عدل کا مفہوم، شرعی تصور اور تاریخی ارتقا

عدل مصدرہے، اس کا مادہ ع د ل ہے، اس مادے میں برابری اور مساوات وانصاف کا مفہوم ہے۔لسان العرب میں ہے: ''عدل، إنه مستقیم وھو ضدّ الجور، العدل: من أسماء اﷲِ ھو الذي لایمیل به الھوٰی، العدل الحکم بالحق'' 1
''عدل، اس کا معنی سیدھا ہے اوریہ جور کی ضد ہے۔ عدل لفظ اللہ کے ناموں میں سے ہے یعنی وہ خواہشات کی طرف مائل نہیں ہوتا، عدل حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کو کہتے ہیں ۔''
امام جرجانی رحمة اللہ علیہ کا کہنا ہے:''العدل الأمر المتوسط بین الإفراط والتفریط'' 2
''عدل اِفراط و تفریط کے درمیان متوسط کام کو کہتے ہیں ۔''
ایڈورڈولیم لین کے مطابق اُمورومعاملاتِ قضامیں درست اور برابری کا رویہ اختیار کرنے کو عدل کہتے ہیں ۔ 3  عدل کے مختلف معنوں میں سے ایک معنی 'برابر' اور یکساں بھی ہیں ۔ 4 جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:أَوْ عَدْلُ ذَ‌ٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِ‌هِۦ...﴿٩٥﴾...سورۃ المائدۃ 5
''یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔''
عَدَل (بالفتح) کے معنی قیمت، فدیہ، مرد صالح اور حق وانصاف کے ہیں ۔ 6
عدل 'فدیہ' کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ 7 اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :
وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَـٰعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ...﴿٤٨﴾...سورۃ البقرۃ 8
''اورنہ کسی کی سفارش منظور کی جائے گی اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا۔''
لیکن اگر عدل بالکسرہ ہو تو اخفش کے مطابق اس کے معنی'المثل' کے ہیں ۔ 9
اہل لغت نے اگرچہ العَدل اور العِدل کے معنی الگ الگ لیے ہیں ، لیکن اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ قریب ُالمعنی ہیں ۔ عَدل معنوی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور عِدل ان چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے جن کا اِدراک حواسِ ظاہرہ سے ہوتا ہے۔ 10
عدل اصل میں عربی لفظ ہے۔ اُردو میں اس کا ہم معنی 'انصاف' انگریزی میں "Justice" اور عبرانی میں صداقاة اور مشپـاط ہے۔
Twentieth Century Encyclopaediaمیں Justiceکے ضمن میں مقالہ نگار لکھتا ہے :
Equal distribution of right in expressing opinions; fair representation of facts respecting merit or demerit: equity, impartiality.11
The Standard Jewish Encyclopediaکا مقالہ نگار لکھتا ہے :
The Biblical Hebrew words for Tzedek, Tzedakah, Mishpat possess many shades of meaning, Justice, righteousness, proper behaviour, fairness, integrity.12
اُردو زبان میں 'عدل' کو بطورِ اسم ذات بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بطورِ اسم صفت بھی، اس صورت میں اس کے معنی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے:
''اسم ذات کے طور پر عدل کے معنی 'انصاف' یا 'دادرسی' کے ہیں اور اسم صفت کے طور پر اس کے معنی مستقیم، منصفانہ اور متوازن کے آتے ہیں ۔'' 13
جب کہ عام اصطلاح اور قضا کے نقطئہ نظر سے عدل کا مفہوم یہ ہے:
''روزمرہ معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل وانصاف کے ساتھ ان کے حقوقِ عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو۔''
''عدل کو عربی زبان میں 'قضاء'کہتے ہیں ۔ شرعی اصطلاح میں قضا کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کے معینہ ادارے کی طرف سے قرآن وسنت اور شرعی احکام کی روشنی میں عامة الناس کے باہمی تنازعات کا تصفیہ کیا جائے اور مقدمات فیصل کیے جائیں ۔'' 14
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''سیاست ِ شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے۔ ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا ودین کی فلاح کا دارومدار ہے اور بغیر عدل کے فلاحِ دارین کا حصول ناممکن ہے۔'' 15
امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں :
''العدل فھو عبارة عن الأمر المتوسط بین طرفي الإفراط والتفریط، وذلك أمر واجب الرعایة في جمیع الأشیاء'' 16
مندرجہ بالا تعریفات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ عدل کا مفہوم مختلف مناسبتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ عدل کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنے ربّ کے درمیان عدل کرے، یعنی اللہ کے حق کو اپنی خواہش پر مقدم رکھے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ عدل کرے، یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام باتوں اور چیزوں سے بچائے رکھے جن سے جسمانی و روحانی ہلاکت واذیت کا خطرہ ہو اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات اور مخلوق کے درمیان عدل کرے یعنی تمام مخلوقات سے ہمدردی وخیرخواہی کا برتاؤ کرے۔ ہمارے ہاں عدل کو عدالت کے ساتھ منسلک کردیا گیاہے۔

عدل و انصاف کی اہمیت و ضرورت قرآن و حدیث کی روشنی میں
معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے عدل وانصا ف اور سزا نہایت ضروری ہیں ۔ اس کے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کو برائیوں سے مبرا رکھنے کے لیے قانون وعدل نہایت ضروری ہیں ۔ عدل کے بغیر، جس کی بنیاد قانون پر ہوتی ہے، امن وامان قائم نہیں رہ سکتا، اس لیے اسلام نے ایسے جرائم میں حدمقرر کی جس کا اثر دوسروں پرپڑتاہے جیسے چوری،زنا، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور شراب نوشی وغیرہ اور انصاف اور سزا کا اختیار صرف ان لوگوں کو دیا جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو۔ قانون کے نفاذ سے جرائم کا انسداد ضروری ہوجاتا ہے اور معاشرہ کسی حد تک جرائم سے پاک بھی ہوجاتا ہے۔ 17
اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں عدل قائم کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے:وَأُمِرْ‌تُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ...﴿١٥﴾...سورہ الشوری 18
''مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔''
وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ...﴿٥٨﴾...سورۃ النساء 19
''اور جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔''
وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا ٱعْدِلُوا هُوَ أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ...﴿٨﴾...سورۃ المائدۃ 20
''اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے۔''
وَإِنْ حَكَمْتَ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِٱلْقِسْطِ ۚ...﴿٤٢﴾...سورۃ المائدۃ 21
''اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کر۔''
قُلْ أَمَرَ‌ رَ‌بِّى بِٱلْقِسْطِ ۖ...﴿٢٩﴾...22'' کہہ دے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے۔''
احادیث میں بھی عدل کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(فإن عدلوا فلأنفسھم، وإن ظلموا فعلیھا) 23
''اگر وہ انصاف کریں توان کے لیے فائدہ مند ہے، اگر ظلم کریں تو ان کے لیے وبال جان۔''
حضرت ابن عباسؓ اللہ تعالیٰ کے اس قول {إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَـٰلِحًا}...﴿٧٠﴾...سورۃ الفرقان(مگر جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور نیک کام کیے)کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپؐنے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مکہ والوں نے کہا:
''فقد عدلنا باﷲ، قتلنا النفس التي حرّم اﷲ إلاّ بالحقّ واٰتینا الفواحش فأنزل اﷲ{إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَـٰلِحًا}...﴿٧٠﴾...سورۃ الفرقان 24
''پس ہم نے اللہ کے معاملے میں انصاف کیا اور اُس نفس کوقتل کیا جس کو اللہ نے حق کے ماسوا قتل کرنا حرام کیا،اور ہم نے فحش کام کیے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَـٰلِحًا}...﴿٧٠﴾...سورۃ الفرقان 25
لوگوں کے درمیان اصلاح کروانے اور ان کے درمیان انصاف کرنے والے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
(یعدل بین الناس صدقة) 26''لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے۔''
حکمران کے بارے میں حدیث میں آتا ہے:
(فإذا عدل کان له الأجر) 27 ''جب وہ عدل کرے تو اس کے لیے اجر ہے۔''

عدل وانصاف کے اُصول
محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو جرم کی سزا کی تنفیذ کی سختی سے تاکید فرمائی تو دوسری طرف آپس کے معاملات میں جن کا تعلق انفرادی زندگی سے تھا، عفو و درگزر کی تعلیم دے کر معاشرہ میں جماعت اور افراد دونوں کواستحکام بخشا اور نظامِ عدل کو ایسے بنیادی اُصولوں سے نوازا جو عالم گیر اہمیت کے حامل ہیں ۔
اصل قانون سازاللہ تعالیٰ: ربّ ِکائنات ہی حکمرانِ حقیقی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن کریم میں متعدد بار بیان کیا گیا اور اتنے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ پُرزور الفاظ کسی بات کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔ ارشادِ باری ہے:
إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ‌ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِيَّاهُ ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ...﴿٤٠﴾...سورۃ یوسف 28
''حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ، اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی اور اطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے۔''
قانون سازی میں رسول اللہ ﷺ کی حیثیت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے بطورِ منصف انسانیت کے لیے عظیم اُسوئہ حسنہ چھوڑا ہے۔ قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پراللہ تعالیٰ نے اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قاضی مقرر کیا ہے،کیونکہ آپؐ اللہ کی جانب سے صرف حق بات ہی کہتے ہیں جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ...﴿٣﴾...سورہ النجم 29
''اور وہ جو کچھ کہتا ہے ہواے نفس کی بنا پر نہیں کہتا۔''
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إني لا أقول إلا حقًّا) 30''میں فی الواقع حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ منصف کی تصدیق مندرجہ ذیل احادیث سے ہوتی ہے:
عن علي قال: لما نزلت: {وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ}...﴿٩٧﴾...سورۃ آل عمران قالوا: یارسول اﷲ! أفي کل عام؟ فسکت فقالوا: یارسول اﷲ! أفي کل عام؟ قال: (لا،ولو قلتُ: نعم، لوجبت) فأنزل اﷲ تعالیٰ:{يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَسْـَٔلُوا۟ عَنْ أَشْيَآءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ}...﴿١٠١﴾...سورۃ المائدۃ 31
''جب یہ آیت نازل ہوئی{وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ}...﴿٩٧﴾...سورۃ آل عمران تو لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا ہرسال (حج کرنا)فرض ہے؟ توحضورؐ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا: کیا ہر سال؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپؐ نے فرمایا: نہیں ۔ اور اگر میں کہہ دیتا 'ہاں ' تو ہر سال حج واجب ہوجاتا۔''
مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے مقدمات میں اللہ سے انصاف طلب کریں ۔ اللہ سے انصاف طلب کرنے سے مراد یہ کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدمات اور تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے جج تسلیم کیا جائے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ ۚ ذَ‌ٰلِكَ خَيْرٌ‌وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ...﴿٥٩﴾...سورۃ النساء 32
''اے ایمان والو! اللہ اورا س کے رسول اور جوتم میں حکمران ہیں ، ان کا حکم مانو۔ پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اُٹھے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور لوٹا دو، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔''
اس آیت ِمبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا انتظامی اور عدالتی اختیار تفویض کیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلوں کی اطاعت حکم الٰہی اور ایک مسلمان کے ایمان کی نشانی بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان منافق اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑا ہوا تو مسلمان منافق نے کہا:چلو کعب بن اشرف سے فیصلہ کرائیں گے۔ یہودی نے کہا: نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ان سے فیصلہ کرائیں گے۔ وہ مسلمان منافق(مجبوراً) آمادہ ہوگیا اور دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (فریقین کے بیانات سن کر) یہودی کے حق میں فیصلہ فرمادیا۔اس منافق مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا: چلو حضرت عمرؓ سے فیصلہ کرائیں ۔ سو دونوں حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ بیان کیا۔
حضرت عمرؓ نے اس منافق مسلمان سے پوچھا: کیا یہ سچ کہتا ہے، واقعہ یہی ہے؟ منافق نے کہا: ''ہاں ٹھیک ہے، ہاں ٹھیک ہے۔'' تو حضرت عمرؓ نے کہا:''تم ذرا ٹھہرو، میں ابھی آکر فیصلہ کرتا ہوں ۔ '' اور گھر میں سے برہنہ تلوار لے کر آئے اور منافق کی گردن اُڑادی اور فرمایا: ''جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول نہ کرے، میں اس کا فیصلہ اسی طرح کیا کرتا ہوں ۔''روایات میں ہے کہ اسی وقت حضرت جبرائیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمرؓ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی واقعہ پر طاغوت کے مقابلہ پر حضرت عمرؓ کا نام 'فاروق' رکھ دیا۔ 33
مجلس شوریٰ : جدید علم سیاست میں جس ادارے کو مقننہ یا قانون ساز ادارہ کہا جاتا ہے علومِ اسلامیہ کی اصطلاح میں اس کو اہل حل وعقد بھی کہا جاتا تھا۔ اسلام میں مجلس شوریٰ یا مقننہ صرف ان مسائل ومعاملات کے سلسلہ میں قانون وضع کرنے کی مجاز ہو گی جن کے بارے میں قرآن وسنت میں واضح احکام موجود نہ ہوں ۔یہ قانون سازی جس طرح عام نہ ہوگی، اسی طرح آزاد بھی نہ ہوگی،بلکہ دین کے مزاج اور شریعت کی مقررہ حدود کے تحت ہی ہوگی۔ صرف کتاب وسنت کے واضح احکام کو سامنے رکھ کر انہی کی بنیاد پر کی جائے گی، علاوہ ازیں چونکہ یہ ذیلی قانون سازی شریعت کے احکامات کو پیش نظر رکھ کر ہی عمل میں لائی جائے گی، اس لئے اس مجلس شوریٰ کے اراکین بھی شریعت اسلامیہ کے ماہر ہوں گے:
عن علي قال: سئل رسول عن العزم قال مشاورة أھل الرأي ثم اتباعھم 34
''حضرت علیؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور پھر ان کی پیروی کرنا۔''


تعزیرات کا نفاذ:

فوجداری جرائم کی سزائیں ایسی صورت حال میں نافذ کرنی چاہئیں ، جب معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاطر خواہ اہتمام موجود ہو اور حالات معمول پر ہوں ۔ جب تک معاشرہ میں نفاذِ اسلام کے لیے سازگار حالات پیدا نہ کردئیے جائیں یا یہ کہ حالات ایسے غیر معمولی ہوں جن میں ارتکابِ جرم کے محرکات ترقی پذیر ہوں تو سزاؤں کی کے نفاذ سے پہلے جرم کی روک تھام پر توجہ دینا ضروری ہے۔چنانچہ خاص جنگی یا غیر معمولی حالات میں سزائوں کے وقتی التوا کی گنجائش بھی موجود ہے جیسا کہ قحط کے زمانے میں خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے وقتی طور پر چوری کے لیے قطع ید کی سزا اِلتوا میں ڈال دی تھی۔
شریعت ِالٰہی کے مطابق فیصلہ:مفتی و قاضی پر لازم ہے کہ وہ صرف قانونِ الٰہی یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کرے اور عدل و انصاف سے کام لے۔ عدل وانصاف سے فیصلہ کرنے کا حکم کسی کی خواہشات پر چلنے کی کلی نفی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت اس آیت میں فرمادی: وَلَا تَأْكُلُوٓاأَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ وَتُدْلُوا بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِ‌يقًا مِّنْ أَمْوَ‌ٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ...﴿١٨٨﴾...سورۃ البقرۃ 35
''اور اپنے آپس میں اپنے مالوں کو ناحق نہ کھاؤ،اور ان کو حکام کی طرف ڈالو، تاکہ تم گناہ کے ساتھ لوگوں کے مال کا ایک حصہ کھا جاؤ اور تم تو جانتے ہو۔''
عدل میں حرص یا خواہشات کا خواہ وہ اپنی ہو یا کسی اور کی، کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے اورحاکم کو شہادتوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔

نظامِ عدل کی ضرورت اور تاریخی ارتقا
نظام عدل کی بنیاد کب اور کس نے ڈالی اور ابتدائی دور کا نظامِ عدل کیسا تھا؟ اس بارے میں واضح بات یہی ہے کہ پہلے انسان حضرت آدم کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا سلسلہ شرو ع کردیا اور انسان نے جب سے معاشرتی زندگی کا آغاز کیا، اسی دن سے انصاف کے اُصولوں کو اپنانے کی کوشش شروع کردی۔


پہلا جھگڑاحضرت آدمؑ کے دوبیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوا تھا، ایک نے دوسرے کو قتل کرکے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انبیاے کرام ؑ کی لائی ہوئی وحی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بے پروائی اور اللہ کے نظام سے انکار بھی ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے چنانچہ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ عدل کا باضابطہ نظام آہستہ آہستہ معاشروں میں ترقی حاصل کرتا رہا۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ
''قدیم زمانے میں انسان اپنے نزاع کا تصفیہ ذاتی طاقت اور قوت کے استعمال سے کرتا تھا۔ اور ذاتی انتقامی کاروائی انصاف کے خلاف استعمال ہوتی تھی۔'' 36


''ابتدائی زمانہ میں جب انسان کی طرزِ معاشرت وحشیانہ تھی اور منظم ومنضبط حکومتوں کا قیام نہیں ہوا تھا، ستم رسیدہ اور متضرراشخاص اپنا انتقام آپ لیا کرتے تھے اور اگر ایک شخص کی دوسرا حق تلفی کرتا تو دوسرا اپنے حق کو بچانے کے لیے جنگ وجدل اور دھینگا مشتی سے اپنی آپ مدد کرتا تھا۔بعض وقت ضرررسیدہ کے قرابت دار اور احباب بھی اس کے دشمنوں سے انتقام لینے میں اس کے شریک ہوجاتے تھے۔'' 37
ایک زمانے میں مظلوم اپنی مدد آپ کرسکتا تھا، پھر وہ دور آیا کہ اس حق پر کچھ پابندیاں عائد کر دی گئیں ۔ پھر زمانہ بدلا اور حق لینے کے لیے صاحب ِرسوخ کی زیر نگرانی ڈوؤل (Dual)لڑنے کا رواج متعارف ہوا۔ پھر وہ وقت آیا کہ تنازعات کو ثالثوں اور پنچائتوں کے سپرد کرنے کا رواج چل نکلا۔ لیکن جب سلطنتیں مضبوط اور مستحکم ہوگئیں تو اُنہوں نے باقاعدہ عدالتیں قائم کردیں جو انصا ف کرنے کے معاملے میں فرمانروا کی نمائندہ قرار دی گئیں اور اس طرح نظامِ معدلت وجود میں آگیا۔


تاریخ کے مطالعے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ نظامِ عدل کا قیام حکومتوں اور سلطنتوں کی مضبوط مستحکم قوت کی بنا پر معرضِ وجود میں آیا۔ نظامِ معدلت کو قائم کرنے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ تمام اربابِ خیرفطری طور پر اپنے معاملات ایسے رہبر کے سپرد کردینا چاہتے ہیں جو اُنہیں ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکے اور مخاصمت باہمی میں ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ اگر ذی اقتدار اَفراد نہ ہوں تو عالم میں شخصی انار کی پھیل جائے اور تہذیب ِ اجتماع کا شیرازہ بکھر جائے۔ 38
اسی رہبر اور حاکم کی طرف قرآنِ مجید میں اشارہ فرمایا گیا:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ ۚ  ...﴿٥٩﴾...سورة النساء 39
''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے حکمرانوں کی۔ پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اُٹھے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رجوع کرو، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ۔''


جیسے جیسے تہذیب نے ترقی کی، عدل کی ضرورت بھی بڑھتی گئی اور دنیا کے نظامِ عدل میں ترقی اور جدتیں بھی پیدا ہوتی گئیں اور آج ہمارے سامنے دنیا بھر میں جو نظامِ عدل قیام فرماہے، وہ جہاں تہذیب کے تمام تر تجربات کا نچوڑ ہے، وہاں اللہ کے دیے ہوئے نظام عدل سے بھی اس میں بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ بہر حال اسلام کی رو سے تو کسی بھی نظام عدل کی اساس اللہ تعالیٰ کی محکم شریعت ہی ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اس الہامی اساس کو چھوڑ کر جو بھی نظا م عدل آج تک متعارف کرایا گیا ہے، وہ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود انسان کو مطلوبہ امن وانصاف فراہم کرنے سے عاجز رہا ہے۔ اور یہ سوال آج بھی نمایاں طورپر موجود ہے کہ اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی دنیا کا نظام عدل کیا مہذب کہلانے کا مستحق ہے اور کیا اس سے انسانیت امن وآشتی کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکے گی؟

اسلامی عدل وانصاف کا اِرتقا
اسلام میں سب سے پہلے قاضی خود رسول اللہ تھے جنہوں نے عدل کا بول بالا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عدالتی طریق کار کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا عہد ِقضا آتا ہے، ان کا معمول یہ تھا کہ
''اگر کتاب وسنت سے کوئی نظیر نہیں ملتی تھی تو وہ باہر تشریف لے جاتے اور مسلمانوں سے کہتے کہ میرے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے، کیا تم جانتے ہو؟''وہ اس کے بارے میں جو بات کہتے ان سے مشورہ کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں فیصلہ کرتے۔ '' 40
سیدنا ابوبکرؓ کے عہد میں عدلیہ اور انتظامیہ کو 'شریعت کی حکمرانی'کا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔


عہد ِفاورقی ؓ
حضرت عمرؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ والا اُصول اپنایا کہ پہلے قرآن وسنت سے مسئلے کا فیصلہ ڈھونڈتے تھے۔ اس کے بعد دیکھتے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے؟ اگر معلوم ہوجاتا تو حضرت ابوبکرؓ کے فیصلہ کو نافذ کردیتے ، ورنہ وہ بھی اہل حل وعقد کو جمع کرتے اور باہمی مشاورت سے جو فیصلہ ہوتا، اس کو نافذ کردیا جاتا۔
قواعد ِعدالت کے متعلق حضرت عمر ؓ کی ایک تحریرکتب تاریخ میں محفوظ ہے جو یوں ہے:
''خدا کی تعریف کے بعد قضا ایک ضروری فرض ہے۔ لوگوں کو اپنے سامنے اپنی مجلس میں اپنے انصاف میں برابر رکھو تاکہ کمزور انصاف کے حصول میں مایوس نہ ہواور تمہاری رعایت کی اُمید نہ پیدا ہو۔ جو شخص دعویٰ کرے، اس پر بارِ ثبوت ہے اور جوشخص منکر ہوا س پر قسم صلح جائز ہے بشرطیکہ اس سے حرام حلال اور حلال حرام نہ ہوجائے۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کرسکتے ہو۔ جس مسئلے میں شبہ ہو اور قرآن وحدیث میں اس کا ذکر نہ ہو تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر غور کرو۔ پھر قیاس کا رستہ اپناؤ۔ جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے تو اس کے لیے ایک میعاد مقرر کرو، اگر وہ ثبوت دے تو اس کا حق دلاؤ، ورنہ مقدمہ خارج کردو۔ مسلمان سب ثقہ ہیں ، سواے اُن اشخاص کے جن کو حد کی سزا میں درّے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہے، یا وِلاء اور وراثت میں مشکوک ہوں ۔'' 41
حضرت عمرؓ کے دورمیں قاضی(جج) کا تقرر ایک مستقل ادارے کی صورت اختیار کرگیا تھا اس کو دیگر خلفاے راشدین نے بھی جاری رکھا۔ اس نظام میں عامل کو قاضی کے ماتحت رکھا گیا تھا تاکہ وہ اس کے اثر سے آزاد ہو کر عدل کرسکے۔ قاضی کو تمام بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ ہر صوبے میں قاضی کا تقرر ہوتا تھا۔ صوبائی گورنر کو قاضی کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہر ضلع میں چھوٹے قاضی بھی موجود تھے۔ حضرت عمرؓ کے دورمیں قاضیوں کو تنخواہیں دی جانے لگیں تاکہ وہ اپنی زندگی بآسانی گزارسکیں اور لالچ میں مبتلا نہ ہوں ۔ٍ 42

دورِ عثمانؓ بن عفان
حضرت عثمانؓ ایک نرم دل خلیفہ تھے۔ حضرت عمرؓ نے عدل گستری سے متعلق جو اوصاف ضوابط طے کیے، وہ ان کے زمانے میں بھی بحال رہے۔ ان کے زمانے میں ایک عمارت 'دارالقضاء' کے نام سے بنائی گئی جس میں عدل سے متعلق معاملات انجام دیے جاتے تھے۔َ 43

سیدنا علی ؓ کا دور
عدلیہ کی جو حیثیت اور شان ووقعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور پھر تینوں خلفائے راشدین کے عہد میں تھی، وہ حضرت علیؓ کے عہد میں بھی باقی رہی۔ قضا کے باب میں سیدناعلی اپنی مثال میں یکتا تھے۔ سراجِ نبوت سے ہر صحابیؓ نے کسب ِفیض کیا اور سب کے الگ الگ رنگ ہیں ۔ حضرت مرتضیٰ ؓ کو اللہ نے کارِ قضا میں ممتاز بنایا اور زبانِ رسالتؐ سے (أقضاھم علي) کا اعزاز اُنہیں ملا۔کتنی گتھیوں کو اُن کی ذہانت نے سلجھایا۔ سیدناعلی ؓ کاقاضی شریح رحمة اللہ علیہ کی عدالت میں حاضرہوکر ایک یہودی کے خلاف انصاف چاہنا اور قاضی شریح کا امیر المومنین کے خلاف ایک یہودی کے حق میں فیصلہ دینا اسلامی تاریخ کا معروف واقعہ ہے۔44
حضرت علیؓ نے اپنے دورِخلافت میں نظام عدل کو بھی بہت ترقی دی اور ان کے فیصلے اسلامی نظامِ عدل میں اعلیٰ نظیر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ گواہی دینے سے متعلق آپ ؓ نے جو فیصلے کیے ہیں ،ان میں جھوٹی گواہی دینے پر شہر بھر میں تشہیر کرنے کے بعد قید کی سزا اوریہ بھی کہ کسی قضیہ کا فیصلہ ایک گواہ پر بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی چار عادل گواہ اگر خودمتہم ہوں تو ان چاروں پر حد لگے گی۔ اُنہوں نے نکاح میں عورتوں کی گواہی جائز قرار دی، لیکن طلاق میں نہیں ۔ ان کے مطابق دشمن کی گواہی کو تسلیم نہیں کیا۔
حضرت علیؓ نے عہدئہ خلافت کے ساتھ ساتھ عہدئہ قضا کو بھی بخوبی انجام دیا۔ ان کے فیصلے تاریخ میں روشن مثالیں ہیں ۔

اُموی اور عباسی عہد میں نظامِ عدل
ابتدا میں خلفاے راشدین اور ان کے تعینات کیے ہوئے صوبائی امیر انتظامی اُمور کے ساتھ ساتھ قاضیوں کے فرائض خود سرانجام دیتے تھے، مگر رفتہ رفتہ ہر صوبے اور ہر شہر میں عامل کے علاوہ قاضی کا تقرر ہونے لگا۔ بنو اُمیہ کے دور میں بھی کم وبیش خلفاے راشدین کے دور کی طرح ہی نظامِ عدل قائم رہا، بعد میں چند تبدیلیاں بھی آئیں ۔ ڈاکٹر حمید الدین کے بقول:
''قاضیوں کے فیصلے اسلامی شریعت کی رو سے قرار پاتے۔ اگر کوئی تنازعہ اس نوعیت کا ہوتا جس کے بارے میں قرآن اور حدیث کوئی قطعی فیصلہ نہ دیتے ہوں تو ایسے معاملات کے فیصلے قاضی اپنے اجتہاد اور علما کے مشوروں سے کرتے تھے۔ اُنہیں صرف مسلمانوں کے مقدمات سننے کا حق حاصل تھا، غیرمسلموں کے لیے علیحدہ جج اور پیشوا مقرر ہوتے تھے۔ جو اُن کے لیے اپنے مذہب اور رواج کے مطابق فیصلے کرتے۔'' 45
وہ مزید لکھتے ہیں :
''قاضیوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں تاکہ وہ رشوت یا خیانت کی طرف مائل نہ ہوسکیں ۔ انصاف کے علاوہ اوقاف کے مال کی نگرانی بھی قاضیوں کے فرائض میں شامل تھی۔ بنی اُمیہ کے عہد میں عدلیہ، خلافت ِراشدہ ہی کی طرح انتظامیہ سے آزاد رہی اور اس محکمہ کو صیغہ قضا کہتے تھے۔ مرکز کے علاوہ ہر صوبہ اور ہر ضلع میں عدالت قائم تھی جہاں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے ہوا کرتے تھے۔ '' 46
بنواُمیہ کے زمانہ کی دوامتیازی خصوصیات ہیں ۔ جن میں پہلی یہ تھی کہ اس دورمیں قاضی عام طور پر اجتہاد سے کام لیتے تھے اور کسی مخصوص شخص کی تقلید نہیں کرتے تھے،ایسے ہی اُنہیں کتاب وسنت کی روشنی میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینے کی پوری آزادی تھی۔


دوسری خصوصیت یہ تھی کہ
''عدالت کا محکمہ اپنے اختیارات وفرائض میں اُموی فرمانرواؤں کے اثر سے بالکل آزاد تھا۔ ان کے ذاتی رجحانات کا ان پر کوئی اثر نہ تھا۔ اس زمانے میں عدالت کے فیصلے گورنروں اور خراج کے افسروں تک بلارو و رعایت نافذ کیے جاتے تھے۔ عہد اُموی میں قاضی کے انتخاب کے لیے ضروری تھا کہ وہ بلند سیرت، پاکباز، پرہیزگار، عالم، مجتہد اور عیوب سے مبرا ہو۔ اور عدل وانصاف کے مقابلے میں اس کودنیا کی کسی طاقت کی کوئی پرواہ نہ ہو۔'' 47
عہد ِعباسی میں بنو اُمیہ کی ہی طرح قاضیوں کے اختیارات تھے۔قاضی القضاة (چیف جسٹس) کے رعب داب اور عزت ومرتبہ کا یہ عالم تھاکہ اُمرا، وزرا بلکہ خلیفہ تک کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ اس کے فیصلوں سے سرتابی کرسکے۔ غیرمسلوں کے دیوانی مقدمات ان کے اپنے مذہبی پیشوا سنتے۔ فوجداری کی صورت میں بلاتمیز رنگ ونسل، جنس و قوم،زبان، مذہب وملت،سبھی کو حکومت کے مقرر کردہ منصفوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا،حتیٰ کہ خلیفہ بھی کسی قسم کے ترجیحی سلوک کا نہ تو حق دار ہوتا اور نہ ہی مطالبہ کرسکتا تھا۔عہد ِبنی عباس میں عدالتی نظام میں زبردست انقلاب آیا اور اس میں کئی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں ۔
''اس دور میں عراق کے قاضی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مذہب کے مطابق شام اور بلا دِمغرب کے قاضی امام مالک رحمة اللہ علیہ کے مذہب کے مطابق اور مصر کے قاضی امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے مذہب کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ اگر مدعی، مدعاعلیہ ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہوتے جو عام طور پر اس شہر میں رائج نہ ہوتا تو اس وقت ان کے مقدمے کے فیصلے کے لیے قاضی کسی ایسے شخص کو نائب بنادیتا جو اُنہی کے مذہب کا پیرو کار ہوتا تھا۔'' 48
آہستہ آہستہ اس نظام کو زوال آگیا۔عباسی دورِ انحطاط میں عدالت کا محکمہ سیاسی اثر سے آزاد نہ تھا۔

اندلس میں عدلیہ
مسلم اسپین میں حکومت کاہر محکمہ منظم طور پر قائم تھا اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسپین علوم وفنون کا گہوارہ تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اسپین میں عدلیہ کے ادارے بھی مضبوط بنیادوں پر قائم کیے تھے۔مسلم اسپین میں سب سے بڑا اور مقدس عہدہ قضا کا ہوتا تھا۔ قاضی دیوانی اور قاضی فوجداری جدا جدا ہوتے تھے۔ ان کا اجلاس عام طور پر مسجد کے دروازے پر ہوتا تھا۔ آئی ایچ برنی نے لکھا ہے:
''صرف یہی ایک عہدہ دار تھا جو تمام سلطنت میں سب سے زیادہ بااختیار ہوتا تھا اور خلیفہ تک کو اس کے فیصلے ردّ کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ اسپین کا نظام عدالت اس زمانہ کے عجائبات میں سے تھا۔ پہلے قواعد بنائے جاتے تھے، پھر ان کو دارالسلطنت اور سرحدی علاقوں میں نافذ کرکے ان کا تجربہ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ سلطنت میں نافذ کیے جاتے تھے، مقدمات کے فیصلے میں قطعاً دیر نہ کی جاتی تھی اور کسی سفارش یا حمایت کو فیصلے پر اثر انداز نہ ہونے دیا جاتا تھا۔ جتنے فیصلے ہوتے، وہ نہایت ہوش مندی اور انصاف پر مبنی ہوتے تھے''۔ 49

سلطنت ِدہلی میں نظامِ عدل
ہندوستان میں جب مسلمان آئے تو یہاں بھی عام طور پر وہی اسلامی قانون ان کا رہنما تھا، لیکن ہندوؤں کا تمدن چونکہ بہت قدیم اور اس ملک میں متعارف تھا، اس لیے دھرم شاستر کے احکام اور دیگر معتقدات ورواجات کا بھی خاص احترام کیا جاتا تھا۔ 50


فتح سندھ کے تقریباً تین صدی بعد غزنویوں نے پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ غزنویوں نے سندھ کی عرب حکومت کی طرح دیوانی معاملات میں خود ہندوؤں کی پنچائتوں سے کام لیا۔ اور ہندوپنڈتوں کو فصلِ خصومات کا اختیار دیا جبکہ مسلمانوں کے معاملات قاضیوں سے متعلق رہے۔ نظامِ عدل کے دوسرے معاملات میں غزنویوں نے عباسیوں کی کہیں براہِ راست اور کہیں بالواسطہ پیروی کی۔


اسلامی ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی عدالتی عہدیداروں پر بڑی کڑی اور بھاری ذمہ داری عائد تھی اور قاضیوں کو خلافِ شرع فیصلہ کرنے پر موت کی سزا دی جاتی تھی۔سلطان بحیثیت قانون کو نفاذ کرنیوالا اور سربراہِ مملکت تین طرح کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
''اپنی پہلی حیثیت میں وہ 'دیوانِ قضا' کے ذریعے انصاف پروری کرتا تھا۔ دوسری حیثیت میں 'دیوانِ مظالم' کے ذریعے اور تیسری حیثیت میں وہ خود یا اس کے اعلیٰ فوجی عہدے دار فوجی عادل کی حیثیت سے باغیوں کے مقدمات سنتے تھے۔'' 51
عہد ِسلاطین میں سب مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے طور پر عدل قائم کرنے کی کوشش کی۔ انہی میں سے سلطان التمش بھی اپنے عدل وانصاف میں مشہور تھا۔ غرض وہ سلاطینِ دہلی ہوں یا مغل حکمران، ہر کسی نے اپنے طور پر عدلیہ کے مضبوط ادارے قائم کیے اور عدلیہ کو دیگر اداروں پر فوقیت دی۔


انصاف ہمیشہ مسلمان بادشاہوں کا شعار رہا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر نے تخت نشینی کے بعد پہلا حکم جو دیا وہ 'زنجیر عدل' باندھنے کا تھا تاکہ مظلوموں اور ستم رسیدوں کی داد خواہی وانصاف رسانی میں اگر عہدیدارانِ عدالت کو تاہی وغفلت کریں تو مظلوم خود اس زنجیر کے پاس پہنچ کر اسے ہلادے۔52 یہ زنجیر مظلوم کی دسترس میں تھی اور اس کو ہاتھ لگتے ہی گھنٹیاں بجتیں جن کی آواز بادشاہ تک پہنچتی اور فوراًمظلوم کی داد رسی کی جاتی۔
عالمگیر نے تمام اُمرا، وزرا اور سرداروں کے مقابلے میں قاضیوں اور عالموں کا مرتبہ اس قدر بڑھا دیا اور اُنہیں اس قدر اختیارات دے دیئے کہ سلطنت کے بڑے بڑے ارکان ان سے رشک وحسد کرنے لگے۔
عالمگیر کی دین داری، رعیت پروری اور عدل گستری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اس نے تمام سلطنت ِمغلیہ میں یہ اعلان کردیا کہ جس کسی کو بادشاہ کے خلاف کوئی شکایت یا شرعی دعویٰ ہو، وہ بادشاہی وکیل سے رجوع کرکے اپنا معاملہ صاف کرے۔ اس کے علاوہ جو لوگ کسی مجبوری کے سبب دارالحکومت میں پہنچنے سے معذور تھے، ان کی سہولت کے لیے شہری وکیل مقرر کر دئیے گئے۔ 53


غیرجانبداری:مغلیہ دور میں عدل وانصاف کرنے میں غیرجانبداری سے کام لیا جاتا۔ نظریاتی حوالوں اور شاہانِ مغلیہ کے اقوال کے علاوہ بھی کئی مؤرخین نے کہا ہے کہ مغل حکمران غیر جانبداری سے انصاف کرتے تھے۔یہاں تک کہ بلارو ورعایت عدل گستری کے فرائض انجام دئیے۔ اکبر کے ایک منظورِ نظر گورنر (خان اعظم مرزا عزیز)کے ایک مقدمے میں عام عدالت نے فیصلہ کیا اور گورنر کو ایک کثیر رقم بطورِ خون بہا ادا کرنی پڑی۔ عدالت میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روانہ رکھا جاتاتھا اور امیر غریب سب کے ساتھ مساوی سلوک ہوتا تھا۔
برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی حکومت صدیوں تک قائم رہی اور ابتداے عہد سے انگریزی حکومت کے قائم ہونے تک مسلمان فرمانرواؤں کا نظامِ عدل کا ر فرما رہا۔ ملکی نظم ونسق کے ساتھ عدل وانصاف کا محکمہ خاص توجہ کا مرکز تھا اور ان کے عدل وانصاف کے بعض واقعات اب بھی زبان زدِخاص و عام ہیں ۔


الغرض مسلم دور حکومت میں اسلامی شریعت کے اَحکام کااطلاق ہوتاتھا اور خلیفہ ریاست کا سربراہ ہونے کے باوجود کسی قسم کے ترجیحی سلوک کا نہ تو حق دار ہوتا اور نہ ہی مطالبہ کرسکتا تھا۔بلکہ اکثر اوقات خلیفہ وقت کو قاضی کی عدالت میں حاضر ہوکر کسی معاملے میں صفائی پیش کرنا پڑتی تھی اور صرف عادل اور نیک لوگوں کی شہادت قبول کی جاتی تھی۔ (جاری ہے)


 حوالہ جات

1. ابن منظور، ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم،لسان العرب(دارِ صادر،بیروت) 43011
2. صدیقی، محمد عبدالحفیظ، برصغیر پاک وہند میں اسلامی نظامِ عدل(ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد)ص9
3. (i) Edward William Lane, An Arabic English Lexicon, 1/1972
(ii) Hans Wehr A Dictionary of Modern Written Arabic, p.596
4. دکتور إبراهیم ورفقائه، المعجم الوسیط(مکتبہ علمیہ ،تہران)2،5881
5. المائدة:95
6. ابوالفضل،جمال الدین احمد بن مکرم ،لسان العرب(دارِ صادر،بیروت) 839
7. الأزہری، ابومنصور بن احمد، معجم تهذیب اللغة: 23583؛الجوہری ،الصحاح(دارالکتب العربی، مصر) 14364
8. البقرة:48
9. کتاب العین، 609؛ الجوہری،الصحاح، 14364؛ رازی، ابوبکر،مختار الصحاح(مطبعہ امیریہ بولاق) 251
10. راغب اصفہانی،مفردات القرآن(مکتبة مرتضویة لإحیاء الآثارالجعفریة)325؛ معجم تہذیب اللغہ:23583
11. Charles Smith, Twentieth Century Encyclopaedia,4/173
12. Cecil Roth, The Standard Jewish Encyclopedia,1084.
13. اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ(شعبہ اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ،پنجاب یونیورسٹی لاہور)413
14. ابن تیمیہ،شیخ الاسلام ، السیاسة الشرعیة(جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ)ص7
15. صالح بن عبداللہ وعبدالرحمن،نضرة النعیم(دارالوسیلہ،سعودی عرب) عنوان: العدل والمساوات: 27927
16. رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب:10520
17. مقالاتِ سیرت،حصہ اوّل(نویں قومی سیرت کانفرنس،وزارتِ اُمور مذہبی حکومت پاکستان،اسلام آباد) پروفیسر عبداللطیف انصاری،اسلام کے قانونی نظام کے بنیادی اُصول،ص101
18. الشوریٰ:15
19. النساء:58
20. المائدة:8
21. ایضاً:42
22. الاعراف:29
23. ابوداؤد،السنن(دارالسلام،الریاض1998ء)ص235،حدیث نمبر1588
24. الفرقان:60
25. بخاری،جامع صحیح(دارالسلام،الریاض1998ء)ص835،حدیث 4765
26. ایضاً،ص442،حدیث نمبر 2707
27. خطیب تبریزی، مشکوة المصابیح(مکتبہ تجاریہ ،دارالفکر،بیروت1991ء)3422،حدیث نمبر3718
28. یوسف:40
29. النجم:3
30. ترمذی،السنن(مصطفی البابی الحلبی،مصر،1954ء) کتاب البر، باب ماجاء في المزاح،3514
31. أیضاً،کتاب الحج،باب ماجاء کم فرض الحج،3/178
32. النساء: 59
33. آلوسی، تفسیر روح المعانی(ادارہ طباعہ منیریہ، قاہرہ) 675
34. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم(مکتبہ مالکیہ، مصر) 4201
35. البقرة:188
36. رضوی ،اظہار حیدر:'اصولِ قانون'، ( مکتبہ فریدی اُردو کالج،کراچی ) ص112
37. سالمنڈ، 'اصولِ قانون'(دارالطبع عثمانیہ،حیدرآباد دکن،1925ء)ص91
38. الماوردی:''الأحکام السلطانیة''(ترجمہ سید محمد ابراہیم مطبع جامعہ عثمانیہ ،حیدرآباد دکن، اشاعت 1931ء)ص11
39. النساء:59
40. جعفری، رئیس احمد:'سیاست شرعیہ'(ادارئہ ثقافت اسلامیہ،پاکستان،لاہور،پہلاایڈیشن1959ء، ص127،128
41. شبلی نعمانی، الفاروق سوانح عمری حضرت عمرص(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور )ص220
42. راشدہ شعیب،اسلامی نظام حکومت( بک پروموٹرز، اسلام آباد،طبع اول1995ء)ص188
43. محمد، حمید اللہ،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمرانی،(مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد دکن،باردوم1949ء)،ص35
44. محمد، حمید اللہ،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمرانی،(مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد دکن،باردوم1949ء)،ص35
45. حمید الدین،ڈاکٹر ،تاریخ اسلامی(فیروزسنز لمیٹڈ،کراچی،ایڈیشن ہشتم)ص276۔
46. ایضاً
47. حسن ابراہیم، مسلمانوں کا نظم مملکت،مترجم علیم اللہ صدیقی(دارالاشاعت،فریدی بک سنٹر،کراچی)ص282
48. حسن ابراہیم،مسلمانوں کا نظم مملکت،ص282
49. برنی،ائی ایچ،مسلم اسپین وثقافتی تاریخ(کفایت اکیڈمی،کراچی)ص546
50. خان، میرباسط علی،تاریخ عدالت آصفی،ص21
51. قریشی، اشتیاق حسین، سلطنت ِدہلی کا نظم حکومت،ترجمہ ہلال احمد زبیری(شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ،جامعہ کراچی)طبع اوّل،ص158
52. خان، میرباسط علی،تاریخ عدالت آصفی،ص20
53. ایضاً،ص505