صدر امریکہ باراک اوباما ہی کیوں؟
زیر نظر مضمون مربوط خدشات سے بھرپور اگرچہ منفی نقطہ نظر کا حامل ہے تاہم مسلمانوں کے موجودہ حالات کے تناظر میں اسے بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اوبامہ کے بارے میں مسلمانوں میں پائی جانے والی خوش فہمی کا ایک دوسرا رُخ ہے۔ اس مضمون میں بیان کردہ استدلال کی تائید جہاں پاکستان کے موجودہ سنگین ترین حالات سے ہوتی ہے، وہاں باراک اوباما کا حالیہ بیان کہ ''پاکستان کی سول حکومت ناکام ہو چکی ہے۔'' اسی مضمون میں بیان کردہ مخصوص طرزِ فکر کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ح م
امریکہ کے نئے صدر باراک اوباما 1961ء میں امریکی ریاست ہوائی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا تعلق کینیا سے جبکہ والدہ کا تعلق ہوائی سے ہے۔ والدین میں ملاقات دورانِ طالب علمی، ہوائی یونیورسٹی میں ہوئی جہاں ان کے والد اسکالر شپ پر پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ اس ملاقات کا نتیجہ شادی کی صورت میں برآمد ہوا، لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور اس کا انجام طلاق پر ہوا۔ پھر والدین کی علیحدگی اور طلاق کے بعد اوباما اپنی والدہ کے ساتھ امریکہ اور کچھ عرصہ کے لئے انڈونیشیا میں رہے، کیونکہ ان کا سوتیلا باپ بھی مسلمان تھا اور اس کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔ غالباً اسی دور میں باراک اوباما کسی اسلامی دینی مدرسہ میں بھی کچھ عرصہ زیر تعلیم رہے تھے۔
باراک اوباما نے کولمبیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی لاء سکول سے تعلیم حاصل کی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں 'ہارورڈ لاربیو' کے پہلے سیاہ فام امریکی صدر بنے۔ اُنہوں نے شکاگو میں پہلے سماجی پروگرام میں اور پھر بطورِ وکیل کام کیا۔ وہ آٹھ سال تک ریاست الینوائے کی سیاست میں سرگرم رہے اور 2004ء میں وہ امریکی سینٹ کے لئے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد باراک اوباما نے فروری 2007ء میں امریکی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا اور بالآخر طویل جدوجہد اور مقابلہ کے بعد امریکہ کے صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔
باراک حسین اوباما کی امریکی صدارت حاصل کرنے میں کامیابی کے متعدد اَسباب بیان کئے جاتے ہیں جن میں ان کا افریقی النسل ہونا جس کے نتیجہ میں تمام سیاہ فام ووٹ اوباما کو ملے۔ مسلمان باپ کی اولاد ہونا جس کے باعث مسلمان ووٹرز کا قدرتی میلان اوباما کی طرف ہوا اور اس کے علاوہ امریکی عوام کی گذشتہ صدر بش کی خارجہ پالیسی سے شدید اختلاف وغیرہ، لیکن ہمارے نزدیک اس کا اہم ترین سبب یہ ہے کہ وہ یہودی منصوبہ جس کا آغاز نیو یارک کے عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کی تباہی سے ہوا تھا، اس کی تکمیل کے لئے باراک اوباما ہی موزوں ترین امیدوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی انتخابات سے محض چند روز قبل باراک اوباما پر قاتلانہ حملہ کے منصوبہ کا ڈرامہ بھی رچایا گیا تاکہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹرز کی ہمدردیاں باراک اوباما کو حاصل ہو سکیں، لیکن اس سے قبل کہ ہم یہ راز طشت از بام کریں کہ وہ یہودی منصوبہ کیا ہے اور اس منصوبے میں یہودی اوباما کا کیا استعمال کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہیں گے کہ باراک اوباما کے اپنے اقوال کی روشنی میں اس کے مذہبی رجحان اور اس کی ترجیحات کا تعین کریں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران باراک اوباما کے حوالے سے جاری ہونے والا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے، اخبار لکھتا ہے کہ:
''امریکہ کا صدارتی امیدوار بننے کے لئے کوشاں ڈیمو کریٹ بارک اوباما نے آخری وقت میں ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ خفیہ طور پر مسلمان ہیں۔ اوباما نے انٹر نیٹ پر اس مہم کی مذمت کی ہے۔ اگرچہ اس کا دوسرا نام حسین ہے، لیکن وہ ایک عیسائی ہے اور جتنا ممکن ہو، چرچ جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے خلاف مہم ہیلری کلنٹن کے حامیوں نے شروع کر رکھی ہے۔ حالانکہ اس بات کا ہیلری کو بھی یقین ہے کہ وہ عیسائی ہیں۔'' 1
پس جو مسلمان باراک اوباما کے نام میں شامل لفظ حسین سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اُنہیں جان لینا چاہئے کہ باراک اوباما کو کوئی ہمدردی اور تعلق مسلمانوں کے ساتھ نہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اوباما عیسائیوں کے ساتھ ہے؟ جی نہیں بلکہ اوباما کی تمام تر ہمدردیاں اور وفاداریاں عیسائیوں کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہودیوں کے ساتھ ہیں۔ اس کا ثبوت باراک اوباما کا مندرجہ ذیل پالیسی بیان ہے:
''باراک اوباما نے گذشتہ رات اپنی جماعت کی طرف سے صدارتی نامزدگی میں کامیابی کے دعوے کے بعد اپنی پالیسی تقریری میں اسرائیل کے لئے غیر متزلزل حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ اوباما نے امریکہ اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی مقدس ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، یہ کمیٹی یہودیوں کی ایک ممتاز لابی کہلاتی ہے۔''2
باراک اوباما کا مذکورہ بالا یہ بیان صدارتی الیکشن کی کسی تقریر کا حصہ نہیں جسے محض ووٹرز کو متوجہ کرنے کی کوشش کہہ کر ٹالا جا سکے بلکہ یہ 'پہلی پالیسی تقریر' کا ایک حصہ ہے یعنی صدرِ امریکہ کی ایک متعین خارجہ پالیسی کا اظہار اور عزم اور ایک مستند رُخ ہے۔ اب اسی کے ساتھ صدرِ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک دوسرا رُخ بھی ہم قارئین کے سامنے لانا چاہتے ہیں، اس ضمن میں یہ خبر ملاحظہ ہو:
''نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما کی طویل انتخابی مہم کے دوران جب بھی خارجہ پالیسی کی بات ہوئی تو عراق اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی آتا رہا۔
ان پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے خلاف براہِ راست کاروائی کے لئے فوج بھیجنے کے بیان پر تنقید بھی ہوئی، لیکن اوباما آخر تک پاکستان میں براہِ راست کاروائی کے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
صدر منتخب ہونے کی صورت میں پاکستان سے متعلق اپنے لائحہ عمل کی وضاحت اپنی ویب سائٹ پر کرتے ہوئے اوباما کہتے ہیں کہ اصل میدانِ جنگ افغانستان اور پاکستان ہیں۔'' 3
پس نیو ورلڈ آرڈر یعنی تسخیر عالم کے یہودی منصوبہ میں اس وقت باراک اوباما کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے، اس لئے موجودہ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے اوپر اسرائیل کی حفاظت اور پاکستان کی بربادی کو جواب کر لیا ہے، کیونکہ بقول باراک اوباما پاکستان میدان جنگ ہے اور میدانِ جنگ وہ جگہ ہوتی ہے، جہاں ہر چیزِ حالتِ جنگ میں ہوتی ہے۔ نیز میدانِ جنگ میں جان و مال کی بربادی ہونا بھی ایک یقینی بات ہے۔ جیسا کہ افغانستان اور عراق کا میدانِ جنگ بننے کے بعد جو حال ہوا، تمام لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کی یہودی لابی پاکستان کو میدانِ جنگ بنانا چاہتی ہے، اس ضمن میں صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ عزائم یعنی گریٹر اسرائیل اور مسجدِ اقصیٰ کے انہدام کی صورت میں اگر کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی عسکری مزاحمت ہو سکتی ہے تو وہ صرف پاکستان ہو گا، کیونکہ پاکستان کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ فوج، ایٹمی اسلحہ اور میزائل ٹیکنالوجی کی جو صلاحیت ہے، وہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے پاس نہیں ہے۔ مزید برآں امریکہ کی اس تمام مہم جوئی کی اصل صرف یہی نہیں کہ وہ اسرائیل کو توسیع کی کھلی چھٹی دینا چاہتا ہے اور پاکستان کو ایٹمی اور فوجی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اب یہودی لابی افغانستان اور عراق میں ہونے والی شدید مزاحمت اور عالمی معاشی عدمِ استحکام کے باعث امریکہ کے زوال کو بہت قریب دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ امریکہ کے زوال سے قبل یہودی امریکہ کو ایک آخری مرتبہ بھرپور طور پر اسی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں جس طرح یہودی گذشتہ دی میں ڈوبتی ہوئی سلطنتِ برطانیہ سے اپنے لئے اسرائیل حاصل کر کے برطانیہ کو اپنے مفتوحہ علاقوں میں سے اپنے اقتدار کے سائے کو سمیٹتے ہوئے اکیلا چھوڑ گئے تھے۔
یہودی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کعبہ یعنی بیت اللہ مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت ہے اور جب تک بیت اللہ موجود رہے گا، اس وقت تک مسلمانوں کے متحد ہونے کا امکان تلوار بن کر یہودیوں کے سر پر لٹکارہے گا اور اگر کبھی مسلمانوں کو صلاح الدین ایوبی جیسی قیادت میسر آگئی اور مسلمانوں نے متحدہ جدوجہد کا آغاز کر دیا تو پھر کوئی مسلمانوں کے اس سیل رواں کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ چنانچہ اس کا علاج یہی ہے کہ اس امکان کا سد باب کر دیا جائے اور اس کے لئے بروقت اور بھرپور طاقت کا استعمال کر کے معاذ اللہ مکہ معظمّہ اور مدینہ منورہ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے!!
عین ممکن ہے کہ اس تناظر میں ہماری اس بات کو شاید بعض بزعم خود روشن خیال حضرات محض ایک گپ یا مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانے اور بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کے خلاف ایک سازش قرار دیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ مغرب میں بعض تھنک ٹینک مسلمانوں کے ان مقدس مقامات کو مٹانے کی باقاعدہ سازشیں کر رہے ہیں اور امریکہ کا موجودہ صدر باراک اوباما بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک ہے۔اس ضمن میں بطورِ ثبوت ایک خبر ملاحظہ ہو:
''پاکستان کی قومی اسمبلی میں بدھ کو متوقع امریکہ صدارتی امیدوار باراک امیدوار اور ٹام ٹینکریڈو موضوعِ بحث رہے اور ملک کی خارجہ پالیسی پر تقاریر کرتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے امریکی رہنماؤں کو پاکستان اور عالم اسلام کے جذبات مجروح کرنے والے مبینہ بیانات پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ڈیمو کریٹ اوبامہ اور ریپبلکن ٹینکریڈو نے حال ہی میں اپنے بیانات میں پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں اور مسلمانوں کے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ پر امریکی حملوں کی بات کی تھی۔ 4
بالعموم دیکھا گیا ہے کہ جب بھی عام مسلمانوں کے سامنے بضں اہل مغرب کے مبنی برحقدو حسد اِس قسم کے بیانات کا خلاصہ کیا جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی بیت اللہ یا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو کوئی نقصان پہنچا سکے اور بطورِ دلیل قرآن کی سورة الفیل کو پیش کرتے ہیں کہ جب کوئی ایسی ناپاک کوشش کر ے گا، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اور اس کے لشکر کے ساتھ کیا حالانکہ قرآنِ کریم میں اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے محض ایک واقعہ کا ذِکر کیا ہے کہ جب بیت اللہ پر حملہ آور ہونے والے شمن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک کیا، مگر کسی بھی مقام پر یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ آئندہ کبھی مکہ پر حملہ ہوا تو پھر حملہ آور کا ایسا ہی حشر ہو گا بلکہ اس کے برخلاف نبی کریم ﷺ نے ہمیں جو خبر دی ہے، اس میں ایسی ایک انہونی کے ہونے کا برملا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہ حدیث بخاری و مسلم سمیت متعدد کتب احادیث میں مختصراً اور مسند احمد وغیرہ میں مفصل موجود ہے جس میں مسلمانوں کے دورِ زوال کا ذِکر ہے کہ مسلمانانِ عالم اپنے دورِ زوال کے دوران جس آخری انتہا پر پہنچیں گے، اس کی خبر دیتے وہئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
((یخرب الکعبة ذو السويقتين من الحبشة ويسلبھا حليتھا ويجردھا من كسوتھا ولكأني أنظر إليه أصيلع أفيدع يضرب عليھا بمساحته ومعوله))
''عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اہل حبشہ میں سے پتلی پتلی پنڈلیوں والا ایک شخص بیت اللہ کو تباہ کر دے ا، اس کے خزانہ کو ضبط کر لے گا، اس کے پردہ کو کھینچ کر پھاڑ دے گا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ وہ گنجا [کشادہ اور اُبھری پیشانی والا] اور ٹیڑھے جوڑوں والا حبشی شخص بیت اللہ پر مستقل لوہے کے ہتھیار سے حملے کر رہا ہے۔''5
اس حدیثِ نبوی ﷺ میں بیت اللہ پر حملہ کرنے والے جس شخص کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کی پہلی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا تعلق حبشہ سے ہو گا، نبی کریم ﷺ کے زمانے میں حبشہ ایک ریاست تھی جو مشرقی افریقہ کے وسیع رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں موجودہ زمانے کے ممالک صومالیہ، ارٹیریا، ایتھوپیا اور کینیا وغیرہ سب شامل تھے اور باراک اوباما کا تعلق قدیم حبشہ کے اسی علاقہ کینیا سے ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں اس شخص کی دوسری نشانی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ پتلی پتلی پنڈلیوں والا ہو گا اور اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ اپنی صدارتی مہم کے آخری دنوں میں ریپبلیکن اُمیدوار جان میکین نے باراک اوباما کی ٹانگوں کو بطورِ خاص تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کا مذاق اُڑایا تھا۔ اس کے ساتھ کشادہ اور اُبھری ہوئی پیشانی کی علامت بھی اوباما میں موجود ہے۔
اسی طرح مدینہ منورہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے جو خبر دی ہے، وہ سنن ابو داؤد میں مذکور ہے اور علامہ البانیؒ کی تحقیق کے مطابق یہ روایت صحیح ہے۔ نبی کریم ﷺ کی اس پیش گوئی کے الفاظ یہ ہیں:
عن معاذ بن جبل قال: قال رسول اللہ ﷺ: ((عمران بیت المقدس خراب يثرب وخراب يثرب: خروج الملحمة وخروج الملحمة فتح قسطنطينية وفتح قسطنطينية خروج الدجال))6
''نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیت المقدس میں ہونے والی ایک تعمیر یثرب (مدینہ منورہ) کی تباہی کا سبب بنے گی اور مدینہ کی تباہی کے نتیجہ میں جنگِ عظیم کا آغاز ہو گا اور جنگِ عظیم قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہو گی اور اسی کے ساتھ مسیح دجال نکلے گا۔''
اس حدیث کے مطابق بیت المقدس میں جس تعمیر کا تذکرہ ہے، غالباً اس سے مراد یہودیوں کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے جس کے نتیجہ میں عالم اسلام کے مسلمانوں کا شدید احتجاج اور انتقامی کاروائی کے طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے اہل مغرب کے مفادات پر حملے کئے جائیں گے اور اسکے جواب میں اہل مغرب کی جانب سے مدینہ اور مکہ پر حملے کئے جائیں گے اور غالباً اسی دوران استنبول کو یورپ کا حصہ قرار دیکر اہل مغرب اس پر قبضہ کر لیں گے اور اس کے نتیجہ میں تیسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو جائے گا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا شدید جانی اور مالی نقصان ہو گا، مگر بالآخر مسلمان استنبول کو دوبارہ فتح کر لیں گے۔ اس موقعہ پر مسلمانوں کی تعداد قلیل اور عیسائیوں کے معاشی طور پر دیوالیہ ہو جانے کا فائدہ اُٹھا کر یہودی اپنی عالمی بادشاہت کا اعلان کر دیں گے اور یہودی بادشاہ مسیح دجال منظر عام پر آجائے گا۔ اور ان تمام واقعات کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہو گا، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
أن رسول اللہ ﷺ قال:: ((بین الملحمة وفتح المدينة ست سنين ويخرج المسيح الدجال في السابعة))7
''نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنگِ عظیم اور فتح مدینہ یعنی استنبول چھ سال کی مدت میں پیش آئیں گے جبکہ مسیح دجال کے خروج کا معاملہ ساتویں سال پیش آئے گا۔
مگر بظاہر اس پورے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے ایک اہم سوال جو عام ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی جو حالتِ زار موجودہ زمانہ میں ہے یعنی مسلمان معاشی اور عسکری اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہیں جبکہ اہل مغرب ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں، اس کے باوجود کس طرح مسلمان اہل مغرب کو شکست دیں سکیں گے؟ تو اس کا جواب خود احادیث میں موجود ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أن النبی ﷺ قال:: (سمعتم بمدينة جانب منھا في البر وجانب منھا في البحر)) قالوا: نعم يا رسول الله. قال: ((تقوم الساعة حتي يغزوھا سبعون ألفا من بني إسحٰق فاذا جاءوھا نزلوا فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسھم، قالوا: لا إله الا الله والله أكبر فيسقط أحد جانبھا.)) قال ثور: لا أعلمه إلا قال الذي في البحر۔ (ثم يقولوا الثانية: لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط جانبھا الاٰخر۔ ثم يقولوا الثالثة: لا إله إلا الله والله أكبر فيفرج لھم فيدخلوھا فيغنموا فبينماھم يقتسمون المغانم إذ جاءھم الصريخ۔ فقال: إن الدجال قد خرج فيتركون كل شيء ويرجعون))
''نبی كريم ﷺ نے فرمايا: سنا ہے کہ ایک ایسا شہر ہے جس کے ایک جانب خشکی اور ایک جانب سمندر ہے؟ صحابہ کرامؓ نے فرمایا: ہاں یا رسول اللہ ﷺ! (یعنی وہ قسطنطنیہ ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ اسحٰق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار افراد اس شہر میں تمہارے مقابلے کے لئے نازل نہ ہوں گے (یعنی ایک جانب سے بحریاور دوسری جانب سے فضائی افواج حملے کے لئے اُتریں گی)۔ تمہارے پاس ان کے مقابلے کے لئے تیر و تلوار (یعنی ان کے ہم پلہ اسلحہ) نہیں ہوگا تو اس وقت تم صرف لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہو گے اور ایک فوج جو سمندر کی جانب ہو گی، گر جائے گی (یعنی غرق ہو جائے گی) پھر دوسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہو گے تو دوسری جانب کی بری فوج گر جائے گی (یعنی زمین میں دھنس جائے گی)۔ اس کے بعد تم تیسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہو گے تو ہر طرف کھل جائے گا (یعنی باقی دشمن بھاگ کھڑے ہوں گے)۔ پھر شہر میں داخل ہو کر تم مالِ غنیمت سمیٹو گے کہ اچانک اعلان ہو گا کہ دجال نکل آیا ہے۔ تب تم ہر چیز کو چھوڑ کر دجال کی طرف پلٹو گے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح قسطنطنیہ کسی مقابلہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خالصتاً معجزاتی طور پرمسلمانوں کو عطا کی جائے گی اور غالباً اس کا مقصد مسلمانوں کی حالتِ ایمانی کو انتہا درجہ پر لے جانا مقصود ہے تاکہ اس کے فوراً بعد خروجِ دجال کا جو واقعہ ظہور پذیر ہونا ہے، اس کے مقابلہ کی اہلیت مسلمانوں میں پیدا ہو سکے۔ چونکہ خروجِ دجال سے بڑا فتنہ نوعِ انسانی میں کبھی رونما ہوا ہے اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، چنانچہ اس فتنہ کا مقابلہ صرف وہی مسلمان کر سکیں گے جن کی ایمانی کیفیت عام سطح سے بہت بلند ہو گی۔
اسی نوعیت کا ایک اور اشارہ ایک دوسری حدیث سے بھی ملتا ہے جس کے مطابق مسیح دجال کی آمد کے زمانہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ مؤمنین کو ایک اور کرامت بھی عطا فرمائے گا، یہ حدیث سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور مسند ابی یعلی وغیرہ میں بعض صحیح اور بعض ضعیف طرق کے ساتھ مروی ہے اور علامہ البانیؒ نے اسے اپنی کتاب قصة مسیح الدجال میں نقل فرمایا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ:
وإن قبل خروج الدجال ثلاث سنوات شداد يصيب الناس فيھا جوع شديد يأمر الله السماء۔ في السنة الاؤلي أن تحبس ثلث مطرھا ويأمر الأرض فتحبس ثلث نباتھا ثم يأمر السماء في الثانية فتحبس ثلثي مطرھا ويأمر الأرض فتحبس ثلثي نباتھا ثم يأمر الله السماء في السنة الثالثة فتحبس مطرھا كله فلا تقطر قطرة ويأمر الأرض فتحبس نباتھا كله فلا تنبت خضراء فلا تبقي ذات ظلف إلا ھلكت إلا ما شاء الله)) قيل: فما يعيش الناس في ذلك الزمان؟ قال: التھليل والتكبير والتسبيح والتحميد ويجري ذلك عليھم مجري الطعام8
''نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسیح دجال کی آمد سے قبل تین سال لوگوں کے لئے شدید مصائب کے ہوں گے۔ اس زمانہ میں شدید قحط پڑے گا، اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو حکم دے گا۔ چنانچہ پہلے سال آسمان اپنا تہائی پانی روک لے گا اور زمین تہائی نباتات سے خالی ہو جائے گی، دوسرے سال آسمان باقی ماندہ پانی میں سے مزید تہائی پانی روک لے گا اور زمین باقی ماندہ سبزہ میں سے مزید تہائی سے محروم ہو جائے گی۔ پھر تیسرے سال اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آسمان سے ایک قطرہ پانی نہیں برسے گا اور پوری روئے زمین چٹیل میدان ہو جائے گی اور تمام چرند پرند ہلاک ہو جائیں گے، ماسوائے ان کے جنہیں اللہ باقی رکھنا چاہے۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ایسے حالات میں انسان زندہ کیسے رہیں گے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت مؤمنین کا سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہنا ان کی غذای ضرورت کو پورا کرنے اور روح و بدن کے رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے کفایت کر جائے گا۔''
بہرکیف مذکورہ بالا تمام اخبار و احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور موجودہ زمانہ میں صیہونیت کے علمبردار یہود و نصاریٰ کی تیسری عالمی جنگ چھیڑنے کی شدید خواہش اور کوششوں کو موجودہ امریکی صدر کے اقوال و عزائم کی روشنی میں دیکھتے ہوئے بظاہر یہی آتا ہے کہ آدم و ابلیس کے درمیان جس خیر و شر کی کشمکش کا آغاز روزِ اول ہوا تھا، اس کا آخری معرکہ بہت نزدیک ہے۔ بقول علامہ اقبال:
اسلام کو پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اس زمانہ میں اس بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ امریکہ اور یورپ اس وقت صہیونیت کے شکنجہ میں پوری طرح کسے جا چکے ہیں جس کے باعث مغربی سیاست میں اسرائیل کا تحفظ اور دفاع تمام حکومتوں اور خصوصاً امریکہ کے لئے اوّلین ترجیح کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تقریباً تمام ہی صدور ما سوائے ابراہم لنکن اور جان ایف کینڈی کے، اسرائیل نواز رہے ہیں مگر موجودہ صدر باراک اوباما کے بارے میں متعدد ویب سائٹس پر یہ بات موجود ہے کہ باراک اوباما کھلم کھلا فری میسن صیہونی، ایلمینٹی عیسائی ہے، اس کی تصدیق باراک اوباما کے صدر منتخب ہونے کے بعد کئے جانے والے ابتدائی اقدامات سے بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی خبر یہ ہے کہ باراک اوباما نے چیف آف آرمی اسٹاف کے لئے ایک صیہونی یہودی ایمانویل کو منتخب کیا ہے اور اپنا مشیر خاص بھی ایک یہودی کو منتخب کیا ہے جبکہ ایشیا سے متعلق معاملات کی دیکھ بھال کے لئے مسلمان دشمن اور اقلیتوں کے قتل میں ملوث انتہا پسند ہندو جماعت وشوا ہندو پریشد کی سابقہ نیشنل کو آرڈی نیٹرر خاتون سونل شا، کو اپنا مشیر مقرر کر دیا ہے۔ سونل شا کے ادارے انڈی کاراپس کا بانی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور لاکھوں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کا قریبی دوست ہے۔ انڈی کارپس کی پارٹنر شپ ایکال ودیا لاس کے ساتھ ہے جو وشوا ہندو پریشد کا حمایت یافتہ ہے اور سکولوں میں ہندو طلبہ کو غیر ہندوؤں سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ مزید برآں اسی ایکال ودیا لاس نے بھارتی ریاست مدھیہ پردیش اور اڑیسہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف فسادات کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید برآں نئے امریکی صدر باراک اوباما کی اخلاقی ساکھ بھی خود ان کے اپنے معاشرے میں انتہائی مشکوک اور متنازع فیہ ہے۔ متعدد ویب سائٹس کے الزامات کے مطابق باراک اوباما ایک ہم جنس پرست اور کوکین کے نشہ کے عادی انسان ہیں جس کے ثبوت ان کی صدارتی مہم کے دوران بھی انٹر نیٹ پر فراہم کئے گئے ہیں، مگر باراک اوباما نے کبھی اس قسم کے الزامات کی تردید کرنے یاان الزامات لگانے والے افراد کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ حتیٰ کہ وہ امریکی میڈیا جس نے سابق امریکی صدر کلنٹن کے ایک جنسی اسکینڈل پر ساری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا، باراک اوباما کے ان سکینڈلز پر پر اسرار طور پر خاموش ہے۔
علاوہ ازیں باراک اوباما کا سیاسی میدان میں ناتجربہ کار ہونا بھی ان کی سیاسی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے، کیونکہ یہودیوں کے ہاتھوں یرغمال ایک ایسے امریکی معاشرے میں جہاں یہودیوں کی معاشی اور اخلاقی مدد کے بغیر کوئی شخص کسی ریاست کا گورنر نہیں بن سکتا، کسی مڈل کلاس شخص کا امریکی صدارتی عہدہ پر بغیر کسی مضبوط سیاسی ساکھ کے پہنچ جانا اکثر سیاسی اُمور کے ماہرین کی رائے میں انتہائی قابل اعتراض، پراسرار اور خود امریکہ کے لئے خطرناک ہے۔
پس مندرجہ بالا تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے خلاف ہندو یہودی اور عیسائی صیہونی اتحاد قائم ہو چکا ہے اور اس کی علامت باراک اوباما کی شکل میں ظاہر ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کے تین ہدف ہیں:
اوّلاً: پاکستان کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی عدمِ استحکام سے دو چار کر کے عسکری اور نظریاتی طور پر ختم کرنا۔
ثانیاً: جمی کارٹر کے 1973ء کے جینو سائیڈ منصوبہ کے مطابق تیسری دنیا کے غریب ممالک کو جعلی معاشی بحران کے ذریعہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا غلام بنانا، غذائی اجناس کی طلب و رسد میں نقلی تفاوت پیدا کر کے غربت و افلاس کے بہانے قحط پیدا کر کے آبادی کو کم کرنا، عالمی سیاسی بساط پر اپنے نمائندوں کے ذریعہ جھوٹ اور فریب کاری سے عالمی جنگیں برپا کر کے امیر ممالک کی معیشت کو مفلوج کرنا جیسا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا گیا۔
اور ثالثاً: مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کرنا اور یہ تیسرا کام ایک ایسا شخص ہی کر سکتا ہے کہ ایک جانب جس کا سینہ اسلام کی نفرت سے جل رہا ہو اور دوسری جانب نا تجربہ کاری کے باعث وہ سیاسی بصیرت سے محروم ہو تاکہ اپنے کسی غلط اقدام کے نتائج و عواقب کا قبل از وقت ادراک کرنے سے قاصر ہو۔ تیسری جانب امریکی معاشرے کے ایک ایسے طبقہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جس کے لئے امریکی معاشرے اور میڈیا میں ہمدردی موجود نہ ہو تاکہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل ہونے کے بعد امریکی میڈیا کی شدید تنقید کے نتیجہ میں اسے بآسانی منظر سے ہٹایا جا سکے۔ پس یہی اسباب ہیں کہ یہودی لابی نے باراک اوباما کو ایک ناتجربہ کار، سیاہ فام اور مسلمان باپ کی اولاد ہونے کے باوجود امریکہ کی صدارت کے لئے منتخب کیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوںاور ہمارے حکمرانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونے اور اس عالمی سازش سے نمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
حوالہ جات
1. بحوالہ 'جنگ نیوز' کراچی: 5؍ مارچ 2008ء
2. بی بی سی اُردو ویب سائٹ: 4؍ جون 2008ء
3. بی بی سی اُردو ویب سائٹ: 5؍ نومبر 2008ء
4. بی بی سی اردو ویب سائٹ: 7 اگست 2007ء
5. مسند احمد: 2؍220
6. سنن ابو داؤد: 4294
7. سنن ابو داؤد: 4296
8. (1؍138)