نومبر 2009ء

پروفیسر عبد الجبار شاکر کا سانحۂ ارتحال

پچھلے سال مجلس احرار کی آخری نشانی مولانا مجاہد الحسینی نے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی اپنی تازہ تالیف کی تقریب ِرونمائی یہاں ایک ہوٹل میں منعقد کی جس کے مہمانِ خصوصی ہمارے فاضل دوست پروفیسر عبد الجبار شاکر تھے۔ اس خوبصورت تقریب میں ہر طبقہ زندگی سے اہل علم اور ممتاز حضرات مدعو تھے۔ پروفیسر صاحب تشریف لائے اور سیرت پر اپنے مخصوص اُسلوبِ خطابت سے حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ ان کے حکمت ودانش بھرے جملے آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک کامل ومکمل معلم کے لئے ذیل کے معیاروں پر اُترنا ضروری ہے :
اس کی زندگی کا کوئی پہلو پردہ میں نہ ہو۔
اس کی ہر زبانی تعلیم کے مطابق اس کی عملی مثال بھی سامنے ہو۔
اس کی اخلاقی زندگی میں یہ جامعیت ہو کہ وہ انسانوں کے ہر کار آمد گروہ کے لئے اپنے اندر اِتباع وپیروی کا سامان رکھتی ہو۔
 
اُنہوں نے کہا کہ تنقید کے ان معیاروں پر اگر ہم سارے انبیاء اور مذاہب کے بانیوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کسی کی زندگی بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے برابر جامع کمالات نہیں، کوئی پیغمبر یا بانی مذہب ایسا نہیں ہے جس کی زندگی کا ہر پہلو اس طرح ہمارے سامنے بے نقاب ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔
 
حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک توراة کے ایک ایک پیغمبر پر نگاہ ڈالتے جائو، ان کی معصوم زندگی کے حالات کی کتنی سطریں تمہارے سامنے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تینتیس ۳۳ برس کی زندگی میں سے صرف تین برس کا حال ہم کو معلوم ہے۔ ان تین برسوں کے حالات میں سے بھی معجزات و خوارق کے سوا کوئی اور حال بہت کم معلوم ہے۔ان انبیا کے علاوہ ہندوستان، ایران اور چین کے بانیانِ مذاہب کی اخلاقی زندگیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے لئے دنیا میں کوئی سامان ہی موجود نہیں کیونکہ ان کی اخلاقی زندگی کے ہر پہلو پر ناواقفیت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ صرف اور صرف اسلام ہی کے ایک معلم کی زندگی ایسی ہے جس کا حرف حرف دنیا میں محفوظ اور سب کو معلوم ہے اور بقول باسورتھ سمتھ کے کہ ''یہاں (سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ) پورے دن کی روشنی ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے۔''
 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کہ میرے ہر قول اور عمل کو ایک دوسرے تک پہنچاؤ۔ محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو، اس کو جلوت میں برملا بیان کرو۔ جو حجرہ میں کہتے سنو، اس کو چھتوں پر چڑھ کر پکارو: (ألا فلیبلِّغ الشاهد الغائب) غرض یہ کہ پروفیسر صاحب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت وعظمت پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے چلے جا رہے تھے۔ تقریب کے اختتام پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایااور کچھ دیر گفتگو اورگپ شپ رہی لیکن کیا معلوم تھا کہ یہ نشست ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی۔
 
پروفیسر صاحب نے بارہا فیصل آباد میں علمی و ادبی محفلوں سے خطاب کیا جن میں سے زیادہ تر ان سطور کے راقم کی درخواست و فرمائش پر وہ تشریف لائے۔ مدتِ مدید سے ان سے شناسائی اب خاصی دوستی میں تبدیل ہو چکی تھی، فرمایا کرتے کہ مصروفیات کے باوجود میں آپ کو انکار نہیں کر سکتا کیونکہ آپ ہمارے اکابر کی روایات کے امین ہیں۔
 
پروفیسر صاحب بفضلہ جدید وقدیم علوم کے ماہر اور ایک مفکر ومدبر کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے۔ عصر حاضر کے تقاضوں اور نت نئے مسائل کا حل وہ قرآن وسنت کی صافی تعلیمات سے واضح فرماتے۔ علومِ قرآنیہ اور سنت و سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا گہرا مطالعہ تھا جو ان کی تحریروں، علمی کتب پر تقریظات اور حاشیوں سے نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے منفرد لہجہ اور طلسماتی مسکراہٹ و خطابت سے سامعین پر ایک چاشنی اورگرویدہ پن طاری ہو جاتا۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ان کے بیان وکلام میں ذخیرۂ الفاظ کی ایسی فراوانی ہوتی کہ حاضرین عش عش کر اُٹھتے اور بے پناہ داد دیتے۔
 
اقبالیات کے موضوع پر وہ اہل فکر ودانش میں ایک اتھارٹی سمجھے جاتے۔ آغا شورش کاشمیری کے بعد مجلس اقبال کے روح رواں ہمارے ممدوح پروفیسر عبد الجبار شاکر ہی ہوتے۔ علامہ اقبال کی شاعری وفلسفہ اور فکری آگہی پر ملک اور بیرونِ ملک منعقد ہونے والی مجالس میں ان کی شرکت رہتی۔یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک، بھارت وبنگلہ دیش میں عالمی سطح کے سمینار ز اور مذاکروں میں اُنہیں ایک منجھے ہوئے، معتدل عالم دین اور سکالر و دانشور کے طور پر مدعو کیا جاتا۔
 
ان تمام اوصاف وفضیلتوں کے باوجود ان کی طبیعت میں تواضع وانکساری اور سادگی تھی۔ وہ بے حد ملنسار اور اسلامی اخلاق واقدار کے لحاظ سے اُجلی سیرت وصورت کے مالک تھے۔ عالی منصب اور بلند مرتبت ہوتے ہوئے بھی ان سے تصنع وتکلف کو کوئی دخل نہ تھا۔ عام بسوں یا تانگوں رکشوں میں آنے جانے کو عار نہ سمجھتے۔ ان کے ایک بیرونِ ملک کے سفر کا احوال ان کے ہم سفر جناب رانا محمد شفیق خان پسروری نے روز نامہ'پاکستان'میں 15؍ اکتوبر کے اپنے کالم میں خوب ذکر کیا ہے کہ ''وہ ایک مردِ دوریش اور علم وکتابت کے عاشق زار تھے۔ منکسر مزاج ، عبادت گزار اور نیک خو انسان تھے۔ مرنجاں مرنج اور خوش گفتار ایسے کہ ان کی تقاریر وخطابت واقعتا دل کو کھینچنے اور دماغ میں جگہ بنانے والے ہوتے۔''میرے خیال و وجدان میں بلاشبہ وہ ایک ایسی شخصیت بن چکے تھے جس پر ہم بجا طورپر فخر کر سکتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں تقریب ِبخاری کے دو تین موقعوں پر حجیت ِحدیث اور محدثین وسلف صالحین کی خدمات پر جو تقاریر کی ہیں، اگر ان کا ریکارڈ ہو تو ان کی اشاعت سے علماء و اساتذہ اور طلبہ کی معلومات میں اضافہ ہو سکتا ہے، نیز ایک تاریخی وعلمی دستاویز تیار ہو سکتی ہے۔
 
پروفیسر صاحب فاضل درسِ نظامی، لاء گریجویٹ اور اقبالیات میں ایم فل تھے۔ وہ مختلف کالجز میں تدریسی خدمات انجام دینے کے علاوہ ایک عرصہ ڈائریکٹر پبلک لائبریریز پنجاب بھی رہے۔ اُنہوں نے بہت سی کتب کے دیباچے اور مقدمے لکھے اور بے شمار ٹی وی پروگراموں میں علمی وادبی اور پیچیدہ مسائل کے میزبان اور مہمان کے طورپر شریک رہے۔ زبان وادب پر ان کی مہارت اور ملکہ کو ہر مقام پر سراہا جاتا ۔ لاہور میں ملتان روڈ پر منصورہ کے بالمقابل بیت الحکمت کے نام سے وسیع لائبریری قائم کی جس کا شمار ملک کی معروف لائبریریوں میں ہوتا ہے جہاں تفسیر ،سیرت ، تقابل ادیان ، قوانین، علومِ اسلامیہ ، اُردو فارسی ادب اور عربی لٹریچر کی ہزارہا کتابیں اور نایاب مخطوطات ومقالات اس لائبریری کی زینت ہیں۔ وہ تعارف کرایا کرتے کہ ان کی لائبریری میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے نادر اور بیش قیمت ذخیرہ کتب موجود ہے۔ آج کل وہ فیصل مسجد، اسلام آباد کے مقبول خطیب اور بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی میں الدعوة اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔
 
پروفیسر صاحب کا اچانک سانحۂ ارتحال ملک بھر میں بجلی بن کر گرا۔ جامعہ سلفیہ کے پرنسپل جناب محمد یٰسین ظفر نے جب ان کی وفات کی غم ناک خبر سنائی تو چند لمحات سکتہ میں گذرے۔ ماضی قریب میں یکے بعد دیگرے جو علماء وفضلا رحلت کر گئے تھے، ابھی تو ہم ان کی جدائیوں کے زخم سہلا رہے تھے کہ یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی۔ بہر حال ہم ربّ العالمین کی رضا پر راضی ہیں۔ اس کے ہر اَمر میں حکمتیں کار فرما ہیں۔ شیخوپورہ میں مرحوم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، نمازِ جنازہ میں ملکی و ملی قائدین ، دینی وسیاسی جماعتوں کے سربراہ ، وکلا، ہائی کورٹس کے جج حضرات اور علماء و صحافی دیکھنے میں آئے بلکہ تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہزاروںکی تعداد میں شامل تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھرپور دینی وملی اور ملکی خدمات کو قبول ومنظور فرما کر ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے خاندان وحلقہ احباب کو صبرو حوصلہ کی توفیق دے۔آمین یا ربّ العالمین!