خرید وفروخت کے زرّیں اسلامی اُصول

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی معاشرہ کے معاشی اور مالی معاملات مناسب اُصول و ضوابط کے پابند نہ ہو ں ، تب تک اس معاشرہ کی منصفانہ تشکیل ممکن نہیں ۔ اسلام چونکہ منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کا داعی ہے، اس لیے اسلام نے لین دین اور تجارتی تعلقات کے متعلق نہایت عمدہ اور جامع اُصول عطا کئے ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنی معیشت کوصحت مند بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں ۔

معیشت و تجارت کے حوالہ سے دین اسلام کا ایک نمایاں وصف ہے کہ یہ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی طرح لوگوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے اور نہ ہی آ ہنی زنجیروں میں جکڑتا ہے۔ بلکہ اس کا رویہ اعتدال پر مبنی ہے کہ جہاں اپنے ماننے والوں کوتجارت کے ذریعے کسب ِمال کی ترغیب دیتاہے، وہاں ایسے رہنمااُصول بھی پیش کرتا ہے جن کو ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے۔ ان اُصولوں کی پابندی کر کے جو بھی لین دین کیا جائے، وہ شریعت کی نگاہ میں جائز تصور ہو گاخواہ وہ دور جدید کی ہی پیداوار ہو، یعنی اسلام کا رویہ معتدل ہونے کے ساتھ ساتھ جامع اور لچک دار بھی ہے جو ہر دور کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ اسلام جہاں معاشی ترقی کا خواہاں ہے، وہاں دینی،روحانی اور اخلاقی ہدایات کا معلم بھی ہے جن کی خلاف ورزی کر کے فلاحی نظامِ معیشت کا قیام ممکن نہیں ،اس لیے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ انسان حصولِ مال کی خاطر بے مہار ہوجائے اورحلال و حرا م کا امتیاز ہی ختم کر دے کیونکہ اس طرح معاشی بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے پورا معاشرہ متاثرہوتا ہے، اس لیے اسلامی ریاست میں ان لوگوں کو کاروبارکی اجازت نہیں ہے جو ان احکام سے واقف نہ ہوں جو اسلام نے تجارت کے سلسلے میں دیئے ہیں ،چنانچہ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ بن خطاب کا فرمان ہے :


لَا یَبـِعْ فِي سُوقِنَا إلاَّ مَنْ تَفَقَّهَ فِي الدِّیْنِ 1
''ہمارے بازار وں میں وہی خرید وفروخت کرے جسے دین (تجارتی احکام )کی سمجھ ہو۔''

تیرھویں صدی ہجری کے مالکی فقیہ مَحْمَد بن احمدالرہونی رحمة اللہ علیہ (متوفی 1230ھ)نے اپنے شیخ ابو محمد رحمة اللہ علیہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے :
''کہ اُنہوں نے مراکش میں محتسب کو بازاروں میں گشت کرتے دیکھا، جوہر دکان کے پاس ٹھہرتااور دکان دارسے اس کے سامان سے متعلق لازمی احکام کے بارہ میں پوچھتااور یہ دریافت کرتاکہ ان میں سود کب شامل ہوتا ہے اور وہ اس سے کیسے محفوظ رہتا ہے؟ اگر وہ صحیح جواب دیتاتو اس کو دکان میں رہنے دیتا اور اگر اسے علم نہ ہوتاتو اسے دکان سے نکال دیتا اور کہتا تیرے لیے مسلمانوں کے بازار میں بیٹھنا ممکن نہیں تو لوگوں کو سود اور ناجائز کھلائے گا۔'' 2

اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ معیشت و تجارت کے بارہ میں اسلامی احکام پر عمل کر نے سے ہمارا سار اکاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور ہم معاشی اعتبارسے بہت پیچھے رہ جائیں گے ، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی اور دیرپا ترقی کے لیے تجارتی سرگرمیوں کو مناسب اُصول و ضوابط کے دائرہ میں رکھنا انتہائی ضروری ہے۔حقیقت پسندماہرین کے نزدیک موجودہ معاشی بحران کا بنیادی سبب معاشی سرگرمیوں کا اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے اور مارکیٹ کو اخلاقی ضوابط کا پابند بناکر معیشت میں بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔

اور اگر یہ ناقدین اسلام کے تجارتی احکام کاحقیقت پسندی سے جائزہ لیں توخودگواہی دیں گے کہ اسلامی طریقۂ تجارت میں شتر بے مہار آزادی، ہوس، مفاد پرستی اور خود غرضی کو کنٹرول کرنے کاشاندار میکانزم موجود ہے اوریہی وہ خرابیاں ہیں جو معاشرے کے اجتماعی مفادات پر اثر انداز ہوتی ہیں اورمعاشی بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کاباعث بنتی ہیں ۔

یہ حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتر صحابہ کرامؓ تجارت پیشہ تھے اور ان کی تمام کاروباری سرگرمیاں شریعت کے تابع ہی ہوتی تھیں مگر اس کے باوجود اُنہوں نے معاشی میدان میں بے مثال ترقی کی، ہر طرف مال و دولت کی فروانی، آسودگی اور خوش حالی عام تھی اور وسیع اسلامی مملکت میں کوئی زکوٰة قبول کرنے والا نہ ملتا تھا۔ معاشی اعتبار سے کمزور ترین افرادبھی زکوٰة ادا کرنے کے قابل ہو گئے تھے جو اس بات کابین ثبوت ہے کہ معاشی ترقی کے لیے بے قید آزادی ناگزیر نہیں بلکہ یہ مقصد حدود وقیود کے اندر رہ کر بھی بخو بی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

لین دین کے وہ کونسے احکام ہیں جو شریعت کی رو سے لازمی اور واجب التعمیل ہیں ،ذیل میں اس کی تفصیل پیش خدمت ہے :

بیع کا تعارف
مناسب ہوگا کہ خرید وفروخت کے متعلق احکامِ شرعیہ بیان کرنے سے قبل بیع کا مفہوم واضح کر دیا جا ئے کیو نکہ کتب ِحدیث میں لین دین کے معاملات اور ان سے متعلقہ احکام بالعموم کتاب البیُوع کے تحت ذکرہوتے ہیں ، قرآن نے بھی ان معاملات کے لیے یہی اصطلاح استعمال کی ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں بھی خرید وفروخت کے معاہدے بیع نامہ کے نام سے ہی تحریرہوتے ہیں ۔

بیع کا معروف معنی ہے: بیچنا لیکن یہ خریدنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں اشیا کا لین دین اشیا کے بدلے ہی ہوتا تھا یعنی بارٹر سسٹم رائج تھا، اس طریقہ میں ہر شخص گویا فروخت کنندہ بھی ہوتا تھا اور خریدار بھی، اس سے بیع کے لفظ میں دونوں معنی پیداہو گئے۔

علمائے شریعت کے نزدیک لین دین کے وہ تمام معاملات جو کسی معاوضہ کی اساس پر طے پاتے ہیں ،بیع کہلاتے ہیں اس لیے بیع کا شرعی مفہوم یوں بیان کیا جاتاہے :
والبیع نقل ملك إلی الغیر بثمن3
''بیع کا معنی ہے قیمت کے عوض چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا۔''

ملکیت کی منتقلی تو سودی معاملات میں بھی ہوتی ہے مگر ان کو بیع نہیں کہا جاتا۔ایسے ہی قرض کا لین دین بھی بیع میں داخل نہیں کیونکہ قرض کا مقصد قرض لینے والے کے ساتھ احسان کرنا ہے نہ کہ قیمت وصول پانا۔ واضح رہے کہ بیع میں ملکیت کی منتقلی دائمی ہو نی چاہیے۔

بیع اور تجارت کا باہمی فرق
بیع کے مقابلہ میں تجارت کا مفہوم قدرے محدود ہے۔ تجارت کا مطلب ہے Trade یعنی کوئی چیز اس غرض سے خریدنا تاکہ اسے بیچ کر نفع حاصل کیا جائے خواہ بعد میں نفع ہو یانقصان، جبکہ بیع کا لفظ وسیع تر معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

خرید وفروخت کی دو قسمیں ایسی ہیں جو بیع تو ہیں مگر تجارت میں شامل نہیں :

  1. ذاتی استعمال کے لیے چیز خریدنا،یہ بیع تو ہے لیکن تجارت نہیں کیونکہ اس کا محرک نفع کا حصول نہیں بلکہ اپنی ضرورت ہے۔
  2. کسان کا اپنی فصل یا مینوفیکچررکا اپنی مصنوعات بیچنا بیع تو ہے مگر تجارت نہیں کیونکہ یہ دونوں کسی سے چیز خریدکر نہیں بیچتے بلکہ خود پیدا یا تیار کرتے ہیں ۔ تجارت تب ہی ہوگی جب چیز ایک سے خرید کر دوسرے کو بیچی جائے۔


بیع کی اقسام
مختلف اعتبار سے بیع کی مختلف قسمیں ہیں :
جو چیز بطورِقیمت دی جائے، اس کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں ہیں :

  1. چیز کا تبادلہ چیز کے ساتھ ہو، مثلا گندم کے بدلے چاول یا زمین دے کر مکان لینا۔اس کو بارٹر سیل(اَلْمُقايَضَةُ)کہتے ہیں ۔
  2. روپے پیسے کے بدلے کوئی چیز خریدنا،یہ صورت بغیر کسی قید کے بیع مُطْلَق کہلاتی ہے کیونکہ عموماًخرید وفروخت اسی طرح ہوتی ہے ۔
  3. نقدی کے بدلے نقدی کا لین دین، اسکو بیع الصرف،منی چینجرکا کاروبار کہتے ہیں ۔
  4. ایک طرف کسی چیز کا حق استعمال یا کسی شخص کی محنت ہو خواہ وہ محنت جسمانی ہو یا ذہنی اور دوسری طرف اس کا معاوضہ تواس کے لیے اِجَارَہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ جس کا معنی ہے: کرایہ داری اور محنت مزدوری کا معاملہ۔اسکے احکام علیحدہ بیان کئے جائیں گے۔


قیمت کی ادائیگی کے اعتبار سے بھی بیع کی چار قسمیں ہیں :

  1. خریدی گئی چیز کی حوالگی اور قیمت کی ادائیگی دونوں نقد ہوں تو اس کو نقد خرید وفروخت
  2. اور اگر چیزکی سپردگی تو فوری ہو مگر قیمت کی ادائیگی مستقبل کی کسی تاریخ پر طے ہو تو اسے ادھار خرید وفروخت(بیع مُؤَجَّل) کا نام دیتے ہیں ۔
  3. جب قیمت کی مکمل ادائیگی تو پیشگی کر دی جائے لیکن چیز کی حوالگی کے لیے مستقبل کی کوئی تاریخ مقرر ہو تو اس کو بیع سَلَم کہتے ہیں جو کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ جائزہے۔
  4. اگرقیمت کی ادائیگی اورچیزکی سپردگی دونوں اُدھار ہوں تواس کو حدیث میں بَیْعُ الْکَالِيْ بِالْکَالِيْکہاگیا ہے جو کہ ناجائزہے ۔


فائدہ:بعض اوقات مشتری فوری ادائیگی کی بجائے یہ کہہ دیتا ہے کہ پیسے بعد میں دوں گا، بعد میں کب دوں گا، یہ طے نہیں ہوتا۔یہ صورت اُدھار میں شامل نہیں بلکہ نقد کی ہی ایک شکل ہے جس میں فروخت کنندہ کچھ رعایت دے دیتا ہے ۔ اس میں اور اُدھار میں فرق ہے، وہ یہ کہ ادھار میں مقررہ مدت سے قبل ادائیگی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا جبکہ اس میں فروخت کنندہ جب چاہے تقاضا کر سکتا ہے، اگرچہ وہ اپنی مرضی سے جب تک چاہے تاخیر کرتا رہے لیکن اسے بیع کے فوری بعد مطالبے کا حق حاصل ہو جاتا ہے ۔

قیمت فروخت کے لحاظ سے بھی بیع کی مختلف قسمیں ہیں :
مُساوَمَة: یہ خرید وفروخت کی ایک عام قسم ہے جس میں فروخت کنندہ اپنی قیمت خرید یا لاگت ظاہرکئے بغیر کسی بھی قیمت پرفروخت کرتا ہے ۔مساومہ کا معنی ہے: بھاؤ تاؤ۔ اس میں چونکہ فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان قیمت کا تعین بھاؤ تاؤ کے ذریعے ہوتا ہے اور فروخت کنندہ اپنی لاگت بتانے کا پابند نہیں ہوتا، اس لیے اسے 'مساومہ' کہتے ہیں ۔ جہاں فروخت کنندہ ان اشیا کی لاگت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکتا ہو جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہو تو وہاں مساومہ ایک مثالی طریقہ ہو سکتا ہے ۔

نیلام:فروخت کنندہ یو ں کہے جو مجھے زیادہ قیمت دے گا، میں یہ چیز اس کو بیچ دوں گا۔یہ بھی اصل میں مساومہ کی ہی ایک قسم ہے جس میں فروخت کنندہ ایک متعین قیمت طلب کرنے کی بجائے خریداری کے خواہاں کو دعوت دیتاہے کہ وہ قیمت لگائیں اور جس کی بولی زیادہ ہو گی اس کے ساتھ بیع منعقد ہو جائے گی۔

اس کے مقابلے میں ٹینڈر (مُناقَصَة) پر خریداری ہے جس میں خریدار یہ کہتا ہے کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے جو کم قیمت پر مہیا کرے گا، میں اس سے لوں گا۔ یہ جدید صورت ہے جس کا قدیم فقہی ذخیرہ میں تذکرہ نہیں ملتا، تاہم اس کا بھی وہی حکم ہے جو نیلام کا ہے۔

مُرابَحة: مرابحہ سے مراد ہے کہ فروخت کنندہ کوئی چیز اس وضاحت کے ساتھ بیچے کہ اس پر میری یہ لاگت آئی ہے اور اب میں اتنے منافع کے ساتھ فلاں قیمت پر آپ کو بیچتا ہوں ۔ مرابحہ کا معنی ہے:'نفع پر بیچنا' مرابحہ میں قیمت نقد بھی ہو سکتی ہے اور اُدھار بھی ۔ فروخت کنندہ کی جانب سے مشتری کو اپنی لاگت اور اس میں شامل منافع سے آگاہ کرنا ہی وہ نکتہ ہے جو مرابحہ کو مساومہ سے الگ کرتاہے۔

تَوْلِیَة: جب فروخت کنندہ کوئی چیزنفع و نقصان کے بغیر لاگت قیمت پر ہی فروخت کرے تو اس کو بیع تَوْلِیَہ کہتے ہیں ۔تولیہ کا لغوی معنی ہے:والی بنانا، فروخت کنندہ چونکہ نفع حاصل کئے بغیرہی خریدار کو چیز کا مالک بنا دیتا ہے، اسلئے اس کو تولیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔

وَضْعِیَّة: وضعیہ کا معنی ہے قیمت ِخرید سے کم پر بیچنا ،یعنی خسارے کا سودا ۔

آخری تین قسمو ں میں چونکہ فروخت کنندہ اپنی قیمت ِخرید یا لاگت بتا کر سودا کرتا ہے اور خریدار اس پر اعتماد کرتا ہے، اس لیے ان کو بُیُوْعُ الْاَمانَةِ امانت داری پر مبنی بیوع کا نام دیا جاتا ہے۔

خرید وفروخت کی اجازت کا فلسفہ
یہ بات مسلم ہے کہ خرید وفروخت ہمیشہ سے انسانی زندگی کا لازمی حصہ رہا ہے، اس لیے کہ یہ انسا ن کی فطری ضرورت ہے جس کے بغیر اس کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں کیونکہ دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی لحاظ سے دوسروں کا دست نگر ہے، یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے استعمال کی تمام اشیا خود ہی پیدا یا تیار کرلے۔ مثلاً ایک شخص کسان ہے جو اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود ہی کھیتی باڑی کرتاہے مگر زرعی آلات، لباس ا و ررہائش کے سلسلے میں وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے: الإنسان مدني بالطبع انسان اپنی حاجات و ضروریات کے لیے ہر آن دوسروں کا محتاج ہے۔ جب ہر شخص کی ضرورتیں دوسروں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں تو پھر خرید وفروخت کے معاملات نا گزیر ہیں ۔

اگر خرید و فروخت کا سلسلہ نہ ہوتاتونظامِ حیات درہم برہم ہوجاتا،انسانیت اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوجاتی اور انسان ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے یا توچوری اور لوٹ مار کا سہارا لیتا جس سے نہ صرف لوگوں کے اَموال خطرات میں پڑ جاتے بلکہ خونریزی کا بازار بھی گرم ہوتا یا دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے پر مجبور ہوتا جو کہ باعث ِذلت ہے اور بسا اوقات مالک معاوضہ کے بغیر دینے پر آمادہ بھی نہیں ہوتا، لہٰذا اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر یہ خاص لطف وکرم فرمایا کہ اُنہیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہ صرف خرید وفروخت کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس کے متعلق احکام و ہدایات دے کر ثواب اور اپنے قرب کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔

تجارت کی فضیلت
ایک دوسرے کے ساتھ اشیا کا تبادلہ چونکہ انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے قرآنِ حکیم اور احادیث ِ نبویؐ میں بڑے شوق آفرین انداز میں خرید وفروخت کے ذریعے کسب مال کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پرتجارت کے ذریعے حاصل ہونے والے فوائد کو اللہ کا فضل قرار دیا ہے۔ حج کے معاشی اور تجارتی پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۚ فَإِذَآ أَفَضْتُم مِّنْ عَرَ‌فَـٰتٍ فَٱذْكُرُ‌واٱللَّهَ عِندَ ٱلْمَشْعَرِ‌ ٱلْحَرَ‌امِ ۖ وَٱذْكُرُ‌وهُ كَمَا هَدَىٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ...﴿١٩٨﴾...سورة البقرة
''تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم (تجارت کے ذریعے) اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو۔پھر جب تم عرفات سے واپس آؤتو مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑی)کے پاس اللہ کو یاد کرو۔اور اس کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے بلاشبہ اس سے پہلے تم نا واقف تھے۔''

حج کے دنوں میں جب سارے عرب سے لوگ مکہ مکرمہ میں حاضر ہوتے تو بازار مالِ تجارت سے بھر جا تے اور خرید و فروخت کاتانتا بندھا رہتاجیسا کہ آج کل بھی ہوتا ہے۔ بعض مسلمان احتیاط کے پیش نظر دورانِ حج تجارت سے اجتناب کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ آیت ناز ل فرمائی۔ ربّ کے فضل سے مراد یہاں تجارت اور کاروبار ہے یعنی دورانِ حج مالی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے بشرط کہ حج کے مناسک متاثر نہ ہوں ۔

ایک اور جگہ نمازِ جمعہ کے بعد تجارت کرنے کی ہدایت دی گئی ہے:
فَإِذَا قُضِيَتِ ٱلصَّلَو‌ٰةُ فَٱنتَشِرُ‌وا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ وَٱبْتَغُوا مِن فَضْلِ ٱللَّهِ وَٱذْكُرُ‌واٱللَّهَ كَثِيرً‌ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ...﴿١٠﴾...سورة الجمعہ
''پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا فضل تلاش کرواور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔''

یہاں بھی 'اللہ کا فضل تلاش کرو' سے مراد کسب ِمال ہے جس میں خرید وفروخت بھی شامل ہے۔ گویا تجارت محض دنیاوی کام نہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کاروبار میں اسلامی احکام کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ کاروبار بھی اللہ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں دوسرے مقامات پر بھی تجارت اور مال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے۔

سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل خود بھی تجارت کی اورصحابہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے، چنانچہ اکثر و بیشتر صحابہ کرام تجارت ہی کرتے تھے۔احادیث ِنبویؐ میں تجارت کو بہت معزز پیشہ قرار دیا گیا اور دیانت دار تاجر کا بڑا مرتبہ تسلیم کیا گیا ہے ۔ایک حدیث میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے اور دیانتدار تاجر کو جنت میں انبیا، صدیقین اور شہدا کی رفاقت کی بشارت سنائی ہے :
(التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِینُ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء)4
''راست باز اور امانت دار تاجر انبیا ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔''

ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ کسب ِمعاش کا بہترین اور باعث برکت ذریعہ کونسا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہٖ وَکُلُّ بَیْعٍ مَبْرُور)5
''انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر بیع مبرور۔''

یعنی بہترین پیشہ وہ ہے جس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے محنت کرنا پڑے یا پھر ایسی تجارت جس میں امانت ودیانت کی روح کار فرما ہو۔ ثابت ہوا کہ تجارت بابرکت ذریعہ معاش ہے، تاہم اس میں دنیا ہی مد نظر نہیں ہونی چاہیے بلکہ آخرت کی فلاح بھی مطلوب ہے اس لیے یہ شریعت کے تابع ہونی چاہیے۔ جوخرید وفروخت شریعت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے، اس کو 'بیع مبرور' کہتے ہیں ۔یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ہماری معاشی سر گرمیوں کو ایک نظم و نسق کے تحت دیکھنا چاہتا ہے ۔

خرید وفروخت کے متعلق بنیادی ہدایات
خرید وفروخت کا جومعاملہ بھی ہو، اس میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں :
1. معاملہ کرنے والے فریقین
2. وہ چیز جس کا سودا کیا جا رہا ہو
3. چیز کی قیمت

شریعت ِمطہرہ نے ہر ایک کے لیے الگ الگ ہدایات دی ہیں :
فریقین کے لیے ہدایات
معاملہ باہمی رضامندی سے طے پانا چاہیے
بیع کی شرطِ اوّل یہ ہے کہ فریقین کا نہ صرف ذہنی توازن درست ہو اور وہ معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سودے پریکساں طور پر رضامندہوں ۔ چنانچہ لین دین کے وہ تمام معاملات جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہ پائی جاتی ہو ناجائز ہیں ۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَأْكُلُوٓا أَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَـٰرَ‌ةً عَن تَرَ‌اضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓاأَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَ‌حِيمًا ...﴿٢٩﴾...سورة النساء
''اے ایمان والو !ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤمگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضامندی سے۔اور اپنے نفسوں کو قتل نہ کروبلا شبہ اللہ تمہارے ساتھ رحم کرنے والا ہے۔''

سورہ نساء کی یہ آیت تجارتی اور معاشی تعلقات کے متعلق بنیادی اُصول پیش کر رہی ہے کہ وہ کاروباری اور تجارتی معاملات جن پر دونوں فریق یکساں مطمئن اور راضی نہ ہوں ، باطل ہیں ۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ لین دین میں فریقین کی باہمی رضامندی لازم ہے ۔ شریعت ِاسلامیہ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی کسی کو اپنی چیز بیچنے پر مجبور کرے یا زبر دستی اپنی پسند کی قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اسلام نے ایک دوسرے کی جان ، مال اور عزت کویکساں محترم قرار دیا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لاٹھی جیسی معمولی چیز کی زبر دستی خرید وفروخت کو بھی قابل حرمت قرار دیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے :
''کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی( بھی) اس کی قلبی خوشی کے بغیر لے۔''6

بطورِ خاص خرید و فروخت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے :
(إنما البیع عن تراض)7
''بیع صرف باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔''

واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہیے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔

اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔

البتہ بعض صورتوں میں حکومت یا کوئی مجاز اتھارٹی مالک کو اس بات پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی چیز فروخت کرے :


 پہلی صورت یہ ہے کہ مقروض اپنے ذمے قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت و لعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ کی داد رسی کے لیے خود بھی اس کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر سکتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے جائیداد رہن رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور وہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کر رہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کر کے اپنا حق وصول پا سکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہوبشرطیکہ عدالت اورقرض خواہ منصفانہ قیمت پربیچنے کو یقینی بنائیں ،اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔

تیسری صورت جبمالک کو اپنی اشیا فروخت کرنے پر مجبور کیا سکتا ہے، یہہے کہ جب غذائی اشیا کی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیا فروخت کرنے کا حکم دے، اگر وہ تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے، جیسا کہ الموسوعة الفقهية میں ہے :
إذا خیف الضّرر علی العامّة أجبر بل أخذ منه ما احتکرہ وباعه وأعطاہ المثل عند وجودہ أو قیمته وهذا قدر متّفق علیه بین الأئمة ولا یعلم خلاف في ذلك8
''جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس کو اس مال کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔''

 کسی کی چیز زبر دستی لینے کی چوتھی صورت یہ ہے کہ حکومت کو عوامی مقاصد کے لیے کسی جگہ کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ادائیگی کرے۔حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو جائیدا د سے محروم نہیں کر سکتی۔

خریدنے سے پہلے بیچنا ممنوع ہے !
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلقین بھی فرمائی ہے کہ بیچنے والا فقط اسی چیز کا سودا کرے جس کا وہ کلی طورپر مالک بن چکا ہو۔بعض دفعہ کاروباری حضرات کے پاس چیز موجود نہیں ہوتی مگر و ہ اس اُمید پر سودا طے کر لیتے ہیں کہ بعد میں کہیں سے خرید کر فراہم کر دینگے، ایساکرنا منع ہے،کیونکہ ممکن ہے مالک وہ چیز بیچنے پر آمادہ ہی نہ ہو یا وہ اس کی قیمت فروخت سے دگنی قیمت طلب کر لے اور یہ نقصان سے بچنے کے لیے خود ہی خریدنے پر تیار نہ ہو۔ اس طرح فریقین کے ما بین تنازعات جنم لینے کا اندیشہ ہے ، لہٰذاشریعت ِاسلامیہ نے ان کے سد باب کے لیے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ وہ متعین چیزجوفی الحال فروخت کنندہ کی ملکیت میں نہ ہو، اس کا سودا نہ کیا جائے، جیساکہ جناب حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
''میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے سودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں ۔''

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابافرمایا :
(لَا تَبِعْ ما لَیْسَ عِنْدَکَ)9
''جو (متعین )چیز تیرے پاس موجود نہیں ، وہ فروخت نہ کر۔''

حضرت حکیم بن حزام ؓکا سوال متعین چیز کی فروخت کے متعلق ہی تھا۔متعین کا معنی ہے کسی مخصو ص پلاٹ یا گاڑی وغیرہ کا سودا کرنامثلاً یوں کہنا کہ میں فلاں سکیم کا فلاں نمبر پلاٹ آپ کو اتنے میں بیچتا ہوں جبکہ وہ اس وقت اس کی ملکیت نہ ہو، ایسا کرنا ناجائز ہے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے واضح ہے ۔ لیکن اگر تعین کی بجائے صرف مخصوص صفات بیان کی جائیں ، مثلاً یوں کہا جائے کہ میں تمہیں اتنی مدت بعدان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں تویہ صورت جائز ہے بشرط کہ مکمل قیمت پیشگی ادا کر دی جائے، اس کو بیع سَلَم کہتے ہیں ۔مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر یہ جائز نہیں ہو سکتی ۔

ملکیت سے قبل فروخت کی بعض صورتیں
بعض ہاؤسنگ اسکیمیں اپنی ملکیّتی زمین سے زیادہ تعداد میں پلاٹس کی فائلیں فروخت کر دیتی ہیں مثلاً ابھی تک اسکیم کے پاس زمین صرف ایک ہزار پلاٹس موجود ہیں لیکن فائلیں دو ہزار پلاٹس کی بیچ دی جاتی ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ بقیہ زمین بعد میں خرید لی جائے گیــ۔ اس طرح اسکیم مالکان کو کچھ مدت کے لیے لوگوں کی دولت سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے اور یہی جلب ِمنفعت ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔یہ طریقہ سراسر خلافِ شریعت ہے کیونکہ اسکیم نے ایک ہزار پلاٹس کی جو زائدفائلیں فروخت کی ہیں ، اُن کی زمین ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آئی،لہٰذا اسکیم مالکان کو ان کی فروخت کا حق بھی نہیں پہنچتا ۔

ہمارے ہاں جائیداد کی خرید وفروخت کے مروّجہ طریقہ کارکے مطابق خریدار معاہدہ خریدکرکے کچھ رقم (بیعانہ) اَدا کر دیتا ہے اور بقیہ ادائیگی کے لیے مہلت لے لیتا ہے اور معاہدے میں یہ شرائط بھی طے ہوتی ہیں کہ اگر خریدار منحرف ہو گیا تو بیعانہ کی رقم ضبط ہو جائے گی اور اگر فروخت کنندہ اپنی بات پر قائم نہ رہا تو اس سے بیعانہ کی رقم دگنی وصول کی جائے گی۔ اور یہ بات بھی معاہدے کا حصہ ہوتی ہے کہ معاہدئہ بیعانہ کرنے والااس معاہدے کی بنیادپر کسی تیسرے فریق کو فروخت کرنا چاہے تومالک کو کوئی اعتراض نہ ہو گا، بیعانہ دینے والا جس خریدارکا نام پیش کرے گا، مالک اس کے نام ملکیت منتقل کرنے کا پابند ہو گا۔ بسا اوقات بیعانہ دینے والا کچھ منافع لے کر آگے فروخت بھی کر دیتا ہے۔ شرعی لحاظ سے اس طرح آگے فروخت کرنا جائز نہیں کیونکہ معاہدہ بیعانہ کرنے والا جائیداد مذکورکا ابھی مالک نہیں بنا۔اگر اصل مالک دگنا بیعانہ ادا کر کے منحرف ہو جائے جیسا کہ بعض اوقات ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں نزاع پیدا ہو گا۔ہاں اگر پراپرٹی مالک کے پاس منحرف ہونے کا اختیار نہ ہویا سودا مکمل ہو چکا ہو، صرف بقیہ رقم کی ادائیگی باقی ہو تو پھر آگے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مالک کے انکار کی صورت میں اس سے دگنا بیعانہ وصول کرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے ۔

ملکیت کے بغیر فروخت کی تیسری صورت سٹاک مارکیٹ میں رائجShot Salesکی ہے۔ اس میں فروخت کنندہ ایسے شیئرز بیچ دیتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہوتے لیکن اسے یہ اُمید ہوتی ہے کہ وہ کلیئرنگ سے قبل مارکیٹ سے سستے داموں حاصل کر کے خریدار کے حوالے کر دے گا ،یہ غیر ملکیتی شیئرز کی بیع ہے جو ناجائز ہے ۔اگر مارکیٹ میں مندے کی بجائے تیزی غالب رہے تو Shot Salesکرنے والوں کو اچھا خاصا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے ۔جب بھی سٹاک مارکیٹ کسی بڑے بحران سے دوچارہوتی ہے، اس میں نمایاں کردار اسی شاٹ سیل کا ہوتا ہے ۔

قبضہ سے قبل فروخت نہ کریں
عصر حاضرمیں خریدی گئی چیز کو قبضہ میں لئے بغیر آگے فروخت کرنے کا عام رواج ہے بالخصوص درآمدات میں سامان منزلِ مقصود پر پہنچنے سے قبل کئی جگہ فروخت ہو چکا ہوتا ہے اور ظاہر ہے، ہر خریدار کچھ منافع رکھ کر ہی آگے فروخت کرے گا، اس لیے مارکیٹ پہنچتے پہنچتے اس چیز کی قیمت بڑھ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک معاشی نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بار برداری کے شعبہ سے وابستہ مزدوروں کا روزگار متاثر ہوتا ہے۔ یہ شریعت ِمطہرہ کے محاسن میں سے ہے کہ اس نے یہ قانون بنا دیا ہے جب کسی چیز کا سودا طے پاجائے اورخریداراس کو آگے فروخت کرنا چاہتا ہو تو اس کو چاہیے وہ اسے قبضہ میں لے کر کسی دوسری جگہ منتقل کر دے، اسی جگہ فروخت کرنا منع ہے۔


چنانچہ احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ یَبِعْهُ حَتَّی یَسْتَوْفِیَهُ )10
''جو غلہ خریدے، وہ قبضہ سے قبل فروخت نہ کرے۔''

جناب عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
کُنَّا فِي زَمَانِ رَسُولِ اﷲِ ﷺ نَبْتَاعُ الطَّعَامَ فَیَبْعَثُ عَلَیْنَا مَنْ یَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِهِ مِنَ الْمَکَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاہُ فِیهِ إِلَی مَکَانٍ سِوَاہُ قَبْلَ أَنْ نَبِیعَهُ 11
''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غلہ خریدتے تو آپ ہمارے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم بیچنے سے قبل جہاں سے خریدا ہے، وہاں سے اُٹھا کر دوسری جگہ لے جائیں ۔''

سیدنا زید بن ثابت ؓسے روایت ہے :
نَهی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ حَتَّی یَحُوزَها التُّجَّارُ إِلَی رِحَالِهمْ 12
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا کہ سامان کو وہاں بیچا جائے جہاں سے خریدا گیا تھاحتیٰ کہ تاجر اسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں ۔''

جو تاجر اس حکم کی تعمیل نہ کریں ان کے خلاف تادیبی کار روائی بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
رَأَیْتُ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ الطَّعَامَ مُجَازَفَةً یُضْرَبُونَ عَلَی عَهدِ رَسُولِ اﷲِ أَنْ یَبِیعُوہُ حَتَّی یُئْوُوْہُ إِلَی رِحَالِهم 13
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تخمینے سے اناج خریدنے والوں کی پٹائی ہوتی دیکھی یہاں تک کہ وہ اس کواُٹھاکر اپنے ٹھکانوں میں منتقل کر دیں پھر فروخت کریں ۔''

مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ثابت ہوا کہ تاجروں کے لیے یہ جائز نہیں کہ منقولی اشیا اپنی تحویل میں لے کردوسری جگہ منتقل کئے بغیر فروخت کریں ۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی رائے بھی یہی ہے کہ چیز اُٹھائے بغیر شرعی قبضہ ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وَیُعْرَفُ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ اِخْتِیَار اَلْبُخَارِيّ أَنَّ اِسْتِیفَاء الْمَبِیع اَلْمَنْقُول مِنْ اَلْبَائِعِ وَتَبْقِیَتَهُ فِي مَنْزِلِ اَلْبَائِعِ لَا یَکُونُ قَبْضًا شَرْعِیًّا حَتَّی یَنْقُلَهُ اَلْمُشْتَرِي إِلَی مَکَانٍ لَا اِخْتِصَاصَ لِلْبَائِعِ بِهِ 14
'' اس سے پتا چلتا ہے کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ منقولی چیز کوفروخت کنندہ سے وصول پانا اور اسے فروخت کنندہ کے ٹھکانے پر ہی رکھ چھوڑناشرعی قبضہ نہیں ہے تاآنکہ خریدار اسے ایسی جگہ لے جائے جو فروخت کنندہ کے لیے مخصوص نہ ہو۔''

ممانعت کا سبب کیا ہے ؟ نامور تابعی حضرت طاؤوس رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓسے قبضہ سے قبل فروخت کرنے کی ممانعت کا سبب پوچھا تو انہوں فرمایا:
ذَاکَ دَرَاهِمُ بِدَرَاهِمَ وَالطَّعَامُ مُرْجَأ15
''یہ درہم کے بدلے درہم کا لین دین ہے جبکہ غلہ وہیں پڑا ہوا ہے۔''

یعنی سودی لین دین کے مشابہ ہونے کی بنا پر ناجائزہے، اس کی توضیح یوں ہے مثلاًخالد نے ایک لاکھ کی گندم خریدی اور وہاں سے منتقل کئے بغیر ایک لاکھ دس ہزار میں فروخت کر دی توگویااس نے رقم دی اور رقم ہی لی اور اس پر نفع کمایا،عملی طور پر کوئی خدمت انجام نہیں دی۔

امام شوکانی رحمة اللہ علیہ نے بھی اسی علت کی تحسین فرمائی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
وَهذَا التَّعْلِیلُ أَجْوَدُ مَا عُلِّلَ بِه النَّهيُ؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ أَعْرَفُ بِمَقَاصِدِ الرَّسُولِ ﷺ16
''ممانعت کی باقی وجوہ کی نسبت یہ وجہ بہترین ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصدکو بہتر جانتے ہیں ۔''

امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ ممانعت کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرماتے ہیں :
''ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو قبضہ مکمل ہوا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ سے اس کا تعلق ختم ہوا ہے ، لہٰذا جب وہ دیکھے گاکہ خریدار کو اس سے خوب نفع حاصل ہو رہا ہے تو وہ معاملہ فسخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کاسوچ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے فسخ کے لیے بات ظالمانہ حیلے،جھگڑے اور عداوت تک جا پہنچے جیسا کہ واقعات اس کے شاہد ہیں ۔ چنانچہ حکمت پر مبنی شریعت ِکاملہ کی یہ خوبی ہے کہ اس نے خریدار پر یہ پابندی لگا دی ہے کہ جب تک خریدی گئی چیز پر قبضہ مکمل نہ ہو جائے اور فروخت کنندہ سے اس کا تعلق ختم نہ ہو اور اس سے چھڑا نہ لی جائے وہ اس میں تصرف نہ کرے تا کہ وہ بیع فسخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کا سوچ نہ سکے ۔یہ وہ فوائد ہیں جن کو شارع نے نظر انداز نہیں کیا، حتیٰ کہ وہ تاجر بھی اُنہیں مد نظر رکھتے ہیں جن کو شریعت کا علم نہیں کیونکہ ان کے خیا ل میں مصلحت بھی اسی میں ہے اور خرابیوں کا سد ِ باب بھی اسی طرح ہو سکتا ہے۔''17

اس کا مطلب یہی ہے کہ جب تک خریدار فروخت کنندہ کے قبضہ سے مال چھڑا کر اپنے قبضہ میں نہیں لے لیتا،آگے فروخت نہ کرے تا کہ نزاع کا خطرہ نہ رہے۔کیونکہ جب تک خریدارچیز اپنے قبضہ میں نہیں لیتا، اس بات کا اندیشہ باقی رہتا ہے کہ فروخت کنندہ زیادہ نفع کے لالچ میں وہی چیز کسی اور کو فروخت نہ کردے۔

بعض اہل علم کے نزدیک جب بیچی گئی چیز کے نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہوجائے اوراس کے اختیارپر کوئی قدغن باقی نہ رہے تو قبضہ متحقق ہو جاتا ہے، حقیقی طور پر چیز کو منتقل کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے :
لاَ یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیْعٌ وَلاَ شَرْطَانِ فِی بَیْعٍ وَلاَ رِبْحُ مَا لَمْ یُضْمَنْ وَلاَ بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَ کَ18
'' قرض اور بیع، ایک بیع میں دو شرطیں اور جس چیز کے نقصان کی ذمہ داری نہ لی گئی ہو، اس کا منافع جائز نہیں اور نہ ہی اس چیز کی بیع درست ہے جو تیرے پاس موجود نہ ہو۔''

ان حضرات کی دلیل حدیث کے یہ الفاظ ہیں :
''جس چیز کے نقصان کی ذمہ داری نہ لی گئی ہو، اس کا منافع جائز نہیں ۔''

ان حضرات کے بقول یہاں قبضہ سے قبل فروخت ممنوع ہونے کی وجہ رسک نہ لینا بیان ہوئی ہے، لہٰذاجب مال کے نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہو جائے تو وہ آگے فروخت کرسکتا ہے،دوسری جگہ منتقل کرناضروری نہیں ۔ مگر دو وجہ سے یہ استدلال درست نہیں ہے:

یہ اوپر مذکوران احادیث کے خلاف ہے جو اس امرپر صریح دلالت کررہی ہیں کہ فروخت سے قبل نقل وحمل لازمی ہے ۔

یہ استدلال فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کے خلاف ہے ۔چنانچہ امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ اس کی تشریح میں رقم طرازہیں :
''اس کی علت (کے تعین )نے بعض فقہا کو مشکل میں ڈال دیا ہے، حالانکہ یہ شریعت کے محاسن میں سے ہے کہ جب پوری طرح قبضہ نہیں ہوگا اور فروخت کنندہ کا اس سے تعلق ختم نہیں ہو گا تووہ مشتری کو فائدہ ہو تا دیکھ کر معاملہ منسوخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کا لالچ کرے گا۔ اوراگر قبضہ دے گا بھی تو آنکھیں بند کر کے اور نفع سے محرومی کا افسوس لئے ہوئے دے گا، چنانچہ اس کا نفس ادھر ہی متوجہ رہے گا، اس کا طمع ختم نہیں ہو گا۔یہ مشاہدے سے ثابت ہے، لہٰذایہ شریعت کا کمال اور خوبی ہے کہ جب تک چیز کو حاصل نہ کر لے اور اس کی ذمہ داری میں نہ آجائے، نفع ممنوع ہے تاکہ فروخت کنندہ منسوخ کرنے سے مایوس ہو جائے اور اس کا تعلق ختم ہو جائے۔''19

اس سے ثابت ہواکہ اگر مشتری نقصان کی ذمہ داری لے بھی لیتا ہے لیکن اپنے قبضہ میں نہیں لیتا توبھی اسی جگہ فروخت نہیں کر سکتاکیونکہ یہ بات فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کے خلاف ہے ۔

کیا یہ حکم صرف خوردنی اشیاء کے لیے ہے:فروخت سے قبل خریدی گئی چیز کی نقل و حمل کاحکم صرف غذائی اجناس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اشیا داخل ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں :
وَلا اَحْسِبُ کُلَّ شَيْئٍ إلّا مِثْلَه 20
''میرے خیال میں تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔''

امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ اس کے بارے میں رقمطراز ہیں :
وھذا القول ھوالصحیح الذي نختارہ 21
''یہی قول صحیح ہے جس کو ہم پسند کرتے ہیں ۔''

اس کی تائید اوپر مذکورہ حضرت زید بن ثابتؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں غلے کی بجائے سامان کا تذکرہ ہے۔ البتہ وہ اشیا جن کو دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں جیسے اراضی اور مکانات ہیں ،ان کے قبضے کی نوعیت مختلف ہوگی۔ ان میں قبضہ کا معنی صرف اتناہے کہ فروخت کنندہ تمام رکاوٹیں دور کر کے مشتری کو تصرف کا پورا موقع فراہم کر دے۔اسی طرح جو اشیا ہاتھ میں لے کر قبضہ کی جاتی ہیں جیسے کرنسی نوٹ ہیں تو ان کا قبضہ یہ ہے کہ ان کو ہاتھ میں لے لیا جائے۔ (جاری ہے)


حوالہ جات
1. جامع ترمذی:487،أبواب الوتر،باب ما جاء في فضل الصلاة علی النبيﷺ
2. أوضح المسالك بحوالہ بحوث فقهية في قضایا اقتصادية معاصرة ج1؍ 145
3. فتح الباری:ج4؍ص364
4. سنن ترمذی:1209، باب ما جاء في التجار وقال: هذا حدیث حسن
5. مسنداحمد :17728
6. بلوغ المرام بحوالہ ابن حبان و الحاکم
7. إرواء الغلیل:ج5؍ ص125
8. ج2؍ص95
9. سنن النسائي:4617 باب بیع ما لیس عند البائع
10. صحیح بخاری:2136،کتاب البیوع باب بیع الطعام قبل أن یقبض
11. صحیح مسلم:3841،کتاب البیوع،باب بطلان بیع المبیع قبل القبض
12. سنن ابو داود: 3499،باب في بیع الطعام قبل أن یستوفي
13. صحیح بخاری:1231، باب ما یذکر في بیع الطعام
14. فتح الباری: ج4؍ص443
15. صحیح بخاری:1232 باب ما یذکر في بیع الطعام
16. نیل الأوطار: باب نھي المشتري عن بیع ما اشتراہ قبل قبضه
17. تہذیب: ج 5؍ص 137
18. سنن ترمذی:1234،باب ما جاء في کراهية بیع ما لیس عندك
19. تہذیب: ج5؍ص153،154
20. صحیح بخاری:2135، باب بیع الطعام قبل أن یقبض
21. تہذیب ج 5؍ص 132