چونکہ لوگوں کے ما بین لین دین کے تمام معاملات میں مرکز و محور زَر ہی ہوتاہے، اس لئے ہر معاشی نظام میں زر اور اس کے متعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زَر کی اس اہمیت کے پیش نظر علماے اسلام نے بھی اپنی تحریری کاوشوں میں اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسلام کے قرونِ اُولیٰ میں قانونی زر سونے،چاندی کے سکوں (دنانیر و دراہم) کی شکل میں ہوتاتھا مگر دورِ حاضر میں تمام ممالک کے مالیاتی نظام کی اساس کاغذی کرنسی ہے، سونے چاندی کے سکے پوری دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہو تے۔ اسلامی نقطہ نظر سے مزید مطالعہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی معاشرہ کے معاشی اور مالی معاملات مناسب اُصول و ضوابط کے پابند نہ ہو ں ، تب تک اس معاشرہ کی منصفانہ تشکیل ممکن نہیں ۔ اسلام چونکہ منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کا داعی ہے، اس لیے اسلام نے لین دین اور تجارتی تعلقات کے متعلق نہایت عمدہ اور جامع اُصول عطا کئے ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنی معیشت کوصحت مند بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں ۔معیشت و تجارت کے حوالہ سے دین اسلام کا ایک نمایاں وصف ہے کہ یہ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی طرح لوگوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے اور نہ ہی آ ہنی مزید مطالعہ
بعض اسلامی بینکوں میں تمویلی سرگر میو ں کے لئے بیع سلم کا استعمال بھی جاری ہے۔ سَلَم ایک معروف شرعی اصطلاح ہے جس سے مراد لین دین اور خرید وفروخت کی وہ قسم ہے جس میں ایک شخص یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ وہ مستقبل کی فلاں تاریخ پر خریدار کو ان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرے گا ۔شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :وَالسَّلَمُ شَرْعًا بَیْعٌ مَوْصُوْفٌ فِي الذِّمَّة1''سلم کا شرعی معنی : ایسی چیز بیچنے کی ذمہ داری اُٹھانا ہے جس کی صفات بیان کر دی گئی ہوں ۔''اس کو سَلَف بھی کہتے ہیں کیو مزید مطالعہ
کچھ عرصہ سے بعض مالیاتی ادارے اسلامی بینکوں کی طرز پر سود ، غرراور قمار پر مشتمل انشورنس کا متبادل نظام بڑے زور وشور سے متعارف کرا رہے ہیں جس کو 'تکافل' کا نام دیا گیا ہے۔ جو ادارہ اس کا انتظام وانصرام کر تا ہے، اس کو تکافل کمپنی کہا جا تا ہے جیسے 'پاک کویت جنرل تکافل کمپنی' یا 'پاک قطر فیملی تکافل کمپنی' وغیرہ۔ ان کمپنیوں کے بقول یہ نظام چونکہ ہر لحاظ سے شرعی اُصولوں کے عین مطابق ہے، اسلئے اس کو 'اسلامی انشورنس' بھی کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس کام سے ان اداروں کی غرض نفع کمانا ہے، اس لیے ہم اس کو ' مزید مطالعہ
قیمت کے متعلق ہدایاتیہ بات تو مسلم ہے کہ بیع اسی صورت میں منعقد ہوگی جب مشتری فروخت کنندہ کو بدلے میں کوئی قیمت ا داکرے گا، اس کے بغیر بیع وجود میں نہیں آسکتی تاہم شریعت ِ مطہرہ نے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کے متعلق بھی ہماری مکمل رہنمائی کی ہے۔1.اس سلسلہ میں پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ معاوضہ کرنسی کی شکل میں ہوناضروری نہیں بلکہ ہر اس چیز کی بنیاد پر لین دین ہو سکتاہے جو شریعت کی رو سے جائز اور معاشرہ میں بطورِ معاوضہ قبول کی جاتی ہو۔ جو چیزیں شرعاً جائز نہ ہوں جیسے شراب، مردار اور خن مزید مطالعہ
5.عیب نہ چھپائیںدین اسلام خیر خواہی کا دین ہے، اس لیے مسلمان تاجر پر لازم ہے کہ لین دین کے وقت سچائی سے کام لے اور خریدار پر حقیقت ِحال واضح کرے،مال کے نقص کو نہ چھپائے اور ملاوٹ، مکر وفریب،جھوٹ اوردھوکہ دہی سے مکمل اجتناب کرے۔یہ سوچ نہ رکھے کہ سچ بولنے سے منافع میں کمی واقع ہو گی کیونکہ سچ بولنے سے اللہ تعالیٰ تھوڑے منافع میں بھی برکت ڈال دیتا ہے جبکہ جھوٹ سے حاصل کیا ہوا زیادہ منافع بھی بے برکت ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ کا ارشادِگرامی ہے :«فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَهُمَا فِی ب مزید مطالعہ
( لین دین میں اختیار کا مسئلہ؛ اسلامی شریعت اور سرمایہ داریت کی نظر میں)بیع میں خیار( Option)کی صورتیںبعض اوقات انسان غور وفکر کے بغیر بیع کر لیتا ہے مگر اسے جلد ہی یہ احساس ہو جاتاہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی،یا اسے کسی ماہر سے مشورہ کرنے اور چیز کی جانچ پڑتال کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، یا بیع کی شرائط پوری نہ ہونے،یا چیزاورقیمت کے متعلق مکمل معلومات نہ ہونے، یادھوکے اور فراڈکی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑتاہے،اسلامی شریعت نے اس کا حل قانونِ خیار کی شکل میں متعارف کرایا ہے ۔خیار کا معنی ہے :'' خرید وفروخت مزید مطالعہ
﴿وَإِنَّ كَثيرًا مِنَ الخُلَطاءِ لَيَبغى بَعضُهُم عَلىٰ بَعضٍ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَقَليلٌ ما هُم...٢٤﴾... سورة ص''اور اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان دار ہوں اور نیک عمل کرتے ہوں اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔''یہ امر واضح ہے کہ روپے پیسے میں اضافہ کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے اسے کسی کاروبار میں لگانا ضروری ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ موجود ہو اور وہ اسے کسی کاروبار میں نہ لگائے تو وہ دس سال کے بعد بھی دس لاکھ ہی رہے گا ،اس ک مزید مطالعہ
۱۴؍ نومبر ۱۹۹۱ء کو پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ نے ہر قسم کے سودی کاروبار کو حرام قرار دےکر ملکی معیشت کو اس سے جلد پاک کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ءکو سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی اس کی توثیق کی تھی لیکن ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو سپریم کورٹ نےUBLکی نظر ثانی کی اپیل پر اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اسے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ میں بھیج دیا گیا جہاں اب اس کیس کا از سر نو جائزہ 1لیاجارہاہے۔یہ مضمون اسی تناظر میں لکھا گیا ہے ۔حرمتِ سودسودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر مزید مطالعہ
پس منظر اور تعارفالحمدالله رب العالمين والصلوة والسلام على سيدالمرسلين وعلى اله واصحابه اجمعين امابعد-یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کہ جو قوم اللہ کے د ین کی سربلندی اور کفر کے انسداد کے لئے سر بکف ہوجاتی ہے۔اس قوم کی اللہ تبارک وتعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ اگرچہ تمام باطل قوتیں اس قوم اور جماعت کو دنیا سے مٹانے کے لئے متحد ہوجائیں اس پُر خلوص اور کفن بردوش قوم کو شکست نہیں دے سکتیں۔ہاں اس قوم کو بظاہر جب بھی کسی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ یا تو اس وجہ سے کہ انہی کا لبادہ اوڑھنے والے لوگ انہیں دھوکہ مزید مطالعہ