مشرف کی رخصتی اور مسائل میں سلگتا پاکستان!

9 برس بعد آخر کار پاکستان سے ایک تاریک عہد کی علامت نیست ونابود ہوگئی۔ ان سالوں میں پاکستان عالمی، سیاسی، داخلی اور معاشرتی غرض ہر حوالے سے کن آزمائشوں اور عدم استحکام کا شکار رہا، اس کا جائزہ اور تبصرہ تاریخ اور احوالِ اُمم کا نامہ نگار گاہے بگاہے کرتا رہے گا۔ پاکستان کے وجود پر'روشن خیال' لیکن درحقیقت تاریک تر دور میں جو عبرت آموز داغ موجود ہیں ، ان کی کسک آج بھی ہر باشعور پاکستانی اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے۔'سب سے پہلے پاکستان' سے معنون اس دورِ حکومت میں کتنے فرزندانِ پاکستان نے اپنے خون کے نذرانے دیے، خون آشام فضا کا ہر لمحہ پاکستانی ماں سے ان کے جگر گوشوں کا خراج مانگتا رہا اور پاکستان برسر پیکار نہ ہوتے ہوئے بھی جنگ جیسی الم ناک صورتحال سے دوچار رہا۔ حکومت ِوقت نے اپنی رٹ قائم کرنے کے نام پرگویا عوام پاکستان کی جان ومال سے کھیلنے کا لائسنس حاصل کرلیا اور ظلم وبربریت کا یہ تسلسل ہنوز تھمنے میں نہیں آرہا !!

اپنے د ورِ اقتدار میں روشن خیالی کے نام پراُس نے قوم کو ایسے رستوں پر ڈال دیا جس کی منزل ہلاکت اور تنزل کی اتھاہ گہرائیوں کے سوا کچھ نہیں ۔ نظامِ تعلیم کی اصلاح کے نام پر اسلام کو مسخ کرنے اوراُمت ِمسلمہ سے ہمارا ناطہ توڑنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ افغانستان کی مسلم حکومت امریکہ نے اس کے والہانہ تعاون کے بل بوتے پر تاراج کردی، ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو اس کے انٹیلی جنس رپورٹوں اور پاکستان میں امریکی بیسز کی فراہمی کی بنا پر شہید کردیا گیا۔ پرویز مشرف کی ہی غلامانہ پالیسیوں کی بدولت صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں امن وسکون غارت کرکے ایک تسلسل سے فوجی آپریشنز شروع کردیے گئے جس کے ردّ عمل میں ملک بھر میں دہشت گردی کی آگ پھیل گئی اور ہزاروں افراد نے خود کش بم دھماکوں کی صورت میں پوری قوم کو دہشت وبربریت کا شکار کردیا۔ پاکستان کے شہروں اور گلیوں میں امریکی مفادات کی جنگ ۹ سال تک لڑی گئی۔ لال مسجد کی المناک شہادتیں اسی آمر و ظالم کے فیصلوں کی وجہ سے رونما ہوئیں جس میں سینکڑوں معصوم بچیوں کو فاسفورس بموں سے زندہ پگھلا دیا گیا۔ ۶ لاکھ پاکستانیوں کو اِسی کے کئے ہوئے معاہدوں کی بنا پر اپنے ہی ملک میں شرمناک ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ الغرض اپنے نوسالہ عرصۂ اقتدار میں اس نے اسلام اور پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا، اس کی تلافی میں برسوں نہیں ، عشرے صرف ہوں گے...!

پرویزی اقتدارسے 'مشرف' ہونے سے قبل پاکستان کو میسرعالمی حیثیت اور واحد مسلم ایٹمی قوت ہونے کا وقار وطن کے ہی ایک 'محافظ جرنیل' نے اپنے اَرزاں مفادات کے لئے خاک میں ملا دیا۔ اسلام کے حوالے سے درجہ اعتبار پر متمکن ایک مملکت کو ایک شخص اپنے چند روزہ اقتدار کے لئے دنیا بھر میں رسوا کرتا رہا اور آج جب وہ خود رخصت ہوا ہے تو اس کے زیر ہدایت ہونے والے اقدامات کے طفیل پاکستان کا تعارف ایک دہشت گرد ملک کے طورپر کیا جاتا ہے جس میں امن وامان اور ترقی واستحکام کا کوئی شائبہ بھی موجود نہیں ہے۔ ا ور کیفیت یہ ہے کہ ۲۱ویں صدی میں وقار سے داخل ہونے کی اُمنگ رکھنے والی قوم ہلاکتوں ، ہوش ربا گرانی، تاریکیوں اور ذرائع توانائی کی قلت کے لحاظ سے اَب دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔

عالمی قوتوں نے ہمیشہ اپنے مہروں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد پورے کئے ہیں ۔ ان کٹھ پتلیوں کے ذریعے سامراج ہمیشہ سے پس پردہ رہ کر اپنا ہدف حاصل کرتا رہا ہے، لیکن اُن کی یہ چالبازی اُن کی چالاکی ومکاری سے زیادہ نام نہاد مسلمانوں کی غداری اور ذاتی مفادات کی رہینِ منت رہی ہے۔ عالم اسلام کا باوقار اور عسکری اعتبار سے نمایاں ترین ملک جس طرح ایک چھوٹے شخص کے ذاتی مفادات کا اَسیر رہا ہے، اس کا معمولی جائزہ بھی عبرت آموز ہے۔

نائن الیون کے بعد امریکہ نے عالم اسلام کو جس جنگ میں جھونکا تھا، اور اس کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کردیا تھا، اس دہشت وبربریت کے دور میں مسلم ممالک کے کسی اتحاد کی شدید ترین ضرورت تھی جواس سلسلہ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ سہی توکم از کم آوازِاحتجاج ہی بلند کرسکتا۔ اپنی غیر معمولی جغرافیائی حیثیت اور عسکری صلاحیتوں کے باوصف اس نوعیت کے کسی بھی اتحاد میں پاکستان کو نظر انداز کئے بنا چارہ نہیں تھا۔ لیکن ایک ادنیٰ شخص نے اپنے حقیر مفادات کے لئے پاکستان کو امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ، درحقیقت زرخرید لونڈی بنا کے رکھ دیا جس کے دام آج تک وصول کئے جارہے ہیں ۔ اور اس طرح ایک شخص کی چند کڑوڑ ڈالر قیمت ادا کرکے دنیا کی نام نہاد سپر قوت امریکہ نے پورے عالم اسلام کے مدافعانہ ردّ عمل کو کنٹرول کئے رکھا۔ نامعلوم ہمارے یہ ایجنٹ حکمران اس مکروہ کردار کو ادا کرتے ہوئے صدام حسین جیسے ماضی کے امریکی ایجنٹ کا عبرت ناک انجام کیوں بھول جاتے ہیں ...!!

ایسے حکمران ہمیشہ سے اپنی رعایا کے لئے باعث ِذلت ہوتے ہیں ، جن کی قوت واقتدار کا انحصار ملک کے اندر کی بجائے دیگر خارجی عناصر پر قائم ہو۔ عالمی سیاست کے کھلاڑیوں کے لئے یہ سنہرا موقع ہوتا ہے کہ وہ ایسے قابض حکمرانوں کو وقتی سرپرستی کا جھانسا دے کر اُنہیں اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرنے کی سفارت کاری کریں ۔اس اعتبار سے مستقبل میں بھی عالمی قوتوں کو ایسے ہی افراد کی ہردم تلاش رہے گی او روہ ان کی حمایت کو بے تاب نظر آئیں گے جو اپنے عوام کی بجائے ان کی تائید سے تقویت حاصل کرنے پر انحصار کریں ۔ لیکن غیروں کی یہ سرپرستی درحقیقت اپنی اور اپنے مادرِ وطن کی ہلاکت وتباہی کا شارٹ کٹ راستہ ہوا کرتی ہے۔ جیسا کہ پرویزی دور کے ابتدائی سال نسبتاً پرسکون نظر آتے ہیں لیکن اپنے انجام کی طرف بڑھتے بڑھتے ان کے زیر سرپرستی ایسے اقدامات میں روز بروز شدت پیدا ہوتی نظر آئی جن کا فائدہ آخر کار ملک کی بجائے دشمنوں کو حاصل ہوا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سیاسی کھلاڑی ایسے حکمرانوں کا اپنے اوپر انحصار بڑھاتے ہوئے آہستہ آہستہ اہل وطن سے اُنہیں اس قدر دور کردیتے ہیں کہ ان کی حیثیت ایک قابض وغاصب حکمران سے زیادہ نہیں رہتی!! غور کیجئے، کیا افغانستان، وزیرستان، سوات، قبائلی علا قہ جات، حدود قوانین اور پھر لال مسجد کے لہو رنگ المیے کسی ایسے شخص سے صادر ہوسکتے ہیں جو ارضِ وطن سے ادنیٰ محبت اور مناسبت بھی رکھتا ہو۔

جب اہلیت نہ رکھنے والے افراد اِقتدار کو غصب کرلیں تو اس وقت ملک کے ہر طبقے میں جہاں بدمحنتی، کاہلی اوردوسروں کے حقوق غصب کرنے کی ایک نئی ریت پروان چڑھتی ہے وہاں خوشامدی اور چاپلوسی کرنے والے عناصر بھی نمایاں ہو کر پورا معاشرتی ماحول تباہ وبرباد کردیتے ہیں ۔ مشرف کی نااہلی اور بدانتظامی، خودغرضی اوراقتدار پرستی ،سپرقوتوں کی ایجنٹی اور اہل وطن سے ظلم وبربریت کے تذکرے آج ہرفرد کی زبان پر ہیں ، لیکن اس سے کچھ عرصہ قبل ہمارے ذرائع ابلاغ اور قوم کی نمائندگی کرنے والے افراد اس کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے، بلکہ دوسروں کو بھی دھوکہ میں رکھنے کے لئے جابجا مغالطے دیا کرتے تھے۔ قوم کے ان نمائندگان کا 'چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی' کا یہ ناروا ڈھنگ اور ابن الوقتی کا مکروہ کردار تعمیری قومی رویوں اورمثبت رجحانات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔

یہ خوشامدی اور ابن الوقتی صرف چند سیاست زدہ افراد کی شناخت نہیں بنتی بلکہ پاکستان ایسے ملک میں میڈیا کے بعض معتبر اور بڑے ادارے بھی چاپلوسی کے سایۂ عافیت میں پناہ ڈھونڈ کر درپیش بحران میں کوئی کمی لانے کی بجائے اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے مجرم بننا ہی پسند کرتے ہیں ۔ اس وقت میڈیا کا یہ کردار اس کے مقصد ِوجود سے بالکل متضاد نظر آتا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر تھرما میٹر کا اہم منصب سنبھالتا ہے۔

جب ہر عام وخاص شخص ایک واضح نتیجے پر پہنچ جائے اور منصب پر قابض شخص منظر سے غائب ہوجائے تو اس وقت سخت تبصرے کرنا کوئی بہادری نہیں بلکہ اخلاقی گراوٹ ہے۔ وہ لوگ جو عوام سے بہت زیادہ معلومات اور ملکی مسائل پر گہرا درک رکھتے ہیں ، ان کا فرض یہ ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے عظیم کردار پر کوئی مفاہمت قبول نہ کریں اور ان کے مقام ومنصب کا یہ بنیادی تقاضا بنتا ہے۔ کسی قوم کے اجتماعی زوال میں ایسے عناصر کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے، اور بدقسمتی سے ہم لوگ اس سلسلے میں کوئی قابل تعریف مثال پیش نہیں کرسکے۔

یوں تو پاکستان کا موجودہ منظرنامہ بھی ہماری بداعمالیوں کے سبب ماضی سے مختلف نہیں بلکہ اس سے سنگین تر ہی نظر آتا ہے۔لیکن فی الوقت اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پرویزی دور کے پیدا کردہ مسائل تک ہی ہم محدود رہتے ہیں :

پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان کی نظریاتی اساس خصوصی طورپر ہدفِ تنقید بنی رہی اوران برسوں میں نظریاتی کشمکش زوروں پر رہی۔ مشرف کی تقریروں میں دین سے وابستہ طبقہ خصوصی عنایتوں کا مستحق ٹھہرتا۔ ہر خطاب میں راسخ فکر مسلمانوں کو آڑے ہاتھ لینا اور اُنہیں تنبیہ وتلقین کرنا اس کا معمول تھا۔ ملک بھر کے میڈیا میں پرویز کی زیرسرپرستی یہ مہم جوئی نمایاں الفاظ میں شائع ہوا کرتی۔ ۹ برس تک لگارتار یہ نظریاتی کشمکش برپا کرنے کانتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام خود اپنے نام پر حاصل کردہ سرزمین میں اجنبی نظرآتا ہے۔ مساجد ومدارس کو عوامی سطح پر دہشت گرد قرار دلوانے میں اسلام دشمن قوتوں کو کامیاب پیش رفت حاصل ہوئی ہے اور عام لوگ ان سے متنفر اور ایک فاصلے پر رہنا پسند کرنے لگے ہیں ۔

دنیا بھر میں مسلمانوں بالخصوص اہل پاکستان کو دہشت گردی کے سنگین الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰٰ کہ یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ جب تک اللہ کی کتاب موجود ہے، اس وقت نعوذ باللہدنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا اہل پاکستان یہ ماننے کو تیار ہیں کہ دنیا بھر کے میڈیا کا یہ دعویٰ درست ہے اور فی الحقیقت اسلام اور دہشت گردی دو مترادف الفاظ ہی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان بھی اس نظریہ سے کسی طرح اتفاق نہیں کرسکتا ا ور وہ خود اپنے نظریات ومعمولات کی بنا پر جانتا پہچانتا ہے کہ وہ عالمی دہشت گردی کا شکار تو ہے لیکن خود مکمل طورپر امن پسند ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مسلمان اپنے بارے میں عالمی میڈیا کے اس الزام کو ماننے کو تیار نہیں توکیا وجہ ہے کہ اسی صہیونی میڈیا کے مسجد ومدرسہ کے بارے میں الزام تراشی سے وہ متفق ہونے کا میلان رکھتا ہے؟ یہاں وہ عالمی میڈیا کے اس دعواے دہشت گردی کو الزام واِتہام باور کرنے کی بجائے یہ ماننے کا رجحان کیونکر رکھتا ہے کہ اس الزام میں کوئی نہ کوئی صداقت ضرور موجود ہے کہ اہل مدرسہ میں دہشت گردی کے جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ آخر اس فکری تناقض اور ثنویت کی اساس اور جواز کیا ہے؟ اگر وہ اپنی قریبی مسجد ومدرسہ میں جاکر اور وہاں چند گھنٹے رہ کر خود جائزہ لینے کی کوشش کرے تو اس پر چند لمحوں میں نہ صرف اس الزام کی حقیقت آشکار ا ہوجائے بلکہ وہ اس وجہ تک بھی بآسانی پہنچ جائے کہ عالمی قوتیں مسلمانوں کا مسجد واہل مسجد سے تعلق کمزور کرنے کے لئے ہی یہ سارا پروپیگنڈا کرتی ہیں ۔

اس سلسلے میں ایک ملاقات کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا، رمضان المبارک سے ہفتہ بھر قبل ایک عالم دین مفتی عظمت اللہ بنوی راقم سے ملنے جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تشریف لائے۔ موصوف شمالی وزیرستان کے سب سے بڑے دینی مدرسہ 'جامعہ المرکز الاسلامی' کے سابق مہتمم مولانا سید نصیب علی شاہ کے معاونِ خاص اور مجلہ 'مباحث ِ اسلامیہ' بنوں کے مدیر مسئول ہیں ۔ ان سے میں نے وزیرستان میں جاری عسکری کاروائیوں اور مزعومہ اہل دین کی باہمی چشمک کے بارے دریافت کیا۔ دوسروں کی طرح راقم بھی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے متاثر ہوکر اس بارے میں فکرمند تھا کہ دو مختلف دینی پس منظر رکھنے والے لوگ آپس میں ہی کیوں برسرپیکارہوگئے ہیں ... ؟

اُنہوں نے فرمایا کہ وزیرستان سے ان کا مدرسہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ اس علاقے کا سب سے بڑا مدرسہ ہیجس میں 1400؍ طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ لیکن اس علاقے میں جاری شورش میں اس مدرسہ اور وہاں کے علما و طلبا کا کوئی کردار نہیں بلکہ وہ اس ساری کشمکش میں برسرپیکار عناصر کو سرے سے جانتے ہی نہیں ۔ عرصہ دراز سے اس علاقے میں رہنے اور کام کرنے کے باوجود شمالی وزیرستان کے مجاہدین اورقائدین نہ صرف ان کے لئے سرے سے اجنبی ہیں بلکہ وہ لوگ ایک دو بار تو خود ان کو قتل کے ارادے سے لے گئے تھے جہاں اُنہوں نے بڑی مشکل سے اپنی جان بخشی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگی کاروائیاں کرنے والوں کی اسلامی وضع قطع اور داڑھیاں متعدد موقعوں پرجعلی ثابت ہوچکی ہیں ۔ اور یہ تما م معرکہ آرائی خود ساختہ ہے جس میں مد مقابل سے چند ایجنٹ داخل کرکے گولہ باری اور فائرنگ محض اس لئے کردی جاتی ہے تاکہ ان کے خلاف جارحیت کا جواز مل سکے۔ ان کے خیال میں اس سلسلے میں ازبکستان سے آئے ہوئے لوگوں کا کردار کافی غور طلب ہے جو ڈالروں کے لئے اس علاقے کو عملاً جنگ میں جھونک رہے ہیں ۔ یہاں ایجنسیاں بالکل وہی حکمت ِعملی آزما رہی ہیں جیسا کہ لال مسجد سے چند فائر ہوجانے اور کلاشنکوفوں سے مسلح افراد کو میڈیا میں اس مقصد سے نمایاں کیا گیا تاکہ ان معصوم خواتین کے خلاف سنگین اِقدام کا جواز مل سکے۔ مفتی صاحب کا تاثر یہ تھا کہ ان علاقوں میں گہری عالمی سازش کام کررہی ہے جس کے مذموم مقاصد میں پاکستان کے وجود کے لئے مشکلات پیدا کرنااور اس کے نقشہ میں تبدیلی لانا شامل ہے اور ہم اپنے جملہ متعلقین او رطلبہ وعملہ کو اس قسم کی تما م کاروائیوں سے مکمل پہلو تہی کرنے کی شدت سے تلقین کرتے ہیں ۔

مذکورہ بالا صورتحال سے پتہ چلتاہے کہ اس وقت جہاں اس معرکہ آرائی کے فوری خاتمے اور پرامن مفاہمت کی فوری ضرورت ہے، وہاں اہل وطن کوا س خانہ جنگی کے اصل حقائق سے آگاہ کرنا بھی وقت کی پکار ہے اور یہ کام میڈیا کے مختلف پرائیویٹ چینل براہِ راست بخوبی کرسکتے ہیں ۔ اپنے حقیقی دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کے بعد ہی ان کے بارے میں صحیح منصوبہ بندی اور رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری ایجنسیوں یا عالمی میڈیا پر انحصارکرنے کی بجائے براہِ راست حقیقی صورتحال سے عوام کو آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان اس وقت عالمی سیاست کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ ہم عالمی سیاست کرنہیں رہے، لیکن عالمی سیاست کا شکار ہیں ، مزعومہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے بلکہ افغان وزیر خارجہ نے تو زبان سے کہہ بھی دیا ہے کہ دہشت گردی کی عالمی جنگ افغانستان کی بجائے پاکستان میں لڑی جانی چاہئے۔ ایسے جنگی حالات میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہوجایا کرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے بیسیوں ٹی وی نیوز چینل ہمیں دن رات دنیا بھر کی خبریں توپیش کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے پہلو میں افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی مسلسل ہزیمت اور مجاہدین کی کامیابیوں کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ دنیا بھر کا چبایا ہوا اِبلاغی جھوٹ اور زہر تو ہمارے کانوں میں بلا کم و کاست اُنڈیل دیا جاتا ہے لیکن خود ہمارا قومی وملی میڈیا اپنے تئیں حالات کا کوئی جائزہ نہیں لیتا...!!

یاد رہے کہ واقعاتی کشمکش سے قبل نظریاتی شکست وریخت کے مراحل آتے ہیں ۔مشرف کے جبر وتسلط کے دور میں ملک کے ہر اُس ادارے کو نشانہ بنایا گیا جو مشرف کے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ نظرآیا۔ اس سلسلے میں سیاستدانوں سے لے کر عدلیہ کے معتبر ترین افراد تک بھی معتوب ٹھہرے، لیکن نظریاتی طورپر اسلام او راس کے نام لیوا علماے کرام لگاتار طنز واستہزا کا نشانہ بنے رہے۔ مشرف کے منظر نامے سے ہٹنے کے بعد جہاں عدلیہ کا اِحیا ہورہا ہے، وہاں مسلمانوں کے نظریاتی محافظ اہل دین کے کردار کو اِلزامات واِتہامات سے پاک کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ یہ مطالبہ بڑے زور وشور سے دہرایا گیا کہ عدلیہ کو ۳؍ نومبر۲۰۰۷ء والی حیثیت پر بحال کیا جائے۔ دنیا بھر میں عدلیہ کی بحالی کے لئے مظاہرے اور جلسے ہوئے، عالمی اداروں نے ا س مشن کے قائدین کو داد وتحسین پیش کرتے ہوئے اُنہیں مختلف اِعزازات سے نوازا، لیکن اسلام اور اہل اسلام کو درپیش جارحیت کا مداوا اور اس کا سدباب کرنے کی کسی کو کوئی فکر نہیں ۔

علماے کرام کی واحد متاع عوام میں ان کا منصب ووقار ہے، جس کے بل بوتے پر وہ معاشرے میں مصلحانہ کردار انجام دیتے ہیں اور یہی وقار اگر داؤ پر لگ جائے تو پھر کوئی نظم ان کے منصب کو تحفظ دینے پر قادر نہیں ۔ اس وقار ومنصب پر اگر زد پڑجائے تو اس کی بحالی کی ذمہ داری دنیا بھر میں کسی کے پاس نہیں بلکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اس وقار واعتبار کو مزید زائل کردیا جائے۔ اس شکوہ کے بعد ہمارے پاس اس کے سوا اور کیا سبیل باقی رہ جاتی ہے کہ جہاں اہل دین اپنے کردار کو مزید معیاری ومثالی بنائیں ، وہاں خود ہی عوام کو بھی ان سازشوں سے آگاہ کریں ۔

مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان کے اسلامی قوانین بھی خصوصی ہدف بنے رہے۔ سیاستدانوں کو اپنے مفادات کے لئے سترھویں ترمیم اور 58  ٹوبی کے خاتمے کی شرطیں رکھنے کی توفیق تو اَرزانی ہوئی، لیکن وہ اسلامی قوانین جن کا حلیہ بگاڑ کر بے حیا معاشرت کو ملک میں فروغ دیا گیا، ان کو لوٹانے کی فکر کسی کو نہیں ۔ 9 سالہ دورِ اباحیت میں قتل غیرت، سزاے موت، حد ِزنا اور حد ِقذف اور توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین میں اس نوعیت کی تبدیلیاں کی گئیں کہ ان کا اصل جوہر اور قابل عمل ہونے کا امکان ہی معدوم ہوگیا۔

ایک شخص نے اپنے من مانے مقاصد کے لئے دستور کا حلیہ اس حد تک بگاڑا کہ دستور باہمی تضادات کا شکار ہوکر رہ گیا۔ میثاقِ جمہوریت میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ دستورپاکستان کو اکتوبر 1999ء والی حیثیت پر بحال کیا جائے گا، لیکن عملاً اس معاہدے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔

جہاں تک مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی بات ہے تو اس وقت برسراقتدار پیپلز پارٹی ماضی میں خود اس قانونی شکست وریخت کے اَسباب کا اہم کردار رہی ہے حتیٰ کہ موجودہ وزیر داخلہ شیری رحمن نے حدود اور قتل غیرت کے قوانین میں تبدیلی کو اپنے سنہرے کارنامے قرار دیا تھا، سزاے موت کے خاتمے کو موجودہ وزیر اعظم نے اپنا اِعزاز باور کرایا ۔ ان حالات میں بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ حکومت ِوقت ان قوانین کو دوبارہ اسلام سے قریب تر کرنے کے جرات مندانہ اِقدامات بروے کار لائے۔

البتہ جمعیت علمائے اسلام ف نے آصف زرداری کی صدارت کی حمایت کو اس امر سے مشروط قرا ردیا تھا کہ اگر وہ سرحدی علاقہ جات میں مفاہمت، جامعہ حفصہ کی تعمیر نو اور حدود قوانین میں مطلوبہ تبدیلی کا وعدہ پورا کرتے ہیں تو اس صورت میں وہ ان کی صدارت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ بظاہر ا س مطالبے کی نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ، یوں بھی محض وجہ ِجواز اور خانہ پری کے طور پر ان شرائط کو پیش کردیا گیا، نئے صدر کا انتخاب بھی ہوگیا اور ان شرائط کی طرف کوئی پیش رفت بھی نہ ہوئی۔ اب موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں ان مسخ شدہ قوانین کا رجوع انتہائی مشکل امر معلوم آتا ہے، لیکن یہ ایسی چیزیں ہیں جو ملک کا مسلم تشخص قائم کرنے اور یہاں اسلامی معاشرت کو فروغ دینے کے لئے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔

ترقی یافتہ دنیا میں افراد نہیں بلکہ پالیسیاں اہم ہوتی ہیں ، چہرے بدل جاتے ہیں ، لیکن کسی ملک کے اہداف ومقاصد نہیں بدلتے۔ امریکہ کے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے بارے میں جو استعماری عزائم ہیں ، ان میں تبدیلی کی توقع کرنا نادانی کے سواکچھ نہیں ۔ امریکہ کی شروع کردہ عالم اسلام کے خلاف مزعومہ دہشت گردی کی جنگ اب اس موڑ پر پہنچ رہی ہے کہ افغانستان وعراق کے بعد پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس حوالے سے عالم اسلام میں پاکستان اور پاکستان میں دینی ادارے اور جماعتیں یا ایم ایم اے جیسی سیاسی قوتیں اپنی تمام تر کمزوری کے باوجود ان کے لئے پریشانی کا خصوصی سبب ہیں ۔ گذشتہ برس جولائی کے اخبارات میں امریکہ کے متوقع صدر باراک حسین اوباما کا پاکستان کے بارے میں یہ بیان شائع ہوچکا ہے :
''اصل میدانِ جنگ عراق نہیں ، پاکستان ہے۔ امریکہ وہاں القاعدہ پر بلا جھجک حملے کرے۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو عراق سے فوجیں نکال کر حقیقی میدانِ جنگ پاکستان بھیجیں گے، اس سلسلے میں اسلام آباد کے کسی احتجاج کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کو ہرصورت دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا، وگرنہ وہ امریکی امداد کے خاتمے اور حملے کے لئے تیار رہے۔''

باراک اوباما، جارج بش کے بالمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار ہیں ۔ پاکستان پر جارحیت کے بارے میں صدر بش کی ری پبلکن پارٹی اور ان کے مقابل ڈیموکریٹک پارٹی دونوں میں کلی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جو امریکی عوام اور دانشوروں کی متفقہ رائے کا غماز ہے۔ اس بیان سے کم ازکم امریکی عوام کی خواہشات اور پالیسی سازوں کے رجحانات کا پوری طرح انداز ہ ہو جاتا ہے جن کی پاسداری کی ضمانت دینا عہدئہ صدارت پر براجمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔

پاکستان عالمی سیاست کے اسی جبر کا شکار ہے کہ عالمی طاقتوں نے مشرف کی رخصتی کو اسی شرط پر گوارا کیا ہے کہ نئی حکومت اس کے طے کردہ تمام معاہدے مکمل روح کے ساتھ پورے کرنے کی ذمہ داری قبول کرے۔ مشرف کے بعد پاکستان کا حالیہ منظرنامہ اس کی پوری تصدیق کرتا ہے۔ بظاہر ان چند دنوں کے حکومتی اقدامات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی عوام کو ریلیف دینے میں تو شاید کوئی کامیابی حاصل کرلے، لیکن عالمی سیاست کے مقاصد پورا کرنے میں وہ مشرف سے زیادہ تن دہی سے کوشش بروئے کار لائے گی۔سرحدی علاقہ جات میں تسلسل سے ہر روز ہونے والا حملہ اسی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ داخلہ جیسی اہم وزارت کا مشرف کے قریبی ساتھیوں اور مشیرداخلہ پر ہی انحصار، اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ماتحت کرنے کا اِقدام سابقہ صورتحال کے تسلسل کی ہی غمازی کرتے ہیں ۔

لیکن یاد رہے کہ جب تک پاکستان کی سرحدوں کے اندر غیروں کی یہ دراندازی اور پاکستان کی سا لمیت کے خلاف حملے جاری رہیں گے، تب تک پاکستان میں امن وامان اور اس کے نتیجے میں معاشی ترقی کے خواب چکنا چور ہوتے رہیں گے۔ معاشی ترقی کی صورتحال تو یہاں تک جاپہنچی ہے کہ امن وامان اور عدم استحکام کی نا گفتہ بہ صورتحال کی بنا پر بڑے بڑے سرمایہ کار حتیٰ کہ عام صارف بھی کاروباراور بنکوں سے اپنی رقم نکلوا چکے ہیں اور صنعتوں کی بندش کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کا طوفان آنے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں ۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور زرداری جیسے شخص کا عہدئہ صدارت پر براجمان ہوناخود ہمارے اَعمال کا نتیجہ ہے۔ اگر آج قوم نے پنجاب کی طرح ملک بھر میں باکردار اور محب ِدین وملت قوتوں کو اپنا اعتماد دیا ہوتا، بے نظیر بھٹو کے قتل کی بنا پر ہم دردی کا ووٹ ایسی جماعت کو نہ دیا ہوتا، جس میں بے نظیرخود بھی موجود نہیں ہے توآج ملک کی سیاسی صورتحا ل بالکل مختلف ہوتی...!!

افسوس کہ عوامِ پاکستان کے حاصل کردہ اعتماد کی بنا پر آج ایسے لوگ پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے ہیں جو باہمی مفاہمتوں کی پیداوار ہیں ۔ چند ماہ قبل مشرف نے مفاہمتی آرڈیننس کی بنا پر بے نظیر اور زرداری کی اربوں ڈالر کی خورد برد معاف کرکے اُنہیں قومی سیاست میں آنے کی اجازت دی اور آج زرداری نے اسی مشرف پر اَربوں ڈالر کی خوردبرد کا الزام لگا کر اس کو معافی اور باز پرس نہ ہونے کی ضمانت دے رکھی ہے۔ اگر زرداری نے مشرف پر یہ الزام لگایا تھا، تو پھر قومی دولت کو لوٹنے والوں کا احتساب کرنا ان کا فرض بنتا ہے، وگرنہ اپنی غلط بیانی اور کردار کشی کا قوم کو جواب دیں ۔ افسوس کہ وہ لوگ اسلامیانِ پاکستان کی قسمت کے رکھوالے بن گئے ہیں جنہیں نہ تو کسی عہدکا پاس ہے اور نہ قومی وقار وسلامتی کا۔ ان حالات میں ربّ ِکریم کی رحمت ہی کوئی معجزہ دکھا سکتی ہے، وگرنہ ملکی حالات ایک سال کے اندر اندر ایک اور فوجی جرنیل کو وطنِ عزیز پر قبضہ کی دعوت دے رہے ہیں !