غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت (1)

شیطان اس حقیقت سے خود واقف ہے کہ وہ اپنی دعوتِ ضلالت کو ضلالت کے نام سے اگر پیش کرے گا تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگی، چنانچہ وہ ہمیشہ یہ حربہ اختیارکرتا رہا ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت کے روپ میں پیش کرے۔ جھوٹ کو لباسِ صدق پہنائے، بے دینی کو دین کے بھیس میں سامنے لائے اور خلقِ خداکو دھوکہ دینے کے لئے فریب ِکار کی بجائے ناصحِ درد مند کا بہروپ اپنائے۔ اگر وہ فساد کو صلاح کانقاب نہ اوڑھے اور خود بے نقاب ہوکر سامنے آئے تو کوئی اس کے فریب میں نہ آئے۔ وہ اپنی شیطنت کو پارسائیت کے پردے میں پیش کرتاہے اور یوں وہ ابناے آدم کو اپنی مفاد پرستیوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔ اس تکنیک سے وہ بنی نوع انسان کو جس تباہی و بربادی سے ہم کنار کرتا ہے اس کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان تو رہے ایک طرف، ہٹلر اور امریکی بُش کی تباہیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں ۔

نہ صرف تاریخ انسانیت بلکہ اسلام کی سرگذشت بھی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہر عصر و مصر میں ملحد اور بے دین لوگوں نے ہدایت کے نام پر ضلالت کو، اسلام کے نام پر بے دینی کو، سچ کے نام پرجھوٹ کو اورقرآن کے نام پرخلافِ قرآن افکار و نظریات کو پھیلانے کی مذموم کوششیں کی ہیں ۔ اِن ہی کوششوں میں ایک کوشش وہ بھی ہے جو ہمارے دور میں مغربیت کی ذہنی غلامی اور اشتراکیت کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر چوہدری غلام احمد پرویز نے قرآنِ کریم کے نام پر دامِ ہم رنگ زمین بچھا کر کی ہے، اس کے نتیجہ میں مغربی معاشرت کے عادات و اطوارکو، اشتراکیت کے معاشی نظام کے ساتھ ملا کر اس قرآن کے نام پر پیش کیا ہے جس کے بغیر ہی ان سب اُمور کو عصر حاضر کی گمراہ قومیں پہلے سے اپنائے ہوئے تھیں ۔

جناب غلام احمد پرویز تہذیب ِغالب کے یکے از خدامِ بے دام تھے یا زر خرید غلام تھے؟ اسے ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں جو عالم الغیب والشہادہ اور علیم بذات الصدور ہے۔ لیکن یہ بات بہرحال واضح ہے کہ جو کام مغربی ممالک کے ملحد فلاسفہ اوربے دین دانشور،مسلم معاشروں میں براہِ راست خود نہیں کرسکتے تھے، وہ کام ہمارے 'مفکر ِقرآن'،'قرآنی دانشور' بن کرکرتے رہے ہیں ۔ ان کی پچاس سالہ 'قرآنی خدمات' کا مغز اور خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زبان اپنی استعمال کرتے تھے مگر بولی غیروں کی بولتے تھے۔ دماغ تو اُن کا اپنا تھا مگر اس میں فکر غیروں کی تھی۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے استعمال کرتے تھے مگر ان کے پیکروں میں تصورات اشتراکیت اور مغربی معاشرت سے مستعار و مستورد تھے۔چنانچہ وہ اپنی جن 'قرآنی خدمات' پرگولڈن جوبلی مناکر سطحِ ارض سے بطن زمین میں منتقل ہوئے، ان پر یہودی علماء و پیشوا، نصرانی احبار و رہبان، الحاد و دہریت کے پُشتی بان، زندقہ و سیکولرزم کے علمبردار، سب خوش وخرم ہوکر ان کی تعریف و تحسین میں رطب اللسان ہوکر اُنہیں ہدیۂ تبریک اور گل ہائے تہنیت پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ عالم اسلام کے علماء بیک زبان ہوکر ان پر فتواے کفر عائد کرتے ہیں ۔

'مفکر ِقرآن' کی تعلّی آمیز انانیت
'مفکر ِقرآن' صاحب جس قدر قرآن، قرآن کی رٹ لگایا کرتے تھے، اُسی قدر وہ قرآن سے گریزاں اور کتاب اللہ سے کنارہ کش تھے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اورجاہل قرار دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انانیت کے ساتویں آسمان پر محو ِپرواز رہتے ہوئے وہ بلااستثنا تمام علماے کرام کے متعلق یہ اعلان کیاکرتے تھے :
''حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں ۔'' 1

ایک اور مقام پرعلما کے خلاف بڑا تحقیر آمیز رویہ اپناتے ہوئے، لیکن غرور و تکبر کی انتہائی بلندیوں پر براجمان ہوکر یہ فتویٰ داغتے ہیں :
''ہمارا مُلّاطلوعِ اسلام میں پیش کردہ دعوت کاجواب دلائل و براہین سے تو دے نہیں سکتا (اس لئے کہ یہ دعوت قرآن کی دعوت ہے او رمُلّا بے چارہ قرآنی نور سے محروم ہوتاہے۔)''2

ایک اورموقع پر اُسی اہانت آمیز لب و لہجہ میں جو علما کے خلاف ان کامستقل وطیرہ تھا، یہ فرماتے ہیں :
''مُلّا کے پاس نہ علم ہوتاہے، نہ بصیرت، نہ دلائل ہوتے ہیں ، نہ براہین۔'' 3

اورمولانامودودی جن کی گھٹیا مخالفت میں 'مفکر ِقرآن' صاحب مرتے دم تک پرویزی حیلے اختیارکرتے رہے ہیں ، یہ فتویٰ ان کے متعلق داغتے ہیں ۔

ایک اور مقام پر مولانا مودودی کے خلاف یہ فتویٰ بھی رسید کیا گیاہے :
''ہم مودودی کو نہ دین کا عالم مانتے ہیں ، نہ کوئی مفکر۔''4

چنانچہ 'مفکر ِقرآن' صاحب اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں علماء کرام پر 'قدامت پرستی' کالیبل لگاکر اپنے متعلق تعلّی آمیز خود ستائی کا اظہار بایں الفاظ کیا کرتے تھے :
''جو کچھ میں قرآن سے پیش کرتاہوں ، اس کی تردید کے لئے چونکہ ہمارے قدامت پرست طبقہ کے پاس دلائل و براہین نہیں ہوتیں ، اس لئے وہ خود بھی مشتعل ہوتاہے اور عوام کو بھی مشتعل کرتاہے۔'' 5

أعلم الناس بالقرآن کی پندار افزائی
'مفکر ِقرآن' صاحب خود أعلم الناس بالقرآن کے پندار میں مبتلاہوکر یہی پندار اپنے نیاز مندوں میں بھی پیدا کیا کرتے تھے اور اُنہیں اس زعم میں مبتلا کیا کرتے تھے کہ تیرہ چودہ صدیوں بعد جو قرآنی آواز طلوعِ اسلام کے ذریعہ بلند ہورہی ہے، آپ لوگ ہی اس کے واحد امین ہیں ، باقی ساری دنیا اس آواز کا گلاگھونٹتی چلی آرہی ہے۔

تیرہ سوسال کے بعد پھرسے خالص قرآن کی آواز طلوعِ اسلام کی وساطت سے بلند ہونی شروع ہوئی ہے۔ 6
اس سرزمین سے تیرہ سو سال کے بعد پہلی بار قرآن کی آواز اُٹھی ہے او رقدرت کو یہ منظور ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد ایک بار پھر قرآنی نظام اپنی عملی شکل میں سامنے آئے۔ 7
اس وقت ساری دنیامیں قرآنِ خالص کی آواز صرف آپ کی اس ننھی سی جماعت کی طرف سے بلند ہورہی ہے۔ 8
صدرِاوّل کے بعد ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ قرآنی نظام کی آواز بلند ہورہی ہے۔ 9

پورے عالم اسلام میں ادارہ طلوعِ اسلام ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے چاروں طرف سے چھائی ہوئی مایوسیوں میں مسلمانوں کو پکارا اور بتایاکہ ان کی ذلت ورسوائی کاواحد سبب یہ ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی کتاب اور اس عطا فرمودہ روشنی سے دور جا پڑے ہیں ۔ مسلمانوں کی باز آفرینی کے لئے یہی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جس طرح خدا کی دی ہوئی روشنی نے اس قوم کو آج سے چودہ سو سال پہلے ترقی اور عروج کے بامِ ثریاتک پہنچا دیاتھا۔ یہ قوم پھر اُسی مینارۂ نور سے کسب ِضیا سے کرے اوراپنی زندگی کو اسی قالب میں ڈھال لے ۔ادارہ طلوع اسلام قریب تیس سال سے قرآن کریم کی آواز کو بلند کررہاہے۔ 10

چنانچہ ایک مقام پر 'مفکر ِقرآن' اپنے منہ آپ میاں مٹھو بنتے ہوئے، اپنے حلقہ احباب کو یہ باورکرواتے ہیں کہ
6۔ اس وقت ملک میں خالص فکری تحریک صرف آپ کی ہے، باقی سب وقتی ہنگامہ آرائیاں ہیں ، جن میں اسلام کا نام لیاجاتاہے، جیسے خطوں کی پیشانی پر 786 لکھ دیا جاتا ہے، لیکن نفس مضمون سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ 11
7۔ اس وقت ساری دنیا میں صرف آپ کی یہ مختصر سی جماعت ہے، جوپیغام خداوندی کی مئے بے درد و صاف کو شفاف اوربے رنگ پیمانوں میں پیش کررہی ہے۔ 12

ایک اور مقام پر خود نمائی اور خود ستائی کے ساتویں آسمان پرمحو ِپروازکرتے ہوئے 'مفکر قرآن' یوں تسلی آمیز انداز میں فرماتے ہیں :
''ہمارے ہاں ، نہ کوئی ایسا صاحب ِفکر نکلا جو یہ سوچ سکے کہ قوم کی یہ حالت کیوں ہوگئی اورنہ کوئی ایسا صاحب ِعمل جو اس بے راہ ہجوم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راستہ پرلگا دے۔ سارے ملک میں لے دے کے، ایک طلوعِ اسلام کی آواز تھی (اور ہے) جو صحرا میں کھوئے ہوئے اس کارواں کے منتشر افراد کے لئے بانگ ِدرا تھی۔''13

چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 'طلوعِ اسلام' نے بھی اپنے قارئین کو اس فریب ِیقین میں مبتلا کیا کہ ''آؤ لوگو! یہیں نورِ خدا پاؤ گے!''
''اس وقت ،ملک جن ہنگامی حالات سے دوچار ہے، ان میں قوم کوقرآنی راہنمائی کی اشد ضرورت ہے او ریہ راہنمائی اُسے طلوعِ اسلام کے علاوہ اور کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔ ''14

راہنمائی قرآن کی یا تہذیب ِمغرب کی؟
حالانکہ جس چیز کو 'مفکر ِقرآن' اور طلوعِ اسلام، قرآنی راہنمائی قرار دیتے ہیں وہ قطعاً اور ہرگز ہرگز قرآنی راہنمائی نہیں ہے، بلکہ وہ صرف مارکسی اشتراکیت ہے جس پر قرآنی ٹھپہ لگا کرمغربی معاشرت کے عادات و اطوار کے ساتھ اُسی طرح ملاکر پیش کیاگیاہے، جس طرح اکبر بادشاہ نے مذاہب ِشتیّٰ کے بے جوڑ عناصر کوملا کر'دین الٰہی' بناکر پیش کیاتھا۔

ایمان بالقرآن کے دعاوی پرویز
جہاں تک 'مفکر قرآن' کے ایمان بالقرآن کا تعلق ہے تو اس کی اصل حقیقت ذلك قولھم بأفواھھم سے زیادہ نہیں ہے،وہ اگرچہ اپنے ایمان بالقرآن کاڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے اور قرآنِ کریم ہی کو واحداتھارٹی اور سند قرار دیا کرتے تھے، لیکن عملاً اُن کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات ہی تھیں ۔ نظریاتی اور قولی و قلمی حیثیت سے ایمان بالقرآن کی بابت اُن کے بلند بانگ دعاوی کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے:
1۔ صحت و سقم کامعیار میزانِ قرآنی ہے نہ میرا دعویٰ ، نہ غیر کی تردید۔ اس لئے اگر کوئی میری گذارشات کو باطل ٹھہراتا ہے تو اُسے کہو کہ اس کے لئے قرآن کی بارگاہ سے سند لائے۔15
2۔ ہمارے نزدیک دین کامعیار فقط کتاب اللہ ہے،خواہ اس کی تائید میں ہزار حدیثیں بھی ایسی کیوں نہ پیش کردی جائیں ، جن کے راویوں میں جبرائیل و میکائیل تک کا بھی نام شامل کردیاگیا ہو۔16
3۔ صحیح اور غلط کے پرکھنے کا ایک ہی معیار ہے یعنی یہ کہ اس کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے۔ جیسے قرآن صحیح قرار دے، وہ صحیح ہے خواہ اُسے ایک آدمی بھی صحیح نہ مانتا ہو، اور جسے وہ غلط قرار دے، وہ غلط ہے خواہ اُسے ساری دنیا مسلمہ کی حیثیت سے جانتی ہو۔ 17
4۔ قانون کے صحیح ہونے کی سند نہ زید ہے نہ بکر، نہ اسلاف ہیں نہ اخلاف۔ اس کی سند ہے اللہ کی کتاب جو اس کے مطابق ہے وہ صحیح ہے۔ جو اس کے خلاف ہے وہ غلط ہے خواہ اسے کسی کی بدنیتی یانادانی، کسی بڑی سے بڑی ہستی کی طرف بھی منسوب کیوں نہ کردے۔ 18
5۔ سوال یہ ہے کہ کسی چیز کے 'درحقیقت صحیح' ہونے کا معیار کیاہے؟ قرآن کی رُو سے وہ معیار یہ ہے کہ جو بات کتابِ خداوندی کے مطابق ہو، وہ صحیح ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ غلط ہے۔ 19
6۔ کسی بات کے لئے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کے لئے کسی انسان کی سند کافی نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے سند صرف خدا کی کتاب کی ہونی چاہئے۔20
7۔ ہمارے پاس خدا کی کتاب موجود ہے، جس کی روشنی میں ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ جو کچھ کسی اور انسان نے کہا ہے (خواہ وہ اس وقت موجود ہے یا ہم سے پہلے گزر چکا ہے) اسے پرکھے۔اگر وہ اس کتاب کے مطابق ہے تو اسے صحیح تسلیم کرلیاجائے، اگر اس کے خلاف ہے تو مسترد کردیاجائے۔ 21
8۔ طلوعِ اسلام کا مسلک یہ ہے کہ حق اور باطل کا معیار قرآن ہے۔ہر وہ بات جو قرآن کے مطابق ہے، صحیح ہے۔22
9۔ دین کے معاملہ میں حق و باطل اور صحیح و غلط کا معیار قرآنِ کریم ہے۔23
10۔ ہمارے سامنے ہدایت و ضلالت کامعیار قرآنِ مجیدہے۔ 24

تِلـــــك عشـــــرة کاملـــــــة !!


'مفکر ِقرآن' کے وسیع لٹریچر میں سے مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہ وہ چند اقتباسات ہیں جن میں فقط قرآن ہی کے واحد معیار، اسی کے تنہا سند ہونے اور اسی کے پیمانۂ ردّ و قبول اور اسی کے کسوٹی ٔ حق و باطل ہونے اور اسی کے فرقانِ صحت و سقم ہونے اور اسی کے میزانِ ہدایت و ضلالت ہونے کے خوش کن دعاوی مرقوم ہیں ۔ ان 'خوش کن دعاوی'کی حیثیت دراصل کسی بد دیانت اور فریب کار تاجر کی دکان میں موجود اُن اصلی اورکھری چند اشیا کی سی ہے جنہیں وہ اپنے جعلی اور کھوٹے سروسامان کی بہتات میں مصلحتاً رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ اعلانات 'مفکر ِقرآن' کے فی الواقع ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے ہی کے کام آتے ہیں ۔

دنیا میں ہر شخص اچھے سے اچھا خیال، بہتر سے بہتر نظریہ، خوب سے خوب تر فکر،مستحسن سے مستحسن تر فلسفہ ہر وقت پیش کرسکتا ہے، لیکن زمانے کا بے رحم صراف، ایسے کسی خیال، نظریے، فکر یافلسفے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا جو عمل کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا۔ ہمارے 'مفکر قرآن' کے یہ سب خوش کن دعاوی اس وقت بے وقعت اور بے وزن ہوکر رہ جاتے ہیں جب وہ مسائل حیات کے حل کے لئے قرآنِ کریم کی بجائے مغربی تحقیقات کی طرف یہ کہتے ہوئے رجوع فرماتے ہیں کہ اُمت ِمسلمہ تو تقلیدی جمود کا شکار ہے جسے دیکھ کر اُن جیسے 'نابغہ عصر' اور 'مجتہد ِمطلق' کو بڑی کوفت ہوتی ہے اور پھر یہی کوفت ان الفاظ کا روپ دھار لیتی ہے:
''سلیم ! تمہیں اپنا سینہ چیر کر درد و کرب کی ان تلاطم خیزیوں کو کس طرح دکھاؤں جنہوں نے مجھ پر راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کررکھاہے۔ سلیم !
میرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
تم نہیں دیکھ سکتے کہ میں پاکستان کے وسیع وعریض خطہ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو عام طور پر یہ دیکھتا ہوں کہ
نہ کہیں لذتِ کردار، نہ افکارِ عمیقi
اور ایک ٹھنڈی سانس سے یہ کہہ کرخاموش ہوجاتا ہوں کہ
آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق25

اطاعت ِ قرآن کی بجائے تقلید ِ مغرب
چنانچہ ہمارے'مفکرقرآن' صاحب جو اُمت ِمسلمہ کو کیفیت ِجمود اور حالت ِتقلید میں دیکھ کر ٹھنڈی سانس سے یہ کہہ کرخاموش ہوجایا کرتے تھے کہ ''آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق''، وہ تفسیر قرآن کی کوہ کنی میں ''اپنے دیدۂ تر کی بے خوابیوں کو''، ''اپنے پوشیدہ دل کی بے تابیوں '' کو ، ''اپنے نالۂ نیم شب کے نیاز'' کو اور اپنی ''خلوت و انجمن کے گداز'' کو وقف ِراہِ تقلید مغرب کئے ہوئے تھے۔ کیونکہ مغرب میں 'زوالِ تحقیق' کی بجائے 'عروجِ تقلید' موجود ہے۔ وہ قرآنی حقائق کی بجائے، تحقیقاتِ مغرب کو حتمی، قطعی اور یقینی قراردیا کرتے تھے۔ وہ 'ابہاماتِ قرآن' کو تہذیب ِغالب کے انکشافات و اکتشافات کی روشنی میں کھولا کرتے تھے، جہاں کہیں وہ قرآنی حقائق اور مغربی تحقیقات میں ٹکراؤ ہوتاتھا، وہ وہاں تحقیقاتِ مغرب کو شرفِ تقدم عطا کرکے قرآنِ کریم کو اُن کے مطابق ڈھال دینے پر جت جایا کرتے تھے تاکہ خدا کی کتاب 'جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ' ہوجائے اور کوئی نہ کہہ سکے کہ از منۂ مظلمہ میں نازل ہونے والی یہ کتاب آج کے 'روشن دور' کی 'علم و بصیرت' کی کسوٹی پر پوری نہیں اُترتی۔

اس امر کے اثبات میں اگرچہ متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن مقالے کی تنگ دامنی کے باعث چند مثالوں پراکتفا کیاجاتاہے :

پہلی مثال: انسانوں میں تصورِ خدا کیسے پیداہوا؟
بنی نوع انسان میں خدا کا تصور،عقیدۂ اُلوہیت او رایمان باللہ کا نظریہ کیسے پیدا ہوا؟
اس سوال کاواضح اور اطمینان بخش جواب ازروے قرآن یہ ہے کہ ایسا وحی ٔ خداوندی کی بنا پرہوا۔ لیکن ہمارے 'مفکر ِقرآن' کی عقل و دانش اور 'قرآنی بصیرت' اس کا کوئی او رہی جواب فراہم کرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے یہ جواب:

''جب انسانی شعور نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو عجیب دنیامیں پایا۔ سرپر آتش باری کرنے والا ایک عظیم اورمہیب گولہ، چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ، ادھر اُدھر ساحل ناآشنا سمندر اور اس کی خوفناک تلاطم انگیزیاں ، یہاں وہاں کف بردہاں اور سیلاب درآغوش دریاؤں کی خوف سامانیاں ، میلوں تک ڈراؤنے جنگل اور ان میں بڑے بڑے خطرناک درندے اور اژدہے، کبھی بادل کی لرزہ خیز گرج، کبھی زلزلوں کی تباہ کاریوں کاہجوم، شش جہات میں اس قسم کی خوفناک بلاؤں کا ہجوم و اژدہام اور ان کے اندر گھرا ہوابے یارو مددگار اور بے سروسامان تنہا ابن آدم۔آپ سوچئے کہ ان حالات میں خارجی کائنات کے متعلق اس کاردّعمل اس کے سوا کیاہوسکتا تھا کہ جو بلا سامنے آئے، یہ گڑگڑانا شروع کردے۔جہاں کوئی خطرہ آنکھ دکھائے یہ اس کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔اس طرح فطرت کی مختلف قوتیں اس کا 'اِلٰہ' او ریہ اس کا پرستار بن گیا۔ چاند، سورج، ستارے، گرج، کڑک، بارش، آندھی، آگ، دریا،سانپ، شیر، حتیٰ کہ وبائی امراض، سب دیوی دیوتا تصور کرلئے گئے اور ان کی بارگاہ میں نذونیاز، منت و سماجت اور مدح و ستائش سے اُنہیں خوش رکھنے اور راضی رکھنے کی تدابیر اختیار کی جانے لگیں ۔ یہ تھا(اُس ماحول میں ) انسان کااوّلین ردّعمل۔ خارجی کائنات کے متعلق رفتہ رفتہ اسی ردّعمل نے مذہب کی شکل اختیار کرلی اور آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی عقیدہ یا تصور مذہب کی شکل اختیار کرلے تو حالات کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں اس میں تبدیلی نہیں آیا کرتی، چنانچہ دنیا کے بیشتر مذاہب کائنات کے متعلق انسان کے اس اوّلین ردّعمل کے مظاہر ہیں ۔ ''26

'مفکرقرآن' کا قطعی خلافِ قرآن فلسفہ
'مفکر ِقرآن'کایہ اقتباس اس امر کو واضح کردیتاہے کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا عقیدہ توحید سے نہیں بلکہ نظریۂ شرک سے کی تھی۔ یہ نظریہ دراصل دین بیزار، اسلام دشمن، توحید مخالف اور دہریت پسندقوموں کافلسفہ ہے جسے اُنہوں نے 'خدا سے بیزارعقل' کی کسوٹی پرپرکھ کر پیش کیا ہے اور ہمارے'مفکر ِقرآن' نے اپنی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کی بنا پر اسے من وعن قبول کرلیاہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے سفر حیات کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں عقیدۂ توحیدکی روشنی میں کی تھی نہ کہ کفر و شرک کی ظلمت میں ۔ انسان کو پیداکرنے کے بعد اس کی رہنمائی کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھاہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں بکثرت مقامات پرخداے قدوس کی اس ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً :
وَعَلَى ٱللَّهِ قَصْدُ ٱلسَّبِيلِ وَمِنْهَا جَآئِرٌ‌...﴿٩﴾...سورة النحل
''اور راہِ راست دکھانا اللہ ہی کے ذمہ ہے جب کہ ٹیڑھے راستے میں موجود ہیں ۔''


إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ ...﴿١٢﴾...سورة الیل
''اور ہم پر ہی یہ لازم ہے کہ ہم رہنمائی کریں ۔''


اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا انسان جو پیدا کیا تو اسے علم وحی سے نوازا۔ مرتبۂ نبوت عطافرمایاتاکہ وہ علم کی روشنی میں ، نہ کہ جہالت و بے خبری کی تاریکی میں ، اپنے سفر حیات کاآغاز کرے۔

تنقید بر 'دلائل پرویز'
اپنے 'مفکر قرآن' کے وہ دلائل جو اُنہوں نے'خارجی کائنات'کے متعلق انسان کے اوّلین ردّعمل کے ضمن میں پیش کئے ہیں تو وہ دراصل 'دلائل' نہیں بلکہ دانشورانِ مغرب کی چچوری ہوئی وہ ہڈیاں ہیں جنہیں منکرین حدیث اپنے منہ سے اُگل رہے ہیں اور حیرت بالاے حیرت یہ امر ہے کہ تہذیب ِمغرب کے سحر میں گرفتار یہ غلام فطرت لوگ اپنی اسلامی حس اور تنقیدی قوت کو سرے سے ہی کھو چکے ہیں یہاں تک کہ مغرب سے جو کچھ بھی آتا ہے، اُسے وحی سمجھ کر من وعن قبول کرلیا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال اسی زیر بحث معاملہ میں دیکھی جاسکتی ہے کہ انسانی دنیامیں خدا اورمذہب کے تصور کی پیدائش میں کس طرح فلاسفۂ مغرب کی اندھی تقلید کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو محض خوف کی 'پیدوار' قرار دیا گیا ہے۔نیز یہ کہ کاروانِ انسانیت کے سفر کاآغاز علم وحی کی روشنی میں نہیں بلکہ جہل و بے علمی کی تاریکی میں ہواتھا اورنہیں معلوم کہ سفر ارتقا کی کتنی منزلیں طے کر ڈالنے کے بعد اور مدتِ دراز کی کشتی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس کارواں کو توحید و اسلام کی روشنی دکھائی دی۔ یہ سب کچھ دراصل اسلامی فلسفۂ تاریخ سے قطعی جہالت و ناواقفیت کانتیجہ ہے اور ساتھ ہی فلسفۂ مغرب سے شدید فکری مغلوبیت اور ذہنی مرعوبیت کا بھی۔ بیدار مغز مسلم مفکرین نے جنہیں تہذیب ِمغرب کی چمک دمک متاثر نہ کرسکی، اپنی جاندار تنقید سے مغربی فلسفہ کے تاروپود کو بکھیرکر رکھ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے درج ذیل اقتباس... مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
''یہ بات کہ مذہب کا آغاز اَن دیکھی قوتوں کے خوف سے ہوا ہے او ریہی جذبہ انسان کے جذبات میں اوّلین اور قدیم جذبہ ہے، بالکل بے سروپا ہے۔انسانوں میں جو خوف پایا جاتاہے اس کی اصل حقیقت، زوالِ نعمت کااندیشہ ہے۔خود کاتجزیہ کیجئے تو صاف نظر آئے گا کہ خوف نام ہے اس چیز کاکہ آپ کو کسی ایسی چیز کے چھن جانے یااُس سے محروم ہوجانے کا اندیشہ یا خطرہ پیداہوگیا ہے جو آپ کو حاصل بھی ہے اور عزیز بھی۔مثلاً انسان کو اپنی زندگی عزیز ہے، زندگی کا سروسامان عزیز ہے، اپنے بیوی بچے عزیز ہیں ۔ اس لئے وہ ان چیزوں کی طرف سے اندیشہ میں ہوتا ہے کہ کہیں یہ چیزیں چھن نہ جائیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کاشعور بھی لازمی ہو او رپھر اس کی شکرگزاری کا جذبہ پیداہونا بھی ناگزیر ہوا۔

اس نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جو چیزیں انسان کے اندر خوف کی حالت پیدا کرتی ہیں ، وہ دنیاکے عام واقعات میں سے نہیں ۔ زلزلے روز نہیں آیاکرتے، آتش فشاں پہاڑ روز نہیں پھٹتے، بجلیاں روز نہیں کڑکتیں ،وبائیں روز نہیں پھوٹتیں اور طوفان کا شور بھی کوئی روزمرہ کاواقعہ نہیں ۔ اس کے برعکس تارے روز چمکتے ہیں ، سورج روز چمکتا ہے، چاند روز چمکتا ہے اور اپنی روپہلی چاندنی کی چادر روز دشت و جبل میں بچھاتا ہے۔ آسمان کی نیلگونی ہر لمحہ باصرہ نوازی کرتی ہے۔ ابر ِکرم کی تردستیاں اور درختوں کی ثمر باریاں ہرموسم میں موجود رہتی ہیں ۔ پھر کس قدر حریت کی بات ہے کہ مظاہر فطرت کی گاہ گاہ کی گھرکیاں اور دھمکیاں تو انسان کو اس درجہ مرعوب کردیں کہ وہ ان کی پوجا کرنے لگ جائے، لیکن منعم غیب کی ساری فیاضیاں بالکل بے اثر ہوکر رہ جائیں اور انسان میں شکر و سپاس کا کوئی ولولہ پیدانہ کریں ۔ اس لئے انسان کے مشاہدۂ کائنات اور مشاہدۂ النفس کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں اور رحمتوں کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا اور پھر اس جذبہ کی تحریک سے وہ اُس کی بندگی کی طرف مائل ہوا، گویا دین کاآغاز توحید سے ہوا،اس میں کجی پیدا کرکے شرک کی راہ انسان نے بعد میں اختیار کی۔''27

ہمارے 'مفکر قرآن' چونکہ ذہنا ًاور کلیا ً فلسفہ سے مرعوب و مسحور تھے۔ اس لئے وہ مقہور و مجبور تھے کہ اس سوال کے جواب میں کہ بنی نوع انسان میں خدا کاتصور کیسے پیداہوا؟ وہی فلسفہ اپنائیں جس کی روشنی میں اہل مغرب کے ہاں انسان کاسفر حیات(توحید کی روشنی میں نہیں بلکہ)شرک و کفر کی تاریکیوں میں ہواتھا او رپھر اسی فلسفۂ باطلہ کی لاج رکھتے ہوئے، اُنہوں نے اپنی فکری مرعوبیت اورذ ہنی غلامی کاکھلا کھلا ثبوت فراہم کرڈالا ہے۔ یہ طرزِعمل خود اس حقیقت کو بے نقاب کردیتا ہے کہ 'مفکر ِقرآن' کس طرح قرآن کانام لے کر، فکر ِفرنگ اور فلسفۂ مغرب کی پیروی کیا کرتے تھے۔

عمر بھر کے مطالعۂ قرآن کے بعد بھی قرآن سے بے خبری
'مفکر ِقرآن' اپنی ستائش آپ کرتے ہوئے اکثر اپنی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و ریسرچ کاڈھنڈورا پیٹاکرتے تھے، مثلاً
''میں ، اے برادرانِ گرامی قدر! قرآنِ کریم کاطالب علم ہوں ، میں نے اپنی عمر کابیشتر حصہ اس کتابِ عظیم کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق اسلام کے بنیادی تصورات کامفہوم متعین کرنے میں صرف کیا ہے اورمیری اس کوشش کاماحصل،میری تصانیف کے اَوراق میں محفوظ ہے۔''28

''مہ و سال کے شمارسے میں 9جولائی 1978ء کو اپنی عمر رواں کے پچھتّر سال پورے کررہاہوں ۔ یہ کوئی ایسا اہم واقعہ نہیں تھا جس کا خصوصیت کے ساتھ طلوعِ اسلام کے صفحات میں ذکر کیا جاتا۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی موجودہ قرآنی فکر اور اس کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں پچاس سال پورے کررہاہوں ۔ عام اصطلاح میں اسے 'گولڈن جوبلی' کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ پچاس سالہ 'جوبلی' دنیا کے ہر متاع سے زیادہ گراں مہا اور اس کی یاد، سب سے زیادہ وجہ ِنشاطِ روح ہے اور نشاط و انبساط کے یہی وہ احساسات ہیں جن میں اپنے بے شمار دیدہ ونادیدہ اَحباب و رفقا اور متفقین کو شریک کرنے کے لئے میں نے اس کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے۔ میں جب ساحلِ عمر کے ریگ ِرواں پر ان پچاس سالہ نقوش کو مرتسم دیکھتا ہوں تو حیرت میں جو متن اپنے سامنے رکھا تھا، اس میں مجھے اس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس سے میرا سرنیاز اس بارگاہِ عتبۂ عالیہ پر بے ساختہ جھک جاتا ہے جس کی عطا کردہ راہنمائی کے بغیر اس کامیابی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہوسکتا تھا اورحیرت یہ کہ تمام دنیاوی علائق کے باوجود (جن میں کم وبیش تیس سال ملازمت کے بھی شامل ہیں ) میں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں تن تنہا یہ طویل مسافت کیسے طے کرلی۔ ''29

بلاشبہ 'مفکر ِقرآن' نے قرآنی مطالعہ و تحقیق میں پچاس سال صرف کرڈالے، لیکن اس کانتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ وہ لغت ہائے حجازی کے قارون تو بن گئے، لیکن قرآن کی روح اُن پر بے نقاب نہ ہوسکی، کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ان کی آنکھوں پرایک مخصوص رنگ کی عینک چڑھی ہوئی تھی، اوردورانِ مطالعہ انہیں ہر چیز اُسی عینک ہی کے رنگ میں دکھائی دیتی رہی اور قرآنِ کریم کی وہ واضح آیات جو فکر ِمغرب کی تردید کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہیں کہ کاروانِ انسانیت نے اپنا سفر، کفر وشرک اور جہالت و بے علمی کی تاریکیوں میں نہیں بلکہ عقیدئہ توحید اور علم وحی کی روشنی میں شروع کیاتھا، اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں ۔صرف دو آیات ملاحظہ فرمائیے :

وَمَا كَانَ ٱلنَّاسُ إِلَّآ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً فَٱخْتَلَفُوا...﴿١٩﴾...سورة یونس
''اور لوگ تو ایک ہی اُمت تھے پھر اُنہوں نے اختلاف کیا۔''

كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ...﴿٢١٣﴾...
''(ابتدا میں )سب کچھ لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھریہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو مبشر اورمنذر تھے۔''

یہ دونوں آیات فکر ِپرویز کی تردیدکرتی ہیں جو اُنہوں نے 'مفکر ِقرآن' کی حیثیت سے مغرب سے اپنی ذہنی مرعوبیت کے باعث اپنارکھاتھا۔ پہلی آیت کے تحت مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
''ضمناً اس سے جدید فلسفیوں کے اس نظریہ کی بھی تردید ہوگئی کہ انسان نے دین کاآغاز شرک سے کیا، پھر درجہ بدرجہ اِرتقا کرتے ہوئے توحید تک پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ کہتا ہے کہ خدا نے شروع ہی سے انسان کو توحیدکی تعلیم دی،لیکن گمراہوں نے اس میں اختلاف پیدا کرکے فتنے کھڑے کردیئے۔ہم نے فلسفۂ جدید کے اس باطل نظریہ کی تردید اپنی کتاب'حقیقت ِتوحید' میں تفصیل سے کی ہے۔''30

اور دوسری آیت کے تحت مولانا عبدالماجد دریابادی فرماتے ہیں :
''آیت نے ایک بڑی گرہ کھول دی۔ فرنگی 'محققین' حسب ِمعمول مدتوں اس باب میں بھٹکتے رہے اور ان میں اکثر یہی کہے گئے کہ انسان کا ابتدائی مذہب شرک یاتعددِ آلہہ تھا۔ شروع شروع میں وہ ایک ایک چیز کو خدا سمجھتا تھا اور عقیدۂ توحید تک نسلی انسانی بہت سی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور عقلی اور دماغی ارتقا کے بڑے طویل سفر کے بعد پہنچی ہے۔ قرآنِ مجیدنے اس خرافی نظریہ کوٹھکرا کر صاف اعلان کردیا کہ نسلِ انسانی آغازِ فطرت میں دینی حیثیت سے ایک اور واحد تھی۔ اس میں 'مذہب' و 'اَدیان' کے یہ تفرقے کچھ بھی نہ تھے۔امت ِواحدہ میں جس وحدت کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ اس سے دینی و اعتقادی وحدت ہی مراد ہے:


کانوا علی شریعة من الحق31
إنھم کانوا علی دین واحد وھو الإیمان والحق ھذا قول أکثر المحققین32


صدیوں کی اُلٹ پھیر اور قیل و قال کے بعد اب آخری فیصلہ بڑے بڑے ماہرین اَثریات، انسانیات و اجتماعیات (سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ) کا یہی ہے کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحیدتھا۔ ''33

'مفکر ِقرآن' کی اندھی تقلیدمغرب
لیجئے، اب تو مغربی مفکرین بھی اپنی تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحید تھا۔لیکن ہمارے 'مفکر ِقرآن' ماڈرن ہوکر بھی ابھی تک اس مسئلہ میں 'قدامت پرستی' پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ دراصل 'مفکر ِقرآن' صاحب یہاں کے اس جدید طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ذہنوں پر مغرب کی اندھی پیروی کے باعث ایساجمود و تعطل طاری ہوگیا ہے کہ اگروہاں سے کوئی غلط بات بھی صادر ہوجائے تو اُسے 'وحی' قرار دے کر ہاتھوں ہاتھ لے لیاجاتا ہے اورمسائلِ حیات کے حل کے لئے پوری مقلدانہ سعادت مندی کے ساتھ اُن ہی نسخوں کو آزماڈالاجاتا ہے جو دراصل یہاں کے لئے بنائے ہی نہیں گئے تھے۔

اہل مغرب دورِ حاضر کی غالب تہذیب کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے اپنے مجوزہ نسخوں کو مجتہدانہ بصیرت سے برتتے ہیں اور حسب ِضرورت ان میں ترمیم بھی کرلیتے ہیں ، لیکن یہاں کے مقلد تو ایسے کور چشم واقع ہوئے ہیں کہ اپنے وطن، ماحول، حالات، الغرض ہر چیز سے آنکھیں بند کرتے ہوئے مریض کی آخری ہچکی تک وہی نسخہ استعمال کرتے رہیں گے، اِلا یہ کہ خود وہیں سے ترمیم کی کوئی اطلاع آجائے۔ لیکن بعض ضدی قسم کے عطائیوں کا تو یہ حال ہے کہ جس غلط بات کو ایک مرتبہ تقلید ِیورپ میں اختیار کرلیا ہو، اُسے پھر دانتوں سے پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بعدازاں اب اگر وہاں کے مفکرین کی تحقیقات مںج بھی وہ غلط قرار دی گئی ہو تو بھی یہاں کے مقلدین اس کی تردید و تکذیب پرآمادہ نہیں ہوتے۔ فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا من قبل !

اب یہاں دیکھئے، مفکرینِ مغرب مثلاً سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ وغیرہ اپنی جدید تحقیقات کے باعث سابقہ نظریہ کو ترک کرکے اس تحقیق و انکشاف پرمتفق ہو رہے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کاآغاز کفر و شرک کی ظلمتوں اور جہالت و بے خبری کی تاریکیوں میں نہیں کیا بلکہ عقیدۂ توحید اورعلم وحی کی روشنی میں کیاتھا، لیکن ہمارے ہاں تجدد پسند دانشورابھی تک مغرب کی پرانی تحقیق پرجمے ہوئے ہیں جو صریحاً خلافِ قرآن ہے۔

دوسری مثال: انکارِ نبوت ِ آدم:
ملت ِاسلامیہ کاچودہ صدیوں پرمحیط لٹریچر اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہردور کے مفکرین و مجتہدین،مفسرین و محدثین، علماء و فقہا، مؤرخین و اصحابِ سیر نے حضرت آدم علیہ السلام کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ پیغمبر اور نبی تسلیم کیا ہے، لیکن ہمارے'مفکر ِقرآن' اُنہیں نبی تسلیم نہیں کرتے اور اس کے لئے بایں الفاظ دلیل پیش کرتے ہیں :
''سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قصۂ آدم میں کہا گیا ہے کہ خدانے آدم کو بالتصریح ایک حکم دیا اور آدم نے اس سے معصیت برتی، اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا... حضرات انبیا تو رہے ایک طرف، جیسا کہ بتایا جاچکا ہے،ابلیس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ {إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنٌ...﴿٤٢﴾...سورة الحجر} ''یقینا میرے بندوں پرتجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔'' 34

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں :
اوّلاً یہ کہ ... آدم علیہ السلام کی یہ معصیت تھی کس قسم کی؟ جس کے متعلق خود پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ ''اس قسم کی معصیت، کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتی۔''

حقیقت یہ ہے کہ آدم علیہ السلام، نہ تو معصیت کوش تھے اور نہ ہی نافرمانی ربّ کا وہ کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ بات صرف یہ ہوئی کہ بقول پرویز صاحب:
''{وَقَاسَمَهُمَآ إِنِّى لَكُمَا لَمِنَ ٱلنَّـٰصِحِينَ ...﴿٢١﴾...سورة الاعراف}''شیطان نے قسمیں کھا کر کہا: جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ، اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں ۔ میں یہ سب کچھ تمہاری خیرخواہی کے لئے کررہا ہوں ۔''35

اور حضرت آدم علیہ السلام جن کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی فرد اللہ کے نام کی قسم کھاکر کسی کودھوکہ دے سکتاہے، اپنی فطری سادگی کی بنا پراس شیطانی چکمہ کا شکار ہوگئے، پھر یہ دھوکہ دہی کی واردات بھی پہلی ہی تھی کہ اس سے قبل اُنہیں کبھی کسی فریب دہی اور دھوکہ بازی کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہواتھا، بلکہ اس وقت تک آدم علیہ السلام اپنی فطرت کی سادگی اور پاکیزگی پرقائم تھے کہ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسے رذائل سے ان کاتعارف ہی نہ ہوا تھا۔ اس لئے وہ شیطان کے فریب میں آگئے پھر کیا حضرات انبیا، عالم الغیب ہوتے ہیں کہ کسی بدباطن کے دھوکہ میں نہ آئیں ؟ کیا یہ واقعی اس قسم کی معصیت تھی جس سے انبیاے کرام بالاتر ہوا کرتے ہیں ؟ آخر وہ کسوٹی اور معیار تو بیان کیا جاتا جس کی رو سے انبیا کی معصیت اور غیر انبیا کی معصیت میں فرق کیا جاسکے۔

لغزشِ یونس او رپرویز
پھر از روے قرآن حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ سرزد ہوا ،کیا وہ آدم علیہ السلام کی لغزش سے بڑی لغزش نہ تھی، حالانکہ نبوتِ یونس ؑکے خود پرویز صاحب بھی قائل ہیں ۔

حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق خودپرویز صاحب لکھتے ہیں :
''... وہ قوم کی مخالفت سے سخت گھبرا گیا اور پیشتر اس کے کہ اسے خدا کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم ملتا، وہ اپنے فرائض منصبی کو چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگیا...''36

پھرایک اور مقام پر حضرت یونس علیہ السلام کی لغزش کی وضاحت بایں الفاظ کرتے ہیں :
''خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم، اُس وقت ملاکرتاہے جب اس قوم کا حق و صداقت کو قبول کرنے کا اِمکان باقی نہ رہے۔ اس سے پہلے وہاں سے چلے جانا گویا اپنے فرائضِ منصبی کو چھوڑ دینا ہے۔ یہی یونس علیہ السلام کی اجتہادی غلطی تھی۔''37

اب غور فرمائیے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے جوکچھ سرزد ہوا وہ ان کی اپنی طرف سے بغیر کسی 'ناصح'کی پھسلاہٹ کے واقع ہوا، اور اُنہوں نے بطن ماہی میں أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ کہہ کر اعترافِ لغزش بھی کیا اورمعافی بھی مانگی۔

دوسری طرف، حضرت آدم علیہ السلام سے جو کچھ واقع ہوا، وہ ان کی آزادانہ مرضی کانتیجہ نہ تھا۔ ابلیس کے اس فریب کانتیجہ تھا جو اس نے ناصح و شفیق کا روپ دھارکر خدا کی قسمیں کھا کر دیا تھا۔اگر ابلیس اُنہیں یہ چکمہ نہ دیتا تو ان سے یہ امر سرزد ہی نہ ہوتا۔بخلاف ازیں حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اس میں ابلیس یا کسی اور 'شفیق ناصح' کا عمل دخل تھا ہی نہیں ،لیکن ہمارے 'مفکر ِقرآن' حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا'' یعنی کسی کی قسموں پراعتبار کرکے اسے شفیق ناصح جان کر اگر کسی سے لغزش ہوجائے تو یہ تو نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا، لیکن اگر کسی نبی سے ایسے حکم خدا کی نافرمانی ہوجائے جو سب انبیا کے لئے ہجرت کے لئے ایک مستقل ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے تو ایسی نافرمانی ''نبی کا شیوہ ہوسکتی ہے۔'' قربان جائیے'مفکر قرآن' کی اس 'قرانی فہم و بصیرت 'کے!

ثانیاً یہ کہ ... پرویز صاحب کا یہ استدلال کہ ... '' شیطان نے آدم پر غلبہ پالیاجبکہ نبی تو رہا ایک طرف وہ اللہ کے مخلص بندوں پر بھی حاوی نہیں ہوسکتا۔'' از حد لغو استدلال ہے، جو 'مفکر ِقرآن' کے غلبۂ شیطان کی حقیقت سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

غلبۂ شیطان یا مسِ شیطان؟
غلبۂ شیطان کا اصل مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے جملہ اُمور میں نہیں تو اکثر و بیشتر معاملات میں شیطان کا پیرو بن جائے اور شیطان کو اس پر اس قدر قابوحاصل ہوجائے کہ وہ راہِ راست پر نہ رہنے پائے، رہا کسی ایک آدھ معاملے میں ، شیطانی وسوسہ یاابلیسی نسیان کا شکار ہوجانا، تو اسے غلبۂ شیطان سے تعبیر کرناسوئے تعبیر ہے۔ اسے بیش از بیش'مسّ شیطان' کہا جاسکتا ہے، چنانچہ قرآن مجید خود 'غلبۂ شیطان' اور 'مسِ شیطان' میں فرق کرتاہے۔ وہ اوّل الذکر کے متعلق یہ کہتا ہے کہ إنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ (15؍42) ''یقینامیرے بندوں پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔'' اور 'مس شیطان' کے بارے میں خود قرآنِ کریم ہی میں یہ مذکور ہے کہ اہل تقویٰ حضرات بھی بعض اوقات اس سے محفوظ نہیں رہ پاتے، تاہم خدا کی یاد جب اُن کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو ان کی خفیہ یا مدھم بصیرت میں بیداری یا جلا پیدا ہوجاتی ہے اور وہ 'مس شیطان' کے اثر سے چھٹکارا پالیتے ہیں ۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں یہ فرماتا ہے:

إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَـٰٓئِفٌ مِّنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ تَذَكَّرُ‌وا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُ‌ونَ ...﴿٢٠١﴾...سورة الاعراف
''بے شک جو لوگ تقوی شعار ہیں انہیں جب شیطان کی طرف سے وسوسہ پہنچتا ہے اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کو آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔

جو لوگ 'غلبۂ شیطان' اور 'مسِ شیطان' میں فرق و امتیاز کی تفصیلی وضاحت چاہتے ہیں ، اُنہیں چاہئے کہ وہ میری کتاب'تفسیر مطالب ُالفرقان کا علمی اور تحقیقی جائزہ' کا مطالعہ فرمائیں ۔اس میں اثباتِ نبوتِ آدم کا تفصیلی تذکرہ بھی موجود ہے۔

انکارِ نبوت آدم علیہ السلام کی اصل وجہ؟
حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت کے انکار کی اصل وجہ دراصل وہ فلسفہ تاریخ ہے جسے مغرب نے پیش کیاہے اور پرویز صاحب اُسے دل و جان قبول کرچکے ہیں ۔ نبوتِ آدم کا اقرار و اعتراف اس فلسفۂ تاریخ سے میل نہیں کھاتا جبکہ اسلامی فلسفۂ تاریخ کی رو سے آدم ؑ کی نبوت کوقبول کئے بغیر چارۂ کارنہیں ،کیونکہ روئے زمین پر اوّلین انسان کے ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلۂ رشدو ہدایت کا اِجرا و آغاز ، رحمت ِخداوندی کا ویسا ہی ناگزیر تقاضا ہے جیسا انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنا۔

قرآن کریم کی رُو سے تخلیقِ بشر (آدم ؑ) کا مقصد ہی زمین میں خلافت کے فرائض کو انجام دینا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان اللہ کی مرضی اور ہدایت پر چلے۔اگر وہ خدائی رہنمائی سے انحراف کرتاہے تو نہ صرف یہ کہ خلافت کی بجائے بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے بلکہ وہ مستحق سزا بھی ٹھہرتا ہے اور یہ سزا دنیا میں ضیقِ قلب اور آخرت میں دخولِ جہنم کی صورت میں ہوگی، لیکن اگر وہ اپنے فرائض مرضاتِ الٰہیہ کے تابع انجام دیتا ہے تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی انعامِ خداوندی کا مستحق قرار پاتاہے۔ آدمؑ کو زمین پر اُتارتے وقت یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دی تھیں :

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣ وَمَنْ أَعْرَ‌ضَ عَن ذِكْرِ‌ى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُ‌هُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾...سورہ طہ
''اب اگر میری طرف سے تمہیں ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلاہوگا اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، تو اس کے لئے دنیامیں بھی تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز بھی ہم اسے اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔''

چنانچہ آدمؑ جو ابوالبشر اور اولیٰ الانسان تھے، اُسے امورِ خلافت کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نورِ ہدایت سے نوازا اور مقامِ نبوت پرسرفراز فرمایا۔اس طرح انسانی معاشرہ کی ابتدا کفر و شرک او رالحاد و دہریت کی تاریکیوں میں ہونے کی بجائے توحید و رسالت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ہوئی۔ لیکن 'مفکر ِقرآن' کے قلب و ذہن اور حواس و مشاعر پر جو فلسفہ اپنی مضبوط گرفت قائم کرچکا ہے، اس کی رُو سے انسانی معاشرہ کی ابتدا، کفروشرک یاالحاد و دہریت سے ہوئی تھی او رپھررفتہ رفتہ یہ معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا توحید تک پہنچا۔ اس طرح بہت بعد میں کہیں جاکر سلسلۂ وحی و رسالت آغاز پذیر ہوا۔ ابتدائی انسانی معاشرہ کے متعلق پرویز صاحب فرماتے ہیں :
''قوموں کے عروج و زوال میں اس بات کو بڑا دخل ہے کہ خارجی کائنات اورOuter Space کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے؟ انسان کے شعور نے جب پہلے پہلے آنکھ کھولی تو فضا اور ماحول اس کے خلاف تھا، سر پرآگ برسانے والا شعلہ، آندھیاں ، جھکڑ، بجلی کی کڑک، بادلوں کی گرج، بپھرے ہوئے دریا اور ان کے درمیان نہتا اور تنہا انسان، نہتا یوں کہ فکرودانش میں پختگی پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ فطرت کی طاقتوں کے سامنے جھکنے لگا، انسان کا یہ ابتدائی مذہب (خود ساختہ) خود کا پیدا کردہ تھا۔ اس وقت انسان حوادث کے اسباب و علل سے بھی واقف نہ تھا۔ فطرت کے مظاہر ہرجگہ خدا کی شکل اختیارکرلیتے تھے۔''38

علم الانسان کے اس فلسفہ کی رو سے جب انسانی معاشرہ کا آغاز مظاہر فطرت سے مرعوبیت کی بنا پر اُنہیں خدا ماننے کے صورت میں ہوا، تو ظاہر ہے کہ اس فلسفہ کی رو سے ابتدائی انسانی زندگی میں نبوت و رسالت اور خدائی رشد و ہدایت کو ماننے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی جسے قرآن پیدائشِ آدمؑ کے ساتھ ہی آغاز پذیرقرار دیتا ہے اور ہمارے 'مفکر ِقرآن' چونکہ مغربی فلسفہ و تحقیق سے بُری طرح مرعوب و مغلوب ہیں او راہل مغرب کی فکری غلامی اور ذہنی اسیری میں مبتلا ہیں لہٰذا وہ کسی ایسی صورت حال کے قائل نہیں ہوسکتے جس میں انسانی معاشرہ کی ابتدا نور وحی اور ضیاے ہدایت میں ہوناقرار پائے، کیونکہ وحی و ہدایت کا وجود نبوت و رسالت کے وجود کو مستلزم ہے۔ 'مفکر ِقرآن'کی طرف سے انکارِنبوتِ آدم کی تہہ میں یہی مغربی فلسفہ کارفرما ہے۔

وہ قرآن کے حقائق اور جدید تحقیقات میں کہیں تضاد و تصادم پائیں تو ان کارویہ یہ نہیں ہوتاکہ قرآنی حقائق کو حتمی، قطعی اور یقینی قرار دے کر 'جدیدتحقیقات' کو یہ کہہ کر ردّ کر دیں کہ ''یہ تحقیقات ابھی خام ہیں ، ممکن ہے مستقبل کے علمی انکشافات اُنہیں ردّ کرکے وہ چیز پیش کردیں جومطابق وحی ہو۔'' بلکہ وہ یہ روش اختیار کیاکرتے ہیں کہ ''قرآن کے اس مقام کی تشریح ممکن ہے کہ آئندہ کے علمی انکشافات اور آثارِ قدیمہ کے حقائق سے ہوجائے۔'' اس طرح وہ ہمیشہ قرآن پر ان تحقیقات کو شرفِ تقدم بخشا کرتے تھے جواہل مغرب نے پیش کی ہوں ، انکار نبوت آدم میں بھی یہاں یہی لم کارفرما ہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ'مفکر ِقرآن' کا راسخ ایمان قرآنِ کریم پرتھا؟ ...یا تحقیقات مغرب پر؟''


حوالہ جات
1. طلوعِ اسلام: جون1956ء ص6
2. طلوعِ اسلام: مئی 1953ء، ص47
3. طلوع اسلام: 5 فروری 1955ء، ص4
4. طلوع اسلام: جون 1953ء ، ص6
5. طلوعِ اسلام: اگست 1973ء، ص36
6. طلوعِ اسلام: نومبر1953ء، ص13
7. طلوعِ اسلام: نومبر1954ء، ص11
8. طلوعِ اسلام: دسمبر1964ء، ص87
9. طلوعِ اسلام: جون 1966ء،ص78
10. طلوعِ اسلام: جولائی 1969ء، ص73
11. طلوعِ اسلام: دسمبر1967ء، ص52
12. طلوع اسلام، نومبر1969ء ، ص68
13. طلوع اسلام: اکتوبر1971ء، ص51
14. طلوعِ اسلام: جنوری 1972ء، ص45
15. طلوعِ اسلام: مئی1952ء،ص48
16. طلوعِ اسلام: نومبر1953ء، ص37
17. طلوعِ اسلام، فروری 1954ء، ص25
18. طلوعِ اسلام: مارچ 1959ء، ص9
19. طلوعِ اسلام: ستمبر1959ء، ص6
20. طلوعِ اسلام: جنوری 1960ء، ص58
21. طلوعِ اسلام: جون 1967ء ص62
22. طلوعِ اسلام، فروری 1968ء، ص60
23. شاہکارِ رسالت، گذرگاہ خیال: ص39
24. طلوعِ اسلام: جنوری 1959ء، ص31
25. سلیم کے نام': ج1؍ ص51
26. اسلام کیا ہے؟' ص 194
27. فلسفے کے بنیادی مسائل: ص35
28. طلوعِ اسلام:جنوری 1973ء، ص27
29. طلوعِ اسلام: جولائی 1978ء، ص6
30. تدبر قرآن، جلد4 ص35
31. ابن جریر، عن ابن عباس
32. تفسیر کبیر
33. تفسیرماجدی: صفحہ 83، حاشیہ 772
34. تفسیر مطالب الفرقان: ج2؍ ص63
35. مفہوم القرآن: آیت 7؍21
36. برقِ طور: ص289
37. برقِ طور: ص289،290
38. طلوعِ اسلام: اکتوبر1959ء ص23


i.  خود پرویز صاحب جس 'لذتِ کردار' کے مالک تھے، اُسے جاننے کے لئے میری کتاب ''جناب غلام احمد پرویز؛اپنے الفاظ کے آئینے میں'' کامطالعہ فرمائیے اور اُن کے 'افکارِ عمیق' سے واقفیت پانے کے لئے میری جملہ کتب اور بالخصوص 'تفسیر مطالب الفرقان کاعلمی اور تحقیقی جائزہ ' کامطالعہ فرمائیے۔


 غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت( 2/آخری)