکاشتکاروں اورمینوفیکچرزکی مالی ضرورتیں پوری کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے اور بعض اسلامی بینک اس سے فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں اسلامی بینک اس کی عملی تطبیق گڑبڑ کرتے ہیں جس سے یہ معاملہ شرعی اُصول کے مطابق نہیں رہتا۔ وہ یوں کہ
مثلاً گنے کے سیزن میں شوگر ملوں کو گنا خریدنے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مل مالکان چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھی پورا ہو جائے اور ہم سود سے بھی محفوظ رہیں ، اب وہ اسلامی بینک کی طرف رجوع کرتے ہیں اوربینک اس شرط پر رقم فراہم کرتاہے کہ آپ نے ہمیں اس کے عوض فلاں تاریخ تک اتنی چینی مہیا کرنی ہے یعنی بینک سلم کا معاہدہ کرلیتا ہے۔
شوگر ملز کی طرف سے فراہمی یقینی بنانے کے لیے بینک ضمانت بھی طلب کرتاہے چونکہ بینک کاروباری ادارہ نہیں جو آگے بیچنے کے لیے گاہگ تلاش کرتا پھرے۔ اس لئے معاہدے کے وقت ہی یہ بھی طے کر لیا جاتا ہے کہ مل مالک بینک کے وکیل کی حیثیت سے یہ چینی مارکیٹ میں اس قیمت پر فروخت کر کے رقم بینک کے سپرد کرے گا۔بعض دفعہ معاہدے کے وقت اس کی صراحت نہیں ہوتی مگر فریقین کے ذہن میں یہی ہوتا ہے۔ اگر شوگر مل بروقت چینی فراہم نہیں کرتی تو بینک دی گئی رقم کے فیصد کے حساب سے جرمانہ وصول کرتا ہے جو بینک کی زیر نگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروایا جاتا ہے ۔
اب یہاں بینک کا خود قبضہ کرنے کی بجائے فروخت کنندہ کو ہی وکیل بنانا شرعی اُصول کے خلاف ہے۔ چنانچہ علماء احناف کے سر خیل علامہ سرخسی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وَلَوْ قَالَ رَبُّ السَّلَمِ لِلْمُسْلَمِ إلَیْهِ: کُلُّ مَا لِيْ عَلَیْکَ مِنَ الطَّعَامِ فَاعْزِلْهُ فِي بَیْتِکَ أَوْ فِي غَرَائِرِکَ فَفَعَلَ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ رَبُّ السَّلَمِ قَابِضًا بِمَنْزِلَة قَوْلِهِ اقْبِضْهُ لِي بِیَسَارِکَ مِنْ یَمِیْنِکَ وَهَذَا لِأَنَّ الْمُسْلَمَ فِیهِ دَیْنٌ عَلیٰ الْمُسْلَمِ إلَیْهِ وَالْمَدْیُوْنُ لَا یَصْلُحُ أَنْ یَکُوْنَ نَائِبًا عَنْ صَاحِبِ الدَّیْنِ فِيْ قَبْضِ الدَّیْنِ مِنْ نَفْسِهِ29
''خلاصہ یہ کہ سلم کے ذریعے بیچی گئی چیز فروخت کنندہ کے ذمہ اُدھار ہوتی ہے اور جس کے ذمہ اُدھار ہو وہ خوداپنی ذات سے اس کی وصولی کے لئے اس شخص کا وکیل نہیں بن سکتا جس کا اس کے ذمہ اُدھار ہو ۔''
علامہ ڈاکٹر محمد سلیمان اشقرسَلَم سے اسلامی بینکوں کے فائدہ اُٹھانے کے طریقہ کار کی وضاحت کر تے ہوئے لکھتے ہیں :
الطریقةالثانیة: أن یؤکل المصرف البائع (المسلم إلیه) بتسویق البضاعة بأجر أو دون أجر فإن کان باتفاق معه مسبق مربوط بعقد السلم نفسه فإن ذلك باطل لا یجوز،لأنه من باب جمع عقدین في عقد واحد وکذا لو کان الأمر متفاھما علیه أن یتم بھذہ الصورة30
''دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بینک چیز کی مارکیٹنگ کے لئے فروخت کنندہ کو ہی اپنا وکیل مقررکردے خواہ اس کی اُجرت دے یا بغیر اُجرت کے۔ تو اگر یہ وکالت پہلے سے عقد سلم سے مربوط ایگریمنٹ کے ذریعے ہو تو یہ عمل باطل ہو گا جو جائز نہیں ، کیونکہ یہ ایک عقد میں دو عقد جمع کرنے کے مترادف ہے اوراگر(ایگریمنٹ تو نہ ہو مگر) پہلے ہی سے ذہن میں یہ ہو کہ معاملہ اس طرح تکمیل کو پہنچے گاتو پھر بھی یہ جائز نہیں ۔''
31
یہاں یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ اسلامی بینکوں میں سلم سے فائدہ اُٹھانے کا جو طریقہ اسلامی بینکنگ کے ماہرین نے تجویز کیا ہے اس کو سلمِ متوازی کہتے ہیں ۔یعنی بینک کسی تیسرے فریق کے ساتھ سلم کا معاہدہ کر لے جس کی تاریخِ ادائیگی پہلی سلم والی ہی ہو۔
متوازی سلم میں مدت کم ہونے کی وجہ سے قیمت زیادہ ہوگی اور یوں دونوں قیمتوں میں فرق بینک کا نفع ہوگا۔مگر ہمارے ہاں اسلامی بینکوں میں یہ طریقہ شاذونادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر فروخت کنندہ کو ایجنٹ بنانے کا طریقہ ہی اختیار کیا جاتاہے جو شرعاًدرست نہیں ۔
حوالہ جات
1. فتح الباری: 4 ؍540
2. صحیح بخاری:2241
3. مصنف ابن ابی شیبہ:5؍277،مستدرک حاکم:7؍258
4. صحیح بخاری: 2243
5. 4؍540
6. اِعلام الموقعین:2؍19
7. صحیح بخاری:2239
8. فتح الباری :4؍540
9. السیل الجرار:3؍158
10. صحیح بخاری:1999
11. اِرواء الغلیل:5؍217
12. فتح الباری: 4؍546
13. ایضاً
14. البحوث الفقهیة في قضایا الاقتصادیة المعاصرة: 1؍194،195
15. ایضاً
16. موسوعة القضایا الفقهیة المعاصرة والاقتصاد الإسلامي:ص842
17. صحیح بخاری:2093
18. عمدة القاری:8؍ 581
19. المغنی: 6؍404
20. مؤطا امام مالك،باب ما لا یجوز من السلف: 1388
21. ص162
22. المعایـیر الشرعیة:ص162
23. المغنی:9؍68
24. صحیح بخاری:2088
25. مسند احمد:4؍354
26. سنن نسائی:4613
27. بحوث في فقه المعاملات المالیة:ص134،137،139 از ڈاکٹر رفیق یونس مصری
28. اعلام الموقعین :2؍46
29. المبسوط:15؍101
30. بحوث فقهیة في قضایا اقتصادیة معاصرة: 1؍214
31. اِرواء الغلیل:5؍217 (صحیح بخاری:2241)سلم متوازی