جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ (قسط 3)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر دنیا میں اپنی بندگی او رعبادت کی ذمہ داری سونپی، عبث پیدا کردینے کی بجائے انسان کو مکلف بنایا کہ وہ عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو بہتر واَحسن ثابت کرے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اس میزان پر پورا اُترا اور آخرت میں آگ سے بچ کر جنت کا مستحق ہوا۔ اس عظیم مقصد کے لئے اللہ نے انسان کو کسی رہنمائی کے بغیر چھوڑنے کی بجائے ایک مکمل نظامِ بندگی عنایت کیا، اپنے انبیا کو اللہ کی بندگی کا طریقہ سکھانے کی ذمہ داری عنایت فرمائی اور انبیا کی بعثت کو انسانیت پر احسانِ عظیم قرار دیا۔ مذکورہ بالا مقدمات براہِ راست چند قرآنی آیات کا مفہوم ہیں ۔ ایک طرف اللہ کی بندگی ہے تو دوسری طرف قرآنِ کریم نے ہی خواہش نفس کی بندگی کی تمثیل بیان فرما کر اس کی شدید مذمت کی۔خواہش نفس کی بندگی کے لئے شیطان دنیا میں موجود ہے او راسے حیاتِ دوام عطا کی گئی ہے۔ انسانیت نے ماضی میں اس کا کوئی باضابطہ اور منظم طریقہ دریافت نہیں کیا تھا، لیکن مغرب کی "تحریک احیاے علوم" کا کرشمہ یہ ہے کہ اس کے وجود میں آنے کے بعد انسانیت نے خواہش نفس کی بندگی کے شیطانی مقصد کی تکمیل کو باقاعدہ علم اور منضبط فن بنالیا۔ جس طرح اللہ کی بندگی (اسلام) کی متعدد تفصیلات قرآن وسنت میں موجود ہیں ، اس طرح خواہش نفس کی بندگی کے بھی متعدد صغرے کبرے قائم کرلئے گئے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوا تھا، لیکن انسانیت کی حالیہ ترقی نے اسے بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ آج ہر دو نوعیت کی بندگیوں کے مابین شدید کشمکش کی کیفیت جاری ہے جسے قرآن حق وباطل کی کشمکش قرار دیتا ہے۔ مغربی تہذیب کی قوت یہ ہے کہ خواہش نفس کا داعیہ ہر انسان کے اندرموجود ہے، جس کے لئے اسے کسی بیرونی تلقین وترغیب کی ضرورت نہیں ، جبکہ اللہ کی بندگی بھی انسان کی سرشت میں داخل ہے لیکن بزبانِ رسالت (حُفّت الجنة بالمکارہ) جنت کو اپنے اوپر کنٹرول رکھنے جیسی چیزوں سے بھر دیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں انسانیت کی اپنی خواہشات کی پیروی کے جدید رویوں کا اسلام سے ایک تقابل پیش کیا جارہا ہے، جس کی تیسری قسط پیش خدمت ہے۔(ڈاکٹر حسن مدنی)
 
"ہیومن رائٹس" کا مفہوم
زیر مطالعہ مضمون کے حصہ دوم میں مغربی تصور اتِ آزادی و مساوات کی وضاحت بیان کی گئی تھی جن کے مطابق آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ خیر و شر کی تعیین ہر فرد کا حق ہے، نیز افراد کے اختیار کردہ تمام تصوراتِ خیر مساوی معاشرتی اَقداری حیثیت کے حامل ہیں ۔ ہیومن رائٹس آزادی کے اس مجرد تصور کا قانونی اظہار ہیں جو آزادی اور مساوات کے اُصولوں پر ریاستی اقتدار کی تشکیل کو ممکن بناتے ہیں ۔ اس فلسفے کے مطابق:
ہر ہیومن کو چند ایسے حتمی و آفاقی (absolute) حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ہر قسم کی مابعدالطبعیات اور تصورِ خیر سے ماقبل اور ماورا ہیں اور جو اپنا جواز از خود رکھتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہیں ۔
چونکہ یہ حقوق ہر قسم کے تصورِ خیر سے ماورا ہیں لہٰذا انہی کی بنیاد پر دیگر تمام تصوراتِ خیر اور معاشروں کو جانچا جانا چاہئے۔
 
اور ان حقوق کو ہیومن رائٹس سے ماورا کسی دوسرے قانون ، روایت یا مذہب وغیرہ کے نام پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا، یعنی یہ حقوق ناقا بل ردّ(unchallengeable) حقوق ہیں ۔ ان حقوق میں سر فہرست حقوق تین ہیں :
(1) زندگی کا حق، یعنی یہ تصور کہ انسان اپنے بدن اور زندگی کا مالک اور خود مختار ہے۔
(2) اظہارِ آزادیٔ ضمیر کا حق، یعنی یہ تصور کہ فرد اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کا مکلف ہے، دوسرے لفظوں میں اسے اپنی مرضی کے مطابق خواہشات پورا کرنے کا حق حاصل ہے۔
(3) ملکیت کا حق، یعنی یہ تصور کہ فرد اپنی ملکیت کو سرمایہ دارانہ ملکیت (کارپوریشن) میں ضم کردینے کا مکلف ہے۔
 
یہ ہیومن رائٹس درحقیقت وہ قانونی ڈھانچہ فراہم کرتے ہں جو :
ایک طرف ہر فرد کے اس حق کو ممکن بناتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل کرسکے (یعنی اظہارِ ذات کے زیادہ سے زیادہ طریقوں کو اختیار کرسکے) یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے کی عین ویسی ہی آزادی میں رکاوٹ نہ بنے، اور
دوسری طرف ہر فرد کے اس مساوی حق کو ممکن بناتا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی آزادی اس طرح استعمال کرنے پر مجبور کرسکے کہ جس سے وہ دوسرا شخص اس فرد کی آزادی میں مداخلت نہ کر سکے ۔ مثلاً اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو یونیورسٹی میں رات کے کسی فنکشن میں جانے سے منع کرے تو اس بیٹی کو اس بات کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ و ہ پولیس کو بلواکر اپنے باپ کو جیل بھجوا دے اور خود یونیورسٹی جا سکے۔ اسی طرح اگر ایک باپ اپنی اولاد کو نماز نہ ادا کرنے پر سرزنش کرے تو اوّلاد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ باپ کو اپنی آزادی میں مداخلت کرنے سے روک سکیں ۔ 1
 
اسلام اور ہیومن رائٹس 2
اسلامی نکتہ نگاہ سے ہیومن رائٹس کی حیثیت جاننے کے لئے چند باتوں کی تنقیح ضروری ہے:
ہیومن رائٹس اور حقوق العباد کا فرق:
اسلامی تعلیمات و تصوراتِ زندگی کو مغربی تناظر میں پہچاننا اور تلاش کرنا مسلم مفکرین کی بڑی غلطی ہے۔ ان غلطیوں میں سے ایک بنیادی اور اہم ترین غلطی حقوق العباد کو ہیومن رائٹس کے تناظر میں سمجھنا ہے۔ عام طور پر ہیومن رائٹس کا ترجمہ غلط طور پر "انسانی حقوق" کر کے نہ صرف اُنہیں حقوق العباد کے ہم معنی تصور کرلیا جاتا ہے بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ہیومن رائٹس سب سے پہلے اسلام نے دنیا کو عطا کیے نیز خطبہ حجة الوداع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنہی حقوق کی تعلیمات دی تھیں ۔ العیاذ باللہ!
 
ان دونوں کا فرق ایک آسان مثال سے سمجھا جا سکتا ہے (لفظ "ہیومن " کے معنی کی تفصیلی بحث آگے آرہی ہے)۔ فرض کریں ایک دستوری جمہوری ریاست کے دو مرد آپس میں میاں بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُنہیں ایسا کرنے کا "حق" ہے یا نہیں ۔ اگر اس سوال کا جواب کسی مذہب (اسلام،عیسائیت وغیرہ) کے عالم سے پوچھا جائے تو وہ اس کا جواب ارادئہ خداوندی میں ظاہر ہونے والے خیر (ارادئہ شرعیہ) یعنی اللہ کی کتاب کی روشنی میں دے گا ۔ مثلاً ایک مسلمان عالم یہ کہے گا کہ چونکہ قرآن یاسنت میں اس کی ممانعت ہے لہٰذا کسی بھی فرد کو ایسا کرنے کا "حق" حاصل نہیں ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو "ہیومن رائٹس " کو اعلیٰ ترین قانون مانتا ہو، اس فعل کو اس دلیل کی بنا پر جائز قرار دے گا کہ چونکہ ہر شخص کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی خوشی کا سامان اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہے مہیا کرلے، لہٰذا اگر دو مرد آپس میں شادی کرکے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جس کی بنیاد پر مغربی دنیا میں دو مردوں کی شادی، زنابالرضا اور اَغلام بازی وغیر ہ کو قانونی جواز عطا کر دیا گیا ہے۔ ایک دستوری جمہوری ریاست میں افراد کے پاس ہمیشہ یہ حق محفوظ ہوتا ہے کہ وہ ارادئہ خداوندی کو پس پشت ڈال کر ہیومن رائٹس کی آڑ میں عملِ لواطت کا جواز حاصل کرلیں ۔ 3
 
اس مثال سے واضح ہو جانا چاہئے کہ "حقوق العباد " کا جواز اور اس کی ترتیب تو ارادہ خداوندی سے طے ہوتی ہے یعنی ایک انسان (عبد) کو کسی عمل کا حق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کتاب و سنت سے ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں ہیومن رائٹس کا جواز انسان کی خود مختاریت کے دعوے سے نکلتا ہے۔ چنانچہ ہر دو حقوق میں اہم فرق سرچشمہ اور مصدر کا ہے۔اسلامی نقطہ نگاہ سے "حق زندگی " فرد کا کوئی ایسا حق نہیں جس کا جواز ماورائے اسلام کسی فطری قانون سے نکلتا ہو بلکہ اس کا ماخذ کتاب و سنت کی نصوص کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چونکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے فرد اپنی زندگی کا مالک نہیں ، بلکہ یہ اس کے ربّ کی عنایت ہے، اسی لئے فرد اپنی زندگی کو جیسے وہ چاہے، ترتیب دینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ چنانچہ نہ تو ہم یہ مانتے ہیں کہ انسان قائم بالذات ہے (کہ وہ اصلاً عبد ہے) اور نہ ہی اس کے کسی ایسے ماورائے اسلام حق کو مانتے ہیں جس کا جواز ارادئہ خداوندی سے باہر ہو اور جس کے مطابق اسے اظہارِ ذات اور اپنی خواہشات کی ترجیحات طے کرنے اور اُنہیں حاصل کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہو، بلکہ اس کا حق بس اتنا ہی ہے جو اس کے خالق نے اسے اپنے نبی کے ذریعے بتادیا اس کے علاوہ وہ جو بھی فعل سر انجام دے گا، نافرمانی اورظلم کے زمرے میں شمار ہوگا اور جسے ختم کردینا ہی "عدل" کا تقاضا ہے۔ انسان کا کوئی ایسا ذاتی حق ہے ہی نہیں کہ جس کا جواز از خود اس کی اپنی ذات ہو چے جائیکہ وہ حق ناقابل تنسیخ بھی ہو۔ ہیومن رائٹس کی بالا دستی ماننے کا مطلب ہی انسان کے "حق" کو "خیر" پر فوقیت دینا اور اس بات کا اقرا ر کرنا ہے کہ انسان اپنا حاکم خود ہے نیز "خیر و شر" کامعیار خواہشاتِ انسانی ہیں نہ کہ ارادئہ خداوندی۔
 
یاد رکھنا چاہئے کہ حقوق و فرائض کی تمام تر تفصیلات کسی مخصوص مقصد کے حصول کا ذریعہ ہواکرتی ہیں اور مقصد یا تصورِ خیر بدل جانے سے حقوق کی تفصیلات بھی بدل جایا کرتی ہیں ۔ شارع کا اپنے بندوں کو حقوق عطا کرنے کا مقصد "مقاصد الشریعہ " کے حصول کو ممکن بناکر آخرکار اپنے بندوں کے لئے مراسم بندگی بجا لاتے رہنے کو ممکن بنا نا ہے جبکہ ہیومن رائٹس کا فریم ورک فرد کو ان حقوق کا مستحق گردانتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنی خود ارادیت کی زیادہ سے زیادہ تکمیل کرسکے۔ چونکہ ہیومن رائٹس کا فریم ورک مقاصد الشریعہ کے حصول اور فروغِ عبدیت کی بالادستی کو اہم ترین انفردی و اجتماعی مقاصد کے طور پر قبول نہیں کرتا لہٰذا وہ شریعت کی بیان کردہ حقوق کی تفسیر و تحدید کو بھی ماننے سے انکار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ فریم ورک حقوق کی وہ تفسیر بیان کرتا ہے جن کے ذریعے مساوی آزادی کے اُصول پر ایسی معاشرتی تشکیل کو ممکن بنانا ہے جہاں ہر فرداپنی خواہشات کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے۔ ایسی ریاست جو ہیومن رائٹس قانون کی پابند ہو، ہرگز مقاصد الشریعہ کی حفاظت و غلبے کا باعث نہیں بن سکتی۔ اس بنیادی مقدمے کو ذہن نشین کرلینے کے بعد اگلی بحث سمجھنا آسان ہوجائے گی ۔
 
ہیومن رائٹس اور جمہوری ریاست کی غیر جانبداریت کا دعویٰ
بادی النظر مسلم مفکرین اس دھوکے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہیومن رائٹس کسی آفاقی، عقلی اور غیر جانبدار تصورِ خیر کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس دھوکے کی وجہ یہ تاثر ہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک میں ہر فرد کے لئے جو وہ چاہنا چاہے، چاہنا ممکن ہوتا ہے۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک ہر گز بھی خیر کا کوئی غیر اَقداری (neutral) تصور فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ فریم ورک بھی خیر کے ایک مخصوص تصور کو محض بطورِ مفروضہ قبول کرتا ہے اور جو بھی ریاست اس فریم ورک کو بالاتر قانون کی حیثیت سے قبول کرتی ہے، یہ فریم ورک ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خیر کی اس مخصوص تشریح کو فرد و معاشرے پر غالب کرے۔ سیکولر طبقہ مذہبی تصورِ خیر کو جانبدار قرار دے کر اسے اجتماعی زندگی سے خارج کردینا چاہتا ہے4، یہ طبقہ لوگوں کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ چونکہ مذہب کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست لازماً جانبدار ہوتی ہے یعنی وہ ریاست خیر کی ایک مخصوص مذہبی تعبیر کے علاوہ دیگر تمام تعبیرات کو باطل قرار دے کر مغلوب کردیتی ہے، لہٰذا مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھ کر ایسے قانونی نظام پر ریاست کی تشکیل کی جانی چاہئے جو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہو کر تمام تصوراتِ خیر کو پنپنے کے مواقع فراہم کرے، اور ایسا قانونی نظام ہیومن رائٹس فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
 
مگر خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مغرب اور سیکولر طبقے کا یہ دعویٰ کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لئے Tolerant ہوتی ہے، ایک جھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کے مطابق اصل تصورِ خیر آزادی یعنی "خیر فرد کا حق ہونا ہے"، دوسرے لفظوں میں اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے۔ اس تصورِ خیر کے مطابق خیر فرد کی محض اس "صلاحیت " کا نام ہے کہ جو اسے اس کی "ہر چاہت" حاصل کرسکنے کا مستحق بنا دے، ماورائے اس سے کہ وہ چاہت کیا ہے۔5 معلوم ہوا یہ کہنا کہ "تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں " غیر جانبداری کا رویہ نہیں بلکہ بذاتِ خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور ہے کہ "اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے"، اور ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری دستوری ریاست لازماً اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوتی ہے۔  6
 
مساوی خیر کے اس تصور پر ایمان لانے کے بعد اسلام کے "الحق " ہونے کا دعویٰ ایک مضحکہ خیز دعوی بن کر رہ جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس پر ایمان لانے کا تقاضا یہ مان لینا ہے کہ اسلام ہی واحد حق نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب اور نظریہ ہائے زندگی بھی اتنے ہی حق پر مبنی ہیں جتنا اسلام، لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی دو سرے مذاہب اور نظام ہائے زندگی پر برتری کے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہئے اور خصوصاً اقامت ِدین کی کوششیں ترک کردینی چاہئیں کیونکہ اسی مذہبی برتری کی سوچ کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے ۔ 7
ہیومن رائٹس پر معاشرتی تشکیل تب ہی ممکن ہے جب افراد رواداری کے مغربی فلسفے پر ایمان لائیں ۔ i
 
یہیں سے اس فریب کی حقیقت بھی کھل جانی چاہئے کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی tolerant ریاست ہوتی ہے کیونکہ اپنے دائرئہ عمل میں یہ ریاست صرف اُنہی تصوراتِ خیر کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر (یعنی تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت ) سے متصادم نہ ہوں ، اور ایسے تمام تصوراتِ خیرجو ہیومن رائٹس سے متصادم ہوں یا جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں ، ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے، جس کی واضح مثال طالبان کی ریاست ِاسلامیہ کا بذریعہ قوت خاتمہ ہے کہ یہ ریاست مخصوص مذہبی تصورِ خیر کی برتری کا دعویٰ کرتی تھی اور اسے دیگر تمام تصوراتِ خیر پر غالب کردینے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں بسنے والے لوگ اپنی روایت کے مطابق "ونی کرنے " یا مذہبی بنیادوں پر "ستی کرنے" کو خیر سمجھ کر اپنانا چاہتے ہوں تو ہیومن رائٹس قانون اُنہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمال بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں ۔ اسی طرح فرض کریں کہ ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہے تو ظاہر ہے اسلامی معاشرہ وریاست ہرگز اس کی اجازت نہیں دے گی، مگر چونکہ ہیومن رائٹس قانون اس فعل کو فرد کا حق قرار دیتا ہے، لہٰذا لبرل ریاست میں افراد کو اس فعل کی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلم اجتماعیت اس لڑکی پر اپنا تصورِ خیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو لبرل ریاست ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کی سر کوبی کرنے کی پابندہو گی۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک کے تصورِ خیر کے مطابق "خیر" کی تعریف تو بدل سکتی ہے مگر خیر کی تعریف متعین کرنے کا "انسانی حق" بہر حال ناقابل تبدیل ہے۔
 
چونکہ ہیومن رائٹس " فرد" کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ کسی گروہ کے، لہٰذا لبرل جمہوری معاشروں میں سوائے فرد کے تمام اجتماعیتیں (مثلاً خاندان وغیرہ) لازماً تحلیل ہو جاتی ہیں اور جو واحد شے بچ رہتی ہے، وہ ہے اکیلا "فرد " یا صرف ایسی اجتماعیتیں جو افراد کی اغراض (self-interest) پر مبنی تعلقات سے وجود میں آتی ہیں ۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں ریاست جس نظامِ زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہے جس کے نتیجے میں دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرہ کار کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ 8چنانچہ ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری جمہوری ریاست کا یہ دعویٰ کہ اس نظامِ زندگی میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ "جو" چاہنا چاہے، چاہ سکے ایک جھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ فرد کو مساوی آزادی (یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی ) ردّ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا (اس نکتے کی علمی بنیاد جمہوریت کے حصیمیں بیان کی جائے گی)۔ میں بحیثیت ِفرد اگر گوشت کھانا چاہتا ہوں تو چاہوں ، ہمہ وقت کھیلنا چاہتا ہوں تو چاہوں ، مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہ سکتا جس سے اُصولِ آزادی یعنی دوسروں کا اپنی چاہت چاہنے اور اسے حاصل کرنے کا حق سلب ہوجائے۔ مثلاً میں یہ نہیں چاہ سکتا کہ کسی شخص کو شرعی منکر (مثلاً زناکرنے) سے روک دوں کیونکہ جونہی میں اپنی اس چاہت پر عمل کرتا ہوں تو اُصولِ آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور جمہوری ریاست مجھے ایسا کرنے سے بذریعہ قوت روک دے گی۔ 9
 
چنانچہ فرد اپنے کسی مخصوص تصورِ خیر مثلاً اظہارِ مذہبیت پر "بطورِ ایک حق" عمل تو کرسکتا ہے مگراسے "الحق" سمجھ کر دیگر تمام تصوراتِ خیر پر غالب کرنے کا ارادہ نہیں کرسکتا کہ ایسا کرنا اُصولِ آزادی کے خلاف ہے اور اگر اُصولِ آزادی ہی ردّ کردیا گیا تو پھر میرا یہ حق کہ میں جو چاہنا چاہوں ، چاہ سکتا ہوں خود بخود فسخ ہوجائے گا۔ لہٰذالبرل جمہوری نظام میں ہر فرد ہیومن بننے پر مجبور ہوتا ہے، وہ آزادی کے سوا اور کچھ نہیں چاہ سکتا۔ فرد کی ہر وہ خواہش قانوناً اور اخلاقاً ناجائز اور قابل تنسیخ ہے جو اُصولِ اظہارِ آزادی کے خلاف ہویعنی جس کے نتیجے میں دوسروں کی آزادی چاہنے کی خواہش میں تحدید ہوتی ہو۔
 
پس واضح ہوا کہ درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی راسخ العقیدہ (dogmatic) اور intolerant ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست کیونکہ دونوں ہی اپنے تصوراتِ خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں ۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز  10(Rawls) کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں (یعنی فرد کے تعیین خیر وشر کے حق) کا انکار کریں ، ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وَبا کو ختم کرنا ضروری ہوتاہے۔ 11پس خوب یاد رہے کہ تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی بطور اصل خیر کا اِقرار ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادئہ انسانی یعنی "انسانی حق" کی بالادستی تمام تصوراتِ خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے حصول کو "بطورِ ذاتی حق " کے اختیار تو کرسکتے ہیں مگر اس خیر کو دیگر تصوراتِ خیر اور زندگی گزارنے کے دیگر طریقوں پر غالب نہیں کرسکتے، یہی ہیومن رائٹس کی حقیقت ہے۔
 
ہیومن رائٹس اور جمہوری ریاست بطورِ غلبہ اسلام کا ذریعہ
جو مفکرین اور علماے کرام ہیومن رائٹس اور جمہوری فریم کو غلبہ اسلام کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں ، وہ درحقیقت ہیومن رائٹس کی غیر جانبداریت و آفاقیت کے فریب کا شکار ہیں اور وہ ہیومن رائٹس اور جمہوریت کو ہر قسم کے مقاصد وروح سے ماورا ایسا ٹیکنیکل (Technical) ڈھانچہ فرض کرتے ہیں جو ہر قسم کے مقاصد اور خیر کے حصول میں مدد گار ہوسکتا ہے۔ مگر یہ واضح ہے کہ ہیومن رائٹس و جمہوریت ہر گز بھی کوئی ایسا ریاستی ڈھانچہ فراہم نہیں کرتے جس کے ذریعے "کسی بھی " نظام زندگی اور مقصد کا حصول ممکن ہو سکے کیونکہ جس چیز کو یہ اُصولاً و عملاً ممکن بناتے ہیں ، وہ ا رادئہ خداوندی پر مبنی خیر کی نہیں بلکہ "انسانی حق کی ہر خیر پر بالادستی " ہے اور کفر و شرک کی یہ وہ شکل ہے جسے plurality of goods کے خوبصورت نام سے پیش کیا جاتا ہے نیز اس کے نتیجے میں جو اجتماعی نظام زندگی تشکیل پاتا ہے، وہ لبرل سرمایہ داری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک کو ماننا دراصل اسلام کی مغلوبیت پر راضی ہوجانا ہے۔
 
اس بحث سے تحریکاتِ اسلامی اور ایسے علماے کرام کی حکمت ِعملی کی غلطی واضح ہو جانی چاہئے جسے اُنہوں نے دستوری حقوق کے تناظرمیں تحفظ ِاسلام کے لئے اپنا رکھا ہے۔ جب کبھی حکومتی مشینری یا بیرونِ ملک ریاستیں و ادارے تعلیمات و اظہارِ اسلام کے خلاف کوئی حکمت عملی اپناتے ہیں تو اس کی مخالفت "مسلمانوں کے حق" کے نام پر کی جاتی ہے، مثلاً فرض کریں اگر ترک حکومت مسلم عورتوں کے اسکارف پہننے پر پابندی لگا دے توکہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا تو مسلمان عورتوں کا حق ہے اور ہیومن رائٹس اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ اگر یہ حکمت عملی حالت ِمغلوبی کے بجائے کسی علمی دلیل و نظرئیے کی بنا پر اپنائی گئی ہے تو پھر یاد رہے کہ اظہار اسلام کو "خیر مطلق " (absolute good) کے بجائے ہیومن رائٹس کی پناہ میں بطور "ایک حق " کے پیش کرنا در حقیقت نہ صرف یہ کہ اسلام کے نظام زندگی ہونے بلکہ اس کے خیر مطلق ہونے کا انکار بھی ہے کیونکہ اگر اظہارِ اسلام محض ایک فرد کا حق ہے تو پھر دوسرے افراد کے اپنے اظہارِ خیر کے حق کو بھی لازماً ماننا پڑے گا۔ اسلامیت کو محض بطورِ حق ماننے کے بعد امر بالمعروف و نهي عن المنکر کا سرے سے کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا کیونکہ تعین خیر کو فرد کا حق سمجھنا اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کو برابر ماننے کے مترادف ہے۔ اس حکمت ِعملی کے نتیجے میں ہم اسلام کو ایک غالب خیر مطلق کے بجائے کثیر الانواع تصوراتِ خیر میں سے ایک تصورِ خیر کے طور پر "محفوظ" کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں اور بالآخر اسلام کو لبرل سیکولر ریاست کے اندر سمو دینے کا باعث بنتے ہیں ۔ 12ہیومن رائٹس ہر گز غلبہ اسلامی کا ذریعہ نہیں بن سکتے کہ جس قدر اُصولِ آزادی کے اندر یہ اظہارِ اسلامیت کا موقع فراہم کرتے ہیں ، اسی قدر اظہار کفر اور فسق کو بھی محفوظ کرتے ہیں ۔
 
اس میں شک نہیں کہ ہیومن رائٹس کا فریم ورک اظہارِ مذہب کی بہت سی آزادیاں فراہم کرتا ہے مگر ان آزادیوں کے ذریعے محض ایک ایسا "مذہبی دائرہ " محفوظ کیا جا سکتا ہے جس سے باہر مذہب کی پہنچ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتی ہے۔ ان مذہبی آزادیوں کی حقیقت نہ پہچاننے کی وجہ سے مسلم مفکرین و علمائے کرام بالعموم دو غلط فہمیوں کا شکار ہوئے :
دارالاسلام اور دارالکفر کو لبرل فریم ورک کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرنا، یہاں تک کہ اُنیسویں اور بیسویں صدی کے متعدد جید اور راسخ العقیدہ علماے کرام نے بھی ان لبرل آزادیوں کے فریب کا شکار ہوکر ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا اور یہی غلط فہمی آج بھی مسلم دانشوروں کو لاحق ہے کہ وہ کسی خطہ ارضی میں لبرل آزادیوں کی موجودگی کو نہ صرف یہ کہ دارالاسلام کے ہم معنی سمجھتے ہیں بلکہ اُنہیں دارالاسلام کی شرائط لازمی (pre-conditions) بھی گردانتے ہیں ۔
 
سوشلزم کے مقابلے میں لبرل ازم (جسے ہمارے ہاں عام طور پر سرمایہ داری کے نام سے پہچانا جاتا ہے) کے بارے میں حد درجہ نرم گوشہ اختیار کرنا، یہاں تک کہ اسلام کے معاشی و سیاسی نظام کو اُصولاً و عملاً لبرل فریم ورک کے ساتھ نتھی کردیا گیا جن کی واضح مثالیں اسلامی معاشیات اور اسلامی جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ مگر یاد رہنا چاہئے کہ غلبہ اسلام کے تناظر میں لبرل ازم سوشل ازم سے بھی بڑی برائی ہے کہ سوشل ازم کا دشمنِ اسلام ہونا ہم پر عین واضح ہے مگر لبرل ازم کے چھپے ہوئے خطرے سے ہم واقف ہی نہیں ۔ لبرل ازم کے خلاف اسی نرم گوشے کا ہی یہ اظہار ہے کہ بالعموم علماے کرام نے انقلابی جدوجہد (ریاست کے اندر تعمیر ریاست) کے ذریعے تحریک ِخلافت کو کامیاب بنانے کے بجائے لبرل دستوری فریم ورک کے اندر مسلم قوم پرستانہ (لبرل نظام کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر برپا کی جانے والی ) جدوجہد یعنی مسلم لیگ کی تحریک استخلاصِ وطن کا ساتھ دیا۔
 
جو مسلم مفکرین و علماے کرام دستوری قانونی جدوجہد کے علاوہ کسی اسلامی جدوجہد کے قائل نہیں ، وہ یا تو دستور او رہیومن رائٹس کی فراہم کردہ آزادیوں کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ، یا پھر غلبہ اسلامی کے بجائے محض تحفظ ِاسلامی پر قانع رہنا چاہتے ہیں اور یا پھر غلبہ اسلامی کا محض کوئی نام نہاد تصور رکھتے ہیں ۔ یہ حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہیں گویا ہیومن رائٹس و جمہوریت کے نام پر مذہب سے ماورا خیر کا کوئی ایسا آفاقی تصور اور دائرہ دریافت کرلیا گیا ہے جو اسلامی خیر کے فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، یعنی اسلامی خیر بھی اس وسیع تر دائرے کا ایک جز بن سکتا ہے۔ اسلامیت کو "ایک حق" کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بہت سے نظامہائے زندگی میں سے ایک ہے اور یہ تمام نظام ایک مشترکہ عالمی نظام کا حصہ ہیں اور یہ عالمی نظام "لبرل سرمایہ داری" کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ یہ تضاد سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک طرف تو اسلامی تحریکات اسلام کے غلبے کے لئے "ریاست" حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ہیومن رائٹس کو بھی مانتی ہیں جن کا اوّلین تقاضا ہی یہ ہے کہ ریاست خیر کے ایک مخصوص مذہبی تصویر کے بارے میں غیر جانبدار رہے، فیا للعجب ۔ پس ہمیں ہیومن رائٹس فریم ورک سے نکلنے والے تصورِ عدل اور حقوق کے حصول کی ہر گز جدوجہد نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عدل کا قیام اور استحکام عمل پذیر ہوتا ہے۔
 
یہ بات نہایت اچھی طرح ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اسلامی نکتہ نگاہ سے "خیر " انسان کے "حق" پر برتری رکھتا ہے یعنی اسلام اس ارادئہ خداوندی کی فوقیت کو ناقابل چیلنج خیر کے طور پر تسلیم کرتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و سنت کی صورت میں نازل ہوا، صحابہ کرامؓ نے جسے محفوظ کیا اور ائمہ امت و علماے عظام نے جسے عوام الناس تک منتقل کیا۔ چونکہ اسلام میں حقوق و فرائض کا تمام تر نظام اسی ارادئہ خداوندی سے ماخوذ ہے، لہٰذا ان حقوق کی تفسیر اور تنسیخ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ہوتی ہے۔ ایک مسلمان اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ ما وراے اسلام کسی مجرد حقوق کے نظام (جیسے ہیومن رائٹس ) کو نہ صرف یہ کہ قبول کرلے بلکہ اِنہی حقوق کے اندر اپنے مذہبی اور سیاسی تشخص کے بقا کی کوشش کرے۔ دعوتِ اسلامی ہرگز حقوق کی نہیں بلکہ خیر کی طرف بلانے کی دعوت ہوتی ہے اور تحریکاتِ اسلامی اسی خیر سے اخذ کردہ اقداری ترتیب کے مطابق معاشرتی صف بندی کی تنظیم نو اور اس تصورِ خیر کے تحفظ اور نظامِ اقتدار کو اس خیر کے تابع کرنے کے لئے میدان عمل میں آتی ہیں ۔
 
مضمون کے پہلے حصے میں واضح کیا گیا تھا کہ نہ تو وحی سے ماورا خیر کو پہچاننے کا کوئی ذریعہ ممکن ہے اور نہ ہی اسلام کے علاوہ یا باہر خیر کا کوئی وجود ہے، جس کی طرف ہم کسی کو دعوت دے سکیں یا جس کی بنیاد پر ہم کسی سے کوئی مکالمہ یا گفتگو کر سکیں ۔ ہم جب بھی غیر مسلم سے گفتگو کرتے ہیں تو صرف اور صرف اسے اسلام کی طرف دعوت ہی دے سکتے ہیں کہ یہی خیر مطلق ہے۔ فروغِ اسلام کیلئے کسی ما قبل اسلام تصور خیر (pre-given conception of good) کا وجود لازم ماننا درحقیقت اسلام کے خیر مطلق ہونے کا انکار کرنا ہے۔ جو حضرات یہ فرض کرتے ہیں کہ ہیومن رائٹس جیسے ماقبل اسلام تصور خیر کا نتیجہ لازماً فروغِ اسلام ہی ہوگا، اُنہیں ان سوالوں کا جواب بھی دینا چاہئے کہ
  1. دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جہاں ہیومن رائٹس اور جمہوری اقدار کی بالادستی کے نتیجے میں اسلامی انقلاب برپا ہوا؟
  2. اسلامی ریاست تو درکنار کیا خود لبرل جمہوری ریاستیں دنیا میں کہیں جمہوری طریقے سے قائم ہوسکی ہیں ؟ اگر ایسا ممکن تھا تو امریکہ، برطانیہ، فرانس، چائنہ، روس وغیرہ کے خونی انقلابات کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ آخر قیام جمہوریت کے لئے دنیا پر ظلم و بربریت کے پہاڑ کیوں توڑے گئے اور آج بھی عراق، افغانستان اور پاکستان وغیرہ میں جمہوری اقدار کی حفاظت و فروغ کے لئے قتل و غارت کا بازار کیوں گرم ہے؟
  3.  کیا جمہوریت مسلمانوں کی تاریخ و علمیت سے خود بخود برآمد ہوئی یا جمہوری ادارے استعمار نے ان پر بالجبر مسلط کیے؟
 
ہیومن رائٹس کی آفاقیت کا دعوی
درج بالا بحث سے یہ نکتہ بھی صاف ہوجانا چاہئے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک کسی آفاقی سچائی یا حقیقت کا حامل نہیں بلکہ اس کا منبع ما بعد عیسائی (Post-Christian) مغربی معاشرتی تشکیل ہے اور اسی مخصوص تاریخی و تہذیبی تناظر میں اسے سمجھنا ممکن ہے۔ واضح رہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک کا جواز کسی آفاقی، علمی و منطقی دلیل پر نہیں بلکہ "انسانی فطرت " کے مفروضے پر قائم ہے، یعنی ان کا جواز اس مفروضے پر مبنی ہے کہ یہ حقوق مجرد انسانی فطرت کا تقاضا ہیں ۔ یہ دلیل بظاہر یہ دھوکہ دیتی ہے، گویا واقعی ہیومن رائٹس کوئی آفاقی حقیقت ہیں مگر اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ محض فریب ہے کیونکہ انسانی فطرت (Normal behavior) کا کوئی بھی تصور ایسا نہیں جو انسان کے بارے میں کسی ما بعدالطبعیاتی ایمان پر قائم نہ ہو۔ ہیومن رائٹس کا جواز درحقیقت "ہیومن" (خود کو قائم بالذات ہستی تصور کرنے والے فرد) کی فطرت کا تقاضا ہے نہ کہ عبد کی۔ (مزید تفصیل آگے آرہی ہے)

چونکہ مغربی مفکرین کے خیال میں "نفس امارہ " پر عمل کر نا ہی انسانی فطرت اور عقل انسانی کا تقاضا ہے لہٰذا وہ ہیومن رائٹس کو "آفاقی انسانی میلان " کا نتیجہ قرار دے کر اُنہیں آفاقی و فطری حقوق کا درجہ دیتے ہیں ۔ 13 مگر ہم مسلمان نفس امارہ کی پیروی کو ہرگز فطرتِ انسانی نہیں سمجھتے کیونکہ نفس امارہ پر چلنا بمعنی "صلاحیت " (ability) یقینا انسانی فطرت ہے کہ انسان میں جتنی صلاحیت احسن تقویم بننے کی ہے، اتنی ہی اسفل سافلین کی بھی ہے، لیکن ان معنی میں فطرت نہیں کہ ایسا کرنا ہی کوئی معیاری یا طبعی (normal) انسانی کیفیت یا میلان ہے۔ پس نفس امارہ ہر گز بھی کوئی معیاری نفسی کیفیت نہیں ، البتہ مغربی علمیت میں نفس امارہ ہی فطری نفسی کیفیت مانی جاتی ہے۔ 14 کیونکہ مغرب خیر کے جس تصور پر یقین رکھتا ہے، وہ نفس امارہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی علوم میں قانون اور معاہدے (contract) جیسے تصورات تو ملتے ہیں ، لیکن گناہ کا ذکر سرے سے مفقود ہے۔

گناہ کیا ہے؟ یہ کہ انسان اپنے ارادے کو خدا کی مرضی پر غالب کردے، مغرب میں خیر عین اسی چیز کا نام ہے کہ انسان ارادئہ خداوندی سے علیٰ الرغم اپنے لئے جو چاہنا چاہے، چاہ سکے۔ ظاہر ہے خیر کے اس تصور پر ایمان لانے کے بعد گناہ نامی کوئی شے باقی نہیں رہتی، الہامی مذاہب جسے گناہ کہتے ہیں ، مغرب میں عین اسی شے کو اصل خیر، فطرت اور تعقل کہتے ہیں ۔ اسلامی نکتہ نگاہ (جو درحقیقت "واحد حق" نکتہ نگاہ ہے) میں فطرتِ انسانی (معیاری انسانی رویہ) احکاماتِ الٰہی پر عمل پیرا ہونا ہے یہاں تک کہ انسان نفس مطمئنہ کی منزل کو پالے۔ نفس مطمئنہ وہی ہے جو اپنے ربّ کے احکامات پر برضاو رغبت عمل پیرا ہونے کو سعادت سمجھے اور اصلاً یہی انسانی فطرت ہے جسے گناہوں سے آلودہ کرکے انسان ثقیف بنا دیتا ہے۔ ہیومن رائٹس کی آفاقیت کا دعویٰ قبول کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ گناہ کرنا ہی اصل انسانی فطرت ہے15 یہاں ایک بار پھر مغرب اور مذہب کے تصورِ آزادی کا فرق واضح ہوجانا چاہئے، مغرب آزادی (یعنی بغاوت و نفس امارہ کی پیروی) کو محض انسان کی "صلاحیت " ہی نہیں سمجھتا بلکہ ایسا کرنے کو "قدر" (اچھا) اور فطری (معیاری انسانی) رویہ مانتا ہے، اس کے برعکس مذہبی تصور آزادی کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ گناہ کرسکے، مگر ایسا کرنا کوئی قدر نہیں کیونکہ قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت (خدا کے حضور اپنی آزادی) سے دستبردار ہوجانا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جب خود مغربی فلسفی و مفکرین ہیومن رائٹس فریم ورک کی آفاقیت کے دعووں سے دستبردار ہو رہے ہیں ۔16  عین اسی وقت مسلم مفکرین ہیومن رائٹس کے حق میں اسلامی تاولیں فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کے حق میں تحریکاتِ اسلامی اور مسلم مفکرین ایک تاویل یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ہیومن رائٹس کی تعریف و تحدید اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں گے، یعنی اسلام میں بھی ہیومن رائٹس ہیں مگر وہ نہیں جو مغرب بتاتا ہے بلکہ وہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں ۔ یہ دلیل کئی اعتبار سے خلط ِمبحث کا شاخسانہ ہے:
"ہیومن" محض ایک لغوی لفظ نہیں کہ جس کا ترجمہ "انسان " کرکے اسے جن معنی میں چاہے استعمال کرلیا جائے بلکہ یہ ایک مخصوص تہذیبی اقدار کی عکاس اور مغرب کی علمی تاریخ سے برآمد ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔Humanity درحقیقت تحریک ِتنویر (Enlightenment) کا کلیدی تصور ہے اور اس کا ترجمہ "انسانیت" کرنا غلط ہے۔ "انسانیت" کا درست انگریزی ترجمہ "Mankind" ہے اور یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں 18 ویں صدی سے قبل رائج تھا۔ "Humanity" کا تصور "حقیقی انسانیت" کے تصور کی رد ہے، ان معنوں میں کہ human being عبدیت اور تخلیقیت کا اُصولاً اور عملاً انکار ہے۔ Kant کے مطابق human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل "autonomy" یعنی خود ارادیت اور خود مختاریت ہے۔ چنانچہ ہیومن بینگ وہ تصورِ انفرادیت ہے جس کے مطابق فرد ایک self-determined and self governed being (قائم بالذات اور خود مختار ہستی) ہے۔ اس انفرادیت کا بنیادی ایمان و احساس عبدیت نہیں بلکہ آزادی یعنی بغاوت ہے۔ انسان اپنے ربّ کے ارادے کا مطیع ہوتا ہے جبکہ human being خود اپنا ربّ ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے، اسے کر گزرنے کا مکلف سمجھتا ہے۔ لہٰذا ہیومن کا درست ترجمہ "انسان " نہیں بلکہ "شیطان" ہے (Human is actually demon) کیونکہ ہیومن بالکل اسی طرح اپنے ربّ کا باغی ہے جس طرح ابلیس شیطان ۔ معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس کا معنی "انسانی حقوق" نہیں بلکہ "شیطانی حقوق" ہے۔

بیسویں صدی کا مشہور فلسفی فوکالٹ درست کہتا ہے کہ "ہیومن " تو پیدا ہی سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ہوا۔17  اس سے قبل اس کا وجود نہ تھا کیونکہ تمام مذاہب میں انسان کا تصور ہمیشہ "عبد" ہی رہا ہے گو کہ اس عبدیت کی معتبر شکل کی تفصیلات میں مذاہب کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ پس جب "ہیومن " کا تصور ہی اسلام کے بنیادی تصورِ انسان سے متصادم ہے تو "اسلامی ہیومن رائٹس " کی اصطلاح ایجاد کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے "اسلامی کفر"۔ ظاہر ہے جس طرح "اسلامی عیسائیت " کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اسی طرح اسلامی ہیومن رائٹس بھی نہیں ہو سکتے۔ ہیومن رائٹس کے مقابلے میں اسلام میں "حقوق العباد " کا تصو رہے اور حقوق العباد "ہیومن " کے نہیں بلکہ "عبد " کے حقوق ہیں ۔ اسلام میں ہیومن کے لئے کوئی حقوق نہیں کیونکہ وہ تو خدا کا باغی ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ہیومن رائٹس درحقیقت حقوق العبا د کا ردّ ہیں ۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسلام میں "حقوق العباد" کی اس قدر جامع تفسیرکے ہوتے ہوئے اسلامی تحریکات اور مسلم مفکرین کو ہیومن رائٹس جیسے تصورات کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔ اصل بات جس کی طرف اسلامی تحریکات کو دعوت دینا چاہئے، وہ ہیومن رائٹس کی کوئی اسلامی تعبیر نہیں بلکہ ہیومن رائٹس کی تردید ہے کیونکہ اُلوہیت ِانسانی پر ایمان لانا کفر و شرک کی بدترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ ہیومن رائٹس وغیرہ جیسے تصورات کی اسلامی تشریحات پیش کرنے کی وجہ سرمایہ داری کو ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر نہ سمجھ پاناہے، مسلم مفکرین بالعموم مغربی انفرادیت (ہیومن بینگ)، نظامِ معاشرت (سول سوسائٹی)، معیشت (مارکیٹ) اور ریاست (جمہوریت) کو باہم مربوط اکائیوں کے بجائے منتشر اَجزا تصور کرکے فرض کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک جزو کو دیگر تمام اجزا سے کاٹ کر اپنانا ممکن ہے۔

اوپر واضح کیا گیا تھا کہ ہیومن رائٹس کا جواز کسی مذہبی علمیت یا ثقافتی روایت وغیرہ سے اَخذ نہیں کیا جاتا بلکہ اُنہیں ایسے "فطری حقوق" فرض کیا جاتا ہے جو اپنا جواز از خود ہیں 18  اور جنہیں کسی دیگر تصورِ خیر مثلاً مذہب وغیرہ کے نام پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں اسلام فرد کے کسی ایسے حق کا قائل نہیں ، جس کا جواز اسلام سے باہر یا ماورا کسی اُصول سے فراہم کیا جاسکتا ہو۔ بندہ از خود کسی حق کا اہل ہے ہی نہیں بلکہ اس کے ربّ نے بطورِ عنایت اسے چند حقوق عطا فرمائے ہیں ، جو اللہ کی بندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں ۔ اور اس کے حقو ق وہی ہیں جو شارع کے قول سے ثابت ہوتے ہیں ۔

یہ بھی واضح رہے کہ ہیومن رائٹس "ایک مجرد خودمختار انفرادیت " (Abstract Human) کے حقوق ہیں اور حقوق کی اس تفسیر میں فرد کی واقعاتی حیثیت کی کوئی رعایت موجود نہیں ۔ اس کے مقابلے میں شارع کی عطا کردہ تقسیم حقوق میں "مسلمانیت و کفر"، "مرد و عورت"، "تقوی وفسق" وغیرہ جیسی صفات بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ہیومن رائٹس کے در پردہ یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ اجتماعی عدل کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ حقوق کا تعین تمام تصوراتِ خیر سے ماورا رہ کر کیا جانا چاہئے یعنی حقوق کی تعیین و تفسیر کسی مخصوص تصورِ خیر سے اخذ نہیں کی جانی چاہئے اور نہ ہی اس میں کسی مخصوص تصورِ خیر کی رعایت کی جانی چاہئے۔ پس جب ہم "ہیومن رائٹس" کی تشریح قرآن و سنت سے اَخذ کرنے کی بات کرتے ہیں تو تضاد بیانی کرتے ہیں ، وہ ایسے کہ قرآن و سنت سے ماخوذ نظامِ حقوق در حقیقت مخصوص (اسلامی) تصورِ خیر کا عکاس ہوگا اور یہ ہیومن رائٹس کے بنیادی فلسفے ہی کا ردّ ہے۔ چنانچہ قرآن وسنت سے اخذ کردہ حقوق کی تفسیر کو "حقوق العباد" تو کہا جا سکتا ہے مگر ہیومن رائٹس نہیں ۔

پھر جیسے بتایا گیا کہ ہیومن رائٹس مخصوص علمی تہذیب سے برآمد ہونے والی ایک علمی اصطلاح ہے اور اصطلاح کو اس کے تاریخی و اَقداری پس منظر سے ہٹا کر استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ اپنی علمیت کو کسی دوسری تہذیبی اصطلاح میں بیان کرنے کا مطلب دوسرے تہذیبی تصورات کو اپنی علمیت میں در اندازی کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کسی تہذیبی اقدار کے حاملین اس بات پر کبھی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے کہ ان کے شعائر کی نمائندہ اصطلاحات کو کسی دوسری تہذیب کے لوگ اپنے خود ساختہ معنی میں استعمال کرکے عام کرنے کی کوشش کریں ۔ مثلاً ہمارے ہاں قادیانی خود کو "مسلمان" اور اپنے مذہب کو "اسلام" کہتے ہیں مگر ہم اصطلاحِ "اسلام" کے اس فکری اغوا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور نہ ہی "قادیانی اسلام" کی کسی اصطلاح کو برداشت کرنے پر تیار ہوتے ہیں بلکہ ہم قادیانیوں کو ہمیشہ "خارج از اسلام" اور "کافر" ہی کہتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک اسلام صرف وہی ہے جو معتبر ذرائع کے ذریعے قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کی صورت میں نسل در نسل ہمیں منتقل ہوا، اس کے علاوہ اسلام کسی شے کا نام نہیں ۔ بالکل اسی طرح ہیومن رائٹس بھی ایک تہذیب کی نمائندہ اصطلاح ہے جسے اگر ہم اسلامیانا چاہیں تب بھی اہل مغرب اس کی کسی مسخ شدہ تشریح کو سند ماننے پر ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ آپ اپنی خوشی کے لئے جو اصطلاح وضع کرنا چاہیں کیجئے مگر یہ اُمید رکھنا کہ مغرب آپ سے اسی اصطلاحی معنی پر مکالمہ کرے گا، خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ 19

یاد رہنا چاہئے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک کوئی ایسی شے نہیں جو اسلامی تاریخ و علمیت سے برآمد ہوئی ہو۔ مگر جب ہم ہیومن رائٹس اور جمہوری فریم ورک کی آفاقیت کو قبول کرکے اسلامی تاریخ کو اس پیمانے پر جانچنے اور کسنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طرف ہم اس کی آفاقیت کے دعوے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نتیجتاً ہم دفاعی پوزیشن اختیار کرکے یا تو اپنی تاریخ کے تسلسل پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں 20 اور یا پھر بے سرو پا تاویلات اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

ہیومن رائٹس اور اخلاقیات کا خاتمہ: اس بحث سے واضح ہوجانا چاہئے کہ ہیومن رائٹس کا مطلب درحقیقت اخلاقیات (morality) کا انکار کرنا ہے۔ اخلاقیات اور قدر کے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ انسان خواہشات میں ترجیح کا پیمانہ قائم کرسکے یعنی وہ یہ سوال اُٹھاسکے کہ اسے کیا چاہنا چاہئے اور کیا نہیں ، کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ مگر ہیومن رائٹس فریم ورک کے مطابق یہ سوال کہ انسا ن کو کس چیز کی خواہش کرنا چاہئے ایک ناقابل تفہیم سوال ہے کیونکہ یہ ہر فرد کے اس حق کو مانتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی جو ترتیب متعین کرنا چاہے کرے نیز یہ خواہشات کی تمام ترجیحات کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔ مشہور لبرل فلسفی Rawls کہتا ہے کہ تم جو کچھ بھی چاہتے ہو، وہ ٹھیک ہے یعنی اس بات کو حتمی سمجھو کہ انسان جو چاہتا ہے وہ اس کا مکلف ہے، اور یہ ممکن ہی نہیں کہ تم کہہ سکو کہ انسان کو کیا چاہنا چاہئے، اور ہر انسان اس چاہنے کے حق میں برابر ہے۔ گویا یہ لاعلمی لازم جانو کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جو یہ بتائے کہ انسان جو چاہتا ہے، اسے چاہنا چاہئے یا نہیں ؟ پس جتنا زیادہ وہ دنیا پر تصرف کرتا ہے اتنی ہی زیادہ آزادی کا وہ مستحق ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس فرد اپنی ذاتی زندگی میں جو بھی خواہشات رکھنا چاہے، رکھ سکتا ہے اس تحدید کے ساتھ کہ وہ خواہش اُصول آزادی کو رد نہ کرے۔

پس ہیومن رائٹس کے مطابق اخلاقیات کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں ، کسی شے کی قدر کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ کوئی انسان اسے کتنی شدت کے ساتھ اختیار کرتا ہے، بقول سارتر ""اہم بات یہ نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ کیسے چاہتے ہیں ۔"" اگر ہنری زنا کرنے سے زیادہ اور کتاب پڑھنے سے کم لذت حاصل کرتا ہے تو وہ زنا کو بدرجہ کتاب، زیادہ قدر دینے کا حقدار ہوگا لیکن اسے بش کا یہ حق تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ کتاب پڑھنے سے حاصل شدہ لذت کو زنا سے حاصل شدہ لذت کے مقابلے میں زیادہ قدر دے سکے۔ تعین قدر کے اس تصور میں ہیومن آزاد ہے کہ وہ قدر کو اپنے ارادہ کے مطابق متعین کرے، لیکن قدر کا تعین اس طریقہ سے کیا جائے گا کہ ہر human being کو قدر کا تعین اپنے ارادے کے مطابق کرنے کا اختیار حاصل ہو۔

واضح رہنا چاہئے کہ نفس لوامہ خواہشات کو صرف احکامِ الٰہی کے سامنے تول کر ہی پرکھ سکتا ہے اور اگر انسان احکاماتِ الٰہی سے انکار کردے تو روح اور نفس کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور نفس امارہ نفس لوامہ پر غالب آجاتا ہے۔ مشہور فلسفی ہائیڈیگر کہتا ہے کہ مغربی علمی تناظر میں "نفس لوامہ کی بحث صرف خاموشی ہے" (discourse of discriminatury self is pure silence)۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک اختیار کرنے کا واضح مطلب خیر کو فرد کا حق قرار دینا ہے اور ایسا ماننا اثباتِ اخلاقیات کے امکان کو ردّ کرنا ہے۔ اس مقام پر یہ دھوکہ نہیں ہونا چاہئے کہ انکارِ اخلاقیات کا مطلب یہ ہے کہ ہیومن رائٹس کسی ماورائے اخلاق (amoral)نظم اجتماعی کی بنیاد بنتا ہے، بلکہ درحقیقت یہ غیر اخلاقی (immoral) نظم کی تشکیل و فروغ کا باعث بنتا ہے۔

یہ فلسفہ نفس پرستی کے تمام ذلیل ترین مظاہر کو عام کرنے نیز معاشرے میں ان کی اشاعت کی اجازت دینے کا دوسرا نام ہے اور اِنہی معنوں میں ہیومن رائٹس فریم ورک ایک ایسے خاص کلچر کو فروغ دیتا ہے جو مذہبی کلچر کی ضد ہوتا ہے ۔ بھلا ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی معاشرے یا کلچر میں بیک وقت حیا اور بے حیائی، خدا پرستی اور نفس پرستی، فکر ِآخرت اورفکر ِدنیا، زہد اور حب مال، شوقِ شہادت اور کرا ہیت ِموت، قناعت اور حرص وغیرہ کی صفات ایک ساتھ پنپ سکیں ؟ اخلاقیات کا مطلب صرف اور صرف اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت و طریقت اسلامی کا فروغ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہیومن رائٹس ان تمام کی فوقیت کا ردّ ہیں ۔ یاد رہے کہ تعلیماتِ انبیاء کے سوا اس کائنات میں ایسا کوئی ذریعہ علم نہیں جس کے ذریعے انسان یہ معلوم کرسکے کہ اسے کیا چاہنا چاہئے اور کیا نہیں ، نیز شریعت کے علاوہ کسی خیراور اخلاقیات کا کوئی جواز سرے سے موجود نہیں ۔

خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ہیومن رائٹس ردّ ہیں :
  • حقوق العباد کا
  • امکان اخلاقیات کا
  • اسلام کے الحق ہونے کا
  • امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقت ِحال سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نوٹ
گذشتہ شمارہ میں اسی مضمون کا ایک صفحہ طباعتی مرحلہ کی کوتاہی سے بالکل الٹ شائع ہوگیا تھا، یعنی صفحہ کا عکس طبع ہوا تھا، اس شمارہ میں اس صفحہ کو سیدھا شائع کیا جارہا ہے، جس کی فوٹو کاپی کرکے سابقہ شمارہ پر چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ یا اس شمارہ میں شمارہ ہذا کے صفحہ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ شکریہ!

حوالہ جات
i.  فلسفہTolerance کی وضاحت کے لئے دیکھئے مضمون کا حصہ دوم
 

جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ( قسط 1)

جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ (قسط 2)


1.  ذاتی زندگی صرف اور صرف فرد سے متعلق ہے۔ اگر اس زندگی کا تعلق بیٹے، بیوی، بہن، باپ سے ہو تو یہ زندگی ذاتی نہیں رہے گی بلکہ اجتماعی زندگی (Public Life)کہلائے گی۔ اس دائرہ کار کے شروع ہوتے ہی فرد کی آزادی ختم ہوجائے گی اور ہیومن رائٹس کے قانون کا اطلاق شروع ہوجائے گا جس کے مطابق وہ اپنے بچوں اور بیوی کے معاملات میں بھی کسی قسم کی مداخلت کا حق نہیں رکھتا ۔ اسی لیے مغرب میں اگر باپ بچے کو ڈانٹ دے یا باہر جانے کی اجازت نہ دے تو بچہ پولیس کو طلب کرلیتا ہے کہ باپ میری ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے اور بیویاں ہر سال عدالتوں سے شوہر کے خراٹوں پر طلاق لیتی ہیں کہ شوہر کے خراٹوں سے ان کی پرسکون نیند کی آزادی مجروح ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرازم میں ذاتی زندگی صرف "I"(میں ) تک محدود ہے، اس کے سوا تمام زندگی اجتماعی یعنی پبلک لائف ہے۔ اس میں ریاست کے قوانین کے سوا کسی کو مداخلت کا حق نہیں ، ایسی مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اوراسی کا نام بنیادی حقوق ہے جس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جمہوری ریاست درحقیقت جس قانون کو بالاتر تسلیم کرتی ہیں وہ یہی ہیومن رائٹس ہی ہیں ، نیز اس کا مقصد ِوجود ہی ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے ۔

2.  مضمون کے اس حصے کی تیاری کے لئے راقم الحروف ڈاکٹر عبد الوہاب سوری اور مولانا محبوب الحسن کی رہنمائی کا شکر گزار ہے ۔
3. ہیومن رائٹس کی اسلامی تعبیر کے امکانات کی حمایت کرنے والے مسلم مفکرین اس بات کو بنیاد بناتے ہیں کہ مختلف ممالک میں ہیومن رائٹس کی تشریحات میں اختلاف پایا جاتا ہے (مثلاً ہیومن رائٹس پر مبنی بعض دستوری جمہوری ریاستوں میں جنسی تعلقات کی بہت سی صورتوں وغیرہ کی اجازت نہیں دی جاتی) جس سے ثابت ہوا کہ ہیومن رائٹس کی قرآنی تعبیر پیش کرنا ممکن ہے۔ البتہ یہ دلیل بالکل غلط ہے، اس میں شک نہیں کہ ابتداء ًہر ملک اور قوم اپنے تئیں ہیومن رائٹس کو اپنے مذہبی، روایتی و ثقافتی خیر کے فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اپنانے کی کوشش ہی کرتی ہے مگر جیسا کہ واضح کیا گیا کہ ہیومن رائٹس 'فرد کے حق کی خیر پر فوقیت ' کی حفاظت کرتی ہے لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روایتی جکڑ بندیاں بے معنی ہو کر تحلیل ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ مثلاً ساٹھ کی دہائی میں امریکہ کے سرکاری ٹی وی چینل اور موجودہ پاکستان کے پی ٹی وی کی ثقافتی حکمت ِعملی میں کوئی خاص فرق نہ تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ عریانی و فحاشی کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ درحقیقت ہیومن رائٹس فریم ورک کے اندر فرد کے پاس ہمیشہ یہ موقع موجود رہتا ہے کہ وہ خیر کی کسی مخصوص مروّجہ تعبیر اور زندگی گزارنے کے کسی مخصوص طریقے کے خلاف بغاوت کرکے اپنے اظہارِ آزادی کے حق کو استعمال کرلے اور ہیومن رائٹس پر مبنی ریاست بالآخر اس کے اس قانونی حق کو ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
4. اسلام نے جو حیثیت 'اقامت ِدین' کو مسلم معاشرے میں دی ہے، اور اس کو دیگر تمام ادیان پر غالب قرار دیا ہے، اسی بنا پر کسی بھی مسلم معاشرے میں اللہ کی بندگی (مسلمانی) کرنے والوں کو تو اپنا انفرادی واجتماعی نظام قائم کرنے کا پابند کیا جاتاہے، اور اسلام کا دعویٰ کرنے والوں کو ترغیب وتلقین کے علاوہ ریاستی جبر وسزا کے ذریعے بھی اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر ادیان کے حاملین پر اسلام جبر واِکراہ کا قائل نہیں ، اور اسلام اُنہیں اپنی ذاتی زندگی میں اپنے دین پر عمل کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، جبکہ دار الاسلام میں رہنے کی بنا پر وہ جزیہ کی ادائیگی کے ذمہ دارٹھہرتے ہیں البتہ ان کے اجتماعی دین مثلاً ظاہری عبادات، شعارات کو نمایاں کرنا، اپنے دین کی تلقین وتبلیغ کرنا، اس کی بنا پر سزا وجزا کا نظام اور تعلیم وتبلیغ کی اجازت گوارا نہیں کی جاتی۔ اگر اس اسلامی تصور کا تقابل موجودہ مغربی ریاست سے کریں تو وہاں انسانی حقوق ایک غالب اور انفرادی و اجتماعی 'دین' ہے جس کی نگرانی ریاستی پولیس کو سونپی جاتی ہے، جبکہ اسلام سمیت دیگر جملہ اَدیان کو یہاں وہی حیثیت دی جاتی ہے جو دارالاسلام میں اسلام دیگر مذاہب کو دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی ذاتی زندگی کی حد تک ہی اختیارکرسکتے ہیں ۔ سادہ الفاظ میں اسلام اپنی ریاست (دار الاسلام) میں جو حیثیت غیر اَدیان کو دیتا ہے کہ ان کے حاملین ذاتی زندگی کی حد تک اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کے مجاز ہیں ، بعینہ جدید مغربی ریاست جملہ اَدیان کو یہی حیثیت اپنی ریاست میں دیتی ہے کہ وہاں جملہ ادیان ونظریات پر ذاتی زندگی کی حد تک ہی عمل کرنا گوارا ہوسکتا ہے، اور مرکزی دین ہیومنزم اور انسانوں کی حاکمیت پرمبنی ہوگا۔مزید برآں اسلام کا تصور امر بالمعروف ونہی عن المنکرمسلمانوں سے ایک اہم ترین تقاضا ہے، حتی کہ علامہ ابن تیمیہ نے اسے اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا ہے۔ دارالاسلام کے اس تصور کا جدید ریاست میں پولیس کے کردارسے تقابل کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح پولیس کا فرض ہے کہ انسانوں کے باہمی اشتراک (پارلیمنٹ) سے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کی نگہداشت کرے، اسی طرح اللہ کی بندگی کے لئے قائم ہونے والی ریاست میں اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نگہداشت کرنا نہ صرف ہر مسلمان کا فرض ٹھہرتا ہے بلکہ اسلامی ریاست کا بھی فرض ہے کہ اللہ کے قوانین کی مخالفت کرنے والوں کی بازپرس کرے اور شرعی واسلامی احکامات وہدایات کی خلاف ورزی کو روکے اور یہی امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے یعنی شرعی قوانین کی پابندی کی نگرانی اور تلقین کرنا۔ اس لحاظ سے بھی غور کیا جائے تو اسلامی ریاست اور جدید مغربی ریاست اپنے مقصد وہدف کے لحاظ سے باہم متضاد ہیں ۔لیکن اس تضاد کا فہم اہل بصیرت کو ہی حاصل ہے!! (ڈاکٹر حسن مدنی)
5. ہیومن یا سرمایہ دارانہ انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ 'میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکوں ' (preference for preference itself) نہ کہ کوئی مخصوص چاہت ، کیونکہ جونہی میں کسی مخصوص چاہت کو اپنی ذات کا محور و مقصد بناتا ہوں توآزادی ختم ہوجاتی ہے جسے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری خوبصورت پیرائے میں یوں کہتے ہیں کہ"his self can possess ends but cannot be constituted by them" ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مغرب کے پاس خیر کا کوئی substantive(مثبت،منجمدیا حقیقی ) تصور سرے سے موجود ہی نہیں ، کیونکہ جس آزادی کو وہ خیر اعلیٰ گردانتے ہیں ، اس کا مافیہ یا مشمول کچھ نہیں بلکہ وہ عدمِ محض ہے۔ یہاں خیر 'کوئی مخصوص چاہت ' نہیں بلکہ 'کسی بھی چاہت کو اختیار کرسکنے کا حق' ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی تصور خیر درحقیقت ِعدم خیر (absence of any good) ، یعنی ہر خیر کی نفی کا نام ہے اور یہ عدم خیر ہی ان کے خیال میں خیر اعلیٰ ہے۔ انہی معنی میں مغربی تصور خیر اصلاً شر محض (absolute evil)ہے،کیونکہ شر درحقیقت عدمِ خیر ہی کا نام ہے، اس کااپنا علیحدہ کوئی وجود نہیں ۔ یہ مقام ان مسلم مفکرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی اصل(Inner core) خیر پر مبنی ہے اور اس کے ظاہر میں کچھ برائیاں اس لئے در آئی ہیں کہ اس خیر کو برتنے میں انسانی کو تاہیاں ہو گئیں ۔ اسی طرح معاملہ یہ بھی نہیں کہ اسلام کا ایک تصورِ خیر ہے اور مغرب کے پاس کوئی دوسرا، بلکہ مغربی تہذیب میں کسی 'بلند اور راست' مقصد کا وجود ہی سرے سے نا ممکن ہے کیونکہ جس شے کو وہ خیر سمجھتے ہیں ، وہی اصل شر ہے۔ جسے وہ عدل سمجھتے ہیں ، وہی اصلاً ظلم ہے اور اسی لئے نامور مغربی مفکر اور نومسلم مترجم قرآن مارماڈیوک پکتھال فرمایا کرتے تھے کہ مغربی تہذیب در حقیقت تہذیب نہیں 'بربریت' (savegery) یعنی تہذیب کی ضد ہے، کیونکہ اصلاً تو تہذیب صرف اسلام ہی ہے ۔
6. درحقیقت اس دنیا میں غیر جانبداریت (neutralism) بمعنی 'عدم رائے' (no position) کا کوئی وجود نہیں ، بلکہ غیر جانبداری کے دعویٰ کا اصل مطلب ہوتا ہے 'کسی اُصول کے مطابق رائے دینا یا فیصلہ کرنا'۔ جو لوگ اس معنی میں غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہیں گویا وہ تمام اُصولوں سے ماورا کہیں خلا میں معلق ہو کر اپنی رائے دے رہے ہیں ؛ فی الحقیقت وہ خوش فہمی کا شکار ہیں ، غیر جانبدار (neutral) ہونے کا دعوی کرنا محض فریب ہے، اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ مثلاً یہ کہنا کہ 'فلاں مسئلے میں آپ مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کریں ، محض بے وقوفی ہے۔ کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذاتِ خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں ؟ ائمہ علم الکلام نے المنزلة بین المنزلتین کے عقیدے کی بیخ کنی اسی گمراہی سے اُمت کو بچانے کے لیے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا: (فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ‌ هُدًى مِّنَ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥٠...سورۃ القصص) (پس اے رسول! اگر وہ آپ کے ارشاد کو قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)۔ مزید فرمایا:(وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِ‌نَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ...﴿٢٨﴾...سورۃ الکہف)(اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز (وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ‌ الرَّ‌حْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِ‌ينٌ ﴿٣٦...سورۃ الزخرف) (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم ا س کے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسکا دوست بن جاتا ہے)
7. اسی فکر سے متاثر ہو کر وحید الدین خاں اور ان کے فکری ہم نوا جاوید احمد غامدی افضلیت بین الانبیاء اور اسلام کی دوسرے مذاہب پر کاملیت کے اعتبارسے برتری وغیرہ کے اجماعی مسائل کے خلاف عوام الناس کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تے چلے آ رہے ہیں ۔اس طرزِ فکر کے پیچھے کارفرما فلسفہ یہ ہے!
8. یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ فرد، معاشرہ اور ریاست ایک کل (organic-whole) کا نام ہے جس کے اجزاے ترکیبی ایک دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر اسلامی نظام زندگی پنپ سکتا ہے، وہ ایک سراب کی تلاش میں ہیں کیونکہ غیر اسلامی ریاست میں اسلامی انفرادیت اور معاشرت کبھی عام نہیں ہوسکتے۔ ریاست تو نام ہی نظامِ اقتدار اور جبر کا ہے جس کامقصد جبری مقبول یا عمومی طور پر برداشت کی جانے والی معاشرتی اقدار کا فروغ ہوتا ہے تو لامحالہ کافرانہ ریاست کافرانہ معاشرت ہی کو مسلط کرے گی جس کے نتیجے میں ایک کافرانہ انفرادیت کے فروغ اور عموم کے مواقع ہی پنپ سکتے ہیں ۔ اسی سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہمارے فقہاے کرام بلا شرعی عذر کیوں کافر ریاستوں میں رہائش اختیار کرنے کے خلاف تھے۔
9. مجاہدین لال مسجد کے ساتھ ہونے والا سلوک اس کی واضح مثال ہے جہاں ریاست نے زنا کاری پھیلانے والے عناصر کی خبر لینے کے بجائے اُصولِ آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے مجاہدین پر مظالم توڑ کر 'ہیومن رائٹس' کا تحفظ کیا ۔
10. دیکھئے رالز کی کتاب Theory of Justice
11. اسلامی حلقے اکثر امریکہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ عراق و افغانستان وغیرہ میں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کررہا ہے جبکہ یہ الزام اُصولاً غلط ہے کیونکہ ہیومن رائٹس فریم ورک کے مطابق ایسے لوگ جو ہیومن ہونے کو نہیں مانتے یعنی جو Non-Humans ہیں ، اُنہیں قتل کرناکوئی جرم نہیں ۔ Human وہ ہے جو انسان کو قائم بالذات یعنی الصَّمد سمجھے اور جو حصولِ آزادی کو دیگر تمام مقاصد زندگی پر ترجیح دے۔ وہ لوگ جو نہ صرف یہ کہ لبرل آزادیوں کے منکر ہوں ، بلکہ ان کے خلاف عملاً بر سر پیکار ہوں (مثلاً طالبان) تو ان کا قتل عین جائز ہے کہ وہ ہیومن ہیں ہی نہیں ، ہیومن رائٹس تو ہیومن کے حقوق ہوتے ہیں ، نہ کہ عبد کے ۔
12. پاکستان اور ترکی میں برپا کی جانے والی جمہوری جدوجہد کی پوری تاریخ اس نتیجے کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں جمہوری جدوجہد کرنے والی اسلامی تحریکات بالآخر خیر کے بجائے حقوق کی سیاست کرتی نظر آتی ہیں کیونکہ جمہوریت کے حصار میں حقوق کی سیاست کے علاوہ ہر دوسری دعوت ایک مہمل بات بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ 'حقوق کی بالادستی' کا ہی نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً دینی جماعتیں ووٹ لینے کے عمل کے دوران اور اس کے بعد ویسی ہی سیاست کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو دیگر لادینی جماعتوں کا شعار ہے جیسا کہ کراچی کی شہری حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت کے تجربات سے عین واضح ہے۔ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں آج دینی جماعتوں کے پاس سیکولر عدلیہ اور فحاشی پھیلانے والے میڈیا کی آزادی، مہنگائی و بے روز گاری کے خاتمے، بجلی و آٹے کے بحران پر قابو پانے وغیرہ کے علاوہ کوئی سیاسی ایجنڈا سرے سے باقی ہی نہیں رہا اور احیاے اسلام محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کررہ گیا ہے۔ جمہوری اسلامی مفکرین کے خیال میں پاکستان کے اصل مسائل: فوج کی بے جامداخلت، شخصی حکمرانی، انصاف کا فقدان، معاشی ناانصافی، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری وغیرہ ہیں نہ کہ ترکِ جہاد، عدمِ نفاذِ شریعت، شعائر ِ اسلامی سے عوامی اور حکومتی رو گرادنی، عریانی و فحاشی کا فروغ، سودی کاروبار کا لین دین ، عوام الناس میں دنیا داری اور موت سے غفلت کے رجحانات کا بڑھ جانا... وغیرہ
13. سرمایہ داری (آزادی، مساوات و ترقی کی اقدار پر مبنی معاشرتی و ریاستی تشکیل) کا جواز عموماً دو بنیادوں پر فراہم کیا جاتا ہے :
 الف) یہ انسانی فطرت اور عقل کا تقاضا ہے (Capitalism is rational)، جیسا کہ لبرل مفکرین کا خیال ہے کہ جب بھی انسان کو آزاد چھوڑا جائے گا، وہ فطرتاً ایسا ہی نظام زندگی قائم کرے گا ۔
 ب) یہ تاریخی عمل و جبر کا ایک لازمی نتیجہ وجزو ہے جس سے مفر ممکن نہیں (Capitalism is historical)، جیسا کہ اشتراکی مفکرین کا خیال ہے ۔
 ہمارے نزدیک سرمایہ داری نہ تو عقلی و فطری شے ہے اور نہ تاریخی جبر و حقیقت، بلکہ یہ شر (evil) ہے یعنی سرمایہ داری کا غلبہ فطرتِ انسانی یا تاریخی جبر کا نہیں ، درحقیقت رذائل نفس (خصوصاً حرص و حسد) اور ان پر مبنی اِدارتی صف بندی کی عمومیت کا نتیجہ ہے ۔
14. مغربی انفردایت یعنی ہیومن بینگ کا بنیادی ایمان و مقصد حصولِ آزادی یعنی اپنے ربّ سے بغاوت ہے اور اس کے بنیادی احساسات: شہوت و غضب اور اضطرار و یاسیت کی کیفیات ہیں ۔ مغربی مفکرین ان احساسات کو عین انسانی فطرت گردانتے ہیں ، مثلاً کیرکگارڈ (Kirkegard) کے بقول آدم جنت میں اپنی تنہائی کی وجہ سے اِضطرار کا شکار ہوئے اور پہلا گناہ کر بیٹھے، لہٰذا تنہائی اور اضطرار کا احساس مقدم اور دائمی ہے اور ان احساسات سے دنیاوی زندگی میں نجات ناممکن ہے۔ مشہور جرمن فلسفی ہائیڈیگر کہتا ہے کہ 'انسان اشیا کو پاتا ہے، اُنہیں تخلیق نہیں کرسکتا، وہ کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے (we are thrown into the universe)، ہائیڈیگر Thrownessہی کو انسان کی فطری کیفیت کہتا ہے اور Throwness کی یہ کیفیت درحقیقت احساسِ تنہائی (کہ انسان اس دنیا میں اکیلا ہے) کے تصور سے پیدا ہوتی ہے ۔
15. حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرلے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی روش پر چلتا رہے تو آہستہ آہستہ انسان کا پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ گناہ کرنے سے انسان اپنی فطرت (رجوع الیٰ اللہ) کو آلودہ کرتا ہے، نہ کہ اس کے تقاضے پورا کرتا ہے۔ اور یہ پہلے واضح کیا گیا کہ گناہ کا مطلب ارادئہ شرعیۂ خداوندی کی مخالفت کرنا ہے، ثابت ہوا کہ ارادئہ خداوندی کی مخالفت درحقیقت فطرتِ انسانی کی مخالفت ہے ۔
16. بیسویں صدی کے مشہور زمانہ لبرل مفکر رالز (Rawls) کے خیالات کا تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت عین واضح ہوجاتی ہے:
٭ 1971ء میں رالز اپنی کتاب Theory of Justiceمیں لبرل (یعنی ہیومن رائٹس) فریم ورک کی ایک آفاقی اخلاقی توجیہ پیش کرتا ہے ۔
٭ 1993ء میں اپنی فکر پر Communitarianمفکرین کی تنقید کے جواب میں لبرل فریم ورک کی اخلاقی آفاقیت کے دعوے سے پسپائی اختیار کرکے رالز اپنی کتاب Political Liberalism میں لبرل فریم ورک کی ایک ایسی محدود سیاسی تعبیر (restricted version) پیش کرتا ہے جو محض امریکی تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے ۔
٭ 1999ء میں اپنی کتاب Law of Peopleمیں رالز ہیومن رائٹس کی آفاقیت پر سمجھوتہ کرتا ہے کہ اس کے خیال میں یہ رائٹس صرف بالفعل قائم لبرل معاشروں کے لئے ہی قابل عمل ہیں اور جو معاشرے لبرل نہیں وہاں ان کی عملیت پر اصرار کرنا غلط ہے ۔
17. دیکھئے فوکالٹ کا مضمون What is Enlightenment?
18. چنانچہ مشہور امریکی مفکر جیفرسن (Jefferson) کہتا ہے :
"We hold these truths to be self-evident, that all men are created equal; that they are endowed by their Creator with inherent and inalienable rights; that among these, are life, liberty, and the pursuit of happiness" [Declaration of Independence, Papers 1:315, emphasis added]
''ہم ان حقائق اور اصولوں کو بدیہی (یعنی ہر دلیل سے ماورا) سمجھتے ہیں کہ تمام افراد پیدائشی طور پر مساوی ہیں ، نیز یہ کہ ان کے خالق نے اُنہیں چند ناقابل ردّ حقوق ودیعت کردیے ہیں جو یہ ہیں : زندگی، آزادی اور (اپنی خواہشات کے مطابق) حصولِ لذت کی جستجو۔' '
19. اہل مغرب کی ہر نمائندہ اصطلاح کو 'اسلامی' کا سابقہ لگاکر ترویج دینا در حقیقت اسلامی تعلیمات کو مغربی تناظر میں پہچاننے کا نتیجہ ہے اور یہ طرزِ فکر مرعوبیت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ غور تو کیجئے کہ تحریک ِتنویر کے آدرشوں پر عمل پیرا ہوکر مغربی اہل علم نے عیسائی علمیت و تہذیبی اداروں کو شکست دی مگر کسی تجدد زدہ مفکر نے کسی نمائندہ عیسائی اصطلاح کو اپنی علمیت میں کوئی جگہ نہ دی۔ اسی طرح استعمار نے مسلمان علاقوں میں خلافت کے ادارے کو ختم کیا تو مسلمان عوام میں اپنی جگہ بنانے کیلئے 'جمہوری خلافت' یا 'مغربی خلافت' جیسی اصطلاحات استعمال نہیں کیں بلکہ ہر جگہ اپنی تہذیبی و علمی روایت سے برآمد شدہ اصطلاح 'جمہوریت' ہی متعارف کروائی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اہل علم میں اتنی علمی جرات بھی نہیں کہ وہ مغرب کی نمائندہ اصطلاحات کو ردّ کرکے ان کی جگہ اسلامی تصورات کے فروغ پر ہی اِصرار کریں ؟ دور جدید کے چند معتزلہ جو دین کی تعبیر نو کا شوق رکھتے ہیں ، ان کی مرعوبیت کی حالت یہ ہے کہ اسلامی اصطلاح 'فقہ' کے بجائے ہر جگہ 'قانون' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں (مثلاً قانونِ عبادت، قانون معاشرت وغیرہ) حالانکہ لفظ قانون کو تصورِ فقہ کی جامعیت سے ویسی ہی نسبت ہے، جیسے کسی جزو کو کل سے ۔
20. یہ کہنا کہ 'اسلامی اور مسلمانوں کی تاریخ دوعلیحدہ چیزیں ہیں ' یا 'تاریخ اسلامی اسلام کے نام پر دھبہ ہے' وغیرہ اسی مرعوبیت کے شاخسانے ہیں ۔