جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ (قسط 2)

اسلام فرد کی آزادی کا حامی ہے یا انفرادی آزادی کی تقدیس اسلام کا اہم اُصول ہے۔اسلام فرد کے اس حق کو مانتا ہے کہ وہ خیر و شر کی جو تعبیر اختیار کرنا چاہے، کرے۔اسلام غیر مسلموں کو مساوی معاشرتی حیثیت دیتا ہے ۔اسلام امن و رواداری کا مذہب ہے ۔
قرآنی آیت {لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ...﴿٢٥٦﴾...سورة البقرة} سے معلوم ہوا کہ دین میں کسی قسم کا جبر نہیں۔

اگر مجاہدین کے نظریۂ اسلام (کہ اقامت ِدین فرض ہے) کو تسلیم کرلیا جائے تو مسلمان کہیں بھی مخلوط آبادی میں امن سے زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔؟؟؟
زمانۂ حال عالمگیر یت (Globalization) کا دور ہے جہاں ہر نظریۂ حیات کے ماننے والوں کے درمیان اشتراکِ عمل کے سوا کوئی دوسری صورت کار گر نہیں ۔اگر مسلمان بحیثیت ِجماعت اپنے عقائد کی اشاعت کا حق رکھتے ہیں تو اُنہیں غیر مسلموں کو بھی یہ حق دینا ہوگا۔

زیر نظر مضمون کے اس حصے میں ہم درج بالا جملوں کی تنقیح کرنے کی کوشش کریں گے :


نظریۂ آزادی ، مساوات اور رواداری کا مفہوم
جدید مسلم مفکرین قرآنی آیت: {فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ‌ ۚ...﴿٢٩﴾...سورة الکہف) (تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے) سے ماخوذ شدہ جبر و قدر کی بحث پر مبنی مذہبی تصورِ آزادی کو مغربی تصورِ آزادی سے خلط ملط کرکے اسلام میں آزادی (اور جمہوریت) کا بطور ایک مستقل قدر، اثبات کرتے ہیں، حالانکہ مذہب اور مغرب کے تصور آزادی میں سواے لفظی اشتراک کے اور کوئی شے مشترک نہیں۔ مناسب ہے کہ پہلے ہم مغربی تصوراتِ آزادی ، مساوات اور رواداری کے اصل معنی جان لیں، کیونکہ مغربی تہذیب کے یہ تین اہم تصورات باہم ایک دوسرے مربوط ہیں :

نظریۂ آزادی (Principle of Freedom/Autonomy): کا معنی ہے تعیین خیر و شر کا حق (right to define good and bad) یعنی یہ تصور کہ خیر کی تعریف متعین کرنا فرد کا حق ہے ("Good" is the right of individual) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیروشر کا تعین کرنے کا حق ہر انسان کو ہونا چاہئے ماوراے اس سے کہ فرد اس حق کو استعمال کرکے اپنے لئے خیر و شر کا کونسا پیمانہ طے کرتا ہے، کیونکہ اصل خیر یہی ہے کہ انسان خود خیر وشر طے کرنے کا مکلف و مجاز ہو ۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ خیر وہی ہے جسے فرد اپنی مرضی و ارادے سے اختیار کرتا ہے، نیز فرد اپنی ترجیحات کی جو بھی ترتیب مرتب کرے گا وہی اس کے لئے خیر ہوگا۔

اگر ہنری پتے گننے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو یہی اس کے لئے خیر ہوگا، اگر ابرار گلوکار بننا چاہتا ہے تو یہی اس کا خیر ہوگا اور اگر عبداللہ مسجد کا امام بننا چاہتا ہے تو یہ اس کا خیر ہوگا۔ الغرض اصل بات یہ نہیں کہ فرد اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے بلکہ اصل خیر یہ ہے کہ وہ اپنے لئے خیر وشر طے کرنے کا حق استعمال کرنے میں آزاد ہو۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے choice of choice (جو چاہنا چاہوں، چاہ سکنے کا حق)، یعنی کوئی عمل فی نفسہٖ اچھا یا برا نہیں اور نہ ہی فرد کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جس کے ذریعے کسی عمل یا شے کی قدر (value)متعین کی جاسکی بلکہ فرد معیاراتِ خیر وشر کوخود متعین کرتا ہے۔

نظریۂ مساوات (Principle of Equality) : یہ ماننا کہ چونکہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے قدر (خیر و شر) کا جو پیمانہ چاہے طے کرلے، لہٰذا ہر شخص کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ دوسروں کے اس مساوی حق کو تسلیم کرے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں خیر اور شر کا جو پیمانہ چاہیں طے کرلیں اور اس با ت کو مانے کہ خیر و شر کے تمام معیارات مساوی (Equal) حیثیت رکھتے ہیں۔ مغربی تصورِ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تعین قدر کی ترتیب کو یکساں اہمیت دی جائے اور کسی بھی فرد کے معیارِ خیر وشر اور اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے۔ ان معنی میں عبداللہ، ہنری اور ابرار کی خواہشات مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں اور ان میں کسی ایک کو کسی دوسری پر ترجیح دینے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ پس خود ارادیت (autonomy) کا ہر فرد یکساں مکلف ہے اور جمہوری ریاست کی تعمیر کے لیے صرف آزادی نہیں بلکہ مساوی آزادی (equal freedom) کوتسلیم کیا جانا ضروری ہے۔

نظریۂ رواداری (Doctrine of Tolerance): کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی سطح پر اقدار کی ترتیب میں جس فرق کا اظہار لوگوں کی زندگیوں میں ہوتا ہے، اسے برداشت کیا جائے، یعنی یہ مانا جائے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی نگاہ میں خیر کا تصورکیا ہے، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ فرد اس بات کا قائل ہو کہ ذاتی زندگی میں اقدار کی جو بھی ترتیب ہو مگر معاشرتی سطح پر وہ اس ترتیب کو قبول کرے گا جس میں اُصولِ آزادی (یعنی فرد کے اس حق کو کہ وہ خیر کی جو تعبیر کرنا چاہے، کرسکے) کی بڑھوتری کو مقدم رکھا جائے گا۔ Tolerance کا مطلب اختلافِ رائے کو برداشت کرنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب اقداری ترتیب کے فرق کو غیر اہم اور لایعنی سمجھنا ہے۔ 1

چنانچہ آزادی و مساوات بطورِ اقدار اختیار کرنے کا لازمی تقاضا یہ ماننا بھی ہے کہ کسی بھی فرد کو اپنے تصورِ خیر (مثلاً مذہبیت) کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کے عمل پر تنقید کرنے یا اسے تبدیل کر دینے کی خواہش رکھنے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے کا حق حاصل نہیں، یہاں تک کہ ایک باپ کو نماز کے لئے اپنے بچوں پر جبر کرنے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔2 اگر فرد مذہبی زندگی کو ایک نفسیاتی دوا یا روحانی تسکین کے ایک ذریعے کے طور پر اپناتا ہے تو یہ قابل قبول ہے مگر مذہب کے معاشرتی و ریاستی اظہار کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ زندگی گزارنے کے تمام طریقوں کو مساوی معاشرتی قدر دینے کے اس رویے کا نام ٹولرنس ہے (جسے عام طور پر اسلامی تصور 'رواداری' سے خلط ملط کردیا جاتاہے) جس کا مغربی مفہوم یہ ہے کہ جب تمام افراد کی ذاتی خواہشات کی ترتیب اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے مساوی ہیں تو ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں برداشت کرے۔

آزادی کے اُصول پر معاشرتی تشکیل تبھی ممکن ہے جب افراد اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کو یکساں اہمیت دیں اور اُنہیں برداشت کرنے کا مادہ پیدا کریں، یعنی ٹولرنس کا مظاہرہ کریں۔ 3

مغربی مباحث ِآزادی اور مساوات سے اخذ شدہ تصورات مثلاً 'ایک سے زائد اچھائیاں' plurality of goods کا ذکر بھی یہاں افادیت سے خالی نہیں، کیونکہ یہ نظریات بھی جدید مفکرین کے لئے فکری اعتزال کا باعث بنے۔ plurality of goods کا مطلب یہ ماننا ہے کہ خیر کی بہت سی تعبیریں ہیں اور یہ تمام تعبیریں اُصولاً و اخلاقاً مساوی ہیں، نیز جمہوری ریاست کا بنیادی وظیفہ یہی ہے کہ وہ تمام تصورات خیر کے اظہار کو ممکن بنائے۔ چنانچہ plurality of goods نظریۂ آزادی و مساوات کا منطقی لازمہ ہے۔

1) اسلام اور آزادی
واضح ہوا کہ مغربی تصورات ِآزادی و مساوات گویا مستقل اقدار (freedom as value) کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ جمہوری ریاست سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ایسی معاشرتی و ریاستی صف بندی وجود میں لائے جو ہر فرد کی اس صلاحیت و حق کو بڑھاتی چلی جائے کہ وہ جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف ہو سکے۔

اس کے مقابلے میں مذہبی نقطہ نگاہ سے آزادی کا مطلب ہے: ارادئہ خداوندی کے مظہر تصوارتِ خیرو شر کو اپنانے کی صلاحیت، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی و عقلی صلاحیتوں سے نوازا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کا انتظام کردینے کے بعد اسے مجبورِ محض نہیں بنایا بلکہ اسے یہ صلاحیت بھی عطا کی ہے کہ وہ حق کو اختیار کرکے اپنے ربّ کا فرمانبردار بنے یا اس کا انکارکرکے اس کا باغی کہلائے۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی جبروقدر کی بحث میں آزادی کا مفہوم ہے: ''مذہب کے طے کردہ خیرو شر میں سے کسی ایک کو اپنانے کی صلاحیت'' (ability to choose between good and bad) نہ کہ خیر و شر متعین کرنے کا حق (جیسا کہ مغربی تصور ہے)۔ مذہبی تصورِ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ اگر فرد اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے گا تو وہی خیر ہوگا بلکہ اسے اس کی سزا بھگتنا ہوگی جیسا کہ اوپر بیان کردہ پوری آیت پڑھنے سے واضح ہوتا ہے جو یوں ہے:
وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ‌ ۚ إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلظَّـٰلِمِينَ نَارً‌ا...﴿٢٩﴾...سورة الکہف
''فرما دیجئے کہ حق تو وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے آیا ہے، تو جو چاہے اس حق کو مان لے اور جو چاہے انکار کردے ، البتہ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لئے آگ تیار کررکھی ہے ۔''

چنانچہ اسلام آزادی 'بطورِ ذریعہ ' (freedom as resource) کا تو قائل ہے کہ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو یہ ذریعہ و صلاحیت حاصل ہے کہ وہ خیر وشر میں سے کسی ایک کو اختیار کرسکتا ہے، جس کا انجام روزِ آخرت اس کو بھگتناہوگا، مگر اسلامی نظامِ زندگی میں آزادی بطورِ ایک قدر (freedom as value) کا کوئی مقام نہیں،کیونکہ اصل قدر آزادی استعمال کرنے کا حق نہیں بلکہ اسے اپنے ربّ کے سپرد (surrender)کردینا ہے یعنی قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت ہے۔

مغرب میں آزادی اعلیٰ ترین خیر ہے،کیونکہ ان کے مطابق اصل حیثیت اس چیز کی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ اس کی ہے کہ آپ جو چاہنا چاہیں، چاہ سکیں، جبکہ مذہبی نقطہ نگاہ سے اہم بات یہ نہیں کہ میں جو چاہنا چاہوں، چاہ سکنے پر قادر ہوں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ میں وہ چاہتا ہوں یا نہیں جو خدا چاہتا ہے کہ میں چاہوں۔ پس معلوم ہوا کہ نظریۂ آزادی کا معنی عبدیت کا ردّ ہے ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس کا کام اس کی رضا حاصل کرنا ہے، کیونکہ آزادی کا مطلب انسان کے حق خودارادیت (self-determination) کا دعویٰ ہے۔ یہ تصور دراصل انسان کی بنیادی ضرورت یعنی 'حصول ہدایت کے لئے خدائی رہنمائی' سے انکار پرمبنی ہے ۔

2) اسلام اور مساوات
اسلامی نقطہ نگاہ سے نظریۂ مساوات کا معنی ہے نظامِ ہدایت و رشد کا ردّ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر بتانے کے لئے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاء کرام کے ذریعے قائم کیا ہے نیز انسان کے پاس ایسی کوئی الہامی اطلاعات نہیں جو حتمی ہوں اور جن کی بنیاد پر وہ خواہشات اور اعمال میں ترجیح کا کوئی پیمانہ قائم کرسکے۔ ایسا اس لئے کہ نظامِ ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جس کی خواہشات کی ترتیب تعلیماتِ انبیاء کا مظہر ہیں تو وہ تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریۂ ریاست آزادی (اور اسی لئے مساوات) کو بطور کسی ایسی معاشرتی قدر قبول نہیں کرتا جو ریاست سے اس بات کا تقاضا کرے کہ وہ خیر کے معاملے 'غیر جانبدار ' ہو کر تمام تصوراتِ خیر کے 'حقوق' کا 'مساوی' تحفظ کرے، بلکہ اسلامی ریاست کا تو مقصد ہی اس خیر کو جو اِرادئہ خداوندی کی صورت میں نازل ہوا تمام دیگر تصوراتِ خیر (جو در حقیقت شر ہیں) پر غالب کردینا ہے، نہ کہ ان کے ساتھ مفاہمت کرنا اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرکے اُنہیں مساوی حیثیت عطا کردینا۔

قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا:
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ ۚ...﴿٢٨﴾...سورة الفتح
''وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔''

دوسرے لفظوں میں نظامِ ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ ِمراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقویٰ ہوتا ہے نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کو نظامِ ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلامی نظریۂ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اُصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہو) اور عوامی نمائندگی(Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں،کیونکہ یہاں عوام citizen نہیں بلکہ اللہ کے بندے؍مسلمان ہوتے ہیں اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جس کا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاسی نائب ہوتا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی خواہشات اور اعمال کو شریعت کے تابع کرنے کے لئے نظامِ ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اوراُنہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے۔

3) اسلام، رواداری اور امن 4
اس بحث سے نظریہ رواداری Toleranceکی اسلامی حیثیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ نظریہ رواداری کا معنی ہے نہي عن المنکر کا ردّ، یعنی جب یہ مان لیا کہ خیر کا تعین فرد کا حق ہے، نیز تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں تو یہ ماننا بھی لازم ہے کہ اوّل تو برائی کوئی شے ہی نہیں، اور اگر مجھے کوئی عمل اپنے تصورِ خیر کے مطابق برائی نظر آتا بھی ہے تو میں اسے برداشت کروں نہ یہ کہ اسے روکنے کی فکر اور تدبیرکرنے لگوں۔ بلکہ جمہوری اقدار (آزادی و مساوات) کا تقاضا تو یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کے ہر عمل کو قابل قدر نگاہ سے دیکھوں۔

اگر وہ اپنی ساری زندگی بندروں کے حالات جمع کرنے پر صرف کردے تو کہوں کہ ' 'واہ جناب کیا ہی عمدہ تحقیقی کام کیا ہے۔'' دوسرے لفظوں میں نظریۂ رواداری اس دعوے کے مترادف ہے کہ وہ تمام احادیث جن میں نہي عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے۔5 نیز قرآنی آیات جن میں اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ{يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا قُوٓاأَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارً‌ا...﴿٦﴾...سورة التحریم) ''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔ '' ان کا انکار کردوں اور اِنہیں نا قابل عمل گردانوں۔

آزادی و مساوات کی مغربی تعبیر کو بطورِ مستقل اسلامی اقدار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بھی تمام تصوراتِ خیر کو مساوی حیثیت دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کوئی برتر اور مکمل نظام زندگی نہیں بلکہ ایک ایسے برتر نظامہائے زندگی کا حصہ ہے جس میں تمام تصوراتِ خیر برابر ہوتے ہیں اور وہ نظام لبرل سرمایہ داری ہے۔ عالمگیریت (Globalization) کے نام پر مسلمانوں کو موجودہ نظام کے ساتھ اشتراکِ عمل کی دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات سے دستبردار ہوجائیں کہ اسلام ہی حق ہے اور ہم لبرل سرمایہ داری کے آلہ کار بن جائیں کیونکہ موجودہ عالمگیریت کا مطلب لبرل سرمایہ داری کے عالمی غلبے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

ظاہر بات ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ تصور درست نہیں، کیونکہ اسلام کا مقصد دنیا کی ہر ریاست (چاہے وہ کیسی ہی ہو) چلانے کے لئے محض پر امن اور وفادار رعیت فراہم کرنا نہیں اور نہ ہی اسلام محض چند عقائد اور اُصول و اَخلاق کا نام ہے جو ہر نظام زندگی میں کھپ سکے کیونکہ اگر معاملہ یہی ہوتا تو اسلام دیگر مذاہب سے کچھ مختلف چیز نہ ہوتا۔ اس کے بر خلاف اسلام خود ایک مکمل نظام زندگی اور بھرپور علمیت ہے جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات سے متعلق احکام و قوانین بھی موجو۶د ہیں۔ پھر اسلا م کا اپنے بارے میں دعویٰ یہ نہیں کہ میں بہت سے تصوراتِ حق میں سے ایک حق ہوں بلکہ وہ خود کو 'الحق' (the truth)کہتا ہے، یعنی وہ پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ صرف میرا ہی نظام بر حق ہے اور اسی میں نوع انسانیت کی بھلائی و کامیابی ہے نیز میرے علاوہ سب دعوتیں و نظام تباہی و بربادی کے راستے ہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا:

إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ ۗ...﴿١٩﴾...سورة آل عمران
''اللہ کے نزدیک دین (یعنی زندگی گزارنے کا معتبر طریقہ ) صرف اسلام ہے۔ ''

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ ٱلْإِسْلَـٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِ‌ينَ ﴿٨٥﴾...سورة آل عمران
''جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے کو اختیار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا اور آخرت میں وہ ناکام ہوگا۔''

وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌ٰ‌طِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ...﴿١٥٣﴾... سورة الانعام
''میرا یہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔''

پس اگر واقعی اسلام کا اپنے بارے میں یہی وعویٰ ہے جو اوپر بیان کیا گیا تو پھر اسلامی نقطہ نگاہ سے نظریہ روادری Tolerance اور 'ایک سے زیادہ اچھائیاں'plurality of goods کی بات کرنا ہی ایک مہمل بات ہے۔ یہ بات تو ہر معمولی ذہن رکھنے والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص جس شے کو حق اور جسے باطل گردانتا ہے، ان دونوں کو کبھی اپنی زندگی میں مساوی حیثیت نہیں دیتا اور نہ ہی اُنہیں پنپنے کے برابر مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مکان تعمیر کرے اور اس میں بجلی کے دو طرح کے کنکشن اور تاریں لگوائے، ایک تو وہ جن کے کے آگے سوئچ بورڈ اور بٹن لگے ہوں، اور دوسرے اسی دیوار میں کئی مقامات پر بجلی کی تاریں کھلی چھوڑ کر یہ کہتا پھرے کہ میں نے اپنے بچوں کو پوری آزادی دے دی ہے، چاہیں تو سوئچ بورڈ سے پنکھا چلائیں اور اگر چاہیں تو ننگی تاروں کو ہاتھ لگا کر کرنٹ سے مر جائیں۔

ایسے ہی ایک منزل سے نیچے دوسری میں جانے کے لئے ایک سیڑھی بنا دے، اور اس کے ساتھ بلندی سے گرکر مرنے کے لئے تین راستے بھی کھلے چھوڑ کر یہ کہے کہ میں نے سب راستوں کو برابر حیثیت دے دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اپنے بچوں کے لئے ایسا مکان بنانے کی ترکیب صرف کسی ذہنی مریض ہی کو سوجھ سکتی ہے ورنہ دنیا کا کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی آزادی کا دل دادہ کیوں نہ ہو ایسی حرکت نہیں کرتا بلکہ مکان بناتے وقت تمام احتیاطی تدابیر (safety-measures) اختیار کرتا ہے تاکہ جس شے (یعنی زندگی کے ہلاک ہو جانے) کو وہ برا سمجھتا ہے، اس کی روک تھام کی جا سکے اور لوگوں کو اس بات کا زیادہ سے زیادہ پابند بنایا جا سکے کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کریں جس کے نتیجے میں ان کے ہلاکت میں پڑنے کے امکانات کم از کم اور حصولِ خیر کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہو سکیں۔ پس اس اصول پر اس دعوے کی مضحکہ خیزی بھی جانچی جا سکتی ہے کہ اسلام نظریہ رواداریTolerance اور plurality of goods کا حامی ہے۔ وہ ایسے کہ ایک طرف تو اسلام پوری قوت کے ساتھ اپنے لئے یہ دعوی کرے کہ صرف میں ہی حق ہوں باقی سب باطل ہیں نیز صرف میرا ہی راستہ حقیقی کامیابی اور نجات کا ضامن ہے باقی سب جہنم و بربادی کے راستے ہیں، لیکن اس کے بعد اس اُصولی دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں جہنم اور بربادی کی طرف لے جانے والی باقی تمام باطل قوتوں کا راستہ نہ صرف یہ کہ کھلا چھوڑ دے بلکہ ان کے فروغ کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بھی فراہم کرے۔

اگر واقعی اسلام ہی حق ہے تو یہ ماننا بھی ناگزیر ہے کہ اسلام زمین میں اپنے نظام کے علاوہ دوسرے نظاماتِ زندگی کو مغلوب کرنے کا تقاضا بھی کرے۔ یہ بات ہی سراسر مہمل ہے کہ ایک نظامِ زندگی کو باطل بھی کہا جائے اور پھر اس کا غلبہ بھی برداشت کیا جائے۔ وہ صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ہوسکتا ہے جو بیک وقت اپنے پیش کردہ نظام کو حق بھی کہے، اس کی پیروی کا حکم بھی دے مگر ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو دوسرے باطل نظامات کے اندر پر امن وفادارانہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم بھی دے۔ آخر دنیا میں وہ کون شخص ہے جو جس شے کو شر سمجھتا ہے، پھر اسے پھیلنے کی مکمل آزادی اور حق بھی دے دے؟ ایسی بے وقوفی کی اُمید تو ایک عام انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ اس کی نسبت اللہ اور اس کے رسول کی طرف کرنے کی جسارت کی جائے۔

اسلام کا خود کو حق کہنا اور اس کی طرف پوری قوت سے دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنا نظامِ اقتدار قائم کرنے کا مطالبہ کرے اور اپنے ماننے والوں کا طرئہ امتیاز اسی کو قرار دے کہ آیا وہ اس جدوجہد میں جان و مال کھپا تے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے میں یہ سوال ہی غیر اہم ہے کہ کفار ہماری اس جدوجہد کو برداشت کریں گے یا نہیں یا ہمیں غیر مسلموں کا تعاون حاصل ہوگا یا نہیں؟

اسلام کی اس اُصولی پوزیشن سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتا ہے کہ حقیقی مسلمان کا وجود ہر غیر اسلامی ریاست کے لئے کھلا چیلنج ہی ہونا چاہئے، کیونکہ کوئی اسے برداشت کرے یا نہ کرے بہرحال اسلام کا تقاضا اپنے ماننے والوں سے یہی ہے کہ جہاں کہیں خدا کا قانون نافذ نہیں ہے اور ظلم وستم کا دور دورہ ہے، وہاں ظلم وستم کا خاتمہ کرکے ایسے حالات پیدا کردیں کہ غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے کی آزادی میسر آجائے۔

بلاشک و شبہ اسلام امن و سلامتی کا حامی ہے مگر اس کی نگاہ میں حقیقی امن اور سلامتی وہی ہے جو نفاذِ شریعت سے حاصل ہوتی ہے۔ جو کوئی اسلام میں امن و سلامتی کا مطلب یہ سمجھا کہ شیطانی و طاغوتی نظاموں کے زیر سایہ سارے کاروبارِ زندگی پورے اطمینان سے چلتے رہیں اور مسلمان کو خراش بھی نہ آئے، وہ اسلام کا نقطہ نظر بالکل نہیں سمجھا۔6 اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کو کفر و طاغوت کا قائم کردہ امن نہیں بلکہ اپنا قائم کردہ امن مطلوب ہے اور اسی میں وہ انسان کی سلامتی دیکھتا ہے۔7

کفرو طاغوت کی بالادستی پر مبنی قیام امن کا مطلب صرف یہ ہے کہ نوع انسانیت اطمینان و سکون کے ساتھ جہنم کے راستے پر چلنے پر راضی ہوجائے اور مسلمان ٹس سے مس نہ ہوں۔ ظاہر ہے قیامِ امن کا یہ تصور اس مقصد ہی کے خلاف ہے جسکے لئے اُمت ِمسلمہ برپا کی گئی ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا:
كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌...﴿١١٠﴾...سورة آل عمران
''تم دنیا میں وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کیلئے برپا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو ۔''

دین میں جبر نہیں!
قرآنی آیت {لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ...﴿٢٥٦﴾...سورة البقرة) ''دین میں کوئی زبردستی نہیں ''  کو بھی اس کے عمومی معنی کی آڑ میں اسلام میں آزادی و رواداری کے جواز کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، حالانکہ اس کا اصل مفہوم بھی قریب قریب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا جیسا کہ مکمل آیت پڑھنے سے عین واضح ہوجاتاہے۔ اس آیت کو یہ عمومی معنی پہنانا کہ دین کے کسی معاملے میں کوئی جبر ہے ہی نہیں، آیت کی بالکل غلط تعبیر ہے، کیونکہ اس تشریح کے بعد اسلام کے تمام معاشرتی و سیاسی احکامات کالعدم ہو جائیں گے۔ مثلاً اسلامی ریاست میں کوئی شخص چوری کرے اور جب ہاتھ کٹنے کی باری آئے تو کہہ دے:( لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ...﴿٢٥٦﴾...سورة البقرة} اِسی طرح اس آیت سے تمام تصوراتِ زندگی کی اخلاقی و معاشرتی مساوات (plurality of goods) کا اُصول نکالنا بھی سراسر غلط ہے، کیونکہ اگر آیت کو پورا پڑھ لیا جائے تو اس نظرئیے کی تردید ہوجاتی ہے۔ مکمل آیت کا ترجمہ یہ ہے :

لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّ‌شْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ‌ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْ‌وَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٥٦﴾ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا يُخْرِ‌جُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ‌ ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُ‌وٓا أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّـٰغُوتُ يُخْرِ‌جُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ‌ إِلَى ٱلظُّلُمَـٰتِ ۗ أُولَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ ﴿٢٥٧...سورة البقرة
''دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ، بے شک ہدایت گمراہی سے خوب واضح ہوگئی ہے، پس جو کوئی طاغوت (بندگی کا انکار کرنے والے) کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو اس نے ایسا مضبوط سہار تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اللہ مددگا رہے ایمان والوں کا وہ اُنہیں (جہالت کی) تاریکیوں سے (ہدایت کی) روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے۔ اور جنہوں نے (ہدایت کا ) انکار کیا ان کے ساتھی طاغوت ہیں جو اُنہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، یہی لوگ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔''

قرآن نے ہدایت و خیر کے لئے لفظ 'نور' مفرد اور گمراہی کے لئے 'ظلمات' جمع استعمال کرکے یہ بتا دیا کہ حق اور خیر درحقیقت صرف ایک ہی ہے جبکہ جہالت کی کئی شکلیں ہیں۔ خوب یاد رہے کہ ارادئہ خداوندی سے باہر یا اس سے ماوراے کسی حق اور خیر کا کوئی وجود ہے ہی نہیں، خیر اور حق وہی ہے جسے اسلام خیر اور حق کہتا ہے نیز اسلامی نظام زندگی میں ارادئہ خداوندی سے متصادم تصورات ہر گز بھی مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اُنہیں لازماً وہی پوزیشن اختیار کرنا ہوتی ہے جس کے لئے قرآن صَاغِرُوْن حالت ِمغلوبیت (التوبہ : 29) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

قرآنی آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام اپنے عقائد کسی سے زبردستی نہیں منواتا کہ یہ بذریعہ قوت منوانے کی چیز نہیں۔ اسلام اپنے نظامِ عمل میں ذاتی عقائد اور عبادات اختیار کرنے کی آزادی دینے پر تو تیار ہے مگر وہ اس بات کو ہر گز گوارا نہیں کرتا کہ اللہ کے قوانین معاشرت و ریاست کے سوا کسی اور کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری مخلوقِ خدا پر قائم و دائم ہو اور اللہ کی زمین پر اس کے باغیوں کا غلبہ ہو نیز مسلمان ان کے تابع ہو کر اطمینان سے زندگی بسر کریں۔

اجتماعی زندگی کے اس معاملے میں لامحالہ ایک فریق کو دوسرے فریق کے 'دین' میں مداخلت کرنا ہی ہوگی۔ اگر مسلمان 'مذہب ِکفر' میں دخیل نہیں ہوں گے، توکافر 'مذہب اسلام' میں مداخلت کرکے رہیں گے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی کے بہت بڑے حصے پر مذہب کفر جاری و ساری ہوگا، جیسا کہ موجودہ حالات میں عین واضح ہے کہ کفر اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ یہ مداخلت کفار کی طرف سے ہو اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی مخلوق پر اہل کفر کے ظلم وستم کا خاتمہ کریں اور پھر جہاں تک ذاتی مذہبی عقائد و عبادات کا تعلق ہے تو غیر مسلموں کے ساتھ لا اِکراہ في الدین کا معاملہ کیا جائے کہ کسی غیر مسلم پر اسلام قبول کرنے میں جبر روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہی درست اسلامی تصورِ رواداری ہے کہ اسلام کے بجائے کفر حالت ِمغلوبیت کا شکار ہو ۔ دوسروں کو ان کے مسلک پر چلنے دینا بے شک رواداری ہے مگر یہ کوئی رواداری نہیں کہ اپنے طریقۂ حیات کے خلاف اپنے اوپر دوسروں کا طریقہ مسلط کرلیا جائے۔

اِسی طرح بعض جدید مفکرین نے قرآنی آیت:فَذَكِّرْ‌ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ‌ ﴿٢١﴾ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ‌ ﴿٢٢...سورة الغاشیہ
''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نصیحت کرتے رہئے کہ آپ تو نصیحت ہی کرنے والے ہیں، ان پر جبر کرنے والے نہیں۔ '' سے یہ مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی کہ علماے دین کا کام محض دعوت دینا ہے نہ کہ غلبہ دین کے لئے کوئی منظم حکمت عملی اختیار کرنا اور اجتماعی صف بندی وغیرہ کرنا۔ آیت کی یہ تشریح کسی ایک قرآنی آیت کو قرآن کی عمومی تعلیمات سے ہٹا کر معنی نکالنے کی عمدہ مثال ہے۔ آیت کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص معقول دلائل او رنصیحت کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتا، اسے زبردستی حق قبول نہیں کروایا جائے گا۔ ویسے بھی رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِمبارک پر کفار کا انکارِ اسلام بہت ہی شاق گزرتا اور آپ اس رنج میں مبتلا رہتے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، تو آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لئے فرما رہا ہے کہ اے حبیب! آپ فکر مت کیجئے، ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں، کیونکہ آپ ان پر بطور داروغہ مسلط نہیں کئے گئے کہ اُنہیں ایمان قبول کروانا آپ کے فرائض نبوت میں شامل ہو۔

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ آیت مکی دور سے متعلق ہے جہاں مسلمانوں کو عملاً سیاسی غلبہ حاصل نہ ہوا تھا ، اس کے مقابلے میں مدنی آیتوں میں واضح طور پر اقامت ِ دین کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے معنی کو درست طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مکی اور مدنی آیات کو ملا کر پڑھا جائے تاکہ آیات کے عموم اور خصوص کا درست اطلاق معلوم ہوسکے۔ اگر یہ اُصول مان لیا جائے کہ دین محض نصیحت ہی کا نام ہے تو اللہ تعالی کے نازل کردہ بے شمار معاشرتی و ریاستی احکامات ہمیشہ طاقِ نسیاں میں ہی پڑے رہیں گے۔

اسلام اور تبلیغ کفر کی اِجازت
یہیں سے یہ نکتہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ اسلام اپنی دائرہ عملمیں تبلیغ کفر کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ کسی شخص کا خود اپنی ذاتی زندگی میں ایک عقیدے کو ماننا اور بات ہے اور اس کا اپنے نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی تعمیر کی دعوت دینا نیز اس کے مطابق نظام زندگی بنانا اور اسے بذریعہ قوت خلق خدا پر نافذ کرنا ایک دوسری چیز ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے باغی ہوں اُنہیں خدا کی زمین میں بسنے کا حق بھی نہ ہونا چاہئے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی حلم ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو نہ صرف یہ کہ جینے کی مہلت دیتا ہے بلکہ اُنہیں اپنی ذاتی زندگی میں کفر پر قائم رہنے کا اختیار بھی دیتا ہے جب تک کہ ان کی بغاوت دوسرے بندگانِ خدا کے لئے فتنہ و فساد کا باعث نہ بن جائے۔ اپنے اُصولی دعوے کے بعد اسلام کے لئے یہ بات پسند کرنا تو درکنار قبول کرنا بھی مشکل ہے کہ بنی نوع انسانی کے اندر وہ دعوتیں پھیلیں جو اسے ابدی ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہوں۔ وہ داعیانِ باطل کو یہ رعایت دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ جس آگ کے گڑھے کی طرف وہ خود جارہے ہیں، دوسروں کو بھی اس کی طرف کھینچ کر لے جائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کو وہ بادلِ نا خواستہ قبول کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جو شخص خود کفر کے راستے پر قائم رہنا چاہتا ہے، اسے اختیار ہے کہ اپنی فلاح کے راستے کو چھوڑ کر بربادی کے راستے پر چلتا رہے۔ انسانیت کی خیر خواہی اور عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر بالجبر لوگوں کو کفر کے زہر سے بچانا ممکن ہوتا تو اسلام ہر شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے یہ زہر پینے سے روک دیتا مگر ایمان ایسی شے نہیں جو بذریعہ قوت کسی کے دل میں ڈال دی جائے۔ فرد کی اس جبری حفاظت سے اسلام کے اجتناب کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام کفر اور جہنم کی طرف جانے کو فرد کا 'حق' سمجھتا ہے اور انہیں روکنے کو 'باطل' گردانتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کفر کے تباہ کن نتائج سے اس وقت تک بچایا نہیں جاسکتا جب تک وہ خود کفر کے نقصانات کا معترف ہوکر مسلمان نہ ہوجائے۔ اس لئے اسلام کہتا ہے کہ کفار کو دین حق پر ایمان لانے کے لئے مجبور تو نہ کرو، لیکن غلبہ کفر کے فتنے کو پوری قوت سے مٹانے کی کوشش کرو اور جو لوگ میرے دین کو نہیں مانتے وہ چھوٹے ہو کر زندگی بسر کریں۔

کوئی فرد اگر اپنی انفرادی زندگی میں کفر اختیار کرنا چاہتا ہے تو کرے مگر اسے یہ حق نہیں کہ وہ بندگانِ خدا پر باطل نظامِ اِکراہ مسلط کرکے اُنہیں جہنم کی طرف گھسیٹ کر لے جائے، اس سے بہتر یہ ہے کہ مسلمان ان پر اِکراہ کریں اور اُنھیں اس مقام پر لا کھڑا کریں جہاں اگر وہ چاہیں تو بآسانی جنت کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام اس قیمت پر حق کی اشاعت کی دعوت خریدنا نہیں چاہتا کہ اس کے جواب میں اسے جھوٹ کی دعوت دینے کی آزادی دینی پڑے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے کہتا ہے کہ اگر تم سچے دل سے مجھے حق سمجھتے ہو اور نوعِ انسانیت کی بھلائی میری پیروی میں دیکھتے ہو تو دنیا کو میری طرف دعوت دو اور مجھے قائم کرنے کی جدوجہد کرو، خواہ اس کام میں تمہیں گلزارِ ابراہیمی کا سامنا کرنا پڑے یا آتشِ نمرود کا۔ یہ تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہو یا نہیں، لیکن میرے لئے یہ نا ممکن ہے کہ تمہیں راہِ حق کی خطرناکیوں سے بچانے کے لئے باطل پرستوں کو یہ 'حق' دے دوں کہ وہ خدا کے بندوں کو گمراہ کریں اور اُنہیں جہنم کے راستوں کی طرف ہانک لے جائیں۔

پھر کفر کی ،،دعوت و تبلیغ دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں، یا تو وہ سیاسی نوعیت کی دعوت ہوگی اور یا پھر اخلاقی۔ اگر وہ دعوت سیاسی نوعیت کی ہو اور اس کا مقصد نظامِ زندگی میں تغیر ہے تو جس طرح دنیا کی ہر ریاست ایسی دعوت کی مزاحمت کرتی ہے، اسی طرح اسلام بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ دعوت محض مذہبی و اخلاقی نوعیت کی ہے تو دنیاوی ریاستوں کے بر خلاف اسلام اس کی اجازت بھی نہیں دے سکتا، کیونکہ کسی اخلاقی و اعتقادی گمراہی کو اپنی نگرانی و حفاظت میں سر اُٹھانے کا موقع دینا اس مقصد ہی کی ضد ہے جس کے لئے اسلام زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔

دنیاوی ریاستوں کو چونکہ فرد کی اُخروی کامیابی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لہٰذ وہ اعتقادی گمراہی کا سد باب کرنے کی فکر نہیں کرتیں۔ البتہ جس اخلاقی قدر پر ان کی ریاست کا نظام قائم و دائم ہو (مثلاً سچ بولنا، ریاست سے وفاداری وغیرہ) تو اس کے خلاف دعوت دینے والوں کو وہ بھی بذریعہ قوت روک دیتی ہیں۔ اسلام کے نزدیک انسان کا سنگین ترین مسئلہ بیماری یا غربت نہیں بلکہ اپنے ربّ کا انکار اور اس سے سر کشی و بغاوت (فسق، کفر، شرک، طاغوت) ہے اور بغاوت کا فروغ کبھی بطورِ پالیسی اختیار نہیں کیا جاتا۔

اس رویے کی وضاحت اس مثال سے کی جاسکتی ہے کہ جب کبھی یہ کہا جائے کہ ٹی وی بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے تو یہ عجیب و غریب فلسفہ سننے کو ملتا ہے کہ ''جناب ٹی وی پر تو مذہبی چینلز بھی آتے ہیں، تو جو چاہے فلموں اور گانوں کے بجائے ان چینلز کو دیکھ لے۔'' اس فلسفے کا بودا پن اوپر بیان کی گئی تفصیلات سے واضح ہو جانا چاہئے۔ اس مثال میں اصل سوال یہ نہیں کہ آیا ٹی وی پر مذہبی پروگرام آتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر فحاشی و عریانی پھیلانا برائی اور جرم ہے تو اس کے فروغ کو بطورِ ایک 'حق' اور 'پالیسی' کیسے اختیار کرلیا جائے ؟ اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم افیون اور چرس بیچنے والے کو بھی اپنے کاروبار کے فروغ کی کھلی چھٹی دے دیں، کیونکہ وہ بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ جناب بازار میں کھانے کی بے شمار اشیا موجود ہیں ، لوگ چاہیں تو میری چرس کے بجائے انہیں استعمال کرلیں ۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ

مادر پدر آزادی ردّہے عبدیت کا
مساوات ردّ ہے نظامِ ہدایت و تزکیۂ نفس کا
عیش وآرائش کے لئے ترقی ردّ ہے دنیا کے دارالامتحان ہونے اور معرفت ِ خداوندی کے امکان کا
انسانیت ردّ ہے مسلمانیت کا
Plurality of goods ردّ ہے اسلام کے الحق ہونے کا
Tolerance ردّ ہے ایمان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا

ہمیں چاہئے کہ ہم چیزوں کی حقیقت کا علم حاصل کریں تاکہ آزادی، مساوات، Tolerance اور plurality of goods جیسے گمراہ کن تصورات کی نسبت اللہ اور اس کے رسول کی طرف کرنے سے بچ سکیں۔

 


جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ( قسط 1)

جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ (قسط 3)


1. لبرل سیکولرازم عیسائی سیکولرازم سے مختلف شے ہے۔ عیسائیت بھی ایک سیکولرازم قائم کرتی ہے جہاں وہ کہتی ہے کہ بادشاہ کا ایک علاقہ ہے اور پادری کا دوسرا، مگر وہ برداشت کے اس تصور کی بالکل قائل نہیں کہ اقدار کی ذاتی ترتیب غیر اہم ہے۔ اس کے مقابلے میں لبرل سرمایہ دارانہ سیکولرازم کے اندر ذاتی اقداری ترتیب کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رہتی، اسی لئے اس سیکولرازم کے اندر مذہب کا پنپنا ممکن نہیں رہتا اور نہ ہی یہ مذہب کے معاشرتی و ریاستی اظہار کو برداشت کرتی ہے۔ عیسائی سیکولرازم بادشاہ کو ایک محدود دائرہ فراہم کرتی ہے جس کے اندر اس کے اختیار کو تسلیم کیا جاتا تھا مگر بالادست تصور اتِ خیر اور عدل عیسائی تصوراتِ خیر اور عدل ہی تھے ۔
2. یہی وجہ ہے کہ جب شہر لاہور میں ہونے والی عورتوں کی حیا باختہ میرتھن ریس کے خلاف دینی تحریکوں اور علماء کرام نے احتجاج کیا تو جدیدیت کے دل دادہ صدر مشرف نے یہ کہا تھا کہ جو میرتھن نہیں دیکھنا چاہتے وہ اپنا ٹی وی بند کرلیں، مگر اُنہیں دوسروں پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں ۔
3. ٹولرنس کے فلسفے کے تحت قائم ہونے والے معاشروں میں کس کس قسم کے اعمال اور اظہار ذات کے کن کن ممکنہ طریقوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ چند ماہ قبل ہونے والے ان دو واقعات سے لگائیں۔ امریکہ میں ایک عورت کو چوبیس گھنٹے میں کئی سو مردوں کے ساتھ 'بدکاری کا عالمی ریکارڈ ' بنانے کے 'اعزاز' میں انعام سے نوازا گیا ۔ اسی طرح امریکہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مردوں اور عورتوں نے مکمل برہنہ حالت میں سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا۔ یہ ہے ٹولرنس کا اصل مفہوم اور پس پردہ کارفرما جذبہ، العیاذ باللہ من ذٰلک
4. مضمون کا یہ حصہ مولانا مودودی کے مضامین 'رواداری کا غیر اسلامی تصور' (تفہیمات جلد دوم ) اور 'اسلام میں مرتد کی سزا' سے ماخوذ ہے ۔
5. نہی عن المنکر کے ضمن میں درج ذیل احادیث نظریۂ رواداری کی حقیقت خوب واضح کرتی ہیں: (من رأیٰ منکم منکرًا فلیغیّرہ بیدہ فن لم یستطع فبلسانه فإن لم یستطع فبقلبه وذلك أضعف الإیمان) ( صحیح مسلم:49 )''تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت ) سے روک دے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے ایسا کردے، اگر اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ایسا کردے (یعنی تہ دل سے اسے برا جانے اور اس بات کا پختہ تہیہ رکھے کہ جب کبھی زبان اور ہاتھ سے اسے روکنے کی استطاعت آجائے گی تو روک دوں گا)، اور یہ (یعنی دل سے اسے ایسا کرنا) تو ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے۔''
تقریباًیہی بات زیادہ تاکیدی انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بھی ارشاد فرمائی : (ما من نبي بعثه اﷲ في أمة قبل لا کان له من أمته حواریون وأصحاب یأخذون بسنته ویقتدون بأمرہ،ثم إنها تخلف من بعدھم خلوف یقولون ما لا یفعلون ویفعلون ما لا یؤمرون،فمن جاھدھم بیدہ فھو مؤمن،ومن جاھدھم بلسانه فھو مؤمن،ومن جاھدھم بقلبه فھو مؤمن، ولیس وراء ذلك من الإیمان حبة خردل)
''مجھ سے پہلے اللہ نے جس اُمت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا تو اس کی اُمت میں ایسے حواری ہوتے تھے جو اس کی سنت کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے، پھر ان (حواریوں) کے بعد ان کے ناخلف جانشین آ جا تے تھے جو کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے، اور کرتے وہ کام تھے جن کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ تو جو کوئی ایسے (نا خلف ) لوگوں سے جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے پس وہ مؤمن ہے، اپنی زبان سے پس وہ مؤمن ہے، اپنے دل سے پس وہ مؤمن ہے، اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔''(صحیح مسلم) ان احادیث میں واضح طور پر ایسے شخص کے قلب سے ایمان کی نفی فرمائی گئی ہے جو دل سے بھی برائی کو برائی نہ سمجھتا ہو، اسے دیکھ کر اس کے دل میں تکلیف اور رنج نہ ہو اور اسے ختم کردینے کا ارادہداعیہ بھی نہ پیدا ہو ۔ اسی طرح ایک صحابی نے جب ایمان کی نشانی پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''جب نیکی کرنے سے تجھے خوشی ہو اور برائی سے غم و رنج ہو تو تو مؤمن ہے ۔''(صحیح مسلم:50)
6. جن مسلم مفکرین (مثلاً وحید الدین خان) کے خیال میں 'ہر حال میں قیام امن' اسلام کا اوّلین اُصول ہے وہ سرمایہ داری کو بطور ایک معاشرتی و ریاستی عمل اور ایک علمیت نہیں پہچانتے۔ ان مفکرین کے خیال میں حالت 'امن' گویا کسی نیوٹرل مقام کا نام ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں، کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ' 'امن کس اُصول کی بالادستی و غلبے پر قائم ہوا ہے؟''۔ یہ مفکرین اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ اگر واقعی ہر حال میں امن اسلام کا اوّلین اصول ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی درخواست کے باوجود صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دے کر مکہ پر حملہ کیوں کیا تھا؟
7. مغرب کا یہ دعویٰ کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لئے Tolerant ہوتی ہے، ایک جھوٹا دعویٰ ہے، کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں (اس نقطے پر ذرا تفصیلی گفتگو 'اسلام اور ہیومن رائٹس' کی بحث میں ہوگی)۔ مختصراً یہ کہ لبرل جمہوری ریاست بھی ایک مخصوص تصورِ خیر کو تمام دیگر تصوراتِ خیر پر بالاتر کرنے کی ہی کوشش کرتی ہے اور وہ تصورِ خیر 'آزادی' ہے، یعنی یہ تصور کہ تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں غیر جانبداری کا رویہ نہیںبلکہ بذاتِ خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبعیاتی تصور ہے کہ 'اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے۔' اور اسی تصورِ خیر کے تحفظ اور فروغ کی لبرل جمہوری دستوری ریاست پابند ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی tolerant ریاست ہوتی ہے، ایک فریب ہے، کیونکہ اپنے دائرئہ عمل میں یہ صرف اُنہیں تصورات خیر کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر (یعنی تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت ) سے متصادم نہ ہو، اور ایسے تمام تصوراتِ خیر جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں، ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے جس کی مثال طالبان کی حکومت پر بمباری سے عین واضح ہے۔ درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی dogmatic (راسخ العقیدہ ) اور intolerant (ناروادار) ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست، کیونکہ دونوں ہی اپنے تصوراتِ خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں۔ خوب یاد رہے کہ تمام تصوراتِ خیر کی لایعنیت کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی (سرمائے کی بالادستی) بطورِ اصل خیر کا اِقرار ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادئہ انسانی یعنی اس کے حق کی بالادستی تمام دیگر تصوراتِ خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے اظہار کو 'بطور ایک حق ' کے پریکٹس (Practice) تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیگر تمام تصوراتِ خیر اور زندگی گزارنے کے دوسرے طریقوں پر غالب کرنے کی بات نہیں کرسکتے کہ ایسا کرنا ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔