مسلم امہ کا زوال اور دور حاضر

دورِ حاضر میں ملت ِاسلامیہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور ملت کے اہم ترین ممالک پاکستان و افغانستان، عراق اور ایران کو سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ زوال کے اس تاریک تر دور میں بھی مسلمان بطورِ ملت کچھ کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔ اپنے ملی تشخص کے اِحیا اور بقا، غیروں کی ریشہ دوانیوں کا توڑ اور مسلم اُمہ کے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کی فکر ہی کسی کو نہیں ہے۔ اُمت پر ماضی میں بھی ذلت واِدبار مسلط ہونے کی وجہ بدعملی، سستی، منافقت، خود غرضی اور بدترین مفاد پرستی رہی ہے۔

مسلمانوں کو فی زمانہ اپنی انفرادی زندگیوں میں بالعموم کوئی سنگین پریشانی لاحق نہیں ہے، اس وقت ہمارا بنیادی مسئلہ ملی، اجتماعی اور قومی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو ملت کا کوئی مرکز موجود نہیں ہے، ملت کے نام پر اجتماعی مفادات کا کوئی شعود موجود نہیں اور اگر حادثاتی طورپر ایسا کوئی ڈھانچہ بن گیا ہے تو تب بھی کارگہ ِ عمل میں وہ متحرک نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل ملت ِکفر اپنی کامیابی اور برتری کے لئے ایسے ایسے وسائل بروئے کار لارہی ہے اور اپنا لمحہ لمحہ دوسروں کو اپنے دامِ فریب میں اُلجھانے کے لئے یوں کھپا رہی ہے کہ اس کے اَعداد وشمار اور سرسری جائزہ بھی حیرت افزا ، چشم کشا اور روح فرسا ہے۔

خریطۂ ارض پر بہت سے آزاد ممالک کو آج سے کم وبیش نصف صدی قبل آزادی حاصل ہوئی، لیکن ان ممالک کی حکومتوں نے حاصل ہونے والی آزادی کی تعبیریں اپنے مخصوص مفادات کے مطابق کرتے ہوئے اپنے عوام کو مغالطہ دیا جبکہ دراصل یہ آزادیاں ان ممالک کی تحریکاتِ آزادی سے کہیں بڑھ کر اہل مغرب میں باہمی چپقلش کے نتیجے میں در آنے والی کمزوری کا نتیجہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی منزل پانے کے لئے قربانیاں دینے کی نوبت تو بہت کم آئی اور زیادہ ترقربانیاں آزادی کے حصول اور اِعلان کے بعدہوئیں جس کا سبب فسادات اور انتظامی کوتاہیاں تھیں۔ ان ممالک سے قابض اور استعماری عناصر کو باہمی عالمی جنگوں کی وجہ سے کمزور ہوجانے کے بعد واپس لوٹنا ہی تھا، لیکن جاتے ہوئے بھی اُنہوں نے اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیا جو ان کے طرزِ فکر میں رنگے اور مستقبل میں ان کے مفادات کے محافظ ہوسکتے تھے۔ مزید یہ کہ سامراجی ان متروکہ ممالک پر ایسا ڈھانچہ مسلط کرکے گئے جن سے ان کے تحکم وتسلط کا تسلسل برقرار رَہے۔ برائے نام آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں مقتدر طبقوں کو پھر بھی ہوش نہ آئی اور اُنہوں نے مغرب کی کمزوری کے اس دورمیں اپنے آپ کو مستحکم کرنے کے بجائے مفاد پرستی اور داخلی اختلافات میں اس سنہرے موقع کو ضائع کیا۔ دنیا بھر میں مسلم عوام چیختے چلاتے رہے، اور اپنی حکومتوں کو راست اقدامات کی تلقین کے لئے احتجاج او ردبائو کا ہر طریقہ اُنہوں نے اختیار کیا، لیکن بالخصوص اُمت ِمسلمہ میں کہیں بھی ترقی واحیا کی کوئی تحریک طبقہ اقتدار کی قوت و تائید حاصل نہ کرسکی!!

مغرب کا یہ اختلاف دوسری جنگ ِعظیم کے بعد چالیس برس تک آپس میں شدید نظریاتی اور سرد جنگ کی کیفیت سے دوچار رہا، جس دوران اہل مغرب اور ملت ِکفر ہی باہم برسرپیکار رہے، لیکن اس موقع سے مجموعی طورپر ملت ِاسلامیہ نے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا اور اس دوران ملی بنیادوں پر اپنے آپ کو منظم اور مستحکم کرنے پر کوئی توجہ دینے کی بجائے غیروں کی کاسہ لیسی میںہی اپنا وقت صرف کیا۔ بعد میں مغرب نے اسلام کے جذبہ جہاد سے ہی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے ایک فریق کو زیر کیا۔ اس وقت بھی اگر ہم ملی بنیادوں پر سوچتے تو ہمیں یہ فکر ہوتی کہ دنیا میں دو کفریہ طاقتوں کا جو فطری توازن بنا ہوا ہے، اس کو طول دینے سے ہم بطورِ ملت کیا فائدے اُٹھا سکتے ہیں لیکن جس قوم میں اپنی قومیت اور مرکز ِ ملت کا شعور ہی ختم ہوچکا ہو، اس کے بعد ان مفادات کے تحفظ کا سوال ہی لایعنی بن جاتا ہے!!

آج بھی اہل مغرب کی بیسیوں تنظیمیں ہیں جو اپنی تہذیب، تجارت، معیشت اور نظریات کے فروغ کے لئے دن رات متحرک رہتی ہیں۔ جی 8 ہو یا جی 20، ورلڈ بنک ہو یاآئی ایم ایف، تجارت وصنعت کی عالمی انجمنیں ہوں یا تہذیب وثقافت کے فروغ کی عالمی کانفرنسیں اور ان سب پر مستزاد عالمی میڈیا اور اقوامِ متحدہ، یہ تمام ادارے اپنا ایجنڈا محکوم اقوام بالخصوص ملت ِاسلامیہ پر مسلط کرنے کے لئے ہر لمحہ قانون سازی اور نظام بند ی کے نام پر نت نئی چالبازیاں تراشنے میں صرف کرتے ہیں۔ ان سازشوں کا نتیجہ اور اقوام متحدہ کی نصف صدی پر محیط کارکردگی کا حاصل یہ ہے کہ وہ جنگیں جو کبھی طاقتور اَقوام آپس میں لڑتی تھیں، اب معاشی یا سفارتی استعمار کے نام پر تیسری دنیا کے ممالک کو ان کا نشانہ اور شکار بنا دیا گیا ہے۔ آج کے عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع ان کے اپنے ممالک ہونے کی بجائے اکثر مسلم دنیا کے ایسے خطے ہیں جو اُن کے لئے تزویراتی اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔ آج جنگ وجدل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور بدامنی اِنہی مسلم خطوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ماضی کے سامراجیوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے باہمی اختلافات کو عوامی دلچسپی کا موضوع بنانے سے روکنے کی ہرممکن تدبیر اور اپنے معاملات کو خاموش کمروں میں طے کرنے کی پھرپورسعی کی۔ طاقتور قوموں کے آپس میں لڑنے کا جہاں یہ نقصان تھا کہ کامیابی کے لئے زیادہ قوت صرف ہوتی تھی، وہاں ہردو کے منظم ہونے کے سبب مفادات بھی کم اور محدود حاصل ہوتے ہیں جبکہ اپنا رخ کمزور ممالک کی طرف کرلینے سے جہاں کامیابی وکامرانی آسانی سے ان کے قدم چومتی، وہاں نتائج وفوائد بھی لامحدود ہوتے، کیوں کہ غیرترقی یافتہ اور غیر منظم قوم کو اپنے وسائل ومسائل کا سرے سے شعور واِدراک ہی حاصل نہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ملت ِاسلامیہ کفار کے حملوں کا نشانہ ہے۔ خلیج کی جنگ سے لے کر افغان و عراق جنگ اور حالیہ مزعومہ دہشت گردی کے خلاف ایک منظم جنگ بندی جس کی نیٹو اور عالمی اتحاد قیادت کررہا ہے، مسلمانوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ملت ِاسلامیہ کے نمایاں ممالک دو عشروں سے جن مسائل کا شکار ہیں، ا ن کو مادّی جنگ بھی کہا جاسکتا ہے اور نظریاتی بھی، لیکن دونوں نوعیتوں سے کوئی غیر معمولی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لئے کہ مادی و علاقائی اور معدنی واِفرادی وسائل پر ملت ِاسلامیہ جو حصہ رکھتی ہے، اس کا تقاضا بھی اس سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔

آج ہم ان ہمہ جہت مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ سالوں کی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری مخالف اقوام نے اپنے ہمہ جہتی ادارے اس قدر مضبو ط کرلیے ہیں کہ ہر میدان میں ناکامی ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اگر مسلم اُمہ پر کوئی ظلم ہو، مثلاً توہین رسالتؐ پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کا مسئلہ وغیرہ تو اس پر اُمت ِمسلمہ جو بھی رد عمل کرے، اس کا فوری اور خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر اس ظلم کو گوارا کیا جائے تو یہ ایک سنگین بے غیرتی اور ملی بے حمیتی کے مترادف ٹھہرتا ہے اور اگر احتجاج کیا جائے تو ہماری مسلم حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پھر توڑ پھوڑ اور جارحیت وتشدد کئے بغیر ہماری حکومتیں عوامی رائے کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں لیکن اس سے مسلمانوں کی اَملاک کے نقصان اور اقوامِ عالم میں مسلمانوں کے متشدد قوم ہونے کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اگر ہمارے حکمران عالمی سطح پر احتجاج کرنے پر آمادہ بھی ہو جائیں تو اس کی کوئی تاثیر نظر نہیں آتی بلکہ ملت کوایک مقابل اِبلاغی جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آج سے دوبرس قبل رونما ہونے والے اس سانحہ کے موقع پر بعض اہل دانش کی یہ را ئے پڑھنے کو ملی کہ ہمارا جو بھی احتجاج اور رویہ ہو، ہر ایک کا نتیجہ ملت ِاسلامیہ کے اُلٹ اور خلاف ہی پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب اپنے مختلف شعبہ ہائے حیات کی ترقی کے بعد زندگی کے مختلف میدانوں میں اس حد تک آگے نکل چکا ہے کہ ہمارے ہر قسم کے ردّ عمل کو اپنا مفہوم دینے کی قدرت اس کے پاس موجود ہے کیونکہ ہماری زبان واِظہار اسی کے پاس اور ہماری سیاست ومعیشت کے مراکز بھی اسی سے تقویت پکڑتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں وقتی ردعمل پر مبنی کوئی مؤثر حل پیش کرنے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ احیائے ملی اور اُمہ کے تشخص کے تحفظ کے لئے طویل المیعاد لائحۂ عمل تشکیل دیا جائے۔ اپنے مفادات کا تعین کرکے ان کے حصول کی طرف پیش قدمی کی جائے او راس کے لئے دیگر ممالک میں ایک مقابل گروپ بندی کرکے مظلوموں کو منظم کیا جائے۔ دنیا میں جاری المیوں کا اس وقت یہی حل ہے !

ملت ِاسلامیہ اس وقت دنیا کے مرکزی علاقوں پر حکمران ہے۔ دنیا کا ہرچوتھا شخص مسلمان ہے اوراسلام دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ مسلم اُمہ معدنی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اپنے مفادات اور تحفظ کے شعور سے عاری ہے۔ محض اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا وقتی واویلا اوراس کے بعد لمبی خاموشی۔ ملت کا ایک مرکزی ادارہ او آئی سی بدعملی، سستی، اور مؤثر کردار سے عاری تنظیم کی علامت بن چکا ہے۔ زوال کی تین صدیاں گزارنے کے بعد بھی آج اس کے رکن حکمران بے تحاشا مالی وسائل ہونے کے باوجود بے غیرتی وبے حمیتی کا نشان بن کر لمبی تان سو رہے ہیں۔ پھر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم پر دنیا کی متحرک اَقوام نے تسلط جما لیا اور ہماری معیشت ان کے ہاں محصور ہوگئی اور ہماری پالیسیاں ان کے پاس بنتی ہیں۔ یہ شکوہ ہر اس قوم کو کرنا پڑتا ہے جو خود قوتِ عمل سے تہی دامن ہو!!

سستی وغفلت کی یہ صدا دوسروں کو ہنسنے کا موقع تو دیتی ہے، لیکن ان پر رحم کا کوئی شائبہ بھی قریب نہیںپھٹکنے نہیں دیتی، بالخصوص جب کہ غفلت کی چادر تان لینے والے دن رات مال ودولت کی عیاشیوں میں تو مگن ہوں، اپنے ذاتی مفادات اور خودغرضیوں کے لئے ہر صلاحیت ان کے پاس موجود ہو، لیکن اجتماعی اور ملی مفاد کے لئے مخلصانہ بنیادوں پر کچھ سوچنے اورکرنے سے وہ عاری ہوں۔

دورِحاضر کا اہم ترین مسئلہ دنیا کی طاقتور اقوام کا کمزورممالک پر ظلم وستم ہے جو صرف عسکری جارحیت میں ہی نہیں بلکہ معاشی استحصال کے نت نئے طریقوں میں بھی ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سنگین تر ہوجاتاہے جب ظالم اقوام، دشمنی اور غیریت کی بجائے اپنائیت اور دوستی کا لبادہ اوڑھ کر آئیں۔ جب وہ اپنے آپ کو دشمن کی بجائے انسانیت کا خیرخواہ اور اخلاق وکردارکی اعلیٰ اقدارکے حامل ہونے کا دعویٰ کریں لیکن عملاً ان کا رویہ ، ظلم وستم اور جبر و قہر میں قرونِ وسطیٰ کے خون آشام جنگجوؤں سے قطعاً مختلف نہ ہو۔ آج پاکستان اسی استعماری جارحیت کا سامنا کررہا ہے اور جوں جوں اپنے دوست اور ہمدردوں کی مخلصانہ ہدایات پر عمل کرتا جارہا ہے، توں توں اپنے تباہی کو دعوت دے رہا ہے۔ ہمارے گذشتہ نو سال کے روز وشب اس پر شاہد ِعدلہیں۔ لیکن اصل مسئلہ دشمن کا ظلم وستم نہیں، دنیا کی بعض اقوام کا انتہائی طاقتور اور منظم ہوجانا نہیں، اصل مسئلہ دنیا کی مظلوم اَقوام کا غافل اور بے پروا ہوجانا اور اپنی قومی مفادات کا تعین کرکے اس کے لئے محنت نہ کرناہے۔ دنیا کو اس وقت امریکہ یا مغرب کی قوت سے خطرہ نہیں ہے بلکہ غافلوں کی غفلت او رنادانوں کی معصومیت ومدہوشی فکر مندی کا باعث ہے!

کیری لوگر بل اور اس کے بعد سے جاری سیاسی کشمکش اور بیان بازی اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ پاکستان بدترین جارحیت کا شکار ملک ہونے کے باوجود اپنی ترقی اور استحکام کے لئے تاحال سنجیدہ غوروفکر اور پرعزم کدوکاوش پر آمادہ نہیں ہے۔ جب کوئی قوم اپنے اہداف کا تعین کرکے ایک لائحۂ عمل تشکیل دے لیتی ہے تو اس کے بعد سفارتی لابنگ، سیاسی کوششوں یا جوابی اقدامات کی باری آتی ہے۔ لیکن پاکستانی اربابِ اقتدار، جن کا رویہ اسلامی اُمہ کے مرکزی رویہ کا غماز ہے، بدعملی کی روش پر گامزن ہیں۔ مقابل میں مکار ریاستیں اپنے اَہداف کو اب تو کھلے بندوں بیان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتیں۔ اور ہم لگاتار اپنے آپ کو اور اپنے عوام کو دھوکہ دیے جارہے ہیں۔یہ سوچنا کہ دنیا کی مختلف قومیں دوستانہ بنیادوں پر اپنے تعلقات کو آگے بڑھاتی رہیں گی، بالخصوص اس وقت جب کہ وہ نظریاتی میدان میں ایک دوسرے کی بدترین حریف ہوں، ان کی تاریخ باہمی تصادم سے بھری پڑی ہو؛ معصومیت اور بھولپن کی انتہا ہے۔ قومیں تو کجا قرآن کی رو سے دوانسان ایک دوسرے کے مفادات پر ہاتھ صاف کرتے نہیں چوکتے، کیونکہ ہر کسی کو دوسرے کے فوائد ونعم سے لطف اندوز ہونا اچھا لگتا ہے، نتیجتاً بغاوت و سرکشی قوی عنصر کو دعوتِ طغیان دیتی ہے۔ آج کی مہذب دنیا میں یہ استحصال 'ڈپلومیسی' کی خوبصورت اصطلاحات میں معطر کرکے ، اِمداد کے بلوں کے نام پر پیش کیا جاتاہے۔

خوب یاد رہنا چاہے کہ غیراقوام کو کبھی کسی قوم پر ایسا غلبہ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس میں ایک طویل مدت تک دخل اندازی کرتی رہیں۔ یہ فرصت اور گنجائش اس کو مقابل قوم کی داخلی کمزوری اوراُن میں مفاد پرست وخود غرض عناصر کی موجودگی مہیا کرتی ہے۔ اس لئے کسی قوم کی قوت قابل فکر نہیں ہوتی؛ مقابل قوم کی نادانی، منافقت اور غفلت قابل مذمت ہے!!

آج ترقی کے بہت سے فلسفے اور تقاضے پیش کئے جاتے ہیں، جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی کی مہارت کو اس کا لازمہ قرار دیا جاتا ہے، بہت سے لوگ اہلِ مغرب کی نقالی کو ہی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں ثانوی ہیں؛ ترقی کی اہم بنیادیں: احساس، شعور، جدوجہد اور پرعزم کاوش ہے۔ یہ رجحانات دنیا کی جس قوم میں پیدا ہوجائیں اور وہ علم دوستی، عدل، قانون پسندی، محنت اور اہل ہنر سے انصاف کا وطیرہ اختیار کرلے، وہ ترقی کے ایک معیار کو ضرور حاصل کرلیتی ہے۔یہ خصوصیات پتھر اور سانپ کو دیوتا مان لینے والی ہندو قوم میں بھی پیدا ہوجائیں تو ان کا جہالت سے بھرپور اعتقاد ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ترقی اور کامیابی کی یہ مسلمہ اَساسات ہیں جو ایک حد تک کامیابی کی ضمانت ہیں، البتہ دائمی، قوی تر، متوازن اورحقیقی کامیابی وکامرانی صرف اُس کے حصے میں آتی ہے جو اللہ کی طرف سے آنے والی مستند ہدایات(اسلام) پر عمل پیرا ہو۔

اُمت ِمسلمہ پر زوال آیا اور ایک صدی قبل تمام مسلم ریاستیں غیروں کی دست ِنگر اور محکوم بن گئیں، اسی ریاستی تسلط سے غیروں نے ہم سے ہمارا اسلامی جوہر اور بیش قیمت تہذیبی روایات چھین لیں اور ہمیں اپنی جیسی مادہ پرست قوم ومعاشرہ میں بدل دیا۔ مغربی اَقوام نے ریاستی تسلط کے کس کس پہلو سے فائدہ اُٹھایا اور مختصر عرصے میں ایک عظیم قوم کو کس طرح مسخ کردیا، کبھی یہ مطالعہ بھی ہماری لئے موضوعِ عبرت بننا چاہئے۔ ان کی چیرہ دستیاں اس حد تک بڑھیں کہ آخر کار مسلم اُمہ کے مرکز ِخلافت کو بھی تبادہ وبرباد کرڈالا۔ نظریات مسخ کردیے، سوچیں اور رجحانات بدل دیے، اسلام کا صرف نام باقی رہا اور مسلمانی نام کو رہ گئی!!

یہ قضیہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر دورِ زوال کیوں کر طاری ہوا، اس سے قبل اس قدر پرشکوہ اُمت کے کارپردان نے کونسی ایسی کوتاہیاں کی تھیں کہ اس قدر عبرتناک انجام ان کا مقدر ٹھہرا؟ لیکن حال کے چند سالوں کا بنظر غائر مشاہدہ کرکے یہ قضیہ بآسانی حل ہوگیا۔ جب کسی قوم کے حکمران ہی اپنی قوم سے مخلص نہ رہیں، اپنی چند لمحوں کی عیاشی اور عافیت کے بدلے اپنی قوم کو سالوں کی غلامی میں دینے پر اُنہیں کوئی شرمندگی نہ ہو، زوال کے بدترین لمحات میں بھی وہ قوم خوابِ غفلت سے نہ جاگے اور مقابلہ کرنے کی حکمت ِعملی ترتیب نہ دے، محض وقتی نعرہ بازی پر اکتفا کرے تو ا س قوم کا انجام ا س کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟!

مقامِ افسوس ہے کہ آج اکیسویں صدی کے آغاز میں اُمت ِمسلمہ اقوامِ عالم میں اپنا تعارف اس بدتر شناخت سے پیش کررہی ہے۔ دین اسلام کی نظریاتی اور عملی قوت آج بھی ہر ذی شعور کو حیران کردیتی ہے اور اسی قوت کے سبب دنیا میں اسلام سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ٹھہرتا ہے لیکن اسلام کے نام لیواؤوں کا رویہ اور کردار، بالخصوص اجتماعی اور ملی رجحانات اُمت ِمحمدیہ کے روشن چہرے کو داغ دار کرنے کے لئے کافی ہیں۔ آج کی اُمت ِمسلمہ کے حکمران اور عوام ورعایا کو دیکھ کر اپنی قوم کے ہونے والے زوال کی وجوہات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہیں۔

ہم اب بھی خوابِ غفلت سے نہ جاگے تو زوال کا یہ سیاہ دور طویل تر ہوتا جائے گا۔ ہمیں ہر سطح پر بیداری کی ضرورت ہے۔ زندگی کے ہرمیدان میں کام کرنیوالے عناصر کی حوصلہ افزائی اور ان کو تائید و تقویت دے کر اپنا قومی مزاج بدلنا ہوگا۔ خوشامدیوں، موقع و مفاد پرستوں، بدمحنتوں اور غفلت کیشوں کو پیچھے ہٹا کر اُمت ِمحمدیہ کی قیادت کیلئے باشعور اور باعمل مسلمانوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ تب ہی ہماری قوم کا کلچربدلے گا، اور غیروں کے ظلم وتشدد سے ہمیں عافیت نصیب ہوگی۔ اس کیلئے سب سے پہلے احساس اور شعور کی ضرورت ہے، اس شعور کے نتیجے میں ہی قوتِ عمل کی تحریک پیداہوگی، تب آخرکار کامیابی مسلم اُمہ کا مقدر ٹھہرے گی۔ اِن شاء اللہ