غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت( 2/آخری)
'مفکر قرآن' جس قدر قرآن، قرآن کی رٹ لگایا کرتے، اسی قدر وہ قرآنِ کریم سے گریزاں اور کتاب اللہ سے کنارہ کش تھے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اور جاہل قرار دیا کرتے تھے جس کی تفصیل پہلی قسط میں گزر چکی ہے۔ مفکر قرآن کے ایمان بالقرآن کی حقیقت ذلك قولهم بأفواههم سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر چہ وہ اپنے ایمان بالقرآن کا ڈھنڈورا خوب پیٹا کرتے لیکن عملاً ان کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات تھیں ۔ اس امر کے اثبات میں متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن مقالے کی تنگ دامنی کے سبب محض چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتاہے، جن میں سے دو کا تذکرہ گذشتہ قسط میں ہوچکا ہے، مزید مثالیں یہاں ملاحظہ فرمائیں :
تیسری مثال :عمر نوح علیہ السلام
قرآنِ کریم بہ نص صریح یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے۔ ہردورکے علماء و مفکرین، فقہاء و مجتہدین، اہل سیر و مؤرّخین، نوح علیہ السلام کی عمر نو سو پچاس (950) سال لکھتے اور مانتے چلے آرہے ہیں ، حتیٰ کہ اسی مسئلہ میں اُن معتزلہ تک نے بھی انکار نہ کیاتھا جنہیں عقلی تیرتُکے لڑا کر دور کی کوڑی لاتے ہوئے نرالی اُپچ اختیارکرنے کا شوقِ فضولیات بہ مقدارِ وافر ملاتھامگر دورِ جدیدمیں معدودے چند لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اس قدر طویل العمر نہیں تھے، بس زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی سو سال تک ان کی عمر تھی۔ یہ بات اُنہوں نے کسی علمی تحقیق و تفتیش کی بنا پر نہیں کہی ،بلکہ صرف اس لیے کہی کہ محسوسات کے خوگر انسان کو اس قدر لمبی عمر عقلاً مستبعد دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ عقل کے یہ غلام قرآنی نصوص میں قیاسی تیر تُکوں سے کام لے کر اس طویل العمری کو اس قدر قصیر العمری میں بدلنے پر جت گئے جس سے ان کی عقلی استبعاد کاازالہ ہوجائے۔ اس سلسلہ میں آنجہانی غلام احمد پرویز کی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و تدقیق کا ثمرہ ملاحظہ فرمائیے۔ لیکن پہلے وہ آیت ایک نظر دیکھ لیجئے جس میں عمر نوحؑ، ۹۵۰ سال مذکور ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا...﴿١٤﴾...سورة العنکبوت
''ہم نے نوح ؑ کو اسکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس سال کم ایک ہزارسال انکے درمیان رہا۔''
اب قرآنِ کریم کی اس صراحت کے بعد 'مفکر ِقرآن' صاحب مفہوم آیت کو مسخ و تحریف کانشانہ بنانے کی خاطر خواہ مخواہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں :
''اس سے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا حضرت نوح ؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔''1
نہ معلوم کہ یہ سوال کہاں سے اور کیونکر پیداہوگیا؟ جب کہ قرآنِ کریم نے بالفاظِ صریح خود ساڑھے نو سو سال کی عمر بیان کردی ہے۔ حتیٰ کہ خود پرویز صاحب کااپنا ترجمہ آیت بھی اسی حقیقت کو واضح کررہا ہے۔
''اور ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اوروہ ان میں پچاس برس کم، ہزارسال رہا۔'' 2
اس کے بعد اپنے موقف کے اثبات کے لیے ایک سے بڑھ کرایک رکیک تاویلات پیش کی ہیں ۔ جن کی تردید کی یہاں گنجائش نہیں ،جو اہل علم اس پوری بحث کو دیکھنا چاہیں وہ میری کتاب 'تفسیر مطالب الفرقان کا علمی اور تحقیقی جائزہ' کامطالعہ فرمائیں ۔
انکارِ طول عمر کی لِم
'مفکر قرآن' کے نزدیک خداے قدوس کی بیان کردہ کسی حقیقت کی تردید کے لیے بس یہی بات کافی ہے کہ وہ اسے عقلاً مستبعد سمجھتے ہوں ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
''عربی لغت میں سنة کا اِطلاق فصل پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کاایک سال ہوتاہے۔اس اعتبار سے ألف سنة کے معنی ہوں گے اڑھائی سو سال اور عامًا پورے سال کو کہتے ہیں ۔ اس لیے اگر خمسین عامًا (پچاس سال) کو اس میں سے منہا کردیا جائے توباقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں ۔''
لمبی عمر کو عقلاً مستبعد جاننا، یہ ہے وہ لِم جو اللہ کی بیان کردہ صریح اور واضح مدت کی تاویل بلکہ تحریف کی تہہ میں کار فرما ہے۔'مفکر قرآن' کی یہ 'تحقیق' اپنی پُشت پرکوئی علمی قوت نہیں رکھتی، بلکہ یہ محض ظن و تخمین اور قیاس ورائے کانتیجہ ہے جس کی تہہ میں لمبی عمر کااستبعادِ عقلی ہی پایا جاتاہے۔ چنانچہ وہ خود بھی خدا کی صریح اور واضح مدت کے مقابلہ میں اپنی قصیر العمری کی تاویل پیش کرنے کی جسارت کرتے بھی ہیں تو اُنہیں قیاسات سے بالاتر کوئی اہمیت نہںی دیتے، جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں :
''یہ بہرحال قیاسات ہیں ، تاریخی تحقیقات کسی یقینی نقطہ تک پہنچیں گی تو اس کا حتمی مفہوم سامنے آئے گا۔'' 3
کیاستم ظریفی ہے کہ فرمانِ ایزدی (لَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا...﴿١٤﴾...سورۃ العنکبوت)سے تو حتمی معنی واضح نہیں ہوتا، اس لیے قیاسات اورظن و تخمین کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں اور ساتھ ہی تاریخی تحقیقات کا انتظار ہورہا ہے کہ وہ آکر قرآن کے ان 'غیر واضح مفاہیم' میں سے کسی 'حتمی مفہوم' کا تعین کریں گی۔
بموخت عقل ز حیرت ایں چہ بو العجبی است
عمر نوح ؑ اوراقتباساتِ پرویز
ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر پرویز صاحب ہی کے ماضی کے دو اقتباسات پیش کردیں تاکہ ان کی 'مفکر قرآن' ہونے کی حیثیت کے ساتھ 'شہنشاہِ تضادات' ہونے کی حیثیت بھی واضح ہوجائے :
''دور حاضر کے انسان کے لیے جو سوا سوسال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لیے آتا ہے، اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے اس درازئ عمر کے اسباب دریافت کرتا ہے۔ اتنی لمبی عمر بمشکل یاد کئے جانے کے قابل ہے(اس وجہ سے بعض احباب عاماً سے مراد مہینے لینے پر مجبور ہورہے ہیں ) لیکن حضرت نوحؑ کا زمانہ قبل از تاریخ ہے جس کی تفاصیل کے متعلق ابھی تک بالتحقیق کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔(تورات کی رو سے) حضرت نوحؑ، حضرت آدم ؑ سے دسویں پشت میں آتے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سو سال کی لکھی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کے برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اُسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لیے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کئے گئے تھے، اتنی لمبی عمریں کچھ باعث تعجب نہیں ہوسکتیں ''۔ 4
اس اقتباسِ پرویز میں دو باتیں بالکل واضح ہیں :
اوّلاً یہ کہ ... وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ''حضرت نوحؑ کا زمانہ قبل از تاریخ ہے۔'' (حالانکہ 'مفہوم القرآن' کے حاشیہ صفحہ ۹۱۲ کی رُو سے وہ عمر نوحؑ کی بابت 'قرآنی ابہام' کی وضاحت کے لیے تاریخی تحقیقات کے منتظر رہے ہیں ) اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب دورِ نوحؑ کا تعلق زمانہ قبل از تاریخ سے ہے تو پھر قرآن کے اس صاف اور صریح بیان کے بعد کہ ''نوحؑ ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے۔''ان تاریخی تحقیقات کاانتظار کس شوق میں کیاجارہا ہے جواگر مل بھی گئیں تو ان کا مبنی برظن و تخمین ہونا واضح ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر صحت و استنادکے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ'تاریخی تحقیقات' (جن کی راہ میں 'مفکر قرآن' صاحب عمر بھر اپنی پلکیں بچھائے رہے) ضعیف سے ضعیف حدیث کے مرتبے کو بھی نہیں پہنچتیں لیکن ستیاناس ہو اس غلامانہ ذہنیت کا جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہرمبنی برظن و تخمین ''تاریخی تحقیق' کو تو مستند اور قابل اعتماد سمجھتی ہے اور احادیث ِرسولؐ کو ظنی کہہ کرردّ کردیتی ہے اور رجعت الی القرآن کے نعرہ کے تحت قرآنی تفسیر کو ان ہی 'تاریخی تحقیقات' کی روشنی میں مرتب کرتی ہے، اور یوں مغربی افکارو نظریات کو قرآن پرشرفِ تقدم عطا کرتی ہے۔لیکن اگر کوئی شخص قرآن کی تفسیر صاحب ِقرآن علیہ الصلوٰة والسلام کے طرزِعمل کی روشنی میں کرے تو یہی ذہنیت اسے'عجمی اسلام' قرار دیتی ہے اور 'مفکر قرآن' اگر اشتراکیت اورمغرب کی فساد زدہ معاشرت اور حیاسوز تمدن کی روشنی میں تفسیر قرآن پیش فرمائیں تو گویا یہ 'خالص عربی اسلام' ہے۔
ثانیاً یہ کہ ... پرویز صاحب تورات کی بیان کردہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ''حضرت نوحؑ، آدم ؑ سے دسویں پشت میں آتے ہیں ۔'' اس سے یہ واضح ہے کہ آدم ایک مخصوص فرد کا نام ہے، ورنہ اگر آدمؑ سے مراد ہرفرد و بشر لیاجائے(جیسا کہ پرویز صاحب کاگمانہے) تو نوح ؑ اور ان کے درمیان دس پشتوں کا یہ فاصلہ بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔
اِزالہ استبعادِ عقلی کے لیے ایک اور اقتباسِ پرویز
حضرت نوح علیہ السلام کی درازئ عمر پرعقلی استبعاد کے ازالہ کے لیے پرویز صاحب مزید فرماتے ہیں :
''چین کے مشہور مذہب TAOISM کاایک بہت بڑا مبلغ اور رشیKawag جس کی پیدائش چوتھی صدی ق م کی ہے، اپنی کتاب میں سمجھاتا ہے کہ عمر بڑھانے کاطریقہ کیا ہے؟ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ ''میں بارہ سو سال سے اسی طریق کے مطابق زندگی بسر کررہا ہوں اور اس پر بھی میرا جسم روبہ انحطاط نہیں ہے۔''(Sacred Book of the East (Taoism) Translated by Janes Legce, P.25) (معارف القرآن: ج2؍ حاشیہ بر صفحہ377)
نیرنگی دوراں دیکھئے کہ کل تک پرویز صاحب خود درازئ عمر کے عقلی استبعاد کا اِزالہ کرنے والوں میں تھے اور آج وہ خود اس عقلی استبعاد کا شکار ہوکر دور خیز اور خود ساختہ اُن ہی رکیک تاویلات قرآن پر اُتر آئے ہیں ، جن کی وہ کل تردید کیا کرتے تھے۔
مزاج پرویز کاایک بنیادی پہلو
اس بحث کوختم کرنے سے پہلے مزاجِ پرویز کے ایک بنیادی پہلو کی نشاندہی ضروری ہے جس کا ظہور و صدور دیگر مقامات پر بالعموم اور یہاں بالخصوص ہواہے۔ پرویز صاحب اگر واقعی قرآن کو حجت اور سند سمجھتے تو ان پر لازم تھاکہ وہ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًاسے 950 سال ہی مراد لیتے۔پھر جو کوئی اس طویل العمری پرشک و شبہ کااظہار کرتا تواسے یہ ہدایت فرماتے کہ وہ علمی انکشافات کا ابھی اور انتظار کرے تاآنکہ قرآن (وحی) کا یہ مفہوم ثابت ہوجائے۔'' یہی رویہ ان کے لیے زیبا تھا اور ایک مقام پر خود اُنہوں نے اسے اختیار بھی کیاتھا، چنانچہ قصۂ صاحب ِموسیٰ ؑ کے ضمن میں اُنہوں نے یہی ہدایت فرمائی کہ
''عقل اپنی محدود معلومات کی بنا پر وحی کے کسی حکم کے خلاف اعتراض کرتی ہے، لیکن جب اس کی معلومات میں اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو کچھ وحی نے کہا تھا، وہ سچ تھا۔لہٰذا عقل کے لیے صحیح روش یہی ہے کہ وہ وحی کی بات تسلیم کرنے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی رہے۔ جب اسے صحیح معلومات حاصل ہوجائیں گی تو وہ خود بخود وحی کی تصدیق کردے گی۔'' 5
یہ وہ اُصولی بات ہے جس کی وہ تلقین کیا کرتے تھے لیکن یہاں ان کااپنا طرزِعمل اس تلقین کے برعکس ہے کہ وہ اب وحی کی بیان کردہ عمر نوحؑ کو عقلاً مستبعد سمجھتے ہیں اور قیاسات کی بنا پر آیات کی رکیک تاویلات پرتُل جاتے ہیں اور قرآنی الفاظ میں عمر نوحؑ کے متعلق ایک نیا تصور داخل کرتے ہیں اور زبانِ حال سے یہ فرماتے ہیں کہ ''ان قیاسی مفاہیم کو قبول کرلو یہاں تک کہ علمی تحقیقات عمر نوحؑ کے کسی قطعی مفہوم کو سامنے لے آئیں ۔رہاقرآنِ کریم کابیان کردہ مفہوم تو وہ 'غیر واضح' ہے۔''
اب ظاہر ہے کہ یہ طرزِ عمل وہی شخص اختیارکرسکتا ہے جو قرآنی بیان پریقین کرنے کی بجائے خارج از قرآن نظریات کے سامنے سرجھکا چکا ہو اور پھر اس کوشش میں جُت گیا ہو کہ قرآن چھیل چھال کر اپنے دل و دماغ میں رچے بسے خیالات کے مطابق ڈھال دیا جائے ورنہ قرآنِ مجیدپرپختہ یقین اورمستحکم ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ طرزِ عمل کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔
چوتھی مثال: قتل ابناے بنی اسرائیل
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ فرعونِ مصر نے ولادتِ موسوی سے قبل ابناے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا ظالمانہ سلسلہ شروع کررکھا تھا، خود قرآنِ مجیدبھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ مگر طلوعِ اسلام کے روحِ رواں جناب غلام احمد پرویز کو اس سے انکار ہے۔چنانچہ قرآنِ کریم کے ہر اُس مقام پر جہاں فرعون کے ہاتھوں ابناے بنی اسرائیل کاقتل مذکور ہے، اُنہوں نے یہ تاویل (بشرطیکہ اسے تحریف کی بجائے تاویل کہا بھی جاسکے) فرمائی ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون فرزندانِ بنی اسرائیل کو ''جو ہر انسانیت سے محروم رکھنے کی کوشش'' کہا کرتے تھے نہ کہ اُنہیں جان سے مار دینے کی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
''يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ'' ...﴿٤﴾...سورة القصص ) اس کا عام ترجمہ یہ ہے کہ '' وہ ان کے اَبناء کو قتل کرتا اور ان کی نساء کو زندہ رکھتا اور اس طرح اس میں فساد برپاکرتارہتا'' یہ الفاظ دو ایک دیگر مقامات پر بھی آئے ہیں ۔(مثلاً الاعراف:127،غافر:25،البقرة:49) ہمارے ہاں ان الفاظ کامفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ فرعون نے حکم دے رکھاتھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے بھی بچے پیداہوں ، ان میں سے لڑکوں کوپیدا ہوتے ہی قتل کردیاجائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔یہ مفہوم صحیح نہیں ، اسے تورات سے لیا گیا ہے۔'' 6
ہمیں افسوس ہے کہ مقالہ کی تنگ دامنی نہ تو ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اقتباسِ بالا میں سوے تعبیر کے ذریعہ جو کرشمہ سازی کی گئی ہے، اس کاپردہ چاک کیاجائے اورنہ ہی اس بات کی کہ موقف ِ پرویز کے جملہ دلائل کاتفصیلی رد پیش کیا جائے اورنہ ہی اس امر کی کہ علماے سلف و خلف کے موقف کادلائل و براہین سے اثبات کیا جائے۔ ان جملہ اُمور پرتفصیلی بحث کے لیے میری کتاب 'تفسیر مطالب الفرقان کاعلمی اور تحقیقی جائزہ' کامطالعہ فرمائیے۔
یہاں موضوع کی مناسبت سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ'مفکر ِقرآن' کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کیا ہے؟
انکارِ قتل ابناے بنی اسرائیل کی وجہ
چنانچہ وہ جس وجہ سے قتلِ ابناے بنی اسرائیل کاانکارکرتے ہیں ، وہی اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ وہ فی الواقع قرآن کومانتے ہیں یاغیرقرآن کو؟ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
''اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کردینے کاکوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو، اس وقت تک صرف تورات میں یہ ملتا ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مارنے کاحکم دے رکھا تھا۔ (کتابِ خروج)لیکن تاریخی نقطۂ نگاہ سے موجودہ تورات کی جو حیثیت ہے وہ اربابِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔'' 7
'مفکر ِقرآن' کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری
اقتباسِ بالا نے پرویز صاحب کی مغرب کے مقابلے میں ذہنی غلامی اور فکری اسیری کو بالکل بے نقاب کرکے رکھ دیاہے۔ قرآنِ کریم بالفاظِ صریحہ فرعون کے متعلق یہ کہتا ہے کہ''يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ'' ...﴿٤﴾...سورة القصص ) ''وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا کرتاتھا'' فرعونیوں کے متعلق بھی قرآن صراحت سے بیان کرتاہے کہ ''يُذَبِّحُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ...﴿٤٩﴾...سورہ البقرة''وہ تمہارے بچوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رہنے دیا کرتے تھیـــــــ۔''ایک دوسرے مقام پر ''یذبحون''کی جگہ ''یُقَتِّلُوْنَ'' کے الفاظ آئے ہیں یعنی ''خوب قتل کیاکرتے تھے۔'' الغرض قرآن کریم نے یذبحون کہا ہو یا یقتلون، دونوں کامعنی 'جان سے مار ڈالنا' ہی ہے۔ لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' کو یہ حقیقی اور عام فہم مفہوم قابل قبول نہیں کیوں ؟ محض اس لیے کہ ابھی تک حجری اور اثری انکشافات نے اس معنی کی تصدیق نہیں کی۔ گویا اصلی قابل اعتماد ماخذ الفاظ کلام اللہ نہیں ہیں بلکہ تاریخی آثار اور انکشافاتِ آثارِ قدیمہ ہیں ۔لہٰذا قرآنی مفہوم ان ہی کی روشنی میں متعین کیاجائے گا یعنی قرآنی الفاظ کا مفہوم قطعی نہیں بلکہ تاریخی آثار و کتبات سے برآمد شدہ مفہوم ہی قطعی ہے۔ یہ رویہ مغرب کی انتہائی ذہنی غلامی کا غماز ہے۔
'مفکر قرآن' پڑھتے تو قرآن ہی رہے ہیں مگر سوچتے رہے ہیں تہذیب ِغالب کی تحقیقات کی روشنی میں ۔ آنکھیں تو اُن کی اپنی تھیں مگر دیکھتے رہے ہیں مغرب کے زاویۂ نگاہ سے۔ کان تو اُن کے اپنے ہی تھے، مگر سنتے رہے ہیں علماے مغرب کی سخن سازیاں ۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے اپنی زبان سے ادا کرتے رہے ہیں مگر ان کے اندر معانی وہ فکر جدید سے لے کر داخل کیا کرتے تھے۔ زبان تو ان کی اپنی تھی،مگر بات غیروں ہی کی کیا کرتے تھے۔دماغ تو ان کا اپنا ہی تھا مگر اس میں سوچ اور فکر اَغیار ہی کی تھی: لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآ ۚ أُولَـٰٓئِكَ كَٱلْأَنْعَـٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ ...﴿١٧٩﴾...سورة الاعراف
مزید برآں ہمارے 'مفکر قرآن' ہوں یا دیگر منکرینِ حدیث، اُن کی یہ بات کس قدر قابل توجہ ہے اورموجب ِصد حیرت ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور آپؐ کے اُسوۂ حسنہ کے متعلق بخاری، مسلم، موطا اور دیگر کتب ِحدیث کی شہادتوں کو بلا تکلف ردّ کردیتے ہیں اور محققین مغرب کی آثارِ قدیمہ سے ماخوذ تاریخی شہادت کو قبول کرلیتے ہیں حالانکہ یہ تاریخی شہادتیں اُن شہادات کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔ منکرین حدیث مغرب کی جن تاریخی شہادتوں پر اعتماد کرتے ہیں ، ان میں سے قوی سے قوی ذریعہ بھی ابن ماجہ، حاکم، بیہقی کی ضعیف سے ضعیف روایت کے مقابلہ مں بھی ہیچ ہے۔ لیکن بُرا ہو ذہنی غلامی کا، ستیاناس ہو دماغی مغلوبیت کا، بیڑہ غرق ہو فکری اسیری کا، جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر!
ہمارے'مفکر قرآن' فرماتے ہیں کہ قتل ابناے بنی اسرائیل کو مقتول و مذبوح قرار دینے والی آیات میں 'جان سے مار ڈالنے' کامفہوم اس لیے قابل قبول نہیں کہ ''اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیاہے، ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو۔ کیایہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی الفاظ کے قطعی مفہوم کونظر انداز کرکے مصر کی تاریخ پر سے مزید پردوں کے اُٹھنے کاانتظار کرتے کرتے وہ شخص مرگیا جواُٹھتے بیٹھتے قرآن قرآن کی رٹ لگائے رکھتا تھا اور قرآن کے اوّل و آخر سند ہونے کی دہائی دیا کرتاتھا۔ اب گویا حیاتِ پرویز ہی میں جب اثری تحقیقات میں سے کوئی ایسی شہادت مل جاتی جو ولادتِ موسیٰ علیہ السلام کے وقت اسرائیلی بچوں کو'جان سے مار ڈالنے' کا انکشاف کرڈالتی تو پھر'مفکر قرآن' ایک اور قلابازی کھاتے اور مفہوم قرآن از سر نو بدل کر کچھ اور ہوجاتا اورجب تک کوئی ایسی شہادت نہیں مل پاتی اس وقت تک 'پیروانِ دعوتِ قرآنی' پر لازم ہے کہ وہ 'مفکر قرآن' کے اندازاً بتائے ہوئے قیاسی معانی ہی کو سینے سے لگائے رکھیں ۔
تورات اور پرویز
اور یہ بھی کیا خوب کہا ہے کہ ''اسرائیلی بچوں کو سچ مچ مار ڈالنے کا فرعونی حکم صرف تورات میں پایا جاتاہے مگر موجودہ تورات 'ساقط الاعتبار' ہے۔'' یہاں ہمارے 'مفکر قرآن' کا یہ دو رُخا پَن بھی قابل غور ہے کہ اُنہوں نے جب اور جہاں چاہا تورات کے اُن واقعات کو بھی جو مطابقِ قرآن ہیں یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ واقعات تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ ہیں '' (مثلاً یہی قتل ابناے بنی اسرائیل کے واقعات) لہٰذا ناقابل قبول ہیں ۔لیکن دوسری طرف توراتِ محرفہ کے جن واقعات کو وہ اپنے منسوب الی القرآن تصورات کے موافق پاتے ہیں اُنہیں وہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرلیتے ہیں (مثلاً نظامِ یوسفی میں اقتصادی نظام) پھر اُس وقت نہ تورات اُنہیں تحریف شدہ نظر آتی ہے اور نہ ہی ساقط الاعتبار۔
پھر 'مفکر قرآن' صاحب کا یہ دو رُخا پَن بھی ملاحظہ فرمائیے کہ قرآنِ کریم اگر یہ کہہ دے کہ''فرعون ابناے بنی اسرائیل کو قتل اور ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی خواتین کو زندہ رکھاکرتا تھا۔'' تو یہ قرآنی بیان 'مفکر قرآن' کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور اسے مردود قرار دینے کے لیے یہ فرماتے ہیں کہ ''یہ تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ تصور ہے۔'' لیکن دوسری طرف وہ خود ایک ایسی ہی حقیقت کو جب اہل کتاب کی مذہبی کتابوں سے پیش کرتے ہیں تو بغیر کسی تردد، دغدغہ، تامل اور حیل و حجت کے 'حقیقت ِواقعہ' قرار دے کر قبول کرتے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
''انجیل متی میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہیرودلیسس نے بیت اللحم اور اس کی سرحدوں کے تمام بچوں کو جن کی عمر دو برس یا اس سے کم تھی، قتل کردیا تھا۔'' 8
غور فرمائیے، انجیل متی کی سند پر ہیرودلیسس کا قتل اطفالِ مسلّم ومعتبر ہے لیکن قرآن کی سند پر قتل اطفال بنی اسرائیل غیر مسلّم ہے :
شعور و فکر کی یہ کافری معاذ اللہ!
ایک قابل غور امر
قرآنِ کریم نے ابناے بنی اسرائیل کی ہلاکت کے سلسلہ میں تقتیل اور تذبیح کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو قتل اور ذبح کے الفاظ سے نکل کر باب تفعیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قتل یا تقتیل (جس کے 'مفکر قرآن' نے چھ معانی کے چوہے جبل لغات سے کھود نکالے ہیں ) کی وضاحت ذبح (یا تذبیح) کے لفظ سے فرمادی ہے، جس کاواحد معنی 'جان سے مارڈالنا' ہی ہے۔ 'مفکر ِقرآن' اس خدائی وضاحت کو نظر انداز کرڈالتے ہیں کیوں ؟ کس لئے؟ صرف اور صرف اس لیے کہ اُنہیں اپنے'مزعومات' قرآنی حقائق کی نسبت زیادہ عزیز و محبوب ہیں ۔ یہ 'مزعومات' دراصل وہ تصورات ہیں جو مغرب کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری کے باعث اُنہوں نے اپنے قلب و دماغ میں راسخ کررکھے ہیں اور اب ان ہی کی تائید کے لیے ایک طرف وہ تفسیر قرآن کی آڑ میں حد ِتحریف کو پہنچی ہوئی رکیک و خسیس تاویلات کے درپے رہتے ہیں اور دوسری طرف مصری کتبات، آثارِ قدیمہ کی تحقیقات اور مزید تاریخی انکشافات کے منتظر رہتے ہیں جو اُن کے نزدیک قرآن سے بھی بڑھ کر قطعی الثبوت ہیں تاکہ ان کی روشنی میں تقتیل ابناء والی قرآنی آیات کے مفہوم کو متعین کیا جاسکے، حالانکہ تاریخ اور قرآن کی حیثیت کو بہ تکرار و اعادہ وہ یوں بیان کیاکرتے ہیں کہ
''تاریخ بہرحال ظنی ہے اور اس کے مقابلہ میں قرآن ایک یقینی شہادت ہے۔'' 9
لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ'مفکر قرآن' جو ہمیشہ عقل و دانش کی روشنی میں قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کرنے کے مدعی رہے ہیں قرآن کی قتل اطفال اور ذبح ابناء بنی اسرائیل سے متعلقہ آیات (جوقرآن ہونے کی بنا پرقطعی اوریقینی ہیں ) کی تفسیر تاریخی آثارِ مصر سے کرنا چاہتے ہیں جن پرسے اٹھنے والے پردوں کے بعد بھی جو کچھ سامنے آئے گا، وہ بہرحال ظنی ہی ہوگا۔
پانچویں مثال: واقعہ قتل نفس اور ذبح بقرہ
سورة البقرة میں ذبح البقرہ کے واقعہ کے ضمن میں قتلِ نفس کا واقعہ بایں الفاظ مذکور ہے :
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَٱدَّٰرَْٰٔتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿٧٢﴾ فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٧٣﴾...سورة البقرة
''اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تب اس ضمن میں باہم جھگڑے اور ایک دوسرے پر الزام قتل تھوپنے لگے اور اللہ اُس امر کو کھولنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے۔ تب ہم نے کہا: لاشِ مقتول کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ، دیکھو! اللہ یوں اپنی نشایاں دکھاتے ہوئے لوگوں کو زندگی بخشتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔''
اس آیت کی تفسیر میں قریب قریب جملہ علماے تفسیر نے یہ لکھا ہے کہ جس گائے کو ذبح کرنے کا حکم اس سے متصل پہلی آیات میں دیا گیا ہے، اسی کے گوشت کو مقتول کی لاش کے ساتھ لگانے کاحکم دیاگیا ہے:فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ﴿٧٣﴾...سورة البقرة) اس کے نتیجہ میں مقتول کچھ دیر کے لیے زندہ ہوا اور اپنے قاتل کا نام بتا کر ہمیشہ کے لیے پھر موت کی نیندسوگیا اور قاتل کو اس کے جرم کی سزا دے دی گئی۔
تفسیر قرآن میں اَحوط و انسب رویہ
لیکن پرویز صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں علماء کے اس تفسیری موقف کو نظر انداز کرکے ایک ایسی بات کہی ہے جو کسی حد تک ان کے اَنسب و احوط رویہ کی غماز ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
''اضربوہ ببعضھاکی تفسیر میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ خواب کثرتِ تعبیر سے پریشان ہوگیا ہے لیکن بایں ہمہ بات ویسی کی ویسی ہی مشکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس کا صحیح مفہوم تاریخی انکشافات کی روشنی میں ہی متعین ہوسکتاہے جس طرح فرعون کی لاش کے محفوظ رکھے جانے کا بیان ایک تاریخی واقعہ تھا۔ صدیوں تک اس آیت کی تفسیر میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں لیکن جب تاریخ نے اپنے چہرہ سے نقاب اُٹھایا تو مصر کے تہہ خانہ میں اس آیت کی تفسیر مجسم نظر آگئی۔ اسی طرح محولہ صدر واقعہ بھی تاریخ سے متعلق ہے قیاس آرائیوں سے اس کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ یہ آیت بھی ابھی متشابہات کی فہرست میں ہے، تاریخ اپنا کوئی اور ورق الٹے گی تو اس وقت یہ آیت محکمات کی فہرست میں منتقل ہوجائے گی۔ قرآنی حقائق و معارف زمانہ کے شکن درشکن گیسوؤں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ علم انسانی کی نسیم سحری جوں جوں ان پیچوں کو کھولتی جاتی ہے یہ گوہر آبدار حسین آویزوں کی طرح وجۂ درخشندگی عالم ہوتے جاتے ہیں ۔'' 10
یہ تفسیری موقف پرویز صاحب نے 1935ء میں اختیار کیاتھاجس کے تحت ایسی آیات کومتشابہات میں سمجھتے ہوئے اس کی تفسیر کو یہ کہہ کر معرضِ اِلتوا و انتظار میں ڈال دیا تھا کہ ''جب تک تاریخ اس طرح کی کوئی مجسم تفسیر پیش نہیں کردیتی جیسی کہ فرعون کے بدن کو محفوظ رکھنے والی آیت میں پیش کی گئی ہے، اس وقت تک اسے متشابہات میں سے ہی سمجھا جائے گا۔''نیز اُنہوں نے یہ بھی فرمایا تھاکہ 'قتل نفس'کے زیر بحث واقعہ مںا بھی 'قیاس آرائیوں ' سے اس کامفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔
کاش! 'مفکر قرآن' اپنے اس اُصول پرقائم رہتے اور تفسیرقرآن میں اپنی رائے، ظن اور گمان کودخیل نہ بناتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی فضاے دماغی میں ایک لہر اُٹھی اور ظن و تخمین اور گمان و تخریص پر مبنی ایک خالص قیاسی تفسیر بایں الفاظ صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوگئی :
''ہم جو کچھ سمجھ سکے ہیں ، وہ یہ ہے کہ توہم پرستیوں سے لوگوں کی نفسیاتی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ ذرا سے خلافِ معمول واقعہ کا سامنا نہیں کرسکتے اور اس کے احساس سے ان پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوچکی تھی اور واقعۂ قتل میں ان کی نفسیاتی حالت کو تحقیق مجرم کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ مشتبہ ملزموں میں سے ایک ایک شخص، لاش کے قریب سے گزرے اور لاش کا کوئی حصہ اُٹھاکر اس شخص کے جسم سے چھوا جائے، ملزم کی پہچان ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے مجرم کی جو حالت ہوئی ہوگی، وہ اس کے داخلی احساسات کی غماز بن گئی ہوگی۔ اس طرح جب مجرم کاتعین ہوگیا تو اس سے قصاص لے لیا گیا۔ قرآن نے قصاص کے متعلق کہا ہے کہ اس میں رازِ حیات ہے۔ یہ بہرحال ہمارا قیاس ہے حقیقت اس وقت ہی سامنے آئے گی جب تاریخی انکشافات اس کی نقاب کشائی کریں گے۔''11
پھر اس'قیاسی تفسیر' کو جس کے متعلق خود اُن کا اپنا اعتراف ہے کہ ''یہ ہمارا قیاس ہے۔'' عین مفہوم قرآن بناکر یوں پیش کرتے ہیں :
''ایک طرف تمہاری یہ حالت کہ ایک جانور کو ذبح کرنے میں اس قدر حیل و حجت اوردوسری طرف یہ عالم کہ ایک انسانی جان ناحق لے لی اوراسے خفیہ طور پر مار دیا اور جب تفتیش شروع ہوئی تو لگے ایک دوسرے کے سر الزام تھوپنے یعنی تم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ جرم ہوگیاتو کھلے بندوں اس کااعتراف کرلیتے، لیکن جس بات کوتم چھپانا چاہتے تھے، خدا اُسے ظاہر کردینا چاہتا تھا تاکہ جرم بلاقصاص نہ رہ جائے۔
مشرکانہ توہم پرستیوں سے جن میں تم مبتلا ہوچکے تھے، انسان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کسی ذرا سی خلافِ معمول بات کا سامنا کرنا پڑے تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ (22؍31) چونکہ خدا تمہاری اس نفسیاتی کیفیت سے واقف تھا، اس نے قاتل کاسراغ لگانے کے لیے ایک نفسیاتی ترکیب بتائی ( جوانسان کی اُس زمانے کی ذہنی سطح کے اعتبار سے بڑی خلافِ معمول تھی) اُس نے کہا: تم میں سے ایک ایک جاؤ اوراپنے حصہ جسم کو لاش کے ساتھ لگا دو۔ (چنانچہ جو مجرم تھا، وہ جب لاش کے قریب پہنچا تو خوف کی وجہ سے اس سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لیے کافی تھے) اس طرح اللہ نے اس قتل کے راز کو بے نقاب کردیا اورمجرم سے قصاص لے کر موت کو زندگی سے بدل دیا کیونکہ قصاص میں قوم کی حیات کاراز پوشیدہ ہوتا ہے۔(2؍179) اللہ اس طرح اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل و شعور سے کام لے کر ایسے معاملات کو سلجھایا کرو اور اس حقیقت کوسمجھ لو کہ نفسیاتی تغیرسے (افراد سے آگے بڑھ کر)کس طرح خود قوموں کی حالت بدل جاتی ہے۔''12
قرآنی الفاظ کے اختصارکوبھی دیکھئے اور پھر انہی الفاظ کے مفہوم کے طول وعرض کو بھی اور سوچئے کہ اگر یہی قرآنی مفہوم ہے تو کیا عرب کے اَن پڑھ اور سادہ مزاج بدؤوں کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ مفہوم آسکا ہوگا جبکہ اس مفہوم سے خود 'مفکر قرآن' بھی بایں علم و دانش اور حکمت و فضیلت 1935ء تک محروم تھے۔ پھر اس 'مفہوم القرآن' کو اس پہلو سے بھی دیکھئے کہ اس میں کس قدر قرآنی الفاظ کی رعایت پائی جاتی ہے اورکس قدر 'مفکر قرآن' کے اپنے قیاس وگمان کادخل ہے۔ پھر یہ کہ قیاس و گمان اور لفاظی کایہ مرکب ایک سادہ اور عام فہم عرب کو قرآن سے قریب تر کرے گا یا بعید تر؟ یہ ہرشخص خود محسوس کرسکتا ہے۔
پرویز صاحب کے اس 'مفہوم القرآن' کے مقابلہ میں مندرجہ ذیل مفہوم آیات کو بھی ملاحظہ فرمائیے جسے قرآنی الفاظ کی حدود میں رہ کر اس خوبی سے پیش کیاگیا ہے کہ قرآنی ترجمہ اور شرحِ مفہوم میں ربط و ہم آہنگی نمایاں ہوجاتی ہے اور عبارت بھی الفاظ کے اِسراف و تبذیر سے قطعی پاک ہے:
''اور (وہ زمانہ یادکرو) جب تم لوگوں (میں سے کسی) نے ایک آدمی کاخون کردیا پھر (اپنی براء ت کے لئے) ایک دوسرے پرڈالنے لگے اور اللہ کو اس امرکاظاہر کرنامقصود تھا جس کو تم (میں سے مجرم و مشتبہ لوگ) مخفی رکھناچاہتے تھے۔ اس لیے (ذبح بقرہ کے بعد) ہم نے حکم دیاکہ اس (مقتول کی لاش) کو اس (بقرہ) کے کوئی سے ٹکڑے سے چھو دو (چنانچہ چھوانے سے وہ زندہ ہوگیا۔ آگے اللہ تعالیٰ بمقابلہ منکرین قیامت کے اس قصہ سے استدلال اورنظر کے طور پر فرماتے ہیں کہ ) اسی طرح حق تعالیٰ (قیامت میں ) مردوں کو زندہ کردیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نظائر (قدرت)تم کودکھلاتے ہیں اس توقع پر کہ تم عقل سے کام لیا کرو (اور ایک نظیر سے دوسری نظیر کے انکار سے باز آؤ)۔13
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ 'مفکر قرآن' کا کسی 'تاریخی انکشاف' کاانتظار بھی کوئی خوشگوار موقف نہیں ہے لیکن اس کی بجائے اپنے قیاس و گمان پرمبنی موقف کو الفاظ کابے تحاشا اسراف کرتے ہوئے لفاظی اور وہم و گمان کے مرکب کی شکل میں 'مفہوم القرآن' کے نام سے پیش کرنا اس سے بھی بدتر عمل ہے۔اعاذنا اﷲ من ذلک! یہ بحث اور یہ واقعہ بھی 'مفکر ِقرآن' کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو بے نقاب کر ڈالتا ہے۔
چھٹی مثال: رہبانیت ِمریم کی بابت خود ساختہ داستانِ پرویز
یہود بے بہبود نے حضرت مریم ؑ پر نہایت شرمناک الزامات لگائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ، نقل کفر کفر نباشد) براہِ راست ولد الزنا قرار دیا لیکن اس کے مقابلہ میں 'مفکر قرآن' نے اپنی ایک من گھڑت داستان کی رُو سے حضرت مریم ؑ پر یہی الزام بالواسطہ اس طرح عائد کیا :
''حضرت مریم ؑ ایک راہبہ کی زندگی بسر کررہی تھیں جسے دنیاوی علائق سے کچھ واسطہ نہیں ہونا چاہئے تھابلکہ ساری عمر تجرد میں گزاردینی چاہئے تھی۔آپ کوخدا کی طرف سے اشارہ ملا کہ اُنہیں متاہل زندگی بسر کرنی ہوگی کیونکہ اُنہیں ایک عظیم الشان رسول کی امین بننا ہے۔ اس طے شدہ اَمر (أَمْرًا مَّقْضِيًّا) کے مطابق حضرت مریم ؑ نے خانقاہ کی زندگی چھوڑ کر عائلی زندگی اختیارکی، لیکن یہودیوں کے نزدیک یہ کوئی چھوٹا جرم نہ تھا۔ ایک راہبہ کی زندگی چھوڑ کر متاہل زندگی اختیار کرلینا، مشربِ خانقاہیت میں اِرتداد سے کم نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس جذبۂ انتقام اور شکست ِپندار کو بھی ملحوظ رکھئے جو حضرت مریم ؑ کی اس روش سے اُن کے دلوں میں پیدا ہوا تھا کہ اُنہوں نے ہیکل کے پجاریوں میں سے کسی کے ساتھ شادی نہیں کی اور ہیکل سے باہر ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی۔ ان وجوہات کی بنا پر اُنہوں نے حضرت مریم ؑ کو موردِ طعن و تشنیع بنایا اور اپنے جوشِ انتقام میں ، اس پیکر ِعفت و عصمت کے خلاف طرح طرح کے الزامات تراشے: (وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا ﴿١٥٦﴾...سورۃ مریم) یعنی ان کے نزدیک ایک راہبہ کا اس طرح کا نکاح، نکاح ہی نہیں قرار پاسکتا تھا، اس لیے اُس کی اولاد کس طرح مستحسن نظروں سے دیکھی جاسکتی تھی''۔ 14
اس اقتباس کے پہلے ہی جملے میں واقع لفظ 'راہبہ' کے تحت حاشیہ میں 'مفکر قرآن' صاحب لکھتے ہیں :
''خانقاہیت کی زندگی مذہب ِعیسویت کی ایجاد نہیں ۔اس کے آثار اس سے پہلے یہودیوں کے ہاں بھی موجود تھے اور مصریوں میں بھی۔خود حضرت مریم ؑ کی ابتدائی زندگی کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ یروشلم کے ہیکل میں راہب اور راہبات ہوتی تھیں ۔ یہ تارک الدنیا لوگ، عبادت میں مصروف رہتے اور انبیاے یہود کی پیشینگوئیوں کے تحت ایک آنے والے مسیح کا انتظار کرتے۔'' 15
'مفکرقرآن'کی اس داستانِ زُور کے نتیجہ میں چونکہ حضرت مریم ؑ ایک راہبہ کی زندگی بسر کررہی تھیں اور پھر چونکہ ایک راہبہ کی زندگی چھوڑ کر ''متاہل زندگی اختیار کرلینا، مشرب خانقاہیت میں ارتداد سے کم نہ تھا۔'' اس لیے ''اس طرح کا نکاح، نکاح ہی قرار نہیں پاسکتا تھا۔'' لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اس پرویزی کہانی کی بدولت بھی ویسی ہی غیرمستحسن تھی جیسی یہود کے ہاں تھی۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ یہودنے براہِ راست حضرت مریم ؑ پر الزام لگایا اور 'مفکر قرآن' نے اپنی خود ساختہ کہانی کی بنا پر بالواسطہ یہی الزام عائد کیا۔
پرویزی داستان میں 'غیر قرآنی اجزا'
بہرحال'مفکر قرآن' کی من گھڑت کہانی میں کم از کم مندرجہ ذیل چار اجزا وہ ہیں جو قرآن میں ہرگز ہرگز مذکور نہیں ہیں :
ایک تو یہ کہ مریم ؑ راہبہ کی زندگی گزار رہی تھی۔
ثانیاً یہ کہ رہبانیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے وجود پذیر تھی۔
ثالثاً یہ کہ حضرت مریمؑ ایسی راہبہ کی زندگی گزار رہی تھیں جن کو ساری عمر تجرد میں گزارنا تھی۔
رابعاً یہ کہ رہبانیت کی زندگی چھوڑ کر عائلی زندگی گزارنے پریہودی اُنہیں موردِطعن و تشنیع قرار دیتے تھے۔
قرآنِ مجید سے ان چاروں باتوں کا کہیں سراغ نہیں ملتا اورملے بھی کیسے جبکہ یہ ساری داستانِ زُور تقریباً دو ہزار سال بعد 'مفکر ِقرآن' کے سامری دماغ نے خود تراشی ہے، اس کے لیے سارا مواد محرف انجیلوں اور ان مغربی دانشوروں کی اَہوا سے ماخوذ ہے جن کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری میں وہ مبتلا تھے، کیونکہ از روے قرآن نہ تو حضرت مریم ؑ راہبہ تھیں (کیونکہ رہبانیت اس کے بعد پیروانِ مسیح کی ایجادتھی) اورنہ ہی والدۂ مریم ؑ کے ذہن میں اُنہیں نذر ِ ہیکل کرتے وقت یہ خیال تھا کہ وہ تجرد کی زندگی بسر کرے گی اور اس کی اولاد نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس اُن کی اَزدواجی زندگی اور پھر اس کے نتیجہ میں اُن کی ذرّیت کا شعور رکھتے ہوئے ہی وہ اپنی دعاء اِعاذہ میں اُن کا ذکر کررہی تھںں : وَإِنِّىٓ أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ ٱلرَّجِيمِ ...﴿٣٦﴾...سورة آل عمران) نیز نہ ہی ازروے قرآن اُس وقت رہبانیت کا نظام رواج پذیر تھا کیونکہ اس نظامِ رہبانیت کی ابتدا وابتداع، بعد میں پیروانِ مسیح کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ چنانچہ خود 'مفکر قرآن' صاحب مفہومِ آیات کے نام سے الفاظ کا جو کباڑخانہ پیش کیا کرتے تھے، ان میں بھی اس مسلک کو متبعین عیسیٰ ؑ کا ایجاد کردہ مسلک قرار دیا گیا ہے:
''پھر ہم نے ان کے بعد انہی کی نہج پر اور رسول بھی بھیجے اور (سلسلۂ بنی اسرائیل میں ) سب سے پیچھے عیسیٰ ابن مریم ؑ کوبھیجا اور اسے انجیل دی۔جو لوگ اس کی پیروی کرتے تھے ان کے دل میں خلق خدا کے لیے شفقت اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات پیداکردیئے (یعنی عیسیٰ ؑ کی تعلیم کایہ نتیجہ تھا)۔باقی رہا مسلک ِرہبانیت (خانقاہیت) جسے تم اس وقت ان کے ہاں مروّج دیکھتے ہو تو اسے اُنہوں نے از خود وضع کرلیاتھا۔''16
مزید برآں رہبانیت کی بابت واقع لفظ ابتدعو کے مادہ (ب دع) کے متعلق خود پرویز صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ
''البدع وہ کام جو پہلے پہل ہواہو اور اس سے پہلے اس کی مثال موجود نہ ہو۔(ابن فارس) وہ رسی جسے پہلی بار نئے ریشے سے بٹا گیاہو۔ ''ركية بديعة'' نیاکھودا ہواکنواں ۔ نواب صدیق حسن خاں نے لکھاہے کہ جن الفاظ میں با کے ساتھ دال آئے، ان میں ابتداء اور ظہور کامفہوم مضمر ہوتا ہے۔''17
ایمان قرآن پر یا غیر قرآن پر؟
یہاں پہنچ کر 'مفکر قرآن' جناب چودھری غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے۔ ایک طرف قرآن یہ کہتا ہے کہ مسلک ِرہبانیت کے موجد عیسائی تھے۔ قبل ازیں ، اس کا وجود تک نہ تھا اور دوسری طرف 'مفکر قرآن' صاحب محض اپنی نرالی اُپچ کی لاج رکھنے کی خاطر یا علماے مغرب کی تقلید میں یہ کہتے ہیں کہ رہبانیت، عیسائیوں کی ایجاد نہیں بلکہ ان سے بہت پہلے یہودیوں اور مصریوں میں یہ مسلک رائج تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایمان بالقرآن کا تقاضا کیاہے؟ قرآن کی بات مانی جائے یا غیر قرآن کی؟ فرمانِ خداوندی قابل تسلیم و اطاعت ہو یا اقوالِ علماے مغرب؟ ایک سچی اور محفوظ کتاب کی بات مانی جائے یا جعلی اور محرف کتاب کی؟ اگر قرآنی حقائق اور اکتشافاتِ مغرب میں تعارض و تضاد پایا جائے تو کسے قبول کیا جائے اور کسے ردّ کیا جائے؟ آپ جو عمل بھی یہاں اختیارکریں گے وہ آپ کے اصل ایمان و اعتقاد کو ظاہر کردے گا۔اگر قرآن کی بات مانیں گے تو آپ کے ایمان بالقرآن کی عملاً تصدیق ہوجائے گی، اگر آپ آراے علماے مغرب کو تسلیم کریں گے تو (قرآن کی بجائے) اُن پر آپ کا اعتقاد و ایمان واضح ہوجائے گا اور آراے مغرب کو شرفِ تقدم بخشنے کا آپ کا یہ عمل اُس زبانی کلامی ایمان کی تردید کرڈالے گا جو قرآن کے بارے میں آپ ظاہر کرتے ہیں ۔ فی الواقع انسان کا عملی رویہ ہی وہ معیار ہے جو یہ واضح کرڈالتا ہے کہ اس کاایمان و اعتقاد قرآن پر ہے یاغیرقرآن پر۔
حقیقت یہ ہے کہ جس قرآن کے واحد مسند اور تنہا حجت ہونے کاڈھنڈورا 'مفکر ِقرآن' پیٹا کرتے تھے۔ اس پر ان کازبانی کلامی ایمان ہو تو ہو، عمل کی دنیا میں خوردبین لگا کر دیکھنے سے بھی اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں قرآن کے نہیں بلکہ مغرب ہی کے پیروکار تھے قرآن کے نام پر جو کچھ وہ عمر بھر پیش کرتے رہے ہیں ، وہ سب کچھ بغیر کسی قرآن کے مغرب میں موجود ہے۔مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب، مردوزن کی مطلق مساوات (بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر نظریۂ افضلیت ِاُناث)، درونِ خانہ فرائض نسواں کی بجائے اُنہیں بیرونِ خانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعددِ ازواج کو معیوب قرار دینا، عورت کو خانگی مستقر سے اُکھاڑ کر اسے مردانہ کارگاہوں میں دھکیل دینا، خانگی زندگی میں عورت کو اس کے فطری وظائف سے منحرف کرکے اُسے قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ جملہ اُمور میں سے آخر وہ کون سا امر ہے جسے'مفکر قرآن'نے کتاب اللہ میں سے کشید کر ڈالنے میں زحمت کشی نہ کی ہو اور وہ مغرب میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ وہ اشتراکیت جس کاچوہا جبل قرآن سے کھود نکالنے میں 'مفکر قرآن' نے بڑی زحمت اور مشقت اُٹھائی ہے وہ اُن کے ایسا کرنے سے بہت پہلے روس، چین اور دیگر ممالک میں موجود تھی۔ 'مفکر قرآن' کا اس باب میں اصل 'اجتہادی کارنامہ' یہ ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے، اسے مغرب کی اصطلاحوں میں پیش کرنے کی بجائے اپنی اصطلاحوں میں پیش کیا ہے مثلاً وہ اشتراکیت کو پیش کرتے ہیں تو اس کے اصل نام کے ساتھ نہیں بلکہ 'نظام ربوبیت' کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔کارل مارکس کی 'جدلی مادیت' کافلسفہ ان کے ہاں 'حق و باطل کی کشمکش' قرار پاتا ہے۔'تاریخی وجوب' کی قوت کو وہ 'زمانے کے تقاضے' کہہ دیتے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ زہرہلاہل کی بوتل پر آبِ حیات کالیبل چسپاں کردینے سے زہر کی اصل حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔
الغرض قرآنِ کریم کا بیان یہ ہے کہ رہبانیت کی ابتداء و ابتداع عیسائیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی، لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے کاقائم شدہ مسلک قراردیتے ہیں ۔ قرآن کے مقابلہ میں غیرقرآنی تصورات کو ترجیح دینا 'مفکر قرآن' کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو آفتابِ نصف النہار کی طرح واضح کردیتا ہے۔
ساتویں مثال: ولادت ِ عیسیٰ علیہ السلام ؛ قرآن اور 'مفکر قرآن'
اس آخری مثال میں اس امر کاپھر جائزہ لیاجارہا ہے کہ زیر بحث معاملہ میں پرویز صاحب اپنے عقائد و تصورات کو تابع قرآن رکھتے ہیں یانہیں ؟ اس ضمن میں اُنہوں نے جو کچھ بھی لکھنا تھا وہ اپنی کتاب 'شعلۂ مستور' میں لکھ چکے ہیں کیونکہ باقی ہرجگہ وہ یہی فرماتے ہیں کہ جسے تفصیل درکار ہو، وہ شعلۂ مستور کی طرف رجوع کرے۔جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ مسئلہ زیربحث میں ان کے افکار و نظریات کی آخری ترجمان یہی کتاب ہے، اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں :
''اس(قرآن) میں بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی، نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آپ یوسف کے بیٹے تھے۔''18
اب جب کہ قرآن سے بالتصریح یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیداہوئے تھے یا باپ کے ذریعہ تواس کا لازمی اور منطقی تقاضا یہی قرار پاتا ہے کہ مکمل سکوت اختیار کیاجائے۔نہ اس بات پر زور دیا جائے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی اس بات پرکہ وہ باپ کے ذریعہ متولد ہوئے۔علمی دیانت بھی اسی خاموشی کو لازم ٹھہراتی ہے۔ قرآن کریم کے ایک مخلص اور خداترس طالب ِعلم کے لیے بھی صرف اور صرف یہی رویہ شایانِ شان ہے۔ نیز تقویٰ و پرہیزگاری کے علاوہ حکمت ومصلحت کے لحاظ سے بھی عافیت اسی طرزِ عمل میں ہے۔ لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب نہ تو قرآن کی حدود میں رہناپسند کرتے ہیں (کہ آزادی، انسان کا 'بنیادی حق' ہے، جس سے محروم ہونا اُنہیں پسند نہیں ) اورنہ ہی سکوت و خاموشی اختیار کرنا چاہتے ہیں (کہ ایساکریں تو ان کی عقلِ عیار بیکار اور ان کا شغلِ قلم کاری تعطل کاشکار ہوکر رہ جاتے ہیں ) اس لیے وہ خود کو مجبور پاتے ہیں کہ قرآنی 'اَغلال و اِصر' سے آزاد ہوکر دنیاے مغرب کے اسلام دشمن 'محققین' (مثل رینان وغیرہ) کی اتباع میں ابن مریم ؑ کو 'ابن یوسف' بنا ڈالیں اور پھر اپنی بے معنی نکتہ آفرینیوں دور ازکارموشگافیوں اور خسیس و رکیک تاویلات کے ذریعہ اپنی ہر لمحہ بدلنے والی عقلِ عیار کی خاطر قرآنِ کریم کے محکم اور اٹل حقائق کو توڑا مروڑا جائے۔
پھر حرام ہے جو کبھی 'مفکر قرآن' صاحب یہ سوچیں کہ قرآنی حقائق کی شکست و ریخت کے نتیجہ میں معارف القرآن جلد سوم میں اس بحث پر جو کچھ لکھ چکے ہیں ، اس کے ساتھ قدم قدم پر تضادات و تناقضات کاکس قدر وسیع و عریض خار زار پیدا ہورہا ہے۔ بس اب ان کے قلب و ذہن پر ایک ہی دُھن سوار ہے کہ واقعہ ٔ ولادتِ مسیح علیہ السلام سے معجزانہ پہلو کو زائل کردیا جائے، خواہ اس کے لیے ترجمہ آیت اور مفہوم قرآن میں مسخ و تحریف سے کام لینا پڑے یا قواعد ِزبان کو پس پشت ڈالنا پڑے یابین القوسین اضافی الفاظ کے ذریعہ مدلولاتِ آیات کا حلیہ بگاڑنا پڑے، ان کی بلا سے ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
قرآن بمقابلہ مغربیت اور روّیۂ پرویز
یہاں 'مفکر قرآن' صاحب کے 'قرآنی ذوق' اور 'علمی مزاج' کایہ پہلو بھی قارئین کرام سے مخفی نہیں رہنا چاہئے کہ قرآنی تصریحات اور مغربی تحقیقات میں جب تعارض واقع ہوجاتا ہے تو ان کے نزدیک قرآنی تصریحات کی بجائے مغربی تحقیقات ہی شرفِ تقدم کا مستحق قرارپاتی ہیں ۔ اس کے لیے ان کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ ''ہمارے ہاں تو جمود ہی جمود اور تقلید ہی تقلید ہے، تحقیق و ریسرچ کا کام تو ہے ہی نہیں ، یہ تو صرف مغرب ہی میں پایا جاتاہے۔ لہٰذا تحقیقاتِ مغرب کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔'' اس سے قارئین کرام یہ نہ سمجھیں کہ پرویز صاحب تقلید سے بے زار اور گریزاں تھے۔ ایساہرگز نہیں تھا، وہ بڑے پختہ مقلد تھے اور انتہائی جامد اور اندھی تقلید میں مبتلا تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ تقلید ِکہن کی بجائے، تقلید ِنوپر قائم تھے۔ وہ تقلید ِقدیم پرخوب برسا کرتے تھے مگر تقلید ِجدید کاالتزام کیا کرتے تھے۔امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ، امام مالک رحمة اللہ علیہ ، امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور امام احمد حنبل رحمة اللہ علیہ کی تقلید کی سخت مخالفت (بلکہ مذمت) کیا کرتے تھے۔ لیکن'امام' کارل مارکس ، 'امام' ماؤزے تنگ، 'امام' چارلس ڈارون اور 'امام' رینان کی تقلید ِجامد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ اگر کہیں قرآن اور ائمہ مغرب کے موقف میں غیرفیصلہ کن صورتحال (TIE) پڑ جاتی تو وہ مغرب ہی کے اماموں کی پیروی کو ترجیح دیتے ہوئے قرآن کوچھیل چھال کرکتاب اللہ کو مطابق مغرب بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ قرآنی تصریحات کو وہ اپنی اُس 'عقل عیار' کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے جو مغربیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور جسے وہ اپنی 'قرآنی بصیرت' کانام دیاکرتے تھے۔
ان ساتوں مثالوں سے یہ واضح ہے کہ 'مفکر قرآن' صاحب اگرچہ نام قرآن ہی کا لیا کرتے تھے لیکن ہدایت و ضلالت کا اصل معیار اُن کے ہاں تحقیقاتِ مغرب ہی تھیں ۔ وہ صحت و سقم کی جانچ پرکھ کے لیے اپنے دل و دماغ میں رچے بسے نظریات کو قرآنِ مجیدکی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اکتشافاتِ مغرب ہی کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے۔اپنے قلبی معتقدات کو قرآن پر حاوی رکھتے ہوئے ترازو، باٹ اور تولی جانے والی ہر شئے کو غلط ملط کر ڈالنے کے عادی تھے۔ قرآن، قرآن کی رَٹ لگاتے ہوئے بھی وہ اپنے قلبی آرا و افکار، ذہنی نظریات و معتقدات اوردماغی خیالات و تصورات کو اَصل قرار دے کر قرآنِ کریم کو ان کے مطابق ڈھالا کرتے تھے، نہ کہ ان (تخیلات و مزعومات) کو قرآن کے مطابق۔ پھر ایساکرتے ہوئے وہ ان لوگوں کی روش اپنایا کرتے تھے جو تاویل و تفسیر کے نام پر تحریف و ترمیم قرآن پرکمر بستہ رہے ہیں اور یہی رویہ ہمیشہ ہی سے ضالین اوربے توفیق لوگوں کا روّیہ رہاہے، لیکن بڑی ڈھٹائی اور بلند آہنگی سے وہ الٹا اعلان یہ کیا کرتے تھے :
''ہمارے سامنے ، ہدایت اور ضلالت کا معیارقرآنِ مجیدہے۔ اگر ہمیں اپنی ہدایت و ضلالت کااندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اپنے دماغ میں جواعتقادات ہوں ، اُنہیں قرآنِ مجید کی کسوٹی پرپرکھیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کا التزام رکھیں کہ اپنے دماغ کے کسی عقیدہ کو قرآن پر اثر انداز نہ ہونے دیں ، ورنہ ترازو، باٹ اور جس چیز کو تولا جارہا ہے۔ سب خلط ملط ہوجائیں گے اور ہم فیصلہ نہیں کرسکیں گے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا؟ میرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کوتمام مذاہب ، آرا و افکار ، عقائد و خیالات کے بارے میں اصل مانناچاہئے نہ یہ کہ ہم مذاہب و عقائد کو اصل مان کر پھر ان پر قرآنِ مجید کو پرکھیں اور پھر قرآن مجید میں تاویل و تحریف کریں جیسا کہ ضآلین اور بے توفیق لوگوں کا شیوہ رہاہے۔''19
'مفکر قرآن' کا اس 'وعظ ِ دل پذیر' کے ساتھ عمل کیا ہے، وہ مذکورہ بالا ساتوں مثالوں سے بخوبی عیاں ہے۔
حوالہ جات
1. تفسیر مطالب الفرقان: 5؍237
2. تفسیر مطالب الفرقان:5؍237
3. مفہوم القرآن:ص912
4. معارف القرآن: ج2؍ ص376
5. مفہوم القرآن: ص679
6. تفسیر مطالب الفرقان : ج2 ص173
7. لغات القرآن: ص693،694
8. شعلہ مستور: حاشیہ بر ص16
9. طلوعِ اسلام، نومبر 1965ء، ص49
10. معارف القرآن: ج3؍ ص356
11. برقِ طور:ص190،191
12. مفہوم القرآن:ص25
13. تفسیرمعارف القرآن از مفتی محمد شفیع: رحمة اللہ علیہ ج1؍ص246
14. شعلۂ مستور: ص114
15. شعلۂ مستور: حاشیہ برصفحہ 114
16. مفہوم القرآن: ج3؍ ص1284
17. لغات القرآن: ج1؍ ص302
18. شعلۂ مستور، ص105
19. طلوعِ اسلام: جنوری 1959ء ص31